Times Of Iqra -Urdu Daily

Times Of Iqra -Urdu Daily TIMES OF IQRA-Urdu Daily.... Chief Editor MOHD RAZI UDDIN...

*خاوند سے محبت کرنے والی اور زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت سے نکاح کی ترغیب*        *درس حدیث*انوار الحق قاسمی  (ترجمان ...
03/06/2024

*خاوند سے محبت کرنے والی اور زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت سے نکاح کی ترغیب*
*درس حدیث*
انوار الحق قاسمی
(ترجمان جمعیت علماء روتہٹ نیپال ورکن سماج وادی مسلم سنگھ نیپال)
مردوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ کے نبی-صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا کہ :'تم ایسی سے عورت سے نکاح کرو!جو اپنے شوہر سے بہت زیادہ محبت کرنے کے ساتھ بچے بھی زیادہ جننے والی ہو'۔ یعنی نکاح کرتے وقت مرد حضرات کو چاہیے کہ مستقبل میں ہونے والی اپنی رفیقہ حیات میں دو صفات بطور خاص دیکھیں اور پھر انھیں ہی وجہ ترجیح قرار دیں!:(1)محبت کرنے والی ہو(2)بچے زیادہ پیدا کرنے والی ہو۔ ان دونوں صفات میں دو بڑی حکمتیں ہیں۔ پہلی صفت' محبت کرنے والی ہو'اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر بیوی محبت کرنے والی نہیں ہوگی،تو پھر نکاح کا مقصد 'سکون'ہی ختم ہو جائے گا؛کیوں کہ کوئی بھی عورت اپنے شوہر کے لیے باعثِ سکون اسی وقت ثابت ہوسکتی ہے،جب کہ وہ اپنے شوہر سے محبت بھی کرنے والی ہو،اس کے بغیر دور دور تک بھی ' سکون ' ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔ دوسری صفت 'بچے زیادہ جننے والی ہو' اس میں حکمت یہ ہے کہ قیامت کے دن آپ -صلی اللہ وسلم- دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت و زیادتی پر فخر کریں گے،اور یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتاہے،جب عورت بچے زیادہ پیدا کرنے والی ہوگی۔
اب ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ نکاح سے پہلے یہ کیسے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کس عورت میں یہ دونوں صفتیں موجود ہیں ؟تو اس کا سیدھا ساجواب یہ کہ کسی خاندان و قبیلہ کا عام معائنہ،کسی عورت کے لیے ان صفتوں کا معیار بن سکتاہے۔مثال کہ طور پر جس لڑکی سے شادی کا ارادہ ہو،اس کی ماں،نانی اور پرنانی وغیرها میں ان صفتوں کو دیکھیں ! اگر ان میں یہ صفتیں موجود ہیں،تو پھر اس میں بھی مستقبل میں ان کے وجود کا فیصلہ کردیا جائے گا۔ کیوں کہ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ جس کی ماں ،نانی کے بچے زیادہ ہوتے ہیں،مستقبل میں اس کے بھی بچے زیادہ ہی ہوتے ہیں۔
حضرت معقل ابن یسار کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کا ارشاد ہے:' تم ایسی عورت سے نکاح کرو،جو اپنے خاوند سے بہت زیادہ محبت کرنے والی ہو اور بچے زیادہ جننے والی ہو،کیوں کہ دوسری امتوں کے مقابلے میں،میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا'۔(رواه ابوداؤد والنسائي)
واضح رہے کہ شوہر سے زیادہ محبت کرنے والی اور بچے زیادہ جننے والی عورت سے نکاح کرنا مستحب ہے۔
حدیثِ پاک کی عبارت: عن معقل بن يسافر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تَزَوَّجُوا الوَدُودَ الوَلودَ ، فإني مُكَاثِرٌ بكم الأمم.(رواه ابوداؤد والنسائي)

*ایورسٹ سوشل فاؤنڈیشن کاٹھمنڈو نیپال کے زیر اہتمام جمعیت علماء اہل حدیث نیپال کی مسجد میں' یک روزہ حج تربیتی پروگرام' کا...
20/05/2024

