23/08/2024
حسن البصریؒ کی تعلیمی و تربیتی فکر کی 10 خصوصیات :
1- عقل : ایک ایسی نعمت ہے جس سے انسان کے اندر احساس اور ادراک کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، یہ صلاحیت اللہ نے انسان کو عطا کی ہے تاکہ اسے اپنے اعمال کے سلسلے میں مکلف بنایا جائے۔ یہی وہ آلہ ہے جس کے ذریعے سے وہ سمجھتا، غور و فکر کرتا، سوچتا اور سیکھتا ہے۔ عقلی تربیت وہ شے ہے جو دماغ کی پرورش کرتی ہے، اسے سرگرم اور توانا بنانے کے ذرائع فراہم کرتی ہے، اور اس میں غور و فکر، تدبر و تفکر، تجزیہ اور نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے، یعنی اس کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو فروغ دیتی ہے۔ عقل کی اسلامی تربیت کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اس میں شروعات ایمان کے نور سے کی جاتی ہے جس سے دل و دماغ کو تقویت ملتی ہے۔ اس کے بعد علم و عرفان کے در وا کیے جاتے ہیں۔
2- علم : اسلام مسلمانوں کے ذہنوں کے لیے علم و عرفان کے وسیع تر میدان کھولتا ہے تاکہ وہ سچائی اور نیکی کی راہ پر چل سکیں۔ علم ہر تعلیمی، تربیتی اور دعوتی فکر کی اساس اور شرط ہے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھینتے ہوئے نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا کر علم کو اٹھا لے گا حتیٰ کہ جب وہ (لوگوں میں) کسی عالم کو (باقی) نہیں چھوڑے گا تو لوگ (دین کے معاملات میں بھی) جاہلوں کو اپنے سربراہ بنا لیں گے۔ ان سے (دین کے بارے میں) سوال کیے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر فتوے دیں گے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے” [بخاری]۔ اس حدیث میں ہمارے لئے بہت سارا تربیتی مواد موجود ہے، جیسے علم کے حصول کا شوق، علمائے کرام کی قدردانی اور ان کی عظمت اور فتاویٰ جاری کرنے کی اہمیت اور ہدایات، جاہلوں سے دور رہنے اور ان سے فتویٰ لینے پر تنبیہ وغیرہ۔ قرآن و سنت میں علم حاصل کرنے کی اہمیت اور فضیلت کے بے شمار ثبوت موجود ہیں اور یہ کہ علم دماغ کو حقیقی علم تک پہنچنے کے لیے سچائی کی تلاش میں رہنے اور جستجو کرتے رہنے کی تربیت دیتا ہے۔
3- ذہنی تفاوت : حسن البصریؒ کا خیال ہے کہ طلباء میں ذہنی نشوونما، حافظے کی مضبوطی اور صلاحیت میں تفاوت ان کے سیکھنے اور سمجھنے کی رفتار کو متاثر کرتی ہے۔ خطیب بغدادی نے بھی طلباء میں اس کے اثرات اور ان کی کامیابی پر پڑنے والے نمایاں اثر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی ہے کہ بعض طلباء کم وقت میں بہت ساری معلومات حفظ کرنے کے قابل ہوتے ہیں جب کہ کچھ طلبہ کو آدھا صفحہ یاد کرنے میں کئی کئی دن لگ جاتے ہیں۔
4- مجاہدہ : حسن البصریؒ کے متنوع ایسے اقوال ہیں جو دل کو شرک، نفرت، بغض اور حسد کی گندگیوں سے پاک کرنے اور ایمان، یقین، مراقبہ، اطاعت اور مختلف قسم کی چیزوں سے اس کی اصلاح پر مبنی ایک عظیم تعلیمی اصول قائم کرتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں: “ان دلوں سے بات کرو کیونکہ یہ بہت تیزی سے برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور انفس کو پاک کرو کیونکہ یہ گناہ اور فحش کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
5- علمی سرگرمی : ان کا خیال ہے کہ فرد اور معاشرے کی اصلاح علم کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی لئے ان کی علم و تحقیق سے دلچسپی کا باعث اسلام کا اس حوالے سے واضح نکتہ نظر کا ہونا ہے۔
اسلام میں، اللہ کی خاطر علمی سرگرمی میں مشغول ہونا نفلی روزہ و نماز اور تسبیح و تحلیل سے بہتر ہے، کیونکہ علم سے مخلوق خدا اجتماعی طور پر مستفید ہوتی ہے جب کہ نفلی عبادات کا فائدہ فردِ واحد تک محدود ہوتا ہے۔
6- آداب : جہاں تک ایک طالب علم کے آداب کا تعلق ہے تو حسن بصریؒ کے نزدیک وہ یہ ہیں: بنیادی اور ابتدائی معلومات کا ہونا، علمی اخلاقیات کو اپنانا، علماء کی مجالس میں بیٹھنے کے آداب سیکھنا اور شائستگی اختیار کرنا، اپنے علم کے مطابق عمل کرنا اور علم و عمل کے درمیان توازن قائم رکھنا۔ کم عمری میں علمی سرگرمیوں سے وابستہ ہونے کی خصوصیات ہی الگ ہیں کیونکہ اس میں انسان تندرست ہوتا ہے، اس کا دماغ خالی ہوتا ہے اورذہن سفید کاغذ کی طرح بالکل صاف ہوتا ہے۔
