Mufti Hamidullah

Mufti Hamidullah Islamic Preacher
(2)

29/05/2024
17/05/2024

سوال : قربانی کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب : قربانی کبھی واجب ہوتی ہے اور فقط سنت و نفل

سوال : یہ کس طرح معلوم ہوگا کہ ہم پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟

جواب: درج ذیل شرائط پر خواب اچھی طرح اور ٹھنڈے دل سے غور کیجئے۔ اگر یہ تمام شرائط موجود ہوں، تو قربانی واجب ہے اور اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو اب قربانی واجب نہیں۔ ہاں ایسی صورت میں کریں گے تو سنت و نفل ہوگی

قربانی کی شرائط

قربانی کی درج ذیل چار شرطیں ہیں۔

۔ 1 مسلمان ہونا، 2۔ مقیم ہونا، 3۔ مالک نصاب ہونا، 4۔ بالغ ہونا

ان کی وضاحت و تفصیل

۔1: مسلمان ہونا چنانچہ غیر مسلم پر واجب نہیں

۔2 مقیم ہونا

چنانچہ مسافر پر واجب نہیں۔ یاد رکھئے کہ شرعی مسافر وہ ہے جو اپنے شہر کی حدود سے تقریبا ساڑھے ستاون میل( 92 کلومیٹر) دور جانے کے ارادے کے ساتھ نکل گیا ہو۔ یا اگر کسی ساڑھے ستاون میل 92 کلومیٹر) دور مقام پر پہنچ چکا ہو تو پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی ہو یا اگر پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کی بھی ہو تو یہ شخص کہیں آنے جانے میں اپنی مرضی کا مالک نہ ہو بلکہ کسی دوسرے شخص کی مرضی کے تابع ہو، جیسے بیوی شوہر کے تابع ہے یا نوکر اپنے مالک کے حکم کے تابع ہے اور جس کے تابع ہیں، اس نے پندرہ دن سے کم کی نیت کی ہے۔

۔3 مالک نصاب ہونا

مالک نصاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیت کا ضروریات زندگی سے زائد سامان ہو اور اس پر اﷲ تعالیٰ یا بندوں کا اتنا قرضہ نہ ہو کہ جسے ادا کرکے ذکر کردہ نصاب باقی نہ رہے۔

نوٹ: (1) خیال رہے کہ ایسا شخص ’’غنی‘‘ کہلاتا ہے اور اگر کسی کے پاس مذکورہ نصاب نہ ہو، تو وہ شرعاً ’’فقیر‘‘ کہلائے گا۔

۔ (2) ضروریات زندگی سے مراد وہ چیزیں ہیں کہ جن کی عموماً انسان کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر گزر اوقات میں شدید تنگی و دشواری محسوس ہوتی ہے۔ جیسے رہنے کا گھر، پہننے کے کپڑے، سواری، علم دین سے متعلق کتابیں اور پیشے سے متعلق اوزار وغیرہ۔

اس بارے میں مزید تفصیل جاننا چاہیں، تو بہار شریعت (حصہ 5) کا مطالعہ فرمائیں۔

ضروریات زندگی کی تعریف کے پیش نظر بخوبی معلوم ہوگا کہ ’’ ہمارے گھروں میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں کہ جو حقیقتاً ضروریات زندگی کے سامان میں داخل نہیں۔ چنانچہ اگر ان کی قیمت ’’ساڑھے باون تولہ چاندی‘‘ کے برابر پہنچ گئی تو قربانی واجب ہوگی۔

درج ذیل اشیاء ضروریات زندگی میں شامل نہیں

ٹی وی، وی سی آر، ٹیپ ریکارڈر، ڈش انٹینا، ایسا کمپیوٹر جسے فقط تفریح کی غرض سے استعمال کیا جانا ہو (چنانچہ اگر پڑھائی یا دینی معلومات کا حصول مقصود ہو تو یہ بھی دینی کتابوں کے حکم میں آئے گا) ایسے کپڑے جن کو گرمی و سردی میں پہننا ترک کردیا گیا ہے۔ ڈیکوریشن پیس، ضرورت سے زیادہ مکان یا خالی پلاٹ وغیرہ۔ گھر میں لگی ہوئی تصاویر، ڈائجسٹ و ناول وغیرہ۔ آڈیو ویڈیو کیسٹیں (بشرطیکہ دینی معلومات کے حصول کی غرض سے نہ لی گئی ہوں) کھیل کود کا سامان۔

بلکہ فقہاء اسلام نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کسی کا رہائشی گھر بڑا ہے، اس کا کچھ حصہ رہنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور کچھ حصہ سردی و گرمی ہر قسم کے موسم میں بند رہتا ہے تو اگر اس بند حصے کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا زائد ہے، تب بھی قربانی لازم ہوگی۔

۔ (3) اﷲ تعالیٰ کے قرض سے مراد یہ ہے کہ اس شخص پر سابقہ سالوں کی زکوٰۃ یا قربانی یا کسی قسم کا کفارہ وغیرہ باقی ہو۔

۔ (4) بالغ ہونا

نابالغ پر قربانی واجب نہیں، اگرچہ وہ صاحب نصاب ہی کیوں نہ ہو۔ یاد رہے کہ شرعی لحاظ سے مرد کی بلوغت کی کم از کم عمر 12 سال اور عورت کی 9 سال ہے۔ اس سے پہلے یہ دونوں ہرگز ہرگز بالغ نہیں ہوسکتے۔ پھر 9 یا 12 سال سے 15 سال کے درمیان جب بھی بلوغت کے علامات و آثار ظاہر ہوگئے، انہیں بالغ کہا جائے گا۔

قربانی کے وجوب پر دلائل

سوال : کیا قربانی کے وجوب پر قرآن و حدیث میں کوئی دلیل موجود ہے؟

جواب: کیوں نہیں! اس پر قرآن و حدیث سے کئی دلیلیں موجود ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

پہلی دلیل

اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ’’ فصل لربک و انحر‘‘ یعنی پس تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو‘‘ (صراط الجنان، پ 30، کوثر 2)۔

وضاحت : اس آیت پاک میں ’’ انحر‘‘ صیغہ امر ہے اور یہ ضابطہ ہے کہ جب امر کو مطلق ذکر کیا جائے تو اس سے وجوب مراد ہوتا ہے لہذا معلوم ہوا کہ قربانی واجب و ضروری ہے۔

دوسری دلیل

مخنف بن سلیم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عرفہ میں رسول اﷲﷺ کے پاس کھڑے تھے، آپ نے فرمایا ’’اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر ایک قربانی اور قتیرہ ہے، تم جانتے ہوکہ عتیرہ کیا ہے؟ عتیرہ وہی ہے جسے تم ’’رجبیہ‘‘ کہتے ہو۔ (ابن ماجہ، باب الاضاحی وابنۃ ہی ام لا)۔

وضاحت : عرب لوگ رجب کے اول عشرے میں جو جانور ذبح کرتے، اسے رجبیہ کہتے تھے۔ حدیث میں رجبیہ کے بارے میں موجود حکم ایک خاص وقت تک کے لئے تھا، بعد میں خود حبیب کبریاﷺ نے اسے منسوخ فرمادیا جیسا کہ مسلم شریف میں مذکور ہے