*ایورسٹ سوشل فاؤنڈیشن کاٹھمنڈو نیپال کے زیر اہتمام جمعیت علماء اہل حدیث نیپال کی مسجد میں' یک روزہ حج تربیتی پروگرام' کا انعقاد*
(کاٹھمانڈو نیپال/انوار الحق قاسمی/20/مئی2024ء)
مولانا محمد وسیم ریاضی کی اطلاع کے مطابق گزشتہ 17 /مئی 2024ء بروز جمعہ بوقت شام 7/ بجے سیتا پائلا کی جمعیت علمائے اہل حدیث کی جامع مسجد میں 'ایک روزہ حج تربیتی کیمپ'کا انعقاد عمل میں آیا۔ جس میں ملک کے متعدد اضلاع مثلاً: نیپال گنج ،بیر گنج ، کپل وستو ، روپندہی ، نول پراسی ، دانگ اور بانکے سے تقریباً 60/ سے متجاوز عازمین حج کامبارک قافلہ تربیتی پروگرام میں شامل ہوا۔
حسب روایات حافظ شمشیر داؤد مدنی کی تلاوت قرآن مجید سے پروگرام کاآغاز ہوا۔ مولانا مظہر مصطفی نے اپنی سحر انگیز آواز میں حج اور سفر حج کے متعلق ایک عمدہ نظم پیش کیا،جس سے سامعین میں فوری نشاط پیدا ہوگیا۔مولانا فیصل عزیز عمری مدنی نے حج اور سفر حج کی افادیت بتاتے ہوئے کہا:'' استطاعت کے ہوتے ہوئے ادائیگی حج میں تاخیر اہل ایمان کا خواصہ نہیں ہے''۔ موصوف نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید یہ کہا کہ :''اس اہم عبادت کی خصوصی تاکید احادیث نبویؐ میں وارد ہوئی ہے اور یہ اُن لوگوں کے لئے جن پر حج فرض ہوگیا ہے، لیکن جو حضرات دنیاوی اغراض یا سستی کی وجـہ سے بلاشرعی مجبوری کے، وقت پر حج ادا نہیں کرتےہیں، ان کے لیے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فریضۂ حج ادا کرنے میں جلدی کرو، کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ اسے کیا عذر پیش آجائے۔''(مسند احمد)
مولانا عبد الصبور ندوی نے حج کی اہمیت کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ:'' حج بیت اللہ کی بڑی اہمیت ہےاور متعدد فضائل احادیث نبویؐ میں وارد ہوئے ہیں :حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لانا۔ پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: حج مقبول۔" (بخاری ومسلم)
شیخ منظور احمد مدنی نے کہاکہ : " حج عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے لغوی معنی ” قصد” کرنا، “زیارت” کرنا یا ” ارادہ” کرنا ہے۔ ارادہ سے مراد سفر کرنے کا ارادہ ہے، جو حج کرنے کی غرض سے دنیا بھر کے ہر رنگ و نسل کے مسلمان اختیار کرتے ہیں۔ حج ۹ ہجری میں ہر ایک مسلمان مرد و عورت اور ہر بالغ پر فرض ہوا۔ حج اسلامی سال کے آخری مہینہ ذی الحجہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ ۸ ذی الحجہ کی صبح سے شروع ہوتا ہے اور مسلسل پانچ دن جاری رہتا ہے اور ۱۲ ذی الحجہ کی شام کو مکمل ہو جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں کا عظیم دینی اجتماع ہے۔ یہ ایک ایسی جامع عبادت ہے جو کئی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ یہ عبادات مناسکِ حج کہلاتی ہیں۔ دین اسلام میں حج ایک عالمگیر اور جامع عبادت ہے۔ حاجی سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ پہنچ کر اللہ تعالیٰ کے گھر بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں اور دوسرے متعدد مقدس مقامات پرحاضری دیتے ہیں اور فریضۂ حج ادا کرتے ہیں۔" آپ نے اس موضوع کو مستحکم اور مدلل کرنے کے لیے کئی مستند احادیث کا سہارا لیا، آپ نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا:" سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تمہارا معبود ہے اور محمّد ﷺ اللہ کے رسول ﷺ ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ (بخاری شریف)
اسلام نے ان خاص عبادتوں کو فرضِ عین قرار دیا اور انہیں ارکانِ دین یعنی” دین کے ستون” کہا ہے۔ جس طرح ایک عمارت چند ستونوں پر قائم ہوتی ہے اسی طرح اسلامی زندگی کی عمارت بھی ان ستونوں کر قائم ہے۔ گویا اسلام کے پانچ ارکان میں سے حج پانچواں رکن ہے۔ یہ ہر مسلمان کے لئے عمر میں صرف ایک مرتبہ ادا کرنا ضروری ہے اور وہ بھی صرف ان کے لیے جو سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ تک جانے کی طاقت رکھتے ہو۔ (صحیح مسلم) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
” اور لوگوں پر اللہ کا حق (فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی طاقت رکھے وہ اس کا حج کریں”۔ (آل عمران:۹۷)
بیت اللہ شریف عبادت کا مرکز:
آپ نے واضح طور پر حج پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا: " بیت اللہ شریف یعنی اللہ تعالیٰ کا گھر سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ میں واقع ہے، یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا قبلہ اور عبادت کا مرکز ہے۔ یہ اب سے ہزاروں برس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھوٹا سا گھر اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس عمل کو قبول فرمائے، ان کی اولاد میں سے فرماں بردار اُمت پیدا فرمائے، اور اس شہر کو امن و ثمرات کا شہر بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے خلوص اور محبت کی قدر فرمائی اور ان کی دعا قبول فرمائی کہ اس کو اپنا گھر قرار دیا اور فرمایا کہ جس کو ہماری عبادت کرنی ہو وہ اسی گھر کی طرف رخ کر کے عبادت کرے اور فرمایا ہر مسلمان زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ شریف کی زیارت کے لیے آئے اور اسی محبت کے ساتھ ہمارے اس گھر کا طواف کرے جس کے ساتھ ہمارا پیارا بندہ حضرت ابراہیم علیہ السلام طواف کرتا تھا۔
موصوف محترم نے حاجیوں کو ترغیب دلاتے ہوئے کہا: "
دینِ اسلام میں حج کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث میں حج ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: اور لوگوں میں سے جو لوگ اس (بیت اللہ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔ اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ دُنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے پروا ہے۔‘‘ (سورۂ آل عمران)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: ’’ اے لوگو! تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج ادا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم)
آپ نے استطاعت کے باوجود حج نا کرنے والوں کے متعلق اللہ رب العالمین کی وعید بتاتے ہوئے فریضہ حج کی ادائیگی میں غفلت پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے جزر و توبیخ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا: " قرآن و حدیث میں جہاں فریضۂ حج ادا کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے وہیں استطاعت کے باوجود فریضۂ حج ادا نہ کرنے والوں کے لئے سخت وعید ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جو شخص استطاعت کے باوجود حج ادا نہیں کرتا تو اُس کے لئے فرق نہیں اس بات میں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی، سب برابر ہے”۔ (ترمذی)
اخیر میں تمام عازمین حج کو جدید طرز کے چھوٹے سفری بیگ اور احرامات سے نوازا گیا ، ان کی سلامتی کے لیے دعائیں کی گئیں اور خوشی خوشی رخصت کردیا گیا، واضح رہے کہ اس مکمل پروگرام کی نظامت کی ذمّہ داری ڈاکٹر محمد اورنگزیب تیمی ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال انجام دیتے رہے اور بحسن و خوبی اسے اختتام تک پہنچایا۔

09/05/2024
09/05/2024
مدرسہ تجوید القرآن خیروا مشرقی چمپارن کے اربابِ اختیار کا طلبہ کے لیے  16/سال تک کی عمر کا قید لگانا، انتہائی افسوس ناک ...
19/04/2024

