Smart Pakistani

Smart Pakistani smart💗💗💗💗pskistani

ایس ڈی او غلام دستگیر کی کاوشوں سے انٹرنیٹ کا مسئلہ حل ہوگیا کوئٹہ (سٹی رپورٹر)کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ کے عوام نیٹ سروس...
14/11/2024

ایس ڈی او غلام دستگیر کی کاوشوں سے انٹرنیٹ کا مسئلہ حل ہوگیا
کوئٹہ (سٹی رپورٹر)کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ کے عوام نیٹ سروس سے بھی محروم سریاب کے علاقے میں گزشتہ ایک ہفتے سے زائدگزرنے کے باوجود نیٹ کی بحالی کا کام جاری ہے لیکن نیٹ بحال نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے طلباءاورعوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا، اب ایس ڈی او غلام دستگیر کی کاوشوں سے مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ عوام نے غلام دستگیر کی اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح لوگوں کے مسائل حل کریں گے۔

بریکنگ نیوز:مرکزی قائم مقام صدر بی این پی ساجد ترین ایڈووکیٹ کا اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بڑا اعلان...
29/10/2024

بریکنگ نیوز:
مرکزی قائم مقام صدر بی این پی ساجد ترین ایڈووکیٹ کا اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بڑا اعلان

بلوچستان نیشنل پارٹی کا پارٹی سینیٹرز قاسم رنجو اور نسیمہ احسان شاہ کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ۔

اس موقع پر مرکزی سیکرٹری اطلاعات بی این پی آغا حسن بلوچ، سی ای سی ممبر حاجی ہاشم نوتیزئی اور دیگر بھی موجود۔

پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل اور دیگر پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد دونوں سینیٹرز کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ قائم مقام صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ

دونوں سینیٹرز نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی اور نام نہاد آئینی بل کے حق میں ووٹ دیا۔ ساجد ترین

دونوں سینیٹرز نے اس معاملے پر اسٹیبلشمنٹ اور نام نہاد وفاقی حکومت کو سہولت فراہم کی اور بلوچستان کے لوگوں کو دھوکہ دیا۔ ساجد ترین ایڈووکیٹ

دونوں سینیٹرز نے رہشون سردار عطاء اللہ خان مینگل کے نظریے سے غداری کی اور ذاتی مفادات کے لیے ووٹ بیچے۔ ساجد ترین

پارٹی دونوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس بھی دائر کرے گی ، آج سے دونوں سینیٹرز کا بی این پی سے کوئی تعلق نہیں۔ ساجد ترین

دونوں سینیٹرز نے قومی کاز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور دونوں سینیٹرز کونسلر کی سیٹ نہیں جیت سکے لیکن پارٹی نے سینیٹر بنانے کے باوجود دھوکہ دیا۔ ساجد ترین ایڈووکیٹ

انہیں بی این پی کو بدنام کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا آج سے دونوں سینیٹرز کا بی این پی سے کوئی تعلق نہیں۔۔ قائم مقام صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ

بی این پی ایک بار پھر حالیہ آئینی بل کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر نوٹس لینے کا مطالبہ کرتی ہیں کیونکہ اس بل کے حق میں ووٹ دینے والے دونوں سینیٹرز بک چکے تھا۔ ساجد ترین

پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل اور بی این پی اپنے موقف پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور ہم بلوچستان کے عوام پر ہونے والے ظلم کے خلاف ہیں اسی لیے آج دونوں سینیٹرز قاسم رنجو اور نسیمہ احسان شاہ کو پارٹی سے نکال رہے ہیں۔ ساجد ترین

بلوچستان میں کہاں اور کب ایک فیسٹیول میں 35 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئی تفصیل یہاں دیکھیںبلوچستان اکیڈمی کے چیئرمین غ...
29/10/2024

بلوچستان میں کہاں اور کب ایک فیسٹیول میں 35 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئی تفصیل یہاں دیکھیں
بلوچستان اکیڈمی کے چیئرمین غفور شاد کہتے ہیں کہ یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کا پہلا فیسٹیول تھا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے توقع سے بڑھ کر شرکت کی اورریکارڈ تعداد میں کتب کی خریداری کی۔

ان کے خیال میں یہ تعداد ’تقریباً 35 لاکھ کے قریب رہی جواس سے پہلے نہیں ہوا۔‘


بلوچستان کے شہر تربت میں ایک تعلیمی ادارے کے تحت کتب میلے کا انعقاد ہوا، جس کے بارے میں منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ میلہ ’لاکھوں‘ کی تعداد میں کتابوں کی فروخت کا باعث بھ....