تیسری دلیل

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ جس میں طاقت ہو اور وہ پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہرگز ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے (ایضاً)۔

وضاحت : مذکورہ حدیث پاک میں رسول اﷲﷺ نے قربانی نہ کرنے والوں پر اظہار ناراضگی فرمایا ہے اور ناراضگی کا اظہار اسی مقام پر ہوتا ہے، جہاں کوئی چیز واجب و ضروری ہو لہذا ثابت ہوا کہ قربانی واجب و ضروری ہے

چوتھی دلیل

حضرت جندب بن سفیان رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں عیدالاضحی کے دن رسول اﷲﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔ جب آپ لوگوں کو نماز پڑھا چکے، تو آپﷺ نے ایک ذبح کی ہوئی بکری کو دیکھ کر اشارہ فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کی ہے، وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ابھی تک ذبح نہیں کی، وہ اﷲ کا نام لے کر ذبح کرے (مسلم، باب وقتہا)۔

وضاحت : اس حدیث پاک سے وجوب اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ اگر قربانی واجب نہ ہوتی تو رسول اﷲﷺ اسے دوبارہ کرنے کا حکم صادر نہ فرماتے۔

قربانی کا وقت

سوال : قربانی کس وقت سے کس وقت کے درمیان کی جاسکتی ہے؟

جواب : قربانی کا وقت 10 ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے 12 ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن اور دو راتیں۔ ان دنوں کو ایام نحر کہتے ہیں (در مختار، جلد دوم، کتاب الاضحیہ)۔

وقت سے متعلقہ چند مزید مسائل

۔ 1 پہلے دن قربانی سب سے افضل ہے۔ دوسرے دن اس سے کم اور آخری دن سب سے کم درجہ ہے (عالمگیری، جلد پنجم)۔

خواتین و حضرات کو چاہئے کہ مذکورہ مسئلہ کی روشنی میں جانور کی قیمت اور قصائی کی اجرت میں کمی پر نگاہ رکھتے ہوئے خریداری یا ذبح کو تیسرے دن تک موخر کرنے کے بجائے، پہلے دن کی برکات سے فیضیاب ہونے کو اپنے لیے سعادت مندی تصور کریں۔

۔2 دسویں کے بعد کی دونوں راتوں میں قربانی ہوسکتی ہے۔ مگر رات میں ذبح کرنا مکروہ ہے (فتاویٰ عالمگیری)۔

۔3۔ شہر میں قربانی کی جائے، تو یہ شرط ہے کہ نماز عید ہوچکے ، لہذا اگر نماز عید س پہلے قربانی کی نہ ہوئی، ہاں گاؤں دیہات میں فجر کا وقت شروع ہوتے ہی قربانی ہوسکتی ہے۔

اس سلسلے میں چند احادیث کریمہ

٭ حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا ’’آج (یعنی عیدالاضحی) کے روز جو کام ہم سب سے پہلے کام کرتے ہیں، وہ نماز ہے۔ پھر ہم واپس لوٹتے ہیں، تو قربانی کرتے ہیں، جس نے اس طرح کیا تو اس نے ہمارے طریقے کو پالیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ اس کے گھر والوں کے لئے گوشت ہے، جس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں (بخاری، کتاب الاضاحی)۔

٭ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو اس نے اپنے لئے کی اور جس نے نماز کے بعد کی تو اس کی قربانی پوری ہوئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو پالیا (ایضاً)۔

4۔ اگر شہر میں متعدد مقامات پر نماز عید ہوتی ہے تو پہلی جگہ نماز عید ہوجانے کے بعد، قربانی جائز ہے یعنی یہ ضروری نہیں کہ عیدگاہ (یا آپ کی قریبی مسجد) میں نماز ہوجائے، تب ہی قربانی کی جائے (درمختار، جلد دوم)۔

عید کے دن قربانی کے بجائے صدقہ

سوال: اگر کوئی شخص ان دنوں میں قربان نہ کرے، بلکہ اتنی ہی رقم کسی غریب کو دے دے، تو کیا یہ درست ہے؟

جواب : ایسا شخص اگر غنی ہے تو یقینا صدقہ کرنے سے واجب ادا نہ ہوگا، قربانی ہی کرنی ہوگی اور اگر فقیر ہے تو اگرچہ اس پر قربانی واجب نہیں، لیکن اس کے لئے قربانی کرنا ہی افضل ہے، کیونکہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جو روپیہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا، اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں‘‘ (طبرانی)۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ ایام نحر میں قربانی کرنا، اتنی رقم صدقہ کرنے سے افضل ہے، کیونکہ قربانی واجب ہے یا سنت، جبکہ صدقہ کرنا محض نفل ہے، لہذا قربانی افضل ہوئی (جلد پنجم)۔

قربانی کرنے والے کا بال و ناخن کاٹنا

سوال: سنا ہے کہ جس پر قربانی واجب ہے، وہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن تک اپنے بال وغیرہ نہیں کاٹ سکتا؟

جواب: ایسے شخص کے لئے افضل و مستحب یہی ہے کہ ان دنوں میں بال و ناخن وغیرہ بالکل نہ کاٹے۔ کیونکہ مسلم میں ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جس شخص کے پاس ذبح کرنے کے لئے کوئی ذبیحہ ہو تو جب ذوالحجہ کا چاند نظر آجائے، تو وہ قربانی کرنے تک اپنے بالوں اور ناخنوں کو بالکل نہ کاٹے (باب نہی من دخل علی عشر ذی الحجہ)۔

سوال: کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ قربانی کی سنت پر عمل پیرا ہونے سے معذور مسلمان بھی اس کا ثواب پالے؟

جواب : جی ہاں! نسائی شریف (باب من لم سجد الاضحیہ) میں حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ایک شخص سے فرمایا، مجھے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عید کرنے کا حکم ہوا۔ اﷲ نے اس دن کو میری امت کے لئے عید بنایا۔

اس شخص نے عرض کی۔ یا رسول اﷲﷺ اگر میرے پاس منیحہ کے علاوہ کوئی جانور نہ ہو تو کیا میںاسی کی قربانی کروں؟ فرمایا، نہیں، ہاں تم اپنے بال اور ناخن اور مونچھیں ترشوائو اور موئے زیر ناف مونڈو، اسی میں تمہاری قربانی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری ہوجائے گی (یعنی قربانی کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں ان چیزوں کے کرنے سے ثواب حاصل ہوجاتا ہے)۔

نوٹ: منیحہ اسی جانور کو کہتے ہیں، جو کسی نے دودھ وغیرہ سے نفع اٹھانے کے لئے کچھ دنوں کی خاطر دوسرے کو دیا ہو۔ یہ چونکہ دوسرے کی امانت ہوتا ہے لہذا رسول اﷲﷺ نے اس کی قربانی سے منع فرمایا۔

