Khawaja Kabir Ahmed offical

Khawaja Kabir Ahmed offical All news about Jammu Kashmir from.around the world

https://www.facebook.com/share/p/16Dn3qLnDF/
01/12/2025

https://www.facebook.com/share/p/16Dn3qLnDF/

ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم حقوق کی بات تو بہت کرتے ہیں، مگر دوسروں کے حقوق ادا کرنے پر شاید ہی کبھی سنجیدگی سے غور کرتے ہیں۔ ہم اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، عدالتوں، دفاتر اور سوشل میڈیا تک میں اپنی محرومیوں کا نوحہ سناتے ہیں، لیکن جب بات ان حقوق کی آتی ہے جو ہم نے خود دوسروں سے چھین رکھے ہیں تو اچانک ہماری زبانیں گنگ اور ضمیر خاموش ہوجاتا ہے۔

یہ رویہ کوئی آج کا پیدا شدہ نہیں۔ ہمارے گھروں، خاندانوں اور برادریوں میں یہ ظلم صدیوں سے نسل در نسل منتقل ہورہا ہے۔ سب سے بڑا اور واضح ظلم بیٹیوں اور بہنوں کے حقِ وراثت سے انکار ہے۔ ہمارے بڑے بوڑھے، جنہیں ہم عزت اور تقدس کی نظر سے دیکھتے ہیں، اکثر اسی روایت کے امین نکلتے ہیں۔ کہیں دادا نے اپنی بیٹیوں کو ترکہ سے محروم کیا، کہیں باپ نے اپنی بہنوں کا حصہ نہیں دیا، کہیں بھائیوں نے بہنوں کو محض “رواج” کے نام پر دھتکار دیا۔ اور افسوس یہ ہے کہ اگلی نسلیں اس ظلم کو غلط سمجھنے کے بجائے فخر سے روایت سمجھ کر دہراتی رہیں۔

نتیجہ یہ کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے گھروں میں پلے بڑھے جہاں ہماری نانیاں، دادیاں، پھوپھیاں اور خالائیں اپنے جائز حق کے بغیر دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ان کی زندگی کا دکھ یہ تھا کہ انہیں اپنا وہ حصہ کبھی نہ ملا جو اللہ نے ان کے لیے مقرر کیا تھا۔ ان کے بیٹوں نے بھی وہی روش اختیار کی۔ پھر پوتوں اور نواسوں نے بھی اسے “رواج” کا نام دے کر اپنا لیا۔
یوں حقوق غصب کرنے کی یہ زنجیر ٹوٹنے کے بجائے مضبوط ہوتی چلی گئی۔

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے میراث کا حصہ کسی انسان کی مرضی پر نہیں چھوڑا۔ یہ حق اللہ نے خود مقرر کیا ہے، لہٰذا اسے چھین لینا یا روک لینا صرف معاشرتی زیادتی نہیں بلکہ شرعی اور اخلاقی جرم ہے۔
بیٹیوں کے حصے کو “چلو چھوڑ دو، تمہیں تو ہم نے جہیز دیا تھا” جیسے جملوں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرنا حقیقت میں اللہ کے حکم کو پسِ پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔ جہیز میراث کا متبادل نہیں ہوتا، اور بہنیں صرف اس لیے محروم نہیں کی جاسکتیں کہ وہ شادی شدہ ہیں یا “گھر سے رخصت ہوچکی ہیں”۔

المیہ یہ ہے کہ ہم معاشرے میں انصاف، قانون اور حقوق کی بات تو کرتے ہیں مگر گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ہمارا انصاف دم توڑ دیتا ہے۔ ہم دوسروں کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں، مگر اپنے ہی خاندان میں چلنے والے ظلم کو روایت کا لبادہ اوڑھا کر چھپا دیتے ہیں۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہوں گے جو ایمانداری سے اپنے ضمیر سے پوچھ سکیں کہ کیا انہوں نے اپنی بہن، پھوپھی، خالہ یا بیٹی کو پورا حق دیا ہے؟
اکثر خاندانوں میں اس سوال کا جواب خاموشی اور شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ اس نسل در نسل جاری ظلم کی زنجیر کو توڑا جائے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر پچھلی نسلوں نے غلطی کی تھی تو ہم ان کی غلطیاں دہرا کر بہتر ثابت نہیں ہوسکتے۔
اصلاح ہمیشہ وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں کوئی فرد حق کو پہچان لے، ظلم کو ظلم کہنے کی ہمت کرے اور پہلی بار انصاف کی بنیاد رکھے۔

