EAPJG European Association of Pakistani Journalists Global

EAPJG  European Association of Pakistani Journalists Global Our mission is to provide a platform for network

EAPJG | European Association of Pakistani Journalists Global

At EAPJG, we are dedicated to advancing journalism excellence and fostering collaboration among Pakistani journalists and the global press.

10/12/2024

𝐓𝐡𝐞 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐂𝐫𝐢𝐬𝐢𝐬, 𝐭𝐡𝐞 𝐑𝐢𝐬𝐞 𝐨𝐟 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐡 𝐌𝐨𝐯𝐞𝐦𝐞𝐧𝐭𝐬, 𝐚𝐧𝐝 𝐭𝐡𝐞 𝐑𝐨𝐥𝐞 𝐨𝐟 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞 (𝟐𝟎𝟐𝟒)
𝐁𝐲 𝐒𝐡𝐚𝐡𝐢𝐝 𝐀𝐦𝐢𝐫 𝐆𝐨𝐫𝐚𝐲𝐚
𝐙𝐮̈𝐫𝐢𝐜𝐡, 𝐒𝐰𝐢𝐭𝐳𝐞𝐫𝐥𝐚𝐧𝐝
𝐅𝐫𝐞𝐞𝐥𝐚𝐧𝐜𝐞 𝐉𝐨𝐮𝐫𝐧𝐚𝐥𝐢𝐬𝐭 | 𝐅𝐨𝐫𝐞𝐢𝐠𝐧 𝐂𝐨𝐫𝐫𝐞𝐬𝐩𝐨𝐧𝐝𝐞𝐧𝐭 𝟑𝟔𝟓 𝐍𝐞𝐰𝐬 | 𝐅𝐨𝐮𝐧𝐝𝐞𝐫 𝐚𝐧𝐝 𝐏𝐫𝐞𝐬𝐢𝐝𝐞𝐧𝐭 𝐄𝐏𝐀𝐏𝐉 www.eapjg.press

شام کا بحران، کرد تحریکوں میں تیزی اور یورپ کا کردار 𝟐𝟎𝟐𝟒
تحریر: شاہد امیر گورایہ

𝐓𝐡𝐞 𝐨𝐧𝐠𝐨𝐢𝐧𝐠 𝐜𝐨𝐧𝐟𝐥𝐢𝐜𝐭 𝐢𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚, 𝐰𝐡𝐢𝐜𝐡 𝐡𝐚𝐬 𝐜𝐨𝐧𝐭𝐢𝐧𝐮𝐞𝐝 𝐟𝐨𝐫 𝐨𝐯𝐞𝐫 𝐚 𝐝𝐞𝐜𝐚𝐝𝐞, 𝐡𝐚𝐬 𝐭𝐚𝐤𝐞𝐧 𝐲𝐞𝐭 𝐚𝐧𝐨𝐭𝐡𝐞𝐫 𝐜𝐨𝐦𝐩𝐥𝐞𝐱 𝐭𝐮𝐫𝐧 𝐚𝐬 𝐯𝐚𝐫𝐢𝐨𝐮𝐬 𝐫𝐞𝐠𝐢𝐨𝐧𝐚𝐥 𝐚𝐧𝐝 𝐠𝐥𝐨𝐛𝐚𝐥 𝐚𝐜𝐭𝐨𝐫𝐬 𝐢𝐧𝐭𝐞𝐧𝐬𝐢𝐟𝐲 𝐭𝐡𝐞𝐢𝐫 𝐢𝐧𝐯𝐨𝐥𝐯𝐞𝐦𝐞𝐧𝐭. 𝐎𝐧 𝐃𝐞𝐜𝐞𝐦𝐛𝐞𝐫 𝟏, 𝟐𝟎𝟐𝟒, 𝐩𝐫𝐨𝐭𝐞𝐬𝐭𝐬 𝐞𝐫𝐮𝐩𝐭𝐞𝐝 𝐚𝐭 𝐙𝐮̈𝐫𝐢𝐜𝐡'𝐬 𝐫𝐚𝐢𝐥𝐰𝐚𝐲 𝐬𝐭𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧, 𝐚 𝐫𝐞𝐦𝐢𝐧𝐝𝐞𝐫 𝐭𝐡𝐚𝐭 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞 𝐫𝐞𝐦𝐚𝐢𝐧𝐬 𝐝𝐞𝐞𝐩𝐥𝐲 𝐞𝐧𝐠𝐚𝐠𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐭𝐡𝐞 𝐚𝐟𝐭𝐞𝐫𝐦𝐚𝐭𝐡 𝐨𝐟 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚’𝐬 𝐜𝐫𝐢𝐬𝐢𝐬. 𝐓𝐡𝐞𝐬𝐞 𝐩𝐫𝐨𝐭𝐞𝐬𝐭𝐬, 𝐥𝐚𝐫𝐠𝐞𝐥𝐲 𝐝𝐫𝐢𝐯𝐞𝐧 𝐛𝐲 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐡 𝐜𝐨𝐦𝐦𝐮𝐧𝐢𝐭𝐢𝐞𝐬, 𝐚𝐥𝐬𝐨 𝐬𝐢𝐠𝐧𝐚𝐥 𝐚 𝐫𝐢𝐬𝐢𝐧𝐠 𝐦𝐨𝐯𝐞𝐦𝐞𝐧𝐭 𝐢𝐧 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞 𝐚𝐦𝐨𝐧𝐠 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐬, 𝐬𝐞𝐞𝐤𝐢𝐧𝐠 𝐣𝐮𝐬𝐭𝐢𝐜𝐞, 𝐚𝐮𝐭𝐨𝐧𝐨𝐦𝐲, 𝐚𝐧𝐝 𝐫𝐞𝐜𝐨𝐠𝐧𝐢𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐞𝐢𝐫 𝐫𝐢𝐠𝐡𝐭𝐬.

