Path TV

Path TV HD Islamic TV channel

طریقت اور شریعتطریقت تابع و خادمِ شریعت ہے۔کمالاتِ شریعت احوال و مشاہدات پر مقدم ہیں۔ایک حکمِ شرعی پر عمل ہزار سالہ ریاض...
27/10/2024

طریقت اور شریعت
طریقت تابع و خادمِ شریعت ہے۔
کمالاتِ شریعت احوال و مشاہدات پر مقدم ہیں۔
ایک حکمِ شرعی پر عمل ہزار سالہ ریاضت سے زیادہ نافع ہے۔
اتباعِ سُنت میں خوابِ نیم روز (قیلولہ) احیائے لیل (شب بیداری) سے افضل ہے۔
حلّت و حُرمت میں صوفیاء کا عمل سند نہیں، کتاب و سنت اور فقہ کی دلیل چاہیے۔
اہلِ ضلالت کی ریاضتیں موجبِ قرب نہیں باعثِ بُعد ہیں۔
صور و اشکال غیبی داخلِ لہو لعب ہیں۔
تکلیفِ شرعی کبھی ساقط نہیں ہوتی۔
(حضرت مجدد الف ثانی۔تاریخِ دعوت و عزیمت، جلد ۴ ص ۲۴۵)

10/07/2024
Alhamdo Lillah. The book “Freemasons and Dajjal” is available on kindle now. As you know it stands unchallenged for the ...
29/06/2024

Alhamdo Lillah. The book “Freemasons and Dajjal” is available on kindle now. As you know it stands unchallenged for the last 24 years which establishes the absolute facts stated in it. It has been a long struggle to get to this international platform considering the hazards installed by the very society.
We need your support to spread the message farther and wider. Please purchase, promote and encourage others to buy it. JazakAllah.

https://amzn.eu/d/0eIdjTbC

25/06/2024

Real meanings of Man Kuntu Molah o من کنت مولاہ۔۔

*بسلسلہ یو م شہادت 18ذی الحج*حصہ دوم:خلیفہ سوم،پیکر جودوسخا،جامع القرآن، ناشر القرآن،  دوہرے داماد رسول ﷺ*🌹سیدنا حضرت عث...
23/06/2024

*بسلسلہ یو م شہادت 18ذی الحج*
حصہ دوم:

خلیفہ سوم،پیکر جودوسخا،جامع القرآن، ناشر القرآن، دوہرے داماد رسول ﷺ

*🌹سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کےفضائل ومناقب، سیرت وکردار اورفتوحات🌹*

*تحریر: مولانا مجیب الرحمن انقلابی
مبارک سے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ”ماضرّ عثمان ما عمل بعد ہذا الیوم“ آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا.....
حضرت سعید ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اوّل شب سے طلوع فجر تک ہاتھ اٹھا کر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کیلئے دُعا فرماتے رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے! اے اللہ میں عثمانؓ سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ! اے عثمان اللہ تعالیٰ نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں جو تجھ سے ہوچکے یا قیامت تک ہونگے۔ ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اتنا ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغل مبارک ظاہر ہو جائے مگر عثمانِ غنی ؓ کیلئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے تھے تو بغل مبارک ظاہر ہوجاتی تھی۔
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ ایک مدت تک ”کتابتِ وحی“ جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے... اس کے علاوہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط وغیرہ بھی لکھا کرتے تھے، حضرت عثمان غنیؓ کی یہ حالت تھی کہ رات کو بہت تھوڑی دیر کیلئے سوتے تھے اور تقریباً تمام رات نماز وعبادت میں مصروف رہتے، آپؓ ”صائم الدہر“ تھے، سوائے ایام ممنوعہ کے کسی دن روزہ کا ناغہ نہ ہوتا تھا، جس روز آپؓ آدمی تک رسائی، ظلم و جور سے نفرت، زیادتی اور تجاوز سے دوری آپؓ کے شاہکار کارناموں میں شامل ہے، آپ ؓ کے پہلے چھ سال فتوحات و کامیابی و کامرانی کے ایسے عنوان سے عبارت ہیں کہ جس پر اسلام کی پوری تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔
خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی کو مصر کے بلوائی شہید کرنے کے در پے تھے اور تقریباً ساڑھے سات سو بلوائیوں نے ایک خط کا بہانہ بنا کر ملک میں بد امنی بیدا کر کے مدینہ منورہ پر قبضہ کر لیا.... اس دوران سیدناحضرت علی المرتضیٰؓ اور دیکر صحابہ کرامؓ نے باغیوں کا سر کاٹنے کی اجازت چاہی تو آپؓ نے اجازت دینے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ! مجھ سے یہ نہ ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہو اور خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا خون بہاؤں..... مدینہ منورہ میں بلوائیوں نے بغاوت کا ایک ایسا وقت طے کیا کہ جب مدینہ منورہ کے تمام لوگ حج پر گئے ہوں اور صرف چند افراد یہاں ہوں..... تاکہ ایسے وقت میں امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کو خلافت سے دستبرار کر واکر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے اسلام کی پر شکوہ ”قصرِ خلافت“ کو مسمار کرتے ہوئے، حضور اقدص صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کو آگ و خون میں مبتلا کر کے اسلام کی مرکز یت کو پارہ پارہ کر دیا جائے۔
ایک موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ! اے عثمان! اللہ تعالیٰ تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے، جب منافق اس خلافت کی قمیص کو اتارنے کی کوشش کریں تو اس کو مت اتارنا یہاں تک کہ مجھے آملو (شہید ہو جاؤ) چنانچہ آخری وقت میں جب باغیوں اور منافقوں نے آپؓ کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ! مجھ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا تھا(منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کرینگے تم نہ اتارنا) چنانچہ میں اس عہد پرقائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں، 35ھ ذیقعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے آپ ؓکے گھر کا محاصرہ کیا..... حافظ عماد الدین نے ”البدایہ والنہایہ“ میں لکھا ہے کہ باغیوں کی شورش میں حضرت عثمان غنیؓ نے صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا..... محاصرہ دوران چالیس روز تک آپؓ کا کھانا اور پانی باغیوں نے بند کر دیا اور 18ذوالحجہ کو چالیس روز سے بھوکے پیا سے 82 سالہ مظلوم مدینہ،دوہرے داماد رسول ﷺ، خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی ؓ کو جمعہ المبارک کے روز، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے روزہ کی حالت میں انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ نے12 دن کم 12سال تک 44 لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطہ پر اسلامی سلطنت قائم کرنے اور نظام خلافت کو چلانے کے بعد جام شہادت نوش کیا۔ رضی اللہ عنہ