سلام آباد سردار ‏اختر مینگل جان مینگل  اور ساتھیوں کے خلاف تھانہ سیکرٹریٹ میں ایف آئی آر درج۔ مقدمہ دہشتگردی سمیت 7 دفعا...
24/10/2024

سلام آباد سردار ‏اختر مینگل جان مینگل اور ساتھیوں کے خلاف تھانہ سیکرٹریٹ میں ایف آئی آر درج۔

مقدمہ دہشتگردی سمیت 7 دفعات کے تحت درج کیا گیا

ایف آئی آر میں الزام ہے کہ انہوں نے سینٹ کے سٹاف کو زد و کوب کیا۔

مقدمہ جمیل احمد جوائنٹ سیکریٹری سینٹ کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی پی پی کے عبید اللہ گورگیج کو ڈی سیٹ کر دیاعبید اللہ گورگیج پی بی 44  کوئٹہ سے ایم پی اے تھ...
23/10/2024

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی پی پی کے عبید اللہ گورگیج کو ڈی سیٹ کر دیا

عبید اللہ گورگیج پی بی 44 کوئٹہ سے ایم پی اے تھے

قبل ازیں بلوچستان ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے عبیداللہ گورگیج کے خلاف انتخابی عزرداری کیس میں فیصلہ دیا تھا

یہ صرف ہمیں ڈرانے کی کوشش ہے: ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کوئٹہ: بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خلاف ای...
12/10/2024

یہ صرف ہمیں ڈرانے کی کوشش ہے: ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

کوئٹہ: بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خلاف ایف آئی آر پر ردِ عمل میں کہا ہے کہ ایسا تمام سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو دیوار سے لگانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’یہ سب ہمیں بین الاقوامی سطح پر پہچان ملنے کے بعد ہمیں مقصد سے ہٹانے اور ڈرانے کی ایک بوگس کوشش ہے۔ ‘

آج کا شعر  #بلوچستان
12/10/2024

آج کا شعر
#بلوچستان

11/10/2024

#بلوچستان کے شہر دکی میں کان کنوں کا قتل
صوبائی وزراء کی دکی میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والے مزدوروں کے ورثاء اور احتجاج کنندگان سے مذاکرات

حکومتی کمیٹی اور احتجاج کنندگان کے مابین مذاکرات کامیاب

دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے مل جل کر کام کرنا ہوگا، حکومتی کمیٹی اور احتجاج کنندگان میں اتفاق

صوبائی حکومت شہداء کے ورثاء کو فی کس 15 لاکھ روپے ادا کرے گی ، مذاکرات میں اتفاق

شدید زخمی کو 5 لاکھ اور معمولی زخمی کو 2 لاکھ روپے معاوضہ ادا کیا جائے گا، مذاکرات میں اتفاق
#دکی

*ڈاکٹر مارنگ بلوچ کو کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہ امریکہ جانے سے روک دیا گیا* *آج، میں نے TIME میگزین کے گالا میں شرکت کے...
08/10/2024

*ڈاکٹر مارنگ بلوچ کو کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہ امریکہ جانے سے روک دیا گیا*
*آج، میں نے TIME میگزین کے گالا میں شرکت کے لیے نیویارک جانا تھا، جہاں مجھے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ مدعو کیا گیا تھا جن کا نام TIME کے سب سے زیادہ بااثر ابھرتے ہوئے لیڈر آف دی ایئر کے طور پر رکھا گیا تھا۔ تاہم، مجھے بغیر کسی قانونی یا درست وجہ کے کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر بلاجواز روک دیا گیا، جو کہ نقل و حرکت کی آزادی کے میرے بنیادی حق کی صریح خلاف ورزی ہے۔*

05/10/2024

05/10/2024

جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا، وہ میرا استاد ہے اور میں اس کا غلام ہوں: حضرت علی رضی اللہ عنہ
تمام استادوں کو سلام