𝐓𝐡𝐞 𝐑𝐨𝐥𝐞 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐞 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐡 𝐂𝐨𝐦𝐦𝐮𝐧𝐢𝐭𝐢𝐞𝐬:
𝐓𝐡𝐞 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐬, 𝐚 𝐬𝐭𝐚𝐭𝐞𝐥𝐞𝐬𝐬 𝐞𝐭𝐡𝐧𝐢𝐜 𝐠𝐫𝐨𝐮𝐩 𝐝𝐢𝐯𝐢𝐝𝐞𝐝 𝐛𝐞𝐭𝐰𝐞𝐞𝐧 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲, 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚, 𝐈𝐫𝐚𝐪, 𝐚𝐧𝐝 𝐈𝐫𝐚𝐧, 𝐡𝐚𝐯𝐞 𝐥𝐨𝐧𝐠 𝐛𝐞𝐞𝐧 𝐚𝐭 𝐭𝐡𝐞 𝐡𝐞𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐞 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚 𝐜𝐫𝐢𝐬𝐢𝐬. 𝐈𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚, 𝐭𝐡𝐞 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐬 𝐡𝐚𝐯𝐞 𝐜𝐚𝐫𝐯𝐞𝐝 𝐨𝐮𝐭 𝐚𝐮𝐭𝐨𝐧𝐨𝐦𝐨𝐮𝐬 𝐭𝐞𝐫𝐫𝐢𝐭𝐨𝐫𝐢𝐞𝐬, 𝐞𝐬𝐩𝐞𝐜𝐢𝐚𝐥𝐥𝐲 𝐢𝐧 𝐭𝐡𝐞 𝐧𝐨𝐫𝐭𝐡𝐞𝐚𝐬𝐭𝐞𝐫𝐧 𝐫𝐞𝐠𝐢𝐨𝐧, 𝐰𝐡𝐞𝐫𝐞 𝐭𝐡𝐞 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐃𝐞𝐦𝐨𝐜𝐫𝐚𝐭𝐢𝐜 𝐅𝐨𝐫𝐜𝐞𝐬 (𝐒𝐃𝐅), 𝐥𝐚𝐫𝐠𝐞𝐥𝐲 𝐥𝐞𝐝 𝐛𝐲 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐡 𝐟𝐢𝐠𝐡𝐭𝐞𝐫𝐬, 𝐡𝐚𝐯𝐞 𝐩𝐥𝐚𝐲𝐞𝐝 𝐚 𝐩𝐢𝐯𝐨𝐭𝐚𝐥 𝐫𝐨𝐥𝐞 𝐢𝐧 𝐜𝐨𝐦𝐛𝐚𝐭𝐢𝐧𝐠 𝐈𝐒𝐈𝐒. 𝐇𝐨𝐰𝐞𝐯𝐞𝐫, 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐚𝐮𝐭𝐨𝐧𝐨𝐦𝐲 𝐡𝐚𝐬 𝐜𝐨𝐦𝐞 𝐰𝐢𝐭𝐡 𝐜𝐨𝐧𝐬𝐭𝐚𝐧𝐭 𝐭𝐡𝐫𝐞𝐚𝐭𝐬, 𝐩𝐚𝐫𝐭𝐢𝐜𝐮𝐥𝐚𝐫𝐥𝐲 𝐟𝐫𝐨𝐦 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲, 𝐰𝐡𝐢𝐜𝐡 𝐯𝐢𝐞𝐰𝐬 𝐭𝐡𝐞 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐬 𝐚𝐬 𝐚𝐟𝐟𝐢𝐥𝐢𝐚𝐭𝐞𝐝 𝐰𝐢𝐭𝐡 𝐭𝐡𝐞 𝐏𝐊𝐊 (𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐭𝐚𝐧 𝐖𝐨𝐫𝐤𝐞𝐫𝐬' 𝐏𝐚𝐫𝐭𝐲), 𝐚 𝐠𝐫𝐨𝐮𝐩 𝐝𝐞𝐞𝐦𝐞𝐝 𝐚 𝐭𝐞𝐫𝐫𝐨𝐫𝐢𝐬𝐭 𝐨𝐫𝐠𝐚𝐧𝐢𝐳𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐛𝐲 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲, 𝐭𝐡𝐞 𝐄𝐔, 𝐚𝐧𝐝 𝐭𝐡𝐞 𝐔𝐧𝐢𝐭𝐞𝐝 𝐒𝐭𝐚𝐭𝐞𝐬.

𝐓𝐡𝐞 𝐃𝐞𝐜𝐞𝐦𝐛𝐞𝐫 𝟏 𝐩𝐫𝐨𝐭𝐞𝐬𝐭𝐬 𝐰𝐞𝐫𝐞 𝐚 𝐝𝐢𝐫𝐞𝐜𝐭 𝐫𝐞𝐚𝐜𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐭𝐨 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲’𝐬 𝐦𝐢𝐥𝐢𝐭𝐚𝐫𝐲 𝐢𝐧𝐜𝐮𝐫𝐬𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐢𝐧𝐭𝐨 𝐧𝐨𝐫𝐭𝐡𝐞𝐫𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚 𝐚𝐧𝐝 𝐭𝐡𝐞 𝐄𝐔’𝐬 𝐟𝐚𝐢𝐥𝐮𝐫𝐞 𝐭𝐨 𝐭𝐚𝐤𝐞 𝐬𝐭𝐫𝐨𝐧𝐠𝐞𝐫 𝐬𝐭𝐚𝐧𝐜𝐞𝐬 𝐚𝐠𝐚𝐢𝐧𝐬𝐭 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲’𝐬 𝐚𝐜𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬. 𝐓𝐡𝐞 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐬 𝐢𝐧 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞, 𝐩𝐚𝐫𝐭𝐢𝐜𝐮𝐥𝐚𝐫𝐥𝐲 𝐢𝐧 𝐒𝐰𝐢𝐭𝐳𝐞𝐫𝐥𝐚𝐧𝐝, 𝐆𝐞𝐫𝐦𝐚𝐧𝐲, 𝐚𝐧𝐝 𝐅𝐫𝐚𝐧𝐜𝐞, 𝐡𝐚𝐯𝐞 𝐛𝐞𝐞𝐧 𝐢𝐧𝐜𝐫𝐞𝐚𝐬𝐢𝐧𝐠𝐥𝐲 𝐯𝐨𝐜𝐚𝐥, 𝐰𝐢𝐭𝐡 𝐝𝐞𝐦𝐨𝐧𝐬𝐭𝐫𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐠𝐫𝐨𝐰𝐢𝐧𝐠 𝐢𝐧 𝐟𝐫𝐞𝐪𝐮𝐞𝐧𝐜𝐲 𝐚𝐧𝐝 𝐢𝐧𝐭𝐞𝐧𝐬𝐢𝐭𝐲. 𝐓𝐡𝐞𝐬𝐞 𝐦𝐨𝐯𝐞𝐦𝐞𝐧𝐭𝐬 𝐚𝐫𝐞 𝐧𝐨𝐭 𝐨𝐧𝐥𝐲 𝐚𝐛𝐨𝐮𝐭 𝐭𝐡𝐞 𝐬𝐢𝐭𝐮𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐢𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚 𝐛𝐮𝐭 𝐚𝐥𝐬𝐨 𝐚𝐛𝐨𝐮𝐭 𝐭𝐡𝐞 𝐛𝐫𝐨𝐚𝐝𝐞𝐫 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐡 𝐬𝐭𝐫𝐮𝐠𝐠𝐥𝐞 𝐟𝐨𝐫 𝐬𝐞𝐥𝐟-𝐝𝐞𝐭𝐞𝐫𝐦𝐢𝐧𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧, 𝐰𝐡𝐢𝐜𝐡 𝐡𝐚𝐬 𝐝𝐞𝐞𝐩 𝐡𝐢𝐬𝐭𝐨𝐫𝐢𝐜𝐚𝐥 𝐫𝐨𝐨𝐭𝐬 𝐚𝐧𝐝 𝐜𝐨𝐧𝐭𝐢𝐧𝐮𝐞𝐬 𝐭𝐨 𝐚𝐟𝐟𝐞𝐜𝐭 𝐦𝐢𝐥𝐥𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐨𝐟 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐬 𝐥𝐢𝐯𝐢𝐧𝐠 𝐚𝐜𝐫𝐨𝐬𝐬 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞.

𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲 𝐚𝐧𝐝 𝐈𝐭𝐬 𝐑𝐨𝐥𝐞 𝐢𝐧 𝐭𝐡𝐞 𝐂𝐫𝐢𝐬𝐢𝐬:
𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲’𝐬 𝐢𝐧𝐯𝐨𝐥𝐯𝐞𝐦𝐞𝐧𝐭 𝐢𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚 𝐢𝐬 𝐚 𝐤𝐞𝐲 𝐟𝐚𝐜𝐭𝐨𝐫 𝐢𝐧 𝐭𝐡𝐞 𝐨𝐧𝐠𝐨𝐢𝐧𝐠 𝐢𝐧𝐬𝐭𝐚𝐛𝐢𝐥𝐢𝐭𝐲. 𝐏𝐫𝐞𝐬𝐢𝐝𝐞𝐧𝐭 𝐑𝐞𝐜𝐞𝐩 𝐓𝐚𝐲𝐲𝐢𝐩 𝐄𝐫𝐝𝐨𝐠̆𝐚𝐧’𝐬 𝐦𝐢𝐥𝐢𝐭𝐚𝐫𝐲 𝐜𝐚𝐦𝐩𝐚𝐢𝐠𝐧𝐬 𝐢𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚 𝐚𝐫𝐞 𝐚𝐢𝐦𝐞𝐝 𝐚𝐭 𝐜𝐫𝐞𝐚𝐭𝐢𝐧𝐠 𝐚 “𝐬𝐚𝐟𝐞 𝐳𝐨𝐧𝐞” 𝐟𝐫𝐞𝐞 𝐟𝐫𝐨𝐦 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐡 𝐟𝐨𝐫𝐜𝐞𝐬. 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲 𝐚𝐫𝐠𝐮𝐞𝐬 𝐭𝐡𝐚𝐭 𝐭𝐡𝐞 𝐩𝐫𝐞𝐬𝐞𝐧𝐜𝐞 𝐨𝐟 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐡 𝐟𝐢𝐠𝐡𝐭𝐞𝐫𝐬 𝐜𝐥𝐨𝐬𝐞 𝐭𝐨 𝐢𝐭𝐬 𝐛𝐨𝐫𝐝𝐞𝐫 𝐩𝐨𝐬𝐞𝐬 𝐚 𝐭𝐡𝐫𝐞𝐚𝐭 𝐭𝐨 𝐧𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧𝐚𝐥 𝐬𝐞𝐜𝐮𝐫𝐢𝐭𝐲, 𝐠𝐢𝐯𝐞𝐧 𝐭𝐡𝐞𝐢𝐫 𝐥𝐢𝐧𝐤𝐬 𝐰𝐢𝐭𝐡 𝐭𝐡𝐞 𝐏𝐊𝐊. 𝐇𝐨𝐰𝐞𝐯𝐞𝐫, 𝐜𝐫𝐢𝐭𝐢𝐜𝐬 𝐚𝐫𝐠𝐮𝐞 𝐭𝐡𝐚𝐭 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲'𝐬 𝐨𝐩𝐞𝐫𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐨𝐟𝐭𝐞𝐧 𝐭𝐚𝐫𝐠𝐞𝐭 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐡 𝐜𝐢𝐯𝐢𝐥𝐢𝐚𝐧𝐬 𝐚𝐧𝐝 𝐜𝐨𝐧𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞 𝐭𝐨 𝐭𝐡𝐞 𝐟𝐮𝐫𝐭𝐡𝐞𝐫 𝐝𝐞𝐬𝐭𝐚𝐛𝐢𝐥𝐢𝐳𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐨𝐟 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚.