جو لوگ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کا حق دیتے ہیں، وہ صرف ایک فرد پر احسان نہیں کرتے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے عدل کا دروازہ کھولتے ہیں۔ اور جو لوگ یہ حق ادا نہیں کرتے، وہ صرف ایک گناہ ہی نہیں، ایک روایتِ ظلم کو مضبوط کرتے ہیں۔

معاشرہ اسی دن بدلے گا جب ہم یہ سمجھنے لگیں گے کہ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے سے پہلے دوسروں کے حقوق ادا کرنا ضروری ہے۔
اور وہ دن واقعی انصاف کا دن ہوگا جب ہر بیٹی، ہر بہن اور ہر خاتون اپنے حصے کی مالک بن سکے گی—وہ حصہ جو اللہ نے اس کے لیے لکھا ہے، جو کسی روایت یا مردانہ انا سے کم نہیں کیا جاسکتا۔

اگر ہم یہ قدم آج اٹھائیں تو ممکن ہے کہ آنے والی نسلیں ہمیں ظالم نہیں بلکہ منصف کے طور پر یاد کریں۔

مصنف کا نوٹ: " میں نے اس ظلم اور نا انصافی کو اپنے خاندان میں دیکھا ہے جو تا حال جاری ہے"
تحریر: خواجہ کبیر احمد
JKTV Jammu Kashmir TV

30/11/2025
https://www.facebook.com/share/p/1AMJ7o4Kxy/
01/11/2025

https://www.facebook.com/share/p/1AMJ7o4Kxy/

حقِ حکمرانی کی جستجو ! جمہوری اصولوں سے عوامی اختیار تک
تحریر: خواجہ کبیر احمد
(پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر کے تناظر میں)

دنیا کے ہر خطے میں انسانی معاشروں کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ اپنی زندگی کے فیصلوں میں کس حد تک شریک ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے تناظر میں یہ سوال اور بھی اہم ہو جاتا ہے، کیونکہ یہاں کے سیاسی اور آئینی ڈھانچے میں عوامی شمولیت اور حقیقی اختیار کی بحث طویل عرصے سے جاری ہے۔ جمہوریت محض ایک سیاسی نظام نہیں بلکہ ایک سماجی معاہدہ ہے جس میں ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ یہ اعتماد اس وقت مضبوط ہوتا ہے جب اظہارِ رائے کی آزادی، اداروں کی خود مختاری اور شفافیت جیسے اصولوں کو صرف دعووں کی حد تک نہیں بلکہ عملی سطح پر نافذ کیا جائے۔ جب شہریوں کو یہ یقین ہو کہ ان کی آواز سنی جاتی ہے، ان کا ووٹ معنی رکھتا ہے، اور ان کے فیصلے ان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، تو جمہوریت ایک زندہ اور متحرک نظام کے طور پر ابھرتی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جمہوری عمل کی مضبوطی کے لیے سب سے پہلے انتخابی نظام کی شفافیت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ آزاد اور خود مختار انتخابی کمیشن، درست ووٹر فہرستیں، غیر جانب دار نگرانی اور عوامی آگاہی وہ عناصر ہیں جو انتخابی اعتماد کو مضبوط کرتے ہیں۔ جب لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا ووٹ کسی مخصوص طبقے یا مفاد کے لیے نہیں بلکہ اجتماعی بھلائی کے لیے مؤثر ہے تو وہ سیاسی عمل کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ بصورت دیگر، بے یقینی اور بدگمانی عوام کو جمہوری عمل سے دور کر دیتی ہے۔جیسا کہ حالیہ برسوں میں ہوا۔یقینأ جمہوریت کی اصل روح صرف ووٹ ڈالنے میں نہیں بلکہ اس یقین میں ہے کہ وہ ووٹ واقعی کسی مثبت تبدیلی کا محرک بن سکتا ہے۔