مدرسہ تجوید القرآن خیروا مشرقی چمپارن کے اربابِ اختیار کا طلبہ کے لیے 16/سال تک کی عمر کا قید لگانا، انتہائی افسوس ناک عمل: مولانا انوار الحق قاسمی
(کاٹھمانڈو نیپال/18/اپریل 2024ء)
سماج وادی مسلم سنگھ نیپال کے رکن مولانا انوارالحق قاسمی نے" مدرسہ تجوید القرآن خیروا ضلع مشرقی چمپارن" کے حالیہ حیرت انگیز اعلان "داخلے کے لیے درخواستیں 16/سال کی عمر تک کے طلبہ سے قبول کی جائیں گی"پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ: یقینا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس روئے زمین پر سب سے عظیم الشان کتاب" قرآن کریم"ہے ۔اور اصول یہ ہے کہ جو چیز، جس قدر عظیم ہوتی ہے،اس کا حصول بھی اسی قدر عظیم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے:تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے،جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ تو قرآن کی عظمت اور حدیث کا تقاضا یہ ہےکہ قرآن کی تعلیم عام ہو،چاہے جس عمر میں بھی مسلمان 'قرآن کریم تعلیم' حاصل کرنا چاہے ،بآسانی کرلے۔ جس کے لیے عمر کی کوئی قید اور تحدید نہیں ہونی چاہیےتھی ؛مگر افسوس کہ 'مدرسہ تجوید القرآن خیروا' کے اربابِ اختیار نے 16/سال کی عمر کی قید لگاکر مسلمانوں میں' قرآن کریم' کی تعلیم کے تعلق سے ایک انتہائی مایوس کن پیغام دیا ہے۔
مولانا نے یہ بھی کہا کہ :جب اللہ اور ان کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ' قرآن مجید' کی تعلیم کے حوالے سے عمر کی کوئی قید نہیں ہے،تو پھر 'مدرسہ تجوید القرآن خیروا'کے اربابِ حل وعقد نے کون ہوتے ہیں عمر کی قید لگانے والے۔ یقینا انھوں نے عمر کی قید لگاکر مسلمانوں کو سخت اذیت پہنچایا ہے۔
مولانا نے مزید یہ بھی کہا کہ :مدرسہ تجوید القرآن خیروا کے ذمے داران کو چاہیے کہ وہ جلد اپنے اس حیرت انگیز فیصلے پر نظر ثانی کرے،اسی میں بھلائی اور بہتری ہے۔

بہت سارے سوال ہوں گے وہاں یہ بھی سوال ہوگا کہ تم نے علم حاصل کیا تو اس کا استعمال کہاں کیا اور کیسے کیا آخر میں دعا ہے ک...
10/03/2024

بہت سارے سوال ہوں گے وہاں یہ بھی سوال ہوگا کہ تم نے علم حاصل کیا تو اس کا استعمال کہاں کیا اور کیسے کیا آخر میں دعا ہے کہ تمام فارغ التحصیل طلباء وطالبات کے علم کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتیں شامل حال رہیں آمین یا رب العالمین -
[email protected]
javedbharti.blogspot.com
++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی سابق ( سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شفیق الرحمن برق کا منگل کو طویل علالت کے بعد 94 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔  پارلیمنٹ ک...
27/02/2024

سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شفیق الرحمن برق کا منگل کو طویل علالت کے بعد 94 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ پارلیمنٹ کے سب سے معمر رکن اسمبلی نے مرادآباد کے ایک نجی اسپتال میں اپنی آخری سانس لی۔

ایکس (سابقہ ​​ٹویٹر) پر ایک پوسٹ میں، سماج وادی پارٹی نے لکھا، "سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر اور کئی بار ایم پی رہ چکے جناب شفیق الرحمن برق صاحب کا انتقال انتہائی افسوسناک ہے۔ اس کی روح کو سکون ملے۔"

"سوگوار خاندان کے افراد کو اس بے پناہ دکھ کو برداشت کرنے کی طاقت ملے۔ دلی خراج عقیدت!" اس نے مزید کہا۔

ایس پی سربراہ اکھلیش یادو نے مائیکروبلاگنگ سائٹ پر ایک پوسٹ میں برق کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر اور کئی بار ایم پی رہ چکے شفیق الرحمن برق صاحب کا انتقال انتہائی افسوسناک ہے۔

"اس کی روح کو سکون ملے۔ سوگوار لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی طاقت ملے۔ دلی خراج عقیدت!" اس نے مزید کہا۔

برق، جو چار بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں، 2019 میں پانچویں بار سنبھل سے ایم پی منتخب ہوئے تھے۔

(

*مرکز تحفظ اسلام ہند کا دو روزہ سالانہ مشاورتی اجلاس اختتام پذیر!**سرپرستان مرکز کی صدارت،ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر...
22/02/2024

*مرکز تحفظ اسلام ہند کا دو روزہ سالانہ مشاورتی اجلاس اختتام پذیر!*

*سرپرستان مرکز کی صدارت،ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر کئی اہم تجاویز منظور!*

بنگلور، 20؍ فروری (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کا دو روزہ ”سالانہ مشاورتی اجلاس“ 17، 18؍ فروری 2024ء بروز سنیچر، اتوار جامعہ تعلیم القرآن بنگلور میں حضرات سرپرستان مرکز کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ جس میں ملک بھر سے مرکز تحفظ اسلام ہند کے تقریباً اراکین نے شرکت فرمائی۔ اس سالانہ مشاورتی اجلاس میں گزشتہ سال کے کاموں کا جائزہ لیا گیا، مالیات سمیت مختلف شعبہ جات کی رپورٹ پیش کی گئی، آئندہ سال کا لائحہ عمل تیار کیا گیا، نئے عہدیداران اور ارکان کا انتخاب عمل میں آیا اور ملک کے موجودہ حالات میں مرکز کی ذمہ داریوں پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ سرپرست مرکز حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے آئندہ ٹرم کیلئے محمد فرقان کو ڈائریکٹر، حافظ محمد حیات خان کو آرگنائزر اور قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کو خازن منتخب فرمایا، جس کی تمام ارکان نے تائید فرمائی۔ اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرپرست مرکز حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند گزشتہ کئی سالوں سے دینی، مذہبی خدمات اور ملک میں بسنے والے مسلمانوں کی دینی و مذہبی رہبری کا فریضہ انجام دیتے آیا ہے۔ مختلف مواقع پر اور مختلف حساس موضوعات پر ملک کے اکابرین کا پیغام امت تک پہنچانا اسکی خدمات میں شامل ہے۔ مرکز اپنے اکابر علماء کی سرپرستی میں تدریجاً اپنے کاموں کو بڑھا رہا ہے اور اسکے دائرہ کار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ مرکز کا پیغام درحقیقت اکابر کا پیغام ہے، لہٰذا اس ادارے کا ہر ایک مسلمان ساتھ دے، اسے اپنا ادارہ سمجھیں اور اس میں شامل ہوکر اپنے فارغ اوقات میں دین کی خدمات انجام دیں۔

