Science with Dr.Hafeez

Science with Dr.Hafeez یہاں آپکو جدید سائنس، ادب اور تاریخ بغیر ملاوٹ کے ملے گی
(4)

مشتری کا چاند یوروپا جسکی برفیلی تہہ کے نیچے پانیوں کے سمندر ہیں۔ اتنا پانی کہ زمین پر موجود تمام پانی سے بھی دوگنا زیاد...
03/04/2024

مشتری کا چاند یوروپا جسکی برفیلی تہہ کے نیچے پانیوں کے سمندر ہیں۔ اتنا پانی کہ زمین پر موجود تمام پانی سے بھی دوگنا زیادہ ۔برف کے نیچے مائع پانی میں ممکن ہے زندگی پنپنتی ہو۔ یوروپا کی برفیلی سطح کیوجہ سے یہ زمین کے چاند سے بھی 5.5 گنا زیادہ روشنی منعکس کرتا ہے۔

سائنس مختلف ہے باقی تمام سوچنے والے نظاموں سے۔۔ کیونکہ تم کو اس پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں، تم خود اسے چیک کر سکتے ہو ک...
03/04/2024

سائنس مختلف ہے باقی تمام سوچنے والے نظاموں سے۔۔ کیونکہ تم کو اس پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں، تم خود اسے چیک کر سکتے ہو کام کرتے ہوئے۔۔۔
☆برائن کاکس

وقت، حرکت اور گریویٹی کا کھیل!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسنپہلی قسطوقت اس کائنات کی بنیادی خاصیت ہے۔ یہ وقت ہی ہے جس میں ہم و...
03/04/2024

وقت، حرکت اور گریویٹی کا کھیل!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

پہلی قسط

وقت اس کائنات کی بنیادی خاصیت ہے۔ یہ وقت ہی ہے جس میں ہم وجود رکھتے ہیں۔ آپ ابھی جو تھے اب سے ایک سیکنڈ بعد وہ نہیں ہونگے بلکہ تبدیل ہو چکے ہونگے۔ آپ کے جسم میں ہر لمحہ تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ تبدیلی دراصل وقت کی مرہونِ منت یے۔ تبدیلی کا سبب حرکت ہے، ایٹموں کی حرکت۔ ایٹم کیوں حرکت کرتے ہیں؟ ایٹموں کے ذرے کیوں حرکت کرتے ہیں؟ کائنات میں توانائی کے ایک جگہ سےدوسری جگہ وقت کی مرہونِ منت منتقل ہوتی ہے۔وقت کی پیمائش حرکت سے ہوتی ہے۔ آپکے گھر میں لگی گھڑی کی سوئی حرکت کرتی یے اور وقت کو ماپتی ہے۔

پرانے زمانوں میں گھڑیاں نہیں تھیں۔
شکار کرتا انسان غالباً سورج، چاند اور موسموں کے بدلنے سے وقت کو ماپتا۔ وقت کی پیمائش کا اسکے پاس کوئی آلہ نہیں تھا۔کم سے کم آثارِ قدیمہ اور انسانی تاریخ کے ارتقاء میں ہمیں شکار کرتے انسان کے وقت کے ماپنے کے لیے کسی آلے کا بنانے کا کوئی واضح ثبوت یا آثار نظر نہیں آتے۔

سب سے پہلی گھڑی کس نے بنائی؟

گھڑی کیا ہے؟ تواتر سے خاص وقفے پر چلنے والا وہ آلہ جسکی مدد سے ہم وقت کو تقسیم کرتے ہیں اور ان وقفوں کو گن کر بتاتے ہیں کہ کتنا وقت گزرا۔ گویا گھڑی کے لیے دو عوامل کا ہونا ضروری ہے۔ وقت کی تقسیم اور اس تقسیم کی گنتی۔ یعنی وقت اضافے کا نام ہے۔ ایک لمحے میں دوسرے لمحے کا اضافہ۔

وقت کی تقسیم کیسے کی جائے؟ حرکت سے۔ کسی مسلسل حرکت کرتی شے سے۔ یہ شے کیا ہو سکتی ہے؟
ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو ہمیں سورج آسمان حرکت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے۔ ماضی کا انسان یہی سمجھتا تھا کہ دراصل سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ ایسا کیوں تھا؟ کیونکہ اسے اپنے اردگرد کی دنیا ساکن محسوس ہوتی۔ ساکن کیوں محسوس ہوتی؟ کیونکہ وہ ایک ایسی زمین پر تھا جو ایک مستقل رفتار سے حرکت کر رہی تھی۔ اس میں ہچوکلے نہیں تھے۔ ساکن ہونا کیا ہے؟ ساکن ہونا حرکت کا نہ ہونا ہے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ساکن شے صفر کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کرتی ہے۔ صفر کیا ہے؟ ایک مستقل عدد، صفر کلومیٹر فی گھنٹہ کیا ہے؟ ایک مستقل رفتار ۔

گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی شے صفر رفتار سے حرکت کرے یا مستقل رفتار سے، تو ہم اس میں بیٹھے اسکی حرکت کو محسوس نہیں کر پائیں گے۔

مگر عام مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ اگر ہم کسی روڈ پر گاڑی میں بیٹھے ہوں اور گاڑی کے سسپنشن بھی اچھے ہوں کہ اس سے جھٹکے نہ لگیں اور روڈ بھی ہموار ہو جیسے کسی نئی سوسائٹی کی بلیک ٹاپ سڑک یا موٹر وے، تب بھی ہمیں گاڑی میں حرکت محسوس ہوتی ہے۔ ہے ناں!!

ایسا کیوں ہے؟
ایسا دو وجوہات کی بِنا پر ہے۔
اول گو کہ روڈ ہموار ہے اور گاڑی بھی بہتر ہے اور آپ سپیڈ ڈائل پر ایک ہی مستقل رفتار رکھے ہوئے ہیں مگر پھر بھی یہ رفتار "مکمل" طور پر مستقل نہیں ہو گی۔

کیوں مستقل نہیں ہو گی؟ بظاہر یہ رفتار مستقل نظر آ رہی ہے لیکن نہ ہی روڈ مکمل طور پر ہموار ہوتا ہے اور نہ ہی گاڑی کے سسپنشن مکمل طور پر حرکت میں تبدیلی کو زائل کر سکتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ فِرکشن ہے یعنی دو مختلف سطحوں کے درمیان رگڑ جو حرکت سے پیدا ہوتی یے۔ گاڑی کے پہیوں اور روڈ کے درمیان فرکشن۔ اب اگر آپکے پاس نہایت حساس آلہ ہو جو گاڑی کی رفتار میں معمولی حرکت کی تبدیلی کو محسوس کر سکے تو آپ جان سکیں گے کہ بظاہر مستقل حرکت میں چلنے والی گاڑی ، مکمل طور پر مستقل حرکت میں نہیں ہے۔لہذا آپ گاڑی کی حرکت کو محسوس کر سکیں گے۔

دوسری اہم وجہ ہے گاڑی سے باہر کی رنگ برنگی دنیا۔ گاڑی کے باہرجو دنیا ہے، اس میں مختلف چیزیں ہیں۔ یہ مخلتف شکل و صورت کی ہیں، کہیں گاڑی کے باہر حافظ دواخانہ ہے تو کہیں راجہ کینسر ہاسپٹل، کہیں خان چپلی کی دکان ہے تو کہیں چرسی تکے کی۔ آپ ان میں فرق معلوم کر سکتے ہیں۔یہ بھانت بھانت کی اشیا جب آپکی آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں تو آپکو معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ایک شے آنکھ سے سامنے تھی اب ایک سیکنڈ کے بعد پہلے والی شے سے مختلف شے انکھوں کے سامنے آئی۔
گویا پچھلی شے ریفرنس تھی جس کی بنیاد پر آپ نے اگلی شے کا فرق معلوم کیا۔ یعنی ماحول ایک سا نہیں، مختلف ہے۔ تاہم یہاں چونکہ آپکو معلوم ہے کہ گاڑی چل رہی ہے اور باہر کی دنیا کوئی فلم نہیں ہے، لہذا آپ کو حرکت محسوس نہیں ہو گی، البتہ یہ معلوم ضرور ہوگا کہ آپ سفر میں ہیں۔