𝐁𝐲 𝐛𝐚𝐜𝐤𝐢𝐧𝐠 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐫𝐞𝐛𝐞𝐥 𝐟𝐚𝐜𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐚𝐧𝐝 𝐞𝐧𝐠𝐚𝐠𝐢𝐧𝐠 𝐢𝐧 𝐦𝐢𝐥𝐢𝐭𝐚𝐫𝐲 𝐨𝐩𝐞𝐫𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐚𝐠𝐚𝐢𝐧𝐬𝐭 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐡-𝐜𝐨𝐧𝐭𝐫𝐨𝐥𝐥𝐞𝐝 𝐫𝐞𝐠𝐢𝐨𝐧𝐬, 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲 𝐡𝐚𝐬 𝐬𝐢𝐠𝐧𝐢𝐟𝐢𝐜𝐚𝐧𝐭𝐥𝐲 𝐢𝐧𝐟𝐥𝐮𝐞𝐧𝐜𝐞𝐝 𝐭𝐡𝐞 𝐝𝐲𝐧𝐚𝐦𝐢𝐜𝐬 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐞 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐜𝐨𝐧𝐟𝐥𝐢𝐜𝐭. 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲’𝐬 𝐚𝐜𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐡𝐚𝐯𝐞 𝐚𝐥𝐬𝐨 𝐬𝐭𝐫𝐚𝐢𝐧𝐞𝐝 𝐢𝐭𝐬 𝐫𝐞𝐥𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐰𝐢𝐭𝐡 𝐭𝐡𝐞 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞𝐚𝐧 𝐔𝐧𝐢𝐨𝐧, 𝐰𝐡𝐢𝐜𝐡 𝐡𝐚𝐬 𝐛𝐞𝐞𝐧 𝐜𝐫𝐢𝐭𝐢𝐜𝐚𝐥 𝐨𝐟 𝐀𝐧𝐤𝐚𝐫𝐚’𝐬 𝐭𝐚𝐜𝐭𝐢𝐜𝐬 𝐛𝐮𝐭 𝐫𝐞𝐦𝐚𝐢𝐧𝐬 𝐫𝐞𝐥𝐢𝐚𝐧𝐭 𝐨𝐧 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲 𝐚𝐬 𝐚 𝐬𝐭𝐫𝐚𝐭𝐞𝐠𝐢𝐜 𝐩𝐚𝐫𝐭𝐧𝐞𝐫 𝐢𝐧 𝐦𝐚𝐧𝐚𝐠𝐢𝐧𝐠 𝐭𝐡𝐞 𝐦𝐢𝐠𝐫𝐚𝐧𝐭 𝐜𝐫𝐢𝐬𝐢𝐬.

𝐈𝐬𝐫𝐚𝐞𝐥'𝐬 𝐒𝐭𝐫𝐢𝐤𝐞𝐬 𝐨𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚:
𝐈𝐬𝐫𝐚𝐞𝐥 𝐡𝐚𝐬 𝐚𝐥𝐬𝐨 𝐛𝐞𝐞𝐧 𝐢𝐧𝐯𝐨𝐥𝐯𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐭𝐡𝐞 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐜𝐨𝐧𝐟𝐥𝐢𝐜𝐭, 𝐩𝐚𝐫𝐭𝐢𝐜𝐮𝐥𝐚𝐫𝐥𝐲 𝐭𝐡𝐫𝐨𝐮𝐠𝐡 𝐢𝐭𝐬 𝐚𝐢𝐫𝐬𝐭𝐫𝐢𝐤𝐞𝐬. 𝐖𝐡𝐢𝐥𝐞 𝐈𝐬𝐫𝐚𝐞𝐥 𝐡𝐚𝐬 𝐧𝐨𝐭 𝐨𝐩𝐞𝐧𝐥𝐲 𝐚𝐥𝐢𝐠𝐧𝐞𝐝 𝐢𝐭𝐬𝐞𝐥𝐟 𝐰𝐢𝐭𝐡 𝐚𝐧𝐲 𝐬𝐢𝐝𝐞 𝐢𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚, 𝐢𝐭𝐬 𝐨𝐩𝐞𝐫𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐚𝐫𝐞 𝐥𝐚𝐫𝐠𝐞𝐥𝐲 𝐦𝐨𝐭𝐢𝐯𝐚𝐭𝐞𝐝 𝐛𝐲 𝐢𝐭𝐬 𝐝𝐞𝐬𝐢𝐫𝐞 𝐭𝐨 𝐩𝐫𝐞𝐯𝐞𝐧𝐭 𝐭𝐡𝐞 𝐞𝐱𝐩𝐚𝐧𝐬𝐢𝐨𝐧 𝐨𝐟 𝐈𝐫𝐚𝐧𝐢𝐚𝐧 𝐢𝐧𝐟𝐥𝐮𝐞𝐧𝐜𝐞 𝐢𝐧 𝐭𝐡𝐞 𝐫𝐞𝐠𝐢𝐨𝐧. 𝐈𝐬𝐫𝐚𝐞𝐥 𝐡𝐚𝐬 𝐜𝐨𝐧𝐬𝐢𝐬𝐭𝐞𝐧𝐭𝐥𝐲 𝐭𝐚𝐫𝐠𝐞𝐭𝐞𝐝 𝐈𝐫𝐚𝐧𝐢𝐚𝐧 𝐦𝐢𝐥𝐢𝐭𝐚𝐫𝐲 𝐢𝐧𝐬𝐭𝐚𝐥𝐥𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐚𝐧𝐝 𝐰𝐞𝐚𝐩𝐨𝐧𝐬 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐟𝐞𝐫𝐬 𝐭𝐨 𝐇𝐞𝐳𝐛𝐨𝐥𝐥𝐚𝐡, 𝐚 𝐋𝐞𝐛𝐚𝐧𝐞𝐬𝐞 𝐦𝐢𝐥𝐢𝐭𝐚𝐧𝐭 𝐠𝐫𝐨𝐮𝐩, 𝐚𝐬 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐢𝐭𝐬 “𝐬𝐡𝐚𝐝𝐨𝐰 𝐰𝐚𝐫” 𝐢𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚. 𝐓𝐡𝐞𝐬𝐞 𝐬𝐭𝐫𝐢𝐤𝐞𝐬 𝐡𝐚𝐯𝐞 𝐟𝐮𝐫𝐭𝐡𝐞𝐫 𝐜𝐨𝐦𝐩𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐞𝐝 𝐭𝐡𝐞 𝐬𝐢𝐭𝐮𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧, 𝐥𝐞𝐚𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐭𝐨 𝐫𝐢𝐬𝐢𝐧𝐠 𝐭𝐞𝐧𝐬𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐧𝐨𝐭 𝐨𝐧𝐥𝐲 𝐢𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚 𝐛𝐮𝐭 𝐚𝐥𝐬𝐨 𝐢𝐧 𝐭𝐡𝐞 𝐛𝐫𝐨𝐚𝐝𝐞𝐫 𝐌𝐢𝐝𝐝𝐥𝐞 𝐄𝐚𝐬𝐭.

