Speaker Newspaper

Speaker Newspaper Bringing you the true voice of North West’s diverse community Speaker recognises that our diverse community of the North West have so much to offer.

Especially as our rapidly changing society has brought about a new generation of minorities with new experiences, ideas and attitudes. While the mainstream media fail to catch up and represent us in a dualistic way through outdated stereotypes, Speaker is the authentic platform that amplifies the real voices of our multifaceted minority groups. RECLAIMING THE NARRATIVE FOR TRUE REPRESENTATION
Spea

ker brings you fresh perspectives directly from the misrepresented, so that they can express themselves and tell their story without it being reduced to a negative click-bait headline and tabloid journalism. We publish solution-based articles that dig deeper and encourage critical thinking, enabling us to challenge misconceptions and enlighten society. RAISING AWARENESS ABOUT THE THINGS THAT MATTER TO US
Whether it’s your take on a global political dispute or a new TV show that you’re hooked on, we publish articles that cover a wide range of categories to capture the true essence of our diverse community. Your voices are what make Speaker what it is, so we’re always on the hunt for contributors to write with us. BUILDING A SOCIALLY AWARE COMMUNITY THAT INSPIRE ONE ANOTHER AND THRIVE TOGETHER
Speaker is made up of readers and contributors from different ages, backgrounds and regions (not just limited to the North West). Our platform provides a space for you to connect with one another through your voices and experiences, so that we can learn from each other, educate others, find solutions and succeed together. CELEBRATING OUR SUCCESS AND ORIGINALITY
We believe that the key to success lies in what makes us different. And there’s nothing we love more than seeing you make your dreams come true! From carrying out interviews to writing reviews and covering events, we shout about your talent and support you on your journey in any way that we can. We also offer tailored advertising packages for businesses to promote your products and services. PROVIDING A SPACE FOR THE PAKISTANI COMMUNITY TO CONNECT WITH SPEAKER URDU
Speaker started in 2006 as an Urdu newspaper for the Pakistani people of Manchester, from the corner of a bedroom. Over 14 years later, it’s recognised by Urdu speakers all over the world and even has its own radio station.

Please like, share and subscribe speaker tv
06/11/2024

Please like, share and subscribe speaker tv

Please like, share and subscribe speaker tv
06/11/2024

Please like, share and subscribe speaker tv

02/11/2024

Happy 90th birthday to Ustaad e sahafat Amin Mughal

Please like, share and subscribe speaker tv
02/11/2024

Please like, share and subscribe speaker tv

Please like , share and subscribe speaker tv
02/11/2024

Please like , share and subscribe speaker tv

Like,share and subscribe speaker tv
01/11/2024

Like,share and subscribe speaker tv

26/10/2024

فن موسیقی کے بادشاہ استاد طافو خان کا انتقال ہو گیا۔ اللہ مغفرت فرمائے۔ آمین

Please like, share and subscribe speaker tv
25/10/2024

Please like, share and subscribe speaker tv

24/10/2024

Councillor Azra Ali has organised an event for the residents of BURNAGE with local police on Monday 18th November 2024. At 6 pm in BURNAGE COMMUNITY CENTRE. BURNAGE LANE. MANCHESTER. M19 2EW. Please do come and talk to your police officers about your problems.

