اردو ادب ہمارا سرمایہ

  • Home
  • اردو ادب ہمارا سرمایہ

اردو ادب ہمارا سرمایہ Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from اردو ادب ہمارا سرمایہ, Publisher, .
(1)

08/03/2024

عورت مارچ اصل میں کس مقصد کیلئے ہے؟آج ہمارے تعلیمی ادارے اور عورت ڈے؟

بہت عرصے کے بعد آج ایک تعلیمی ادارے کا چکر لگا اس کے ملحقہ

کیفے ٹیریا میں علی الصبح ہی رونق لگی ہوئی تھی ۔ جیسے کے آپ سب

جانتے ہو لاہور کی صبح اا بجے دن سے شروع ہوتی ہے۔ اچھا تو ہم

تھے کیفے ٹیریا میں یہاں میری پہلی نظر کچھ منچلوں پر پڑی جو کٹی پھٹی

جینز پہنے اپنا ہی ایک حلقہ بنائے سگریٹ کے کش لگا رہے تھے اچانک

میری نظر کچھ دوشیزاوں پر پڑی جو ان کے مقابل میز پر بڑا چست

مغربی لباس پہنے سگریٹ سلگائے اس کے موٹے موٹے کش بھر رہی

تھیں اور ان کا دھواں پورے ماحول کو اور بھی رنگین بنا رہا تھا۔ میں

چکرا سا گیا کے یار کمال ہوگیا ہے ایک ہمارا دور تھا سگریٹ لگانے کو

دل بھی کیا کبھی تو یونیورسٹی کے واش روم سے بہتر جگہ نہیں ملتی

تھی لیکن آج یہ سب دیکھ کے پتا چلا کے اویں یہ حفاظت نسواں کی

تنظیمیں ہمارے ملک میں انتشار پھیلاتی ہیں کے عورتیں پس رہی ہیں

آزاد نہیں ہیں میرے خیال میں ہمارے ملک کی عورتیں جتنی آزاد ہیں

شائد اتنی آزاد عورت مغرب میں نہیں ہیں۔میرا دل تو کیا کے آج ان

نام نہاد آزادیِ نسواں کی سر غنا کو یہاں لاوں اور دکھاوں کے آوٌ اور

اپنی آنکھیں کھول کے دیکھو اس چیز کی آزادی چاہئے ہے تم کو یاں

اس سے کچھ اور آگے جانا ہے ابھی۔

خیر اس کے بعد میں نے محسوس کیا کے میرے کان دک دک زور

زور سے وائبریٹ کرنے لگ گئے ہیں میں ایک دم سے الرٹ ہو گیا۔

دیکھا تو کیفے ٹیریا کا ساونڈ سسٹم حرکت میں آگیا جس پہ ایک رومانوی

گانا چلا دیا گیا تھا جس نے لڑکے اور لڑکیوں کے اس سمندر کو ایک

دوسرے کی طرف مزید رغبت کا احساس دلایا اور وہ سگریٹ کے کش

لیتے خیالات میں ایک دوسرے کے قریب سے قریب ہوتے گئے۔

ایک دم سے میرے اپنے خیالات کا منظر بدلا اور میری زبان سے بے

اختیار نکلا فلسطین القدس ہائے ہائے اور ایک لمبی سی سسکی نکلی جو

ایک آہ کے ساتھ اختتام پزیر ہوگئی۔

ہمارا نوجوان! آہ کہاں کھو گیا کدھر گُم ہے اے نوجوان تُو نے تو اس

دنیا کا رخ موڑنا تھا تُو کہاں عورت کی زلف کے بَل میں اٹک گیا

ہے۔

ایوبی کی روح قبر میں بھی سکون سے نہیں ہو گی آج وہ بھی چیخ چیخ

کے ہمیں کہہ رہی ہوگی کے میں نے تو اپنا حق ادا کیا آج قدس پھر

مُردوں کو پکار رہا ہے اے زندہ لاشو! ہوش کے ناخن لو تمہاری غیرت

کیوں تمہیں جنجہوڑتی نہیں ہے۔

اس سے مجھے ایک بات یاد آئی کے یہود آج اپنے مشن میں جو انہوں

نے ایوبی سے کہا تھا کہ صلاح الدین آج تو نے جو کرنا ہے کر لے

لیکن تمہاری نسل کو ایسا بانجھ کریں گے کہ کوئی ایوبی کبھی ہمارے

سامنے کھڑا نہیں ہوگا رہتی دنیا تک۔ آج یہ سودی نظام آج یہ طاغوتی

نظام ہمیں اس جگہ سے گھیر کے بیٹھا ہے جہاں سے ہمارے لیڈرز نکلنے