لیکن اگر آپ کی گاڑی کے باہر ہر طرف کی دنیا کو ایک سا اور ایک رنگ کا کر دیا جائے تو کیا اپ اپنے اردگرد ماحول بدلتا دیکھ پائیں گے؟ کیونکہ اب تو کچھ نہیں بدل رہا۔ فرض کیجئے اگر آپکو ایک بڑے سے کمرے میں بند کر دیا جائے جہاں ہر طرف کالا رنگ ہو، دیوار کا رنگ بھی کالا، چھت کا رنگ بھی کالا تو آپ تذبذب کا شکار ہو جائیں گے۔ اب اگر اسی بات کو آگے لیکر چلیں اور فرض کریں کہ آپ جس گاڑی میں مستقل رفتار سے سفر کر رہے ہیں، اسکے اردگرد کی دنیا حتی کہ روڈ کو بھی پیا رنگ کالا کر دیا جائے تو کیا آپکا دماغ تب بھی مستقل رفتار سے چلتی گاڑی میں حرکت کو محسوس کر پائے گا یا جان پائے گا؟ ہرگز نہیں۔

اور یہی سب خلا میں ہو گا جہاں اگر آپ ایک مستقل رفتار سے چلتے راکٹ میں سفر کر رہے ہوں کیونکہ وہاں نہ فرکشن ہو گی اور نہ ہر طرف کچھ ہو گا ، ایسے میں تو آپ کبھی بھی خود کو حرکت میں محسوس نہیں کر پائیں گے۔ تاوتیکہ کہ آپ خلا میں کسی شے کو ریفرنس کے طور پر یا نشانی کے طور پر نہ رکھ لیں جیسے کہ زمین اور اگراپ اس سے دور ہو رہے ہونگے تو محض اتنا جان سکیں کہ آپ حرکت میں ہیں مگر محسوس پھر بھی نہیں کر سکیں گے۔

زمین بے حد بڑی ہے۔ اس پر ہر شے آپکے ساتھ ساتھ مسلسل حرکت میں یے اور زمین خلا میں سورج کے گرد گھومتی ہے۔ لہذا آپکو زمین پر حرکت محسوس نہیں ہوتی۔اسکی وجوہات وہی ہیں جو اوپر بیان کی۔ یعنی اول آپکے پاس کوئی ایسا ریفرنس نہیں ہے جسکے مقابلے میں آپ زمین کی حرکت کو جان سکیں کیونکہ ہر شے جو زمین پر ہے، آپکے ساتھ ساتھ ایک ہی رفتار سے حرکت میں ہے اور دوسرا آپکا دماغ۔ کیونکہ آپکا دماغ مستقل رفتار کی حرکت کو محسوس نہیں کر سکتا۔

ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ہم اس زمین پر ارتقاء پذیر ہوئے جو مستقل رفتار کی حرکت سے خلا میں تیر رہی ہے۔اگر ہمیں زمین کی مستقل رفتار سے ہوتی حرکت ہر لمحہ محسوس ہوتی تو کیا ہم کچھ کر پاتے؟ صحیح طور پر چیزوں کو دیکھ پاتے؟ ہمارا دماغ نہ گھومتا؟ ہمارا دماغ یوں بنا ہے کہ وہ حرکت کرتی کسی شے میں ہو تو محض اس شے کی رفتار میں تبدیلی کو ہی محسوس کر سکے گا، مستقل حرکت کو نہیں۔ مثال کے طور پر آپ گاڑی سٹارٹ کریں گے تو اسکی رفتار صفر سے اچانک 20 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی تو آپکا دماغ اسے محسوس کرے گا۔یا پھر آپ نے چلتی گاڑی کا ایکسلریٹر دبایا تو گاڑی نے رفتار پکڑی اور آپکو محسوس ہوا۔

مگر یہ بات کہ زمین کی رفتار مکمل طور پر مستقل ہے، سائنسی لحاظ سے کچھ غلط ہے۔
زمین مکمل طور پر مستقل رفتار سے نہ ہی اپنے محور پر گھومتی ہے اور نہ ہی سورج کے گرد۔ بلکہ اس میں معمولی اسراع یے یعنی ایکسلیریشن یعنی رفتار میں ہر لمحہ معمولی تبدیلی۔ یہ اسراع زمین کی محوری گردش کے باعث پیدا ہونے والی سینٹری فیگل فورس کے باعث ہے۔
کسی بھی گھومتی شے پر ایک قوت اثرانداز ہوتی ہے جو اسے دائرے میں گھومنے کی بجائے دائرے سے باہر لےجانے کی کوشش کرتی ہے۔ اسے سینٹریفیگل فورس کہتے ہیں۔ زمین پر بھی اس قوت کے باعث ہم پر 0.03 میٹر فی مربع سیکنڈ ہے کا اسراع پیدا ہوتا ہے جو ہمیں ہر لمحہ زمین کی گردشی حرکت کی سمت سے باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے تاہم اسکے مقابلے میں ایک اور قوت ہے جو زمین کی گریوٹی ہے۔ زمین ہمیں کششِ ثقل یا گریویٹی کی وجہ سے اپنے مرکز کی طرف کھینچتی ہے۔ اس قوت سے پیدا ہونے والا اسراع، سینٹریفیگل فورس کے 0.03 میٹر فی مربع سیکنڈ کے اسراع سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی تقریبا 9.8 میٹر فی مربع سیکنڈ۔

اس واسطے آپکو 0.03 مربع فی سیکنڈ کا سینٹری فیوگل کا اسراع محسوس نہیں ہوتا بلکہ گریویٹی کا اسراع اپنے وزن کی صورت محسوس ہوتا ہے، جسکی سمت زمین کے مرکز یعنی آپکے نیچے کی طرف ہوتی ہے۔ جسے ہمارا دماغ کسی خاطر میں نہیں لاتا اور گریوٹی سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک مسلسل اسراع ہے اور اسی مسلسل اسراع میں انسان زمین پر ارتقا پذیر ہوا۔ اسکے علاوہ زمین پر ایک اور اسراع بھی عمل کرتا ہے جو اسکے سورج کے گرد بیضوی مدار کے باعث ہے۔ زمین کا سورج سے فاصلہ اسکے بیضوی مدار کے باعث، بڑھتا اور کم ہوتا رہتا ہے۔ جب زمین سورج کے قریب ہوتی ہے تو اسکی رفتار میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جب دور تو رفتار میں کمی۔ اس واسطے زمین پر اپنے بیضوی مدار کے باعث 0.006 میٹر فی مربع سیکنڈ کا اسراع پیدا ہوتا ہے۔ تاہم چونکہ ہمارا دماغ محض 0.02 میٹر فی مربع سیکنڈ تک کے اسراع کو ہی محسوس کر سکتا ہے لہذا یہ اس اسراع کو محسوس نہیں کر سکتا جو اس سے بھی انتہائی کم ہے۔
اوپر کی تمام وضاحت سے اُمید ہے کہ آپکو سمجھ آ گئی ہو گی کہ ہم گھومتی اور گردش کرتی زمین پر حرکت محسوس کیوں نہیں کر سکتے۔

