سات سال قبل ایک کوشش ایک خواب کی ابتدا ہوئی جو اب بھی جاری ہے۔ ہم میں سوائے رانا اظہر صاحب کے کوئی صحافت کا تجربہ رکھتا تھا نا سائیٹ چلانے کا۔ مگر اللہ نے کرم کیا کہ قارئین نے ہمیں قبول کر لیا۔
مکالمہ کی کامیابی و اس جاری سفر کا سب کریڈٹ شروع دن سے آج تک جڑنے والے ہر ٹیم ممبر کو جاتا ہے، قارئین کو جاتا ہے جنھوں نے پذیرائی بخشی، لکھاریوں کو جاتا ہے جنھوں نے “ترغیبات” کے باجود مکالمہ پہ لکھنا بہتر جانا۔ آج سات سال بعد بھی گو سائیٹس کا “بخار” زور توڑ چکا، مکالمہ کو مضامین کی کمی کبھی نہیں آئی الحمداللہ۔
مکالمہ اپنے اس سفر میں دو بندوں کامقروض ہے۔ ایک Ahmad Rizwan جنھوں نے سات سال سے مکالمہ کو اپنا سب سے چھوٹا بچہ بنا رکھا ہے اور دوسرا Asma Mughal کاجو اب اپنی ذات میں مکالمہ کا پورا ادارہ بن چکی ہے۔ اسکے علاوہ ہر بے لوث دوست جو سات سال میں اس سفر کا حصہ رہا، مکالمہ کا محسن ہے۔
ذاتی بات کروں تو ہم کس ہنر میں یکتا تھے، بس محل چڑھایا سائیاں۔ مکالمہ کے توسط سے دوست ملے، عزت ملی، شناخت ملی۔ سو شکریہ مکالمہ۔
سفر جاری ہے دوستو، آپ کا تعاون ہمراہ رہا تو “کمرشل میڈیا” کے اس طوفان میں ہم اس ننھے دئیے کو جلائے رکھیں گے۔
A very happy birthday 🎂 mukaalma.com
انعام رانا
چیف ایڈیٹر مکالمہ
دورِ حاضر میں ہندوستان اور پاکستان میں نام نہاد صوفیاءکا مینا بازار لگا ہواہے۔ مریدین اپنے پیر اور پیرنی کی کرامات میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ پیر صاحب کا محبوب مرید وہ ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ مرید گھیر کر لائے۔ ان کے مریدسیلز مین کی طرح اپنے پیر کی کرامات اور فضائل بیان کرکے امیر اور نامور لوگوں کو پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی حالت بھیڑ بکریوں کی طرح ہے جنھیں پیر جس سمت چاہے ہانکتا ہوا لے جائے۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا بال، کھال، قلب اور بدن کا ہر عضو اللہ کا ذکر کرتا ہے، ان کا قلب جاری، ہو گیاہے تو یہ دعویٰ از خود ایک فریب ہے۔ بے عمل صوفیاءکا یہ طبقہ تصوف کا بگڑا ہواچہرہ ہے۔ لوگوں کے لیے باعث گمراہی ہے۔ تصوف کی توہین ہیں۔ ایسے بہروپیوں کوشیخ یا مرشد ماننے والوں کو یہ تک خبر نہیں ہوتی کہ ہانکنے والا انہیں چراگاہ کی طرف لے جارہا ہے یا ذبیحہ خانے کی طرف۔ وہ بس آنکھیں بند کیے پیر کے اشاروں پر زندگی گزار دیتے ہیں۔لنک پہلے کمنٹ میں
کائنات کو COSMOS کہا جاتا ہے، اگر اس میں ربط کا مشاہدہ نہ کیا جائے تو یہی بے ربط زمان و مکان پر مشتمل ایک افراتفری CHAOSE ہے۔ سائنس کی بساط یہی ہے کہ اس میں سبب اور نتیجے کا ربط تلاش کرتی رہے۔ سبب اور نتیجے کی بچھائی ہوئی یہ بساط قاعدے اور کلیے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت تک بہت بھلی معلوم ہوتی ہے جب تک مشیت کا کوئی مہرہ اسے شہہ مات نہیں دے دیتا۔ ”واللہ خیر الماکرین“ کی آیت تلاوت کرنے والوں کے لیے یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔
نشانی بذاتِ خود اہم نہیں ہوتی بلکہ نشانی فکر و نظر کو جو رخ مہیا کرتی ہے وہ اہم ہوتا ہے۔ نشانی ماننے والوں کے لیے حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے۔ نشانیاں یقین کی دولت رکھنے والوں کا نصاب ہوتا ہے اور آیات کی تلاوت ایمان والوں کو نصیب ہوتی ہے
لنک کمنٹ میں