حقیقی جمہوریت صرف سیاسی نمائندگی تک محدود نہیں بلکہ معاشی اختیار کے بغیر نامکمل رہتی ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں وسائل پر مقامی کنٹرول کا سوال طویل عرصے سے اٹھایا جا رہا ہے۔ پانی، جنگلات، معدنیات اور توانائی جیسے وسائل اگر مقامی سطح پر شفاف انداز میں منظم کیے جائیں تو یہ نہ صرف معاشی انصاف کو فروغ دیتے ہیں بلکہ عوامی اعتماد کو بھی مضبوط بناتے ہیں۔ جب کسی خطے کے لوگ اپنی زمین اور وسائل کے بارے میں خود فیصلے کرتے ہیں تو وہ صرف ان کے مالک نہیں بلکہ اپنے مستقبل کے ضامن بھی بن جاتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس کی کامیاب مثالیں موجود ہیں جہاں حکومتیں آمدنی کا ایک حصہ براہِ راست اپنی عوام کی فلاح پر خرچ کرتی ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے لیے بھی یہی راستہ پائیدار ترقی اور خود انحصاری کی ضمانت بن سکتا ہے۔

آئینی اور قانونی دائرہ کار میں حقِ حکمرانی کے اصولوں کو مزید واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کا آئینی ڈھانچہ تاریخی پس منظر رکھتا ہے اور تنازعہ کشمیر کے تناظر میں اس کی حیثیت منفرد ہے، مگر اس کا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ یہاں کے عوام کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنایا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون میں عوام کی خود ارادیت کو بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا ہے، مگر اس حق کا مفہوم انتشار نہیں بلکہ شمولیت ہے۔ آئینی اداروں کی خود مختاری، قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ سے ہی اس خطے میں خود ارادیت کے اصول کو عملی معنوں میں پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔

جہاں سیاسی ادارے کمزور ہوں یا عوام کا اعتماد مجروح ہو جائے، وہاں سول سوسائٹی امید کی کرن بن جاتی ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں سماجی تنظیمیں، تعلیمی ادارے، صحافی، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکن معاشرے میں مکالمے اور مفاہمت کی فضا قائم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ وہ قوت ہے جو ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کا پل بن سکتی ہے۔ امن ہمیشہ طاقت یا بندوق سے نہیں بلکہ انصاف، احترام اور بات چیت سے قائم ہوتا ہے۔ اگر ریاستی ادارے عوامی نمائندوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ کھلے مکالمے کا ماحول پیدا کریں تو اختلافات کے بجائے اتفاقِ رائے اور تعاون کی فضا پروان چڑھ سکتی ہے۔

جمہوری اقدار کو سمجھنے اور مضبوط کرنے کے لیے علم اور مطالعہ کی اہمیت بنیادی ہے۔ تعلیمی ادارے اور تحقیقی مراکز اگر حکمرانی، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ دیں تو عوامی شعور میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی ادارے جیسے اقوامِ متحدہ کا ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے جمہوریت و انتخابی معاونت (آئی ڈی ای اے) اس حوالے سے رہنمائی فراہم کرتے ہیں جس سے مقامی نظام استفادہ کر سکتا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں تعلیمی اور فکری اداروں کو چاہیے کہ وہ ان تجربات سے سیکھ کر اپنی جمہوری روایت کو مضبوط بنائیں۔

بالآخر بات اسی نکتے پر آتی ہے کہ جمہوریت کوئی وقتی یا رسمی نظام نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد ہے۔ عوامی شعور، ادارہ جاتی شفافیت، مساوی مواقع اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وہ ستون ہیں جن پر حقِ حکمرانی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ جب لوگ اپنے مستقبل کے فیصلے خود کرنے کے قابل ہوں، اپنے وسائل پر حق جتا سکیں، اور اپنی زندگی کے تعین میں حقیقی شریک بن جائیں تو یہی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ اختیار کا مفہوم یہی ہے کہ انسان اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھوں سے کرے، وقار کے ساتھ، امن کے ساتھ، اور انصاف کے ساتھ۔

ریاست جموں و کشمیر کی محنت کش خواتین: جدوجہد، قربانیاں اور کردارتحریر: خواجہ کبیر احمدریاست جموں و کشمیر کی خواتین ہمیشہ...
25/03/2025