*بسلسلہ یو م شہادت 18ذی الحج*حصہ اوّل:خلیفہ سوم،پیکر جودوسخا،جامع القرآن، ناشر القرآن،  دوہرے داماد رسول ﷺ*🌹سیدنا حضرت ع...
23/06/2024

*بسلسلہ یو م شہادت 18ذی الحج*
حصہ اوّل:

خلیفہ سوم،پیکر جودوسخا،جامع القرآن، ناشر القرآن، دوہرے داماد رسول ﷺ

*🌹سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کےفضائل ومناقب، سیرت وکردار اورفتوحات🌹*

*تحریر: مولانا مجیب الرحمن انقلابی*

خلیفہ سوم، پیکر جود و سخا،دوہرے داماد رسول ﷺ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار جنت کی بشارت دی اور آپ رضی اللہ عنہ کو ”عشرہ مبشرہ“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں حضرت سیدہ رقیہؓ اور حضرت سیدہ ام کلثوم ؓ کے ساتھ یکے بعد دیگرے نکاح کی وجہ سے حضرت عثمان عنیؓ کو ”ذوالنورین“ بھی کہا جاتا ہے۔
آپ ؓ نے خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی دعوت پر اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو ”نورِایمان“ سے منور کیا، طبقات ابن سعد کے مطابق آپؓ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں جس کی وجہ سے آپ ؓ ”السابقون الاوّلون“ کی فہرست میں بھی شامل ہیں، آپ ؓ حافظ قرآن، جامع القرآن اور ناشر القرآن بھی ہیں، ایک موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ایک ساتھی و رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی جنت میں عثمان غنیؓ ہوگا۔
امام مسلمؒ اور امام بخاری ؒ نے ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت عثمان غنی ؓ ہمارے پاس آتے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لباس درست فرمالیتے اور فرماتے تھے کہ میں اس (عثمان غنیؓ) سے کس طرح حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
اسلام کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کرنے کی وجہ سے آپؓ کا لقب ”ذوالہجرتین“ بھی ہے آپ ؓ کا ظاہری حسن دو عظیم المرتبہ انبیاء کرام سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ا ور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھا۔
آپؓ کا نام عثمان اور لقب ذوالنورین ہے، آپؓ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سفید رنگ، خوبصورت و با وجاہت اور متوازن قدو قامت کے مالک تھے، گھنی داڑھی ارو دراز زلفوں کی وجہ سے سیدنا عثمان غنی ؓ جب لباس زیب تن کر کے ”عمامہ“ سے مزّین ہوتے تو انتہائی خوبصورت معلوم ہوتے اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ساتھ اپنی ثروت و سخاوت میں مشہور اور ”شرم وحیا“ کی صفت میں بے مثال تھے۔
شروع ہی سے بڑے پیمانے پر تجارت کی بدولت آپ ؓ کا شمار ”صاحب ثروت“ لوگوں میں ہوتا تھا، آپ ؓ عمدہ لباس اور لذیذ و نفیس غذاؤں کے عادی تھے لیکن اس سب کے باوجود آپؓ کی طرزِ زندگی سادگی سے عبارت تھی، رہن سہن، اخلاق واطوار اور کردار میں آپ ؓ کا ہر کام ”سنت نبوی ﷺ“سے ہی آراستہ و مزین ہوتا، ایک مرتبہ وضوء سے فارغ ہوکر مسکرائے تو لوگوں نے اس موقعہ پر مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تو آپؓ نے فرمایا کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضوء کے بعد اسی طرح مسکراتے ہوئے دیکھا ہے۔
امامِ ترمذی، ؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ”بیعتِ رضوان“ کے موقعہ پر سیدنا عثمان غنیؓ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ”سفیر“ بن کر مکہ گئے تھے کہ خبر مشہور ہوگئی کہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ شہید کر دیئے گئے..... حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کا بدلہ لینے کیلئے میرے ہاتھ پر بیعت کریگا، اس وقت تقریباً چودہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت عثمان غنیؓ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک پر ”موت کی بیعت“ کی اس موقعہ پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ ”بیعت“ عثمانؓ کی طرف سے ہے اس بیعت کا نام بیعت رضوان اور ”بیعت شجرہ“ ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے”بیعت رضوان“کرنے والوں سے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرمایا ہے۔
حضرسیدہ رقیہؓ کی وفات کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی حضرت سیدہ امّ کلثوم ؓ کا نکاح بھی سیدنا عثمان غنیؓ سے کر دیا اس موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جبرائیل امین علیہ السلام ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں اپنی دوسری بیٹی (ام کلثومؓ) کا نکاح بھی آپؓ (عثمانؓ) سے کردوں دوسری بیٹی سیدہ حضرت ام کلثومؓ کی وفات کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں اور ایک روایت کے مطابق حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری سو بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے ان کو سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے نکاح میں دیتا رہتا......
جنگ تبوک کے موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس جنگ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی.... اس موقعہ پر صدق و وفاء کے پیکر خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گھر کا تمام سامان، مال و اسباب اور خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ نے نصف مال لاکر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں نچھاور کر دیا، ایک روایت کے مطابق اس موقعہ پر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں جنگ تبوک کیلئے اللہ کے راستہ میں دیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت سے اس قدر خوش تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم

*حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور تاریخی حقائق* امیر معاویہ کسی دوسری قوم میں ہوتے تو تاریخ میں بہت الگ طرح سے جگمگاتے....
15/06/2024

*حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور تاریخی حقائق*

امیر معاویہ کسی دوسری قوم میں ہوتے تو تاریخ میں بہت الگ طرح سے جگمگاتے. ہم نے تو انہیں صرف یزید کا باپ بنا کر رکھ دیا ہے.