𝐓𝐡𝐞 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞𝐚𝐧 𝐔𝐧𝐢𝐨𝐧’𝐬 𝐑𝐨𝐥𝐞:
𝐓𝐡𝐞 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞𝐚𝐧 𝐔𝐧𝐢𝐨𝐧’𝐬 𝐫𝐞𝐬𝐩𝐨𝐧𝐬𝐞 𝐭𝐨 𝐭𝐡𝐞 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚 𝐜𝐫𝐢𝐬𝐢𝐬 𝐡𝐚𝐬 𝐛𝐞𝐞𝐧 𝐨𝐧𝐞 𝐨𝐟 𝐜𝐚𝐮𝐭𝐢𝐨𝐮𝐬 𝐝𝐢𝐩𝐥𝐨𝐦𝐚𝐜𝐲. 𝐖𝐡𝐢𝐥𝐞 𝐭𝐡𝐞 𝐄𝐔 𝐡𝐚𝐬 𝐜𝐨𝐧𝐝𝐞𝐦𝐧𝐞𝐝 𝐯𝐚𝐫𝐢𝐨𝐮𝐬 𝐚𝐬𝐩𝐞𝐜𝐭𝐬 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐞 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐜𝐨𝐧𝐟𝐥𝐢𝐜𝐭, 𝐩𝐚𝐫𝐭𝐢𝐜𝐮𝐥𝐚𝐫𝐥𝐲 𝐭𝐡𝐞 𝐡𝐮𝐦𝐚𝐧𝐢𝐭𝐚𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐜𝐫𝐢𝐬𝐢𝐬 𝐚𝐧𝐝 𝐭𝐡𝐞 𝐮𝐬𝐞 𝐨𝐟 𝐜𝐡𝐞𝐦𝐢𝐜𝐚𝐥 𝐰𝐞𝐚𝐩𝐨𝐧𝐬 𝐛𝐲 𝐭𝐡𝐞 𝐀𝐬𝐬𝐚𝐝 𝐫𝐞𝐠𝐢𝐦𝐞, 𝐢𝐭 𝐡𝐚𝐬 𝐛𝐞𝐞𝐧 𝐫𝐞𝐥𝐮𝐜𝐭𝐚𝐧𝐭 𝐭𝐨 𝐝𝐢𝐫𝐞𝐜𝐭𝐥𝐲 𝐢𝐧𝐭𝐞𝐫𝐯𝐞𝐧𝐞 𝐢𝐧 𝐭𝐡𝐞 𝐜𝐨𝐧𝐟𝐥𝐢𝐜𝐭. 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞𝐚𝐧 𝐜𝐨𝐮𝐧𝐭𝐫𝐢𝐞𝐬 𝐡𝐚𝐯𝐞 𝐥𝐚𝐫𝐠𝐞𝐥𝐲 𝐚𝐝𝐨𝐩𝐭𝐞𝐝 𝐚 𝐩𝐨𝐥𝐢𝐜𝐲 𝐨𝐟 𝐬𝐮𝐩𝐩𝐨𝐫𝐭𝐢𝐧𝐠 𝐡𝐮𝐦𝐚𝐧𝐢𝐭𝐚𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐚𝐢𝐝 𝐞𝐟𝐟𝐨𝐫𝐭𝐬 𝐚𝐧𝐝 𝐢𝐦𝐩𝐨𝐬𝐢𝐧𝐠 𝐬𝐚𝐧𝐜𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐨𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚’𝐬 𝐠𝐨𝐯𝐞𝐫𝐧𝐦𝐞𝐧𝐭, 𝐰𝐡𝐢𝐥𝐞 𝐭𝐫𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐭𝐨 𝐦𝐚𝐢𝐧𝐭𝐚𝐢𝐧 𝐫𝐞𝐥𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐰𝐢𝐭𝐡 𝐫𝐞𝐠𝐢𝐨𝐧𝐚𝐥 𝐩𝐨𝐰𝐞𝐫𝐬 𝐥𝐢𝐤𝐞 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲.

𝐇𝐨𝐰𝐞𝐯𝐞𝐫, 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞 𝐟𝐚𝐜𝐞𝐬 𝐠𝐫𝐨𝐰𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐫𝐞𝐬𝐬𝐮𝐫𝐞, 𝐛𝐨𝐭𝐡 𝐟𝐫𝐨𝐦 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐢𝐧 𝐢𝐭𝐬 𝐛𝐨𝐫𝐝𝐞𝐫𝐬 𝐚𝐧𝐝 𝐟𝐫𝐨𝐦 𝐠𝐥𝐨𝐛𝐚𝐥 𝐚𝐥𝐥𝐢𝐞𝐬, 𝐭𝐨 𝐭𝐚𝐤𝐞 𝐚 𝐦𝐨𝐫𝐞 𝐚𝐬𝐬𝐞𝐫𝐭𝐢𝐯𝐞 𝐫𝐨𝐥𝐞 𝐢𝐧 𝐭𝐡𝐞 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐜𝐫𝐢𝐬𝐢𝐬. 𝐓𝐡𝐞 𝐫𝐢𝐬𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐫𝐨𝐭𝐞𝐬𝐭𝐬 𝐢𝐧 𝐜𝐢𝐭𝐢𝐞𝐬 𝐥𝐢𝐤𝐞 𝐙𝐮̈𝐫𝐢𝐜𝐡 𝐫𝐞𝐟𝐥𝐞𝐜𝐭 𝐭𝐡𝐞 𝐠𝐫𝐨𝐰𝐢𝐧𝐠 𝐝𝐢𝐬𝐜𝐨𝐧𝐭𝐞𝐧𝐭 𝐚𝐦𝐨𝐧𝐠 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐬 𝐚𝐧𝐝 𝐡𝐮𝐦𝐚𝐧 𝐫𝐢𝐠𝐡𝐭𝐬 𝐚𝐝𝐯𝐨𝐜𝐚𝐭𝐞𝐬, 𝐩𝐮𝐬𝐡𝐢𝐧𝐠 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞 𝐭𝐨 𝐫𝐞𝐭𝐡𝐢𝐧𝐤 𝐢𝐭𝐬 𝐩𝐨𝐬𝐢𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐚𝐧𝐝 𝐩𝐨𝐬𝐬𝐢𝐛𝐥𝐲 𝐩𝐫𝐨𝐯𝐢𝐝𝐞 𝐦𝐨𝐫𝐞 𝐫𝐨𝐛𝐮𝐬𝐭 𝐬𝐮𝐩𝐩𝐨𝐫𝐭 𝐭𝐨 𝐭𝐡𝐞 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐡 𝐜𝐚𝐮𝐬𝐞.