قربانی کے جانور

سوال: قربانی کے جانور کون کون سے ہیں؟ اور ان کی عمریں کتنی ہونی چاہئیں؟

جواب : شرعی اعتبار سے قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں۔

۔1۔ اونٹ، 2۔ گائے، 3۔ بکری

ان تینوں قسموں میں ان کی نوعیں بھی داخل ہیں۔ چنانچہ نر، مادہ، خصی وغیر خصی، سب کا حکم یکساں ہے یعنی ان سب کی قربانی ہوسکتی ہے۔

بھینس کو گائے کے ساتھ اور بھیڑ اور دنبہ کو بکری کے ساتھ شامل و شمار کیا جائے گا، چنانچہ ان کی قربانی بھی ہوسکتی ہے (فتاویٰ عالمگیری)۔

نوٹ: چونکہ قربانی کے جانور، شریعت کی جانب سے مخصوص ہیں، لہذا اگر ان دنوں میں کسی نے قربانی کی نیت سے خرگوش یا مرغی ذبح کی تو وہ قربانی کرنے والا نہ کہلائے گا۔

جانوروں کی عمریں

۔1۔ اونٹ… کم از کم پانچ سال

۔2۔ گائے… کم از کم دو سال

۔3… بکری… کم از کم ایک سال

جانور اگر مقررہ عمر سے کم ہو تو قربانی نہ ہوگی اور اگر زیادہ عمر کا ہو، تو جائز بلکہ افضل ہے۔ ہاں اگر دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اتنا بڑا ہوکہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے تو اس کی قربانی جائز ہے (درمختار)۔

حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا صرف مسنہ (یعنی ایک سال کی بکری، دو سال کی گائے اور پانچ سال کے اونٹ) کی قربانی کرو، ہاں اگر تم کو دشوار ہو، تو چھ سات ماہ کا دنبہ یا مینڈھا ذبح کرلو (مسلم شریف، باب سن الاضحیہ)۔

قربانی میں شرکاء کے مسائل

سوال: ان جانوروں میں کتنے حصے دار شامل ہوسکتے ہیں؟

جواب: بکری و بکرا دنبہ و بھیڑ وغیرہ، تو صرف ایک کی طرف سے ہی ادا ہوسکتی ہے، چنانچہ اگر اس میں دو آدمی شریک ہوئے تو کسی کی بھی نہ ہوگی۔

مثلا زید و عمرو نے پانچ پانچ سو روپے ملاکر ایک بکرا خریدا اور یہ نیت کی کہ یہ ہم دونوں کی طرف سے ہے تو کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی۔ یونہی گھر کا سرپرست ایک بکرا لاکر اس طرح نیت کرے کہ یہ جانور میرے پورے گھر والوں کی طرف سے ہے، تو کسی کی طرف سے بھی ادا نہ ہوگی، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ قربانی تو اپنی طرف سے کرے اور اس کا ثواب تمام گھر والوں کو بخش دے۔

ہاں گائے اور اونٹ میں سات آدمی حصہ ملاسکتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا۔ گائے سات آدمیوں کی طرف سے اور اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کرسکتا ہے (ابو دائود شریف، باب البقر والجزورعن کم تجزی)۔

شرکاء سے متعلق ضروری مسائل

گائے یا اونٹ میں شریک افراد کو درج ذیل مسائل کا یاد رکھنا بے حد ضروری ہے۔

اگر اونٹ یا گائے کے شرکاء میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہوا، تو بقیہ چھ کی قربانی بھی نہ ہوگی (در مختار، رداالمحتار)۔

مثلا 7000 کی گائے میں پانچ نے ایک ایک ہزار روپے، چھٹے نے ڈیڑھ ہزار اور ساتویں نے پانچ سو روپے ملائے تو اب چونکہ آخری شخص کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہے، لہذا ان میں سے کسی کی بھی قربانی نہ ہوئی۔

ایک گائے میں آٹھ آدمی شریک ہوئے، کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی (کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہے) (رداالمحتار)۔

شرکاء میں سے کسی ایک کی نیت فقط گوشت حاصل کرنے کی ہے، قربانی کی نہیں تو بقیہ کی قربانی بھی نہ ہوگی

مثلا شرکاء نے زید کو گائے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ زید جواباً کہتا ہے کہ میں تو قربانی کے لئے بکرا خرید چکا ہوں، چلو ایسا ہے کہ میں شریک ہوکر کباب وغیرہ کے لئے گوشت لے لیتا ہوں، آپ لوگ قربانی کرلیجئے گا۔ تو اس صورت میں کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی (رداالمحتار)۔

نوٹ : مذکورہ مسئلہ کے پیش نظر شریک ہونے سے قبل یہ اطمینان بھی کرلیں کہ سب شرکاء کی نیت قربانی کی ہی ہے یا نہیں؟

شرکاء میں سے ایک کی نیت اس سال کی قربانی کی ہے اور باقی کی گزشتہ سال کی قربانی کی، تو اس سال کی قربانی کی نیت کرنے والے کی قربانی درست اور باقی سب کی نیت باطل ہے، کیونکہ سال گزشتہ کی قربانی اس سال نہیں ہوسکتی، جیسا کہ عنقریب وضاحت کے ساتھ بیان ہوگا۔ ان شاء اﷲ عزوجل۔ ان لوگوں کی یہ قربانی نفل ہوئی اور ان پر لازم ہے کہ گوشت کو صدقہ کردیں، بلکہ ان کا ساتھی کہ جس کی قربانی صحیح ہوئی، وہ بھی گوشت صدقہ کردے (رداالمحتار)۔

شرکاء میں سے کچھ قربانی اور کچھ عقیقہ کرنے کی نیت کریں، یہ درست ہے (رداالمحتار)۔

قربانی کے لیے گائے خریدی (اس نیت کے ساتھ کہ بغیر شرکاء کے کرے گا) پھر اس میں چھ اشخاص کو شریک کرلیا، سب کی قربانیاں ہوجائیں گی، مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر خریدتے وقت ہی اس کا یہ ارادہ تھا کہ اس میں دوسروں کو شریک کروں گا، تو اب یہ مکروہ نہیں اور اگر خریدنے سے پہلے ہی شرکت کرلی جائے، تو یہ سب سے بہتر ہے (عالمگیری)۔

غیر مالک نصاب (یعنی شرعی فقیر) نے قربانی کے لیے گائے خریدی تو چونکہ خریدتے ہی اس پر اس گائے کی قربانی واجب ہوجائے گی لہذا اب یہ دوسروں کو شریک نہیں کرسکتا (عالمگیری)۔

شرکت میں گائے کی قربانی ہوئی تو ضروری ہے کہ گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازے سے تقسیم نہ کیا جائے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی کو زائد اور کسی کو کم ملے اور یہ ناجائز ہے۔ یہاں یہ خیال نہ کیا جائے کہ کم و بیش ہوگا تو ہر ایک دوسرے کے لیے جائز کر دے گا یعنی یوں کہہ دے گا کہ اگر کسی کو زائد پہنچ گیا ہے تو معاف کیا کہ یہاں اس طرح جائز نہ ہونا، شریعت کے حق کی بناء پر ہے اور ان لوگوں کو ان کے معاف کرنے کا حق و اختیار حاصل نہیں (در مختار)۔