سیدنا امیر معاویہ بدر، احد اور خندق میں مشرکین کی طرف سے شریک نہیں ہوئے تھے. حالانکہ کے بدر کے وقت ان کی عمر انیس سال، احد کے وقت بیس سال اور خندق کے وقت چوبیس سال تھی. یہ وہ عمر ہوتی تھی جب عرب کے جوان جنگوں میں شوق سے شریک ہوتے تھے.

سیدنا امیر معاویہ قریش کے ان سترہ لوگوں میں تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے. اس کے باوجود صلح حدیبیہ میں مشرکین کی طرف سے کسی بھی معاملے یا لکھت پڑھت میں شریک نہیں ہوئے.

کاتبِ وحی اور کاتبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مختلف بادشاہوں کو بھیجنے کے لیے خطوط لکھوائے.

اہل حدیثوں کے ہاں جو ایک رکعت وتر پڑھنے کی روایت ہے وہ سیدنا امیر معاویہ سے ملتی ہے. اس پہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ثابت ہے کہ معاویہ فقہیہ ہیں اگر معاویہ اس طرح پڑھ رہے ہیں تو یقیناً ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے فعل ہوگا.

آپ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں گورنر شام رہے ہیں بلکہ آپ نے بائیس سال تک گورنری کی. حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں آپ سب سے کامیاب ترین سپہ سالار اور فاتح رہے ہیں. آپ نے قبرص فتح کیا جو یورپ اور مصر کی فتوحات کا دروازہ بنا.

حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں آپ ہی زیرِ نگرانی مسلمانوں کا پہلا بحری بیڑہ تیار ہوا اور پھر مسلم فتوحات کا دراز اور سنہرا سلسلہ شروع ہوا.

آپ نے چوبیس سال تک تقریباً چونسٹھ لاکھ مربع میل پہ حکومت کی ہے. آپ نے خوارج سے مقابلہ کیا. جنگ یمامہ میں شریک ہوئے. ان کے دور حکومت میں قلات، قندھار، مکران، سجستان، رقہ، سوڈان، افریقہ، طرابلس، الجزائر اور سندھ کے بعض حصے فتح کیے گئے. ان کا دور اسلامی خلافت کا سنہرا ترین دور تھا. ان کے زمانہ میں کوئی علاقہ سلطنتِ اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا، بلکہ اسلامی سلطنت کا رقبہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا. سیدنا معاویہ کے دور میں تقریباً بائیس لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ مسلمان کے زیرِ نگین آگیا. ان ہی کے دور میں قسطنطنیہ پہ پہلی اسلامی فوج کشی کی گئی اور سب سے پہلے منجنیق کا استعمال ہوا.

اس کے علاوہ نہری نظام، ڈاک خانے، اقامتی اسپتال، جہاز سازی کے کارخانے، علم طب اور جراحت کی تعلیم کا فروغ اور وہ سب کچھ جو ایک زیرک اور ہمدرد خلیفہ اپنے لوگوں کے لیے کرتا ہے، وہ سب کچھ ان کے دور میں ہوا.

جب بھی اسلامی تاریخ میں سیدنا امیر معاویہ کو پڑھا، یہی اندازہ ہوا کہ وہ بے پناہ سیاسی بصیرت اور انتظامی صلاحیتیں رکھتے تھے ورنہ ایسا انتظام سنبھالنا اور اتنی فتوحات کرنا اور اس پہ اپنے دور میں ایک انچ زمین بھی اپنے قبضے سے نہ جانے دینا کسی عام صلاحیت رکھنے والے امیر یا حکمران کے بس کی بات نہیں تھی.

ایک اور بات جس نے میری توجہ کھینچ لی وہ یہ کہ میرے پسندیدہ ترین صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سیدنا امیر معاویہ کو بطور گورنر کبھی تبدیل نہیں کیا. حالانکہ انہوں نے ان کے علاوہ سارے گورنر تبدیل کیے. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمر کو ان کی انتظامی صلاحیتوں اور مملکت کے لیے اخلاص پہ کس قدر بھروسہ تھا.

تعصبات کو پرے رکھ کر ہمیں حقائق کو جاننے کی ضرورت ہے کیونکہ حقدار کو اس کا حق ملنا چاہیے.۔۔۔
منقول

Masonic Initiation Freemasonry initiation rituals reveals a complex interplay of tradition, symbolism, and secrecy that ...
11/05/2024

Masonic Initiation
Freemasonry initiation rituals reveals a complex interplay of tradition, symbolism, and secrecy that has sparked both fascination and scrutiny throughout history. While proponents praise these rituals for fostering moral growth and fraternal bonds, critics argue that their secrecy and exclusivity can perpetuate elitism and reinforce outdated hierarchies.

One of the primary criticisms leveled against Freemasonry initiation is its secretive nature. The closed-door ceremonies and strict oaths of confidentiality have led to speculation and conspiracy theories, fueling distrust among those outside the fraternity. Critics argue that this secrecy fosters an atmosphere of exclusivity, potentially alienating individuals who are not privy to its inner workings.

Moreover, the hierarchical structure of Freemasonry initiation has drawn criticism for perpetuating elitism and favoritism. The progression through different degrees, each with its own set of rituals and teachings, can create a sense of hierarchy within the fraternity. Critics contend that this hierarchical structure may prioritize status and seniority over merit, undermining the egalitarian ideals espoused by Freemasonry.