𝐓𝐡𝐞 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐜𝐫𝐢𝐬𝐢𝐬 𝐢𝐬 𝐟𝐚𝐫 𝐟𝐫𝐨𝐦 𝐨𝐯𝐞𝐫, 𝐚𝐧𝐝 𝐢𝐭𝐬 𝐢𝐦𝐩𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧𝐬 𝐚𝐫𝐞 𝐛𝐞𝐢𝐧𝐠 𝐟𝐞𝐥𝐭 𝐚𝐜𝐫𝐨𝐬𝐬 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞. 𝐀𝐬 𝐊𝐮𝐫𝐝𝐢𝐬𝐡 𝐦𝐨𝐯𝐞𝐦𝐞𝐧𝐭𝐬 𝐫𝐢𝐬𝐞 𝐢𝐧 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞, 𝐭𝐡𝐞 𝐬𝐢𝐭𝐮𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐢𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚 𝐫𝐞𝐦𝐚𝐢𝐧𝐬 𝐚 𝐟𝐥𝐚𝐬𝐡𝐩𝐨𝐢𝐧𝐭, 𝐰𝐢𝐭𝐡 𝐠𝐥𝐨𝐛𝐚𝐥 𝐩𝐨𝐰𝐞𝐫𝐬 𝐥𝐢𝐤𝐞 𝐓𝐮𝐫𝐤𝐞𝐲 𝐚𝐧𝐝 𝐈𝐬𝐫𝐚𝐞𝐥 𝐩𝐥𝐚𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐜𝐫𝐢𝐭𝐢𝐜𝐚𝐥 𝐫𝐨𝐥𝐞𝐬. 𝐓𝐡𝐞 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞𝐚𝐧 𝐔𝐧𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐮𝐬𝐭 𝐜𝐚𝐫𝐞𝐟𝐮𝐥𝐥𝐲 𝐛𝐚𝐥𝐚𝐧𝐜𝐞 𝐢𝐭𝐬 𝐝𝐢𝐩𝐥𝐨𝐦𝐚𝐭𝐢𝐜 𝐞𝐟𝐟𝐨𝐫𝐭𝐬 𝐰𝐢𝐭𝐡 𝐡𝐮𝐦𝐚𝐧𝐢𝐭𝐚𝐫𝐢𝐚𝐧 𝐜𝐨𝐧𝐜𝐞𝐫𝐧𝐬 𝐚𝐧𝐝 𝐫𝐞𝐠𝐢𝐨𝐧𝐚𝐥 𝐬𝐭𝐚𝐛𝐢𝐥𝐢𝐭𝐲. 𝐓𝐡𝐞 𝐩𝐫𝐨𝐭𝐞𝐬𝐭𝐬 𝐢𝐧 𝐙𝐮̈𝐫𝐢𝐜𝐡 𝐚𝐫𝐞 𝐚 𝐩𝐨𝐢𝐠𝐧𝐚𝐧𝐭 𝐫𝐞𝐦𝐢𝐧𝐝𝐞𝐫 𝐭𝐡𝐚𝐭 𝐭𝐡𝐞 𝐜𝐨𝐧𝐟𝐥𝐢𝐜𝐭 𝐢𝐧 𝐒𝐲𝐫𝐢𝐚 𝐢𝐬 𝐧𝐨𝐭 𝐣𝐮𝐬𝐭 𝐚 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐚𝐧𝐭 𝐢𝐬𝐬𝐮𝐞—𝐢𝐭’𝐬 𝐨𝐧𝐞 𝐭𝐡𝐚𝐭 𝐡𝐚𝐬 𝐫𝐞𝐯𝐞𝐫𝐛𝐞𝐫𝐚𝐭𝐢𝐧𝐠 𝐞𝐟𝐟𝐞𝐜𝐭𝐬 𝐚𝐜𝐫𝐨𝐬𝐬 𝐄𝐮𝐫𝐨𝐩𝐞 𝐚𝐧𝐝 𝐰𝐢𝐥𝐥 𝐜𝐨𝐧𝐭𝐢𝐧𝐮𝐞 𝐭𝐨 𝐬𝐡𝐚𝐩𝐞 𝐭𝐡𝐞 𝐜𝐨𝐧𝐭𝐢𝐧𝐞𝐧𝐭’𝐬 𝐠𝐞𝐨𝐩𝐨𝐥𝐢𝐭𝐢𝐜𝐚𝐥 𝐥𝐚𝐧𝐝𝐬𝐜𝐚𝐩𝐞.

We EAPJG condemned the abduction of senior Journalist Matiullah Jan Shakir M Awan other journalists in Islamabad Pakista...
29/11/2024

We EAPJG condemned the abduction of senior Journalist Matiullah Jan Shakir M Awan other journalists in Islamabad Pakistan
Www.eapjg.press

28/11/2024



26/11/2024

PG
یہ ہے وہ ویڈیو جس میں پٹی بھائیوں نے اپنے ہی پیٹی بھائی کو کچل دیا ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

تحریر شاہد امیر گورایہ جرمنی 1000 عوام میں سے جان دینے انقلابیوں کا تناسب کیا ہو سکتا ہے ؟ ڈی چوک اسلام آباد کی جانب پی ...
26/11/2024

تحریر
شاہد امیر گورایہ جرمنی

1000 عوام میں سے جان دینے انقلابیوں کا تناسب کیا ہو سکتا ہے ؟

ڈی چوک اسلام آباد کی جانب پی ٹی آئی کے انقلابی کارکنان کی پیش قدمی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انقلابی کارکنان کی جانب سے ڈی چوک اسلام آباد کی جانب مارچ نے نہ صرف ملکی سیاست میں ہلچل مچائی ہے بلکہ عوام میں بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ 25 کروڑ آبادی والے اس ملک میں، انقلابی تحریکوں میں شامل افراد کا تناسب ہمیشہ ایک اہم موضوع رہا ہے۔

انقلابی کارکنان کا تناسب:
عام طور پر، دنیا بھر میں کسی بھی تحریک میں انقلابی کارکنان کی تعداد کل آبادی کے ایک چھوٹے حصے پر مشتمل ہوتی ہے۔ اندازاً، کسی تحریک کے دوران 1000 افراد میں سے 10 سے 50 افراد (یعنی 1% سے 5%) فعال طور پر شامل ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان کی آبادی کو مدنظر رکھا جائے تو یہ تناسب لاکھوں افراد پر مشتمل ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر تحریک میں عوامی حمایت بھرپور ہو۔

