Adab Rung Publications.

  • Home
  • Adab Rung Publications.

Adab Rung Publications. Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Adab Rung Publications., Publisher, .

01/11/2023

اچھے لیپ ٹاپ کی نشانیاں۔

ریم: کم از کم 8 جی بی یا زیادہ سے 16 جی بی اگر ریم 8 جی بی ہو تو ایک سلاٹ میں ہونی چاہیے اور ایک سلاٹ خالی ہو اس میں 8 جی الگ سے خرید کر ڈالی جا سکتی ہے یعنی ریم بعد میں زیادہ کی جا سکتی ہے۔
ہارڈ ڈسک یعنی میموری ssd ہونی چاہئے جبکہ hdd تین گنا slow ہوتی ہے اور بیٹری بھی زیادہ استعمال کرتی ہے اس لیے صرف ssd ہی کام کے لیے بہتر ہے۔
جنریشن جتنی زیادہ اتنا ہی جدید یعنی 4th جنریشن سے 5th بہتر اور 5th سے 6th بہتر سب سے جدید اس وقت تک13th جنریشن ہے۔

پروسیسر کی 3 اقسام:
core i3، i5 & i7.
جبکہ
i7 is the best

اگر آپ نے گرافیکل کام کرنا ہے تو کم از کم 2gb گرافک کارڈ بھی ضروری ہے۔
بیٹری lithium سیلز کی ہونی چاہئے۔
لیپ ٹاپ کی بیٹری جتنے mAh کی ہوتی ہے وہ بھی دیکھ لیں
یوزڈ used میں لیپ ٹاپ لیں تو تسلی کر لیں کہ کتنے mAh بیٹری بقایا ہے۔

Second hand
لیپ ٹاپ لیتے ہوئے زیادہ تر دھوکہ ڈسپلے میں ہوتا ہے۔
یعنی اصل ڈسپلے نکال کر کوئی لوکل ڈالا ہوتا ہے، اس کو چیک کرنے کا طریقہ۔
اگر آپ نے استعمال شدہ لیپ ٹاپ لینا ہے تو یہ معلومات آپ کے لیے ہے۔
دکان دار پرانا لیپ ٹاپ بیچتے ہوئے ایسا وال پیپر لگاتے ہیں کہ لوگ ڈسپلے دیکھ کر ہی خوش جاتے ہیں اور وال پیپر بھی اس طرح کا ہوتا ہے کہ ڈیمج پگزل پر نظر نہیں جاتی۔
ڈسپلے چیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ.
لیپ ٹاپ کی brightness فل کر لیں اس کے بعد آپ نے نوٹ پیڈ اوپن کرکے اسے ساری سکرین پر پھیلا دینا ہے اس سے ساری سکرین سفید ہو جائے گی۔
اس طرح سکرین میں اگر کوئی پگزل ڈیمج ہے یا کسی جگہ سے سکرین پر دباؤ آیا ہوا ہے تو وہاں سے کالے نشان نظر آ جائیں گے.
دوسرا آپ نے جو لیپ ٹاپ لینا ہے اسے انٹرنیٹ پر سرج کر کے اس کی specification میں دیکھ لیں کہ مطلوبہ لیپ ٹاپ کو کونسا ڈسپلے لگا ہے lcd ہے یا led اگر lcd ہو تو سکرین کو سائیڈو سے دیکھنے سے ڈسپلے ٹھیک نظر نہیں آتا یہ lcd کی نشانی ہے۔
اور led زیادہ بہتر ڈسپلے ہے۔
دوسرا اہم سوال ہے بٹنوں کا۔
کیا کوئی بٹن خراب تو نہیں۔
جو لیپ ٹاپ خریدنا ہو اس لیپ ٹاپ سے گوگل پر سرچ کریں۔

Keyboard tester.
یہ 1mb کا سوفٹویر ہے ڈاؤنلوڈ اور انسٹال کر کے اسے اوپن کریں۔
اور لیپ ٹاپ کے بٹنوں کو ایک ایک کر کے دباتے جائیں۔
جو جو بٹن ٹھیک ہو گا وہ سکرین پر سبز رنگ میں بدلتا جائے گا.
پروسیسر کو چیک کرنے کے لیے آپ نے گوگل میں سرچ کرنا ہے۔
CPU Z
اس چھوٹے سے سافٹویئر کو ڈاؤنلوڈ اور انسٹال کر کے اوپن کرنا ہے۔
اوپن کرنے کے بعد پہلے ہی آپشن میں CPU کی معلومات درج ہوں گی۔

اس CPU معلومات میں نام والے کالم کے سامنے درج نمبر آپ کو جنریشن کا بتائیں گے۔
غور سے سمجھیں
مثلاً
Inter core i3,
اس کے بعد اگر تین ہندسے اور لکھے ہوں تو پروسیسر فرسٹ جنریشن ہے۔
اگر چار ہندسے ہوں تو سیکنڈ یا اس سے اگلی جنریشنز ہیں
مثلاً
Intel core i3.,,,, 803
یعنی i3 کے بعد تین ہندسے آئے تو مطلب فرسٹ جنریشن
Intel core i3.,,,, 2304
اس مثال میں i3 کے بعد چار ہندسے آئے تو یہ دوسری جنریشن
اسی طرح
Intel core i3.,,,, (3)405
Inter core i3.,,,, (4)505
ان دو مثالوں میں بھی چار ہندسے ہیں لیکن پہلی مثال میں شروع کا ہندسہ 3 ہے تو تیسری جنریشن
دوسری مثال میں شروع کا ہندسہ 4 ہے تو چوتھی جنریشن
یاد رہے کہ پہلے ہندسے کو سمجھانے کے لیے گول بریکٹ لگائی ہے
CPU. Z
اسی سوفٹویر کی مدد سے آپ cache اور mother board کی معلومات بھی لے سکتے ہیں
اور یہی سوفٹویر آپ ram کی معلومات اور گرافک کارڈ کی معلومات بھی دے گا.
اگر لیپ ٹاپ میں گرافک کارڈ نہیں ہوگا تو معلومات بھی نظر نہیں آئیں گی.
ہارڈ ڈسک اور بیٹری چیک کرنے کا طریقہ.
استعمال شدہ لیپ ٹاپ خریدتے وقت ہارڈ ڈسک اور بیٹری چیک کرنے کا طریقہ

آپ نے گوگل پر سرچ کرنا ہے
hard disk sentinel
اس سوفٹویر کو ڈاؤنلوڈ اور انسٹال کر کے اوپن کریں.
Health
اور
Performance
کی پرسنٹیج ظاہر ہو جائیں گی
اگر ہارڈ ڈسک میں کوئی پرابلم ہو
تو health اور performance لیول 100 پرسنٹ نہیں ہوتا
نیچے نوٹ بھی لکھا ہوتا ہے ہارڈ ڈسک ٹھیک ہو تو بتا دیا جاتا ہے اگر پرابلم یعنی bad sector ہوں تو نوٹ میں لکھے ہوتے ہیں
Temperature option
اسی سوفٹویر کے ٹمپریچر آپشن میں آپ ہارڈ ڈسک کا درجہ حرارت معلوم کر سکتے ہیں
Smart option
ہارڈ ڈسک کے باقی سارے ٹیسٹ
سمارٹ آپشن میں دیکھ سکتے ہیں
سمارٹ آپشن میں ٹیسٹ ویلیو 0 ہونی چاہئے
اگر ہارڈ ڈسک مرمت شدہ ہو یعنی مکینک نے bad sector نکالے ہوں تو ویلیو 0 نہیں ہوتی
Information option
اس آپشن میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کی ہارڈ کس قسم کی ہے
ایس ایس ڈی ہے یا ایچ ڈی ڈی وغیرہ
بیٹری چیک کرنے کا طریقہ
سٹارٹ سٹارٹ مینو پر رائٹ کلک کر کے ونڈوز پاور شیل اوپن کریں
اس میں آپ نے یہ لکھنا ہے
powercfg/betteryreport/output
آگے لکھنا ہے
-c:\bettery.html-
یعنی یہ آپ نے پاتھ لکھنا ہے اس کے بعد enter کلک کرکے بیٹری رپورٹ محفوظ کر لیں .
سی ڈرائیو میں آپ کی بیٹری رپورٹ محفوظ ہے اسے اوپن کرکے بیٹری کی معلومات دیکھ لیں۔
اس رپورٹ میں پتہ چل جاتا ہے کہ جب لیپ ٹاپ نیا بنا تھا تو بیٹری کتنی تھی
استعمال ہونے کے ابھی کتنی بیٹری بقایا بچی ہے۔

