Hindustan Express

Hindustan Express Delhi-based Hindustan Express was launched in 2006 and has achieved success in little duration. afte Hindustan Express daily is an Indian Urdu daily newspaper.

The newspaper publish from Delhi and Patna, India. The Urdu daily of Hindustan Express is believed to be Delhi’s old and most widely circulated Urdu newspaper. Hindustan Express Daily covers national, international, local Delhi and NCR News, Uttar Pradesh news, Bihar News, sports, articles, and International news in Urdu. Hindustan Express Daily is available on the internet in e-paper format.

07/01/2025

نئی دہلی، (یو این آئی) دہلی میں 70 اسمبلی سیٹوں کے لیے ایک ہی مرحلے میں 5 فروری کو ووٹنگ

06/01/2025

ٹورنٹو، 6 جنوری (یواین آئی) کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے حکمران لبرل پارٹی کے رہنما اور وزیر اعظم

06/01/2025

نئی دہلی، 06 جنوری (یو این آئی) بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقلیتی مورچہ نے مرکزی حکومت سے

05/01/2025

بھدوہی:(یواین آئی) آسمان میں چھائے بادل و کہرے کی دھندھ کی وجہ سے کئی دنوں سے دھوپ نہ نکلنے سے

05/01/2025

مونگیر، 5 جنوری (یو این آئی) امارتِ شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ اور خانقاہ رحمانی مونگیر کے زیرِ اہتمام اڈیشہ

05/01/2025

ممبئی، 05 جنوری ( یواین آئی ) بالی ووڈ کی مشہور اداکارہ دیپیکا پاڈوکون آج 39 سال کی ہو گئیں۔بالی

04/01/2025

اجمیر، 04 جنوری (یو این آئی) دنیا کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ معین الدین حسن چشتی کے 813 ویں سالانہ

04/01/2025

اجمیر (یو این آئی) وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے راجستھان کے اجمیر میں خواجہ معین الدین حسن چشتی

03/01/2025

بیجاپور (یو این آئی) چھتیس گڑھ کے بیجاپور سے پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والے صحافی مکیش چندراکر کی لاش

29/12/2024

نئی دہلی(ایجنسیاں)شمالی ہندوستان میں موسم سرما کی شدت بڑھ رہی ہے، جہاں آئندہ دنوں میں درجہ حرارت میں 3 سے

28/12/2024

نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس نیوز بیورو/ایجنسیاں)دارالحکومت دہلی میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والی شدید بارش نے کئی برسوں کی

28/12/2024

واشنگٹن/نئی دہلی، 28 دسمبر (یو این آئی) امریکی صدر جو بائیڈن نے سابق ہندوستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے انتقال

28/12/2024

نئی دہلی (یو این آئی) سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی آج یہاں نگم بودھ گھاٹ پر سرکاری اعزاز کے

الوداع...ڈاکٹر منموہن سنگھاداریہ......ہندوستان ایکسپریس لمبی مدت سے صاحب فراش سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے آخر کار...
27/12/2024