تو اس تناظر میں سائنس کا اور ارتقاء کا علم نہ ہونے کے باعث ماضی کا سادہ لوح انسان اسی نتجے پر پہنچتا تھا کہ زمین حرکت نہیں کرتی، بلکہ سورج اسکے گرد گھومتا ہے۔ اور سورج کے اس طرح آسمان میں حرکت سے مصریوں نے آج سے تقریباً 3500 سال پہلے 1500 قبل مسیح میں گھڑی بنائی جسے سن ڈائل یا سورج گھڑی کہتے ہیں۔ اس گھڑی کی تفصیل اور اس سے آگے وقت کی پیمائش کے مختلف طریقہ کار اگلی قسط میں۔۔

جاری ہے

آج ہمارے معاشرے سائنس سمجھنے والے کم اور گالیاں دینے والے زیادہ ہیں مگر ایک وقت آئے گا جب گالیاں دینے والے کم اور سائنس ...
02/04/2024

آج ہمارے معاشرے سائنس سمجھنے والے کم اور گالیاں دینے والے زیادہ ہیں مگر ایک وقت آئے گا جب گالیاں دینے والے کم اور سائنس سمجھنے والے زیادہ ہونگے۔۔روشنی اندھیرے کو خود کم کرتی ہے۔ بیسویں صدی میں جب سگمننڈ فرائیڈ کی کتابوں کو جلایا گیا تو اُنہوں نے کہا تھا:
"قرونِ وسطیٰ میں وہ مجھے جلاتے، اب وہ محض میری کتابیں جلا کر مطمئن ہو رہے ہیں"

زمین پر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسنزندگی دراصل فطرت سے لڑنے کا نام ہے اور اس لڑائی میں توانائی درکا...
02/04/2024

زمین پر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

زندگی دراصل فطرت سے لڑنے کا نام ہے اور اس لڑائی میں توانائی درکار ہے۔ کائنات میں ہر شے ایک ہی درجہ حرارت پر آنا چاہتی ہے۔ آپ گرم پانی کو کہیں پر رکھیں تو ایک وقت کے بعد یہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ کیونکہ یہ اپنے اندر موجود توانائی کو ہوا میں خارج کر دے گا۔گرم پانی کو ہمیشہ گرم رہنے کے لیے توانائی درکار یے۔

یہی سب معاملہ زندگی کا ہے۔ ہم اور دیگر جاندار خوراک کا استعمال اپنا جسم گرم رکھنے کے لیے اور جسم کے مختلف عوامل کو مکمل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ایک مرا ہوا انسان ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ ایک مردہ جاندار میں توانائی نہ ہونے کے بعد جب سارے عوامل رک جاتے ہیں اور باہر سے کوئی توانائی خوراک یا کسی اور صورت داخل نہیں ہو سکتی تو اسکے اندر موجود بیکٹریا اور باہر سے آئے کیڑے اسے کھانے لگتے ہیں۔
جب ہم زندہ ہوتے ہیں تو باہر سے آئے بیکٹریاز سے ہمارے جسم کا مدافعتی نظام لڑتا رہتا ہے اور ہمیں محفوظ رکھتا یے۔
آپکو جب بخار ہوتا ہےتو آپکا جسم دراصل اپنا درجہ حرارت بڑھا دیتا ہے تاکہ اس میں موجود باہر سے ائے وائرس یا بیکٹریا نشو ونما نہ پا سکیں۔

زمین پر زندگی دراصل توانائی کی بدولت ہے۔ یہ توانائی سورج کی روشنی سے حاصل ہوتی یے۔ ایک درخت یا پودا زمین میں پانی اور ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جمع کر کے اسے سورج کی روشنی سے جوڑتا ہے اور گلوکوز یا شوگر کے مالیکول بناتا یے۔ یہ مالیکول بنانے میں جو توانائی سٹور ہوئی وہ سورج کی توانائی ہی تھی۔ جب ہم اس پودے یا درخت کے پھل یا سبزی کو کھاتے ہیں تو دراصل ہمارا جسم ان مالکیولز کو توڑتا ہے جس سے ان میں جمع ہوئی کیمائی توانائی جو دراصل شمسی توانائی کی شکل سے منتقل ہوئی تھی، جسم میں خارج ہوتی یے جس سے انسان اور دیگر جاندار زندہ رہتے ہیں۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم بلواسطہ سورج کھاتے ہیں :)
اس سب سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ اس سب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زندگی کی پیدائش اور زندہ رہنے کے لئے توانائی درکار ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ابتدا کی زمین پر یعنی آج سے 3.7 ارب سال پہلے زندگی، زمین پر موجود کاربن، نائٹروجن، ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ایٹموں کی توانائی کے ذریعے ایک خاص ترتیب کے باعث وجود میں آئی۔

1952 میں ایک سائنسدان سٹینلے میلر اپنی تجربہ گاہ میں جاتے ہیں۔ وہاں وہ ایک گلاس کے بڑے سے 5 لیٹر کے فلاسک میں میتھین، ایمونیا اور پانی کو جمع کرتے ہیں۔ پھر اسکے ساتھ ایک چھوٹے گلاس کا
فلاسک ایک ٹیوب کے ذریعے جوڑتے ہیں۔
چھوٹے فلاسک کو وہ آگ کی مدد سے بخارات کی صورت بڑے فلاسک میں داخل کرواتے ہیں۔
بڑے فلاسک میں دو بجلی کی تاریں لگی ہوتی ہیں جو تواتر سے اس میں آسمانی بجلی کی طرز پر وقفے وقفے سے بجلی چھوڑتی ہیں۔

یہ تمام تجربہ دراصل ابتدا کی زمین پر موجود گیسیوں اور آسمانی بجلی کی محدود پیمانے پر نقل تھا۔
ابتدا کی زمین پرکم و بیش ایسے ہی حالات تھے۔اس تجربے کے بعد جب سٹینلے میلر نے فلاسک میں موجود محلول کا تجزیہ کیا تو اس میں کئی طرح کے ایمینو ایسڈ موجود تھے۔ایمینو ایسڈ زمین پر نامیاتی زندگی کے بنیادی اجزا ہیں۔ یوں سمجھیں کہ یہ وہ اینٹیں ہیں جن سے پیچیدہ ڈی این اے بنتے ہیں جو کسی بھی نامیاتی زندگی کی بنیاد ہے۔اس تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ ابتدا کی زمین پر زندگی
ایسے ہی عوامل کے ذریعے وجود میں آئی ہو گی۔

یہاں سب سے اہم بات یہ کہ زندگی کے وجود میں آنے کے لیے اسے توانائی درکار تھی۔ یہ توانائی میلر کے تجربے میں بجلی کے ذریعے فراہم کی گئی۔

2023 میں سائنس کے مستند جریدے "Life" میں ایک مقالہ شائع ہوتا ہے۔اس مقالے میں بھی سائنسدانوں نے زمین کی ابتدائی حالات پیدا کر کے یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ زمین پر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی ہو گی۔
تجربے کرنے والے سائنسدانوں کے خیال میں زمین پر دراصل سورج کی تابکاری شعاعوں کے ذریعے زندگی کی ابتدا ہوئی۔
سورج کی پیدائش 4.6 ارب سال پہلے ہوئی۔ زمین کو بنے بھی کم و بیش 4.5 ارب سال ہو چکے ہیں۔
جوان سورج نہایت ایکٹو اور تابکار تھا سو ابتدا کی زمین پر اسکی تابکاری شعاعیں زیادہ پڑتی تھیں۔
ان تابکاری شعاعوں میں۔دراصل انتہائی طاقتور ایٹمی ذرے ہوتے ہیں۔
ان ذروں کے فضامیں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن سے ٹکرانے سےنامیاتی زندگی کی اینٹیں یعنی ایمینو ایسیڈ بنے ہونگے۔

