05/03/2024
آئن سٹائن اور تصور خدا۔۔
آئن سٹائن نے امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیوں میں لیکچرز دیے ۔۔۔
وہاں ان سے ایک ہی سوال ہوتا تھا کہ کیا آپ خدا کے موجود ہونے پر یقین کرتے ہیں تو وہ ایک ہی جواب دیتے تھے کہ
میں spinoza's god سپنوزا کے تصور خدا پر یقین رکھتا ہوں ۔
تو آئیے
سپنوزا سے اسکے تصور خدا کو جانتے ہیں ۔
سپینوزا کا خدا لوگوں سے انکے شعور میں یہ سوچ پیدا کرکے کہتا ہے کہ !!!
"دعائیں کرنا بند کرو،،،،،
ہاتھ چھاتیوں پر رکھنا (عبادت کرنا) بند کرو،،،،،،،،
میں صرف تم سے یہ چاہتا ہوں کہ دنیا میں نکلو، دنیا کو دیکھو ،سمجھو ، اور اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہو۔۔۔۔۔۔
میں چاہتا ہوں، تم ناچو گاؤ، زندگی کے مزے لو اور جو کچھ میں نے بنایا اس سے لطف اندوز ہو۔
ان سیاہ اور تاریک عبادت گاہوں میں جانا بند کرو جو تم لوگوں نے خود سے بناہی ہیں اور انہیں میرے گھر کا نام دیا ہے۔
میرا گھر تو پہاڑوں سے ہے،دریاوں، جھیلوں سمندر کی لہروں اور ساحلوں سے ہے ۔ میں ان سب میں موجود ہوں ۔۔۔۔۔۔
اور تمارے لیے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہوں ۔
اپنی مشکل زندگی کے لیے مجھے مورد الزام مت ٹھہراو میں نے تمہیں کبھی نہیں کہا کہ تم گنہگار ہو۔
مجھے خوفناک مت بناؤ، میں نہ تمہیں جج کرتا ہوں نہ تم پر تنقید کرتا ہوں، نہ غصہ ہوتا ہوں، نہ تم پر غضب ناک ہوتا ہوں نہ ہی میں کسی کو سزا دیتا ہوں ۔میں سرچشمہ محبت ہوں ۔
مجھ سے معافیاں مانگنے کا کوئی مطلب نہیں ، تم میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں کرتے کہ تمہیں معافی کی طلبگآری ہو، اگر میں نے تمہیں بنایا ہے تو تم میں سارے جذبے،حدود خوشیاں،ضرورتیں، ناہمواریاں میں نے رکھی ہیں ۔۔۔۔۔اور فری ول دی کہ اپنی صلاحیتوں کو برو کار لاؤ اپنی غلطیوں سے سیکھو ؛
میں کیسے کسی ایسی چیز کے متعلق تم سے باز پرس کر سکتا ہوں جو میں نے خود تمارے اندر رکھی ہے؟
تم جیسے ہو اس کے لیے میں تمہیں کیسے سزا دے سکتا ہوں جبکہ یہ سب تماری فطرت کے اندر میں نے خود رکھا ہے !
کیا تم سوچ سکتے ہو کہ میں کوہی ایسی جگہ بناوں گا جہاں اپنے بچوں (بندوں) کو کسی غلطی پر ہمیشہ کے لیے جلاوں گا ؟
کس قسم کا خدا ایسا کر سکتا ہے؟
میرے نام سے بناہے گہے احکامات اور قوانین کے متعلق بھول جاو،کہ وہ میں نے بناہے ہیں۔۔
خود اپنی زندگی پر توجہ دو، عقل و شعور کا استعمال کرو،،، وہیں سے تمہیں ہدایت ملے گی۔اپنے سماج کے لیے خود قوانین بناو۔۔
میں نے تمہیں بلکل آزاد پیدا کیا ہے، کوئی انعامات اور سزائیں نہیں ہیں.کوئی نیکیاں اور بدیاں نہیں ہیں،نہ کسی کے پاس تمارا سب نوٹ کرنے کے لیے کوئی قلم یے اور نہ تمارا کوئی ریکارڈ ہے۔
تم اپنی زندگی میں ہی جنت یا جہنم پیدا کرنے میں مکمل آزاد ہو۔میں نے تمہیں نہیں بتایا کہ موت کے بعد کوئی زندگی ہے، مگر ایک مشورہ دیتا ہوں،اس زندگی کو اسطرح جیو جیسے کہ یہ پہلی اور آخری ہو۔
مجھ پر اندھا ایمان رکھنا بند کرو،ایمان رکھنے کا مطلب ہے guess کرنا، خیال کرنا، خود سے باتیں فرض کرلینا۔ ۔
میں چاہتا ہوں تم مجھے محسوس کرو اس وقت جب تم اپنے کسی پیارے کو بوسہ دو،جب تم ہریالی کی تازگی اور پھولوں کی مہک محسوس کرو.جب تم دریاوں اور سمندروں کی لہروں پر تیرتے چلے جاو ۔ مجھے ہر جگہ محسوس کرو ۔۔
میری خوشامدیں مت کرو۔تم مجھے کس قسم کا اناپرست خدا سمجھتے ہو؟
میں تمارے شکرانوں سے بور ہوتا ہوں ۔کیا تم شکریہ ادا کرنا چاہتے ہو تو اپنی صحت، اپنے شعور ، پیار اور محبت بھرے رشتوں ،سماج اور معاشرے کا شکریہ ادا کرو ،
مجھے باہر مت تلاش کرو۔تم مجھے نہیں پا سکو گے۔مجھے اپنے اندر تلاش کرو میں تمارے اندر دھڑک رہا ہوں ۔۔۔۔
Baruch (de) Spinoza[b] (24 November 1632 – 21 February 1677),[17][18][19] mostly known under his Latinized pen name Benedictus de Spinoza,[20][21] was a leading seventeenth-century philosopher of Portuguese-Jewish origin,[22] resident in the Dutch Republic, and, as a young man, permanently expelle...