دعائوں میں یاد رکھیے گا۔

29/10/2023

Requiem Requiem
Oh nameless flower that scatters in the darkness,
In the sunset, please rest in peace. 💔

03/08/2023

انسان کی زندگی کب بدلتی ہے؟

سقراط : جب وہ جانتا ہے تو نہیں جانتا
سینکا : جب وہ اپنی صلاحیت کی حدود کو جانتا ہے۔
دوستوفسکی : جب وہ تنہائی کا شکار ہوتا ہے۔
نطشے : جب وہ خود سے بالاتر ہو جاتا ہے۔
سارتر : جب وہ اپنی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔
فرینکل وکٹر : جب وہ اپنی زندگی کے معنی کو چھوتا ہے۔
شوپن ہاور : جب وہ اپنی مرضی سے تجاوز کرتا ہے۔
سیران : جب وہ مر جاتا ہے۔
اسپینوزا : ہم اپنی آزادی کے جواب میں نہیں بلکہ ضرورت کی ضروریات کے مطابق بدلتے ہیں۔
میلان کنڈیرا : ہم اس وقت بدل جاتے ہیں جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ دنیا مرمت سے باہر ہے۔
سائمن ڈی بیوویر : جب کوئی شخص اپنے دل کو الٹی کرتا ہے۔
کارل جنگ : جب ہم خود کو سمجھتے ہیں اور اس کے تاریک پہلو اور برائی کے بیج دیکھتے ہیں۔

01/08/2023

مولانا آزاد کو بیسویں صدی کے بہترین اردو مصنفین کی نمایاں فہرست میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ مولانا آزاد نے کئی کتابیں لکھیں جن میں غبار خاطر، انڈیا ونس فریڈم (انگریزی)، تزکیہ، ترجمان القرآن سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ الہلال نامی اردو کا ہفت روزہ اخبار جولائی 1912ء میں کلکتے سے جاری کیا
ترجمان القرآن مولانا ابوالکلام آزاد تفسیر قرآن ہے۔
ترجمان القرآن جو پہلی بار 1931ء میں طبع ہوئی تھی، دوسرا ایڈیشن 1964ء میں ساہتیہ اکادمی رابندرابھون، نئی دہلی سے مالک رام کے حواشی کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے، آزاد چونکہ ایک صاحب قلم تھے، اس بنا پر’’ ترجمان القرآن‘‘ ان کے انشاء کا بھرپور مظہر ہے، تاہم جہاں تک اصول تفسیر کا تعلق ہے تو وہ ائمۂ تفسیر ہی کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں اور بہت کم کوئی ایسی رائے قائم کرتے ہیں جو اسلاف کی رائے کے برخلاف ہو۔ مولانا کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو اپنے عہد میں ایک زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا ہے جو مسلمانوں کے لیے واحد راہنما ہو سکتی ہے۔ چونکہ وہ سیاسی میدان میں منہمک تھے، اس لیے مکمل قرآن کی تفسیر نہیں کرسکے تھے۔ ترجمان القرآن تفسیر سورۂ بنی اسرائیل تک ہے، زیادہ تر ترجمہ اور مختصر حواشی ہیں، حواشی اختصار کے باوجود جامع ہیں؛ البتہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر کا حصہ بہت ہی مبسوط اور مفصل ہے اور گویا قرآن مجید کے مقاصد کا خلاصہ اور خود مولانا آزاد کے بہ قول قرآن کا عطر اور نچوڑ ہے، اس تفسیر کے بعض مقامات سے علما کو اختلاف رہا ہے؛ کیونکہ مولانا نے بعض معجزات سے متعلق تاویل سے کام لیا ہے
اس سے قبل بہترین تفاسیر میں میں ابن تیمیہ یہ اور حافظ ابن قیم کی کی تفاسیر شامل ہے۔
ترجمان القرآن کی نمایاں خصوصیات میں میں حدیث و سنت کا پختہ رنگ، تصوف معرفت کی چاشنی امام ابن تیمیہ یہ اور اور علامہ ابن قیم ان کے مشرب سب کی ترجمانی ، شیخ ابن عربی کا رنگ ، اردو ادب کا معجزانہ اسلوب اور عقلی مسائل میں میں میں جدید سائنٹفک استدلال سے بحث شامل ہے۔
ترجمان القرآن کے علمی میں تاریخی اور تفسیری پہلو کے ساتھ ساتھ اہم ترین پہلو ادبی ہے ہے مولانا ابوالکلام آزاد ابوالکلام آزاد نے نے قرآن مجید کی عربی کا اردو میں مبین میں میں بامحاورہ ،شستہ اور فصیح و بلیغ ترجمہ کیا۔
ترجمان القرآن کا فکری ماحول
مولانا ابوالکلام آزاد کے دینی افکار کی روح اور مقصد کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت کے فکری ماحول کو سامنے رکھا جائے۔
یہ دور سرسید اور ان کے عقلیت پرست رفقاء کے جدید افکار اور جدید علم الکلام کے نام اور ضروریات پر اسلامی افکار کی نئی نئی تشریحات کا دور تھا۔

01/08/2023

جب بھی غالب کی شاعری کا ذکر آتا ہے تو ہماری نظر سب سے پہلے یا تو ان کے کلام کی آفاقیت پر جاتی ہے جہاں وہ پوری انسانیت کے ترجمان ہیں، یا پھر ان کے کلام کے ایسے حصوں پر جہاں انہوں نے انسان کے عنصری جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ غالب کی یہ وسیع النظری اور نفسیاتی ژرف بینی دونوں ہی لائق صدتحسین و داد ہیں اوران کے کلام کے بقائے دوام کی ضامن لیکن تا وقتیکہ ہم ان کے کلام کی تاریخی اہمیت کو نہ جانیں، یایہ کہ انہیں ایک مخصوص تاریخی اور تہذیبی ماحول میں رکھ کر نہ دیکھیں، اس کا خطرہ باقی رہتا ہے کہیں ہماری وہ تحسین، تحسین ناشناس بن کر نہ جائے۔ کیونکہ کسی بھی شاعر کے کلام کی عمومیت اور آفاقیت اپنی قوم کی تاریخ اور زندگی اور عالمی تاریخ سے بے نیاز ہونے میں نہیں، بلکہ اس سے دست گریباں ہونے، اس کی کشمکش کو سمجھنے اور پھر اسے عالمی تہذیب کے ارتقائی رجحانات سے نسبت دینے میں ہے۔

کیا ہمارے یہاں غالب کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا گیا ہے؟ اس میں شبہ نہیں کہ گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں، جوں جوں ہمارا تاریخی تنقیدی شعور زیادہ سے زیادہ گہرا اور وسیع ہوتا گیا ہے، کچھ نہ کچھ اس کی طرف توجہ دی گئی ہے اور ہم نے غالب کے کلام میں ایک تاریخی آدمی کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس موقع پر ہمارے بعض بزرگ جو اگلے وقتوں کے ہیں، یہ کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ تو ایک گزراں حقیقت ہے۔ وہ جو وقتی اور ہنگامی، گزشتنی اور گزاشتنی ہے وہ کب ہم جیسے سرمست ازل، مطلق پرستوں، پردہ دران تعینات کو، اپنے دام موج میں الجھا سکتی ہے، ہم تو اس کی اس کی دامگاہ سے ایک چشم زدن میں جست کر جاتے ہیں۔ کیا غلامی اور کیا آزادی، کیا راکٹ اور کیا ایٹم بم، ہم تو بے مرکب اڑتے اور بےتیغ لڑتے ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ یہ بڑا خواب آور اور نشیلا فلسفہ ہے اور جب اپنے پاس کچھ بھی نہ ہو تو اس کا نشہ اور زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ دو ڈھائی سو سال کی پیہم پسپائیوں اور زدوکوب نے اب ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ عالم کی ہستی ناقابل تردید ہے اور یہ ایک عالم اسباب ہے نہ کہ عالم معجزات۔ میں نے یہ بات اس لئے چھیڑی کہ اب یہ جو شعور عالم کو جاننے اور اس کے اسباب و علل کے دریافت کرنے کا پیدا ہو چلا ہے، وہ ہماری گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخی تہذیبی جدوجہد میں پروان چڑھا ہے اور اس شعور کو فروغ دینے میں غالب کا بھی ایک حصہ ہے، لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس سلسلہ میں ان کا نام نہیں لیا جاتا ہے۔