اس خیال کو سائنسدانوں نے مخصوص حالات میں اپنی تجربہ گاہ میں ٹیسٹ کیا اور نتیجہ مثبت نکلا۔ ان گیسوں سے انتہائی طاقتور تابکاری ذرے گزارنے سے ان میں ایمنو ایسڈ پیدا ہوئے۔


بجلی سے یا جوان سورج کی تابکاری شعاعوں کی توانائی سے زمین پر زندگی وجود میں آئی یا کسی اور طریقے سے؟ ہم یہ حتمی طور ہر نہیں جانتے تاہم ان تجربات سے ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ زندگی کے وجود میں آنے اور اسے پنپنے کے لیے توانائی اور چند عناصر درکار ہیں اور ابتدا کی زمین پر توانائی کے یہ ذرائع اور زندگی کے لیے تمام اجزا موجود تھے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ زمین پر زندگی کائنات پر موجود کسی دوسرے سیارے پر پہلے سے موجود زندگی
سے کسی شہابِ ثاقب کی صورت گری ہو اور پھر زمین پر پنپنے لگی ہو۔
(اگر ایسا ہے زندگی کی یہ شکل نہایت سادہ صورت میں آئی ہو گی کوئی انسان نہیں ہونگے)۔ تاہم کسی اور سیارے سے آئی زندگی بھیوہاں کچھ ایسے ہی بنی ہو گی۔ اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
ان تمام خیالات میں سے کوئی بھی ممکن ہے اور اس حوالے سے ہم کائنات کے دیگر سیاروں پر زندگی ڈھونڈ کر ہی بہتر طور پر بتا سکتے ہیں۔

بقول۔شاعر:
زندگی کیا ہے عناصر کا ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں
ہونا

اگر زندگی ترتیب کا نام ہے تو کیا زندگی سورج یا کسی اور ستارے پر بھی بنیادی ایٹمی ذرات کی ترتیب سے وجود میں آ سکتی ہے؟ یہ سوال پھر کبھی سہی۔ فی الحال آپ جگجیت سنگھ کا زندگی پر یہ گیت سنیے

https://youtu.be/v7_mClRouyM

کائنات میں زندگی کی تلاش کیسے کی جائے؟ قسط 2تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن  (پچھلی قسط کا لنک پوسٹ کے آخر میں)ہماری اس کائنات م...
02/04/2024

کائنات میں زندگی کی تلاش کیسے کی جائے؟

قسط 2

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

(پچھلی قسط کا لنک پوسٹ کے آخر میں)

ہماری اس کائنات میں کھربوں ستارے ہیں جن میں سے سورج بھی ایک عام سا ستارا ہے۔ جس طرح سورج کے گرد آٹھ سیارے (جن میں زمین بھی شامل ہے)، جو گردش میں ہیں اور ملکر نظامِ شمسی بناتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی کئی اور اربوں ستاروں کے گرد سیارے گھوم رہے ہیں۔ان سیاروں کو Exoplanets کہا جاتا ہے۔ تو ان میں سے کوئی ایسے سیارے بھی ہیں جن پر کسی صورت میں انسان یا انسانوں جیسی مخلوق ہو؟

نوے کی دہائی تک ہمارے پاس ٹیکناکوجی نہیں تھی کہ ان دور افتادہ Exoplanets کی تصاویر لے سکیں۔
وجہ یہ کہ ستاروں کے مقابلے میں سیارے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور یہ خود روشنی پیدا نہیں کرتے بلکہ اسے منعکس کرتے ہیں۔
انہیں ڈھونڈنے کا ایک طریقہ جو سائنسدانوں نے نکالا وہ یہ تھا کہ آپ مسلسل کسی ستارے کی تصاویر لیں اور جب انکے سامنے سے کوئی سیارہ گردش کرتے ہوئے گزرے تو ستارے سے آنے والی روشنی میں ہلکی سی کمی ہو۔ اس معمولی سی کمی کی پیمائش کے لیے مگر بہت ہی حساس دوردبینں اور آلات چاہئیں۔
تو سائنسدانوں نے آخر کار ایسی دوربینیں اور ایسے طریقے ڈھونڈ نکالے جن سے ہم Exoplanets کو تلاش کر سکیں۔

پچھلی قسط میں ہم نے جانا کہ ان دور افتادہ سیاروں کا ماس، حجم، کثافت اور مدار کے متعلق معلومات ہم کیسے اکٹھی کر سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا ان Exoplanets میں سے کوئی ہماری زمین جیسا ہے جہاں زندگی پنپتی ہو انسان یا انسانوں سے زیادہ تہذیب یافتہ مخلوق بستی ہو؟

اسے معلوم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

جس طرح ہر انسان کی اّنگلیوں کے نشان دوسرے انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں بالکل ایسے ہی ہر عنصر، گیس، یا مالیکیول کا ایک فنگر پرنٹ ہوتا ہے۔
کیسے؟ یوں کہ جب سفید روشنی(مثال کے طور پر سورج کی) کسی بھی ایٹم یا مالیکیول پر پڑتی ہے تو اسکا کچھ حصہ وہ جذب کر لیتا ہے اور کچھ حصہ منعکس۔ یہ اس کا سپیکٹرم کہلاتا ہے۔جس رنگ کی روشنی کو وہ جذب کرتا ہے اور جس رنگ کی روشنی کو منعکس، یہ اُسکا جداگانہ فنگر پرنٹ ہے جس سے اسکی شناخت کی جا سکتی ہے۔

اب اگر ہم دور افتادہ کسی Exoplanets کی کسی حساس ٹیلی سکوپ سے تصویریں لیں تو اُسکی فضا سے گزر کر ہم تک پہنچتی روشنی ہمیں اُسکی فضا میں موجود گیسیس، عناصر اور مالیکیولز کا پتہ دے سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کوئی دور خلاؤں میں سے ہماری زمین کی تصاویر لے تو وہ ہماری فضا سے گزرتی روشنی کو اس طریقے سے جانچ کر یہ بتا سکتا ہے کہ یہاں آکیسجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، نائٹروجن اور میتھین وغیرہ وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔

علاوہ ازیں وہ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ ہم کیا کوئی تہذیب یافتہ مخلوق ہیں کیونکہ کچھ گیسیس قدرتی طور پر نہیں بلکہ صرف اور صرف مصنوعی طور پر ہی تیار ہوسکتی ہیں۔ کچھ انسانی ترقی یا کھیتی باڑی کے باعث۔
مثال کے طور پر ایمونیا۔ یا اگر ہم کھیتی باڑی کے لئے مصنوعی کھاد بناتے ہیں تو نائٹرس آکسائڈ۔
2021 کے آخر میں سائنسدانوں نے James Webb Telescope لانچ کی جو اس وقت سورج کے گرد مدار میں ہے۔
اس ٹیلیسکوپ سے ہم کئی نوری سال دور مختلف Exoplanets کی فضاؤں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اور شاید یہ جان پائیں کہ کس سیارے پر کھیتی باڑی یا صنعتی ترقی ہو رہی ہے یا ماضی میں وہاں کوئی مخلوق بستی تھی۔

مگر رُکیے!! اس سب میں ایک دِقت اور ہے۔ یہ میں آپکو اگلی قسط میں بتاؤں گا۔

قسط 1 کو یہاں پڑھیں:

https://www.facebook.com/share/p/V8dXk8wcxbP11g9G/

بدلتے پہاڑ اور زمین!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن  جدید سائنس کے مطابق زمین کی عمر تقریباً 4.6 ارب سال ہے جبکہ اس پر موجود سب...
02/04/2024