https://markaztahaffuzeislamhind.blogspot.com/2024/02/blog-post.html

مرکز تحفظ اسلام ہند کے سالانہ مشاورتی اجلاس کی پہلی نشست سرپرست مرکز حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ کی زیر صدارت بعد نماز مغرب منعقد ہوئی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے فرمایا کہ دینی کام کو صرف اور صرف رضائے الٰہی کیلئے کرنا چاہیے، اجتماعی کاموں میں آپسی اتحاد کا ہونا بہت ضروری ہے، موجودہ حالات میں ہمیں تحفظ دین و ایمان کیلئے اور ایمان سوز فتنوں کے رد و تعاقب کیلئے میدان میں آنے کی اشد ضرورت ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اب تک کی خدمات قابل مبارکباد ہے، امید ہیکہ آئندہ بھی اس کی کوششوں فرماتے رہیں گے۔

اجلاس کی دوسری نشست سرپرست مرکز حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب مدظلہ کی زیر صدارت بعد نماز عشاء منعقد ہوئی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند ایک طرف تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے رہی ہے اور دوسری طرف دین پر اٹھنے والے فتنے اور طاقتوں کا مقابلہ کررہی ہے۔ اجتماعی کاموں سے امت کو بہت فائدہ پہنچتا ہے، اسلامی عقائد کی حفاظت اور اسکے خلاف اٹھنے والے فتنوں کا تعاقب بہت اونچا کام ہے، اسکو جاری رکھا جانا چاہیے۔

سالانہ مشاورتی اجلاس کی تیسری و آخری نشست سرپرست مرکز حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ کی زیر صدارت بعد نماز فجر منعقد ہوئی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے فرمایا کہ سخت حالات اور آزمائشوں میں مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہنا اور صرف رضائے الٰہی کیلئے کام کرتے رہنا کامیابی کی علامت ہے۔ کاموں کو مزید مستحکم کرنا ہے تو آپسی اتحاد کو برقرار رکھنا ہے۔ محاسبہ کی یہ نشست بہت مفید اور ضروری ہے، تمام ساتھیوں کو بلند حوصلہ اور مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے، اکابرین کے اعتماد کی حفاظت کرنی چاہیے، مرکز تحفظ اسلام ہند نے اب تک جو خدمات وہ قابل مبارکباد ہے۔

قابل ذکر ہیکہ سالانہ مشاورتی اجلاس کی کارروائی مجلس العمل کی نگرانی میں مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے چلائی، حافظ محمد حیات خان آرگنائزر، قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی خازن، حافظ محمد شعیب اللہ خان رکن کی تلاوت اور قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے نشستوں کا آغاز ہوا۔ اس سالانہ مشاورتی اجلاس میں شعبۂ ختم نبوت، شعبۂ ہیٹ گرام، شعبۂ رابطہ صحافت اسلامی کا قیام عمل میں آیا، جس کے کنوینر مفتی ذیشان حسن قاسمی، عمیر الدین اور محمد فرقان منتخب ہوئے۔ نیز شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس اور شعبۂ نشر و اشاعت کو مضبوط کرنے کی ترتیب بنائی گئی۔ نیز گزشتہ سال کے منظور شدہ تجاویز کے بقیہ کاموں کو آئندہ ٹرم میں مکمل کرنے کا عزم کیا گیا، علاوہ ازیں مختلف عنوانات پر کانفرنس اور اصلاحی مجالس کا انعقاد، ایمان سوز فتنوں خاص کر فتنۂ گوہر شاہیت کے رد و تعاقب کیلئے مہم، نئے ورکشاپ کا انعقاد، اسکول و کالج کے طلبہ و طالبات اور خواتین کیلئے تربیتی نشستیں منعقد کرنے کی تجویز منظور ہوئی۔ اس موقع پر ارکان تاسیسی کیلئے قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، مولانا محمد نظام الدین مظاہری، عمیر الدین کا انتخاب عمل میں آیا، قابل ذکر ہیکہ ڈائریکٹر اور آرگنائزر پہلے سے ہی تاسیسی رکن ہیں۔ علاوہ ازیں مولانا اسرار احمد قاسمی بنگلور، مفتی مختار حسن قاسمی رام نگرم، مفتی اسعد قاسمی بستوی، مولانا مصعب عادل آلہ آبادی، مولانا عبد الاحد بستوی، مفتی عمر قاسمی بنگلور، مولانا حارث ندوی بھٹکل، محمد فرحان بنگلور، محمد کیف بنگلورکو بطور رکن مرکز اور مولانا نوشاد احمد قاسمی بنگلور کو شعبہ ختم نبوت کے رکن کی حیثیت سے منتخب کیا گیا۔ اس موقع پر تین کتابوں کا اجراء بھی عمل میں آیا؛ ”بیت المقدس اور ہماری ذمہ داریاں“، ”فتنۂ گوہر شاہی دور حاضر کا بدترین فتنہ“، ”یونس گوہر شاہی دور حاضر کا بدترین کافر“ قابل ذکر ہیں۔ نیز سرپرست مرکزحضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب کی خدمت میں ادارے کی جانب سے سپاس نامہ پیش کیا گیا۔سالانہ مشاورتی اجلاس میں سرپرست مرکز، ڈائریکٹر، آرگنائزر، خازن، ارکان تاسیسی، ارکان شوریٰ، نو منتخب اراکین کے علاوہ دیگر ذمہ داران حافظ محمد آصف،حافظ محمد عمران، حافظ سمیع اللہ، مولانا محمد طاہر قاسمی، مولانا ابو الحسن فاروقی، حافظ نور اللہ، حافظ محمد شعیب اللہ خان، عمران خان، محمد شبلی، سید توصیف، محمد حفظ اللہ، عاصم پاشاہ، محمد لیاقت، محمد فیض،قاری یعقوب شمشیر، مولانا شیخ محمود الرحمن، ابراہیم اقبال، عباس حسین، دولت پاشاہ وغیرہ خصوصی طور پر موجود تھے۔ رکن مرکز مولانا اسرار احمد قاسمی کی دعا سے یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