شاید اس لئے کہ ہمارے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ مغرب کی روشنی نے ہمیں ۱۸۵۷ء کے بعد سے متاثر کرنا شروع کیا، بالخصوص اس وقت سے جب سے کہ علی گڑھ کا اینگلومحمڈن کالج قائم ہوا یا پھر شاید اس لئے کہ غالب کی روشن خیالی اور روشن ضمیری میں ’’احیاء دین‘‘ اور تحافتہ الفلاسفہ کا کوئی علم الکلام نہ تھا اور انہوں نے شمع یونانیان کو بار دیگر ہمارے درمیان روشن کیا۔ انہوں نے اشراق فلاطون، مشائین اور رواقین کے فلسفوں کو ہمارے درمیان ازسرنو زندہ کیا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری روشن خیالی اور ہمارے جدید ادب دونوں ہی کا آغاز غالب کی نظم و نثر سے ہوتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان کی ذہنی دنیا میں مغرب اور مشرق قدیم اور جدید کی ایک شدید کشمکش ہے۔

ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

لیکن اس کشمکش میں کبھی کبھی جدید قدیم پر اتنا غالب آ جاتا ہے کہ وہ سید احمد خاں کو ٹوک کر یہ کہہ دیتے ہیں۔ مردہ پروردن مبارک کارنیست۔

انہیں ایام کی ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ دیکھئے کہ اس غزل میں مغرب کی روشنی کا خیر مقدم کس جدلیاتی منطق کے ساتھ کیا گیا ہے۔

مژدہ صبح دریں تیرہ شبانم دادند

شمع کشتند و زخورشید نشانم دادند

رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند

دل ربودند و د وچشم نگرانم دادند

گہر از رایت شاہان عجم بر چیدند

بعوض خامہ گنجینہ فشانم دادند

افسر از تارک ترکان پشنگی بردند

بہ سخن ناصیہ فرکیانم دادند

گوہر از تاج گستند و بدانش بستند

ہرچہ بردند بہ پیدا بہ نہانم دادند

اس امر پر سارے مؤرخین کا اتفاق ہے کہ انگلستان کا صنعتی انقلاب ہندوستان سے لوٹی ہوئی دولت کا رہین منت رہا ہے۔ ہندوستان کا جب سونالٹ گیا تو مغرب سے علم و دانش کا ایک آفتاب طلو ع ہوا۔ جس کی روشنی سے ہرچند کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں نے مشرق کو محروم رکھنے کی بڑی کوشش کی۔ لیکن جب ۱۸۳۲ء کے ریفارم بل کے بعد دولت انگلشیہ میں کمپنی کے تاجروں کا زور گھٹا اور وہاں کے صنعتی سرمایہ داروں کا زور بڑھا تو پھر اس کی روشنی یہاں بھی پھیلی۔ نہ صرف دخانی کشتیوں، ریل گاڑیوں، ٹیلی گراف اور دوسری سائنسی ایجادوں کی نمائش سے بلکہ انگریزی تعلیم، سماجی اصلاحات (جس میں غلامی کی رسم کی منسوخی بھی شامل ہے) بھاپ کی قوت سے چلنے والے چھاپے خانوں کی ایجادات اور پریس کی آزادی کی صورتوں میں بھی۔

چنانچہ ۱۸۳۵ سے لے کر ۱۸۴۷ء تک کازمانہ، باوجود اس کولونیل لوٹ کھسوٹ اور شدید سرمایہ دارانہ استحصال کے، جس سے ہندوستان دوچار رہا ہے، برطانوی ہندوستان کی تاریخ میں اپنی کچھ برکتیں بہ ایں معنی رکھتا ہے کہ یہ زمانہ ذہنی آزادی اور مغربی علوم وفنون کی ترویج واشاعت کا تھا۔ اسی زمانے میں دہلی کالج قائم ہوا تھا، جس کی اہمیت کے بارے میں ذکاء اللہ لکھتے ہیں کہ سائنس اور نئے علم ہیئت کی باتیں گھر گھر میں پھیل گئی تھیں۔ غالب نے اسی خورشید مغرب کا خیرمقدم اپنی اس غزل میں کیا ہے، ع’’شمع کشتند وز خورشید نشانم دادند۔‘‘ اور پھر اس کی تان اس پر توڑی، ع ’’ہرچہ بردند بہ پیدابہ نہانم دادند۔‘‘

یعنی جو کچھ مغرب بظاہر میں لے گیا، اسے اس نے بہ باطن لوٹایا۔ جو موتی کہ انگریزوں نے ترکوں کے تاج سے توڑے انہیں علم ودانش کے ہار میں پروئے۔۔ سیاسی پہلو سے انگریزوں کی ملکیت کا دور محکومی کا سہی، لیکن قدیم مشرق کے مبلغ علم اور ہماری مطلق العنان حکومتوں کے پس منظر میں یہ حور کرن جوکوپرنیکس، گلیلیو، نیوٹن، بنتھم اور مل کے علوم کی ہمارے معاشرے میں در آئی، یقیناً قابل قدر تھی، غالب کا تشکک جو اپنے ہی عقیدے کو معرض شک میں لانے کا تھا۔ لاموجود الا للہ،

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھریہ ہنگامہ اے خدا کیا کیا ہے

اسی فضا میں پروان چڑھا تھا اور اسی فضا میں ان کے عقیدہ وحدت الوجود نے منفی اثرات کو ترک کرکے وہ مثبت پہلو اختیار کیا جو زندگی کو ایک عطیہ خداوندی تصو ر کرنے اور اس خیال سے در گزرنے کا تھا کہ آدمی کا وجود شر ہے، گناہ کا نتیجہ ہے۔ غالب تمام تر نقد کے قائل تھے، وہ نسیہ کے قائل ہی نہ تھے، کاش حالی کی سمجھ میں یہ بات آتی تو وہ انہیں حیوان ظریف نہیں بلکہ اردوادب کا والٹیر تصور کرتے۔ لیکن وہ تو ساری عمر یہی کہتے رہے۔ ’’ہرچند کہ مرزا نے شاعری کی نسبت سے شراب کی مدح کی ہے لیکن وہ اسے اعتقادا ًبرا سمجھتے تھے۔‘‘ معلوم نہیں حالی کا خیال غالب کے عشق کے بارے میں کیا تھا، بہرحال چھوڑیے اس جملہ معترضہ کو، شیخ جی ان باتوں کو کیا جانیں۔

بامن میاویز اے پدر فرزند آزرا نگر

ہر کس کہ شد صاحب نظر دین بزرگاں خوش نکرد

لیکن یہ واقعہ مژدہ صبح کے پانے، شمع کو بجھانے اور آفتاب کو طلوع کرنے کا اس رات کا ہے جوبڑی مہیب اور تاریک تھی اور غالب اپنے اس روحانی سفر میں بہت تنہا اور اداس تھا۔ کبھی کبھی ناامیدیوں کے طوفان نے اس پر ایسا ہجوم کیا ہے کہ اس کے دل کی ساری شمعیں بجھ گئی ہیں اور اس نے ایک زہرہ گداز احساس شکست سے دوچار ہوکر راہ فنا کی آرزو بھی کی ہے۔ ایسے لمحات شکست خوردگی، لمحات غم و اندوہ، غالب کی شاعری میں کچھ کم نہیں ہیں لیکن وہ لمحات بڑے حسین ہیں کہ وہ کشتہ آرزوئے زیست ہیں۔

نہ دانی کہ مینا شکستن بہ سنگ

نہ بخشد بہ دل ذوقِ گلبانگ چنگ

یہ غالب جو آتش گبر کا پجاری (از آتش نشان خدائی دہند) شمع یونانیاں کا عاشق اور خورشید باختر کا دلدادہ تھا، وہ میخانہ مہرو وفا، صلح و آشتی اور وحدت انسانیت کا مئے گسار بھی تھا۔

یارب بہ جہانیاں دل خرم دہ

در دعوئے جنت آشتی باہم دہ

شد او پسرنداشت باغش از تست

آں مسکن آدم بہ بنی آدم دہ

مأخذ :
ادب اور شعور
اگلا مضمون
غالب ایک آفاقی شاعر
ممتاز حسین
پچھلا مضمون
فیض کی انقلابی شاعری کا تغزلاتی اسلوب
ممتاز حسین
COMMENT
SHARE YOUR VIEWS
Comment