بدلتے پہاڑ اور زمین!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

جدید سائنس کے مطابق زمین کی عمر تقریباً 4.6 ارب سال ہے جبکہ اس پر موجود سب سے پرانے پہاڑی سلسلے افریقہ کے ممالک جنوبی افریقہ اور سوازیلینڈ میں واقع باربرٹاؤن گرین سٹون بیلٹ( Barbertown Greenstone Belt) ہیں جنکی عمر لگ بھگ 3.6 ارب سال ہے ۔یاد رہے کہ زمین پر زندگی کی پہلی شکل سادہ مائیکروب کی صورت آج سے 3.7 ارب سال پہلے سمندروں میں وجود میں آئی۔

زمین کا جغرافیہ اور اسکی سطح اربوں سالوں سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اسکی وجہ یہ کہ زمین کی اوپری تہہ جسے کرسٹ کہتے ہیں یہ زمین کی نچلی تہہ مینٹل کے اوپر پگھلی چٹانوں پر تیر رہی ہے۔ یعنی زمین کی کرسٹ ٹیکٹانک پلیٹس میں تقسیم ہوئی ہوئی ہے جو پگھلی چٹانوں پر تیر رہی ہیں اور مسلسل حرکت میں ہیں۔

اسکے علاوہ زمین کی سطح میں تبدیلیاں بارشوں، دریاؤں اور ندی نالوں کے بہنے سے مٹی اور پہاڑوں کے کٹاؤ سے ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں زمین کی فضا میں موجود ہوائیں بھی اسکی سطح کو تبدیل کرتی ہیں۔

زمین پر پہاڑ کوئی مستقل شے نہیں ۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو زمین پر کئی پہاڑی سلسلے تبدیل ہوئے، کئی پہاڑی سلسلے قدرتی عوامل سے ختم ہو گئے۔ آج سے تقریباً
0.8 سے 1.8 ارب سال پہلے زمین پر ایسا دور بھی آیا جب یہاں پہاڑوں نے بننا یا مزید اُبھرنا چھوڑ دیا۔ تب محض پہاڑوں کے کٹاؤ سے پہاڑ کم ہوتے گئے۔ اس سے زمین پر زندگی کا ارتقاء بے حد متاثر ہوا۔اسکی ایک وجہ زمین پر موجود زندگی کو خوراک مہیا کرنے کے لئے پہاڑوں سے معدنیات سے بھرپور مٹی کی کمی کو گردانا جاتا ہے۔

آپکو ہمیشہ پہاڑ وہاں زیادہ نظر آئیں گے جہاں زمین کی ٹیکٹانک پلیٹس آپس میں ٹکراتی ہیں۔ یہ جس تیزی اور تواتر سے ٹکرائیں گی اُس تیزی سے ٹکراؤ کی ان جگہوں پر اونچے اونچے پہاڑ بنیں گے۔ اسکی ایک مثال ہمالیہ کے اور کرارکرم کے پہاڑ ہیں جو بھارت اور یورو ایشیائی ٹیکٹانک پلیٹس کے ٹکراؤ کے باعث آج سے 5 کروڑو سال قبل وجود میں آئے اور اب تک یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ زمین پر زیادہ تر جان لیوا زلزلے وہاں آتے ہیں جہاں اونچے اونچے پہاڑ ہوں۔ چاہے یہ پہاڑ خشکی پر ہوں یا سمندروں میں۔ ویوے دنیا کا۔سب سے اونچا پہاڑ سطح سمندر سے اسکی چوٹی تک ماؤنٹ ایورسٹ ہے جسکی اونچائی 8848 میٹر ہے جبکہ سطح سمندر سے نیچے بیس سے لیکر چوٹی تک دنیا کا سب اے اونچا پہاڑ امریکی جزیرے ہوائی پر ایک آتش فشاں
" ماؤنا کِیا" (Mauna Kea) ہے جسکی کُل اونچائی 10 ہزار میٹر ہے۔ جس میں سے 6 ہزار میٹر سمندر کے نیچے جبکہ 4 ہزار میٹر سمندر کے اوپر ہے۔

نظامِ شمسی کا سب سے اونچا پہاڑ اولمپس مونس مریخ پر ہے۔ یہ زمین کے سب سے اونچے پہاڑ ماؤنٹ ایوریسٹ سے تقریباً 2.5 گنا اونچ...
02/04/2024

نظامِ شمسی کا سب سے اونچا پہاڑ اولمپس مونس مریخ پر ہے۔ یہ زمین کے سب سے اونچے پہاڑ ماؤنٹ ایوریسٹ سے تقریباً 2.5 گنا اونچا ہے ۔

نظامِ شمسی کے پہاڑ!! تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ پہاڑ شاید صرف زمین پر ہیں اور انکی وجہ سے زمین م...
02/04/2024

نظامِ شمسی کے پہاڑ!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ پہاڑ شاید صرف زمین پر ہیں اور انکی وجہ سے زمین مستحکم ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ نظامِ شمسی میں کئی سیاروں حتی کہ چاند پر بھی پہاڑ ہیں۔ پہاڑ دراصل کسی سیارے یا سیارچے کی اوپری سطح کے اُبھار سے بنتے ہیں۔

زمین پر سب سے اونچا پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ ہے۔ اسکی اونچائی ہے 8 ہزار 8 سو پچاس میٹر۔ اسی طرح چاند پر سب سے اونچا پہاڑ ہے ہے ماؤنٹ ہیوگن۔ اسکی اونچائی ہے تقریباً 5ہزار 5 سو میٹر ۔ اسی طرح زہرہ سیارے پر موجود پہاڑ میکسول کی اونچائی تقریبا 11 کلومیٹر ہے۔
مگر رکیے، نظامِ شمسی میں اس سے بھی بڑے پہاڑ موجود ہیں۔ جن میں سب سے اونچا ہے مونس اولمپس۔ جو کہ دراصل ایک آتش فشاں ہے جسکی اونچائی تقریباً 22 کلومیٹر ہے۔ یعنی زمین کے سب سے اونچائی پہاڑ کے دوگناہ سے بھی زیادہ۔ جسکا قطر تقریباً 624 کلومیٹر ہے یعنی امریکی ریاست ایریزونا کے سائز جتنا۔ یہ پہاڑ مریخ پر ہے۔

پلوٹو کا سب سے اونچا پہاڑ ہے تنزنگ مونٹس ہے جسکی چوٹی 6.2 کلومیٹر اونچی ہے۔ نظامِ شمسی عجائباتِ سے بھرپور ہے۔ اسکے پہاڑوں کو جان کر سائنسدان زمین کی بناوٹ اور ساخت کے متعلق کئی اہم معلومات اکٹھی کرتے ہیں ۔

کائنات میں زندگی کی تلاش کیسے کی جائے؟قسط -1تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن فرض کیجئے آپ اس زمین سے کئی نوری سالوں کی مسافت پر م...
02/04/2024

کائنات میں زندگی کی تلاش کیسے کی جائے؟

قسط -1

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

فرض کیجئے آپ اس زمین سے کئی نوری سالوں کی مسافت پر موجود ایک سیارہ ڈھونڈتے ہیں۔ سیارے کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی جیسے کہ زمین کی اپنی کوئی روشنی نہیں۔ آپکو رات کو آسمان میں چمکتا مشتری یا زحل اس لیے دکھائی دیتا ہے کہ یہ سورج کی روشنی کو منعکس کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہ سب زمین سے قدرے قریب ہیں بنسبت اُس سیارے کے جسے آپ نے کئی نوری سالوں کی مسافت پر کسی اور ستارے کے گرد طاقتور خلائی دوربین کی مدد سے تلاش کیا ہے۔