پشتون قومی جرگہ پر حملہ پشتون عوامی آواز کو دبانے کی کوشش ہے - ماہ رنگ بلوچ
04/10/2024

پشتون قومی جرگہ پر حملہ پشتون عوامی آواز کو دبانے کی کوشش ہے - ماہ رنگ بلوچ

گوادر یونیورسٹی کے زیر اہتمام علاقائی اور تجارتی مرکز کے طور پر گوادر کی اہمیت کے موضوع پر نومبر میں  پہلی بین الاقوامی ...
04/10/2024

گوادر یونیورسٹی کے زیر اہتمام علاقائی اور تجارتی مرکز کے طور پر گوادر کی اہمیت کے موضوع پر نومبر میں پہلی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوگی۔

گوادر یونیورسٹی، 4 اکتوبر 2024 پریس ریلیز

گوادر یونیورسٹی کے زیراہتمام سی پیک اسٹڈی سنٹر میں پہلی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے جس کا موضوع "ایک علاقائی اور تجارتی مرکز کے طور پر گوادر کی اہمیت: تاریخ، چیلنجز، مواقع، اور مستقبل"۔ یہ کانفرنس ، جس میں کئی بیرونی ممالک کے علاوہ ملکی سطح نامور سکالرز، پالیسی سازوں، کاروباری رہنماؤں اور ماہرین کی شرکت متوقع ہے۔
یہ دو روزہ کانفرنس 5-6 نومبر کو گوادر یونیورسٹی میں منعقد ہوگی۔ اس کا فیصلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر کی سربراہی میں منعقد ایک اعلی سطحی اجلاس میں کیا گیا جس میں پرو وائس چانسلر ڈاکٹر منظور احمد رجسٹرار ،فیکلٹی ڈینز اور ڈائریکٹر اورک نے شرکت کی۔
کانفرنس کا بنیادی مقصد چین پاکستان اقتصادی راہداری کے اہم شہر گوادر کی تزویراتی اہمیت کا جائزہ لینا ہے، جو خطے اور اس سے باہر کے اقتصادی منظرنامے کی تشکیل میں ہے۔ اس تقریب میں گوادر کے تاریخی تناظر، اسے درپیش چیلنجز، دستیاب مواقع اور تجارتی مرکز کے طور پر اس کی پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے حکمت عملیوں کے بارے میں کئی سیشنز ہوں گے۔
کانفرنس میں ماہرین تعلیم، پالیسی ساز تجزیہ کار، کاروباری نمائندے اور صنعت کے شعبوں سمیت معروف قومی اور بین الاقوامی اسکالرز اور ماہرین ذاتی طور پر اور آن لائن شرکت کریں گے اور متنوع نقطہ نظر سے بصیرت انگیز بات چیت میں حصہ لیں گے کہ کس طرح گوادر اپنی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھا سکتا ہے اور اسے درپیش چیلنجوں پر قابو پا سکتا۔ گوادر یونیورسٹی تعلیمی اور پالیسی مباحثوں کی سہولت فراہم کرنے کے لیے پرعزم ادارہ ہے جو علاقائی اور قومی ترقی کے اہداف پر وقتا فوقتا ایسے کانفرنسوں کا اہتمام کرتا ہے۔ ۔
یہ کانفرنس گوادر یونیورسٹی کے لیے ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتی ہے کیونکہ یہ سی پیک اور اس سے متعلقہ منصوبوں پر تحقیق سے متعلق ہے۔ توقع ہے کہ اس کانفرس کی سفارشات گوادر کی ترقی کے لیے اسٹیک ہولڈرز اور پالیسی سازوں کے لیے قابل قدر بصیرت فراہم کریں گے۔
#گوادر

03/10/2024

سپریم کورٹ آف پاکستان/ فیصلہ

سپریم کورٹ نے 63A نظر ثانی کیس کا فیصلہ سنا دیا

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا متفقہ فیصلہ

آئین کے آرٹیکل 63A پر نظرثانی کی درخواستیں منظور کرلی گئی

سپریم کورٹ کا گزشتہ اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گی

ڈی سی شیرانی ثنا ماہ جبین عمرانی  کی گاڑی پر نامعلوم افراد کی فائرنگ  ڈی سی شیرانی محفوظ  قلعہ سیف اللہ کے قریب فائرنگ ک...
03/10/2024