قربانی اور اس کے مسائل


قربانی کے جانور کی خصوصیات

سوال : قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہئے؟

جواب : مستحب ہے کہ قربانی کا جانور خوب فربہ، خوبصورت اور بڑا ہو (عالمگیری)۔

حضرت بقیہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا، اﷲ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ قربانی وہ ہے، جو زیادہ مہنگی اور زیادہ فربہ ہو (سنن کبریٰ)۔

یحیی بن سعید رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ابو امامہ بن سہل رضی اﷲ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ مدینہ منورہ میں ہم قربانی کے جانوروں کو خوب موٹا کرتے اور سب مسلمانوں کا یہی معمول تھا (بخاری، باب فی اضحیۃ النبیﷺ)۔

جانور کے عیب

سوال: وہ کون کون سے عیوب ہیں کہ جن کے باعث قربانی جائز نہیں رہتی؟

جواب : عیب سے متعلق اجمالاً یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہئے، تھوڑا عیب ہو تو قربانی ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ ہو تو ہوگی ہی نہیں (عالمگیری)۔

عیوب کی تفصیل

جب آپ جانور خریدنے جائیں تو اسے ہر طرف سے اچھی طرح دیکھ لیں، کیونکہ عیب دار جانور ذبح کرنے کی صورت میں واجب ادا نہ ہوگا اور دوسرا جانور خریدنا پڑے گا۔

چنانچہ درج ذیل تفصیل کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے تاکہ آپ خود بھی غلطی اور دھوکے سے بچ سکیں اور دوسروں کو بھی بچانے میں کامیاب ہوجائیں۔ چنانچہ ان جانوروں کی قربانی نہ ہوگی

۔1 جس کی ناک کٹی ہو۔

۔2 اندھے اور کانے کی۔

۔3 جس کے پیدائشی دونوں یا ایک کان نہ ہوں (چھوٹے کانوں والے کی جائز ہے)۔

۔4 جس کا کان تہائی یعنی تیسرے حصے سے زیادہ کٹا ہو۔ (تہائی سے کم ہو تو قربانی ہوجائے گی)۔

۔5 جس کے دونوں یا ایک سینگ، اگنے کے مقام سے ٹوٹا ہوا ہو (لہذا اگر اوپر سے ٹوٹا ہو تو ہوجائے گی، یونہی اگر پیدائشی سینگ نہ ہوں تو بھی ہوجائے گی)۔

۔6 جس کی دم یا چکی تہائی سے زیادہ کٹی ہو (تہائی سے کم ہو تو قربانی ہوجائے گی)۔

۔7 اتنا لاغر کہ جس کی ہڈیوں میں مغز (یعنی گودا) نہ ہو۔

۔8 لنگڑا جو قربان گاہ تک اپنے پائوں سے نہ جاسکے۔

۔9 جس کے دانت نہ ہوں۔

۔10 اگر بکری کی زبان کٹی ہوئی ہو اور وہ چارہ کھا سکتی ہو تو اس کی قربانی جائز ہے، ورنہ نہیں (تاتار خانیہ)۔

۔11 جس بکری کا ایک تھن یا گائے کے دو تھن کٹے ہوئے یا خشک ہوں۔

۔12 جس جانور میں اس حد تک جنون ہو کہ چرتا بھی نہ ہو (درمختار، عالمگیری)۔

بعد میں عیب پیدا ہونا

سوال: جس وقت جانور خریدا، بالکل درست تھا لیکن بعد میں عیب دار ہوگیا تو اب اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر قربانی کرنے والا صاحب نصاب ہے، تو دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر ہے، تو دیکھا جائے گا کہ اس نے خود اپنے آپ پر قربانی واجب کی تھی یا نہیں۔ اگر کی تھی تو دوسرا لائے ورنہ اسی کو ذبح کرلے (رداالمحتار)۔

نوٹ : خود واجب کرنے کی صورت یہ ہے کہ یا تو اس نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا یا منت مانی کہ بکرا قربان کروں گا۔

سوال: اگر بوقت ذبح عیب پیدا ہوا تو اب غنی اور فقیر کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب : اس صورت میں دونوں کے لئے یہ عیب مضر نہیں، اسی جانور کی قربانی کریں، ادا ہوجائے گی۔

در مختار میں ہے: قربانی کرتے وقت جانور اچھلا کودا، جس کی وجہ سے عیب پیدا ہوگیا، یہ عیب مضر نہیں یعنی قربانی ہوجائے گی۔

سوال : اگر جانور قربانی سے پہلے مرگیا تو؟

جواب : غنی نیا لائے، فقیر نہیں۔ در مختار میں ہے کہ قربانی کا جانور مرگیا تو غنی پر لازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر کے ذمہ دوسرا جانور واجب نہیں۔

سوال : اگر جانور گم ہوگیا یا چوری ہوگیا تو کیا کیا جائے؟

جواب : اس کا بھی وہی حکم ہے کہ غنی نیا جانور لائے، جبکہ فقیر پر دوسرا جانور واجب نہیں اور (بالفرض) اگر ان دونوں نے نیا جانور خرید لیا اور اب پہلے والا مل گیا تو غنی کو اختیار ہے کہ دونوں میں سے جس ایک کو چاہے قربان کرے اور فقیر پر واجب ہے کہ دونوں کی قربانیاں کرے (در مختار)۔

جانور کے بچے کا حکم

سوال : اگر جانور کے ذبح سے قبل بچہ ہوجائے تو کیا کریں؟

جواب : اس کے لئے درج ذیل مسائل یاد رکھئے۔

۔1 قربانی کے لئے جانور خریدا تھا، قربانی کرنے سے پہلے اس کے بچہ پیدا ہوا، تو بچہ کو بھی ذبح کر ڈالیں۔

۔2 اگر بچہ کو بیچ ڈالا تو اس کی قیمت صدقہ کردے۔

۔3 اگر ذبح نہ کیا نہ ہی فروخت کیا اور قربانی کے دن گزر گئے تو اس کو زندہ صدقہ کردے۔

۔4 اگر مذکورہ بالا افعال میں سے کچھ بھی نہ کیا اور بچہ اسی کے پاس رہا، یہاں تک کہ اگلے سال قربانی کا زمانہ آگیا اور یہ چاہتا ہے کہ اس سال کی قربانی میں اس کو ذبح کرے تو یہ نہیں کرسکتا اور اگر اسی کی قربانی کردی تو دوسری قربانی پھر کرے کہ وہ پہلی قربانی نہیں ہوئی اور وہ ذبح کیا ہوا بچہ صدقہ کردے، بلکہ ذبح سے اس کی قیمت میں جو کچھ کمی ہوئی، اسے صدقہ کردے۔

ذبح کا طریقہ و دیگر مسائل

سوال: قربانی کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے یاقصائی سے کروانا؟

جواب : فتاویٰ عالمگیری میں ہے، بہتر ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے۔ اگر اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور اگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو حکم دے، وہ ذبح کرے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی حاضر ہو۔

رحمت کونینﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے جانور ذبح فرمایا جیسا کہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے دو چتکبرے دنبوں کی قربانی کی۔