Please like, share and subscribe speaker tv
24/10/2024

Please like, share and subscribe speaker tv

21/10/2024

I believe that Arif's account has been hacked

Like, share and subscribe speaker tv
21/10/2024

Like, share and subscribe speaker tv

Like,share and subscribe speaker tv
21/10/2024

Like,share and subscribe speaker tv

20/10/2024

ہائی کمشنر صاحب اوورسیز پاکستانیوں کوبھول جائیں
آج صبح ہی صبح گلاسگو سے میرے محترم صحافی بھائی طاہر انعام شیخ نے ایک پوسٹ بھیجی جو ایک خبر پر مشتمل تھی ’ جوجنگ لندن میںآ ج ہی شائع ہوئی ۔ خبر برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹرمحمد فیصل کی پاکستانی قونصلیٹ گلاسگو میں منعقدہ تقریب سے کمیونٹی کے ساتھ خطاب کی تھی ’جس میں انہوںنے فرمایاہے کہ برطانیہ کے پاکستانی نژاد لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں کیونکہ پاکستا ن میں سرمایہ کاری کرنے سے سے نہ صرف آپ کو بہترین منافع مل سکتا ہے بلکہ اپنے آبائی وطن اور اس کے عوام کی خدمت بھی ہوسکتی ہے۔انہوں نے استدلال فرمایا ہے کہ پاکستان سے بے شمار اشیاءمنگوائی جا سکتی ہیں۔ساتھ ہی محترم عزت مآب ڈاکٹرمحمد فیصل نے پاکستانی والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کا پاکستان سے رشتہ جوڑے رکھیں، ان کو پاکستان کے دورے کرائیں، یہ بچے برطانیہ اور پاکستان کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے اور پاکستان ہائی کمیشن اس سلسلے میں ہرممکن تعاون مہیا کرے گا۔ اس سوال پر کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضے کرلئے جاتے ہیں، ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ اس طرح کے واقعات حکومت کے علم میں ہیں اور ایسے افراد کے ساتھ بڑی سختی سے نمٹا جا رہا ہے۔ پاکستان اوورسیز فاﺅنڈیشن اور دیگر ادارے بھی اس سلسلہ میں بھرپور کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوںنے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے ساتھ پاکستان میں الیکشن لڑنے کی اجازت دیئے جانے کے سوا ل پر کہا کہ وہ برطانوی پاکستانیوں کا یہ مطالبہ حکومت پاکستان تک پہنچا دیں گے۔تقریب میں بعض افراد کی طرف سے پاکستان میں موبائل فونوں پرٹیکس لگانے پر بھی اعتراض ہوا اور ساتھ ہی گلہ بھی کیا گیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ’آبائی ملک کو ہر سال اربوں ڈالر کا زرمبادلہ دے کر نہ صرف لاکھوں کروڑوں خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں بلکہ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان پہنچنے پر ان کو مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا ہے۔ جبکہ کشمیر کے مسئلہ پر بھی بعض حاضرین نے حکومت پاکستان کی سرد مہری کا شکوہ بھی کیا ۔ جس کے جواب میں ڈاکٹر محمدفیصل نے کہا کہ پاکستان اس مسئلے کے حل کےلئے سفارتی طور پر پوری طرح متحرک ہے۔انہوں نے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورموں پر موجود ہے، ہماری پوزیشن پوری طرح مضبوط ہے۔ اور اس میں قطعی طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت کی طرف سے کئے جانے والے چند یک طرفہ اقدامات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ماضی میں بھی 1954ءمیں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کرا کر اپنی طرف سے مسئلہ کشمیر کو ختم کردیا تھا، لیکن یہ صرف اس کی خوش فہمی تھی، مسئلہ کشمیر آج بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ اور اس کا واحد دیرپا حل کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دینا ہے۔
