Luqman Gojra News

Luqman Gojra News Official Page Of Luqman Gojra News
Luqman Gojra News Is An Pakistani Social Worker and Youtuber Luqman Gojra News is an Pakistani Journalist, Blogger Tourist.
(54)

And CEO Founders Luqman Gojra News daily newspaper and digital news media Official Website managed by Luqman Gojra Group It is the Five largest news Website and Channel in pakistani by and largest English and Urdu languages
"Muhammad Luqman Manipuria"

جا توں نہی ماڑا سجنا وےساڈی ہی قسمت چنگی نہی
16/12/2024

جا توں نہی ماڑا سجنا وے
ساڈی ہی قسمت چنگی نہی

سردیاں شروع ہو گئی ہیں ۔ میرے تمام بھائیو اور بہنوں سے التماس ہے خصوصی طور پر احتیاط کریں۔ چادروں کا استعمال عام ہو رہا ...
16/12/2024

سردیاں شروع ہو گئی ہیں ۔
میرے تمام بھائیو اور بہنوں سے التماس ہے خصوصی طور پر احتیاط کریں۔
چادروں کا استعمال عام ہو رہا ہے ۔
موٹر سائیکل چلاتے اپنی چادر ضرور سنبھالیں۔

تمام احباب احتیاط کریں۔ کسی بڑے حادثہ کا شکار نہ ہوں

18+ -- شاید یہ تحریر پڑھنے سے کچھ لوگ سدھر جاٸیں ۔۔۔۔دلہن ایک رات کی ! ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ۔۔۔پندرہ سولہ برس کی دبلی پتلی ...
16/12/2024

18+ -- شاید یہ تحریر پڑھنے سے کچھ لوگ سدھر جاٸیں ۔۔۔۔

دلہن ایک رات کی !
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ۔۔۔

پندرہ سولہ برس کی دبلی پتلی لڑکی، مانگ میں افشاں چمکتی ہوئی، مٹا مٹا میک اپ، ہاتھ اور بازو مہندی کے خوبصورت نقش و نگار سے سجے ہوئے، رنگت سفید جیسے جسم میں ایک قطرہ خون نہ ہو، ایک عورت دائیں طرف ، دوسری بائیں طرف سے تھامے ہوئے، سفید و سیاہ چار خانے والا کھیس اوڑھے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے لیبر روم میں داخل ہوئی ۔

اذان سنتے ہوئے ہسپتال کے احاطے میں بنی مسجد کے میناروں نے آہ بھری — دن کا اجالا قبر کے اندھیرے میں کیسے بدلتا ہے، ان سے بہتر کون جان سکتا تھا۔

نرس نے عورت کے ہاتھ سے پرچی لی ، — کب سے بلیڈنگ ہو رہی ہے؟
رات بارہ بجے سے —
لٹاؤ ادھر بلاتی ہوں ڈاکٹر جی کو —
سسٹر ذرا جلدی —
اچھا اچھا — یہاں پہنچ کر سب کو جلدی یاد آ جاتی ہے، مریض کا بیڑا غرق کر کے لاتے ہیں اور پھر جلدی کرو —نرس بڑبڑاتی ہوئی جاتی ہے۔

آج تو ساری رات جاگتے گزر گئی — ایمر جینسی پہ ایمرجنسی۔ شکر ہے دن چڑھنے والا ہے۔ ڈیوٹی ختم ہو تو گھر جاؤں ، کمر سیدھی کروں— تختہ بن چکی ہے۔
ڈاکٹر جی ، ایک اور ایمرجنسی آ گئی — آ کر دیکھ لیں — دلہن لگ رہی ہے — پتہ نہیں ماں باپ کیا سوچ کر اس عمر میں بیاہ کر دیتے ہیں ؟

سسٹر لٹائیں معائنے والے کمرے میں — بلڈ پریشر لیں، میں آ رہی ہوں۔

ہاں بی بی کیا ہوا ؟
وہ جی خون پڑ رہا ہے بہت — پہلی عورت کا جواب۔

کیا ماہواری آئی ہے؟
نہیں جی ، ماہواری نہیں —

تو پھر کیا؟
وہ جی — رات کو —

کیا ہوا رات کو ؟
وہ جی شادی ہوئی تھی نا کل تو رات کو سہاگ رات تھی اس کی — بس جی ایسا خون چھوٹا کہ بند ہی نہیں ہو رہا۔ پہلے اپنے شہر کے ہسپتال لے کر گئے— وہاں کی ڈاکٹر کہنے لگی کہ مسلہ کچھ زیادہ ہے تو بڑے ہسپتال لے جاؤ-دوسری عورت بولی ۔