ہیں اور ہمارے اس مقام کو اس حد تک گراوٹ میں دھکیل دیا ہے

کہ ہم اپنے اصل کی طرف واپس کیا آئیں سوچ بھی نہیں سکتے۔

ان تعلیمی اداروں کی پستی کا ذمہ دار کون ہے؟ جب یہ سوال کیا جاتا

ہے تو ہر کوئی ارباب اختیار کی طرف انگلی اٹھاتا ہے بنا کچھ سوچے

سمجھے حالانکہ اگر کوئی سچ میں اپنے ضمیر سے پوچھے تو وہ جانتا ہے کہ ہر

وہ شخص ذمہ دار ہے جو اس نظامِ باطل میں زندہ ہے اور سب سے

بڑا مجرم وہ خود ہے۔ اللہ تعالٰی نے ہر انسان کو جس کو اس دنیا میں

پیدا کیا ہے وہ جس حالت میں بھی ہے باطل نظام کے خلاف لڑنے

کا حکم دیا ہے اس کی جتنی بھی استطاعت ہے اتنا حصہ ڈالےاور

سب سے بہتر حصہ اپنے آپ کو اس عظیم مقصد کئلیے وقف کرنا ہے۔

یا اللہ کوئی رستہ نکال ہمارے لیے ہمیں اس مغربی ثقافت کی دلدل

سے نکال میرے مولا ہمارا وجود مٹتا جا رہا ہے۔ جو مومن دل میں

تیری محبت لیے پروان چڑھتے تھے وہ آج اس دنیا کے خوگر ہوتے جا

رہے ہیں ۔ان کو وہ ایمان ، شجاعت اور شہادت کی لذت عطا کر جو

ماضی میں ہمارا طرۂ امتیاز تھی۔

ہمیں غیرت عطا کر میرے مولا ہمیں غیرت عطا کر!

تو میرے مولا قادرِ مطلق ہے آج ہماری اس دعا کو شرفِ قبولیت عطا

کر کے کوئی ایسی جماعت عطا کر جو حق کی سربلندی کیلئے کوشاں و

سرگرم ہو ہم نادان ہیں میرے مولا تو ہی راہنمائی کر مالک۔

آمین

باقلم۔رقیبؔ روّش

19/09/2023

میں نے ہر بار تمہاری یاد، تمہاری سوچ اور خیال سے بھاگنے کے لیے

خود کو مصروف رکھنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔

کبھی یہ کوششیں کامیاب ہو بھی جائیں،

تو کسی نا کسی صورت تم سامنے موجود ہوتے ہو،

کبھی ہم نام کی صورت میں تو کبھی کسی عجیب اتفاق کے، یوں جیسے

کائنات کی ہر چیز تم سے وابستہ ہو گئی ہو،

جیسے میری کائنات کا ہر رستہ تم پر آکر رکتا ہو۔

ناجانے کیسے کائنات کی ہر چیز۔

تمہاری یاد دلانے لگتی ہے۔

باقلم۔ رقیبؔ روّش

17/09/2023

بدترین خسارہ یہ ہے کہ آپ کسی شخص پر ایک عرصہ تک محبت پیار اور

خلوص کے جذبات نچھاور کرتے رہیں اور آخر میں وہ شخص ثابت

کردے کہ وہ ان جذبات کے قابل نہیں تھا۔ اپنے قیمتی ماہ و سال کھو

دینا سب سے بڑا خسارہ ہے۔۔

‏ھمارا عشق رہ گیا ، دَھرے کا دَھرا

‏کرایہ دار اچانک ، مکان چھوڑ گیا

با قلم ۔رقیبؔ روّش

14/06/2023

یقیناً محض پیسہ انسان کے غموں کا مداوا نہیں کر سکتا تاہم زیادہ پیسہ

انسان کو زیادہ خوشیاں ضرور دے سکتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ ایک

آرام دہ گھر میں کسی کونے میں بیٹھ کر کسی دُکھ پر روؤں بجائے ایک

ایسی چھت تلے جو بارشوں سے رات بھر میرے آنسوؤں کی طرح

ٹپکتی رہی۔

میں چاہوں گا کہ آٹے کی لائن کے باہر رہ کر ملک کے حالات کو کوسوں

بجائے اس لائن میں جا کر کوسنے کے۔

یہ باتیں حقیقت ہیں۔ آپ ملک کے حالات تب ہی بدل سکتے ہیں یا

اس بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں جب آپ کے پاس کھانے پینے کو