یقینا ہائی کمشنر صاحب کی بات سننے کے بعد گلاسگو قونصلیٹ میں فوٹو سیشن بھی ہوا ہوگا’جس میں لوگوں نے جی بھر کے ہائی کمشنر کے ساتھ سیلفیاں بنائی ہوں گی ۔پھر کھانا یا چائے پر کمیونٹی کی تواضع کی گئی ہو گی اور ہائی کمشنر دورہ مکمل کر کے واپس لندن بھی روانہ ہوچکے ہوں گے ۔چند روز تک اخبارات اور ٹی وی پراس تقریب کی کوریج بھی ہوتی رہے گی اورصحافیوں کی روزی کا انتظام بھی ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے تو ہائی کمشنر کا دورہ یقینا بڑا ہی فائدے والا ہوگا کہ ان کے دورے سے نہ صرف صحافیوں کی خوراک کی ضروریات پوری ہوئیں بلکہ اس سے کمیونٹی کے بہت سے لوگوں نے ان کے ساتھ تصاویر اترواکر اپنے پیدائشی احساس کمتری کی تسکین بھی کی ۔ رہی بات مسائل کی توان کا وہی حال ہوا ہوگا جو کسی حج پرجانے والے حاجی کو سٹیشن پر چھوڑنے جانے والوں کا ہوتا ہے کہ حاجی تو ہاتھ ہلاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے اور باقی لوگ کلمہ پڑھتے پڑھتے گھر واپس آجاتے ہیں ۔یہ سوچتے ہوئے کہ وہ اگر حاجی صاحب کو ”سی آف “ کرنے گئے ہیں تووہ بھی جنت کے حقدار ہوں گے ۔
یقینا کمیونٹی کے مسائل ہمیشہ کی طرح جوں کے توں ہی رہیں گے اور لوگ ان مسائل پر اخباری بیانا ت دیتے رہیں گے ۔ کئی لوگ تو یہ دعا کرتے ہوں گے کہ اًللہ کرے یہ مسائل کبھی حل نہ ہوں کیونکہ بہت سے لوگوں کا رزق انہی مسائل پر بیانات کی وجہ سے ہی لگا ہوا ہے ۔اگر یہ مسائل حل ہوجائیں تو وہ بیچارے تو بھوکے مر جائیں گے ۔برطانیہ میں یہ سب کچھ گذشتہ پچاس سال سے ہو رہا ہے جبکہ مسئلہ کشمیر گذشتہ 77 سال سے بین الاقوامی فورموں پر ہے اور وہ وہیں رہے گا’ ا س سے آگے کا سفر نہیں کر رہا۔ پرانی نسلیں ختم ہو کر نئی نسلیں پیدا ہو رہی ہیں ۔مسئلہ کشمیر اب اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بہت آگے جا چکا ہے ’جس میں خود مختار ریاست جموں کشمیر کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہے ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بازگشت سے مایوس ہو کر اب کشمیری نوجوان اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ ان کا مﺅقف یہ ہے کہ ریاست جموں وکشمیر اکتوبر1947ءتک ایک آزاد اوخودمختار ریاست تھی ۔ اس سے اس کی آزادی اور خودمختاری پاکستان اور بھارت دوہمسایہ ممالک نے چھین لی تھی ۔چنانچہ ہماری جنگ ہر دو ممالک کے ساتھ ہے ۔وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آج تک ریاست جموں وکشمیر میں رائے شماری کیوں نہیں ہو سکی ؟کیا پاکستان رائے شماری کروانا بھی چاہتا ہے یا نہیں ۔
ری بات بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی تو یہ بات کہنے پر ہمیں ہائی کمشنر صاحب سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ ان کے یہی جاب ہے کہ وہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو اسی طرح سبزباغ دکھاتے رہیں اورانہیں یہی نوید سنائیں کہ پاکستان ان کا اپنا ملک ہے ’بس اسی کا سوچیں ۔جہاں ان کی سرمایہ کاری محفو ظ رہے گی ۔ تاہم یہ بات سن کر بھولے اور اللہ رکھی دونوں کو بہت ہنسی آئی کہ پیارے وطن پاکستان میں ’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ہڈیوں سے رس تک نچوڑنے کے بعد بھی پاکستانی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان میں آکر سرمایہ کاری کریں ؟کیا عجیب منطق ہے کہ کس ڈھٹائی سے یہ بات کی جاتی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن پاکستان میں آ کر سرمایہ کاری کریں جبکہ پاکستان کی اشرافیہ جن میں نوا زشریف ؛ شہباز شریف ؛ آصف زرداری ؛ بلاول بھٹو زرداری ’ یوسف رضاگیلانی اورتمام بڑے بڑے بیوروکریٹوں اور جرنیلوں کی اپنی سرمایہ کاری پاکستان میں نہیں بلکہ بیرون ممالک میں ہے ۔ حکومت پہلے انہیں کیوں پابند نہیں کرتی کہ وہ اپنی سرمایہ کاری پاکستان میں کریں ؟رہی بات اوورسیزپاکستانیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے محفوظ ہونے کی تو ان کا یہ بیان ان کی اعلیٰ سطح کی حسن مزاح کا پتہ دیتا ہے کہ جن اوورسیز پاکستانیوں کی جان مال اور جائیدادیں تک پاکستان میں محفوظ نہیں ہیں ’ ان کا سرمایہ کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے ؟ہائی کمشنر صاحب اوورسیز پاکستانیوں کوبھول جائیں