"  تماشہ میرے آگے "         عین الحق امینی قاسمیمعہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائےکتاب کے باکمال مصنف آبروئے قلم مفتی محمد ثنا...
29/01/2024

" تماشہ میرے آگے "


عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے

کتاب کے باکمال مصنف آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہیں ، اپنے مثبت افکار،صالح خیالات اور قلمی معیار وکردار کی وجہ سے اکثر حلقوں میں احترام کے ساتھ جانے جاتے ہیں ، وہ صبر آزما ذہن رکھتے ہیں ،مزاج میں ترشی نہیں ہے،خندہ پیشانی سے انہونی کوبھی انگیز کرلیتے ہیں، ملول خاطر ہوناان کے یہاں نہیں ہے،ہاں!" غیر اہم" کو "اہم" قرار دیئے جانے کا احساس انہیں شاید دیر تک رہتا ہے اور یہ فطری امرہے،البتہ ایسے تمام سیاسی ،سماجی دشوار گزار مرحلوں کو وہ اک" تماشہ" سے زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتے ہیں،اسی لئے آئے دن کے سیاسی تماشوں سے وہ نہ خودمایوس ہوتے ہیں اور نہ عام لوگوں کےعزم و عمل میں ٹھہراؤ کو جائز سمجھتے ہیں۔ان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جہاں جہاں سیاسی بازیگر ،ملک وملت کو مسائل میں الجھا کر دشواریاں پیدا کرتے ہیں،دن کو رات ثابت کرنےیا غلط کو درست دکھانے کی بے وجہ کوشش کرتے ہیں، ایسے مرحلوں میں ان کا قلم رواں رہ کر نہ صرف راہ تلاشتا ہے ،بلکہ اوروں کے لئے راہ یابی کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔مصنف کتاب اپنے اس مجموعہ تحریر کے حوالے سے پیش لفظ میں ایک جگہ بڑی خوبصورتی سےلکھتے ہیں :
"تماشہ میرے آگے "میرے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو سیاسی احوال ومعاملات پر لکھے گئے نقیب میں چھپ کر لوگوں تک پہنچے اور مقبول ہوئے ،اب چوں کہ سیاست میں اخلاق و اقدار کا جنازہ نکل گیا ہے ،نظریات، اقتدار اور کرسی کے گرد گھومنے لگے ہیں ،یہ سب ایک تماشہ ہے جو اقتدار کے اسٹیج سے یا اقتدار تک پہنچنے کے لئے کیا جارہا ہے اس لئے میں نے ان مضامین پر مشتمل کتاب کا نام ہی تماشہ میرے آگے رکھ دیا ہے "
سردست مجموعہ مضامین میں جن 130/ عناوین کے تحت انہوں نے" تماشہائے جہاں "کو پرکھا اور اس پر اپنے موقف کو پیش کیا ہے ،اس کا لفظ لفظ ،بلکہ حرف حرف ان کی ہمہ جہت معلومات،دوررس سیاسی آگہی،فکر ودانشمندی،بے باک موقف، درد وچبھن ،کامیاب حل اور حقیقت حال کا مظہر ہے ،خوبی کی بات یہ بھی ہےکہ ان کی خامہ فرسائی کا میدان تذکرہ ،سوانح،تاریخ،ادب، تحقیق اورتنقیدسمیت اصلاح ودعوت،تعلیم وتربیت اور فکری وسماجی موضوعات کے علاؤہ فقہ ،سیرت،حدیث، تفسیراور دین کے بنیادی مآخذ بھی ہیں ،جن پر الگ الگ زاویوں سے وہ مسلسل یومیہ لکھ رہےہیں ، آج یہاں وہاں سیا سی گلیاروں میں جو بے چینیاں پائی جارہی ہیں ان کے پڑھنےسمجھنے کا بھی ایک وقت متعین ہے اور خیالات کی قلم بندی کے لئے بھی وقت مقرر کیا ہوا ہے ،اوقات میں برکتوں کے حوالے سےوہ اکابرین کے پرتو ہیں،خدا نے بڑی برکتوں سے نوازا ہے ۔زیر تذکرہ کتاب کا ہرعنوان و پیراگراف ،ان کے فکر ومطالعے کی وسعت کا عکس ہے ،کتاب ہاتھ میں لیجئے تو ورق ورق الٹے بغیر آپ حرف آخر تک نہیں پہنچ سکتے ،عنوان کا انداز وساخت،عام علماء کی نثری روش سے مختلف ،کم لفظوں میں پوری کہانی کا سرنامہ ہے۔

یہ کتاب دراصل "سیاسی حالات ،مسائل اور معاملات پر امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب (2019 -2015 )میں چھپے ادارئیے،شذرات،تجزیاتی وتنقیدی مضامین کاانتخاب "ہے۔ "تماشہ میرے آگے" قریباً 130/مختلف النوع مضامین پر مشتمل ہے ،جس کی ضخامت 280/صفحات کو محیط ہے ،ظاہر وباطن میں حسن ہی حسن،دیدہ زیب طباعت ،عمدہ کاغذ ،روایتی تقریظات سے پاک، عام فہم زبان جیسی خوبیوں والی اس دراز نفس کتاب کی عام قیمت 300/ روپے ہے۔نور اردو لائبریری حسن پور گنگٹھی بکساما،ویشالی بہار کو اس کتاب کا ناشر ہونے کا فخر حاصل ہے جب کہ مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،نور اردو لائبریری ویشالی،ادارہ سبیل الشرعیہ آواپور سیتا مڑھی اور الہدی ایجو کیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ وغیرہ سے کتاب منگوائی جاسکتی ہے۔شاندار،خوبصورت اور معیاری مطبوعات پیش کرنے کے لئے مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب مدظلہ شکریہ اور مبارک باد دونوں کے یکساں مستحق ہیں۔

کے ایمان پر شک و شبہہ کرنے کا انجام کیا ہوگا بس اللہ کی پناہ ،، ہمارے لئے تو آنکھوں کا سرمہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علی...
28/01/2024

کے ایمان پر شک و شبہہ کرنے کا انجام کیا ہوگا بس اللہ کی پناہ ،، ہمارے لئے تو آنکھوں کا سرمہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے پاؤں کی دھول ،، اسی لئے تو ہم نعرہ لگاتے ہیں اور لگائیں گے ،،ہر صحابئی نبی ،، جنتی جنتی-