افوہ — کیا کیا ہے آپ لوگوں نے اس بچی کے ساتھ ۔

ننھی سی دلہن کی آنکھیں بند تھیں۔ کھیس ہٹا کر شلوار اتروائی گئی جس پہ خون کے بڑے بڑے دھبے نظر آ رہے تھے۔ ٹانگوں کے درمیان روئی کا پورا بنڈل موجود تھا جو لہو میں بھیگ کر سرخ ہو چکا تھا ۔ ویجائنا میں ٹھونسی گئی زخموں والی پٹی سے بھی خون ٹپک رہا تھا ۔

جونہی ڈاکٹر نے پٹی نکالی ، خون کا جیسے فوارہ ابل پڑا ہو۔ ڈاکٹر چیخ اٹھی — خون کی چار بوتلوں کا بندوبست کرو— بے ہوشی والے ڈاکٹر کو بلاؤ— سینئیر ڈاکٹر کو کال کرو— لیبارٹری فون کرو— خون آنے تک دونوں ہاتھوں میں ڈرپ لگاؤ —
جلدی ، جلدی — حالت خراب ہے۔

وہ جی ہم جلدی فارغ ہو جائیں گے نا — دوپہر کا ولیمہ ہے جی — ہمارا سفر بھی دو گھنٹے کا ہے یہاں سے — ساتھ آئی دونوں عورتوں میں سے ایک گھبرا کر بولی ۔

بی بی ، خدا کا خوف کرو— کچھ شرم کرو— ولیمہ ،
بھاڑ میں جائے تمہارا ولیمہ — دعا کرو یہ معصوم بچ جائے ۔
سسٹر جلدی کریں — فورا آپریشن تھیٹر کو بتائیں ۔
جی ڈاکٹر صاحب۔

بے ہوشی کا ڈاکٹر آ چکا تھا اور لڑکی کی حالت دیکھ کر فکر مند تھا ۔
میڈم نبض میں زور نہیں — لگتا ہے رک رک کر چل رہی ہے— آپ چھ آٹھ بوتلوں کو بندوبست تو کروائیں۔

ڈاکٹر امجد — آپ کو پتہ ہی ہے لوگ خون دینے کے نام سے ہی بھاگ جاتے ہیں— یہ سوچے بغیر کہ ہسپتال والے خون کہاں سے لائیں؟ نلکے میں تو آتا نہیں کہ جتنی چاہو بوتلیں بھر لو ۔
جی — یہ تو ہے ۔ نہ جانے لوگ کب سمجھیں گے ؟

آپریشن تھیٹر کی میز پہ بے ہوش مریضہ کے ساتھ تین ڈاکٹر سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے مگر نہ خون رکتا تھا ، نہ ویجائنا میں آئے زخم کا اوپر والا سرا دکھائی دیتا تھا ۔

ڈاکٹر مہوش — جس طرح خون خارج ہو رہا ہے ، ایسے لگتا ہے کوئی بہت ہی بڑی رگ پھٹ گئی ہے۔
میم شہ رگ ؟؟ ایک جونئیر ڈاکٹر بولی ۔

شہ رگ اور ویجائنا میں ؟ بچے اب اس وقت یہ مذاق نہ کرو ۔ سینئیر ڈاکٹر جھنجھلا کر بولی ۔
جہاں سے ٹانکہ بھرتی ہوں، وہیں سے گوشت پھٹ جاتا ہے۔ اتنی بری حالت ہے۔

میم جگہ بھی تو اتنی تنگ ہے اور زخم اندر تک —
ہاں پتہ نہیں کس جنگلی سے پالا پڑا اس بے چاری کو—

اچھا بھئی زخم کا اوپر والا حصہ نہیں پکڑا جا رہا — وہیں سے خون خارج ہو رہا ہے— چلو پروفیسر صاحبہ کو کال کرو کہ فورا پہنچیں۔

