تمہیں دل میں بسایا تھا
تمہاری بات مانی تھی تمہیں سینے لگایا تھا
تمہارے درد پالے تھے مگر تم کو ہسایا تھا تمہاری بے تُکی باتوں پہ گھنٹوں مسکرایا تھا
تمہاری لاج رکھی تھی تمہیں سر پہ بٹھایا تھا
مجھے دنیا میسر تھی مگر میں تم پہ ٹھہرا تھا
مجھے پھر تم نے بتلایا کہ تم تو اور ہی کچھ ہو
میں تم کو اور سمجھا تھا
میں سمجھا تھا کہ سمجھو گے میری چاہت کے افسانے
مگر تم سرسری نکلے
مجھے افسوس ہے یارا کہ تم بھی اور ہی نکلے
حمزہ حسام
من پسند انسان میں قدرت نے بہت شفا رکھی ہے، اُس کا ہمارے ساتھ ہونے کا احساس ہی ہماری زندگی خوشگوار بنا دیتا ہے
لاکھ تم اشک چھپاؤ ہنسی میں بہلاؤ
چشمِ نمناک بتاتی ہے کہ تم روئے ہو
چلو اچھا کیا تم نے
محبت ترک کر ڈالی
محبت ویسے بھی اتنا بڑا رشتہ نہیں ہوتا کہ جسے ہر حال میں نبھانا ضروری ہو.
محبت اور مجبوری میں تھوڑا فرق ہوتا ہے
وہ تجھ کو بھول بیٹھے ہیں تو تجھ پہ بھی لازم ہے میر
خاک ڈال اگ لگا نام نہ لے یاد نہ کر
سنو مجھ سے نہیں ہوتا
دلیلیں دو
صفائیاں دو
میری انکھوں میں لکھا ہے
مجھے تم سے محبت ہے
شِکوہ نہ کر زبان کا, لہجے میں پیار ڈھونڈ
فرصت ملے تو جھانک کر آنکھوں کے پار ڈھونڈ
سُر کو ملا دے ساز سے سانسوں کے ساتھ ساتھ
ہاتھوں کو لے کے ہاتھ میں دھڑکن کے تار ڈھونڈ
ملتا ہے کب خلوص یاں عہدِ فریب میں
چل کر سمے کی راہ سے بچپن کے یار ڈھونڈ
پتے فقط یُوں شاخ پہ ہوتے نہیں ہرے
جن کو نمُو ہو پیڑ کی اُن پر بہار ڈھونڈ
جتنا بھی دُور جائے گا اُتنا کھنچے گا دل
تجھ کو ملے فرار تو خود سے فرار ڈھونڈ
حیرت سے مجھ کو خاک میں اَٹتے ہوئے نہ دیکھ
جانے بھی دے غُبار کو بس تُو سوار ڈھونڈھ
کس کو خبر کہ عشق کی منزل کدھر ہے قیس
ہم بھی کھڑے ہیں دشت میں تُو بھی پُکار, ڈھونڈ
جاں بھی لگایا شوق سے عاطف لگا نہ دل
اِس شُترِ بے مُہار کی جاکر مُہار ڈھونڈ
عاطف جاوید عاطف
سکونِ قلب تم سے ہے سکونِ جاں بھی تم ہو تعجب ہے کہ سینے میں جہاں دل تھا وہاں تم ہو
مجھ سے مخلص نا واقف میرے جذبات سے تھا اس کا رشتہ تو فقط اپنے مفادات سے تھا
اب جو بچھڑے ہیں تو کیا روئیں جدائی پہ اُس کی
یہ اندیشہ تو ہمیں پہلی ملاقات سے تھا
مجھ سے اتنے قریب ہو جاؤ
اداس شب کی سلیب ہو جاؤ
میری باہوں کو سونپ دو سب کچھ
میری خاطر قریب ہو جاؤ
کس طرح کہیں تجھ سے
کہ تیرے رُوٹھ جانے سے
ہم دُکھوں کے ماروں پر
دو ٹکے کے لوگوں نے
اُنگلیاں اُٹھائیں ہیں
قسمیں جھوٹ رسمیں جھوٹ
وعدے جھوٹ اِرادے جھوٹ
ایک جھوٹ اور بول دو
کہ تم لوٹ آو گے
دوستو تم کو آزمانے میں
لطف آتا ہے زخم کھانے میں
میری آنکھوں کو ہے اذیت سی
پھر نئے خواب کچھ سجانے میں
ہجر کی آگ ایسی بھڑکی ہے
جسم جلنے لگا بُجھانے میں
تجھ کو صدیوں میں ہم نے پایا تھا
اور اک پل لگا گنوانے میں
ایسا لگتا ہے روح قاصر ہے
جسم کا بوجھ اب اُٹھانے میں
سارے کردار ساتھ چھوڑ گئے
سب کے سب مر گئے فسانے میں
جذبہ ِ دل لہو لہان ہوا
خود سے رُوٹھا تجھے منانے میں
دل کو پتھر بنانا پڑتا ہے
خود کو اک آئینہ بنانے میں
زندگی وقفِ رنج و غم کر کے
جی رہا ہوں ترے زمانے میں
کس سے اب حالِ دل کہیں شاکر
کوئی اپنا نہیں زمانے میں
ڈاکٹر شاکر حسین اصلاحی
چلو ہم مان جاتے ہیں تیرا جانا ضروری ہے
تو کیا یہ بھی ضروری ہے کہ رشتے توڑ کر جاؤ
بہت کہا تھا آپ سے
زرا سا رحم کھائیے
ہمیں نہ چھوڑ جائیے
کہ آپ کے بِنا سفر
سراب ہے عزاب ہے
آشنا بہرطور درد سے ہونا تھا مجھے
تُو نہ ہوتا تو ہم کسی اور سے بچھڑے ہوتے
اُس نے کہا تم میں پہلی سی بات نہیں
میں نے کہا زندگی میں تمہارا ساتھ نہیں