11/04/2024
صوفی غلام مصطفٰی تبسّم کی اصل وجہِ شہرت:-
صوفی تبسّم صاحب نہ صرف بہت اچھے شاعر تھے بلکہ گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور استاد ان کا ایک اپنا مقام تھا.
ایک اور بہت کمال خوبی تھی جو ان کی تمام خوبیوں اور پہچانوں پر بھاری تھی کہ وه اپنے عزیزوں اور حلقہ احباب میں ایک بہت اچھے "برتاوے" یعنی بانٹنے والے کے طور پر مشہور تھے.
وه عزیز و اقارب کی بیٹیوں کی شادی میں جاتے تو مہمانوں کو کھانا کھلانے کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیتے اور اس خوبی سے برتاتے کہ کبھی کھانے کی تقسیم میں کوئی کمی بیشی نہ رہتی. جتنے مرضی لوگ آ جائیں, اب گھر والوں کو کوئی فکر نہ ہوتی. صوفی صاحب بخوشی اس بار کو اٹھاتے اور پیش آمده مشکلات سے خود ہی نبردآزما ہوتے اور خود ہی حل نکالتے....
مشہور دانشور اور افسانہ نگار جناب اشفاق احمد نے ایک بار اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھے پھیکی چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے ہمیں بتایا کہ جن دنوں وه گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم تھے, ان کے استاد صوفی تبسّم صاحب نے ایک دن اپنے Fifth Year کے طلبہ سے کہا چلو بھئی فلاں گھر میں بارات آنے والی ہے, جاکر کھانا برتانا ہے.
بھاٹی دروازے میں بتّیاں والی سرکار کے پیچھے ایک گھر تھا, وہاں پہنچے...
کچھ دیر بعد نائی دیگیں بھی لے آئے. گھر والے بڑے خوش اور مطمئن تھے کہ اب صوفی صاحب آگئے ہیں فکر کی کوئی بات نہیں. بارات میں 80 لوگوں کا بتایا گیا تھا اور اسی حساب سے انتظامات کئے گئے تھے. مگر جب بارات آئی تو وه لوگ 160 سے بھی زیاده تھے...
صوفی صاحب کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے اور ناک تک آ گئے.
انہوں نے قریب موجود اشفاق احمد سے کہا...!
"اشفاق ہُن کی کرئیے؟"
اشفاق احمد نے اپنی طالبعلمانہ سمجھ سے کہا...!
"دیگوں میں مزید پانی ڈال دیتے ہیں, سالن کا ہی مسئلہ ہے, وه بڑھ جائے گا اور سب کو پورا آ جائے گا."
انھوں نے گھبرا کر ایک چپت لگائی اور بولے...!
"احمق لڑکے! پانی ڈال کر مرنا ہے, سالن تو اور جلدی ختم ہو جائے گا. اب طریقہ یہ اختیار کریں گے کہ سالن میں گھی کا پورا " پِیپا" یعنی 16 کلو کا پورا ٹین ڈالیں گے. جب سالن میں "تریِر" زیاده ہو تو کم کھایا جاتا ہے."
پھر اسی طریقے سے کھانا تیار ہوا...
لڑکوں نے بھاگ بھاگ کر کھانا Serve کیا. وه اندر سے ڈر بھی رہے تھے کہ کھانا کہیں کم نہ پڑ جائے, آخر عزت کا سوال تھا...
باراتیوں سے پوچھتے بھی جاتے تھے کہ اور لائیں!
اور لائیں...
ادھر کھانا ختم ہونے ہی والا تھا جب اچانک باراتیوں میں سے کسی نے آواز لگائی "بس جی...!"
پھر باقی ہر طرف سے بھی یہی آوازیں آنے لگیں. ایسے موقعوں پرلوگ ہمیشہ کسی پہلی آواز کے منتظر ہوتے ہیں. صوفی صاحب کے ہاتھ میں کپڑا اور کڑچھا تھا, وه اندر سے خدا جانے کتنے پریشان تھے. یونہی یہ آواز آئی, وه تیورا کر زمین پر گرے. وہاں ایک بڑا سا لوہے کا کڑاها پڑا تھا. شکر ہے اس سے ان کا سر نہیں ٹکرا گیا....
شاگردوں نے بھاگ کر اٹھایا, لٹایا, ٹانگیں دبائیں, ہاتھ پاؤں کی مالش وغیره کی اور وعده لیا کہ خدا کے واسطے ایسی ٹینشن والا کام دوباره ذمہ نہیں لینا. انہوں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا...!
"میری توبہ! آج تو پریشانی نے مار ہی ڈالا تھا."
وہاں سے نکلے تو استاد صاحب آگے آگے اور شاگرد پیچھے پیچھے چل رہے تھے. پندره بیس قدم چلے ہوں گے کہ ایک گھر سے ایک مائی نکلی. اس نے صوفی صاحب کو دیکھا اور دور ہی سے پکاری....
"وے غلام مصطفیٰ! میں تَینوں لبھدی پِھرنی ساں. کُڑی دی تاریخ رکھ دِتّی اے, بھادوں دی تیراں....
کَھان پِین دا اِنتظام تُوں اِی ویکھنا ایں".
صوفی صاحب جو تھوڑی ہی دیر پہلے توبہ کر کے نکلے تھے, جھٹ سے بولے...
" کاغذ لاؤ, یہ لو پینسل اور لکھو,
تیراں سیر گوشت, ایک بوری چَول........,
بس اَسی پہنچ جاواں گے."
کبھی صوفی تبسم نے بھی تو اپنی Self Examination کی ہو گی. تبھی تو استاد ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے لئے بڑے آرام سکون سے تنور پر روٹیاں لگانے بیٹھ جاتے تھے. ایسی خوبیاں جو ذات کا حصہ بن جائیں اور پھر دور و نزدیک آپ کی پہچان ٹھہریں, ذاتی تجربے کے نتیجے میں ان میں اور نکھار آتا ہے, ان پر پیار آتا ہے, شرمساری نہیں ہوتی....
(اختر عباس کی کتاب "قابل رشک ٹیچر" سے ماخوذ)