Add a comment…
CANCELCOMMENT
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں
ہماری پسند
سعادت حسن منٹو
ہندوستان کو لیڈروں سے بچاؤ
سعادت حسن منٹو
فیض احمد فیض
کہ گوہر مقصود گفتگوست
فیض احمد فیض
پطرس بخاری
سر محمد اقبال
پطرس بخاری
عصمت چغتائی
ہیروئن
عصمت چغتائی
اشفاق احمد
چھوٹا کام
اشفاق احمد
مزید دریافت کیجیے
rekhta-rauzan rekhta-dictionary rekhtapodcast Rekhta android App
Best poetry resource in urdu
Best poetry resource in urdu
شاعری
شاعر
شعر
لغت
ای-کتاب
نثر
بلاگ
شاعری
کویز
قافیہ
مزید
سائٹ : تعارف
بانی : تعارف
خبروں میں ریختہ
کیریئر
رابطہ کیجیے
FAQ
ریختہ فاؤنڈیشن کی دیگر ویب سائٹس
ریختہ فاؤنڈیشن
ریختہ لغت
صوفی نامہ
ہندوی
جشن ریختہ
آموزش

تلاش کیجیے
URD
Ishaq Jan
No favorites yet!
userName
REKHTA FOUNDATION
Devoted to the preservation & promotion of Urdu

REKHTA DICTIONARY
A Trilingual Treasure of Urdu Words

SUFINAMA
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry

HINDWI
World of Hindi language and literature

AAMOZISH
The best way to learn Urdu online

DONATE
Get App
ریختہ نیوز لیٹر سبسکرائب کیجیے
آپ کو باقاعدگی سے کچھ حاصل کرنا ہے لیکن اس کے علاوہ آپ کسی بھی ای میل کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔

آپ کا ای-میل
فوری رابطے
فرہنگ قافیہ
Urdu Resources
عطیہ
نیوزلیٹر آرکائیو
معلومات
ریختہ فاؤنڈیشن
بانی : تعارف
رابطہ کیجیے
کیریئر
ہماری ویب سائٹس
ہندویصوفی نامہریختہ ڈکشنریآموزشریختہ بکس
رابطہ کیجیے
فالو کیجیے

پرائیویسی پالیسی استعمال کی شرائط جملہ حقوق
© 2023 Rekhta™ Foundation. All rights reserved.

آدِم
aadim आदिम
سنسکرت ; صفت

01/08/2023

’ عناں گسیختہ ‘ اس شعر میں لفظ نہیں ہے الماس جڑ دیا ہے۔ جب دوسری زبان کی لفظوں پر ایسی قدرت ہو جب کہیں اپنی زبان میں اس کا لانا حسن رکھتا ہے۔ ‘

ماہ بن ، ماہتاب بن ، میں کون

مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام

’ اس سارے قصیدے میں عموماً اور اس شعر میں خصوصاً مصنف نے اردو کی زبان اور حسنِ بیان کی عجب شان دکھائی ہے ایک مصرع میں تین جملے جس کے مضمون سے رشک ٹپک رہا ہے اور دوسرا مصرع طنز سے بھرا ہوا ہے۔ چاروں جملوں میں حسنِ انشا ، پھرخوبیِ نظم و بے تکلفیِ ادا !‘

استادِ شہ سے ہو مجھے پر خاش کا خیال

یہ تاب ، یہ مجال ، یہ طاقت نہیں مجھے

’ اس قطعے میں جس جس پہلو سے معنیِ استعطاف کو مصنف نے باندھا ہے قابل اس کے ہے کہ اہلِ قلم اس سے استفادہ کریں۔ ایسے پہلو شاعر کے سوا کسی کو نہیں سوجھتے۔ یہ عرش کے خزانے سے نکلتے ہیں اور اس کی کنجی شاعروں کے سوا کسی کے پاس نہیں۔‘

قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں

ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے

’یہ شعر مصنف کی بلاغت کی سند اور استادی کی دستاویز ہے۔‘

دیوانِ غالبؔ کا ’’نسخۂ عرشی ‘ ‘ صحت متن اور کثرتِ حواشی میں جو بجا شہرت رکھتا ہے وہ محتاجِ تعارف نہیں۔ میں نے بعض اشعار کی تصحیح اور اکثر استدراکات کے لیے نسخۂ عرشی ( مطبوعۂ لاہور ، ۱۹۹۲ ع ) سے رجوع کیا ہے۔ استدراکات کے لیے کوئی علیٰحدہ باب قائم نہیں کیا ہے ، متعلقہ شعر کے ساتھ ہی استدراک بھی درج کر دیا ہے۔

’نسخۂ عرشی ‘ کے علاوہ ’ یادگارِ غالبؔ ‘ ( مولانا حالی ؔ) اور مرآۃ الغالب، ؔحضرتِ بیخودؔ دہلوی )سے بھی بعض استدراکات کے لیے استمدادکی گئی ہے۔

جس زمانے میں انفارمیشن ٹکنالوجی کی بینڈ ویگن میں سوار ہونے کے لیے اندھا دھند دوڑ مچی ہوئی ہے نیز، اس سے پہلے سے ، اردو کی تعلیم و تعلّم کی طرف سے بے نیازی اور بے پروائی کا جو ہمارا مزاج بن چکا ہے اس میں یہ توقع کرنا عبث ہے کہ اس شرح کا عام طور پر استقبال کیا جائے گا۔ لیکن اگریونیورسٹیوں میں اردو کی اعلیٰ جماعتوں کے طلّاب اور اساتذہ ہی اس کتاب سے فائدہ اٹھا لیں تو غنیمت سمجھا جائے گا۔

01/08/2023

قاری کو غالبؔ کی غیر معمولی اُپج اور انفرادیت کے نمونے ڈھونڈھنے میں بھی سہولت ہو۔ چنانچہ میں نے موضوع کے لحاظ سے کچھ عنوانات قائم کر کے ان کے ذیل میں ردیف وار صرف ۱یسے اشعار مع شرح اکھٹے کر دیے ہیں جن میں معانی ، بیان ، بدیع اور بلاغت وغیرہ کے متعلق نکات پر علاّمہ نظم نے بحث و تمحیص کی ہے۔ جہاں جہاں مناسب معلوم ہوا اور ضرورت محسوس کی ، ہر موضوع کی تعریف و توضیح کے لیے میں نے عَروض ، قواعدِ اردو اور معانی و بیان وغیرہ کی مستند کتابوں سے اقتباسات تشریحِ کلام کے افتتاح کے بطورنقل کر دیے ہیں تاکہ شرح میں واقع ہونے والی اصطلاحات کا ایک مختصر تعارف قاری کو ہو جائے۔ اب جسے مزید شوق اور توفیق ہو وہ تفصیل کے لیے مبسوط کتابیں ان فنون پر ضرور پڑھے۔ میرے مآخذ میں خصوصاً یہ کتابیں رہی ہیں : ’غیاث اللغات ‘ ( ملّا غیاث الدّین رامپوری ) ، قواعد العَروض (علّامہ قدرؔ بلگرامی ) ، قواعدِ اردو ( مولوی عبد الحق ) ، آئینِ اردو ( مولانا محمد زین العابدین فرجاؔد کوتانوی ) ، ’تسہیل البلاغت‘ ( پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی ) اور ’میزانِ سخن ‘ ( حمیدؔ عظیم آبادی)۔

بعض اشعار کی تشریح کرتے ہوئے علّامہ نظم طباطبائی نے کسی نکتے کی وضاحت کے لیے کئی کئی صفحات میں اپنے عالمانہ خیالات کا بھی اظہار کیا ہے۔ یہ بظاہر زیرِ تشریح شعر سے کم ہی تعلق رکھتے ہوں لیکن بذاتِ خود اس قدر دل چسپ اور معلومات افزا ہیں کہ مناسب معلوم ہو اانھیں مستقل مقالات کی حیثیت سے الگ درج کیا جائے۔ ان مقالات کو ’ اقسامِ کلام ‘ ، ’ دہلی اور لکھنؤ کی زبان ‘ ، اور ’ مصرع لگانے کا فن ‘، کے عنوانات کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔

با وجودے کہ اب دہلی و لکھنؤ کی زبان کی بحثیں ادبی منظر نامے کے مرکزی مقام کا حصّہ نہیں رہیں ، ان کی تاریخی و علمی حیثیت اپنی جگہ بر قرار رہے گی۔ علامہ نظم کے فرمودات کے جواب میں پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی کے ارشادات ان کی کتاب ’ تسہیل البلاغت ‘ سے نقل کیے گئے ہیں۔ یقین ہے یہ بحث دلچسپی سے پڑھی جائے گی۔