پی ٹی آئی کے کارکنان کی ڈی چوک کی جانب پیش قدمی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح عوام اپنے حقوق اور سیاسی نظریات کے لیے متحرک ہو سکتے ہیں۔ ڈی چوک، جو ہمیشہ سیاسی اور جمہوری جدوجہد کا مرکز رہا ہے، ایک بار پھر انقلابی آوازوں سے گونج رہا ہے۔

انقلابی کارکنان کی اہمیت:
پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے اپنے کارکنان کو انقلابی "مجاہد" قرار دینا اس بات کی علامت ہے کہ سیاسی قیادت عوام کی حمایت کو کتنا اہم سمجھتی ہے۔ تحریک کے یہ کارکنان محض تعداد نہیں بلکہ وہ طاقت ہیں جو تحریک کو زندہ رکھتی ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشی، سیاسی، اور سماجی چیلنجز روزمرہ کی حقیقت ہیں، انقلابی کارکنان کا کردار مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ کارکنان نہ صرف اپنے حقوق کے لیے بلکہ ایک بہتر مستقبل کے لیے بھی میدان میں اترتے ہیں۔

کیا پاکستان میں انقلاب ممکن ہے؟
پاکستان کی تاریخ میں انقلابی تحریکوں کا ایک لمبا سلسلہ رہا ہے، لیکن کامیاب انقلاب کے لیے نہ صرف عوامی حمایت بلکہ مضبوط حکمت عملی اور پائیدار قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے کارکنان اپنی جدوجہد کو منظم رکھتے ہیں اور عوام کو اپنے ساتھ جوڑنے میں کامیاب رہتے ہیں تو ڈی چوک کی یہ تحریک تاریخ کا اہم باب بن سکتی ہے۔

میرے تجربہ اور رائے کے مطابق
پاکستان تحریک انصاف کے انقلابی کارکنان کی ڈی چوک کی جانب مارچ اس بات کی علامت ہے کہ عوام سیاسی تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ 25 کروڑ کی آبادی میں سے اگر 1% بھی فعال طور پر اس تحریک میں شامل ہو جائے تو یہ تحریک ایک غیرمعمولی طاقت بن سکتی ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ انقلابی جذبہ پاکستان کی سیاست کو ایک نئے دور میں داخل کر سکتا ہے یا نہیں۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انقلابی کارکنان کی یہ تحریک پاکستان کے سیاسی حالات میں تبدیلی لا سکتی ہے؟

اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں!

جرمنی کا موجودہ سیاسی بحران 2024: اتحادی حکومت خطرے میں کیوں؟تحریر: شاہد امیر گورایہجرمنی میں اس وقت ایک بڑے سیاسی بحران...
11/11/2024

جرمنی کا موجودہ سیاسی بحران 2024: اتحادی حکومت خطرے میں کیوں؟
تحریر: شاہد امیر گورایہ
جرمنی میں اس وقت ایک بڑے سیاسی بحران نے سر اٹھا لیا ہے جس کے اثرات نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اس بحران کا مرکز اتحادی حکومت ہے، جس کی قیادت چانسلر اولاف شلز کر رہے ہیں۔ اتحادی حکومت، جسے جرمنی میں "ایمپیل" کے نام سے جانا جاتا ہے، مختلف پارٹیوں کے اتحاد پر مبنی ہے۔ اس وقت سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا حکومت کا اتحاد برقرار رہے گا یا نئے انتخابات کی طرف جانا پڑے گا۔ آئیے اس بحران کی وجوہات، اس کے ممکنہ نتائج اور تاریخی پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں۔
اتحادی حکومت کو خطرہ کیوں لاحق ہے؟
جرمنی کی اتحادی حکومت میں شامل تین اہم جماعتیں – سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD)، گرین پارٹی، اور فری ڈیموکریٹک پارٹی (FDP) – شروع سے ہی کئی معاملات پر اختلافات کا شکار رہی ہیں۔ یہ اختلافات حالیہ مہینوں میں بڑھتے ہوئے شدید نوعیت اختیار کر چکے ہیں، جن میں سب سے نمایاں مسائل ماحولیاتی پالیسی، مہاجرین کے حقوق، اور معیشت کی سمت کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات ہیں۔
گرین پارٹی ماحولیاتی اصلاحات کے حق میں ہے جبکہ FDP نے اقتصادی ترقی کو اولیت دینے پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ، یوکرین جنگ سے متعلقہ پالیسی اور جرمنی کی نیٹو کے ساتھ بڑھتی ہوئی وابستگی پر بھی اختلافات نے جنم لیا ہے۔ یہ تمام مسائل بالآخر اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ حکومت کے استحکام پر سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں۔
اولاف شلز نے وزراء کو کیوں برطرف کیا؟
اولاف شلز نے حال ہی میں اپنی کابینہ کے چند وزراء کو برطرف کیا ہے، جس کی وجہ ان کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات اور سیاسی حکمت عملی میں مطابقت نہ ہونا بتایا جا رہا ہے۔ برطرف کیے جانے والے وزراء میں ماحولیات کی وزیر اور اقتصادی وزیر شامل ہیں، جو اپنی پارٹی کی پالیسیوں کے لیے زور دے رہے تھے۔ ان وزراء کو برطرف کرنے کا فیصلہ حکومتی اتحاد کو بچانے کے لیے کیا گیا تھا، تاکہ حکومت کے اندرونی اختلافات کا سد باب کیا جا سکے۔
کیا نئے انتخابات ممکن ہیں؟
اس وقت ملک میں نئے انتخابات کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں، اور اگرچہ اولاف شلز اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن موجودہ حالات میں اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ جرمنی کو نئے انتخابات کی طرف جانا پڑے۔ اگر حکومت میں شامل پارٹیاں اختلافات ختم نہیں کر پائیں تو نئے انتخابات ممکن ہو سکتے ہیں، جس میں عوام دوبارہ فیصلہ کرے گی کہ کون حکومت کرے گا۔
کون سی پارٹی نئی حکومت بنا سکتی ہے؟
اگر نئے انتخابات ہوئے تو دو بڑی پارٹیوں، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) اور کرسچن ڈیموکریٹک یونین (CDU)، کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ CDU، جو اس وقت اپوزیشن میں ہے، ممکنہ طور پر نئی حکومت بنانے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اس پارٹی کا موقف اقتصادی استحکام اور دفاعی پالیسی میں سخت موقف ہے، جس کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد اس کی طرف جھکاؤ دکھا سکتی ہے۔
جرمنی میں ماضی میں اس طرح کے بحران کب پیش آئے؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ جرمنی میں حکومت کے اندرونی اختلافات سے سیاسی بحران پیدا ہوا ہو۔ سنہ 2005 میں بھی ایسا ہی ایک بحران اس وقت پیدا ہوا جب جرمنی کی حکومت میں گرین پارٹی اور SPD کے درمیان اختلافات نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ اُس وقت CDU اور اس کی سربراہ اینگلا میرکل نے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے حکومت بنائی۔ آج کے بحران میں بھی حالات اسی نہج پر جاتے دکھائی دے رہے ہیں، اور ماضی کی طرح عوام کا فیصلہ ہی اس بحران کا حل نکالے گا۔
جرمنی کا موجودہ سیاسی بحران ملک کے استحکام کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ چانسلر اولاف شلز کی جانب سے وزراء کی برطرفی اور اتحادی جماعتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات نے ملک کو ایک نازک صورتحال میں لا کھڑا کیا ہے۔ جرمنی کی عوام اور دنیا اس بحران کے حل کی منتظر ہے اور ممکنہ طور پر نئے انتخابات کے ذریعے ایک نیا فیصلہ سامنے آ سکتا ہے۔