ڈاکٹر مہوش — چار بوتلیں خون کی پمپ کر چکا ہوں — پلیز اور خون کا بندوبست کروائیں ۔ انیستھٹسٹ پریشان آواز میں بولا ۔

جاؤ بھئی ، خون کے لیے پرچی بنا کر دو ۔

آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا— جونئیر ڈاکٹر نے ہاتھ میں پکڑی پرچی دیتے ہوئے کہا— چار مزید بوتلیں —

ڈاکٹر صاحب ، ذرا جلدی کر دیں ، ہمارے ولیمے کی دیگیں چڑھ چکی ہیں — گھر پہنچنے میں بھی دو گھنٹے لگیں گے ۔ پھر کچھ تیاری شیاری — دلہن کے بغیر تو ولیمہ نہیں ہو سکتا نا ۔

اففف— تم لوگ تو بہت ہی بے حس لوگ ہو بھئی ۔ لڑکی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے اور تم لوگوں کو دیگیں یاد آ رہی ہیں ۔ ڈاکٹر نے چیخ کر کہا۔

جی— ڈاکٹر مہوش — پروفیسر صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ ویجائنا میں پٹی دبا دبا کر رکھ دیں — وہ آ رہی ہیں ۔
وہ تو میں رکھ چکی ہوں پہلے سے —

بیس منٹ بعد —

بچے پتہ کرو ، پروفیسر صاحبہ کہاں ہیں ابھی ؟ بتاؤ کہ نازک ہے حالت — جتنا خون دے رہے ہیں ، وہ خارج ہو رہا ہے۔
میڈم ، کال کیا ہے وہ ٹریفک میں پھنسی ہوئی ہیں ۔ دس منٹ اور لگیں گے ۔

افوہ —

میڈم — بلڈ بینک نے چار بوتل خون اپنے پاس سے دیا ہے۔ باقی چار بوتلوں میں سے دو ہاؤس جاب کرنے والے ڈاکٹرز نے دی ہیں اور دو میڈیکل سٹوڈنٹس نے — رشتے دار سنتے ہی نہیں جب بھی خون کا انتظام کرنے کو کہیں —

بھئی سسرال والوں کو کیا ہمدردی ہو گی اس سے — کچھ گھنٹوں پہلے کی دلہن ۔شوہر کہاں ہے اس کا ؟ اسے بلاؤ ذرا اس سے بات کروں ۔

پچیس چھبیس برس کا مرد سامنے آتا ہے ۔

کیا نام ہے تمہارا ؟
اسلم جی —

اسلم یہ بتاؤ کیا ہوا تھا رات کو ؟
جی وہ — وہ ۔

ہاں ہاں بتاؤ—
وہ جی وظیفہ زوجیت ادا کیا تھا ۔

اور یہ بلیڈنگ؟
وہ تو جی سنا ہے لڑکی باکرہ ہو تو ہوتی ہی ہے پہلی رات —

اس نے روکا نہیں تمہیں ؟
جی بہت روکا، چیخی چلائی ، مگر مجھے سب دوستوں نے کہا تھا کہ لڑکیاں چیختی ہی ہیں ، سو تم مت سننا۔

ایسی کیا جلدی تھی ؟
وہ جی ولیمہ تو جائز کرنا تھا نا اور خاندان والوں نے بستر کی چادر بھی دیکھنی تھی ۔ بلیڈنگ نہ ہو تو مصیبت پڑ جاتی ہے، برادریوں میں دنگا فساد ہو جاتا ہے۔

اف خدایا— ڈاکٹر نے اذیت سے آنکھیں میچ لیں۔ یہ جھوٹی مردانگی —

وہ جی ایک اور — ایک اور بات بھی تھی — وہ رک رک کر بولا۔

وہ کیا ؟
وہ جی گولی کھلائی تھی —

کس نے کھلائی تھی ، کس کو؟
جی دوستوں نے کھلائی تھی مجھے ۔

کیوں؟
بس جی ، دوستوں نے کہا تھا کہ اچھا ہوتا ہے۔ ذرا ہمت زیادہ ہو جاتی ہے۔

کیا نام تھا گولی کا؟
وہ جی کچھ وی— ویا— کچھ اسی طرح کا ۔

تم نے اس کی چیخ وپکار کیوں نہیں سنی ؟
جی ، وہ میں اپنے بس میں نہیں تھا ۔

اچھا جاؤ خون کا بندوبست کرو— خود دے دو ۔
وہ جی میرا تو چلتے ہوئے سانس پھولتا ہے، کمزوری ہو جاتی ہے۔ میں نہیں دے سکتا۔