آج صبح ہی صبح گلاسگو سے میرے محترم صحافی بھائی طاہر انعام شیخ نے ایک پوسٹ بھیجی جو ایک خبر پر مشتمل تھی ’ جوجنگ لندن میںآ ج ہی شائع ہوئی ۔ خبر برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹرمحمد فیصل کی پاکستانی قونصلیٹ گلاسگو میں منعقدہ تقریب سے کمیونٹی کے ساتھ خطاب کی تھی ’جس میں انہوںنے فرمایاہے کہ برطانیہ کے پاکستانی نژاد لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں کیونکہ پاکستا ن میں سرمایہ کاری کرنے سے سے نہ صرف آپ کو بہترین منافع مل سکتا ہے بلکہ اپنے آبائی وطن اور اس کے عوام کی خدمت بھی ہوسکتی ہے۔انہوں نے استدلال فرمایا ہے کہ پاکستان سے بے شمار اشیاءمنگوائی جا سکتی ہیں۔ساتھ ہی محترم عزت مآب ڈاکٹرمحمد فیصل نے پاکستانی والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کا پاکستان سے رشتہ جوڑے رکھیں، ان کو پاکستان کے دورے کرائیں، یہ بچے برطانیہ اور پاکستان کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے اور پاکستان ہائی کمیشن اس سلسلے میں ہرممکن تعاون مہیا کرے گا۔ اس سوال پر کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضے کرلئے جاتے ہیں، ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ اس طرح کے واقعات حکومت کے علم میں ہیں اور ایسے افراد کے ساتھ بڑی سختی سے نمٹا جا رہا ہے۔ پاکستان اوورسیز فاﺅنڈیشن اور دیگر ادارے بھی اس سلسلہ میں بھرپور کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوںنے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے ساتھ پاکستان میں الیکشن لڑنے کی اجازت دیئے جانے کے سوا ل پر کہا کہ وہ برطانوی پاکستانیوں کا یہ مطالبہ حکومت پاکستان تک پہنچا دیں گے۔تقریب میں بعض افراد کی طرف سے پاکستان میں موبائل فونوں پرٹیکس لگانے پر بھی اعتراض ہوا اور ساتھ ہی گلہ بھی کیا گیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ’آبائی ملک کو ہر سال اربوں ڈالر کا زرمبادلہ دے کر نہ صرف لاکھوں کروڑوں خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں بلکہ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان پہنچنے پر ان کو مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا ہے۔ جبکہ کشمیر کے مسئلہ پر بھی بعض حاضرین نے حکومت پاکستان کی سرد مہری کا شکوہ بھی کیا ۔ جس کے جواب میں ڈاکٹر محمدفیصل نے کہا کہ پاکستان اس مسئلے کے حل کےلئے سفارتی طور پر پوری طرح متحرک ہے۔انہوں نے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورموں پر موجود ہے، ہماری پوزیشن پوری طرح مضبوط ہے۔ اور اس میں قطعی طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت کی طرف سے کئے جانے والے چند یک طرفہ اقدامات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ماضی میں بھی 1954ءمیں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کرا کر اپنی طرف سے مسئلہ کشمیر کو ختم کردیا تھا، لیکن یہ صرف اس کی خوش فہمی تھی، مسئلہ کشمیر آج بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ اور اس کا واحد دیرپا حل کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دینا ہے۔