اب آپ اُس سیارے کا ماس کیسے معلوم کریں گے؟

اسکے لیے آپکو نیوٹن میاں کے گریوٹیی کے قوانین کا سہارا لینا پڑے گا۔ آپکو یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ سیارہ جب اپنے ستارے کے سامنے سے گزرتا ہے تو ستارے کی روشنی میں کتنا معمولی فرق آتا ہے۔ یہ فرق ںے حد معمولی ہو گا جسیے آپ حساس سائنسی آلات یعنی سپیسکٹرومیٹر کی مدد سے بھانپ سکیں گے۔ یہ فرق کیوں آئے گا؟ کیونکہ جب سیارہ ستارے کے سامنے سے گزرے گا تو ایک دوسرے کے بالکل مدمقابل ہونے کے باعث ان میں کششِ ثقل ایک طرح سے رسہ کشی کھیلے گی۔ یوں کبھی سیارے کچھ ڈولے گا اور کبھی ستارا۔ اس ڈولنے کے عمل سے ستارے سے نکلنے والی روشنی سے آپ اندازہ لگا پائیں گے کہ ستارا کتنا ڈولا۔ اسکی مثال یوں لیجئے۔ آپ نے اکثر ٹرین کو اپنے قریب آتے دیکھا ہو گا تو اسکی آواز چیختی محسوس ہوتی ہے اور جب یہ اپ سے دور جانے لگتی ہے تو اسکی آواز قدرے بھاری ہو جاتی ہے۔ آواز بھی روشنی کی طرح لہر کی صورت ہے۔ روشنی پر بھی یہی اُصول لاگو ہوتا ہے۔ جب کوئی شے ہمارے قریب آتی ہے جس سے روشنی خارج ہو رہی ہو تو اسکی فریکوئنسی زیادہ ہو جاتی ہے اور جب دور جا رہی ہو تو اسکی فریکوئنسی کم۔ اب جب ستارہ ڈولے گا یا آگے پیچھے ہو گا تو اس کی روشنی کی فریکوئینسی میں فرق آئے گا۔ اس سے آپ یہ معلوم کر پائیں گے کہ سیارے پر ستارے کی گریوٹیی کا کتنا اثر ہے اور ستارے پر سیارے کی۔ یوں آپ دونوں کے ماس معلوم کر سکیں گے۔ آپکو نوری سالوں کی مسافت طے نہیں کرنی پڑی۔ آپ نے اپنی عقل سے دونوں کا ماس معلوم کر لیا۔

اب آپ نے اس سیارے کی کثافت معلوم کرنی ہے۔ چونکہ ماس آپ پہلے سے معلوم کر چکے اور جب سیارہ ستارے کے سامنے سے گزرے گا تو اس سے آپ اسکی ہلکی سی پرچھائی سے اسکا رداس معلوم کر سکتے ہیں۔ یوں آپ اس سیارے کو کروی تصور کر کے اسکا حجم معلوم کر لیں گے۔ لیجئے کثافت ہوئی ماس بٹا حجم۔۔۔ آپ نے سیارے کی کثافت معلوم کر لی۔

آپ زمین کی کُل کثافت بھی جانتے ہیں سو آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ آیا دریافت کیا گیا سیارہ زمین کی طرح پتھروں، چٹانوں اور پانی پر مشتمل ہے کہ نہیں۔

یہ سب کرنے کے بعد آپ میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ یہ سیارہ اپنے ستارے کے گرد کتنے وقت میں چکر کاٹتا ہے۔ اسکے لیے آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ سیارہ کتنی بار یا کرنے وقت میں میں اپنے ستارے کے سامنے سے گزرا ۔ یوں آپکو اسکے مدار اور اسکی رفتار کا علم ہو جائے گا۔ دیکھیے آپ جو اعتراض کرتے ہیں کہ سائنس کیسے ان سب چیزوں کے بارے میں بتاتی ہے تو اسکا جواب ہے عقل استعمال کر کے۔ اور کائنات کے بنیادی اصولوں کو سمجھ کر۔ آپ اپنی جگہ سے ہلے بھی نہیں اور آپ نے کئی نوری سالوں دور کی دنیا کے سیارے اور ستارے کے متعلق اتنا کچھ جان لیا۔ مگر یہی کافی نہیں۔

اب ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آیا اس ستارے پر کوئی زندگی ہے یا نہیں۔ یہ ہم کیسے معلوم کریں گے؟

اس پر آپ کیا سوچتے ہیں؟

چلیے اسکا جواب بھی بتاتا ہوں مگر اگلی پوسٹ میں۔ :)

گلیلیو کی زمین جو سورج کے گرد گھومتی تھی!!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن اگر آپ پاکستان کے کسی معقول سکول میں پڑھے ہیں تو آپ ش...
02/04/2024

گلیلیو کی زمین جو سورج کے گرد گھومتی تھی!!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

اگر آپ پاکستان کے کسی معقول سکول میں پڑھے ہیں تو آپ شاید بچپن سے سنتے آئے ہونگے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے. تو یہ بات سائنسی طور پر درست ہے کہ زمین سورج کے گرد ہی گھومتی ہے۔ یہ خیال پہلی بار انسانی تاریخ میں 230 قبل مسیح میں ملتا ہے جبAristarchus جو ایک یونانی فلاسفر تھے، نے یہ خیال پیش کیا کہ زمین دراصل سورج کے گرد گھومتی ہے۔

یہ Heliocentric ماڈل تھا جسکے مطابق سورج کائنات کے مرکز پر ہے اور تمام سیارے بشمول زمین اسکے گرد گھومتے ہیں۔ مگر آج ہم جانتے ہیں کہ نظام شمسی ہماری کہکشاں ملکی وے کا ایک محض ایک معمولی سا حصہ ہے اور کائنات میں ہماری کہکشاں یا اس سے بھی بڑی کئی کہکشائیں اربوں کی تعداد میں موجود ہے۔ تاہم اس زمانے میں Aristarchus کے اس خیال کو ثابت کرنا مشکل تھا۔

انسانی تاریخ میں یہ خیال یونانیوں سے بعد میں آنے والی کئی تہذیبوں میں آیا اور اثر انداز بھی ہوا۔ لہذا یہ کہنا کہ یہ خیال انسانی تاریخ میں بالکل نیا ہے، غلط ہو گا۔

البتہ تاریخ میں اس خیال سے زیادہ یونانی فلاسفر ارسطو کا یہ خیال زیادہ مقبول عام رہا کہ زمین جامد اور کائنات کا مرکز ہے اور سورج، چاند اور تمام سیارے، ستارے اسکے گرد گھومتے ہیں۔

1608 میں عدسے بنانے والے ڈچ موجد Hans Lippershey نے دوربین ایجاد کی۔اسکے ایک سال بعد 1609 میں اٹلی کے مشہور سائنسدان اور ماہر فلکیات گلیلیو نے اپنے طرز کی ایک اور دوربین ایجاد کی۔گیلیلیو نے جب دوربین کو آسمانوں کی جانب موڑا تو اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی۔اسے مشتری کے گرد گھومتے چاند نظر آئے۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی انسان نے کسی دوسرے فلکی جسم کے گرد گھومتی کوئی اور شے دیکھی تھی۔ اس نے گلیلیو کا زمین اور کائنات کے بارے میں خیال بدل کر رکھ دیا۔

اسی طرح جب گلیلیو نے سیارہ عطارد کو دیکھا تو وہ بھی ہمارے چاند کیطرح گھٹتا بڑھتا دکھائی دیا مگر دنوں کی بجائے مہینوں میں۔۔گلیلیو کے مطابق یہ تب ہی ممکن تھا کہ عطارد، زمین کے مدار سے زیادہ قریبی مدار میں سورج کے گرد گھوم رہا ہو۔