جن کے پاس لائسنس نہیں ہے ان کے ‘‘کُنجاڑے ’’ چیک کرنا پولیس کا کام تھوڑی ہے۔حیا بھی کسی بلا کا نام ہے۔ اور ہماری پولیس اتنی بے حیا نہیں ہے۔یا پھر کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹریفک کے مسائل سے نمٹنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی شرم گاہیں ننگی کر کے انہیں شرم دلائی جائے؟ہمارا اس سے اتفاق نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک دانشورانہ بحث ہے تو بہتر ہے کہ اس پر ایک سیمینار منعقد کروایا جائے۔ہماری ہر گز یہ مرضی نہیں ہے کہ سیمینار کا موضوع ایسا ہو جسے پینا فلیکس پر لکھا دیکھ کر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے دل باغ باغ ہو جائیں۔بوڑھوں کو اپنی جوانی کے دن یاد آجائیں اور وہ آہیں بھرتے بھرتے کسی رکشے کے نیچے آجائیں۔
مکمل تحریر کا لنک پہلے کمنٹ میں
وجدان یہ کہتا ہے کہ خدا نے سوچا ہو گا کہ ایک بچہ اس جہان میں خود تو یتیم پیدا ہومگر بڑا ہو کر جہان کے سارے یتیموں کی حقداری کی بات کرے۔ خود اپنے والد کو دیکھ نہ پائے مگر کائنات کے ہر شخص کو اپنے باپ کو دیکھنا سکھا دے۔
ماں کی آغوش میں سونے کی عمر میں چھے سالہ اس بچے کو ایک سفر میں ماں کی قبر کے پیروں کی جانب سونا پڑے مگر کائنات کے ہر بچے کو یہ ضرور بتا دے کہ خدا کی جنت ماں کے پیروں کے نیچے ہے۔
خدا نے سوچا ہو گا کہ کوئی ایسا ہو جو پتھروں سے لہو لہان ہو کر ظالموں کو نیست و نابود کرنے کی خدائی پیشکش کے جواب میں اذیت دینے والوں کے حق میں دعا کرے انکی خیر خواہی چاہے۔
لنک کمنٹ میں
” دیباچے میں بشری رحمان لکھتی ہیں : “اللہ کی طرف سے قلم کا تحفہ تھا۔ ناول ،افسانے سفرنامے، ڈرامے اور شاعری لکھنے کے باوجود دل کے اندر ایک عارفانہ سی بے قراری رہنے لگی اور میں اسوہ حسنہ پر لکھی ہوئی سب کتابیں جمع کرنے لگی، مطالعہ کرنے لگی۔ جب کبھی حج اور عمرے کے لیے جاتی، صحن حرم میں بیٹھ کر اذن مانگتی اور لکھنا شروع کر دیتی۔لکھنے لکھانے کا یہ سلسلہ 1980میں شروع کردیا تھا۔میں جانتی ہوں ایسی کتابیں بزعم علم نہیں بزور عشق لکھی جاتی ہیں ۔ عشاق کو بہت سی معافیاں بھی مل جاتی ہیں ۔میں تصور میں سیدالکونینﷺ کے در کے باہر کھڑی ہوں، سر جھکائے ہوئے، ہاتھ باندھے ہوئے۔ جہاں جہاں سے آپ گزرتے جاتے تھے اس جگہ کی مٹی اپنے ماتھے پر لگائے ہوئے اپنے دوپٹے سے نعلین مبارک صاف کر رہی ہوں اور عرض کرتی جاتی ہوں :
لنک کمنٹ میں
کیا کائنات کے بارے میں ہمارا علم معروضی ہے؟ کیا ہم نے فی الواقعہ کائنات کی ویسی پیمائشیں کی ہیں، جیسی کہ کائنات خود ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اِس قابلِ مشاہدہ علم کا کچھ حصّہ فقط موضوعی ہو؟ یعنی کہیں ایسا تو نہیں کہ کائنات کے بارے میں ہماری جو رائے ہے، وہ ہمارے منطقی فہم پر منحصر ہو، نہ کہ فی الواقعہ کائنات پر؟
مکمل تحریر کا لنک کمنٹ میں
MALIK RIAZ DECISION ملک ریاض کے خلاف بڑا فیصلہ
برطانوی عدالت کا بڑا فیصلہ۔۔۔
ملک ریاض اور انکا بیٹا برطانوی عدالت میں مقدمہ ہار گئے
فیصلے کے مستقبل میں کیا اثرات ہوں گے
#MalikRiaz #bahriatown
Maaz Bin Mahmood's Zoom Meeting
طالبان اور خواتین: عورت کا مستقبل کیا ہو گا؟
What are women's concerns about Taliban rule. Will women be safe and free?
افغان صورتحال: ایک مکالمہ
افغانستان میں کیا ہوا؟ کیا یہ واقعی اینڈ گیم ہے؟ پاکستان کا رول کیا تھا؟ پاکستان پہ افغان صورتحال کے اثرات۔ ماہر افغان امور پروفیسر محمد زبیر محسود کے ساتھ انعام رانا کا مکالمہ۔
A very Happy Eid
A very Happy Eid
عید سعید۔ عید مبارک
خواتین کے عالمی دن پر مکالمہ ممبر منیب خان کا پیغام۔۔
Mukaalma Live E04: اساتذہ کی تکنیکی قابلیت
اساتذہ کی تکنیکی قابلیت