Happy Iqbal Day | 9th November. "Allama Muhammad Iqbal Lahori and his message to the mankind" -By Zahid Munir Amir, Prof...
09/11/2024

Happy Iqbal Day | 9th November.

"Allama Muhammad Iqbal Lahori and his message to the mankind" -

By Zahid Munir Amir, Professor at Faculty of Literature & Humanities, University of Tehran

How can a poet be relevant to the present world, who was born in the 19th century and departed in the first half of the twentieth century This is a natural question. Before coming to a direct answer to this question we have to see what a poet says. In other words, we have to know what is poetry all....

20/10/2024

International Workers' Sports Confederation in Greece | Active Participation from Pakistan and Asian Nations | Pakistan Today News

15/10/2024
‼️ Italia new visa policy for 2025.
08/10/2024

‼️ Italia new visa policy for 2025.

Italy will offer an extra 10,000 migrant work visas next year for people who look after old people and the disabled, the government said on Wednesday, as it adopted a new package of migration rules.

October 2024: Normal, urgent latest Pakistani passport fee.
05/10/2024

October 2024: Normal, urgent latest Pakistani passport fee.

The Directorate General of Immigration and Passports is the competent authority to issue passports for Pakistani citizens intending to travel abroad for

02/10/2024

معروف سینئر صحافی یونس خان کے انڈین ٹی وی چینل کو دہشتگردی پر کرارے جواب۔
بھارتی اینکر کی ٹائیں ٹائیں فش !!!


Pakistan Journalists Club Regd. Greece

یونان میں پہلے عالمی چیلنج روبوٹکس مقابلوں میں پاکستانی طلباء کی شرکت
01/10/2024

یونان میں پہلے عالمی چیلنج روبوٹکس مقابلوں میں پاکستانی طلباء کی شرکت

یونانی دارالحکومت ایتھنز میں فرسٹ روبوٹکس چیلنج 2024 کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے 190 ممالک کے طلباء نے بھرپور ..مزید پڑھیں

29/09/2024

۔،۔ فرینکفرٹ سیک باخ میں چاقو سے دھمکی دینے والے شخص نے پولیس اہلکار کو ٹکر مار کر زخمی کر دیا۔ نذر حسین۔،۔

٭بدھ کی شام پولیس افسران نے ایک شخص کو گرفتار کیا جس نے پہلے ایک دوسرے شخص کو چاقو سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔گرفتاری کے درمیان چھتیس سالہ شخص نے پولیس اہلکار کو ٹکر مار کر اہلکار کا سر زخمی کر دیا٭http://shanepakistan.com/2024/09/27/%db%94%d8%8c%db%94-%d9%81%d8%b1%db%8c%d9%86%da%a9%d9%81%d8%b1%d9%b9-%d8%b3%db%8c%da%a9-%d8%a8%d8%a7%d8%ae-%d9%85%db%8c%da%ba-%da%86%d8%a7%d9%82%d9%88-%d8%b3%db%92-%d8%af%da%be%d9%85%da%a9%db%8c-%d8%af/

29/09/2024

۔،۔ فرینکفرٹ فیشن ہائیم میں اکتالیس سالہ شخص نے بندوق کی نوک پر چھبیس سالہ نوجوان کو دھمکی دی۔ نذر حسین۔،۔

٭رات کو تقریباََ 21:20 بجے ایک گواہ نے پولیس کو بتایا کہ نامعلوم شخص کو(میربرگر اسٹریٹ) پر بندوق سے دوسرے شخص کو دھمکی دیتے ہوئhttp://shanepakistan.com/2024/09/27/%db%94%d8%8c%db%94-%d9%81%d8%b1%db%8c%d9%86%da%a9%d9%81%d8%b1%d9%b9-%d9%81%db%8c%d8%b4%d9%86-%db%81%d8%a7%d8%a6%db%8c%d9%85-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%a7%da%a9%d8%aa%d8%a7%d9%84%db%8c%d8%b3-%d8%b3%d8%a7/

Adresse

Bonn

Benachrichtigungen

Lassen Sie sich von uns eine E-Mail senden und seien Sie der erste der Neuigkeiten und Aktionen von EAPJG European Association of Pakistani Journalists Global erfährt. Ihre E-Mail-Adresse wird nicht für andere Zwecke verwendet und Sie können sich jederzeit abmelden.

Service Kontaktieren

Nachricht an EAPJG European Association of Pakistani Journalists Global senden:

Videos

Teilen

Medienfirmen in der Nähe


Andere Nachrichten- und Medienseite in Bonn

Alles Anzeigen