الوداع...ڈاکٹر منموہن سنگھ
اداریہ......ہندوستان ایکسپریس
لمبی مدت سے صاحب فراش سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے آخر کار جمعرات کی رات اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ڈاکٹر منموہن سنگھ ملک کے 14 ویں وزیراعظم تھے۔یو پی اے کے بینر تلے 2004 میں انہوں نے ملک کے اقتدار اعلیٰ کی باگ ڈور سنبھالی تھی اور 2014 کے عام انتخابات میں کانگریس پارٹی کی شرمناک شکست کے ساتھ ہی ان کے 10 سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔منموہن سنگھ کی شخصیت ان معنوں میں بڑی پرکشش تھی کہ وہ آج کے سیاست دانوں کی طرح زیادہ بولنے میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ان کے جینے کا اندازاورکام کے تئیں ان کی خود سپردگی کا جذبہ قابل رشک تصور کیا جاتا ہے۔کچھ لوگوں نے انہیں ’حادثاتی وزیراعظم‘ کا نام دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی بہترین قابلیت اور اعلی دماغ کی وجہ سے ملک کے اقتدار اعلی پر فائز ہونے کے اہل بھی تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جب ملک کے اقتدار کی کمان سنبھالی تو کئی ایسے قابل ذکر فیصلے لیے جو ملک کے عوام کیلئے بہترین سوغات ثابت ہوئے۔منموہن سنگھ کے دور حکومت میں ہی غریب مزدوروں کیلئے مرکزی حکومت کی جانب سے منریگا اسکیم کی شروعات کی گئی جسے اقوام متحدہ نے بھی اچھی شروعات قرار دیا تھا۔اس اسکیم کو اس وجہ سے بھی غیر معمولی مقبولیت ملی کہ یہ محنت کشوں اور مزدوروں کیلئے کام کی ضمانت فراہم کراتا ہے۔اسی طرح بحیثیت وزیراعظم انہوں نے انتظامیہ کو صاف اور شفاف بنانے کی بھی کوشش کی اور عوام کے ہاتھ میں ایسا ہتھیار فراہم کرایا جس کے ذریعے عام لوگ یہ جاننے کے حقدار قرار پائے کہ ان کا کون سا کام کس طرح سے انجام پا رہا ہے۔یعنی حکومت کے ذریعہ زیر عمل منصوبوں کی بابت عوام کو تفصیلات جاننے کا حق دیا گیا جسے حق اطلاعات قانون کے نام سے جاناجاتا ہے۔یہ دو منصوبے ایسے ہیں جو منموہن سنگھ کے گزر جانے کے باوجود برسوں انہیں یاد رکھنے کیلئے کافی ہیں۔ملک میں اقلیتوں کی صورتحال کیا ہے؟ بالخصوص مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی صورتحال کیسی ہے؟منموہن کے دور حکومت میں لیے گئے فیصلے سے یہ جاننے میں بھی دیش اور دنیا کو خاصی مدد ملی۔بطور خاص سچر کمیٹی کے قیام،اس کی سفارشات اور اس حوالے سے اٹھائے گئے بعض اقدامات کو اس حوالے سے نظر انداز کرنا مشکل ہے۔اعلی تعلیم حاصل کر رہے اقلیتی طبقہ کے نوجوانوں کیلئے مولانا آزاد فیلو شپ کی فراہمی کا معاملہ ہو یا اے ایم یو کے شاخوں کے قیام سمیت دوسرے ’اقلیت دوست فیصلے‘ یہ اس بات کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہیں کہ وہ ملک کی اقلیتوں کو ترقیات کے فیوض و برکات سے مستفید ہونے کا یکساں موقع فراہم کرانے کے حوالے سے کس طرح کے فراخدلانا جذبات رکھتے تھے۔خلاصہ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ صحیح معنوں میں ایک بہترین وزیراعظم ثابت ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ 2014 کے الیکشن میں میڈیا کے منفی پروپیگنڈے اور سیاسی مخالفین کی جھوٹی الزام تراشیوں کے باعث کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتیں اس الیکشن میں ناکام ہو گئیں اور اس طرح نہ صرف یہ ہے کہ منموہن سنگھ کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا بلکہ کانگریس تب سے لے کر اب تک اپوزیشن کا رول نبھانے پر مجبور ہے۔
ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ بھی رہی کہ ایک اعلیٰ ترین صلاحیت کی حامل شخصیت کو سیاسی فائدوں کیلئے خوب لعن طعن سہناپڑتاہے،منموہن سنگھ بھی ان میں سے ایک ہیں،منموہن کی بھی خوب خوب کردار کشی کی گئی،انہیں نا اہل اور نالائق قرار دینے کی بھی کوشش ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی ایمانداری پر بھی سوالات کھڑے کیے گئے۔ اصول پسند شخص کی پگڑی اچھالنا ہندوستانی سیاست میں کس طرح قابل گوارا عمل قرار پا چکا ہے، اس کی واضح مثال خود سابق وزیراعظم ہن سنگھ ہیں جنہیں بی جے پی کے ساتھ ساتھ موجودہ وزیراعظم نے بھی’کمزور وزیراعظم‘ کہہ کر گویا ایک طرح سے سورج کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔کانگریس کو برا کہنے اور بدنام کرنے کیلئے انہوں نے ایک کھلی کتاب کی حیثیت رکھنے والی شخصیت یعنی ڈاکٹر منموہن سنگھ کا مضحکہ کس کس طرح سے اڑادیا، بہتوں کو یہ یاد ہوگا لیکن جب ڈاکٹر منموہن اس دنیا سے سخت ہو گئے تو ان کی آخری پریس کانفرنس میں کہی گئی یہ بات سوفیصد سچ ثابت ثابت ہو گئی کہ تاریخ ان کے ساتھ میڈیا کے مقابلے کہیں زیادہ فراخ دلی کا مظاہرہ کرے گی۔ موجودہ وزیراعظم نے اس عظیم شخصیت کی رحلت کے بعد انہیں جس انداز میں یاد کیا، اسے لوگ نہیں بلا پائیں گے!۔ بہرحال ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ دوسروں کے ساتھ ساتھ خود وزیراعظم نریندر مودی نے بھی آخر کیوں ڈاکٹر من موہن سنگھ کی سادگی اور ان کی ایمانداری کی قسمیں کھائیں!۔