چونکہ اس زمانے میں اور اس سے پچھلے زمانوں میں لوگ ارسطو کے خیال کو مانتے تھے جس میں زمین ساکن اور کائنات کا مرکز تھی۔ لہذا جب 1616 میں گلیلیو نے یہ اعلان کیا کہ زمین دراصل سورج کے گرد گھومتی ہے تو چرچ نے اسے تنبیہ کی کہ اس خیال کا پرچار مت کرے۔اس تنبیہہ کے بعد گلیلیو کو اجازت دی گئی کہ وہ اس خیال کے بارے میں لکھ تو سکتا ہے مگر یہ کہہ کر یہ محض ایک مفروضہ ہے، حقیقت نہیں۔۔گلیلیو یہ مان گیا۔

اس واقعے کے 16 برس بعد یعنی 1632 میں اس نے دوبارہ ایک مکالمہ :

Dialogue on the Two World Systems”
کے نام سے شائع کیا جس میں پھر سے اپنے خیال کی تائید کی تو چرچ نے پھر اسے دھر لیا۔اس پر مقدمہ ہوا مگر کمزور دلائل کی بنیاد پر گلیلیو پر فردِ جرم عائد نہیں ہو سکتا تھا۔
تاہم چرچ نے اسے کہا کہ وہ یہ تسلیم کرے کہ اُس نے اپنے نظریے کو جتانے کی غرض سے بڑھ چڑھ کر مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ گیلیلو یہ ماننے کو تیار ہو گیا ۔ اس جبری اقرار کے بعد گلیلیو کو ایک دن جیل میں رکھا گیا۔، اسکی کتاب پر پابندی عائد کر دی گئی اور سزا کے طور پر مرتے دم تک وہ اپنے گھر میں جبری طور پر محصور رہا۔

انیسویں وی صدی میں دوربینیں جدید ہوئیں۔ان جدید دوربینوں سے ماہرین فلکیات نے زمین کے قریبی ستاروں کو دیکھنا شروع کیا۔ اُنہوں نے مشاہدہ کیا کہ زمین سے نظر آنے والےقریبی ستارے دور کے ستاروں کے تناظر میں، سال کے مختلف مہینوں میں آسمان میں اپنی جگہ تبدیل کرتے ہیں۔ یہ فرق اتنا معمولی تھا کہ عام آنکھ سے نظر نہیں آ سکتا تھا۔ اسے stellar parallax کہا جاتا ہے۔ ستاروں کی پوزیشن میں یہ معمولی فرق تب ہی آ سکتا ہے جب زمین سورج کے گرد سال کے مختلف مہینوں میں مختلف جگہوں پر ہو۔ جسکا مطلب یہ تھا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ زمین کا سورج کے گرد گھومتے کا پہلا باضابطہ ثبوت تھا۔

گلیلیو صحیح تھا!!!

آج ہم جدید دور میں خلا سے زمین کو سورج کے گرد گھومتا دیکھ سکتے ہیں۔

گلیلیو سائنس اور حقیقی علم انسانییت تک پہنچانے کے جرم میں فرسودہ نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا۔

گلیلیو کے جانے کہ 350 سال بعد یعنی 1992 میں دنیا بدل چکی تھی۔ پہلی خلائی دوربین ہبل خلا میں بھیجی جا چکی تھی۔ سائنس ہر شعبے میں انسانیت کی خدمت کر رہی تھی۔ ایسے میں 31 اکتوبر کے ایک یخ بستہ دن ، ویٹیکن میں نئی دنیا کے عیسائیت کے سب سے بڑے رہنما John Paul II ، بھرے مجمع میں آتے ہیں اور بلامشروط گلیلیو سے چرچ کے رویے کی معافی مانگتے ہیں۔ ساڑھے تین سو سال بعد چرچ کو گلیلیو کا نظریہ ماننا پڑا کیونکہ وہ سائنسی حقائق پر مبنی تھا۔

انیسویں صدی کے مشہور فرانسیسی شاعر اور ناول نگار وکٹر ہیگو نے ایک بار کہا تھا:

"کوئی بھی شے اس خیال سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتی جسکا وقت آ چکا ہو"

سائنس کا وقت آ چکا تھا۔ سائنس کا وقت آ چکا ہے۔

"اگر آپکو سائنس بورنگ لگتی ہے تو آپ اسے کسی غلط اُستاد سے سیکھ رہے ہیں"رچرڈ فائنمین (نوبل پرائز فزکس 1965)
02/04/2024

"اگر آپکو سائنس بورنگ لگتی ہے تو آپ اسے کسی غلط اُستاد سے سیکھ رہے ہیں"

رچرڈ فائنمین (نوبل پرائز فزکس 1965)

کیا ہم ایٹم "دیکھ" سکتے ہیں؟تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسندوسری قسطپچھلی قسط میں ہم نے دیکھا کہ ہماری آنکھ کس طرح کی روشنی کو د...
02/04/2024

کیا ہم ایٹم "دیکھ" سکتے ہیں؟

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

دوسری قسط

پچھلی قسط میں ہم نے دیکھا کہ ہماری آنکھ کس طرح کی روشنی کو دیکھ سکتی ہے، کتنی چھوٹی سائز کی شے کو ہم روشنی اور خوردبین کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں، ایک ایٹم کا سائز کتنا ہوتا ہے اور یہ کہ ہم روشنی کی مدد سے ایٹم کو کیوں نہیں دیکھ سکتے۔

آج ہم جانیں گے کہ ہم ایٹم کا سائنسی مشاہدہ کر کے اسکی تصویر کیسے بنا سکتے ہیں اور یوں اسے دیکھ سکتے ہیں۔

یہاں کچھ لوگ یہ اعتراض کریں کہ انسانی آنکھ سے تو ہم ایٹم کو نہیں دیکھ سکتے لہذا یہ دیکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان لوگوں کے لیے عرض ہے کہ دیکھنا دراصل دو حصوں پر مشتمل عمل ہے۔

انفارمیشن کا حصول اور منتقلی:

1.اول باہر کی دنیا کی کوئی انفارمیشن آپکی آنکھ پر روشنی کی صورت پڑتی ہے جسے آنکھ میں موجود روشنی کے لیے حساس خلیے، برقی سگنلز کے ذریعے آنکھ کی جُڑی نروز سے دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ گویا روشنی برقی سگنل میں آنکھ میں تبدیل ہوئی۔آپکی آنکھ نے یہاں دو کام کیے، ایک اسکے خلیوں نے روشنی کو محسوس کیا اور دوسرا روشنی کو برقی سگنلز میں تبدیل کیا۔ اس طرح آنکھ کے پیچھے روشنی میں موجود انفارمیشن، روشنی نہ رہی بلکہ چارجڈ آئنز میں بدل گئی۔

یوں ہم طبعیاتی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آنکھ کے خلیے روشنی کے لیے ڈیٹیکٹر ہیں۔
ہم اسی طرح کے ڈیٹیکٹرز لیبارٹریز اور کمرشل طور پر آج ہر
روز بناتے ہیں جو روشنی کے
لیے حساس ہیں۔
آپکے موبائل فون میں لگا کیمرا ایسے ہی ڈیٹیکٹرز سے بنا ہے جو روشنی کو برقی سگنلز میں تبدیل کر کے فون میں موجود پراسسرز کے ذریعے اسے ایک تصویر کی شکل دیتا ہے جسے آپ فوٹو کہتے ہیں۔