Another point of contention is the symbolism employed in Freemasonry initiation rituals. While proponents argue that these symbols serve as powerful tools for moral and philosophical reflection, critics question their relevance in the modern world. Some argue that the archaic symbolism and allegorical teachings may be disconnected from contemporary values and experiences, potentially alienating younger generations.

Critics also raise concerns about the impact of Freemasonry initiation on individual autonomy and freedom of thought. The solemn oaths and obligations taken during the initiation process can be perceived as coercive, potentially limiting the freedom of candidates to question or dissent. This raises ethical questions about the extent to which individuals should be bound by ancient traditions and rituals.

Furthermore, the male-only membership policy of many Freemasonic lodges has drawn criticism for perpetuating gender discrimination. While some argue that the exclusion of women is essential to preserve the fraternity's traditions and rituals, others view it as an outdated practice that reinforces patriarchal norms and excludes half of the population from accessing its benefits.

In conclusion, while Freemasonry initiation rituals have endured for centuries and continue to attract members worldwide, they are not without controversy. The secrecy, exclusivity, and symbolism of these rituals have sparked criticism from various quarters, raising questions about their relevance, inclusivity, and ethical implications. As Freemasonry evolves in the modern era, it faces the challenge of balancing tradition with inclusivity, secrecy with transparency, and hierarchy with egalitarianism.

Q: How Freemasons covertly control the governments?A: Covert control refers to subtle or hidden manipulation tactics use...
06/05/2024

Q: How Freemasons covertly control the governments?
A: Covert control refers to subtle or hidden manipulation tactics used to influence or control someone's thoughts, feelings, or behaviors without their awareness. This can include tactics such as gaslighting, manipulation through guilt or fear, or subtle forms of emotional abuse.
A quote from one of the greatest novels of all times called “War and Peace” by Leo Tolstoy reveals the core of the control is to control the “Wisdom”:
“The whole plan of our order should be based on the idea of preparing men of firmness and virtue bound together by unity of conviction—aiming at the punishment of vise and folly, and patronizing talent and virtue: raising worthy men from the dust and attaching them to our Brotherhood. Only then will our order have the power unobtrusively to bind the hands of the protectors of disorder and to control them without their being aware of it. In a word, we must found a form of government holding universal sway, which should be diffused over the whole world without destroying the bonds of citizenship, and beside which all other governments can continue in their customary course and do everything except what impedes the great aim of our order, which is to obtain for virtue the victory over vise. This aim was that of Christianity itself. It taught men to be wise and good and for their own benefit to follow the example and instruction of the best and wisest men.” (War and Peace, Book 6, Chapter 7, 1808 - 10)
Many believe that Leo Tolstoy was not a Freemason. However, this core of the New World Order cannot be explained if a man didn’t have the “Knowledge”.

Q: What are the basic differences between Christianity and Islam?A: Christianity and Islam are two of the world's larges...
04/05/2024

Q: What are the basic differences between Christianity and Islam?
A: Christianity and Islam are two of the world's largest religions, and while they share some similarities, they also have significant differences.

1. **Beliefs about God**: Christians believe in the Holy Trinity—Father, Son (Jesus Christ), and Holy Spirit—whereas Muslims believe in the oneness of God (Allah) without any partners or associates.

2. **Scriptures**: Christians follow the Bible, which includes the Old Testament and the New Testament, while Muslims follow the Quran, which they believe to be the literal word of God as revealed to the Prophet Muhammad.

3. **Beliefs about Jesus**: Christians believe that Jesus is the Son of God and the savior of humanity, who was crucified and resurrected, while Muslims consider Jesus as a prophet, but not the Son of God, and they do not believe in his crucifixion or resurrection.

4. **Salvation**: Christians believe that salvation is through faith in Jesus Christ, while Muslims believe in faith, good deeds, and adherence to the teachings of Islam for salvation.

5. **Practices**: Christians practice sacraments such as baptism and communion, while Muslims practice the Five Pillars of Islam, which include professions of faith, prayer, fasting, charity, and pilgrimage.

These are just a few of the many differences between the two religions.

📌 عمل کا نام لے کر علم کی مخالفت کرنے والا گروہ:      📎(علم اصل ہے عمل اسکی شکل ہے)📃 علماء کی محنتیں اس لئے ہیں کہ وہ عل...
30/04/2024