یقینا ہائی کمشنر صاحب کی بات سننے کے بعد گلاسگو قونصلیٹ میں فوٹو سیشن بھی ہوا ہوگا’جس میں لوگوں نے جی بھر کے ہائی کمشنر کے ساتھ سیلفیاں بنائی ہوں گی ۔پھر کھانا یا چائے پر کمیونٹی کی تواضع کی گئی ہو گی اور ہائی کمشنر دورہ مکمل کر کے واپس لندن بھی روانہ ہوچکے ہوں گے ۔چند روز تک اخبارات اور ٹی وی پراس تقریب کی کوریج بھی ہوتی رہے گی اورصحافیوں کی روزی کا انتظام بھی ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے تو ہائی کمشنر کا دورہ یقینا بڑا ہی فائدے والا ہوگا کہ ان کے دورے سے نہ صرف صحافیوں کی خوراک کی ضروریات پوری ہوئیں بلکہ اس سے کمیونٹی کے بہت سے لوگوں نے ان کے ساتھ تصاویر اترواکر اپنے پیدائشی احساس کمتری کی تسکین بھی کی ۔ رہی بات مسائل کی توان کا وہی حال ہوا ہوگا جو کسی حج پرجانے والے حاجی کو سٹیشن پر چھوڑنے جانے والوں کا ہوتا ہے کہ حاجی تو ہاتھ ہلاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے اور باقی لوگ کلمہ پڑھتے پڑھتے گھر واپس آجاتے ہیں ۔یہ سوچتے ہوئے کہ وہ اگر حاجی صاحب کو ”سی آف “ کرنے گئے ہیں تووہ بھی جنت کے حقدار ہوں گے ۔
یقینا کمیونٹی کے مسائل ہمیشہ کی طرح جوں کے توں ہی رہیں گے اور لوگ ان مسائل پر اخباری بیانا ت دیتے رہیں گے ۔ کئی لوگ تو یہ دعا کرتے ہوں گے کہ اًللہ کرے یہ مسائل کبھی حل نہ ہوں کیونکہ بہت سے لوگوں کا رزق انہی مسائل پر بیانات کی وجہ سے ہی لگا ہوا ہے ۔اگر یہ مسائل حل ہوجائیں تو وہ بیچارے تو بھوکے مر جائیں گے ۔برطانیہ میں یہ سب کچھ گذشتہ پچاس سال سے ہو رہا ہے جبکہ مسئلہ کشمیر گذشتہ 77 سال سے بین الاقوامی فورموں پر ہے اور وہ وہیں رہے گا’ ا س سے آگے کا سفر نہیں کر رہا۔ پرانی نسلیں ختم ہو کر نئی نسلیں پیدا ہو رہی ہیں ۔مسئلہ کشمیر اب اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بہت آگے جا چکا ہے ’جس میں خود مختار ریاست جموں کشمیر کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہے ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بازگشت سے مایوس ہو کر اب کشمیری نوجوان اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ ان کا مﺅقف یہ ہے کہ ریاست جموں وکشمیر اکتوبر1947ءتک ایک آزاد اوخودمختار ریاست تھی ۔ اس سے اس کی آزادی اور خودمختاری پاکستان اور بھارت دوہمسایہ ممالک نے چھین لی تھی ۔چنانچہ ہماری جنگ ہر دو ممالک کے ساتھ ہے ۔وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آج تک ریاست جموں وکشمیر میں رائے شماری کیوں نہیں ہو سکی ؟کیا پاکستان رائے شماری کروانا بھی چاہتا ہے یا نہیں ۔
ری بات بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی تو یہ بات کہنے پر ہمیں ہائی کمشنر صاحب سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ ان کے یہی جاب ہے کہ وہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو اسی طرح سبزباغ دکھاتے رہیں اورانہیں یہی نوید سنائیں کہ پاکستان ان کا اپنا ملک ہے ’بس اسی کا سوچیں ۔جہاں ان کی سرمایہ کاری محفو ظ رہے گی ۔ تاہم یہ بات سن کر بھولے اور اللہ رکھی دونوں کو بہت ہنسی آئی کہ پیارے وطن پاکستان میں ’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ہڈیوں سے رس تک نچوڑنے کے بعد بھی پاکستانی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان میں آکر سرمایہ کاری کریں ؟کیا عجیب منطق ہے کہ کس ڈھٹائی سے یہ بات کی جاتی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن پاکستان میں آ کر سرمایہ کاری کریں جبکہ پاکستان کی اشرافیہ جن میں نوا زشریف ؛ شہباز شریف ؛ آصف زرداری ؛ بلاول بھٹو زرداری ’ یوسف رضاگیلانی اورتمام بڑے بڑے بیوروکریٹوں اور جرنیلوں کی اپنی سرمایہ کاری پاکستان میں نہیں بلکہ بیرون ممالک میں ہے ۔ حکومت پہلے انہیں کیوں پابند نہیں کرتی کہ وہ اپنی سرمایہ کاری پاکستان میں کریں ؟رہی بات اوورسیزپاکستانیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے محفوظ ہونے کی تو ان کا یہ بیان ان کی اعلیٰ سطح کی حسن مزاح کا پتہ دیتا ہے کہ جن اوورسیز پاکستانیوں کی جان مال اور جائیدادیں تک پاکستان میں محفوظ نہیں ہیں ’ ان کا سرمایہ کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے ؟