سب ہو، آپکی زندگی پر ملک کے حالات کا اثر کم سے کم ہو۔ ایک

غریب شخص معاشرے میں کس قدر بدلاؤ لا پائے گا جبکہ اسکے پاس نہ

وسائل ہوں اور نہ ہی انہیں تبدیل کرنے کی سوچ یا اس نظام کی

خرابیوں کو سمجھنے کا وقت یا اسکے لیے کوئی واضح حکمتِ عملی۔

کسی بھی ملک میں یا اسکی پالیسوں میں بدلاؤ میں سول سوسائٹی کا اہم

کردار ہوتا ہے۔ یہ سول سوسائٹی مڈل یا اپر مڈل کلاس لوگوں پر مشتمل

ہوتی ہے جن میں کئی اہم شعبہ ہائے زندگی کے پروفیشنلز موجود ہوتے

ہیں۔ تبدیلی لانے میں غریب طبقہ تب ہی مددگار ثابت ہو سکتا ہے

جب انہیں مڈل کلاس طبقہ موبالائز کر سکے۔ آج کل سوشل میڈیا کے

دور میں ایک غریب بیچارے کی آواز کہاں تک پہنچ پاتی ہے تاوقتیکہ کہ

کسی چینل کو کوئی ایسی مصالحہ دار کہانی ملے جس کے پیچھے اُداس

وائلن کی دھن لگا کر عوام کی ہمدردیاں بٹوری جائیں۔ غریب کے

مسائل اور مڈل کلاس لوگوں کے مسائل اور ترجیحات میں فرق ہوتا

ہے۔ ان دونوں کے مفادات تب ہی ایک ہو سکتے ہیں جب انکے

خیلات ایک ہوں۔ خیالات ایک تب ہونگے جب مڈل کلاس طبقہ پڑھا

لکھا اور مسائل کا ادراک جانتا بھی ہو اور اسے غریب کو سمجھا بھی

سکے۔ گویا پڑھا لکھا باشعور مڈل کلاس طبقہ ہی کسی ملک میں حقیقی اور

ارتقائی تبدیلی لا سکتا ہے۔

باقلم۔ رقیبؔ روّش

24/03/2023

غلط کہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ تیسرا شخص جب آتا ہے بتا کر نہیں آتا

حقیقت تو یہ ہے تیسرا شخص آتا ہی کسی ایک کی مرضی سے ہے۔ جب

تک کسی کی مرضی شامل نہ ہو کوئی کسی کی زندگی میں دخل اندازی کر ہی

نہیں سکتا۔ مگر جب وہ مکمل طور پر شامل ہو جاتا ہے تو کسی ایک کا

ذہنی سکون غارت کر دیتا ہے ، اِس لیے اپنی طرف سے پوری کوشش

کیا کریں کہ آپ کسی کی کہانی میں ناحق تیسرے نہ بنیں۔ اپنی سالوں کی

محبت کسی اور کیساتھ دیکھنا بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ انسان کی

زندگی میں میری نظر میں اس سے بڑھ کر اذیت ناک لمحات نہیں ہو

سکتے کے اس کی محبت کسی تیسرے کے ساتھ تقسیم ہو جائے۔

ان تکا لیف سے جب نا آشنا تھا تو میں سمجھتا تھا کے کبھی ایسا بھی

ہو سکتا ہے کہ آپ کی دس سال سے بھی زیادہ عرصے کی محبت فقط دو

سالوں میں کسی تیسرے کے ساتھ آپ سے زیادہ بہتر محسوس کرتی

ہے۔ لیکن اب اپنے اوپر گزرتا یہ وقت دیکھ کر سمجھا ہوں کہ تیسرا

شخص آپ کی محبت کو کھا جاتا ہے۔

؀لازم نہیں ہر بار تجھے ہم ہوں میسر

ممکن ہے تو اس بار ہمیں سچ میں گنوا دے

باقلم ۔ رقیبؔ روّش

05/02/2023

کشمیر تیرے لئے اب رقیبؔ کیا ہاتھ اُٹھائے
اُس کا اپنا گھر ہی جلا دیا محافظانِ وطن نے

