13/06/2025
اسرائیل نے ایران پر 13 جون 2025 کو تقریباً صبح 3 بجے (ایرانی وقت) ایک غیر معمولی اور وسیع پیمانے پر ہوائی حملہ کیا ہے۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق، "Operation Rising Lion" نامی مشن میں اسرائیلی ایئر فورس کے 200 سے زائد جدید لڑاکا طیاروں نے ایران کے عسکری اور جوہری اہداف کو انتہائی منظم انداز میں نشانہ بنایا۔
اسرائیلی فضائی بیڑے میں شامل امریکی ساختہ F‑15I، F‑16I اور F‑35 اسٹیلتھ طیارے بھاری ہتھیاروں، لانگ رینج میزائلوں، اور جدید الیکٹرانک وارفیئر ٹیکنالوجی سے لیس تھے۔ ان طیاروں نے تہران، اصفہان، ہمدان، اور کرمان کے قریب واقع ایئر ڈیفنس مراکز، میزائل فسیلٹیز، ناتانز افزودگی مرکز، دیگر جوہری تنصیبات، اعلیٰ کمانڈروں کی رہائش گاہوں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز سمیت 100 کے قریب اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
حملے میں ایران کو شدید جانی، عسکری اور اسٹریٹجک نقصانات کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں۔ پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ حسین سلامی، ایرانی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری، اور فضائی دفاع کے سربراہ جنرل غلام علی رشید شہید ہو گئے، اعلیٰ مشیر علی شمخانی شدید زخمی ہونے کے بعد جانبر نہ ہو سکے۔ دو نامور نیوکلیئر سائنسدان—فریدون عباسی داوانی اور محمد مهدی طہرانچی—بھی حملے کا نشانہ بنے۔ تہران کے شمالی رہائشی علاقوں میں 50 سے زائد شہری ہلاک یا زخمی ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ دفاعی تنصیبات بشمول ناتانز یورینیم افزودگی مرکز، میزائل فیکٹریاں، ریڈار اسٹیشنز اور S‑300 میزائل دفاعی نظام کو نقصان پہنچنے کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ ایران کی عسکری کمانڈ، ایئر ڈیفنس نیٹ ورک اور نیوکلیئر پروگرام کے لیے بھاری دھچکہ ہے۔
حملے کی رفتار، اہداف کی درستگی، اور ایرانی دفاعی نظام کو معطل کرنے کی صلاحیت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کارروائی طویل منصوبہ بندی اور انٹیلیجنس معلومات پر مبنی تھی۔ تاہم اس سے کئی ایک سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔
ایران کے دارالحکومت تہران سے اسرائیل کا فضائی فاصلہ کم از کم 1,700 سے 1,800 کلومیٹر ہے۔ اتنے فاصلے تک حملے کے بعد واپسی کے لیے، اسرائیلی طیاروں کو لازمی طور پر ری فیولنگ کی ضرورت پیش آتی ہے، خاص طور پر جب وہ بھاری بم لے کر جا رہے ہوں۔
اسرائیل کے پاس صرف 7 سے 8 KC‑707 "Re’em" بوئنگ ری فیولنگ طیارے موجود ہیں جو محدود تعداد میں لڑاکا طیاروں کو ایندھن فراہم کر سکتے ہیں۔ 100 کے لگ بھگ طیاروں پر مشتمل بیڑے کے لیے یہ سہولت نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل نے اس آپریشن کے لیے لازمی طور پر بیرونی مدد حاصل کی۔
امریکہ نے بطور خاص اعلان کیا ہے کہ اُس نے حملے میں کسی قسم کی لاجسٹک یا ری فیولنگ معاونت فراہم نہیں کی۔ بظاہر ٹرمپ کی پالیسی بھی یہی دیکھائی دیتی ہے۔ اس کے بعد ایک ہی امکان باقی رہ جاتا ہے: اسرائیلی طیارے واپسی پر کسی قریبی ملک کی ایئربیس پر عارضی لینڈنگ کر کے ایندھن حاصل کر کے واپس لوٹے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان واقعہ وہ کون سا ملک ہے جس نے اس حملے میں اسرائیل کی معاونت کی ہے۔ آج سیٹلائیٹ کے دور میں یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔
دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ ایران پر حملے کے لیے اسرائیلی طیاروں کو لازمی طور پر اردن، عراق، سعودی عرب، یا خلیجی ممالک کی فضائی حدود سے گزرنا پڑتا ہے۔ اتنے بڑے بھارٰ ہتھیاروں سے لیس فضائی بیڑے کی حرکت کو کوئی ریڈار نظر انداز نہیں کر سکتا، لیکن حیرت انگیز طور پر:
کسی ملک نے ایئر ڈیفنس الرٹ جاری نہیں کیا،
کسی نے اسرائیلی فضائی خلاف ورزی پر احتجاج نہیں کیا،
کسی نے طیارے انٹرسیپٹ نہیں کیے۔
یہ خاموشی محض اتفاق نہیں بلکہ ایک "پہلے سے طے شدہ رضامندی" کا پتہ دیتی ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کئی حکمران اسرائیلی حملے سے پہلے سے باخبر اور خاموش شراکت دار بنے ہیں۔
بظاہر یہ حملہ اسرائیلی عسکری صلاحیت کی ایک شاندار مثال ہے، مگر اصل میں یہ حملہ ان ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے جو آج خاموشی سے اسرائیلی مقاصد میں شامل ہیں۔