ڈی سی شیرانی ثنا ماہ جبین عمرانی کی گاڑی پر نامعلوم افراد کی فائرنگ ڈی سی شیرانی محفوظ

قلعہ سیف اللہ کے قریب فائرنگ کی گئی ہے ’ اسکواڈ کی جوابی فائرنگ نے حملے آوروں کو پسپا کردیا

اسکواڈ کی گاڑی پر گولیاں لگی ہیں گولیوں کے نشانات نظر آرہے ہیں

پی بی 45 کے پندرہ پولنگ سٹیشن پر دوبارہ پولنگ کا تاریخ مقرر ہوگیا
03/10/2024

پی بی 45 کے پندرہ پولنگ سٹیشن پر دوبارہ پولنگ کا تاریخ مقرر ہوگیا

کوئٹہ،  03 اکتوبر وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا ژوب میں پولیو کیس کا نوٹسپولیو کیس کی انکوائری رپورٹ فراہم کی جا...
03/10/2024

کوئٹہ، 03 اکتوبر

وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا ژوب میں پولیو کیس کا نوٹس

پولیو کیس کی انکوائری رپورٹ فراہم کی جائے، وزیراعلیٰ بلوچستان کی محکمہ صحت کو ہدایت

ہمیں متحد ہوکر دائمی معذور کرنے والے موزی مرض پولیو کا خاتمہ کرنا ہوگا، وزیراعلیٰ بلوچستان

پولیو کا ہر نیا تشخیص ہونے والا کیس باعث تکلیف و تشویش ہوتا ہے، وزیر اعلٰی میر سرفراز بگٹی

دنیا ترقی کی نئی راہیں تلاش کر رہی ہے اور ہم پولیو سے نجات حاصل نہیں کر پاررہے ، وزیر اعلٰی بلوچستان

والدین اپنے بچوں کو رضاکارانہ طور پر پولیو کے قطرے لازمی پلائیں، وزیر اعلٰی بلوچستان

ای او سی اور محکمہ صحت پولیو کی خصوصی مہم شروع کرے ، وزیر اعلٰی بلوچستان

انسداد پولیو کی گھر گھر مہم کو مزید مؤثر بنایا جائے، وزیر اعلٰی بلوچستان کی ہدایت


خلیسہ و پرغیسہ ہمارے ہاں عدالت میں جج آپس میں لڑ رہے ہیں، پارلیمنٹ کے اندر سیاسی پارٹیاں آپس میں دست و گریباں ہیں، فوج ک...
02/10/2024