📌 عمل کا نام لے کر علم کی مخالفت کرنے والا گروہ:
📎(علم اصل ہے عمل اسکی شکل ہے)
📃 علماء کی محنتیں اس لئے ہیں کہ وہ علم کو روشن کریں، تو یاد رکھئے کہ جو لوگ علم کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں اور آج کل کچھ نیک لوگوں کا بھی ایک گروپ پیدا ہو گیا ہے جو نیت کے لحاظ سے تو نیک ہیں مگر کہتے ہیں کہ علم پر جب تک عمل نہ ہو علم کچھ نہیں … ہم کہتے ہیں کہ عمل کی دعوت اور ترغیب ضرور دو مگر علم کی مخالفت نہ کرو، اس کی اہمیت نہ گھٹاؤ!
آنحضرتﷺ کے زمانے میں ایک شخص مسلمان ہونے کے لئے آیا، آپﷺ نے اسے مسلمان کیا، ابھی نماز کا وقت نہ ہوا تھا اور نہ اس نے اذان سنی تھی کہ ادھر لوگ کہیں ج ہ ا د کی تیاری کے لیے جا رہے تھے سو یہ بھی چلا گیا، اور پھر وہ اس ج ہ ا د میں ش ہ ا د ت بھی پا گیا۔ اس کو مسلمان ہوئے تھوڑا سا وقت گزرا تھا ابھی عمل کی نوبت نہ آئی تھی۔ آنحضرتﷺ کو جب یہ بات بتلائی تو آپ کے چہرہ انور پر ایک مسکراہٹ آئی اور آپ نے فرمایا اس کا عمل دیکھو تو کچھ بھی نہیں اور اس کا جو اجر دیکھو تو وہ بہت زیادہ ہے! وہ جنت میں چلا گیا!
تو یہ یاد رکھیں! کہ جسے اللہ تعالی کی معرفت کا صحیح علم آگیا وہ نجات یافتہ ہو گا۔ عمل تو اس علم کی تائید میں ہے۔
علم اصل ہے عمل اس کی شکل ہے:
میں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں کہ علم فلسفہ میں کسی چیز کا وجود دو چیزوں پر موجود ہوتا ہے ایک مادہ جس سے وہ بنا اور ایک اس کی شکل… یہ علم والے بتاتے ہیں کہ اس کی جو شکل ہے وہ بغیر مادے کے کبھی دیکھی نہیں گئی۔ آپ نے کسی مادے کے بغیر کبھی کوئی شکل دیکھی ہے؟ نہیں … جب آپ کہتے ہیں کہ فلاں انسان بہت خوبصورت ہے تو خوبصورتی اور زینت کسی جسم پر اتری ہے اگر جسم نہ ہوتا تو خوبصورتی کا کوئی وجود ہوتا!؟ … خوبصورتی عرض ہے اور جسم جوہر ہے۔ خوبصورت ایک شکل ہے اور وجود ایک مادہ ہے۔ تو شکل کا وجود اپنے طور پر کبھی کسی نے نہیں دیکھا ہے … نری شکل کسی نے دیکھی ہے؟
یاد رکھئے! کہ شکل جب بھی کبھی ظاہر ہوئی ہے تو وہ کسی وجود پر آکر ہوئی ہے … عرض نے جب بھی کبھی ظہور کیا تو کسی جوہر پر چھا کر کیا ہے … تو علم اصل ہے اور عمل کو یوں سمجھو جیسے شکل ہے… جو لوگ عمل کو مستقل درجہ دیتے ہیں علم کے برابر لا کر' یہ خارجی مذہب کی تحریک تھی اور آنحضرتﷺ نے ان کی خبر دی اور فرمایا کہ ایسے لوگ ہوں گے کہ جن کی نمازوں کو دیکھ کر تم اپنی نمازوں کو حقیر سمجھو گے، ان کی عبادت کو دیکھ کر تم اپنی عبادت کو کمتر سمجھو گے لیکن وہ لوگ اسلام سے ایسے نکل چکے ہوں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔
اس کی وجہ محدثین یہ لکھتے ہیں کہ ان کا عقیدہ یہ ہو گا کہ نجات عمل پر ہے علم پر نہیں، علم کے دشمن ہوں گے۔ یہ خارجی ہیں جن کا یہ عقیدہ ہے کہ مسلمان گناہ کبیرہ کرے تو کافر ہو جاتا ہے … ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کوئی بھی گناہ کرے وہ گنہ گار تو ہوتا ہے اس کی بڑی سے بڑی سزا ہے لیکن ہے پھر بھی وہ مسلمان' جب تک کہ وہ اسلام کے کسی قطعی امر کا انکار نہ کرے!

🎙️ حجۃالاسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ
📙 ازالۃ التفاخر من سورۃ التکاثر، صفحہ: 93-92
📍بزم علامہ خالد محمودؒ یوکے و یورپ

شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں سے نبی اکرم صلی اﷲ عليہ وسلم کی چار صاحبزادیوں کا ثبوتحصہ دومان خدیجة رحمھا اﷲ و لدت منی طاہر ...
29/04/2024

شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں سے نبی اکرم صلی اﷲ عليہ وسلم کی چار صاحبزادیوں کا ثبوت
حصہ دوم

ان خدیجة رحمھا اﷲ و لدت منی طاہر اوھو عبد اﷲ و ھو المطھر و ولدت منی القاسم وفاطمة ورقیة وام کلثوم وزینب (کتاب الخصال للصدوق ص375)

ترجمہ: یعنی (رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا) اﷲ تعالی خدیجہ پر رحم فرمائے کہ اس کے بطن سے میری اولاد ہوئی طاہر جس کو عبد اﷲ کہتے ہیں اور وہی مطہر ہے اور خدیجہ سے ميرے ہاں قاسم ، فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم او زینب پیدا ہوئيں۔

نمبر4: انوار نعمانیہ کا حوالہ

گیارہویںصدی ہجری کے شیعوں کے جلیل القدر محدث سید نعمت اﷲ الجزائری اپنی معر ف کتاب ” انوار النعمانیة“ میں ذکر کرتے ہیں کہ

انما ولدت لہ ابنان واربع بنات زینب ورقیة وام کلثوم وفاطمة۔

ترجمہ:حضرت خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا سے نبی اقدس ﷺ کے ہاں دو صاحبزداے اور چار صاحبزدایاں پیدا ہوئیں ايک زینب دوسری رقیہ تیسری ام کلثوم اور چوتھے نمبر پر فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنھن۔

نمبر 5: حیات القلوب کا حوالہ

در حدیث معتبر از امام جعفر صادق منقول است
خدیجہ او را خدا رحمت کند۔۔۔ زمن طاہر و مطہرہ بہم رسانید کہ او عبداللہ بود و قاسم را آورد۔ و رقیہ و فاطمہ و زینب و ام کلثوم بہم رسید۔
ترجمہ: امام جعفر صادق سے مستند حدیث میں نقل کیا گیا ہے:-
خدیجہ پر اللہ کی رحمت ہو ۔۔۔ انہوں نے میرے طاہر و مطہر بیٹوں قاسم و عبداللہ کو جنم دیا۔ نیز میری رقیہ و فاطمہ و زینب و ام کلثوم بھی ان کے بطن سے پیدا ہوئیں۔
ملا باقر مجلسی، حیات القلوب، ج ۲ باب ۵، ص ۱۸۲

فاعتبرو یا اولی الابصار

شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں سے نبی اکرم صلی اﷲ عليہ وسلم کی چار صاحبزادیوں کا ثبوتبسم اﷲ الرحمن الرحیم حصہ اول:آج کل کے شی...
29/04/2024

شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں سے نبی اکرم صلی اﷲ عليہ وسلم کی چار صاحبزادیوں کا ثبوت