18/10/2024

تو پھر کون یہ فرض پورا کرے گا؟
ایسے لگتا ہے کہ جیسے پاکستانیوں کے ریکارڈ کی سوئی اٹکنے کی روش اس وقت زوروں پر ہے ۔گو بھولے کا خیال ہے کہ یہ سوئی گذشتہ 77 برسوں سے اٹکی ہوئی ہے ’مگر میں بھولے کی بات کو قبول نہیں کرتا ۔ شاید اس کی ایک وجہ میری بھولے کی بے باکی سے حسد ہے ۔کیونکہ بھولا کسی کی بات نہیں سنتا اور اپنی بات کی سچائی پر زور دیتا ہے ۔تاہم بھولے کی باتیں بالکل درست ہوتی ہیں اور میں پڑھا لکھاہونے کے باوجود اس ان پڑھ کی باتوں کوداد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اب آج کی تحریر کے مدعے کی طرف آتے ہیں ۔ چند روز پہلے کاروان ادب برطانیہ اور اردو ٹائمز کے اشتراک سے ایک ”استحکام پاکستان کانفرنس“ منعقد ہوئی تھی ۔ جس کے حوالے سے دانشورں نے بہت سی باتیں کیں اوراس پر کافی لے دے ہو چکی ہے ۔ الغرض یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اب اوورسیز پاکستانیوں کو بیوقوف بنانا کسی حد تک مشکل ہوچکا ہے ۔ جہاں تک اوورسیز پاکستانیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کا معاملہ ہے تو اس پر پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ہم اپنی سرمایہ کاری پاکستان میں جا کر کریں تو پھر پاکستان کی اشرافیہ اور جرنیلوں کی سرمایہ کاری پاکستان سے باہر کیوں ہے ؟ دوسری اہم بات گذشتہ رات جرنلسٹ کونسل آف پاکستان یوکے کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی سیرت کانفرنس کے حوالے سے ہے ۔
اب بات پھر بھولے پر آجائے گی کہ اس نے کیا کہا ۔ اس کاکہنا ہے یہ ہے پاکستان میں جب کسی معاشرتی موضوع پر بات ہوتی ہے تو لوگ پاکستان کی بجائے عالم اسلام کی بات شروع کر دیتے ہیں ۔ پھر ان کی سوئی ایسے اٹکتی ہے کہ پاکستان کے مسائل وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں اور لوگ عالم اسلام کادرد محسوس کرکے رونا شروع کردیتے ہیں ۔ اس کے بعد صلاح الدین ایوبی۔محمد غوری ۔محمد بن قاسم ۔مغلیہ سلطنت اور نجانے کن کن جرنیلوں کے ماضی کے جھوٹے اور سچے قصے سنا کر لوگوں کو نشے کی گولی دے دی جاتی ہے اور لوگ اس سے مسحور ہو کر ان الف لیلائی داستانوں سے لطف اندوز ہونا شروع ہوجاتے ہیں جیسے یہ ان کی روح کی غذا ہو۔سطور بالا میں جن دو تقاریب کا ذکر کیاگیا ہے ’ان کا احوال بیان کرنے سے قبل ہم پریس کلب آف پاکستان یوکے کی زیر اہتمام آج سے سات سال پہلے منائے جانے والے یوم اقبال ؒکی تقریب کا حال بیان کرتے ہیں :-
پروگرام کچھ یوں تھا کہ تقریب میں پہلے علامہ اقبال ؒ پرتین دانشورتین مقالے پڑھیں گے جس کے بعدمشاعرہ منعقد ہوگا۔ تاہم حیرانی اس وقت ہوئی جب تینوں طویل مقالوں میں ایک ہی طرح کی باتیں کی گئیں ۔ اب یہ مقالے تھے’ تقریریں تو تھیں نہیں کہ ایک مقرر نے اگر ایک بات کہہ دی ہے تو دوسرا اسے نہ دہرائے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان طویل مقالوں نے اتنا وقت لے لیا کہ مشاعرے کےلئے بہت کم وقت بچا ۔ اوپر سے ہال خالی کرنے کا وقت بھی ہوگیا اور صفائی کرنے والا عملہ ”موقع پر“ پہنچ گیا۔ حتیٰ کے مہمان خصوصی ڈاکٹر مختار الدین جن کو سننے کےلئے بہت سے لوگ آئے تھے محض ایک غزل ہی سنا سکے ۔ اس پر پریس کلب آف پاکستان یوکے کے اگلے ہی اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ آئندہ سے اقبال ڈے پر محض مشاعرہ ہی ہوا کرے گا۔ معاملہ حل ہوگیا اور اس کے بعد آٹھواں سال ہے اور آئندہ 9 نومبر کو اقبال ڈے کے انعقاد تک اس فیصلے پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے ۔