پروفیسر صاحبہ ہانپتی کانپتی اندر داخل ہوتی ہیں۔ ایک تو سڑک پہ گاڑیوں کا رش— پھر کوئی جگہ بھی نہیں دیتا — کوئی سوچتا ہی نہیں کہ کوئی مریض مشکل میں ہو سکتا ہے۔

پروفیسر صاحبہ نے ویجائنا کے راستے کوشش کی کہ خون نکلنے والی جگہ پہ ٹانکے لگائے جا سکیں لیکن زخم بہت گہرائی میں تھا — نہ ہاتھ پہنچتا تھا نہ اوزار اور خون تھا کہ بہتا چلا جاتا تھا۔

اب پیٹ کھولنا پڑے گا ، اوپر سے کوشش کرتے ہیں ۔ پروفیسر نے اعلان کیا — رشتے داروں کو بتا دو ۔

جونہی خبر باہر پہنچی ، کھلبلی مچ گئی — نہیں جی نہیں —ہم نے بڑا آپریشن نہیں کروانا۔ گھر برادری سے بھرا پڑا ہے ، ولیمے کا کھانا دے رہے ہیں ہم اور دولہا دلہن کے بغیر ۔

لڑکی کی حالت نازک ہے۔ پیٹ کے راستے ٹانکے نہ لگائے تو مر جائے گی، سوچ لیں ۔ ڈاکٹر نے کہا۔
اچھا — طوہا کروہا حامی بھری گئی ۔

پیٹ کھلا اور بچے دانی کے ایک طرف زخم کا اوپر والا حصہ نظر آیا جہاں سے خون کا اخراج ہو رہا تھا ۔ وہاں تک ویجائنا کے راستے پہنچنا بہت مشکل تھا ۔ ویجائنا کٹی پھٹی حالت میں تھی ۔ پروفیسر صاحبہ نے ٹانکے لگائے ۔ آپریشن ختم ہونے تک بارہ چودہ بوتل خون لگ چکا تھا ، لیکن مریضہ کی حالت نازک تھی ۔

میڈم — مریضہ کا خون جمنا بند ہو گیا ہے ۔ جہاں بھی سوئی لگاتا ہوں، بلیڈنگ شروع ہو جاتی ہے ۔انیستھٹسٹ نے پریشانی سے اعلان کیا ۔
اوہ — یہ تو اور برا ہوا۔

جی لگتا ہے DIC شروع ہو گئی ۔
خدایا —کیسے بچے گی یہ ؟ اچھا بلڈ بینک سے رابطہ کریں اور درخواست کریں کہ سفید خون کا بندوبست کریں جلد از جلد —
‏( DIC میں خون ایک سوئی بھی چبھنے سے بہتا چلا جاتا ہے)

جی کال کیا ہے بلڈ بینک — وہ کوشش کر رہے ہیں لیکن گھر والوں میں سے کوئی دے ہی نہیں رہا ۔
انہیں ولیمے کی فکر پڑی ہے ۔

آہ کاش ماں باپ چھوٹی بچیوں کی شادی کرتے ہوئے کچھ تو سوچ لیا کریں ۔

کچھ گھنٹوں بعد سفید چادر میں ڈھکی لڑکی کو مردہ خانے کی ایمبولینس میں رکھتے ہوئے آیا نے سوچا۔ کہنیوں تک مہندی والے ہاتھ اطراف میں بے جان پڑے تھے۔ مانگ میں افشاں ابھی
بھی چمک رہی تھی ۔

(یہ سچا واقعہ ہے اور جھٹلانے والے گائنی کی ڈاکٹرز سے پوچھیں جن کے لیے ایسے کیسسز عام ہیں )

لائیک، فالو، اور شئیر کریں تاکہ سب فائدہ اٹھائیں
مزید اچھی اچھی اور سبق آموز تحاریر کے لئے ہمیں لائک اور فالو کریں

#بہترین #وائرل #

جماعت اسلامی گوجرہ کے چمکتے دمکتے ستارےجاوید شیروانی صاحب اور محمود احمد عزمی صاحب کے ساتھ گزرے یادگار لمحے ❤️
16/12/2024

