16/05/2024
وادی سون سکیسر میں تحریک پاکستان کی کہانی
سون سکیسر میں تحریک خلافت اور تحریک آزادی کا حال جب لکھا جائے گا تو اس میں مقامی جاگیرداروں کی اہمیت کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر ضلع شاہ پور میں بدنظمی پر قابوکرنے کے لئے حکومتی کوششیں تیزہوتی گئیں۔ عالمی سیاسی پس منظر میں مسلمانوں کی ہمدردیاں ترکی کی خلافت عثمانیہ کے حق میں تھیں۔ وادی سون میں تحریک خلاف کے حوالے سے موضع اوچھالہ اور موضع مردوال کے گاؤں میں پرجوش مسلمانوں نے کوہستان نمک میں اقتدار کے خلاف بے حد مشکلات پیدا کر دیں۔ لیکن حکومت برطانیہ کے وفادار اور وظیفہ خوار زیلداروں نے تحریک خلافت کے ان پر جوش مویدین کو سختی سے دبا دیا۔ جب ترکی خود خلافت کے احیائ سے دستبردار ہو گیا تو اوچھالہ گاؤں کے احیائے خلافت کا یہی سرگرم خاندان سرکار برطانیہ کے ساتھ علاقے میں امن و امان کی بحالی کمیں ڈاکوؤإ (بھکی گاؤں کے ڈاکو) کو گرفتار کروانے کی معاونت میں پیش پیش رہا۔ اس خدمت کے صلے میں ڈستڑکت بورڈ ک یطرف سے اس خاندان کو 1927 ئ میں اراضی عطا کی گئی نیز اس خاندان نے تحریک خلافت سے عحدگی کا یقین دلایا۔ حکومت نے انہی خدمات کے اعتراف میں کھوڑہ اور نوشہرہ کے درماین کچی سڑک تعرمیر کروائی جو پہلے کے پہاڑی راستہ کی نسبت ایک اچھا ذریعہ آمد ورفت ثابت ہوئی۔
سترکی گاؤں میں سرکار برطانیہ نے جنگ عظیم کامیابی پر ایک یادگار پتھر نصب کیا اس لئے بھی کہ اس علاقہ بالخصوص اس گاؤں کے لوگوں نے فوج میں بھرتی ہو کر سرکار برطانیہ کی مدد کی تھی۔ تحریک خلافت کے سرگرم رکن سیال شریف کے سجادہ نشین خواجہ محمد ضیا الدین تھے ۔ ان کا اس علاقہ میں بڑا اثرو رسوخ تھا۔ چنانچہ خواجہ صاحب کے تحریکی دست راست مولوی ظہور احمد بگوی نے سترکی گاؤں کے لوگوں کو برطانوی استعمار کے خلاف بھڑکایا اور یادگار پتھر کو اکھاڑنے کی کوشش کی۔ اس گاؤں کے نمبردار علی محمد اور اس کا بیٹا صاحب خان جو کہ فوج میں ملازم تھا اور رجمنٹ سے چھٹی پر آیا ہوا تھا۔ دونوں نے مل کر سخت مزاحمت کی ۔ جس سے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ بالاخر کفری کے زیلدار رسالدار سجاول خان نے فریقین کے درمیان مفاہمت کی راہ نکالی۔ مولوی ظہور احمد بگوی پر پابندی لگا دی گئی اور بعد میں ان کے اچھے رویئے کی بنا پر عائد پابندی کو بھی اٹھا دیا گیا۔نمبردار مذکور کو اس خدمت مدافعت کے صلہ میں زیرین جہلم کے علاقے میں دو مربع اراضی گھوڑی پال سکیم سے بطور انعام دی گئی۔
ان دنوں تحصیل خوشاب وادی سون سکیسر سمیت میں سیاسی فق پر ٹوانہ خاندان کے ملک خضر حیات چھائے ہوئے تھے ۔مجموعی طور پر ہندوستان میں صرف دو پارٹیاں ہی فعال کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں تھیں۔ ایک کانگریس اور دوسری مسلم لیگ۔ ملک خضر حیات نے یونیسٹ پارٹی کے حوالے سے مسلم لیگ کے ساتھ مارچ 1943 کےایک اجلاس میں تعاون کی یقین دہائی کرائی ۔اور ایک مرحلہ پر مسلم لیگ کے پنجاب اسمبلی کے ممبران نے اس اتحاد کو ختم کر دیا اور یوں مسلم لیگ اور یوننسٹ پارٹی کے درمیان یہ خلیج زیادہ ہو گئی۔ ملک خضر حیات ٹوانہ پنجاب اسمبلی کے وزیر اعلی تھے۔ الیکشن میں تحصیل خوشاب میں ملک خضر حیات خان یوننسٹ ور ملک محمد ممتاز ٹوانہ مسلم لیگ کی طرف سے نمائندے کھڑے ہوئے ملک خضر حیات خان نے اپنی حیثیت اور منصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیلداروں، نمبرداروں اور جاگیرداروں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ غریب عوام کی اکثریت مسلم لیگ کی حامی تھی۔ وادی سون کے اکثر لوگ مسلم لیگ کے پرجوش حامی تھے ملک خضر حیات خان کی کامیابی کے لئے حکومت نے اس علاقے میں لالہ نتھو رام کو ایس ڈی ایم تعینات کیا اس نے دھونس اور دھاندلی سے ملک صاحب کو کامیاب کرا دیا۔ اس مہم میں سرکار کی مدد کرنے والی افراد کو خطابات دیئے گئے مثلا نتھو رام کو رائے صاحب کا خطاب ملا پدھراڑ کے لیفٹیننٹ مولا بخش نوشہرہ کے قاضی ظفر حسین کو خان صاحب کا خطاب ملا ۔ نوشہرہ کے قاضی مظہر قیوم، کھبیکی کے زیلدار ملک شاہ محمد ، جابہ کے زیلدار ملک محمد حیات اور اوچھالی کے زیلدار ملک اللہ یار کو ایک ایک مربع زمین کا عطیہ دیاگیا۔ لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ کی وادی سون میں اپنی مقبولیت قائم رہی۔ ( وادی سون سکیسر تاریخ، تہذیب و ثقافت محمد سرور خان اعوان)