کاروان ادب برطانیہ اور اردو ٹائمز کی مشترکہ تقریب کا موضوع تھا ”استحکام پاکستان“۔موضوع بہت اچھاتھا۔ جس کامقصد یہ بیان کرنا تھا کہ پاکستان کو بنے ہوئے 77 سال ہوچکے ہیں تو آخراس میں آج تک استحکام کیوں پیدا نہیں ہو سکا ۔ اس پروگرام میں لوگ اسی موضوع پر دانشوروں کی تقاریر سننے آئے تھے کہ آخر وہ پاکستان کے استحکام کےلئے کیا تجویزیں دیتے ہیں ۔تاہم وہی ”ڈھاک کے تین پات“۔ اس تقریب میں مقررین نے استحکام پاکستان کے حوالے سے تو کوئی بات نہ کی ۔البتہ انہوں نے دیومالائی کہانیاں بیان کرنا شروع کر دیں ۔ کچھ نے تویہ کہا کہ پاکستان کو استحکام اس لئے حاصل نہیں ہوسکا کیونکہ وہاں لوگوں نے خدا کو یاد کرنا بند کردیا ہے ۔ بھولے نے اس بات کوسختی سے رد کر تے ہوئے کہا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے اوریہ بات اصل موضوع سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کےلئے کی جا رہی ہے ۔کیونکہ پاکستان میں جمعہ کی نماز کے وقت مساجد میں نمازیوں کا اس قدر ش ہوتا ہے کہ ان کی نماز کی ادائیگی کےلئے جگہ نہیں ہوتی جبکہ کئی مساجد میں دو اور کئی میں جمعہ کی تین جماعتیں ہوتی ہیں ۔ لوگ کس طرح کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں استحکام پیدا نہ ہونے کی وجہ اللہ سے دوری ہے؟ چند مقررین نے بات علامہ اقبال کے خواب سے شروع کی کہ اقبال نے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تکمیل قائد اعظم محمد علی جناح نے کی اور انگریز اور ہندوﺅں کی مشترکہ غلامی سے قوم کو نجات دلا کر ایک ملک پاکستان حاصل کر لیا ۔اسی موضوع پر رہتے ہوئے بعض مقررین نے قیام پاکستان کے موقع پر ہونے والی دہشت گردی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آزادی ایسے ہی حاصل نہیں ہوگئی بلکہ اس کےلئے ہماری لاکھوں ماﺅں اور بہنوں نے اپنی عزتوں کی قربانیاں دیں - ہزاروں مسلمان ہجرت کے دوران شہید ہوگئے اور بہت سے بچے کھچے مشکل سے پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔بھولے نے اس بات کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ پاکستان کے قیام کےلئے کسی نے کوئی قربانی نہیں دی بلکہ یہ ساری دہشت گردی پاکستان کے قیام کا اعلان ہونے کے بعد ہوئی اور پنجاب کے دونوں اطراف میں ہوئی ۔اگر مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو شہید کیاگیا یا مسلمان عورتوں کی عزتیں تاتار ہوئیں تو مغربی پنجاب میں سکھوں اور ہندوﺅں کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا ۔تاہم کسی مقرر نے یہ بات نہیں کی کہ قائد اعظم کی اس جدوجہد کے بعد پاکستان کے قیام کوپچیس برس بھی پورے نہیں ہوئے اور ملک دولخت ہوگیا ۔ کئی لوگ بھارت میں مسلمانوں کے حالات کا جھوٹا رونا روتے رہے کہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا ۔ بھولے نے اس بات کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ بھارت میں مسلمانوں اورہندوﺅں کے تناسب میں کوئی بڑا فرق نہیں رہا ۔ اب مسلمان بھارت میں وہ اقلیت نہیں رہے جو آج سے 77 سال قبل تھے ۔ دوسری اہم بات کہ بھارت میں اس وقت پاکستان سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں ۔ جہاں ان کے ادارے ؛ مساجد ؛ مزارات اور دیگر مذہبی اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں ۔ اگر کوئی اکا دکا واقعہ رونما ہوتا بھی ہے تو یہ پاکستانیوں کی سردردی نہیں بلکہ یہ حکومت بھارت کا کام ہے کہ اپنے ملک میں ہونے والی ان واقعات پر قابو پائے ۔یہ سارے ماضی کے واقعات بیان کرتے ہوئے کوئی مقرر پاکستان کے استحکام کے بارے کوئی لفظ نہ بول سکا۔ بھولے کا استدلال ہے کہ اگرمقررین کی کہی گئی ان ساری باتوں سے اتفاق بھی کیا جائے تو بھی سوال یہ ہے کہ استحکام پاکستان کس طرح ممکن ہو ؟ اس موضوع پر تو کسی نے بات ہی نہیں کی اور اگلے روز سوشل میڈیاپر یہ بات بڑی شدت سے بیان کی گئی کہ استحکام پاکستان کانفرنس انتہائی کامیاب رہی ۔
اب بات کرتے ہیں جرنلسٹس یونین آف پاکستان یوکے کی سیرت کانفرنس کی ۔ گو یہ ایک بہت خوش آئند بات تھی کہ مظہر بخاری نے تمام مسالک کے علماءکو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا’مگر وہاں بھی کہیں نہ کہیں توحید ’ صحابہ اوراہل بیت رسول کے ساتھ محبت بولتی رہی ۔ کسی مقررنے طائف کا واقعہ بیان کیا تو کسی نے کہا کہ حضوراکرم پر مکہ میں بہت ظلم ہوئے اورآپ پر پتھر پھینکے گئے۔کسی نے یہ کہا کہ آپ بہت رحمدل تھے اور فتح مکہ کے موقع پر آپ نے ان لوگوں کو عام معافی دے دی جنہوں نے مسلمانوں پر مکہ میں عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا۔ صلہ رحمی کی وہ مثال قائم کی کہ دنیا آج تک دنگ ہے ۔کسی نے فتوحات کا ذکر کیا اور کسی نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی محبت میں یہاں تک کہہ دیا کہ محمد کے غلاموں نے دنیا کی دو بڑی بادشاہتوں کی جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک دیا ۔ مقررین نے اہل کتاب کے ساتھ آپ کی دوستانہ طبیعت کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک یہودی کا جناز ہ جا رہاتھا توحضوراحتراماًاٹھ کر کھڑے ہو گئے تو کسی نے نجران سے آنے والے مسیحیوں کے وفد کے ساتھ آپ کی صلہ رحمی کا واقعہ بڑے جوش سے بیان کیا ۔ بھولے سے پھر نہ رہا گیا ۔ اس نے کہا کہ یہ جتنی بھی باتیں کر رہے ہیں ’ ساری کی ساری سچ ہیں ۔ ان میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ۔تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیرت کے پرانے واقعات سنائے توگئے مگر آج کے دور میں مسلمانوں کے مسائل کے ساتھ ان کو لنک نہیں کیا گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علماءکرام ہمیں چودہ سو سال پیچھے رکھنا چاہتے ہیں اورآج کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے گھبراتے ہیں ؟
صحافی کا کام ہوتا ہے کہ وہ مسائل کو اجاگر کرے اور ان مسائل کاحل بھی دنیا کے سامنے پیش کرے ۔ یہ نہیں کہ وہ محض لوگوں کو ماضی کے واقعات سنا کر لوری دے اورپھر تھپکی دے کر سلا دے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک نہ صرف یہ کہ پاکستان میں استحکام پیدا نہیں ہو سکا ہے بلکہ مسلمانوں کے 53 ممالک ہوتے ہوئے مسلمان محکوم ہیں ۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ دونوں تقاریب جن کا سطور بالا میں ذکر کیاگیا ہے ’ ان دونوں کا انعقاد صحافیوں نے کیا تھا ۔ اب اگر صحافی ہی اپنے فرض سے پیچھے ہٹ جائیں تو پھر کون یہ فر ض پورا کر ے گا؟

Address

Levenshulme

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Speaker Newspaper posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Speaker Newspaper:

Share

Category