جماعت اسلامی گوجرہ کے چمکتے دمکتے ستارے
جاوید شیروانی صاحب اور محمود احمد عزمی صاحب کے ساتھ گزرے یادگار لمحے ❤️

16/12/2024

‏بلھے شاہ اساں جوگی ہوئے ساڈے سپّاں نال یارانے ساڈے انگ انگ زہراں چڑھیا ساڈا درد کوئی نہ جانے

ہر وہ شخص بہت انمول ہے، جو " آپ کو "مرجھانے نہ دے۔ ⁦♡⁩
15/12/2024

ہر وہ شخص بہت انمول ہے، جو " آپ کو "مرجھانے نہ دے۔ ⁦♡⁩

جب روزگار نہیں ہوگا جب ملز کو بند رکھا جائے گا پھر یہ سب کچھ تو لازم ہوجاتا ہےشرح  پیدائش میں فیصل آباد  پھر سے نمبر لے...
15/12/2024

جب روزگار نہیں ہوگا جب ملز کو بند رکھا جائے گا پھر یہ سب کچھ تو لازم ہوجاتا ہے

شرح پیدائش میں فیصل آباد پھر سے نمبر لے گیا

فیصل آباد ڈویژن میں جنوری سےاکتوبرتک پونےدولاکھ سےزائد بچوں کی پیدائش۔
ایک لاکھ ساٹھ ہزار بچے چیر پھاڑ مطلب وڈے آپریشن سے ہوئے۔جو پہلے نارمل ہوتے تھے۔

فیصل آباد شہر میں جنوری سے اکتوبر تک 80ہزار 730بچوں کی پیدائش ہوئی

جھنگ 35ہزار 855بچے پیدا ہوئے

ٹوبہ میں جنوری سے اکتوبر تک 27ہزار 687 ماؤں نے بچوں کو جنم دیا

چنیوٹ میں جنوری سے اکتوبر تک 25ہزار 345 بچوں کی پیدائش ہوئی

14/12/2024

یکم جنوری سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی فيس 300 سے بڑھا کے 1200 کر دی جائے گی -

اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے لیےصرف 16 دن باقی ہیں

جماعت اسلامی گوجرہ حلقہ پی پی 119 کے زیر انتظام ہونے والے پروگرام ڈیجیٹل گوجرہ کے انٹری ٹیسٹ کی تصویری جھلکیاں۔شاباش ٹیم...
14/12/2024

جماعت اسلامی گوجرہ حلقہ پی پی 119 کے زیر انتظام ہونے والے پروگرام ڈیجیٹل گوجرہ کے انٹری ٹیسٹ کی تصویری جھلکیاں۔
شاباش ٹیم ڈیجیٹل گوجرہ شاباش ٹیم جماعت اسلامی گوجرہ حلقہ پی پی 119
#گوجرہ #محمودعزمی #خیرالبشرٹریولزگوجرہ #محمداشرف

13/12/2024

گوجرہ
ریلوے اسٹیشن کی عمارت کھنڈر بن چکی ہے
رانا عبداللہ شفیع کی بنائی گئی دلچسپ رپورٹ

شکریہ❤️
13/12/2024

شکریہ❤️

شکریہ رب دا ❤️
13/12/2024

شکریہ رب دا ❤️

ابھی ایک مزاحیہ کمنٹ نظر سے گزرا، سوچا شیئر کر دوں: 😆“اسٹاک مارکیٹ روزانہ نئی تاریخ ‘رقم’ کر رہی ہے!کچھ دنوں بعد سرمایہ ...
13/12/2024

ابھی ایک مزاحیہ کمنٹ نظر سے گزرا، سوچا شیئر کر دوں: 😆
“اسٹاک مارکیٹ روزانہ نئی تاریخ ‘رقم’ کر رہی ہے!
کچھ دنوں بعد سرمایہ کاروں کے پاس صرف ‘تاریخ’ ہوگی اور ‘رقم’ کہیں اور ہوگی۔”

چمچہ گیری ایسا بغیرت شعبہ ھے اس میں نہ تنخواہ ملتی ھے اور نہ عزت لیکن بعض لوگ بڑے شوق سے کرتے ہیں
13/12/2024