یومِ یکجہتیِ کشمیر

21/09/2022

کچھ دن پہلے۔۔۔

پاکستان کی کا پہلی پہلا ٹرانس جینڈر ڈاکٹر بن گئی بن گیا۔ اسے خوب خوب

پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا

الیکٹرانک میڈیا پر یوں لگتا ہے جیسے ایک طوفان آ گیا ہو۔ صرف ایک یہی

خبر ہر طرف تیزی سے پھیلائی جا رہی ہے۔ ایک ایسا بہت بڑا گروہ جو

پاکستان میں زیرِ زمین اور دنیا بھر میں سرعام موجود ہے ٹرانس جینڈر نامی

لعنت کو عزت دار اور فطرت کے عین مطابق ثابت کرنے میں مصروف

ہے ۔

یہ ٹرانس جینڈر کون ہے؟

یہ ایک مکمل مرد بے ۔ جسمانی طور پر اس کے اندر کوئی نقص نہیں تھا۔

شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھا، لیکن اس کے

اندر نفسیاتی طور پر ایسی خرابی پیدا ہو گئی تھی کہ یہ لڑکیوں کی طرح ناز و ادا

دکھانے لگا۔ یہ لڑکی تو نہیں تھا لیکن اس نے خود کو لڑکی تصور کر لیا۔ اس

کے اندر ہم جنس پرستی کی علت پیدا ہو گئی۔

پاکستان میں ٢٠١٨ء میں ایک قانون پاس ہوا جس کے تحت ایسے لوگ جو

مرد ہونے کے باوجود خود کو عورت سمجھتے ہیں یا عورت خود کو مرد سمجھتی بے

وہ خود کو اپنی من پسند جنس کے طور پر پیش کر سکتے ہیں ۔

چنانچہ اس نے بھی خود کو ٹرانس جینڈر عورت کے طور پر نادرا کے آفس میں

رجسٹر کروا لیا۔ اب یہ جسمانی طور پر مرد خود کو ذہنی طور پر عورت ثابت کر

کے ٹرانس جینڈر بن چکا بے۔ کیونکہ اسے یہ کرنے کی آزادی اس ملک نے

دی ہے ۔ اگرچہ وہ مرد ہے لیکن اگر صرف ذہنی طور پر خود کو عورت سمجھتا

بے تو اسے خود کو عورت کے طور پر شو کرنے کے سب ہی حقوق ملنے

چاہئیں۔ یہ جسمانی طور پر نارمل مرد بے تو ہوتا رہے، اسے کاغذات میں

ٹرانس جینڈر عورت کے طور پر سمجھا جائے ۔

بعض لوگ ہیجڑوں کو ٹرانس جینڈر سمجھ لیتے ہیں۔ یہ شدید غلط فہمی بے۔ ان

بیچاروں کو تو کوئی پوچھتا بھی نہیں ۔

انہیں ہیجڑا کہلانے کے لئے کسی قانون کی ضرورت نہیں۔ وہ تو جسمانی طور

پر ہی ادھورے ہیں۔ نامکمل ہیں۔ انہیں تو سپریم کورٹ الگ شناخت دے

چکی بے ۔

یہ قانون ہیجڑوں کے لیے نہیں بلکہ جسمانی طور پر نارمل مرد عورتوں کے لیے

بنایا گیا ہے ۔ یہ قانون جسمانی طور پر نارمل لیکن ذہنی طور پر نفسیاتی مریضوں

کے لیے بنایا گیا ہے۔ پاکستان کے سب ہی ڈاکٹر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ

اس قسم کے نفسیاتی افراد کا مکمل علاج موجود ہے۔ وہ دوبارہ ذہنی طور پر

نارمل ہو سکتے ہیں تو پھر انہیں ہم جنس پرستی کی طرف راغب کیوں کیا جا رہا ہے؟

یہ نئے بننے والے قانون کی مہربانی بے کہ جسمانی طور پر مکمل مرد خود کو عورت

قرار دے کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کر کے دونوں پھر ہم جنس

پرستی کی زندگی گزار سکتے ہیں ۔

ایسا قانون حضرت لوط علیہ السلام کی اس قوم کے اندر بھی نہیں بن سکا تھا

جسے اس گناہ کی پاداش میں بدترین عذاب کا نشانہ بنا کر روئے زمین سے اس

کا وجود ہی مٹا دیا گیا تھا۔

یہ عذابِ الہی کو دعوت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یاد رکھیے! اس قانون

کے ذریعے ہم جنس پرستی جیسے عظیم گناہ کو پاکستان جیسی مسلمان ریاست

میں جائز قرار دے دیا گیا ہے۔ اور سب ہی پاکستانی یا تو لاعلمی کی وجہ سے

خاموش ہیں یا پھر جبراً خاموش کروا دیئے گئے ہیں۔ ان ہم جنس پرستوں

کے لیے آسانی پیدا کر دی گئی ہے کہ جس طرح چاہیں یہ اپنے من پسند گناہ کا

سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں کچھ لوگ ایسے تھے جو اس گناہ سے شدید