پس میں نے دیکھا کہ آپﷺ نے قدم مبارک ان کے پہلوئوں پر رکھا۔ بسم اﷲ اور تکبیر پڑھی پھر اپنے دست اقدس سے دونوں کو ذبح فرمایا (بخاری شریف، باب من ذبح الاضاحی بیدہ)۔

معلوم ہوا کہ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا سنت مبارکہ ہے

سوال: ذبح کرنے کا سنت کے مطابق طریقہ کیا ہے؟ اور بوقت ذبح کن چیزوں کا خیال رکھا جانا چاہئے؟

جواب: 1۔ مستحب ہے کہ جانور کو لٹانے سے پہلے چھری تیز کرلیں، لٹانے کے بعد تیز کرنا مکروہ ہے (در مختار)۔

۔2 قربانی سے پہلے جانورکو چارہ پانی دیں یعنی بھوکا پیاسا ذبح نہ کریں (بہار شریعت)۔

۔3 ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کریں۔

۔4 جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو۔

۔5 ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے۔

اِنِّیْ وَجَّہْتْ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَاْلاَرْضِ حَنِیْفاً وَّ مَا اَنَا مِنْ اْلمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسْکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِﷲِ رَبِّ اْلعَالَمِیْنَ لَاشَرِیْکَ لَہْ وَبِذَاْلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ اْلمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اﷲِ اﷲُ اَکْبَرْ(ایضا)۔

اسے پڑھ کر ذبح کردے اور اگر قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دعا بھی پڑھ لے۔

اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدِِﷺ(ایضا)۔

۔6 مستحب یہ ہے کہ ذبح کے وقت بسم اﷲ اﷲ اکبرکہے یعنی بسم اﷲ اور اﷲ اکبر کے درمیان واو نہ لائے۔ اگر بسم اﷲ واﷲ اکبر ’’واو‘‘ کے ساتھ کہا تو جانور اس صورت میں بھی حلال ہی ہوگا مگر بعض علماء اس طرح کہنے کو مکروہ کہتے ہیں۔

۔ 7 دوسرے سے ذبح کرایا لیکن بوقت ذبح خود اپنا ہاتھ بھی چھری پر رکھ دیا کہ دونوں نے مل کر ذبح کیا تو دونوں پر بسم اﷲ اﷲ اکبرکہنا واجب ہے۔ ایک نے بھی قصداً چھوڑ دی یا یہ خیال کرکے چھوڑ دی کہ دوسرے نے کہہ لی، مجھے کہنے کی کیا ضرورت ہے تو دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوا (در مختار)۔

ذبح سے حلال ہونے کی شرائط

سوال : کیا بذریعہ ذبح جانور کے حلال ہونے کے لیے بھی کچھ شرطیں ہیں؟

جواب : جی ہاں! اس کی پانچ شرائط ہیں۔

۔1 ذبح کرنے والا عاقل ہو۔ چنانچہ مجنون یا چھوٹے بے عقل بچے کا ذبیحہ جائز نہیں۔ ہاں اگر چھوٹا بچہ ذبح کو سمجھتا ہو اور اس پر قدرت بھی رکھتا ہو تو اس کا ذبیحہ حلال ہے۔

۔2 ذبح کرنے والا مسلم ہو یا کتابی۔ مشرک و مرتد کا ذبیحہ حرام و مردار ہے (لیکن فی زمانہ کتابی سے ذبح میں بھی احتیاط کی جائے تو بہتر ہے، تفصیل کچھ دیر بعد آئے گی)۔

۔3 اﷲ کے نام کے ساتھ ذبح کرنا، ذبح کرتے وقت اﷲ کے ناموں میں سے کوئی نام ذکر کرے ،جانور حلال ہوجائے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ لفظ اﷲ ہی زبان سے نکالے۔

۔4 ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام نہ لے۔

۔ 5 جس جانور کو ذبح کیا جائے، وہ وقت ذبح زندہ ہو، اگرچہ اس کی زندگی کا تھوڑا ہی حصہ باقی رہ گیا ہو۔ ذبح کے بعد خون نکلنا یا جانور میں حرکت پیدا ہونا اسی لیے ضروری ہے کہ اس سے اس جانور کا زندہ ہونا معلوم ہوتا ہے (عالمگیری)۔

12/05/2024

*سورة الهمزة کا خلاصہ:

وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ(1)اِ۟لَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَهٗ(2)یَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخْلَدَهٗ(3)كَلَّا لَیُنْۢبَذَنَّ فِی الْحُطَمَةِ٘(4)وَمَاۤ اَدْرٰىكَ كَ مَا الْحُطَمَةُ(5)

*ترجمہ:*
بڑی خرابی ہے اس شخص کی جو پیٹھ پیچھے دوسروں پر عیب لگانے والا (اور) منہ پر طعنے دینے کا عادی ہو۔(1)جس نے مال اکٹھا کیا ہو اور اسے گنتا رہتا ہو۔(2)وہ سمجھتا ہے کہ اسکا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔(3)ہرگز نھیں ! اس کو تو ایسی جگہ میں پھینکا جائے گا جو چورا چورا کرنے والی ہے۔(4)
اور تمھیں کیا معلوم وہ چورا چورا کرنے والی چیز کیا ہے؟(5)