بسم اﷲ الرحمن الرحیم حصہ اول:

آج کل کے شیعہ
نبی اکرم ﷺ کی اولاد شریف کے حق میں افراط و تفریط کرتے ہوئے آپ ﷺ کی صرف ايک صاحبزادی سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا کو حقیقی دختر شمار کرتے ہیں اور باقی تین صاحبزدایوں کو نبی اکرم ﷺ کے اولاد سے خارج گردانتے ہیں لطف کی بات يہ ہے کہ شیعہ مذہب کی ابتدائی بنیادی کتابوں میں واضح طور پرلکھا ہے کہ آپ ﷺ کی چار بیٹیاں ہیں لیکن ہم نہیں سمجھ سکے کہ شیعہ حضرات اپنے اکابر ومجتہدین سے ناراض کیوں ہیں؟؟؟

شیعہ مذہب کی بنیادی کتابیں چار ہیں۔ جنہیں ”صحاح اربعہ “کہا جاتا ہے۔

نمبر 1 : اصول کافی

نمبر2: من لا یحضر الفقیة

نمبر3: تہذيب الاحکام

نمبر4: الاستبصار

اس کے علاوہ حوالہ

نمبر 5: حیات القلوب
شیعوں کے انتہائی بڑے عالم اور مجتہد ملا باقر مجلسی کی کتاب حیات القلوب سے بھی حاضر ہے

نمبر 1 اصول کافی کا حوالہ

ان چار میں سے سب سے زیادہ اہمیت ”اصول کافی“ کو دیجاتی ہے اس کتاب کو لکھنے والے معروف شیعہ عالم ”ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی“ ہیں۔ علامہ کلینی 329ھ میں فوت ہوئے۔ چنانچہ محمد بن یعقوب کلینی نے اس کتاب کی ” کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ میں ذکر کیا ہے کہ

وتزوج الخدیجتہ وہو ابن بضع وعشرین سنتہ فولدہ منھاقبل مبعثہ القاسم ورقیة وزینب وام کلثوم وولدلہ بعد المبعث الطیب والطاہر وفاطمة علھا السلام (اصول کافی ص439 طبع بازار سلطانی تہران۔ایران)

ترجمہ:یعنی نبی اکرم ﷺ نے خدیجہ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر خدیجہ سے جناب کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ يہ ہے قاسم، رقیہ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد آپ ﷺ کی اولاد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔

قرائین کرام !! اصول کا فی جو اصول اربعہ کی نمبر1 کتاب ہے اس نے مسئلہ بالکل واشگاف الفاظ کے ساتھ واضح کر دیا کہ رسالت مآب ﷺ کی چار صاحبزادیاں ہیں اور چاروں صاحبزادیاں حضرت خدیجہ الکبری سے متولد ہیں اور پھر اصول کافی کے تمام تر شارحین نے اس کی تشریح اور توضیح عمدہ طریقے پر کر دی ہے مثلاً مرآة العقول شرح اصول جو علامہ باقر مجلسی نے لکھی ہے اور ” الصافی شرح کافی “ ملا خلیل قزوینی نے لکھی ہے انہوں نے اس روایت کو بالکل درست کہا ہے آج چودہویں صدی کے شیعہ علماءاپنی عوام کو ”بدھو بنانے کے غرض سے يہ کہہ کرجان چھڑا لےتے ہیں کہ يہ روایت ضعیف ہے مگر آج تک شیعہ برادری ضعف روایت کی معقول وجہ پیش نہیں کر سکی اور نہ قیامت تک کر سکتی ہے شیعہ حضرات کو سوچنا چاہيے کہ يہ مجتہدین انہیں اپنے اکابرین سے ”برگشتہ“ کر رہے ہیں اور محض اہل سنت والجماعت کے ساتھ تعصب کی بناءپر ”سفید کوے کی رٹ لگائے جا رہے ہیں“

نمبر2 : قرب الاسناد کاحوالہ

اب شیعہ مذہب کی دوسری کتاب کو حوالہ ملاحظہ ہو۔

مشہور شیعہ عالم ابو العباس عبداﷲ بن جعفری الحمیری اپنی کتاب ” قرب الاسناد“ میں لکھتے ہیں

ولد لرسول اﷲ من خدیجتہ القاسم والطاہر وام کلثوم رقیتہ وفاطمة وزینب وتزوج علی عليہ السلام فاطمة علیھا السلام وتزوج بن الربیع وھو من نبی امیتہ زینب وتزوج عثمان بن عفان ام کلثوم ولم یدخل بطا حتی ھلکت وزوجہ رسول اﷲ ﷺ کانھا رقیة (قرب الاسناد لابی العباس)

ترجمہ: کہ حضرت خدیجة الکبری ؓ سے جناب رسالت مآب ﷺ کی مندرجہ ذيل اولاد پیدا ہوئی ۔

القاسم، الطاہر۱ ،ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اوزینب ؓ علی علیہ السلام سے شادی کی اور نبو امیہ سے ابو العاص بن ربیع نے زینب کے ساتھ شادی کی اور عثمان بن عفان نے ام کلثوم کے ساتھ نکاح کیا ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ام کلثوم فو ت ہوگئیں پھر رسول اﷲ ﷺ نے اس کی جگہ رقیہ کا نکاح عثمان سے کر دیا۔

قارئین کرام !! اس روایت نے مسئلہ ہذا کو کھول کر بیان کر دیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حقیقی بیٹیاں چار ہی تھیں اور چاروں خدیجة الکبری کے بطن سے پیدا ہوئیں اور يہ اس کتاب کا حوالہ يہ جس کے مصنف کا دعوی ہے کہ میں جواب طلب مسئلہ ايک چٹھی پر لکھ کر درخت کی کھوہ میں رکھ دیتا تھا دو دن کے بعد جب جا کر ديکھتا تو اس پر امام غائب (شیعوں کے امام مہدی) کی مہر لگی ہوتی تھی چنانچہ حضرت شاہ عبد اﷲ العزیز محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کتاب کا اصل نام ”قرب الاسناد الی صاحب الامر“ ہے (تحفہ اثناعشریہ ص245)