چمچہ گیری ایسا بغیرت شعبہ ھے اس میں نہ تنخواہ ملتی ھے اور نہ عزت لیکن بعض لوگ بڑے شوق سے کرتے ہیں

13/12/2024

موٹے افراد کے لیئے سوئیٹر کی سب سے بہترین ورائٹی لنڈے میں ہی مل سکتی ہے

ٹوبہ ٹیک سنگھ پولیس       *ڈی پی او ٹوبہ عبادت نثار کی ریسٹ ہاؤس مونگی بنگلہ علاقہ چوکی مونگی بنگلہ تھانہ صدر گوجرہ میں ...
13/12/2024

ٹوبہ ٹیک سنگھ پولیس

*ڈی پی او ٹوبہ عبادت نثار کی ریسٹ ہاؤس مونگی بنگلہ علاقہ چوکی مونگی بنگلہ تھانہ صدر گوجرہ میں کھلی کچہری*

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ٹوبہ ٹیک سنگھ عبادت نثار نے سی ایم پنجاب محترمہ مریم نواز اور انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب جناب ڈاکٹر عثمان انور کی خصوصی ہدایت پر عوام الناس کے مسائل سننے اور انہیں حل کرنے کیلئے ریسٹ ہاؤس مونگی بنگلہ علاقہ چوکی مونگی بنگلہ تھانہ صدر گوجرہ میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا۔

ڈی پی اوٹوبہ کی کھلی کچہری کے دوران سائلین مختلف شکا یات اور مسائل لیکر پیش ہو ئے۔

ڈی پی او ٹوبہ نے انکے مسائل سنے اور موقع پر ان کے حل کے احکامات دیے۔

ڈ ی پی او ٹوبہ عبادت نثار کا کہنا ہے کہ کھلی کچہری کا مقصد مونگی بنگلہ ،صدر گوجرہ اور اس سے ملحقہ علاقہ جات کے لوگوں کے مسائل خود آ کر سننا ھے

تاکہ عوام اپنی شکایات خود پیش ہو کر بیان کرسکیں جس سے عوام کو موقع پر انصاف اور ان کی شکایات کا ازالہ ہو سکے۔

پولیس عوام رابطہ جتنا مضبوط ھو گا معاشرے کی اصلاح اور قانون و انصاف کی راہ اسی قدر ھموار ھو سکے گی

اس موقع پر ایس ڈی پی او گوجرہ ، ایس ایچ او تھانہ صدر گوجرہ اور چوکی انچارج مونگی بنگلہ کے علاوہ میڈیا نمائندگان بھی موجود تھے

ترجمان ٹوبہ ٹیک سنگھ پولیس

13/12/2024

‏پی آئی اے: ’عالمی شہرت یافتہ‘ ایئرلائن اپنے سنہرے دور میں کیسی تھی اور اس نے یہ نام کیسے کمایایہ دنیا کی 5 بہترین ایئر ...
12/12/2024

‏پی آئی اے:
’عالمی شہرت یافتہ‘ ایئرلائن اپنے سنہرے دور میں کیسی تھی اور اس نے یہ نام کیسے کمایا

یہ دنیا کی 5 بہترین ایئر لائن میں سے ایک تھی

یہ ایک ایسی ریاستی ایئر لائن کا سنہرا دور تھا جس نے مختصر عرصے ہی میں دنیا میں اپنا نام اور مقام پیدا کر لیا تھا۔

ہر 7 منٹ بعد پی آئی اے کی ایک پرواز ٹیک آف کرتی تھی

60 کی دہائی میں پی آئی اے نے لندن سے کراچی کی پرواز میں چھ گھنٹے 43 منٹ اور 55 سیکنڈ میں عالمی ریکارڈ قائم کیا، جو آج تک قائم ہے۔

پی آئی اے کے سنہری دور کی کہانی🧵

وقار مصطفیٰ
صحافی و محقق بی بی سی اردو

سنہ 1962 میں مارچ کی اُس رات، لندن کی سرد ہواؤں کی سلامی لیتی، امریکی خاتونِ اول جیکولین کینیڈی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے کراچی سے پرواز بھرنے والے جہاز کی سیڑھیاں اُتریں تو وہ پرواز سے اس قدر خوش تھیں کہ گرم جوشی سے پائلٹ کو گلے لگایا اور پُکار اٹھیں ’گریٹ پیپل ٹو فلائی وِد۔‘