7- اخلاق : علمی اخلاقیات پر عمل پیرا ہونے سے متعلق وہ فرماتے ہیں کہ: “جو شخص اللہ کے لیے علم حاصل کرتا ہے، وہ عنقریب اپنے اندرعاجزی، انکساری اور تواضع کو دیکھے گا”۔ جہاں تک علماء کی مجالس میں بیٹھنے کے آداب کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں وہ فرماتے ہیں: “اگر تمہیں علماء کی محفلوں میں بیٹھنے کا اتفاق ہو جائے تو اپنی بات سے زیادہ ان کی باتوں پر دھیان دو اور محتاط انداز میں ان کی گفتگو سنا کرو، اچھا بولنے اور سننے والے بنو اور کبھی ان کی گفتگو درمیان میں نہ کاٹو۔
حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ایک عالم پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کو توشہ آخرت بنائے۔ کیونکہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس کا دل مردہ ہو جائے گا اور وہ علم کی نعمت سے محروم ہو جائے گا۔ چنانچہ فرماتے ہیں: اہل علم حضرات اپنے علم کی بدولت اس دنیا کے لوگوں سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ اور علماء نے اپنے علم کی بدولت وہ مقام حاصل کیا جو اہل دنیا اپنی دولت کے بل بوتے پر نہ کر سکے۔ اسی طرح اگر کوئی صاحب علم اپنے اخلاقی کمال سے اپنے ساتھی کو متاثر نہ کر سکے تو اس کے علم کا کوئی فائدہ نہیں۔ لہٰذا علماء کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے کیونکہ قوم و ملت کی تربیت و صحیح رہنمائی میں سب سے بڑا کردار علماء کا ہی ہے۔
8- قرآن پر عمل : جہاں تک قرآن کریم کی تعلیم کا تعلق ہے تو اس بارے میں ان کا خیال ہے کہ قرآن کا حقیقی علمبردار وہ ہے جس کا اخلاق قرآنی اخلاق ہو، یعنی جو قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ اور قرآنی تعلیمات سے مراد مجرد اس کی تلاوت کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے اوامر پر عمل پیرا ہونا اور اس کی ممانعت سے رکنا ہے۔ یعنی اس پر تدبر و تفکر کرنا ہے۔
9- تقوی : حسن بصریؒ کی نظر میں، ایمان تعلیمی و تربیتی عمل کا ایک اہم ستون بلکہ اس کا محور ہے۔ کیونکہ ایمان و عقیدے کی تربیت باقی تمام شعبہ جات کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، اسی لیے ہم اسے ہر شعبے میں قدر مشترک اور ہر کوشش کے آخری ہدف کے طور پر دیکھتے ہیں۔
تقویٰ ایمان کا ستون ہے، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ ایمانی تربیت ہر فرض یا حکم کا خاصہ ہے، یہ ایک صحیح شخصیت کی تعمیر کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے، درحقیقت یہ پہلو اسلامی دعوت کا مرکزی نکتہ سمجھا جاتا ہے۔اگر ہم رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت پر اس حیثیت سے غور کریں گے کہ کس طرح انہوں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایمانی تربیت کی، بالخصوص مکی دور میں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زیادہ تر توجہ ایمانی تربیت، اور ایمان کو صحابہ کی روحوں میں پیوستہ کرنے پر مرکوز تھی۔
نیز، ایمانی تربیت، ان کے نزدیک، یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضامندی کے حصول کے لیے اس راستے پر چلنا جو امت کے صلحاء نے اختیار کیا ہے۔
10- جہاں تک اجتماعی تربیت کا تعلق ہے، حسن البصریؒ کے مطابق، اس کا مقصد افراد کو اپنی شخصیت کو جامع طریقے سے تیار کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ بہتر طور پر اپنے اجتماعی کردار کو انجام دے سکیں، معاشرے میں رہ بس سکیں اور اس کے متنوع تجربات میں حصہ لے سکیں۔ کیونکہ فرد کی زندگی کی تشکیل اور اس کے تناظر میں اسے اجتماعی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حسن البصریؒ نے ایسے متعدد امور کی نشاندھی کی ہے جن سے بہتر اجتماعی تربیت کو ممکن بنایا جا سکتا ہے مثلاََ: ایثار کا معاملہ کرنا، یہ کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کے ساتھ نیک دلی، سخاوت اور رحم دلی کا معاملہ کرے، یہ کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرے اور انہیں نقصان پہنچانے سے باز آئے۔ اور سماج کے اس حق کو ادا کرے کہ نصیحت، تلقین جاری رکھے اور لوگوں کے جنازوں میں شرکت کرے اور یہ کہ ایک مسلمان لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جس کے وہ حقدار ہیں۔