ریاست جموں و کشمیر کی محنت کش خواتین: جدوجہد، قربانیاں اور کردار

تحریر: خواجہ کبیر احمد

ریاست جموں و کشمیر کی خواتین ہمیشہ سے حوصلہ، بہادری اور محنت کی علامت رہی ہیں۔ وہ نہ صرف گھریلو ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتی ہیں بلکہ زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں۔ چاہے آزادی کی تحریک ہو، عوامی حقوق کی جدوجہد ہو یا بیرونِ ملک محنت مزدوری، کشمیری خواتین نے ہمیشہ خود کو باہمت، محنتی اور باصلاحیت ثابت کیا ہے۔بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کے دوران کشمیری خواتین نے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے شوہروں، بیٹوں اور بھائیوں کی شہادتوں پر صبر کا مظاہرہ کرتی رہیں بلکہ خود بھی اس تحریک میں متحرک کردار ادا کیا۔ بھارتی فورسز کے ظلم و جبر کے باوجود کشمیری خواتین نے اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا ترک نہیں کیا۔انہوں نے احتجاجی مظاہروں، تحریکوں اور آزادی کے نعروں میں اپنی موجودگی کو یقینی بنایا۔ پیلٹ گنز کے زخم ہوں یا جبری گمشدگیوں کا دکھ، کشمیری خواتین نے ہر مصیبت کا سامنا بڑی جرات سے کیا۔ وہ ظالم قوتوں کے خلاف ہمیشہ ڈٹی رہیں اور اپنے عزم کو کبھی متزلزل نہیں ہونے دیا۔پاکستان کے زیرِ انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی خواتین نے بھی ہمیشہ ہمت و جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔ حالیہ عوامی حقوق کی تحریک میں بھی ان کا کردار نمایاں رہا، جس نے ثابت کیا کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کر سکتی ہیں۔یہاں کی خواتین نے تعلیم، روزگار اور معاشرتی ترقی کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ وہ ہر اس موقع پر کھڑی ہوئیں جہاں قوم کو ان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آج آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں خواتین ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، بینکرز، وکیل، صحافی اور دیگر شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں، جو ان کی قابلیت اور عزم کا واضح ثبوت ہے۔اگر بیرونِ ملک مقیم کشمیریوں کی بات کی جائے تو وہاں بھی خواتین کسی سے پیچھے نہیں۔ برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، متحدہ عرب امارات اور یورپ کے دیگر ممالک میں کشمیری خواتین سخت محنت طلب ملازمتوں سے وابستہ ہیں۔ خاص طور پر برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا میں وہ روزانہ بارہ بارہ گھنٹے کی شفٹوں میں کام کرتی ہیں اور ساتھ ہی اپنے گھر، بچوں اور مشرقی روایات کو بھی برقرار رکھتی ہیں۔یہ خواتین گھریلو امور میں مہارت کے ساتھ ساتھ پروفیشنل زندگی میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔ میڈیکل، نرسنگ، تدریس، بزنس، آئی ٹی، انجینئرنگ، اور دیگر شعبوں میں کشمیری خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ وہ نہ صرف مالی طور پر خودمختار ہو رہی ہیں بلکہ اپنے خاندان کی بہتر پرورش کے لیے بھی دن رات کوشاں ہیںریاست جموں و کشمیر کی خواتین ہر شعبۂ زندگی میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، بینکر، ٹیچر، وکیل، صنعتکار اور فیکٹری ورکرز کے طور پر اپنی صلاحیتوں کو منوا رہی ہیں۔ کوئی ایسا میدان نہیں جہاں کشمیری خواتین نے اپنی قابلیت کا ثبوت نہ دیا ہو۔ان کی جدوجہد کسی ایک دور یا خطے تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑنے والی، اپنے خاندان کی کفالت کرنے والی، اور ہر طرح کے حالات میں ثابت قدم رہنے والی خواتین ہیں۔ چاہے وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کے خلاف مزاحمت کر رہی ہوں، آزاد کشمیر میں اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہوں یا بیرون ملک اپنی محنت سے اپنا مقام بنا رہی ہوں، ہر جگہ ان کی بہادری اور محنت کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔یہ کہنا بجا ہوگا کہ کشمیری خواتین دنیا کی کسی بھی قوم کی خواتین سے کم نہیں۔ ان کی ہمت، حوصلہ اور قربانیاں تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھی جائیں گی۔ ان کی محنت، جرات اور عزم پوری کشمیری قوم کے لیے فخر کا باعث ہیں اور وہ ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھار کر ایک روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہیں۔

Address

Nottingham
NG76PG

Telephone

+447947931757

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Khawaja Kabir Ahmed offical posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Khawaja Kabir Ahmed offical:

Share