Dare World news

Dare World news Welcome to Dare World News on Facebook - for the stories that matter to you.

The best international journalism from Dare News on Youtube, radio, online and mobile.

22/11/2021

World first lock down again in Austria 2021/21

20/01/2021

LETS WELCOME NEW PRESIDENT USA 2021

17/12/2020

Moon rock sample capture by China.

02/12/2020

Euro news

02/12/2020

China moon mission.

02/12/2020

Good Morning Europe. 2020

06/11/2020
05/11/2020

Good Morning

05/11/2020

USA election 2020

03/11/2020

COVID 19 RESTRICATIONS

28/10/2020

Turkish President take legal action against France Magazine and he send his message to president of France check your mental Health.

22/10/2020

POP FRANCE BLESSING ON SAME S*X CIVIL UNION

22/10/2020

Merci on Europa.

13/10/2020

Developing and sustaining solid relationships with company stakeholders and customers. Analyzing customer feedback data to determine whether customers are satisfied with company products and services. Recruiting, training, and guiding business development staff

Join This NGO.2020
10/10/2020

Join This NGO.2020

Can you capture the candidness of the moment in a single shot? One that beautifully reveals people’s raw emotions? And does the chance to talk to children and catch their natural and honest moments excite you? If your answer is yes, TAKMIL has the right opportunity for you.
We need freelance photographers from areas mentioned in the poster to take high quality photographs of children who are studying at TAKMIL schools. Along with that, we need you to capture short clips that can further be used in our Pitch Videos. Photographs and videos both need to be in high quality as we plan to use them in our website. Reference photographs are attached in the poster, while reference video can be found on the link below:
https://www.youtube.com/watch?v=85UB_Sw6lz0
This is a paid opportunity, where your work will also be given credit. Contact with work samples/portfolio on [email protected].

06/10/2020

Good Morning Europe.

06/10/2020

second

04/10/2020

UK Curfew for control covid 19

02/10/2020

COVID 19 tested positive to Donal Trump and First Lady Melaina Trump

کوویڈ 19 نے ڈونلڈ ٹرمپ اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ کا مثبت تجربہ کیا۔

30/09/2020

WAR BETWEEN AZERBAIJAN AND ARMANYIA..2020

To become RJ.
24/09/2020

To become RJ.

24/09/2020

BLACK WOMEN KILL AGAIN IN USA.....ENOUGH IS ENOGH......STOP KILLING BLACK PEOPLE.........

22/09/2020

CORONA VIRUS 2ND PEAK

15/09/2020

When Hyderbad will become like Venice Italy. 2020

14/09/2020

GLOBAL COVID-19 INCREASES.

عالمی CoVid-19 میں اضافہ

08/09/2020

IRAN

05/09/2020

Learn English,it is very important for your business growth

Graphic Content WarningMuharram 2020, Procession in Sirinagar targeted by Indian Forces with pellets... Where is the int...
02/09/2020

Graphic Content Warning

Muharram 2020, Procession in Sirinagar targeted by Indian Forces with pellets... Where is the international out cry? A country that does this to its so called "own people" can't stand for long!Please help to Kashmiri People from Indian Army. Dear Americans(Donload Trump) Helps us to help you otherwise Corona will get our revenge. Solve Kashmir issue. Please spread our message. 2020.

02/09/2020

کوئی ایک جوزف بازل



یہ آج سے اڑھائی سو سال پہلے کی بات ہے‘ 1750ءسے 1810ءکے درمیان لندن کی آبادی 15 لاکھ تک پہنچ چکی تھی‘ آبادی کے لحاظ سے اس وقتیہ دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا‘ لندن میں سر ہی سر نظر آتے تھے‘ شہر منصوبہ بندی کے بغیر بڑا ہوا تھا چنانچہ سڑکیں‘ بازار اور رہائشی آبادیاں لوگوں کا دباﺅ برداشت نہیں کر پا رہی تھیں‘ سیوریج سسٹم نہیں تھا‘ ہر گھر کے سامنے سپٹک ٹینک ہوتا تھا‘شہر میں دو لاکھ گٹر تھے اور یہ گٹر صبح شام ابلتے رہتے تھے۔

گندا پانی گلیوں میں بہتا تھا‘ بارش اس غلیظ پانی کو دریائے تھیمز میں ڈال دیتی تھی اور میٹرو پولیٹن بعدازاں دریا کا پانی پمپ کر کے گھروں کو سپلائی کر دیتی تھی اور یوں شہری