01/08/2023

*** زبان اور بولی ***
ایک سوال کے جواب میں :
زبان فارسی کا لفظ اور بولی ہند نژاد آریائی زبانوں کا مشترک لفظ۔۔۔۔۔ لغت کے اعتبار سے دونوں الفاظ کا ایک ہی مطلب و مفہوم بلکہ دونوں لفظ دونوں زبانوں میں ایک دوسرے کے متبادل اور ترجمہ ہیں،،،، اردو میں اپنے لغوی مفہوم کے ساتھ یہ دونوں لفظ بولے جاتے ہیں، تاہم اردو زبان میں اصطلاحی طور پر بلکہ اردو لسانیات کی اصطلاحات میں زبان سے مراد اعلیٰ درجے کی زبان جس میں ادب تخلیق ہوتا رہا ہو،،،، جبکہ اصطلاحی طور" بولی " سے وہ اظہار یا زبان جو مقامی سطح پر بول چال کی ضرورت تو پوری کرتا ہو تاہم جس میں ابھی ادب یا پھر بہتر ادب تخلیق ہونا شروع نہ ہوا ہو مثلآ ہمارے ہاں کوہستانی، کھوار ، گواربتی، واخی، کلاشہ وغیرہ
۔۔۔اصطلاحی طور بولی ترقی کرتے ہوئے " زبان " کا درجہ اختیار کر جاتی ہے۔
*ڈاکٹر تاجور *
پس نوشت : زبان اور بولی میں فرق،،،
" ا وار "چیچنیا/تاتارستان میں بہت محدود پیمانے پر بولی جانے والی زبان، جس کے بولنے والے 4 لاکھ سے بھی کم ہیں لیکن رسول حمزہ توف نے اس زبان میں ایسا ادب تخلیق کیا جو عالمی سطح کا ادب ہے،،، جبکہ اس کے مقابلے میں ضلع کوہستان، سوات اور دیر میں کوہستانی بولنے والے چھ سات لاکھ ہیں لیکن کوہستانی ابھی بولی کے درجے میں ہے۔

01/08/2023

السلام علیکم
۴ نومبر ۲۰۲۲ انٹرویو لاہور
(پاس، ناٹ ریکمنڈ، چئیرمین ڈاکٹر نیر اقبال)

میں اپنے افسانے اور مضامین ساتھ لے کر گئی تھی اس لئے سوالات وہیں سے شروع ہوئے۔
کیوں کہ تعارف نہیں لیا اس بار۔ بلکہ چئیرمین صاحب نے خود سوال کیا آپ نے ماسٹر ۲۰۲۰ میں کیا ہے تو اس کے بعد اب تک کیا کیا۔
اس کے جوابات کے بعد انہوں نے فی میل ٹیچر کی طرف رُخ موڑ دیا۔
نیرنگِ خیال کیا ہے
اس کے مصنف کا نام بتائیں
محمد حسین آزاد اور ابوالکلام آزاد میں کیا فرق ہے؟
محمد حسین آزاد کا بتادیا اور ابوالکلام پر ابھی میں بتا ہی رہی تھی کہ اگلا سوال آگیا

نظم کیا ہے
نظم کی اقسام بتائیں
اقسام بتائیں تو
آزاد نظم کیا ہے
پابند کیا ہے
معریٰ کیا ہے؟

مجید امجد اور ن م راشد میں کیسے فرق کریں گی آپ؟

نثری نظم کیا ہوتی ہے؟
اس میں کون سی ترتیب ہوتی ہے؟
اس کو نثری کیوں کہتے ہیں؟

پھر کہتیں اچھا آپ کو بلینک ورس کا پتا؟
مجھے حیرانی ہوئی کہ اس کا جواب تو دے چکی ہوں۔
میں نے کہا میم معریٰ نظم ہی بلینک ورس ہے یہ انگریزی نام ہے۔ میڈم بہت لاپروائی سے انٹرویو لے رہی تھیں سوال کے بعد سوال۔ انہوں نے فوراً سنبھل کر پروفیسر اورنگ زیب نیازی کی طرف دیکھا
تب سر کہتے بالکل صحیح۔

تب تک میل سبجیکٹ اسپیشلٹ پرفیسر اورنگ زیب نیازی میرا افسانہ، نظم دیکھ چکے تھے۔ بولے
آپ شاعری لکھتی ہیں
میرے جواب کے بعد بولے
ایک شعر بولتا ہوں
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تُونے بخشا ہے ذوقِ خدائی
اس میں بحر کون سی ہے؟

میں نے کہا سر شاعری میں میرے استاد تھے وہی تصحیح کرتے رہے ہیں استاد کا نام بتایا تو کہتے ٹھیک ہے۔
ان کا مزاج کافی دھیما اور نرم تھا بولے آپ تسلی سے بیٹھیے، کوئی مسئلہ نہیں ہے

پھر بولے۔
علامتیت کیا ہے
اردو شاعری میں ایک نشاطیہ لہجہ ہے وہ کیا ہوتا ہے؟
اس کا جواب دے دیا تو کہتے
نشاطیہ لہجے کا شاعر کس کو کہیں گی آپ
کس شاعر کے ہاں نشاطیہ لہجہ ہے؟
میں نے غالب کا کہا تو بولے آتش!

پھر بولے رشک کیا ہوتا ہے؟
اس کے جواب کے بعد بولے غالب کے رشک پر شعر سنادیں۔
شعر مجھے بالکل بھول چکا تھا میں نے معذرت کرلی۔

پہلا افسانہ نگار کون ہے؟
اس کا تسلی بخش جواب دیا
پھر کہتے اچھا مومن کا بتائیں۔
اس کا مجھے زیادہ نہیں پتا تھا اس لئے ایک دو جملوں کے بعد پھر معذرت کرلی۔
رئیس المتغزلین کون ہیں؟

پھر کہتے
قصیدہ کے اجزا بتائیں۔
غزل کا بتائیں۔
قصیدہ اور غزل دونوں میں فرق بتائیں۔
مجید امجد کی نظم کی خصوصیات بتائیں۔
نظموں کے نام بتائیں۔
داستان کے اجزائے ترکیبی بتائیں؟
فورٹ ولیم کالج کے بارے میں بتائیں۔
اس کا ادب سے کیا تعلق ہے؟
ادب کو کیا فائدہ نقصان ہوا؟
دوہا کیا ہے؟
ہائیکو کیا ہے
ان دونوں میں فرق کیا ہے؟
یہاں تک سب جوابات ٹھیک دئیے۔
اور بھی سوال تھے جو مجھے بھول گئے ہیں۔
اس کے بعد جب میں نے کہا کہ مجھے فیض زیادہ پسند ہیں تو نیر اقبال صاحب بولے کیوں وجہ بتائیں
پھر نظموں کے نام پوچھے۔
پسندیدہ نظم میں نے دلِ من مسافرِ من بتائی
بولے کیوں پسند ہے
کس مجموعے میں ہے؟
نظم کی کونسی قسم ہے یہ؟
یہاں تک ٹھیک رہا سب
پھر کہتے
بول نظم کس مجموعے میں؟
اس میں مجھ سے گڑ بڑ ہوگئی
میں نے کہا سر آخری مجموعے میں بالکل آخر میں
کہتے نہیں
یہ بالکل ابتدائی کلام ہے
تب میں نے معذرت کی کہ مجھے کنفیوژن ہوگئی تھی ویسے میں نے پڑھا ہے اسے تو کہتے کہ آپ کو پڑھ کر آنا چاہئیے تھا۔
پھر کہتے فیض کے مجموعے کا نام کیا ہے اس بارے کچھ پتا ہے؟
نام بتایا تو بولے اس کا مطلب کیا ہے
غالب کے شعر کا مصرعہ ہے پھر میں نے مکمل شعر سنایا۔
تو بولے اس سے اگلا شعر سنائیں۔
وہ نہیں آتا تھا تو معذرت کی کہتے کہ فیض نے کچھ خطوط لکھے تھے کس نام سے
میں نے جلدی میں میزان بول دیا
تو کہتے یہ تو تنقیدی مضامین ہیں۔ پھر خود ہی جواب دےدیا۔
فیض پر سارے سوال چئیرمین صاحب نے کئے تھے۔

ٹوٹل پندرہ منٹ لگے۔ اس کے بعد کہتے جائیں۔
بہت کم سوالات پر میں نے معذرت کی۔ یعنی تقریبا نوے فیصد جوابات آتے تھے۔
انٹرویو مشکل نہیں تھا تھوڑا غیرمتوقع تھا لیکن انٹرویو سے میں بہت پرامید تھی۔ کم از کم بھی مجھے اسی فیصد نمبرز کی توقع تھی اور پچاس نمبر دیکھ کر دوبارہ دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔

01/08/2023

’’میر کا ’بت کدہ‘،معنی اور مصنوعی ذہانت‘‘

اقبال نے ایک فارسی نظم میں دو ہرنوں کا مختصر مکالمہ لکھا ہے۔ ایک ہرن عافیت پسند ہے، دوسرا خطر پسند ہے۔ عافیت پسند کہتا ہے کہ وہ شکاری کی گھاتوں سے بچنے کے لیے حرم میں بسیرا کرے گا۔ وہ دل کی ایسی کیفیت کے ساتھ زندگی جینا چاہتا ہے،جس میں کوئی اندیشہ نہ ہو۔
رفیقش گفت ای یار خرد مند
اگر خواہی حیات اندر خطرزی
یعنی اس کے خطر پسند دوست نے کہا کہ اے میرے دانا دوست!اگر تمھیں زندگی چاہیے تو خطروں میں جی۔ کیوں کہ خطرہ سکت کا امتحان ہے اور ’’عیار ممکنات جسم و جان است‘‘ ( جسم وروح کے امکانات کی کسوٹی ہے)۔
عافیت پسند ہرن ،جنوبی ایشیا کا ضعف و غلامی کا شکار با شندہ تھا جسے اقبال ہمت دلارہے تھے۔
تاہم خطر پسند ہرن ، جدید عہد کے انسان کی طرف دھیان منتقل کرتا ہے، جسے مسلسل ایجاد سے ایک لمحہ فرصت نہیں؛ خود کو ایجاد کرنے سے لے کر نئے عالم اور نئے خطرات ایجاد کرنے تک۔ مصنوعی ذہانت ، اس کی قوتِ ایجاد کا مظہر ہے، تازہ ترین اور خطرناک ترین۔ جدید آدمی کو خطرے پیدا کرنے، خطروں سے کھیلنے اور اپنی جان ہی کو نہیں،ایک عالم کی جان کو داؤ پر لگانے سے مفر نہیں۔

کل اقوام متحدہ کی ایک عجب ہائبرڈ نیوز کانفرنس کی خبر پڑھی۔اس میں ایک طرف روبوٹس (humanoid robots) تھے، دوسری طرف آدمی ۔آدمی کے مقابل ،اس کا اپنا بنایا ہوا مثل۔ آدمی کی ذہانت کی پیدوار اور نقل، بہ یک وقت ۔

ان روبوٹس میں سات سالہ صوفیہ ،یعنی ’ سماجی انسان مثل روبوٹس ‘ کچھ دوسرے روبوٹس کے ہمراہ موجود تھی۔ ایک مصری ملکہ کی صورت پر ڈھالی گئی صوفیہ یو این کے ترقیاتی پروگرام کی ایمبیسیڈر ہے۔ ان انسان مثل روبوٹس نے کہاکہ وہ دنیا کو انسانوں سے ،(یعنی اپنے خالق سے) بہتر طریقے پر چلا سکتے ہیں۔ اس دعوے کو اصولا دنیا کے تمام میڈیا چینل کی ہیڈ لائن بننا چاہیے تھا!

خیر، یہ کم وبیش وہی دعویٰ ہے جو انسان اپنے خالق کے سلسلے میں کرتا آیا ہے۔ لیکن مصنوعی ذہانت کی صورت، آدمی نے جو اپنے لیے ایک نیا خطرہ پیدا کر لیا ہے، اس پر اب سب فکر مند ہیں۔ خود اس کے بنانے والے۔

آج مصنوعی ذہانت پر ایک مضمون پڑھا ہے(جس کا لنک نیچے شئیر کررہا ہوں)۔اس میں لکھا ہے کہ آدمی چیٹ جی پی ٹی اورمصنوعی ذہانت کی دوسری صورتوں سے ا یک بڑا خطرہ یہ محسوس کررہا ہے کہ وہ نظمیں ،ناول لکھ سکتے ہیں۔ آدمی سے اس کا سب سے بڑا شرف چھین سکتے ہیں۔

آدمی علم و معلومات پر تخلیق کو اوّلیت دیتا آیا ہے۔ اس نے اپنے اندر جس وراے بشر صفت کا مشاہدہ کیا ہے،وہ یہی صفت ِ تخلیق ہے۔ اس کی حسی، عقلی ،منطقی حدوں سے کہیں بعید اور ارفع عالم ۔ اس کی اپنی ایجاد، اس سے یہ شرف چھینے جارہی ہے تو وہ خوفزدہ ،افسردہ اور دل شکستہ ہے۔ کیا آدمی کا یہ خوف اور افسردگی ، واقعی کسی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہوسکتے ہیں؟

میرا خیا ل ہے کہ نہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ کوئی ایسی بلا نہیں جس کا شکوہ فلک سے کیا جاسکتا ہو۔یہ آدمی کی اپنی پیدا کردہ ہے ۔اس کا بیج آدمی کی اپنی صورت کو ہر جگہ دیکھنے کی قدیمی اور سب سے گہری آرزو میں ہے۔
دو یہ کہ خود آدمی نے یہی کچھ کیا ہے، اپنے خالق کے ضمن میں۔

تین یہ کہ آدمی نے اپنی ذہانت کا مثل یا نقل تو بنائی ہے، آدمی نہیں بنایا۔وہ برقی مثل ہے، کیمیائی مثل نہیں۔ اس مضمون میں ایک اہم بات لکھی ہے کہ آدمی علم و معلومات سے نہیں، معنی سے ہے۔ مصنوعی ذہانت کے پاس علم و معلومات تو بہت جمع کردی گئی ہیں،جن کا حجم بڑھتا جائے گا مگر وہ معنی پیدا نہیں کرسکے گا۔کیوں؟ اس سوال پر سوچتے ہوئے،میر صاحب یاد آتے ہیں۔
اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے، صورتِ آدم بہت ہے یاں

ہمیں اپنے آس پاس آدمی نہیں، آدمی کے بت نظر آتے ہیں۔ انسانی عالم ، ایک بت کدہ لگتاہے۔ آدمی وہ ہے ،جو معنی خلق خلق کر سکے۔ جب کہ ہمارے ارد گرد آد م نہیں ،آدم کے بت ہیں۔ بت ،آدم کی صورت پر ضرور ہے مگر وہ معنی پیدا نہیں کرسکتا۔ معنی تو آدم ہی پیدا کرسکتا ہے۔

معنی، علم اور معلومات سے یکسر مختلف ہے۔ علم و معلومات سب کی ملکیت ہوسکتے ہیں ، معنی نہیں۔ معنی ، جذبے،جذباتی تصادم، شکست ِ دل اندیشوں،بے معنویت، لایعننیت، خوابوں سے آدمی کے نبرد آزما ہونے سے پید اہوتا ہے۔ معنی کی پیدائش میں حافظے کا کردار ہوسکتا ہے مگر حافظے پر کلی انحصار نہیں۔روبوٹس کو موت اور بے معنویت کا رتجربہ نہیں ہوگا۔ تجربہ خالص انسانی چیز ہے۔

نطشے نے کہا تھا کہ خوابوں ہی نے ساری مابعدالطبیعیات ،یعنی ایک دوسری دنیا کو پیدا کیا ہے۔ یہ دوسری دنیا معنی کی دنیا بھی ہے۔
یادداشت کا ریپلیکا ہوسکتا ہے، خواب ،خوف، تجربے اور معنی کا نہیں۔
ناصر عباس نیّر
۹ جولائی ۲۰۲۳ء

27/07/2023

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

علی احمد فاطمی (جولائی آجکل ۲۰۰۸ء)

