
24/04/2025
دوپہر کے وقت سورج آسمان کی گود میں دہک رہا تھا۔ پورا گاؤں جیسے تپش کی چادر اوڑھے سو گیا ہو۔ پرانی حویلی کے پچھواڑے میں، اکبر نامی ایک محنت کش شخص اپنے گھر کی چھت پر چڑھا۔ مقصد صاف تھا: سولر پینلز کو صاف کرنا۔ پینلز گرد سے اٹے ہوئے تھے، اور وہ چاہتا تھا کہ بجلی زیادہ پیدا ہو۔ ایک بالٹی، ایک کپڑا اور بے دھیانی اس کے ہتھیار تھے۔
اس نے آسمان کی طرف دیکھا، سورج پوری قوت سے چمک رہا تھا، اور پینلز سے اٹھتی ہوئی گرمی جیسے اسے خبردار کر رہی ہو۔ لیکن وہ نہ رکا۔ بالٹی سے پانی نکالا، اور جیسے ہی اس نے پہلا چھینٹا پینل پر مارا، ایک بھیانک آواز گونجی۔
"چٹاخ!"
پانی، جو بجلی کا بہترین موصل ہوتا ہے، نے کرنٹ کو راستہ دے دیا۔ ایک غیر مرئی ہاتھ نے اکبر کے جسم کو جکڑ لیا۔ وہ چیخا، تڑپا، مگر کچھ بھی نہ کر سکا۔ اس کی آنکھوں میں حیرانی جمی ہوئی تھی، جیسے وہ سمجھ ہی نہ پایا ہو کہ موت اتنی جلدی، اتنی بے رحمی سے کیوں آئی۔
گاؤں والوں نے جب اس کی بے جان لاش دیکھی، تو جیسے وقت رک گیا۔ ایک ماں نے بیٹے کو کھو دیا، ایک بیوی نے شوہر، اور ایک معصوم بچی نے باپ کا سایہ۔
سبق: موت کی خاموش زبان کو سمجھو
یہ صرف ایک کہانی نہیں، یہ ایک وارننگ ہے۔ جب سورج اپنے عروج پر ہوتا ہے، تو سولر پینلز ڈی سی (DC) کرنٹ کی بلند سطح پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ ڈی سی کرنٹ، اے سی (AC) کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ یہ مسلسل ہوتا ہے اور اگر جسم میں داخل ہو جائے تو چھوڑتا نہیں۔
پانی ایک ایسا موصل ہے جو اگر کسی خراب وائرنگ یا لیکیج سے ٹکرا جائے، تو وہ کرنٹ آپ کے جسم تک آسانی سے پہنچا سکتا ہے۔ دن کے وقت جب پینل مکمل طاقت سے بجلی پیدا کر رہے ہوتے ہیں، ان پر پانی ڈالنا خودکشی کے مترادف ہے۔
مشورہ برائے زندگی:
سولر پینلز کی صفائی شام کے وقت کریں، یا علی الصبح جب سورج کی روشنی کم ہو اور پینلز بند ہوں۔
ربر کے دستانے اور جوتے پہنیں تاکہ کرنٹ کا راستہ رکا رہے۔
اگر ممکن ہو تو ماہر ٹیکنیشن کی خدمات حاصل کریں۔