نفرت کیا کرتے تھے۔ وہ لوگ آواز بھی اٹھاتے ہوں گے ، شور بھی مچاتے

ہوں گے، احتجاج بھی کرتے ہوں گے، کمزور اور کم ہونے کے باوجود اپنے

حصے کا کام کرتے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس عذاب سے بچا لیا۔

وہ دنیا اور آخرت میں بھی اللہ کی پکڑ سے بچ گئے اور جنت میں اپنا گھر بنا

چکے تھے۔ فتنوں کے لحاظ سے یہ بہت مشکل ترین وقت بے۔ اب حق کی

آواز بلند کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس گناہ کا سب میڈیا والوں کو علم بے

لیکن انہیں روزی روٹی کے شکنجے میں اس طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ ان کی

روحیں بھی قید ہو گئی ہیں۔ ضمیر مر گئے ہیں، آواز نہیں اٹھا سکتے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ گناہ کے خلاف زبانی کلامی

آواز اٹھانے والوں کا ایمان دل میں برا کہنے والوں سے ایک درجہ اوپر کا

ہوتا بے۔

میں کوشش کرتا رہوں گا کہ اپنے آپ کو ایمان کے اس درجے پر لازمی قائم

رکھوں، جس میں صرف دل میں برائی کو برا نہ کہا جاتا ہو بلکہ برائی کے خلاف

آواز بلند کی جاتی ہو ۔

یاد رکھیئے! اور کسی غلط فہمی میں مت رہیئے کہ عذاب صرف پرانی قوموں پر

ہی آیا کرتا تھا۔ پتھر صرف انہی پر برستے تھے، چہرے صرف انہیں کے مسخ

ہوتے تھے ۔۔۔ نہیں، ایسا نہیں، ہے. یہ شدید غلط فہمی بے۔ نبی کریم صلی

اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا ہے کہ جب گناہوں کا یہ

عالم ہو گا تو انتظار کرو تیز آندھیوں کا، آسمان سے پتھروں کے برسنے کا،

چہرے مسخ ہونے کا اور زمین میں دھنسائے جانے کا ۔۔۔

اللّٰـــہ تعالٰی ہمیں اپنے حصے کا کام کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے، آمین

باقلم-رقیب روّش

25/07/2022

کمفر‎ٹ زون سے نکلنے کی کوشش کریں

‎کسی گاوں میں تین بھائی رہتے تھے. ان کے گھر پر پھل کا ایک درخت

‎تھا جسکا پھل بیچ کر یہ دو وقت کی روٹی حاصل کرتے تھے. ایک دن

‎کوئی اللہ والا انکا مہمان بنا. اُس دن بڑا بھائی مہمان کے ساتھ کھانے

‎کیلئے بیٹھ گیا اور دونوں چھوٹے بھائی یہ کہہ کر شریک

‎نہ ہوئے کہ ان کو بھوک نہیں ہے

‎مہمان کا اکرام بھی ہو گیا اور کھانے کی کمی کا پردہ بھی رے گیا آدھی

‎رات کو مہمان اٹھا جب تینوں بھائی سو رہے تھے ایک آری سے

‎وہ درخت کاٹا اور اپنی اگلی منزل کی طرف نکل گیا.

‎صبح اس گھر میں کہرام مچ گیا سارا اہل محلہ اس مہمان کو کوس رہا تھا

‎جس نے اس گھر

‎کی واحد آمدن کو کاٹ کر پھینک دیا

‎چند سال بعد وہی مہمان دوبارہ اس گاوں میں آیا تو دیکھا اس بوسیدہ

‎گھر پر جہاں وہ مہمان ہوا تھا اب عالیشان گھر بن گیا تھا ان کے دن

‎بدل گئے تھے.

‎تینوں بھائیوں نے درخت کے پھل نکلنے کے انتظار کی اُمید ختم ہونے

‎پر زندگی کیلئے دوسرے اسباب کی

‎تلاش شروع کر دی تھی اور اللہ نے ان کو برکت عطا فرما دی.

‎جب بھی ہم پر دنیا میں اسباب کا کوئی دروازہ بند ہو جاتا ہے تو ہماری

‎بھی زندگی میں ایک زلزلہ آجاتا ہے ہم سمجھتے ہیں جیسے سب کچھ ختم

‎ہو گیا.