اپنا ہی سیوریج پیتے تھے‘ شہر کے غرباءتہہ خانوں میں رہتے تھے‘ گھروں کے یہ حصے اکثر اوقات سیوریج کے پانی سے بھرے رہتے تھے یا پھر وہاں گندے پانی کی سیلن ہوتی تھی‘ یہ گندگی بیماری میں تبدیل ہوئی اور1831ءمیں لندن میں ہیضے کی خوف ناک وبا پھوٹ پڑی‘ 55 ہزار لوگ مر گئے‘ یہ وبا‘ گندگی اور بدبوہاﺅس آف کامنز کے اندر تک پہنچ گئی‘سیلن کے اثرات برطانوی پارلیمنٹ کے فرش‘ دیواروں اور ستونوں میں بھی دکھائی دینے لگے‘ ہاﺅس آف کامنز کے پردے تک بدبودار پانی میں بھیگ گئے ‘ ارکان پارلیمنٹ ناک پر رومال رکھ کر اسمبلی آتے تھے‘ یہ صورت حال ناقابل برداشت تھی چنانچہ گورنمنٹ نے تدارک کا فیصلہ کیا‘ مختلف ماہرین نے مختلف تجاویز دیں لیکن یہ تمام عارضی علاج تھے‘ حکومت کوئی مستقل حل چاہتی تھی‘یہ ذمہ داری بہرحال جوزف بازل گیٹ کو سونپ دی گئی‘ وہ اس وقت میٹرو پولیٹن کا چیف انجینئر تھا‘ ذہین‘ معاملہ فہم اور لانگ ٹرم پالیسی بنانے کا ماہر تھا‘ جوزف نے پورے لندن کا سروے کرایا‘تمام لوگوں کا ڈیٹا جمع کیا‘ ہر شخص سے پوچھا وہ کتنی بار واش روم جاتا ہے‘ استعمال اور تعداد کو بعد ازاں آپس میں ضرب دی‘پھر اسے تین گنا کر دیا اور پھر اس ڈیٹا کو پائپوں سے ضرب دے کر لندن میں سیوریج کا سسٹم بچھانا شروع کر دیا۔
جوزف نے پورے شہر کو سیوریج سے جوڑا‘ شہر سے دس کلو میٹر دور ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا‘ سیوریج لائین کو اس پلانٹ سے منسلک کیا‘ سیوریج صاف کیا اور پھر صاف پانی دریا تھیمز میں ڈال دیا‘ لندن کا سیوریج ایشو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا‘ جوزف کا سسٹم کس قدر مکمل اور شان دار تھا حکومت کو اس کا اندازہ 1960ءکی دہائی میں ہوا‘ لندن میں1960ءمیں پراپرٹی کا بوم آیا‘ اپارٹمنٹس ٹاورز اور ہائی رائز بلڈنگز بنیں‘ سیاحوں کی تعداد میں بھی دس گنا اضافہ ہو گیا۔

حکومت کا خیال تھا شہر کا سیوریج سسٹم یہ دباﺅ برداشت نہیں کر سکے گا اور میٹرو پولیٹن توسیع پر مجبور ہو جائے گی لیکن میئریہ جان کر حیران رہ گیا جوزف بازل گیٹ کا سسٹم نہ صرف یہ دباﺅ برداشت کر گیابلکہ شہر میں کسی جگہ سیوریج چوک ہوا اور نہ اس کے بہاﺅ میں رکاوٹ آئی‘ جوزف بازل گیٹ کا یہ سسٹم بعد ازاں پورے برطانیہ اور پھر یورپ کے تمام بڑے شہروں میں لگا دیا گیاتاہم فرانس‘ جرمنی اور سپین نے اس سسٹم میں ایک اضافہ کر دیا۔

یہ ملک سیوریج کے پانی کو ٹریٹ کر کے گھروں میں واپس بھجوادیتے ہیں اور یہ پانی کموڈز میں دوبارہ استعمال ہوتا ہے‘آج یورپ کے نوے فیصد گھروں میں پانی کی دو لائنیں بچھائی جاتی ہیں‘ پہلی لائین صاف پانی سپلائی کرتی ہے‘ لوگ یہ پانی پیتے اور اس سے کھانا پکاتے ہیںجب کہ دوسری لائین میں ٹریٹمنٹ شدہ پانی ہوتا ہے‘ یہ پانی باتھ رومز‘ ٹوائلٹس‘ لانڈری‘ لانز اور گیراج میں استعمال ہوتا ہے‘ یورپ میں حکومتیں ہر گھر سے پانی کا بل بھی وصول کرتی ہیں‘ بل پانی میں کفایت شعاری کی عادت بھی ڈالتا ہے اور حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔


ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ گندگی ہے‘ یہ کرپشن‘ ناانصافی اور عدم مساوات سے بھی بڑا ایشو ہے‘ ہم من حیث القوم گندے لوگ ہیں‘ معاشرہ کچن سے شروع ہوتا ہے اور واش روم میں ختم ہوتا ہے اور ہماری یہ دونوں جگہیں انتہائی گندی ہوتی ہیں‘ آپ کروڑ پتی لوگوں کے گھروں میں بھی چلے جائیں‘ آپ کسی شہر کی کسی گلی میں نکل جائیں‘ آپ کو وہاں گندگی کے ڈھیر ملیں گے‘ ہماری مسجدوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں بھی گندگی ہوتی ہے۔

پارلیمنٹ ہاﺅس کے واش رومز میں بھی صابن نہیں ہوتا‘ ملک کے سارے سرکاری واش رومز انتہائی گندے ہوتے ہیں‘ آپ سسٹم کی گندگی کا اندازہ اس سے لگا لیجیے‘ اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی کچرا ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں‘ اسلام آباد کا آدھا سیوریج نالوں اور ڈیم میں جاتا ہے‘ لاہور کا گند راوی اور کراچی کا کچرا سیدھا سمندر میں گرتا ہے اور سمندر بعد ازاں یہ اٹھا کر شہر میں واپس پھینک دیتا ہے اور آپ ملک کے کسی سیاحتی مقام پر چلے جائیں‘ آپ کو وہاں گند کے ڈھیر ملیں گے۔

ہمیں ماننا ہوگا ہم 21 ویں صدی میں بھی لوگوں کو گند صاف کرنے کا طریقہ نہیں سکھا سکے‘ ہم لوگوں کو یہ بھی نہیں بتا سکے صابن سے ہاتھ دھونا کتنا ضروری ہے‘ ہم انہیں یہ بھی نہیں سمجھا سکے آپ جو گند سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں وہ اڑ کر دوبارہ آپ کے گھر آجاتا ہے یا یہ آپ کی سانس کی نالیوں کے ذریعے آپ کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے‘ ہم لوگوں کو یہ بھی نہیں بتا سکے گٹر کا پانی زمین میں موجود پانی اور پینے کے پانی میں شامل ہو جاتا ہے اور ہم اور ہمارے خاندان یہ پانی پیتے ہیں اور یوں ہم مہلک امراض کا نشانہ ہو جاتے ہیں۔

ہم لوگوں کو آج تک یہ بھی نہیں بتا سکے ہمارا ملک اگر ہائیپاٹائٹس سی میں دنیا میں دوسرے ‘ ٹی بی میں پانچویں‘ شوگر میںساتویںاور گردے کے امراض میں آٹھویں نمبر پر ہے یا ہمارے ملک میں ہر سال تین لاکھ لوگ دل کی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو اس کی اصل وجہ گند ہے‘ ہم لوگ گندے ہاتھوں سے گندے برتنوں میں کھاتے ہیں اور گندا پانی پیتے ہیں چنانچہ ہم سب بیمار ہو چکے ہیں‘ ہم لوگوں کو صفائی کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکے ۔

ہم بتا بھی کیسے سکتے تھے!کیوں؟ کیوں کہ حکومت کو خود پتا نہیں ہے‘ آپ آج کراچی کی صورت حال دیکھ لیں‘ بارش نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے تمام سسٹم ننگے کر دیے ہیں‘ پورا شہر اس وقت پانی‘ کیچڑ‘ کچرے اور تعفن میں دفن ہے اور یہ تعفن اوریہ گند کیا بتا رہا ہے؟ یہ بتا رہا ہے ہمیں تباہ کرنے کے لیے کسی دشمن یا کسی بم کی ضرورت نہیں‘ ہمارے لیے کچرا اور بیماریاں ہی کافی ہیں۔ہمارے پاس اب دوآپشن ہیں‘ ہم کچرے اور بیماریوں کے ہاتھوں ختم ہو جائیں یا پھر ہم جوزف بازل گیٹ کی طرح لمبی پلاننگ کریںلہٰذا حکومت(وفاقی اور صوبائی) کو فوراً چند بڑے قدم اٹھانا ہوں گے۔

گند ہماری فطرت‘ ہماری عادت میں شامل ہے‘ حکومت کو یہ عادت بدلنے کے لیے فوری طور پر سائنسی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا‘ اسے پرسنل ہائی جین سے لے کر ماحولیات تک صفائی کا سلیبس بنانا ہوگا اور یہ سلیبس پہلی سے دسویں جماعت تک سکولوں میں متعارف کرانا ہوگا‘ حکومت کو پورے پاکستان میں پبلک ٹوائلٹس بھی بنوانے ہوں گے اور عوام کو ان کے استعمال کا طریقہ بھی سکھانا ہوگا‘ ہم آج بھی پینے کا صاف اور میٹھا پانی فلش میں بہاتے ہیں‘ ہمیں یہ ٹرینڈ بھی فوراً بدلنا ہوگا۔