*سورہ ھمزہ کا تعارف:*
اس سورت کا نام سورة الهمزة ہے پہلی ہی آیت یہ میں لفظ موجود ہے اسی لفظ سے یہ نام لیا گیا ہے، یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے، اس سورت کا نزول کے اعتبار سے بتیس نمبر ہے اس سے پہلے اکتیس سورتیں نازل ہوئی ہیں، قرآن کی ترتیب کے اعتبار سے اس سورت کا نمبر ایک سو چار(104) ہے،اس سے پہلے 103 سورتیں ہیں اور بعد میں صرف دس سورتیں ہیں، اس سورت کا ایک رکوع اور نو آیتیں ہیں.
*وضاحت:*
سورہ ھُمَزَہ کی ابتدائی پانچ آیات میں پانچ باتیں بیان کی گئی ہیں.
( 1)بڑی خرابی کا مستحق ہے وہ آدمی جو پیٹھ پیچھے عیب لگانے والا اور منہ پر طعنے دینے کا عادی ہو.
( 2)اور وہ آدمی بھی جس نے مال اکٹھا کیا اور اس سے گن گن کر رکھا.
(3)وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس سے ہمیشگی عطا کرے گا.
( 4)ایسا ہرگز نھیں ہے! اس سے تو ایسی جگہ پھینکا جائے گا جو چورا چورا کرنے والی ہے.
(5)تمھیں معلوم بھی ہے کہ وہ چورا چورا کرنے والی کیا ہے؟
*مزید وضاحت:*
بڑی خرابی ہونے والی ہے کل قیامت کے دن اس شخص کی جو پیٹھ پیچھے لوگوں پر عیب لگاتا پھرے، پیٹھ پیچھے کسی پر چغلی کھاتا ہے اور چغلی کرنے والے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
,, لا يدخلُ الجنَّةَ قتَّاتٌ،،
صحيح بخاری ،حدیث نمبر :6056
سنن ترمذی، حدیث نمبر : 2026
مطبوعہ بیروت
ایک اور حدیث شریف میں ہے:
عن أسماء بنت يزيد رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أفلا أخبرُكُم بشرارِكُم ؟ المشَّاؤونَ بالنَّميمةِ ، المفسِدونَ بينَ الأحبَّةِ ، الباغونَ للبراءِ العنَتَ.
*ترجمہ :*
حضرت اسما بنت يزيد رضي الله عنها سے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمھیں سب سے بدترین لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ پھر فرمایا کہ سب سے بدتر لوگ وہ ہیں جو چغلی کرتے ہیں، محبت رکھنے والوں میں فساد ڈالتے ہیں، باغی ہیں، مخلوق سے بیزار اور متعصب ہیں.
مسند احمد، حدیث نمبر :18998
مطبوعہ بيت الأفكار الدولية بيروت
اس کے بعد ہلاک ہونے والوں کی دوسری صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ دوسروں کو طعنہ دینے والا بھی ہو، کسی انسان کو طعنہ دینے سے اس کا دل دُکھتا ہے اور کسی انسان کا دل دُکھانا یہ تو اس چغلی کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے، اس کے بعد مزید ارشاد فرمایا کہ وہ ایسا ہو کہ مال جمع کرکے رکھتا ہو، راہِ خدا میں خرچ نہ کرتا ہو بلکہ اس سے گنتے ہوئے بیٹھنے والا ہو، یوں تو فی نفسه مال حاصل کرنا اور کمانا بُری بات نھیں ہے، لیکن مال کی محبت میں ایسا گرفتار ہو جانا کہ بس اس کے سر پر مال ہی کی دُھن سوار ہو اور یہ مال اس سے فرائض وواجبات سے غافل کرکے رکھ دے اور عام طور پر ہوتا ایسا ہی ہے کہ جب انسان کے دل میں حرص اور لالچ بڑھتی جاتی ہے تو اس کے دل سے ایمان اور خوفِ خدا آہستہ آہستہ دور ہوتا جاتا ہے، اور اس سے اپنے اس مال پر اتنا گھمنڈ اور غرور ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہی میرا مال میرے ہروقت کام آنے والا ہے، اور مجھے ہر قسم کی آفتوں سے نکالنے والا ہے، اس طرح وہ سوچنے لگتا ہے کہ مجھے موت سے بچانے والا اگر میں بیمار ہوجاؤں تو مجھے اس بیماری صحت مند بنانے والا اور زندگی بخشنے والا یہی مال ہے، حالانکہ وہ بھول جاتا ہے کہ انسان کی زندگی اور موت صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس طرح وہ آخرت سے غافل ہوجاتا ہے، ایک طویل (لمبی) حدیث شریف میں اس کا ذکر یوں ہے :
عن أبي أمامة الباهلي، عن ثعلبة بن حاطب الأنصاري: أنَّه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم ادعُ الله أن يرزقني مالًا. قال فقال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم ويحك يا ثعلبة! قليلٌ تُؤدِّي شُكره خيرٌ من كثيرٍ لا تُطيقه، قال ثم قال مرةً أخرى، فقال أما ترضى أن تكون مثل نبي الله؟ فوالذي نفسي بيده، لو شئتُ أن تسير الجبال معي ذهبًا وفضَّةً لسارت، قال: والذي بعثك بالحقِّ، لئن دعوتَ الله فرزقني مالًا لأُعطينَّ كلّ ذي حقٍّ حقَّه. فقال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم اللهم ارزق ثعلبة مَالًا، قال فاتّخذ غنمًا، فنمت كما ينمو الدّود، فضاقت عليه المدينة، فتنحَّى عنها، فنزل واديًا من أوديتها، حتى جعل يُصلي الظهر والعصر في جماعةٍ، ويترك ما سواهما، ثم نمت وكثرت، فتنحَّى حتى ترك الصَّلوات إلا الجمعة، وهي تنمو كما ينمو الدود، حتى ترك الجمعة، فطفق يتلقّى الركبان يوم الجمعة ليسألهم عن الأخبار.
ترجمہ:
ایک صحابی ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مال عطاء کرے اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ثعلبہ! تیری ناک خاک آلود ہو یہ کیسی تمنا کر رہا ہے؟ وہ صحابی بار بار اللہ کے نبی سے یہی گزارش کرتے رہے اور فرمایا اللہ کی قسم! اگر میرے پاس مال آجائے گا تو میں ہر حقدار کو اس کا حق دوں گا بالآخر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کردی جس کے نتیجہ میں وہ بہت مال والے ہوگئے، لیکن انھیں اس مال کی محبت نے آہستہ آہستہ دین سے دور کر دیا یہاں تک کہ انھوں نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے زکوٰۃ وصول کرنے والے کو ہی زکوٰۃ دینے سے منع فرما دیا.
دلائل النبوۃ 290/5
مطبوعہ دارالکتب العلمية بيروت
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مال کی بےجا محبت انسان کو آخرت سے دور کردیتی ہے اور بالآخر اس کا انجام دوزخیوں والا ہوتا ہے جس سے اگلی آیت میں بیان کیا جارہا ہے کہ اے انسان! مال کے تعلق سے تیرا جو گمان ہے وہ بالکل غلط ہے، نہ تو وہ تیرے پاس ہمیشہ رہے گا اور نہ ہی تجھے ہمیشگی عطا کر پائے گا، بلکہ ایسے آدمی کو ایسی جگہ پھینکے گا جو چورا چورا کرنے والی ہے،پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی ہیبت بٹھانے کے لیے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ جانتے ہو وہ چورا چورا کرنے والی کیا ہے؟ اگلی آیات میں اس کی وضاحت آئے گی. (إن شاء الله)

*ملاحظہ:*
*آیات کا ترجمہ ,,آسان ترجمہ قرآن،، تصنیف شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب (دامت برکاتہم) سے لیا گیا ہے.*

*جامعہ مرکزالمعارف

12/05/2024

معاشرت >> نکاح

سوال نمبر: 177834

عنوان:صرف دو شخصوں کی موجودگی میں نکاح کا حکم
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں ؟ ایک لڑکا اور ایک لڑکی دونوں کا نکاح ہوا (لڑکے کی عمر ۲۳/ سال اور لڑکی کی عمر ۲۲/ سال ہے) ہے، اس نکاح میں نہ تو والدین موجود تھے اور نہ ہی والدین کو اس نکاح کا علم تھا، اور نکاح میں دو گواہ بھی موجود تھے جن میں سے دوسرے گواہ محمد سہیل نے ہی نکاح پڑھایا ہے۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ دوحضرات کی موجودگی جس میں خود ہی نکاح پڑھانے والے دوسرے صاحب گواہ کے طور پر ہیں، نکاح ہوا ہے یا نہیں؟ دو گواہ کے ساتھ ایک وکیل کا ہونا بھی ضروری ہے یا نہیں؟ پہلا گواہ وکیل بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟
جواب نمبر: 177834
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:799-567/sn=8/1441

فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ اگر لڑکی خودمجلسِ نکاح میں موجود ہو تو عقد کی نسبت اس کی طرف ہوتی ہے اگر چہ ایجاب وقبول کے الفاظ کوئی اور کہلائے ،تو صورت مسئولہ میں عاقدین کے علاوہ جو دو حضرات موجود تھے وہ اصولا گواہ قرار پائیں گے اور جو نکاح دو عاقل بالغ مسلمان گواہوں کی موجود گی میں ہو وہ شرعا درست ہوتا ہے ؛لہذا گر مجلس نکاح میں لڑکا اور لڑکی دونوں موجود تھے جیسا کہ مستفتی نے فون پر بتلایا ، نیز دونوں گواہان عاقل بالغ اور مسلمان تھے تو سوال میں جو تفصیل لکھی گئی ہے اس کی روسے صورت مسئولہ میں شرعا نکاح منعقد ہوگیا، واضح رہے کہ عاقدین کی موجوگی میں وکیل کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔

(ولوزوج بنتہ البالغة) العاقلة (بمحضر شاہد واحد جاز إن) کانت ابنتہ (حاضرة) لأنہا تجعل عاقدة (، وإلا لا) الأصل أن الآمر متی حضر جعل مباشرا، ثم إنما تقبل شہادة المأمور إذا لم یذکر أنہ عقدہ لئلا یشہد علی فعل نفسہ....

(قولہ: ولو زوج بنتہ البالغة العاقلة) کونہا بنتہ غیر قید، فإنہا لووکلت رجلا غیرہ فکذلک کما فی الہندیة....(قولہ: لأنہا تجعل عاقدة) ؛ لانتقال عبارة الوکیل إلیہا، وہی فی المجلس فکانت مباشرة ضرورة ؛ ولأنہ لا یمکن جعلہا شاہدة علی نفسہا.... (قولہ: جعل مباشرا) ؛ لأنہ إذا کان فی المجلس تنتقل العبارة إلیہ کما قدمناہ. [الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 4/ 95، ط: زکریا، دیوبند)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

متعلقہ سوالات
Q.

12/05/2024

زندگی کا خلاصہ:
محترم شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب سے سوال کیاکہ حضرت زندگی کا خلاصہ کیا ھے؟
-----
حضرت نے یہ 20 نکات ارشاد فرمائے:
(1) ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کیا کرو۔
(2) کوشش کرو کہ پوری زندگی میں کوئی تمہاری شکایت کسی دوسرے انسان سے نہ کرے۔ پروردگار سے تو بہت دور کی بات ہے۔
(3) خاندان والوں کے ساتھ کبھی مقابلہ مت کرنا۔ نقصان قبول کر لینا ،مگر مقابلہ مت کرنا۔بعد میں نتیجہ خود مل جائے گا۔
(4)کسی بھی جگہ یہ مت کہنا کہ میں عالم ہوں۔ میرے ساتھ رعایت کرنا۔ یہ ایک غیر نامناسب عمل ہے۔کوشش کرو دینے والے بن جاؤ۔
(5) سب سے بہترین دسترخوان گھر کا دسترخوان ہے. جو بھی تمہاری نصیب میں ہوگا بادشاہوں کی طرح کھا لوگے۔
(6) اللہ کے سوا کسی سے امید مت رکھنا۔
(7) ہر آنے والے دن میں اپنی محنت میں مزید اضافہ کرنا۔
(8)مالداروں اور متکبروں کی مجالس سے دوری اختیار کرنا مناسب ہے۔
(9) ہردن صبح کے وقت صدقہ کرنا ،شام کے وقت استغفار کا ورد کرنا۔
(10) اپنی گفتگو میں مٹھاس پیدا کرنا۔
(11)اونچی آواز میں چھوٹے بچے سے بھی بات مت کرنا ۔
(12)جس جگہ سے تمہیں رزق مل رہا ہے اس جگہ کی دل وجان سے عزت کرنا۔جس قدر ادب کروگے ان شاءاللہ رزق میں اضافہ ہوگا۔
(13) کوشش کرو کہ زندگی میں کامیاب لوگوں کی صحبت میں بیٹھا کرو۔ ایک نہ ایک دن ضرور تم بھی اس جماعت کا حصہ بن جاؤگے۔
(14) ہر فیلڈ کےہنر مند کی عزت کرنا ،ان کے ساتھ ادب سے پیش آنا چاہئے ،خواہ وہ کسی بھی فیلڈ کا ھو۔
(15) والدین ،اساتذہ اور رشتے داروں کے ساتھ جس قدر اخلاق کا معاملہ کروگے اس قدر تمہارے رزق اور زندگی میں برکت ھوگی۔
(16)ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنا۔
(17) عام لوگوں کے ساتھ بھی تعلق رکھنا اس سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
(18) ایک انسان کی شکایت دوسرے سے مت کرنا، ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شکایت کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔
(19) ھر بات کو مثبت انداز میں پیش کرنا ،اس سے بہت سے مسائل حل ھو جائیں گے۔
(20) بڑوں کی مجلس میں زبان خاموش رکھنا۔
آخر میں درج ذیل دعا سکھائی کہ مشکل وقت میں اہتمام کے ساتھ پڑھا کرو ان شاء الله بہت فائدہ ھوگا:
"رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا"

12/05/2024

فجر اور عصر كے بعد نوافل کا حکم

نماز کے مکروہ اوقات اور اس میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی وجہ
سوال:
کیا حاجت کے نوافل فجر اور عصر کی نماز کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں؟

جواب:
طلوعِ فجر (یعنی فجر کا وقت داخل ہونے) کے بعد فجر کی دوسنتوں کے علاوہ کو ئی دوسری نفل نماز پڑھنا مكروہِ تحریمی ہے، اسی طرح فجر کے بعد سے اشراق تک، اور عصر کے بعد سے مغرب کا وقت داخل ہونے تک کسی قسم کی نفل نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔ حدیث شریف میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ مگر ان دونوں اوقات میں قضايي نماز پڑھ سکتے ہیں۔

"عن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن صلاتين بعد الفجر حتى تطلع الشمس وبعد العصر حتى تغرب الشمس."

(أخرجه البخاري في «باب لايتحرى الصلاة قبل غروب الشمس» (1/ 213) برقم (563)، ط: دار ابن كثير، اليمامة – بيروت، الطبعة الثالثة ، 1407 = 1987)

"عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا صلاة بعد الفجر إلا سجدتين.

ومعنى هذا الحديث: إنما يقول: لا صلاة بعد طلوع الفجر، إلا ركعتي الفجر... وهو ما اجتمع عليه أهل العلم: كرهوا أن يصلي الرجل بعد طلوع الفجر إلا ركعتي الفجر."

(أخرجه الترمذي في «باب ما جاء لا صلاة بعد طلوع الفجر إلا ركعتين» (1/ 542) برقم (419)، ط. دار الغرب الإسلامي – بيروت، سنة النشر: 1998)

"عن يسار، مولى عبد الله بن عمر قال: رآني ابن عمر وأنا أصلي بعدما طلع الفجر، فقال: يا يسار! كم صليت؟ قلت: لا أدري، قال: لا دريت إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج علينا ونحن نصلي هذه الصلاة فقال: " ألا ليبلغ شاهدكم غائبكم، أن لا صلاة بعد الصبح إلا سجدتان."