ليجئے اب تو اس مسئلہ پر امام مہدی (جو شیعہ عقائد کے مطابق” روپوش“ ہیں اور قرب قیامت میں ظاہر ہونگے) اس کی مہر لگ گئی ہے نیز اسی کتاب کی اس روایت کو شیعہ مجتہدین نے اپنی اپنی تصا نیف میں بطور تائید نقل کیا ہے مثلاً علامہ باقر مجلسی نے حیات القلوب جلد نمبر2 ص718 میں اور شیخ عباس القمی نے ”منتھی الآمال جلد نمبر1 ص108 میں اور عبداﷲ مامقانی نے ” تنقیح المقال“ کے آخر میں تائیداً کا ذکر کیا ہے اب شیعہ حضرات خود فیصلہ صادر فرمائیں کہ ان کے سابق اکابر حضرات حق پر تھے یا يہ آج کل کے مجلس خوان ذاکر؟؟؟؟

نمبر3: کتاب الخصال کا حوالہ

شیعہ مذہب کے نہایث قابل اعتماد عالم شیخ صدوق ابن بابويہ القمی نے اپنی مايہ ناز کتاب ”کتاب الخصال“ کے ندر متعدد بار اس مسئلہ کو اٹھایا ہے چنانچہ ايک مقام پر قول نبی ﷺ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

Dua after Namaz The question I want to propose which has been bugging me is that: Making dua after salah in a jama’ah is...
02/04/2024