خلیسہ و پرغیسہ

ہمارے ہاں عدالت میں جج آپس میں لڑ رہے ہیں، پارلیمنٹ کے اندر سیاسی پارٹیاں آپس میں دست و گریباں ہیں، فوج کے اندر ایک بڑی بغاوت ابھی ابھی کچل دی گئی تھی۔ پھر عدالت اور الیکشن کمیشن کی لڑائی ہے ، عدالت اور پارلیمنٹ کی لڑائی ہے اور عدالت اور فوج کی لڑائی ہے ، سرخیاں، شہ سرخیاں ، مرگ وزیست کا یُدھ لگا ہوا ہے ۔ ریڈیو ٹی وی اخبارات سوشل میڈیا ایک طرف ہیں یا دوسری طرف ایک ہڑا دھڑی ہے ایک سراسیمگی ہے ۔ بزن بزن ہے ۔ آج ایک کا پلڑا بھاری ہے توکل دوسرے کا۔
حیران کن صورت حال ہے ۔جب ڈھونڈو کہ جھگڑا کس بات پہ ہے تو پتہ ہی نہیں چلتا ۔ عوام کی بھلائی تو ایجنڈے پہ ہے ہی نہیں ۔ جاگیریں ضبط کر کے فیوڈل ازم کا خاتمہ بھی ایجنڈے پہ نہیں ہے ۔ملّا کی فرقہ پرستی کو روک لگانے پہ کسی کا بھی ارادہ نہیں ۔غیر پیداواری اخراجات کم کرنے کی بات بھی نہیں ہے ۔فریقین کو محکوم قوموں کی نجات پہ بھی نہ سوچنے پر کوئی اختلاف نہیں ، عورتوں کو انسانی وقار بخشنے کی بات بھی نہیںہے ۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی واپسی سے انکار کا معاملہ بھی نہیں ہے ۔۔ بھئی بڑے بڑے معاملات تو یہی ہیں ۔ اگر ان پہ لڑائی نہیں ہے تو پھر کس بات پہ لڑائی ہے ۔ اگر ان عوامی بہبود کی باتوں کی نفی کرتے رہنے پہ ان کا آپسی جھگڑا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کا جھگڑا نہیں ہے ۔
جج 65سال میں ریٹائر ہو یا 70سال میں، جج کی مدتِ ملازمت 5سال ہو یا دس سال، چیف جسٹس کا تقرر سینیارٹی پہ ہو یا کوئی کمیٹی کرے ، عدالت میں ججوں کی تعداد 17ہو یا 27،عوام الناس پہ اس کا اثر کیا پڑے گا ۔ سچی بات یہ ہے کہ نہ بورژوا حکومت عدلیہ کو غلام بنا رہی ہے اور نہ بورژوا اپوزیشن عدلیہ کی آزادی کے لیے لڑ رہی ہے ۔ سب کا اپنا اپنا مفاد ہے ۔ سیاسی جماعتوں کا بھی ، شور مچانے والے وکلا کا بھی ۔ یہ سب بار زاورعدلیہ کی سیاست کا حصہ ہیں۔ جب بھی اُن کی استحصالی زبان سے آمریت ، جمہوریت ، آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی ، پارلیمان کا وقار جیسی باتیں سنائی دیں، سمجھو یہ سب نعرے بازی ہے۔
اس جھگڑے میں بار بار آئین کی بات کی جاتی ہے ۔ یہ آئین کیا ہے؟۔ آئین ریاست کو چلانے کے ڈاکیومنٹ کو کہتے ہیں ۔ ریاست کی کئی قسمیں ہیں دنیا میں ۔ مثلاً بادشاہت ، مارشل لا، تھیوکریسی ، انارکسزم ، سوشلزم ، یا پھر بورژوا جمہوریت ۔ ان میں سے جو بھی قسم ہوگی اس کے چلانے کے امور پہ اس ریاست کا ایک تحریری ڈاکومنٹ ہوگا۔ اُس کو آئین کہتے ہیں۔
خود ریاست معاشی طور پر حاوی طبقے کی سیاسی تنظیم ہے ۔ یہ ایک طاقت ہے جس میں پولیس ، فوج، عدالتیں، جیلیں اور میڈیا سب آتے ہیں۔ یہ سب برسرِ اقتدار طبقے کے ہاتھ کے ہتھیار ہیں۔آئین ایک بنیادی ڈاکیومنٹ ہوتا ہے جو ایک حکومت کے اصولوں، ڈھانچوں ، اور پاورز کی نقشہ کشی کرتا ہو۔ یہ ایک سپریم قانون ہوتا ہے ۔ اس میں فرد کی آزادیوں اور حفاظتوں کی گارنٹی ہوتی ہے ،حکومتی اتھارٹی کی عدلیہ ، مقننہ، اور ایگزیکٹو کے بیچ تقسیم کا تذکرہ ہوتا ہے ، ان اداروں کے بیچ اختیارات میں چیک اور بیلنس کی بات ہوتی ہے ۔ اگر وہ ریاست ایک بورژوا جمہوری ریاست ہو تو اس میں جمہوریت کی بات ہوگی ،وفاقیت کی گارنٹی ہوگی، اور چرچ اور ریاست کی علیحدگی کی دفعات ہوں گی۔
پاکستان کا آئین یعنی ملک چلانے کا یہ معاہدہ 55برس قبل قومی اسمبلی اور سینٹ نے لکھا تھا اور منظور کیا تھا۔ اس میں لکھا ہے کہ فرد کی آزادی کیا ہے اور کہاں تک ہے ۔ الیکشن کب اور کیسے ہوں گے ، صوبوں کے کیا حقوق و اختیارات ہوں گے ۔ عورتوں اور اقلیتوں کے ساتھ کیا رویہ ہوگا۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ ، پریس ، انتظامیہ ( سول اور ملٹری بیوروکریسی ) اور عدلیہ کے اختیارات کیا ہوں گے اور ریاست کے ان چاروں اداروں کے باہمی تعلقات اور دائرہ کار کیا ہوں گے۔