[email protected]
++++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

نقصانات و فوائد پر نظر رکھنا ضروری ہے!تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتیjavedbharti508@gmail.comالحمدللہ مضامین لکھنے...
18/01/2024

نقصانات و فوائد پر نظر رکھنا ضروری ہے!
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی
[email protected]
الحمدللہ مضامین لکھنے والوں کی تعداد میں ادھر کچھ دنوں سے بہت اضافہ ہوا ہے اللہ کرے کہ مزید اضافہ ہو اور لوگ دینی، سیاسی، سماجی ہر طرح کے مضامین لکھیں حالات حاضرہ کے تناظر میں بھی قلم چلائیں معاشرے میں پنپ رہی ناقص رسم ورواج اور خرافات پر بھی اظہار خیال کریں نوجوانوں کی بے راہ روی پر قلم کو جنبش دیں اور کچھ لوگ جو مقدس مقامات کو آلہ کار بناکر دین کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کررہےہیں اس پر بھی توجہ مرکوز کریں اور اپنی تحریروں میں یہ نظریات بھی واضح کریں کہ ہماری ذاتی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے بلکہ ہم آئینہ دیکھا رہے ہیں تا کہ ایک صاف شفاف معاشرہ تشکیل پاسکے کیونکہ ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زبان اور قلم سے یعنی تقریر و تحریر سے دوسرے انسان کو امانت دارانہ مشورہ دیے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ خیانت کی راہ پر لگنے والا مشورہ دینا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے -
دوسری بات یہ بھی ذہن نشین ہونا چاہیے کہ قلم چلایا جائے تو اس کے فوائد اور نقصانات اور امکانات پر بھی نظر رکھا جائے تاکہ جس زمرے میں مضامین لکھا جائے اس زمرے میں مضامین نفع بخش ثابت ہوں ،، راقم الحروف کا مقصد کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہر مضمون نگار قابل قدر ہے مگر جیسے آج بہت سے لوگ مضامین لکھ رہے ہیں تو رام مندر کی افتتاحی تقریب سے متعلق اظہار خیال کررہےہیں کہ رام بڑے یا مودی ،، ایودھیا میں رام کم مودی زیادہ نظر آرہے ہیں ،،رام مندر کا افتتاح وزیراعظم کے ہاتھوں ہونا چاہئے یا ہندو مذہب کے رہنما سادھو سنتوں کے ہاتھوں ہونا چاہئے ،، کیا اس طرح کی تحریر بے مقصد نہیں ہے ؟ رام بڑے یا مودی ،، اس سے مسلمانوں کو کیا مطلب ،، رام مندر کا افتتاح کن کے ہاتھوں ہونا چاہئے اس سے بھی کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے ،، آپ بابری مسجد کی تاریخ لکھئے ، ایک مسجد کی کیا اہمیت ہوتی ہے یہ لکھئے بابری مسجد سے متعلق ،اس کے تنازعات سے متعلق ، اس میں نماز پڑھنے پر پابندی سے متعلق ، اس کی شہادت سے متعلق اس کے ذرے ذرے اور ایک ایک نکات سے متعلق لکھئے اور خوب لکھئے تاکہ آنے والی نسلیں بھی بابری مسجد سے باخبر رہیں ،، رام مندر کے بارے میں اتنا ہی لکھنا کافی ہے کہ یہاں پہلے مسجد تھی اور مسجد کو منہدم کردیا گیا اور اس جگہ پر مندر تعمیر کیا گیا باقی رام مندر سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ہونا چاہئے ،، یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ میڈیا کے لوگ علماء کرام کو نشانے پر لینا چاہتے ہیں ان کا ایک پروگرام ہے کہ اگر آپ کو رام مندر کے افتتاح میں بلایا جائے تو آپ کیا کریں گے ، آپ کو رام مندر کی تعمیر و افتتاحی تقریب سے خوشی ہے کہ نہیں ،، اس معاملے میں سوشل میڈیا پر ایک عظیم صحافی ودود ساجد صاحب نے بہت ہی گراں قدر مشورہ دیتے ہوئے علماء کرام و مسلم رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ آپ ڈیبیٹ میں نہ جائیں بلکہ اس معاملے میں میڈیا سے دوری بنائے رکھیں اسی میں بہتری ہے،، تمام قلمکاروں کو بھی ایسا ہی نیک مشورہ دینا چائیے کیونکہ میڈیا کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنی زبان اور قلم کا سودا کرچکا ہے اس سے ہوشیار رہنا اور بچنا ہر حال میں ضروری ہے-
رام مندر کا افتتاح وزیراعظم کو نہیں کرنا چاہئیے ، کیا مودی جی شنکر آچاریوں سے بڑھ کر ہیں اور سنگھ پریوار و شنکر آچاریوں میں اختلاف کیوں وغیرہ وغیرہ ،، اس طرح کے عنوانات پر مشتمل مضامین سے کچھ فائدہ ہونے والا نہیں یہ تو جس کا مسلہ ہے وہ خود جانے خود سمجھے ،، یقیناً نریندر مودی جی بھارت کے وزیر اعظم ہیں لیکن ساتھ ہی وہ بی جے پی کے لیڈر بھی ہیں اور پورا ملک جانتا ہے کہ بی جے پی بابری مسجد اور رام مندر پر سیاست کرکے ہی اقتدار میں آئی ہے ورنہ بابری مسجد کا تنازعہ تو کانگریس کے دور حکومت میں پیدا ہوا ہے ، تالا کانگریس کے دور حکومت میں لگایا گیا اور کھلوایا گیا ہے ، نماز ادا کرنے پر پابندی اور پوجا پاٹ کرنے کی اجازت کانگریس کے دور حکومت میں دی گئی ہے حتیٰ کہ بابری مسجد کی شہادت بھی اس وقت ہوئی ہے جب مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی کل ملاکر دیکھا جائے تو کانگریس نے بابری مسجد اور رام مندر کا معاملہ الجھایا اور بی جے پی نے اسے بھنایا ،، کانگریس کی نیت صاف رہی ہوتی تو 1949 سے 1992 کے درمیان اس مسلے کو حل کرسکتی تھی بلکہ ابتدا میں ہی حل کرسکتی تھی مگر کانگریس نے ایسا نہیں کیا اور سیکولر ازم کا دھڈورا پیٹتی رہی اور آج کانگریس اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اسے کوئی ٹھوس اور صحیح راستہ نہیں مل رہا ہے یہاں تک کہ ایودھیا میں بھی کانگریسیوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور بی جے پی والے بھی خوب آزما رہے ہیں رام مندر کا دعوت نامہ دے کر اب کانگریس کے سامنے صورت حال یہ ہے کہ دریا کے پار جانا ہے مگر کشتی بی جے پی کی ہے اب اس پار جانا ہے تو کشتی میں سوار ہونا ہے اور نہیں تو پھر دریا کے کنارے ہی رہ جانا ہے یعنی معاملہ ووٹوں کا ہے اور دونوں طرف سے سیاست ہی تو ہورہی ہے لیکن پلڑا بھاری بی جے پی کا ہے،، بہرحال ہمیں احتیاطی قدم اٹھانا ہے بہت سی سرکردہ شخصیات نے اعلان بھی کیا ہے کہ اس دوران سفر نہ کریں ، شرپسندوں کے منہ نہ لگیں ، کہیں کوئی اشتعال انگیزی کرے تو آپ جوش میں آکر ہوش نہ کھو بیٹھیں ، فرقہ پرستوں کی سازشوں کا شکار نہ بنیں ،، یہ ان کا مشورہ قابل عمل ہے اور ان کا اعلان قابل خیر مقدم ہے اسی لئے بہتر ہے کہ مضامین بھی ایسے ہی لکھے جائیں کہ فرقہ پرستی کو تقویت نہ ملے اور کسی کو مذاق اڑانے کا یا لعن و طعن کرنے کا موقع نہ ملے ضرورت اس بات کی ہے کہ مساجد کو مسلکی رنگ نہ دیا جائے بلکہ اس کو آباد کیا جائے صرف جھالر اور قمقموں سے نہ سجایا جائے بلکہ قیام و رکوع و سجود سے سجایا جائے جیسے نماز جمعہ میں مساجد بھری رہتی ہے ویسے نماز پنجگانہ میں بھری جائے اس سے ہماری عبادت بھی ہوگی اور مساجد کی حفاظت بھی ہوگی اور اللہ و رسول کی خوشنودی بھی حاصل ہوگی اور قبر سے لے کر حشر تک کی منزل بھی آسان ہوگی-
[email protected]
++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی ( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