پاکستان کی قومی ایئرلائن کو انگریزی میں یہ سلوگن کرکٹ مبصر اور مصنف عمر قریشی نے دیا تھا۔ یہی نعرہ صحافی اور شاعر فیض احمد فیض نے اُردو میں یوں لکھا: ’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘۔

جیکولین کینیڈی نے نہ صرف پی آئی اے کے اس دعوے پر مہر ثبت کر دی بلکہ انڈیا کے نو اور پاکستان کے پانچ دنوں کے خیر سگالی دورے کے بعد امریکا واپسی سے پہلے برطانیہ میں اُترتے ہوئے اپنے آٹوگراف کے ساتھ جہازکے کپتان ایم ایم صالح جی کو ’نیک خواہشات کے ساتھ‘ اپنی تصویر بھی دی۔

یہ ایک ایسی ریاستی ایئر لائن کا سنہرا دور تھا جس نے مختصر عرصے ہی میں دنیا میں اپنا نام اور مقام پیدا کر لیا تھا۔

لیکن وہی ایئر لائن پھر ایسے زوال کا شکار ہوئی کہ ایک جانب اس پر یورپ سفر کرنے پر پابندی لگی تو دوسری جانب مالی خسارہ اس حد تک بڑھ گیا کہ حکومت پاکستان نے اسے نیلام کرنے کا سوچا تو ایک ہی بولی لگی اور وہ بھی 85 ارب روپے کی کم از کم متوقع قیمت کے مقابلے میں صرف 10 ارب روپے کی ، یعنی اس کا تقریباً 12 فیصد حصہ۔

پی آئی اے اپنے سنہرے دور میں کیسی تھی اور ایک نئے ملک کی ریاستی ایئر لائن نے اپنا نام کیسے بنایا؟

اس تحریر میں بی بی سی نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے تاہم یہ تحریر پی آئی اے کی مکمل تاریخ نہیں بلکہ اس میں صرف اُن عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے، جن کی بدولت یہ عالمی شہرت یافتہ ایئر لائن بنی۔

بانی پاکستان محمد علی جناح کی ہدایت پر تقسیم برصغیر سے چند ماہ پہلے بننے والی ایک نجی ایئر لائن ’اورینٹ ایئر ویز‘ کا 1950 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پی آئی اے سے پہلے اشتراک اور پھر انضمام ہوا۔

یہ دہائی ابھی آدھی بھی نہیں گزری تھی جب پی آئی اے نے تب پاکستان کے دارالحکومت کراچی اور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے شہر ڈھاکہ کے درمیان سروس شروع کی۔

ہوا بازی کے مؤرخ مورِس وِکسٹیڈ کے مضمون ’سروائول تھرو ایڈورسٹی‘ کے مطابق اس سے پہلے پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں میں 2,253 کلومیٹر کا سفر صرف انڈیا کے راستے ممکنہ طور پر خطرناک تین دن کے ریل کے سفر یا پھر سیلون (سری لنکا) کے راستے ایک ہفتے میں سمندری جہاز سے طے ہوتا تھا۔

سنہ 1955 میں کراچی سے قاہرہ اور پھر روم کے راستے لندن کے لیے بین الاقوامی سروس کی ابتدا ہوئی۔ اورینٹ ایئر ویز کا پی آئی اے سے انضمام اس سے ایک ماہ بعد ہوا اور ظفرالاحسن پاکستان کی قومی ایئر لائن کے پہلے منتظم مقرر ہوئے۔

سید اصغر اور ڈاکٹر حسن محسن کے نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کے جریدے میں چھپنے والے مضمون ’پی آئی اے – اے کیس سٹڈی‘ کے مطابق ’معاشی طور پر اہم، کراچی میں پی آئی اے کے مرکزی دفتر کا قیام ظفرالاحسن کی سوچ کا نتیجہ تھا۔ گلگت کے لیے پروازوں کی شروعات اور 1956 میں انجن ٹیسٹ بیڈ کے ساتھ ریڈیو اور ایئر فریم ورکشاپس کا قیام اور بہترین جہازوں کا حصول بھی ان کے دور کے بڑے کام تھے۔‘