Dua after Namaz
The question I want to propose which has been bugging me is that: Making dua after salah in a jama’ah is this bid’a? Because according to some people Muhammad SAW never did dua in a jama’ah and I am confused in this matter.
ANSWER
In the name of Allah, Most Compassionate, Most Merciful,
The answer to this question will be given in three parts. The first deals with supplicating (dua) after obligatory (fard) prayers, the second looks at raising the hands whilst supplicating and the third part discusses the issue of supplicating collectively (in Jama’ah).
As far as the first issue is concerned, which is to supplicate after the Fard prayers, it is an established fact that to supplicate and make Dua after the various Fard prayers is an act of Sunnah. This was the practise of the blessed Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace), his Companions (Allah be pleased with them) and the pious predecessors (Allah have mercy on them).
Some evidences in this regard:
1) Abu Umama al-Bahili (Allah be pleased with him) narrates: The Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) was asked as to which supplication (dua) was most quickly accepted? He replied: “In the middle of the night and after the obligatory (fard) prayers.” (Sunan Tirmidhi, 5/188 with a sound (hasan) chain of transmission).
2) Mughira ibn Shu’ba (Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) used to supplicate three times after every prayer. (Recorded by Imam al-Bukhari in his Tarikh al-Awsat)
3) Thawban (Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace), after completing his prayer, used to seek forgiveness from Allah thrice and say: “O Allah! You are peace, from you is peace, You are exalted through Yourself above all else, O Majesty and Beneficence.” (Sahih Muslim, 5/89)
4) Mughira ibn Shu’ba (Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace), used to say after completing his prayer: “There is no god but Allah, alone without partner. His is the dominion, His is the praise, and He has power over all things. O Allah, none can withhold what You bestow, none can bestow what You withhold, and the fortune of the fortune avails nothing against You.” (Sahih al-Bukhari, 11/133 & Sahih Muslim, 5/90)
5) Muadh ibn Jabal (Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) said to him: “I advise you O Muadh that you don’t leave the following words after every prayer: “O Allah, assist me in remembering you, showing gratitude to you and worshipping you in a good manner.” (Sunan Abu Dawud, 2/115 & Sunan Nasa’i, 3/53)
The above are just some of the narrations that encourage supplicating to Allah after prayers, both obligatory and optional. There are many other such narrations which I have refrained from mentioning, as not to prolong this article.
Raising the hands whilst supplicating
Raising the hands whilst supplicating is also a Sunnah of our beloved Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace). There are general narrations that indicate that the hands should be raised whilst supplicating, and then there are narrations that specifically relate to raising the hands whilst supplicating after prayers.
Some general narrations:
1) Ali ibn Abi Talib (Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) said: “Raising the hands (whilst supplicating) is from the humbleness, regarding which Allah Most High said: “We inflicted punishment on them, but they humbled not themselves to their lord, nor do they submissively entreat.” (Sunan al-Bayhaqi & Mustadrak al-Hakim)
2) Salman (Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) said: “Verily Allah is inhibited and too beneficent that when an individual raises his hands, He rejects them empty and deprived.” (Sunan Abu Dawud, 2/1105 & Sunan Tirmidhi, 5/217)
3) Malik ibn Yasar (Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) said: “When you ask Allah, ask Him with the palm of your hands, and don’t ask Him with the back of the hands.” (Sunan Abu Dawud, 2/104, & Musnad Ahmad with a authentic (sahih) chain of transmission)
4) Umar ibn al-Khattab (Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace), when he used to raise his hands in supplication, he did not place then down until he wiped his face with them.” (Sunan Tirmizi, 5/131)
Narrations specific to raising the hands whilst supplicating after prayer:
1) Anas ibn Malik (Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) said: “There is not a servant of Allah who raises his hands after prayer, then says: O Allah, my Lord, Lord of Ibrahim, Lord of Ishaq, Lord of Ya’qub, Lord of Jibril, Lord of Mika’il, Lord of Israfil, I ask You that answer my prayer………….except that Allah takes it upon himself not to reject his (raising) of hands empty.” (Recorded by Ibn Sunni in his Amal al-Yawm wa al-Layla, P. 38)
2) Abdullah ibn Zubayr (Allah be pleased with him) saw a person raising his hands and supplicating before he completed his prayer. When he ended his prayer, he said to him: “The Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) never used to raise his hands until after completing his prayer.” (Recorded by Tabrani in his al-Mu’jam, and authenticated by al-Haythami in Majma’ al-Zawaid)
3) Abu Huraira (Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) raised his hands after making salam, and then whilst facing in the direction of the Qiblah, he said: “O Allah, …. liberate the weak Muslims from the hands of the non-believers.” (Recorded by Ibn Abi Hatim & Imam Ibn Kathir in his Tafsir)
4) Abu Wada’ah (Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) said: “The (optional) prayer of the night should be performed in sets of two Rak’ats, meaning you recite the Tashahhud after every two Rak’ah, express devotion and humility in your supplication, raise your hands and say: “O Allah, forgive me”. Whosoever fails to do so, his prayer will be incomplete.” (Sunan Abu Dawud, 2/40 & Sunan Ibn Majah, 1/419)
There are many narrations that relate to the raising of hands whilst supplicating, both general and specifically after prayers. The great Jurist, Hadith expert and scholar, Imam al-Suyuti (Allah have mercy on him) mentions in his Tadrib al-Rawi that there are approximately 100 narrations with regards to raising the hands whilst supplicating, even though they concern separate incidents, thus reaching the level of certainty (Tawatur bi al-Ma’na). (See: Tadrib al-Rawi, P. 461)
Supplicating collectively
Supplicating collectively is also not foreign to the Qur’an and Sunnah. There are many proofs for the collective dua in the Qur’an and Sunnah, both inside and outside Salat.
1) Allah Most High said to Sayyiduna Musa and Sayyiduna Harun (peace be upon both of them):
“Accepted is your prayer (O Musa and Harun)!” (Surah Yunus, 89)
The reports from the Companions and Salaf concur that the modality of this supplication was that Musa (upon him be peace) supplicated while Harun (upon him be peace) said Amîn, as narrated by the Imams of Tafsir from Ibn Abbas, Abu Huraira, Abu al-Aliya, Abu Salih, Ikrima, Muhammad ibn Ka’b al-Qurazi, Rabi` ibn Anas and others. (See the Tafsirs Ibn Kathir (2/656) and al-Suyuti’s al-Durr al-Manthur (3/315).
2) Habib ibn Maslama al-Fihri (Allah be pleased with him) narrates that I heard the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) say: “No group of believers assemble, one of them supplicating while others saying Amîn, except that Allah answers their prayer.” (Recorded by Tabrani in al-Mu’jum al-Kabir, 4/26 & Hakim in his al-Mustadrak, 3/347 and he classed it as authentic (sahih)
3) Anas ibn Malik (Allah be pleased with him) narrates that a villager came to the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) on Friday and said: “O Messenger of Allah! The livestock are dying, the dependents are dying, and the people are dying! Whereupon the Messenger of Allah rose his hands in supplication and the people raised their hands in supplication with the Messenger of Allah…..” (Sahih al-Bukhari, Book of supplications).
4) Abu Shaddad narrates while Ubada ibn al-Samit was present and confirmed him (Allah be pleased with them both): “We were in the house of the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) when he said: “Is there any stranger amongst you?” He meant one from the People of the Book. We said, “No, O Messenger of Allah”. He ordered for the door to be shut and said: “Raise your hands and say Lâ ilâha illAllâh. We raised our hands for a while. Then he said: “O Allah! Truly You have sent me with this phrase and promised me Paradise for it. Truly, You do not break the trust”. Then he said: “Be glad, for Allah has forgiven you.” (Recorded by Imam Ahmad in his Musnad, 4/124, Tabrani in Mu’jam al-Kabir & classed by Haifidh al-Munziri to be sound (hasan).
The above and other narrations are clear proof on the fact that to supplicate collectively is not against the Sunnah or an innovation (bid’a). This relates to supplicating inside or outside prayer.
In light of the above, it becomes clear that to supplicate collectively after prayers is not an innovation rather something that has been proven from the Sunnah. There are evidences that one should supplicate immediately after obligatory prayers, and that raising one’s hands whilst supplicating is also a Sunnah, and finally collective supplication is also established in the Sunnah.
Now, keeping these three types of evidences in mind, if one was to supplicate with the Imam and the other followers, then there is nothing wrong in doing so. We don’t need an explicit Hadith that says, to supplicate after Salat, whilst raising your hands and in congregation is Sunnah, rather, combining the three types of evidences are sufficient to prove its authenticity.
For example, The Imam supplicates after obligatory prayers because this has been clearly mentioned in the Sunnah, with raising his hands, as that has also been established by the Sunnah, and the followers joined him, as supplicating collectively has also been proven in the Sunnah, then I don’t see where the problem lies.
Moreover, if all the worshippers supplicate simultaneously after Fard prayers, then automatically there will be collective supplication.
Having said that, it must be remarked here that the status of collective supplication after obligatory prayers is Mustahab or Sunnah. Many individuals seem to believe that the supplication is an integral part of Salat, thus the one who does not supplicate is doing something which is wrong.
This belief must be avoided, as to supplicate after a prayer is not obligatory. If an individual does not supplicate, then he should not be rebuked or looked down upon. People must be left free to do what they want. For this reason, some of the scholars have stated that it would be better if the supplication was left out once in a while so that the concept on ‘necessity’ is removed from the minds of people.
This supplication can be carried out loudly or silently. However, it is preferable to supplicate silently, as Allah Most High says:
“Call on your lord with humility and in private.” (al-A’raf, 55)
In it stated in the Hanafi reference book, al-Bazzaziyya:
“If the Imam supplicated loudly with the followers, then there is nothing wrong in doing so, so that people learn the Qur’anic and Prophetic supplications. When they learn them, then supplicating loudly would be wrong.” (al-Bazzaziyya)
In conclusion, there is nothing wrong in supplicating and making Dua collectively after Fard prayers. However, one should not regard it as necessary or in any way part of Salat.
And Allah knows best
[M***i] Muhammad ibn Adam
Darul Iftaa
Leicester , UK

Address

London

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Path TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Path TV:

Videos

Share

Category

Nearby media companies


Other TV Channels in London

Show All