2. انفارمیشن پراسسنگ

دیکھنے کے اس دوسرے عمل میں آپکا دماغ کام کرتا یے۔ دماغ روشنی کو پراسس نہیں کر سکتا بلکہ اس میں موجود نیورانز برقی سگنلز کو پراسس کرتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے عام کمپیوٹر ، یا لیپ ٹاپ روشنی کی بجائے برقی سگنلز کو اپنے اندر لگے ٹرانزیزٹرز میں پراسس کرتا ہے۔

جب آپ نے کچھ دیکھا تو آپکی آنکھ نے اس پرپڑنے والی روشنی کو دماغ کی پراسسنگ کے لیے ںرقی سگنلز میں تبدیل کیا۔ اب کام شروع ہوتا یے دماغ کا۔
دماغ ان سگنلز کو پراسس کرتا یے اور اس انفارمیشن کو اپنی میموری میں موجود پیٹرنز سے میچ کرتا ہے۔
آپکو کیسے معلوم کہ سامنے جو شے آپ دیکھ رہے ہیں، اسکا رنگ پیلا ہے؟
آپ کیسے جانتے ہیں کہ سامنے جو شے پڑی ہے ، یہ میز ہے؟
یہ سب آپکا دماغ اپنے اندر موجود
ان تجربات سے بنائی گئی میموری سے اخذ کرتا ہے جو بچپن سے اب تک آپ کے ساتھ ہوئے۔
آپ جب چھوٹے تھے تو آپ کو معلوم نہیں تھا کہ میز کیا ہوتی ہے؟ آپکو معلوم نہیں تھا کہ جو رنگ آپ دیکھ رہے ہیں، اسکا نام کیا ہے؟

یہاں آہستہ آہستہ اپکا دماغ رنگ کو نام دیتا گیا، چیزوں کو نام دیتا گیا، ان چیزوں کے مقصد کو سمجھتا گیا، جو ماحول نے آپکو سکھائیں۔

اس سب معلومات کے ذخیرے سے جو دماغ میں تھا، اس نے آنکھ سے آتے برقی سگنلز کو بامعنی انفارمیشن میں ڈھالا جسے آپ دیکھنے کا عمل کہتے ہیں۔ لہذا ہم دیکھنے کے عمل کو دراصل انفارمیشن کا حصول اور اسکی پراسسنگ کا ایک طریقہ کہہ سکتے ہیں۔

اور یہ اس پر موقوف نہیں کہ آپ یہ عمل آنکھ سے کریں یا کسی آلے سے۔

سائنس میں یہی وہ عمل یے جس کے ذریعے ہم چیزوں کو جانتے ہیں وہ چیزیں جنہیں ہم حواسِ خمسہ سے محسوس نہیں کر سکتے۔

تاہم یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ کما حقہ ہم اس انفارمیشن کو مادی دنیا میں رہتے ہوئے، مادی وسائل سے، انسانی عقل اور سائنسی آلات کے ذریعے دیکھ رہے ہیں۔

تو اب جب آپکو واضح ہو چکا کہ دیکھنے کا عمل طبعیاتی طور پر کیا یے اور ہم کیسے حواسِ خمسہ سے نکل کر کسی شے کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ، تو ہم ایٹم کے مشاہدے کی طرف آتے ہیں۔

1980 سے قبل ہم ایٹم نہیں دیکھ سکتے تھے یعنی ہم اسکی تصویر نہیں بنا سکتے تھے۔ گو ایسا نہیں کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ایٹم کیا تھا، اسکی خصوصیات کیا تھیں، اور یہ کام کیسے کرتا تھا، کیونکہ اس حوالے سے ہمارے پاس کئی سائنسی ثبوت تجربات کی صورت موجود تھے۔

اس حوالے سے پہلا ثبوت ہمیں 1827 میں ملا۔ 1827 میں سکاٹس سائنسدان رابرٹ براؤن پولن پر کچھ تجربات کر رہے تھے۔ اس حوالے سے انہوں نے پانی میں ننھے پولن کے دانوں (جی ہاں وہی پولن جو درختوں سے گرتی ہے اور جس سے کچھ لوگوں کو پولن الرجی ہوتی ہے)
کو پانی میں ڈالا اور دیکھا کہ یہ سیدھا پانی کی تہہ تک جانے کی بجائے ادھر ادھر ٹیڑھے میڑھےہوتے ہوئے نیچے کو جاتے ہیں۔
رابرٹ براؤن نے ان پولن کے پانی میں ٹیڑھے میڑھے راستوں کو خوربین سے جانچا اور جانا کہ مییکرومیٹز کی سائز کے یہ ننھے پولن، صراطِ مستقیم پر چلنے کی بجائے گنہگاروں کی طرح راستے سے بھٹک جاتے ہیں اور ادھر ادھر ہوتے منزلِ مقصود یعنی پانی کی تہہ تک پہنچتے ہیں۔
رابرٹ براؤن نے کسی دروغہ کی طرح انکا راستہ اور رفتار ماپی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ انکے یوں حرکت کرنے کی واحد وضاحت یہی ہو سکتی ہے کہ پانی کے مالیکولز ان سے ٹکراتے ہیں اور انہیں بھٹکا دیتے ہیں۔ مگر رابرٹ براؤن نے ایسا کیوں سمجھا؟

دراصل 1800 میں ایک اور سائنسدان اور کیمسٹ جان ڈلٹن
یہ خیال پیش کر چکے تھے کہ پانی کے مالیکول ایٹموں سے بنتے ہیں۔
لہذا سکاٹ براؤن نے پولن کے ذروں کی پانی میں جو ٹیرڑھی میڑھی حرکت دیکھی تو لامحالہ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب ایٹموں کی کارستانی ہے۔اس حرکت کو آج ہم براؤننین موشن کے نام سے جانتے ہیں۔

یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایٹم کا بنیادی تصور کہ وہ مادے کا سب سے چھوٹا زرہ ہے، 442 قبلِ مسیح میں یونای مفکر ڈیموکریس دے چکے تھے۔ انکا خیال تھا کہ ایٹم دراصل مخلتف شکلوں کے ہوتے ہیں
اور اگر کسی شے کو تقسیم در تقسیم کیا جائے تو ایک مرحلہ آئے گا کہ اسے مزید تقسیم نہیں کیا جا سکے گا اور جس زرے پر تقسیم کا یہ عمل رک جائے گا وہ ایٹم کہلائے گا۔ گویا ڈیموکریٹکس نے ایٹم کی یہ خصوصیات بیان کی یہ کہ مادے کا وہ ذری ہے جو مزید تقسیم نہیں ہو سکتا۔

اگر یہ تصور انسانی تہذیب میں پہلے سے نہ پایا گیا ہوتا تو ممکن ہے جان ڈلٹن کو بھی اپنے تجربات کےدوران یہ خیال نہ آتا کہ پانی کے مالیکولز دراصل ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ایٹموں سے بنتے ہیں جو مزید تقسیم نہیں ہو سکتے۔یعنی ایسا نہیں کہ ہائیڈروجن کا ایک اور ادھا ایٹم ملکر آکسیجن کے ڈیڑھ یا پونے دو ایٹموں سے ملے۔ہمیشہ کیمیائی ری ایکشن میں ہول نمبر میں جیسے کہ 1 یا 2 یا 3 نمںر کی تعداد میں ہی ایٹم کسی مالیکول کو بنائیں گے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

پچھلی قسط کا لنک:

https://www.facebook.com/share/p/kq8RoPvT81vC2nRt/

Adresse

Paris

Téléphone

+491639648253

Site Web

Notifications

Soyez le premier à savoir et laissez-nous vous envoyer un courriel lorsque Science with Dr.Hafeez publie des nouvelles et des promotions. Votre adresse e-mail ne sera pas utilisée à d'autres fins, et vous pouvez vous désabonner à tout moment.

Vidéos

Partager


Autres Création digitale à Paris

Voir Toutes