ایئر کموڈور ملک نور خان نے سنہ 1959 میں پی آئی اے کی قیادت سنبھالی۔ پی آئی اے کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار ارشاد غنی کا کہنا ہے کہ 1959 سے ہی وہ دور شروع ہوا جسے اکثر پی آئی اے کا گولڈن ایرا (یعنی سنہری دور) کہا جاتا ہے۔

بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں 1978 سے 2013 تک فلائٹ آپریشنز، آئی ٹی، کارپوریٹ پلاننگ اور مارکیٹنگ کے شعبوں میں اہم ذمہ داریاں نبھانے والے ارشاد غنی نے بتایا کہ اس عرصے میں پی آئی اے نے بے پناہ ترقی کی۔

’سنہ 1960 میں ڈھاکہ، کراچی اور لندن کے درمیان پہلی بار بوئنگ 707 سے فلائٹ شروع کی گئی۔ پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے جیٹ ایئرکرافٹ آپریٹ کیا۔ مشرقی پاکستان میں ہیلی کاپٹر سروس کے ذریعے چھوٹے شہروں کو ڈھاکہ کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ مغربی پاکستان میں بھی سات، آٹھ چھوٹے سٹیشنز کو بڑے شہروں کے ساتھ جوڑا گیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 1962 میں پی آئی اے نے نیویارک کے لیے فلائٹ شروع کی، جس کے بعد دنیا بھر میں اس کی پہچان بڑھ گئی۔‘

اسی دور میں پی آئی اے کے دو پائلٹس، کیپٹن عبداللہ بیگ اور کیپٹن غیور بیگ نے لندن سے کراچی کی پرواز میں چھ گھنٹے 43 منٹ اور 55 سیکنڈ میں عالمی ریکارڈ قائم کیا، جو آج تک قائم ہے۔

سنہ 1965 کی انڈیا، پاکستان جنگ سے کچھ عرصہ قبل، نور خان کو ایئر فورس اور ایئر مارشل اصغر خان کو پی آئی اے کا سربراہ بنا دیا گیا۔

اصغر خان ہی کے دور میں پی آئی اے کے کیبن کریو یعنی عملے کا یونیفارم عالمی شہرت یافتہ فرانسیسی ڈیزائنر پیئر کارڈین نے تیار کیا۔ یہ ڈیزائن پاکستان میں فیشن پر خوب اثرانداز ہوا۔

سمین خان نے ’ڈان‘ میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ لمبے کرتے کی جگہ مِنی ٹیونک نے لے لی۔چوڑے پائنچوں والی شلوار کی جگہ روایتی ’آڑا پاجامہ‘ کی طرز پر بنائے گئے پاجامے نے لے لی جسے ’پی آئی اے پاجامہ‘ کا نام دیا گیا۔ خوبصورت کاؤل دوپٹہ پہننے اور سنبھالنے میں آسان تھا۔ آج بھی کارڈن کا دوپٹہ پی آئی اے یونیفارم کا لازمی حصہ ہے۔

سمین خان بیگم امینہ اصغر خان کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ ’بیگم کلثوم سیف اللہ، بیگم عبدالقادر اور کچھ دیگر خواتین، ڈیزائن کی منظوری کے لیے کمیٹی میں شامل تھیں۔ میرے شوہر نے مجھے بھی کمیٹی میں رکھا۔ خواجہ شہاب الدین (وزیر اطلاعات و نشریات) بھی موجود تھے۔ ہم نے مختلف ڈیزائنرز کے بہت سے ڈیزائن دیکھے اور کچھ اچھے تھے لیکن کارڈن کا ڈیزائن سب سے اچھا تھا اور اسے منتخب کیا گیا۔ کارڈن کا خیال تھا کہ پاجامہ شلوار سے بہتر ہے۔ ان کے خیال میں جوتے بھی شلوار کے بجائے پاجامہ پر بہتر لگتے ہیں۔‘

’یقیناً تنقید بھی ہوئی۔ کچھ نے اسے پسند کیا ،کچھ نے نہیں کیا۔ جب آخرکار یونیفارم بنا اور پہنا گیا تو شہاب الدین نے میرے شوہر سے کہا کہ مجھے یہ بالکل پسند نہیں۔ میرے شوہر نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے، آپ کو اسے پہننا بھی نہیں۔‘

Address

Bani Yas Square
Dubai
C503

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Luqman Gojra News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Luqman Gojra News:

Videos

Share

Nearby media companies