(أخرجه أحمد في مسند عبدالله بن عمر رضي الله عنهما (10/ 73) برقم (5811)، ط. مؤسسة الرسالة، الطبعة: الأولى، 1421 هـ =2001م)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض، هكذا في النهاية والكفاية. فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة، كذا في فتاوى قاضي خان. منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر، كذا في النهاية والكفاية. يكره فيه التطوع بأكثر من سنة الفجر ... ومنها ما بعد صلاة العصر قبل التغير، هكذا في النهاية والكفاية. لو افتتح صلاة النفل في وقت مستحب ثم أفسدها فقضاها بعد صلاة العصر قبل مغيب الشمس لايجزيه، هكذا في محيط السرخسي.ومنها ما بعد الشمس قبل صلاة المغرب".

(کتاب الصلاة، الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لاتجوز فيها الصلاة وتكره فيها (1/ 52)،ط: رشیدیة)

الدر المختار میں ہے:

"(وكره نفل) قصدًا ولو تحية مسجد (وكل ما كان واجبا) لا لعينه بل (لغيره) وهو ما يتوقف وجوبه على فعله (كمنذور وركعتي طواف)، وسجدتي سهو (والذي شرع فيه) في وقت مستحب أو مكروه (ثم أفسده و) لو سنة الفجر (بعد صلاة فجر و) صلاة (عصر)."

(الدر المختار: كتاب الصلاة (1/ 54)،ط. دار الكتب العلمية، الطبعة: الأولى، 1423هـ- 2002م)

واللہ اعلم باالصواب دارالافتاء مظہر العلوم
طالب دعا مولوی عبدالستار حسنی


نماز کے مکروہ اوقات اور اس میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی وجہ
سوال:
مکروہ اوقات سے کیا مراد ہے؟ان میں نماز ادا کرنے سے کیوں منع کیا گیا ہے؟

جواب:
تین اوقات میں ہر قسم کی نماز ممنوع ہے خواہ فرض نماز ہو یا نفل، ادا نماز ہو یاقضا۔ ان تین اوقات میں پڑھی گئی نفل نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ اداہوجائے گی، اور فرض یا واجب نماز پڑھی تو اس کااعادہ لازم ہوگا(سوائے وقتی نمازِ عصر کے کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے شروع کی اور اسی دوران سورج غروب ہوگیاتو کراہت کے ساتھ اداہوجائے گی اور اتنی تاخیر کرناگناہ ہے)۔

اوقات ممنوعہ درج ذیل ہیں:

1۔عین طلوعِ شمس سے لے کر سورج ایک نیزہ بلند ہونے تک۔

2۔نصف النہاریعنی استوائے شمس کے وقت ۔ جب سورج دوپہر کے وقت بالکل سر پر آجائے، یہ بہت ہی مختصر وقت ہے، تاہم فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ احتیاطاً اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد نماز نہ پڑھی جائے۔

3۔ عصر کے بعد سورج زرد پڑجانے کے بعد سے لے کر سورج غروب ہوجانے تک۔ (سوائے اس دن کی عصر کی نماز)

مذکورہ اوقات کے علاوہ دو اوقات مزید ایسے ہیں جن میں نفل نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے:

(1) صبح صادق سے طلوع آفتاب (یعنی نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر اشراق کا وقت ہونے تک)

(2) عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد سے غروب تک۔ ان اوقات میں بھی نفل نماز پڑھنامکروہِ تحریمی ہے جب کہ فرائض کی قضا پڑھ سکتے ہیں۔(عمدۃ الفقہ،ص؛57،ط:زوار اکیڈمی)

ان اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے منع کیا گیا ہے، اور نفل کے لیے اضافی دو ممنوعہ اوقات کا ذکر بھی احادیثِ مبارکہ میں ہے، لہٰذا جب حدیث شریف میں ان اوقات میں نماز کی ممانعت ہے تو مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ ان اوقات میں نماز ادا نہ کرے، خواہ اس کی کوئی اور وجہ ہو یا نہ ہو، یا حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے۔ تاہم مقاصدِ شریعت سے بحث کرنے والے محققین علماءِ کرام نے اَحکامِ شرع کی حکمتیں اور مصالح اور عقلی توجیہات بھی پیش کی ہیں، جن میں سے بعض احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً مذکور ہیں، اور بعض کی طرف نصوص میں اشارہ موجود ہے، اور کچھ عقلِ سلیم کی روشنی میں سمجھ آتی ہیں، لیکن ایسی حکمتوں کی روشنی میں شریعت کے ثابت اَحکام میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

مذکورہ ممنوعہ اوقاتِ نماز کی وجہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ ہے کہ مشرکین ومجوس ان اوقات میں آفتاب کی پرستش کرتے تھے اور اس کو سجدہ کرتے تھے؛ چناں چہ ان کی مشابہت کی سے بچنےکے لیے اس سے منع کیا گیا۔ (حجۃ اللہ البالغہ 2/21، کتب خانہ رشیدیہ دہلی)

لیکن واضح رہے کہ اس حکمت کا اعتبار تشریعِ اَحکام کے وقت کیا گیا، لہٰذا اسے دیکھ کر اِس دور میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آج سورج کی پرستش کرنے والے مشرکین فلاں فلاں وقت بھی عبادت کرتے ہیں یا مذکورہ اوقات میں نہیں کرتے تو اب ان اوقات میں نماز کی اجازت دی جائے، اور جن اوقات میں کرتے ہوں ان میں منع کردیا جائے، اب شرعی منصوص اَحکام میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں ہے، خواہ وہ ایسی حکمت کی روشنی میں ہو جو منصوص ہو، کیوں کہ شریعت کے اَحکام مقرر ہوجانے کے بعد کسی کو ان میں تبدیلی کا حق نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 370، 374):
"(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملا فلا يتأدى ناقصا، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريما. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة".

الفتاوى الهندية (1/ 52):
"ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع. كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه. هكذا في التبيين ولايجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي".
الفتاوى الهندية (1/ 52):
"تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.
منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر.... ومنها ما بعد صلاة الفجر قبل طلوع الشمس. هكذا في النهاية والكفاية۔۔۔ ومنها ما بعد صلاة العصر قبل التغير. هكذا في النهاية والكفاية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 375):
"(لا) يكره (قضاء فائتة و) لو وترا أو (سجدة تلاوة وصلاة جنازة وكذا) الحكم من كراهة نفل وواجب لغيره لا فرض وواجب لعينه (بعد طلوع فجر سوى سنته) لشغل الوقت به، (قوله: أو سجدة تلاوة) لوجوبها بإيجابه تعالى لا بفعل العبد كما
علمته فلم تكن في معنى النفل".
*👇واللہ اعلم باالصواب*👇
* *🌹👉

Address

Kutupalong
Cox's Bazar

Telephone

+8801873480877

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mufti Hamidullah posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Mufti Hamidullah:

Videos

Share

Nearby media companies


Other Digital creator in Cox's Bazar

Show All