منور رانا کا اردو ادب کو بیش بہا تحفہسید واصف اقبال گیلانیبہار شریف، نالندہ14 جنوری 2024ء بروز اتوار، اردو ادب کے روشن چ...
15/01/2024

منور رانا کا اردو ادب کو بیش بہا تحفہ

سید واصف اقبال گیلانی

بہار شریف، نالندہ

14 جنوری 2024ء بروز اتوار، اردو ادب کے روشن چراغ، ادیب، شاعر اور غزل گو منور رانا اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ وہ 71 سال کے تھے اور کچھ عرصے سے گردوں اور گلے کے انفیکشن سے لڑ رہے تھے۔ ان کی رحلت اردو ادب کے لیے ایک عظیم نقصان ہے جس کی تلافی مشکل ہے۔ منور رانا 26 نومبر 1952ء کو اتر پردیش کے رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن سے حاصل کی اور پھر لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔ اے کیا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی ان کا رجحان شعر و سخن کی طرف تھا۔ انہوں نے اپنی غزل گوئی سے نہ صرف اردو ادب کو بلکہ اردو زبان کو بھی عام آدمی کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ایک سوال یہ ہے کہ ہم شاعروں کو کیوں پڑھیں یا جانیں یا خراج عقیدت پیش کریں؟ یہ سوچنا ہی عجیب ہے، جیسے یہ سوال ہواؤں سے پوچھو کہ کیوں چلیں؟ یا دریا سے کہ کیوں بہیں؟ شاعری روح کی غذا ہے، جذبات کا نغمہ ہے، زندگی کی حقیقت کو الفاظ کے جادو سے سجانا ہے. شاعر ہمیں اپنے اندر جھانکنے کا فن سکھاتا ہے، احساسات کی گہرائیوں میں گم ہونے کی دعوت دیتا ہے. وہ ہمیں بتاتا ہے کہ غم بھی گیت بن سکتا ہے، تنہائی بھی راز کی طرح منہ بولتی ہے. اس کے الفاظ مسکراتے ہیں تو پھول کھلتے ہیں، روتے ہیں تو بارش برساتی ہے.

شاعری ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے، زمانے کی سچائیوں سے آشنا کرتی ہے. وہ ہمیں اپنی کمزوریوں کو دیکھنے کی طاقت دیتی ہے، محبت کی وسعتوں کا سفر کرواتی ہے. اپنے سے ہٹ کر دوسروں کو سمجھنے کا درس دیتی ہے، انسان ہونے کی حقیقت کا احساس جگاتی ہے۔ یہاں تک کہ غزل کی بےقاعدہ تال میں ہم زندگی کی بےقاعدگیوں کو قبولنا سیکھتے ہیں، رباعی کی مختصری حکمت میں زندگی کا نچوڑ سمجھتے ہیں۔ ہر شاعر اپنا منفرد رنگ لے کر آتا ہے، ہمارے تجربات کو وسعت دیتا ہے، ہمیں انسان بننے کا راستہ دکھاتا ہے. تو پھر کیوں پڑھیں ہم شاعروں کو؟ اس لیے کہ وہ ہمیں زندہ رکھتے ہیں، زبان کو جلاتے ہیں، احساسات کو جگاتے ہیں. وہ ہمیں خود سے اور دنیا سے جُوڑتے ہیں، یہی تو زندگی کا مقصد ہے-

ایک عظیم شاعر منور رانا کی غزلوں کی سب سے بڑی خوبی ان کی سادگی اور عام فہم ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں مشکل الفاظ اور اصطلاحات کے بجائے عام بول چال کی زبان اور ہندی، اودھی کے الفاظ استعمال کیے۔ اس وجہ سے ان کی غزلیں گلیوں، بازاروں اور محفل میں ایک عام آدمی کے دل تک پہنچنے لگیں۔ ان کی مشہور غزل "ماں" اس بات کی بہترین مثال ہے جس میں انہوں نے ماں کی عظمت کو نہایت سادہ اور پر مغز الفاظ میں بیان کیا ہے:

ماں تیری چھائوں میں پلے ہیں ہم

تیرے ہی آنچل میں سلے ہیں ہم

منور رانا کی شاعری میں زندگی کے ہر پہلو کی عکاسی ہوتی ہے۔ محبت، غم، خوشی، جدائی، ہجر، فراق ان کے موضوعات رہے ہیں لیکن انہوں نے ہر موضوع کو اپنے منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں ایک گہری فلسفیانہ فکر بھی پائی جاتی ہے جو سامعین کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ منور رانا کو ان کی خدمات کے اعتراف میں متعدد ایوارڈ سے نوازا گیا جن میں 2014ء میں ان کی غزل مجموعہ "شہدابا" پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی شامل ہے۔ ان کے دیگر اہم ایوارڈز میں میر تقی میر ایوارڈ، غالب ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ اور سرسوتی سماج ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں۔

منور رانا کی وفات پر ملک بھر کے ادیبوں، شاعروں، قلم کاروں اور ان کے مداحوں نے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ منور رانا کی رحلت اردو ادب کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ وہ نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ ایک باصلاح شخصیت بھی تھے۔ ان کی کمی نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ پورے اردو ادب کو محسوس ہوتی رہے گی۔ لیکن ان کی غزلیں ہمیشہ ان کی یاد کو زندہ رکھیں گی اور مستقبل کے شعراء کو راستہ دکھاتی رہیں گی۔ منور رانا کی غزلوں کی ایک اور خوبی ان کی سماجی آگہی تھی۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے سماجی ناانصافیوں، غربت، ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ ان کی غزل "ظالم یہ دنیا ہے" اس حوالے سے بہت مقبول ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ شاعری صرف حسنِ کلام نہ ہو بلکہ سماج بدلنے کا ہتھیار بنے۔ منور رانا نے اپنی غزلوں کے ذریعے نہ صرف حسنِ کلام پیش کیا بلکہ سماج کا عکاس بھی بنایا۔ ان کی دو غزلوں "مہاجر نامہ" اور "ماں" اس کا روشن حوالہ ہیں۔

"مہاجر نامہ" ہجرت کے المیے اور نئے وطن میں جڑ پکڑنے کی جدوجہد کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ وہ مہاجر کی آہوں، سسکیوں اور امیدوں کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں۔ اس غزل میں وہ لکھتے ہیں:

سرحدوں پار چلے جن کے قدم

اشک چلے ساتھ ان کے نغم

شہر بدلتے رہے چہرے بدلتے رہے

دل میں بسے تھے وہی خواب دہم

یہ اشعار ہر مہاجر کے دل کی دھڑکن بن جاتے ہیں جو سرحد پار اپنا سب کچھ چھوڑ کر نئے دیار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ ان کی نظروں میں اپنے وطن کی مٹی، چھوٹے ہوئے احباب، گم ہوئے لہجے رقص کرتے رہتے ہیں۔ لیکن منور رانا ساتھ ہی امید کا چراغ بھی جلاتے ہیں کہ وہ نئے وطن میں جڑیں گے اور اپنے فن کے ذریعے اپنی پہچان بنائیں گے۔ دوسری غزل "ماں" خالص محبت اور اس کے بےپناہ ہونے کی کہانی ہے۔ منور رانا ماں کی عظمت کو نہایت سادہ اور دل کو چھو لینے والے الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

ماں تیری چھائوں میں پلے ہیں ہم

تیرے ہی آنچل میں سلے ہیں ہم

دکھ تیرے لے لیتی ہے سہار لے کر

خوشیاں ہماری کر لیتی ہیں دوگنی کم

ماں کی چھائوں میں پلنا، اس کے آنچل میں سلنا، یہ ہر بچے کی فطری خوشی اور تحفظ کا احساس ہے۔ منور رانا ماں کی قربانیوں، اس کے بے لوث پیار کو الفاظ کا تحفہ دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ماں اپنے دکھوں کو چھپا کر بچوں کی خوشیوں کو دوگنا کرتی ہے۔ یہ دونوں غزلیں نہ صرف انفرادی سطح پر احساسات کو جگاتی ہیں بلکہ سماج کے مسائل اور رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ "مہاجر نامہ" ہمیں ان کی تکلیفوں کا احساس دلاتا ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر نئے سر زندگی شروع کرتے ہیں جبکہ "ماں" ایک ابدی رشتے کی عظمت کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ منور رانا کی یہ غزلیں نہ صرف فن بلکہ سماج اور انسانیت کا آئینہ بن جاتی ہیں اور ہمیں زندگی کے بنیادی احساسات سے جوڑتی ہیں۔

بے شک منور رانا کا فن بے مثال تھا، ان کی آواز امیراب اور انداز منفرد۔ وہ مشاعروں کی جان تھے اور ان کی غزلوں کو سامعین کی جانب سے بے پناہ پذیرائی ملتی تھی۔ لیکن منور رانا محفل کی چکاچوند سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے۔ وہ ہمیشہ زمین سے جڑے رہے اور عوام کی زبان بولتے رہے۔

14 جنوری 2024ء کو جب یہ خبر آئی کہ منور رانا اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں تو سبھی حلقوں سے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ ملک بھر کے شاعروں، ادیبوں، سیاستدانوں اور عام لوگوں نے ان کی وفات پر تعزیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے مداحوں اور شاگردوں کے لیے تو یہ یقیناً ایک ناقابلِ برداشت صدمہ ہے۔ لیکن منور رانا کی آواز خاموش نہیں ہوئی، ان کی غزلیں زندہ و جاوید ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے نسلِ نو تک پہنچ رہی ہیں اور منور رانا کا فن مستقبل کے شعراء کو متاثر کرتا رہے گا۔ اس دور میں جہاں مادیت پرستی عروج پر ہے، منور رانا کی سادہ، صاف اور انسانی قدروں کی پاسبان شاعری ایک گُل بہار بن کر کھلی ہے جو ہمیں زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتی ہے اور یقین دلاتی ہے کہ فن کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت ہے۔ منور رانا ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی غزلوں کو ہمیشہ تروتازہ رکھے، آمین۔

Address

New City
Hyderabad

Telephone

+919550390735

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Times Of Iqra -Urdu Daily posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Times Of Iqra -Urdu Daily:

Videos

Share

Category


Other Newspapers in Hyderabad

Show All