سیاست کی پگڈنڈیوں پر چلنا ہر کسی کیلئے آسان نہیں ہوتا۔سیاست کی وادی میں کامیابی کے ساتھ چہل قدمی وہی کر سکتا ہے جو سیاسی تقاضوں کو برتنے کا حامل ہو۔کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ عہد حاضرکے ایک بہترین سیاست داں کی خوبیوں سے متصف نہیں تھے۔مطلب یہ کہ جھوٹ بولنا، بار بار بولنااور پورے اعتمادویقین کے ساتھ ’جھوٹ کی کھیتی‘ کرنا انہیں نہیں آتا تھا،جس کی وجہ سے انہیں ’کمزور وزیر اعظم‘کہاگیااور’مجبورپی ایم‘ کی عرفیت سے نوازدیاگیا۔حالانکہ جب بہترین دماغ،بہترین صلاحیت،بہترین معاشی و معاشرتی سوچ،بہترین مالیاتی سمجھ اور بہترین انسان کی خوبیاں مجتمع ہو جائیں تو ظاہر ہے کہ ملک کو اختراعی راہ پر لے جانے کی کوشش تو ہوگی ہی۔ منموہن سنگھ کا دس سالہ دور اقتدار اسی حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ان دس برسوں میں کوئی ایک موقع بھی ایسا نہیں آیا،جب ملک کو یہ احساس ہوا ہو کہ وزیراعظم کے کسی عمل،قدم یا حرکت سے قوم کی رسوائی ہوئی ہو یا عالمی پلیٹ فارم پر بحیثیت وزیراعظم منموہن سنگھ نے ہندوستانیوں کے وقار کو خاک میں ملایا ہو۔شگفتہ طبیعت کے مالک ڈاکٹر منموہن سنگھ شائستہ انداز اور مہذب لب و لہجہ کے مالک تھے۔انہوں نے کبھی بھی کسی کا دل نہیں دکھایا،کسی طبقے یا فرقے کی تذلیل نہیں کی بلکہ پر اعتماد انداز میں سبھوں کو عملاً ساتھ لے کر چلنے کا مزاج اختیار کیا۔ڈاکٹر سنگھ کی انکساری قابل رشک کہی جا سکتی ہے۔پارلیمنٹ کے اندر بھی اور عوامی تقاریب میں بھی انہوں نے تمام ہندوستانیوں کو ایک انداز سے دیکھنے کی کوشش کی۔یہی وہ انداز ہے جو انہیں شریف النفس افراد کی نگاہ میں قابل افتخار بناتا ہے۔ہاں جس کا شیوہ ہی ہو ذلت پسندی اور جس کا عقیدہ ہی ہو نفرت پرستی،اسے ڈاکٹر من موہن سنگھ جیسی شخصیت سے محبت کی جگہ عداوت ہی ہوگی۔اور بغض و عداوت کی انتہا میں کہنے والا بہت کچھ کہہ جاتا ہے لیکن آخر کار اسے کبھی نہ کبھی سچ بولنا ہی پڑتا ہے۔
بحیثیت وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک کی قیادت جس انداز میں کی، اسے مورخ سنہرے لفظوں میں نہ لکھے، یہ ممکن ہی نہیں۔حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اس سے قبل 1991 سے 1996 کے درمیان بحیثیت وزیرخزانہ جس انداز سے ملک کے مالیاتی استحکام کو بہتر کرنے کی کوشش کی اور جو اختراعی اقدامات کیے،دنیا انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔کیمریج اور آکسفورڈ جیسی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ کچھ برسوں کیلئے اقوام متحدہ سے بھی وابستہ رہے لیکن جلد ہی انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے انہیں اپنا کردار نبھانا چاہیے۔چنانچہ موصوف 1969 میں وطن واپس آئے اور تب سے لے کر زندگی کے آخری ایام تک ان کی زندگی ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے وقف رہی۔ایک ماہر اقتصادیات کی حیثیت سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو عالمی سطح پر قدربھی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔خواہ امریکہ،فرانس،جرمنی اور برطانیہ جیسی عظیم مملکتیں ہی کیوں نہ ہوں،ڈاکٹر منموہن سنگھ کی شبیہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی اچھی رہی۔برا ہو ہندوستانی سیاست کا کہ اس نے ایک عظیم لیڈر کو بھی محض نظریاتی تنگ نظری کے سبب عظیم قرار دینے سے گریز کیا اوریہی وجہ ہے کہ 2014کا الیکشن ہندوستانی سیاست کیلئے نظریاتی نقطہ نظر سے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوااورتب سے لے کر اب تک بہت سے ہندوستانی مظفر زمیؔ کایہ شعر گنگنا کر اپنا دل بہلانے میں مصروف ہیں کہ ؎
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

27/12/2024

تل ابیب : اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی اہلیہ سارہ نیتن یاہو مشکل میں پڑ گئیں، شوہر کے خلاف بد

27/12/2024

نئی دہلی (یو این آئی) کانگریس کی اعلیٰ ترین پالیسی ساز تنظیم کانگریس ورکنگ کمیٹی نے سابق وزیر اعظم منموہن

27/12/2024

نئی دہلی (یو این آئی) اردو، فارسی کے مستند و معروف شاعر مرزا اسد اللہ خاں کا 227واں یوم ولادت

Address

G-79. KALINDI KUNJ , SARITA VIHAR MAIN Road. A. F. E. PART-II
Delhi
110025

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hindustan Express posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Hindustan Express:

Share