08/28/2024
میں پچھترویں سال میں ہوں‘ میں نے تو کسی اور ملک میں جانا نہیں۔ دبئی وغیرہ اوروں کیلئے ہوں گے ہمارے جیسوں کیلئے نہیں۔ اسی لیے ہمیں فکراس دھرتی کی لگی ہوئی ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
پھر دہرائے دیتے ہیں کہ کسی ایک جماعت سے سروکار نہیں‘ پر ملک سے تو ہے۔ ملک کے معاملات صحیح طریقے سے نہیں چل سکے اسی لیے تو اس نہج پر ہم پہنچے ہیں۔
کہنے کو تو یہ بات درست ہے کہ اُن 23 پنجابیوں کو بلوچ دہشت گردوں نے مارا لیکن اصل میں دیکھا جائے اُن غریبوں کو ہماری کم عقلی نے مارا کہ حالات ہی ایسے بن گئے ہیں کہ راکٹ لانچروں اور بموں کی آوازیں اُن دو صوبوں میں سنائی دے رہی ہیں۔ جب سیاست فنا ہو جائے‘ معاشی حالات ابتر ہو جائیں اور معاملاتِ ریاست سے اعتماد اٹھ جائے تو پھرانہی آوازوں نے سنائی دینا ہے۔
بلوچستان میں باقاعدہ ایک اسمبلی موجود ہے‘ صوبائی حکومت ہے لیکن کیا حکومت اور کیا اسمبلی‘ ان پر کوئی اعتماد کرتا ہے؟ سرکار کے لوگ تو اب بیچارے ڈرے بیٹھے ہیں۔ ایف سی وغیرہ کے لوگوں کی وہاں حالت کیا ہو گی جنہیں اب آئے روز کے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بلوچستان میں پہلے بھی شورشیں ہوئی ہیں لیکن یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو اَب وہاں ہو رہا ہے ماضی کی تمام بغاوتوں سے مختلف ہے۔ سرکاری مشینری تو ناکارہ ہوتی جا رہی ہے‘ وہاں کی قوم پرست جماعتیں بھی غیر متعلق ہو چکی ہیں۔ سرداروں کو اب وہاں کوئی نہیں پوچھتا۔ اس موجودہ شورش میں ایسے نوجوان لوگ شامل ہیں جن کا اعتبار انتخابات اور اسمبلیوں سے اُٹھ چکا ہے۔ یہاں تک حالات پہنچنے نہیں چاہئیں تھے لیکن پہنچا دیے گئے ہیں اور یہ ہماری مجموعی ناکامی ہے۔
ایئرکنڈیشنڈ ہالوں میں پریس کانفرنسیں کرنا اور وہاں آنکھیں دکھانا اور پھبتیاں کَسنا اس سے اب کام نہیں چلے گا۔ بیکار کی ضد دکھانے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے‘ نہیں تو اسی روش پر چلتے رہے توسب کچھ بہہ جائے گا۔
ایاز امیر