1973کے اس آئین میں بعد میں بے شمار ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔ مگر بنیادی بات یہ ہے کہ 1973کی اسمبلی میں بھی جاگیردار اور سردار اکثریت میں تھے اور 2024کی اسمبلی بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی نمائندہ ہے ۔
اس کا کیا مطلب ؟ ۔ کیا ہماری پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ نہیں ؟ ۔
سارا میڈیا ، سارے دانشور، اور سارے لوگ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ عوام کے ووٹوں سے وجود میں آتی ہے لہذا یہ عوام کی نمائندہ ہے ۔مگر ہم کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ نہیں بلکہ یہ جاگیرداروں، بیوروکریٹوں ، اور ٹھیکیداروں کی نمائندہ ہے جو کہ بہ لحاظِ طبقہ عوام کے دشمن ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ پارلیمنٹ عوام کی دشمن ہے ۔ اس طرح ایک فیوڈل بالادستی والی پارلیمنٹ جو آئین بنائے گی تو وہ بھی جاگیرداریت کی حفاظت ہی کرے گا۔اصل میں تو آئین کو محنت کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ اسے عورتوں کے حقوق کا محافظ ہونا چاہیے۔ محکوم قوموں کے حقِ خود اختیاری کی ضمانت دینی چاہیے۔
مگر موجودہ لڑائی تو عوامی مسائل پہ ہو ہی نہیں رہی ۔ چونکہ ملک میں بنیادی سماجی تضادات یہ کوئی تحریک موجود نہیں ہے اس لیے حکمران طبقات کے مختلف دھڑے آپس میں سکور برابر کرنے کے لیے تلواریں سونت چکے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں حالیہ آئینی بحران حکمران طبقات کا داخلی بحران ہے ۔ عوام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔عوام مہنگائی ، بے روزگاری کے ہاتھوں مشکل میں ہیں۔
پارلیمنٹ کی بات تو ہم اوپر کہہ چکے ہیں ۔ اب ذرا عدالت کی بھی سنیے!
جو لوگ عدالت عدالت کہتے ہیں تو انہیں یاد دلایا جائے کہ وہ عدالت بھی کیا عدالت ہے جس نے ایک وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا یا تھا اور پھر نصف صدی بعد اعلان کیا کہ وہ فیصلہ غلط تھا ۔ عوام کو تو چھوڑیں گیلانی نامی وزیراعظم کو برطرف کر دیا تھا ۔ عمران کو ”صادق و امین“ ٹھہرایا تھا۔ نواز شریف کو تاحیات سیاست میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دیا تھا اور پھر اپنی مرضی کے عمران کو بادشاہ بنا کر نواز شریف کو عدالتی غلطی قرار دے کر دوبارہ بحال کردیا۔
اس لڑائی کا انجام ایسا ہوگا تو نہیں مگر عوام خوش ہوں گے کہ اُن کے دشمن طبقات آپس میں لڑ لڑ کر تباہ ہوجائیں۔ عوام کو معلوم ہے کہ یہ لوگ اپنی اپنی چودھراہٹ کے لیے ایک حد تک لڑیں گے ، وہاں سے آگے نہیں جائیں گے ۔
تو عوام کیا کرے؟ ۔ عوام دو کام کرے ۔
ایک تو اُن کی داخلی لڑائی کا حصہ نہ بنے اس لیے کہ اقتدار والوں کی احمقیاں بھی بہت بڑی ہوتی ہیں۔ کیا خبر کہ وہ مارشل لا لگانے کو ایسا کر رہے ہوں۔ اور مارشل لا تو تباہی ہے ۔ جمہوریت کا ایک ایک اقدام عوام نے بے پناہ قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ اسے کسی صورت رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے ۔ چنانچہ ہمیں مارشل لا کے ہر امکان کو مسترد کرنے کی بات ابھی سے کرتے رہنا ہے۔
دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ اِن حکمران طبقات کے برخلاف عوام اپنی تحریک بنائیں اور انہی حکمرانوںکے خلاف ، اور انقلاب کے لیے تحریک کا آغاز کریں۔
چلو، آج ایسا ممکن نہیں ۔ تو کیا ابھی سے محنت کرتے ہوئے دو چار سال بعد بھی ہم ایسا ممکن نہیں بنائیں گے ؟

Address

London

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Smart Pakistani posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Nearby media companies


Other News & Media Websites in London

Show All