‎جبکہ یہ کسی نئی شروعات کیلئے قدرت کا پیغام ہوتا ہے انسان کی فطرت

‎ہے وہ دستیاب

‎صورتحال میں کمفرٹ زون بنا لیتا ہے وہ حسرت سے دُنیا کو دیکھتا ہے.

‎لیکن اپنا کمفرٹ زون چھوڑنے کی ہمت نہیں کر پاتا کبھی قدرت ہمیں

‎اس کمفرٹ زون سے نکالتی ہے کبھی ہمارا امتحان ہی اس زون سے

‎نکلنا بن جاتاہے

باقلم۔ رقیب روّشؔ

11/07/2022

فحش ویب سائٹس پر حقیقی زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ یا تعلق ہو جسے

جنسیت کا موضوع نہ بنایا گیا ہو. استاد اور شاگرد کا رشتہ، باس اور سیکرٹری کا

رشتہ، گھریلو ملازمہ اور مالک مکان کا تعلق، پلمبر/مستری مکینک ویٹر وغیرہ اور

خاتون خانہ کا تعلق، ڈاکٹر اور نرس کا تعلق، ڈاکٹر اور مریض کا تعلق، نرس اور

مریض کا تعلق، حتی کہ سگے اور سوتیلے والدین کے ساتھ اولاد کا رشتہ، بہن

بھائی کا رشتہ، بہن/بھائی/بیٹی/بیٹے کے دوستوں/سہیلیوں تعلق، ساس اور داماد

کا رشتہ......

الغرض یہ کہ کوئی بھی رشتہ اور معاشرتی تعلق محفوظ نہیں چھوڑا گیا. ہر چلتی

پھرتی لڑکی کو "پوٹینشل طوائف" بنا کر پیش کیا جاتا ہے.

اب آپ خود سوچیں کہ یہ سب گند جو اب اسقدر عام ہے اور نہایت آسانی

سے آپکے موبائل، ٹیب، لیپ ٹاپ وغیرہ پر محض دو چار کلکس کے فاصلے پر

ہے.... اسے دیکھ کر ایک نوجوان جب گھر سے نکلے گا تو خواتین کو کس نظر

سے دیکھے گا؟ اور خاص طور پر ان خواتیں کو جنکا حلیہ بھی ان سے ملتا

جلتا ہو جن کو دیکھ کر ابھی وہ ہٹا ہے؟ اور وہ نوجوان جسکی شادی میں سو

قسم کی

رکاوٹیں ہیں؟ بلکہ باہر کو تو چھوڑیں، جھرجھری تو یہ سوچ کر آتی ہے کہ وہ

اپنے گھر کی خواتین کو کس نظر سے دیکھتا ہو گا؟ اپنی ملازمہ کے بارے میں کیا

سوچتا ہو گا؟ ہر لڑکی کو "بکاؤ مال" کیوں نہ سمجھے گا؟

ایک لڑکی کو ہر جگہ سیکشوؤل ہریسمنٹ کا دھڑکا کیوں لگا رہتا ہے؟ "می ٹو"

کی اتنی بھرمار کیوں ہو گئی ہے؟

بیوی کی شوہر سے "توقعات" غیر حقیقت پسندانہ کیوں ہو گئی ہیں؟ شوہر باہر

کیوں منہ ماری کرتا ہے؟ بیوی میں طوائف کیوں تلاش کرتا ہے؟ بیوی کو

دوسرے مردوں میں کشش کیوں محسوس ہوتی ہے؟

سکول، کالج، یونیورسٹی، آفس، ورکشاپ، فیکٹری، حتی کہ عبادت گاہیں،چرچ

مندر تک رقص ابلیس سے کیوں آلودہ ہیں؟

ہم کس پستی تک پہنچ چکے ہیں اور کہاں تک مذید گرنا ہے، اسکی وجہ

آپکے ہاتھ میں ہے ....!!!

اپنی اصلاح کریں.اولاد پہ نظر رکھیں..دین کی تعلیم دیں...تاکہ وہ والدین کو

بھوج نہیں زمہ داری سمجھے...

اب نکلیں...اندھیروں میں ضیاء لے کر بہت کچھ بگڑ چکا ہے مگر بہت کچھ

بگڑنے سے بچایا جا سکتا ہے...

درندے پیدا مت کریں.

باقلم۔ رقیبؔ روّش

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when اردو ادب ہمارا سرمایہ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share