حکومت فوری طور پر ہاﺅسنگ سوسائٹیز اور نئی تعمیرات کے لیے نئے بائی لاز بھی بنائے اور فلش اور صاف پانی کی لائین بھی الگ الگ کرے اور یہ ہر گھر میں چھوٹے سے ٹریٹمنٹ پلانٹ کو بھی لازمی قرار دے دے‘ یہ پلانٹ استعمال شدہ پانی صاف کر کے دوبارہ فلش کے ٹینکوں میں ڈالے اور پھر صاف کرے اور پھر مین سیوریج لائین میں ڈالے‘ ہم اگر فوری طور پر یہ بندوبست پورے ملک میں نہیں کر سکتے تو ہم کم از کم ملک کے دس بڑے شہروں میں تو یہ سسٹم متعارف کرا سکتے ہیں۔

حکومت اسی طرح کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا جدید سسٹم بھی بنائے‘ یہ ہر شہر میں صفائی کے ڈائریکٹوریٹ بنائے ‘ لوگ بھرتی کرے‘ گھروں سے فیس لے اور پھر اگر کسی شہر کی کسی گلی میں کچرا نظر آئے تو یہ ذمہ داروں کو الٹا لٹکا دے‘ دنیا میں کچرے سے بجلی بنانے کے پلانٹس بھی آ چکے ہیں‘ حکومت ہر شہر میں یہ پلانٹس بھی لگوا سکتی ہے یوں بجلی کا ایشو بھی ختم ہو جائے گا اور کچرا بھی ٹھکانے لگ جائے گا اور حکومت ہر کچے اورپکے مکان کے لیے باتھ روم کا سائز اور ڈیزائن بھی فائنل کر دے۔

پلمبرز کو اس ڈیزائن کی ٹریننگ دی جائے اور انہیں پابند بنایا جائے‘ جو پلمبر خلاف ورزی کرے گا اسے سات سال قید بامشقت دے دی جائے گی‘ ریستورانوں اور دکانوں میں بھی باتھ روم لازمی ہوں اور ان کا باقاعدہ سٹینڈرڈ ہو‘ موٹروے پولیس کی طرح سینیٹری پولیس بھی بنائی جائے ‘ یہ پولیس گند پھیلانے والوں کو بھاری جرمانہ کرے‘ یہ گھروں اور پبلک باتھ رومز کا معائنہ بھی کرے اور اسی طرح ملک میں زمین کا کوئی چپہ بھی خالی نظر نہیں آنا چاہیے‘ زمین کے ایک ایک انچ پر پودا ہونا چاہیے‘ وہ خواہ پھول ہو‘ گھاس ہو یا پھر درخت ہو‘پورا ملک سبز ہونا چاہیے۔

پاکستان کے ہر طالب علم‘ ہر ملازم اور ہر کمپنی کے لیے درخت لگانا لازمی قرار دے دیا جائے‘ لوگ ہر سال ٹیکس ریٹرن کی طرح گرین ریٹرن بھی فائل کریں اور حکومت اس کا آڈٹ بھی کرے اورآخری تجویز حکومت جوزف بازل گیٹ جیسا کوئی شخص تلاش کر کے کراچی کا سیوریج سسٹم اور کچرا ٹھکانے لگانے کا کام اس کے حوالے کر دے‘ ہم فیصلہ کر لیں ہم کراچی کو تین سال میں کلین اور گرین کر دیں گے اور ہم اگر 22 کروڑ لوگوں کے اس ملک میں ایک جوزف بازل گیٹ بھی تلاش نہیں کر سکتے‘ ہم اگر کچرا بھی نہیں اٹھاسکتے اور نالے بھی صاف نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں ملک کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے کیوں کہ کچرا اور یہ ملک اب دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکیں گے۔

Address

156 Vaughton
Birmingham
B120SS

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dare World news posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Dare World news:

Videos

Share

DW HQ IN BIRMINGHAM.

Press the LIKE button to see our posts in your newsfeed.

We want everyone to enjoy this page and welcome debate. Spam, bullying and offensive comments, however, will be removed and repeat offenders will be banned from the page.

We aim to be as responsive as possible but unfortunately can't reply to every individual comment or message.

Comments hosted on posts on this page do not in any way represent the views of the BBC.


Other News & Media Websites in Birmingham

Show All