پروفیسر نیر مسعود یوں تو ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں لیکن جدید ادب
میں ان کی شہرت ایک جدید افسانہ نگار کی حیثیت سے زیادہ ہے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ ان
کے افسانوں کو لے کر اگر ایک حلقہ اپنی نافہمی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے تو دوسرا نھیں
اس عہد کا سب سے منفرد مختلف اور بڑا افسانہ نگار ماننے اور منوانے پر تلا ہوا ہے۔ مجھے ایک
واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ ساہتیہ اکیڈمی کا سیمینار تھا جس میں راقم الحروف بھی شریک تھا۔ پروفیسر
عتیق اللہ نے نیر مسعود کی افسانہ نگاری پر ایک مقالہ پڑھا اور انھیں اس عہد کا بے حد اہم اور بڑا
افسانہ نگار قرار دیا۔ اس محفل میں افسانہ نگار ساجد رشید بھی موجود تھے، فورا کھڑے ہوئے
اور شدت سے اعتراض کرتے ہوۓ بولے ایک مہمل اور نا قابل فہم افسانہ نگار کو آپ نے اس عہد کا سب سے بڑا افسانہ نگار ثابت کر دیا۔ یہ کام اردو کا ایک پروفیسر ہی کر سکتا ہے ۔ محفل کچھ بگڑی لیکن گوپی چند نارنگ کی وجہ سے سنبھل گئی ۔اس امر کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں جب بھی خود نیر مسعود سے گفتگو کی گئی یا کوئی انٹرویو لیا گیا وہ ہمیشہ گول مول باتیں کرتے ٹال جاتے ۔ آپ لوگ سمجھئے۔ مجھے تو جو کچھ لکھنا تھا لکھ گیا۔ کہیں یہ کہہ دیا کہ کہانیاں مجھے خواب میں آتی ہیں ۔ جس طرح سے آتی ہیں میں اس طرح لکھ دیتا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں:
میں موضوع کے بارے میں سوچتا ہی نہیں۔ اسی
لئے کہا جاتا ہے کہ کہانیاں جسم ہیں اور یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہانی میں آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔ اس کو چاہے میری کمزوری سمجھ لیجئے کہ موضوع بنا کر کہانی نہیں لکھ پاتا۔‘‘
ایک جواب میں اور کہتے ہیں:
” میں جو لکھ رہا ہوں اس لکھ رہا ہوں۔ ارتقا سمجھیں یا زوال۔ یہ تو قاری پر ہے ۔ اگر قاری با ذوق ہے تو اس کا جو احساس ہوگا زیادہ سچ ہوگا۔ میں نہ قاری کو خوش کرنے کے لئے لکھتا ہوں نہ ناراض۔ میں اتنی چیزیں نہیں سوچتا۔ افسانے میں پھر بھی دو تین تہیں ہو جاتی ہیں ۔
اب اس کو زوال کہئے یا ارتقاء “
کل ملا کر یہ طے ہوا کہ نیر مسعود کے افسانوں میں پراسراریت ہے۔ ایک گنجلک فضا ہے جس کا اعتراف وہ خود کرتے ہیں ۔ کچھ اسی قسم کی کیفیت خودان کی شخصیت میں ہے۔ اعتماد کی کمی رہتی ہے۔ اپنی پہلی کہانی کے بارے میں ایک انٹرویو کے جواب میں کہتے ہیں:
” ہاں اعتماد کی کمی ہے۔نصرت جو میری پہلی کہانی ہے تو ایک فرضی نام سے فاروقی صاحب کو دی۔ انھوں نے پسند کی اور کہا کہ چھاپ دیں گے۔مصنف کون ہے پوچھا تو میں نے کہا پتا نہیں زوبانج بتایا تو انھوں نے کہا یہ تو پولینڈ کا سا نام ہے۔ لیکن پولینڈ کی کہانیوں کا انداز نہیں ہے۔ تب میں نے بتایا کہ میں نے ہی لکھی ہے۔
شروع میں پہلی کہانی سے اعتماد کم تھا ڈر تھا کہ شاید اچھی نہ ہو، فاروقی صاحب نا پسند نہ کر میں تو اسے کہا کہ میں دوسرے کی لکھی ہے ۔
یہ نہیں کس نے کس سے اثر لیا۔
یہ کام نیر مسعود کرتے رہے ہیں۔ فاروقی صاحب بھی کرتے رہے ہیں۔
خیر یہ باتیں ضمنی اور معمولی ہیں اور بہت پہلے کی ہیں لیکن یہ بات تو آج بھی ہے کہ نیر مسعود کم بولتے ہیں، کم کھلتے ہیں ۔ دھیرے دھیرے بولتے ہیں اور دھیرے دھیرے کھلتے ہیں ۔اس لئے ان کو جرمن افسانہ نگار کافن بہت پسند ہے۔ جن کے افسانوں کا ترجمہ بعنوان’ کافکا کے افسانے‘‘ ۱۹۷۸ء میں شائع کیا۔ جس کے مقدمے کی ابتدا ان جملوں سے ہوتی ہے:

۳ جون ۱۹۲۴ء کو جب فرانز کافکا کی وفات ہوئی
تو اسے کوئی بڑا ادبی سانحہ نہیں سمجھا گیا۔ وہ اس وقت تک جرمن کا ایک غیر معروف سا افسانہ نگار تھا جس کی تحریریں اپنے نہایت صاف بیانیہ انداز کے باوجود مفاہیم کے اعتبار سے احمال کی حد تک مبہم تھیں۔... اس وقت کا فکا کو داستافیسکی کی طرح ادبیات میں پیچیدہ ترین دماغ کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تحریروں کی مذہبی ، روحانی، صوفیانہ،فلسفیانہ، مابعد الطبعیاتی ،ساجی، اخلاقی ، نفسیاتی ،
جنسی تاویلیں کی جارہی ہیں اور اس کی تحریروں میں ہر تاویل کا جواز موجود ہے۔ خود کافکا ان تحریروں کو اپنی خواب نما باطنی زندگی کی عکاسی قرار دیتا ہے اور تاویلیں اب تک اس باطنی زندگی کو پوری طرح گرفت میں نہیں لا
سکی ہیں۔ اتنا وابستہ یقین کے ساتھ کیا جاسکتا ہے کہ کافکا کی یہ باطنی زندگی اس کی ظاہری زندگی سے مختلف تھی۔
اس حد تک تو نہیں لیکن نیر مسعود کی شخصیت میں بھی کئی قسم کے دھارے ملتے ہیں۔ شاید یہاں خارج اور باطن کے مسائل کم ہیں۔ تہذیب، ثقافت اور معاشرت کے زیادہ ہیں۔ سماج اور سیاست کے بھی ہوں گے کہ ان کے بغیر تو تہذیب بھی رنگ نہیں بدلتی۔المیہ اور طر بی بھی یہیں سے جنم لیتے ہیں۔ نیر مسعود کے یہاں ایک المیہ ہے تہذیب
اودھ کے زوال کا ۔ایک طر بیہ ہے اپنے خاندان کے کمال اور جلال کا۔اور جمال ہے اردو، فارسی اور عربی کا ایران و عرب کا قدیم و جدید کا ۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ جدید افسانوں میں ہلچل مچانے والا یہ افسانہ نگار قدامت اور کلاسکیت سے کس قدر گہرا رشتہ رکھتا ہے۔
داستانوں کے درمیان کتنی گہری اور لمبی سانسیں لیتا ہے ۔لکھنو پر جان دینے والا اور تہذیب اودھ میں سانس لینے والے اس فنکار کا تعلق الہ آباد کی صوفیانہ تہذیب سے بھی رہا ہے ۔
فارسی ادب میں اپنی معتبر شناخت رکھنے والے اس اسکالر نے اردو میں ڈی فل کی ہے اور وہ بھی الہ آباد یونیورسٹی سے ۔ ہے نا عجیب بات کہ ایم اے فارسی سے اور ڈی فل اردو اور وہ بھی ایسے ویسے پر نہیں رجب علی بیگ سرور پر ۔ حیات اور کارناموں پر جس کا صرف نام لیتے ہی آج کے غیر مسرور طلبا کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں چہ جائکہ فسانہ عجائب کا مطالعہ ۔اس مقالے کے بارے میں خود نیر مسعود لکھتے ہیں:
’’نومبر ۱۹۵۹ء میں الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں جناب مسیح الزماں کے زیرنگرانی میں نے مرزا ر جب علی بیگ سرور اوران کے قلمی آثار پر کام شروع کیا۔
۱۹۶۴ء کے اواخر میں یہ تحقیقی مقالہ کمل ہوا۔ اور دسمبر ۱۹۶۵ء میں الہ آباد یو نیورسٹی نے اس پر ڈی فل کی سند دی۔ اب اسے الہ آباد یو نیورسٹی میگزین کی طرف سے شائع کیا جارہا ہے ۔
اس مقالے کی تکمیل میں سب سے زیادہ کارآمد معاونت نیر مسعود کے والد اور ممتاز ادیب و
محقق پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب نے کی ۔ یہ اعتراف نیر صاحب کر تے ہیں اور یہ بھی
کہ ان کا ذخیرہ کتب نیر صاحب کے لئے خزینہ پر اسرار ثابت ہوا۔ وہ خزینہ جہاں سے سرور تو نکلے ہی کافور بھی نکلا۔ مینا بھی نکلی اور سیما بھی ۔اس لئے کہ وہ صرف ایک کتب خانہ نہ تھا بلکہ تہذیب کا خزینہ بھی تھا۔ اور کم ہوتی ہوئی تہذیب کا ایک ایسا دفینہ بھی کہ جہاں ثقافت و معاشرت آخری سانسیں لے رہی تھی ۔ یا کھڑی سانسیں نیر مسعود کولرزا گئیں ۔ یہی لرزش اور ارتعاش اپنے ایک مخصوص اسلوب اور رنگ میں نیر مسعود کے افسانوں میں لاشعوری طور پر ڈھل گئے ۔ بس اس کرب اور رنگ کو پکڑنے کی ضرورت ہے کہ زوال کو
کھلے عام پیش کرنا تہذیب انسانیت کے خلاف تو ہے ہی شاید تہذیب ادب کے خلاف بھی ہے ۔ بہر حال یہ باتیں اختلافی ہوسکتی ہیں ،اتفاقی بھی اور شاید مکانی بھی ۔
نیر مسعود نے جب رجب علی بیگ سرور میں نہ صرف غیر معمولی مقالہ لکھا ۔ سند لی ، استاد ہوئے بلکہ فنکار بھی ہوۓ ۔ کہ نیر مسعود جیسی رنگ در آبدار شخصیت محض تحقیق کے لئے نہیں بنی تھی ۔ ان کے اندر ایک فنکار ہے ۔ ایک مصور بھی۔ یہاں تک کہ ایک جلد ساز بھی۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ قیمتی کتابوں کی جلد سازی وہ خود کرتے ہیں ۔ شادی کے دعوت ناموں کے رنگ پر نکلے ٹکڑوں سے سجاتے ہیں اور اپنی مخصوص تحریر و دستخط سے اسے ایک عجیب وغریب لیکن متاثر کن شکل دے دیتے ہیں ۔ جن لوگوں نے ان کی دستخط کو بغور دیکھا ہے انھیں اندازہ ہوگا ان کی دستخط دست + خط کم ہے ایسا زیادہ لگتا ہے خزینہ ادب کے کسی کونے سے ایک مخمور کن کھجورا رینگتا ہوا ان کی کتاب پر پھران کے نصاب پر اور سب سے آخر میں ان کے اعصاب پر اپنے پنجے گاڑ گیا ہے ۔’’ سپردم به تو مامی خویش را‘‘ کے
مصداق میں بھی بھی وہ خود بھی ....
اب ذرا ان کی دوسری کتابیں مرثیہ خوانی کافن ،انیس وغیرہ پڑھئے۔ نیر مسعود کی ایک دوسری بھاری بھر کم عالمانہ محققانہ اور نہ جانے کون کون سی آ نہ کی تصویر ابھرتی ہے ۔ کیا
الگ تھلگ قسم کی کتابیں ہیں جس میں غیر تو جگمگا رہا ہے او بیبانہ خون بھی دوڑ رہا ہے اور
وراثت بھی رقص کناں ہے۔ پورا اور پرانا لکھنو ، تہذیب و تاریخ ، مرثیہ، قصیدہ بھی کچھ سمٹ
آیا ہے۔ایسی تہذیب ایسی تحقیق کہ رشید حسن خان جیسے غیر معمولی کے حلق سردھنتے تھے
اور کہتے تھے کہ لکھنو اور نیر مسعود، نیرمسعوداورلکھنو ایک جان اور دو قالب ہو گئے ۔شرافت اور علم شیر وشکر ہو گئے ہیں۔ لکھنو جاتے تو نیر مسعود کے ادبستان میں شہر تے ۔ دن میں نیر سے ملتے اور رات میں روح انیس کے خالق روح ادیب سے ملاقات ہوتی ۔ مبادیات تحقیق پر بحث ہوتی ۔مسعوداد یب سیدضرور تھے لیکن تحقیق کے ضمن میں خان ہو جاتے اور ذرا بھی مروت نہ کرتے اور خاں صاحب دنیاوی معاملات میں تو ضرور خان تھے لیکن معاملات تحقیق میں ان کی سیادت سے کسے انکار ہوسکتا ہے ۔ جب تک مسعود ادیب زندہ رہے صحت مند رہے ۔لکھنو بھی زندہ رہا اور ادب بھی ۔ رخصت ہوئے تو بہت سارے بار
نیر مسعود کے کندھے پر چھوڑ گئے۔ لیکن نیر مسعود تو پیدائشی دبلے اور لمبے تھے پھر بھی وراثت کوسنبھالا اور خوب سنبھالا ۔ لیکن اب کمزور ہو گئے ہیں۔ ایک خیال ہے کہ محض ان کی
کمزوری کی وجہ سے لکھنو بھی کمزور ہو گیا ہے ۔ لکڑی کے سہارے چل رہا ہے جیسے نیر مسعود
چل رہے ہیں ۔ لیکن میں تو دیکھ رہا ہوں کہ شارب رودولوی محمود احسن رضوی، عابد سہیل
وغیرہ بھی کمزور ہو گئے ہیں لکھنو کوتو کمزور ہونا ہی تھا۔ کتاب ، کہانی اور جوانی کا کیا ٹھکانہ۔
کب گلزارنیم کے پھول کی طرح غائب ہو جائیں اور ہم کہہ اٹھیں۔
دیکھا تو وہ گل ہوا ہوا ہے کچھ اور ہی گل کھلا ہوا ہے
ہے! ہے!مرا پھول لے گیا کون ہے! ہے! مجھے خاردے گیا کون

اور یہ شعر بھی
جس کف میں وہ گل ہو داغ ہو جاۓ جس گھر میں ہوگل چراغ ہو جاۓ
نیر مسعود تہذیب اور ھ کے گل ہوتے ہوئے چراغ کی آخری لو ہیں۔ ایک پہچان اور ایک دبستان ۔ادبستان میں اتنا تو ہونا ہی تھا۔
عالم تو اور بھی ہیں لیکن نیر مسعود کی علمیت میں خاندانی شرافت ، اودھ کی تہذیبی حلاوت، تاریخ و تہذیب کی حرارت، وراثت، محبت و شفقت اور سب سے آخر میں جدید بیت کا ایسا جادو چڑھ گیا ہے کہ وہ عام انسانوں اور پڑھنے والوں کی گرفت سے باہر ہو گئے ہیں اور سب جاہل ہو گئے ہیں۔ ترقی پسند بالعموم اور الہ آباد والے بالخصوص کبھی بھی یہ خیال آتا ہے کہ جس کی علمیت و شخصیت میں اتنی جہت اور اس قدر وسعت ہے اس کے افسانوں میں ایس پراسرایت کیوں؟ ہی مسائل بھی اتنی آسانی سے مل ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔ نیر مسعود بھی نہیں چاہتے اور جد ید بیت بھی نہیں چاہتی کہ بیل ہو جائیں ۔ جیسے فسانہ عجائب میں کہانی در کہانی اچھتی چلی جاتی ہے ہوسکتا ہے کہ بین انھوں نے وہیں سے
سیکھا ہو۔ بہرحال ان کے منفرد ممتاز اور لائق فائق ہونے میں کے شبہ۔ میں کئی ذاتی حوالوں سے ان کے قریب رہا ہوں ۔ باطن اتنا پیچیدہ دکھائی دینے
والا بظاہر اس قدر سادہ، شفاف اور مہربان شخص ہے کہ آپ ان سے مل کر حیران ہو جائیں
گے اور کبھی کبھی پریشان بھی ۔ نیر مسعود کے استاد بدیع الزماں میرے بھی استاد رہے ہیں۔ نیر
مسعود کے والد پروفیسر مسعوداد یب نے میرے تحقیقی مقالے سے متعلق غیر معمولی رہنمائی
فرمائی تھی۔ مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہونے اور اپنے مقالے سے متعلق تبادلہ خیال کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے ۔ ان کے گراں قدر مشورے بھی ملے ہیں ۔ ان کے بھائیوں ( انور مسعود، اظہر مسعود سے بھی ملاقاتیں ہیں ۔ اور بھی حوالے ہیں ۔ نزدیکیاں ہیں ، بس دوریاں ہیں تو نظریاتی ۔لیکن اس سے کیا ہوتا ہے۔ اس کا احترام وعزت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ کوئی یہ بات سمجھ لے۔سیکھ لے تو یہ غیر ضروری اور غیر اخلاقی محاذ آرائی سے کوسوں دور ہو جائے اور نیر مسعود کے قریب ہو جاۓ ۔اور نیر بھی سراج مبین کی طرح جگمگا اٹھے۔
میں ان کی خوبی صحت اور درازی عمر کے لئے دعا کرتا ہوں کہ
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگند وطبع لوگ

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Adab Rung Publications. posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share