ترقی پسند گلگت بلتستان

  • Home
  • ترقی پسند گلگت بلتستان

ترقی پسند گلگت بلتستان A new window to news and views of Gilgit Baltistan through a progressive prism.

گلگت بلتستان فورتھ شیڈول کی زد میںشیڈول فورتھ انسداد دہشتگردی ایکٹ کا ایک دفعہ ہے جس کا اطلاق ایسے افراد پر کیا جاتا ہے ...
11/01/2024

گلگت بلتستان فورتھ شیڈول کی زد میں

شیڈول فورتھ انسداد دہشتگردی ایکٹ کا ایک دفعہ ہے جس کا اطلاق ایسے افراد پر کیا جاتا ہے جو کسی کالعدم تنظیم کے ممبر ہوں، دہشتگردی کے کسی اقدام میں ملوث ہوں، فرقہ ورانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو، یا ریاست کی سالمیت کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو۔

ایسے افراد کو حکومت انسداد دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈول کی لسٹ میں ڈال کر ان کی نگرانی کرتی ہے، ان کے بنک اکاؤنٹس منجمد کیے جاتے ہیں اور ان کی نقل و حرکت کو محدود کیا جاتا ہے تاکہ ان کو منفی سرگرمیوں سے باز رکھا جائے۔

اس قانون کے اطلاق کے بعد انہیں عوامی جلسے جلوس، عوامی اجتماعات میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے اور بنا اجازت کے وہ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر بھی نہیں کر سکتے ہیں نہ ہی انہیں عوامی اجتماعات میں شرکت کرنے، بولنے یا تقریر کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس لئے عام طور پر اس قانون کو زبان بندی کا قانون بھی کہا جاتا ہے۔

ویسے تو اس قانون کے اطلاق کا بنیادی مقصد دہشتگردوں کی نقل حرکت اور ان کی ریاست مخالفت اور دنیا کے دیگر ممالک میں دہشتگردی میں ملوث افراد کو روکنے کے علاوہ ملکی اور عالمی سطح پر دہشتگردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے سے بھی روکنا تھا۔ یہ قانون پاکستان میں انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت نافذ العمل ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے اس قانون پر ایک بنیادی تنقید یہ کی جاتی ہے اس خصوصی قانون کے اس دفعہ ذریعے عام طور پر سیاسی مخالفین اور اختلافی رائے کو دبانے کے لیے حکومت وقت استعمال کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں جن کی ضمانت آئین پاکستان کے آرٹیکل 15، 16، 17 اور آرٹیکل 19 میں دی گئی ہے۔ لہذا پرامن سیاسی کارکنوں کی بجائے اس فورتھ شیڈول کے اس قانون کا اطلاق صرف دہشتگردوں پر ہونا چاہیے تاکہ معاشرے میں رول آف لا ممکن ہو سکے۔

گلگت بلتستان میں چند سال قبل اس قانون کا اطلاق کیا گیا تھا جس پر عوام نے سخت احتجاج کیا چونکہ گلگت بلتستان آئین پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 کے تحت ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور انسداد دہشتگردی ایکٹ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں نافذ نہیں ہے۔ اور گلگت بلتستان میں بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دینے کے لئے آزاد جموں وکشمیر کی طرح آئین بھی نہیں دیا گیا ہے، بلکہ ایک صدارتی حکم نامے آرڈر 2018 کے تحت نظام کو چلایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کو بنیادی انسانی جمہوری سیاسی معاشی حقوق کا آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اس طرح کے حالات میں عدلیہ بھی اتنی موثر نہیں ہو سکتی ہے جس کا قیام ایک صدارتی حکم نامے کے تحت عمل میں لایا گیا ہو۔

چنانچہ ایسی صورت حال میں گلگت بلتستان میں شیڈول فور کا اطلاق دہشتگردوں کے بجائے سیاسی کارکنوں پر ہونا قابل افسوس اور تشویشناک ہے۔

حالیہ دنوں گلگت بلتستان کے مقامی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق حکومت گلگت بلتستان نے 36 افراد کو شیڈول 4 میں ڈالا ہے جن میں گلگت بلتستان کے چند مشہور سیاسی کارکنوں، مثلاً شبیر مایار، وزیر حسنین، منظور پروانہ، اور یاور عباس وغیرہ کے علاوہ کچھ مشہور علماء کرام کے نام بھی سرفہرست ہیں جن میں گلگت بلتستان کی ایک توانا آواز آغا علی اور چند ماہ قبل تک گلگت بلتستان اسمبلی کے وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا کا نام بھی سرفہرست تھا۔

گلگت بلتستان میں اس قانون کا اطلاق قوم پرست جماعتوں کے ممبران پر لاگو کیا جاتا ہے جن پر سرکاری بیانیہ میں sub Nationalism کو فروغ دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس اصطلاح کے خلاف رد عمل دیتے ہوئے گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبر اور مشہور قوم پرست لیڈر نواز خان ناجی نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے لئے یہ اصطلاح استعمال کرنا درست نہیں چونکہ یہ خطہ اپنی ایک منفرد قانونی شناخت اور قومی حیثیت کا حامل ہے۔ اس وقت پورے گلگت بلتستان میں گزشتہ سترہ دنوں سے گندم سبسڈی کے خاتمے کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں لیکن حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے سیاسی کارکنوں پر شیڈول فور کا اطلاق کر رہی ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے چیف کوارڈینیٹر احسان علی ایڈوکیٹ کے بقول یہ عوامی احتجاج گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی سمیت عوام کے غصب شدہ تمام بنیادی حقوق کے لئے ہے، جن میں اہم ترین مطالبات مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ فنانس ایکٹ 2023 اور نام نہاد ٹیکسوں کا خاتمہ۔
2۔ عوامی اراضیات پہ خالصہ سرکار قانون کے نام پر قبضے کا خاتمہ۔
3۔ معدنیات کی بیرونی کمپنیوں کو بندر بانٹ کا خاتمہ۔
4۔ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور میں تیسرے فریق کے حقوق۔
5۔ دیامر بھاشا ڈیم میں 80 فیصد اور داسو ڈیم میں 50 فیصد رائلٹی۔
6۔ گلگت بلتستان کی ملازمتوں میں وفاقی حکومت کے کوٹے کا مکمل خاتمہ، ۔
7۔ جی بی سے حاصل ہونے والی ڈائریکٹ اینڈ انڈائریکٹ ٹیکسوں کی آمدنی کا حساب۔
7۔ این ایف سی ایوارڈ میں گلگت بلتستان کا حصہ۔

9۔ گلگت بلتستان میں بجلی کی شدید ترین لوڈ شیڈنگ کی خاتمے کے لئے ہنگامی بنیادوں پہ دریائے سندھ اور دریائے گلگت پہ چھوٹے ڈیموں کی فوری تعمیر۔

10۔ گلگت بلتستان میں آزاد خودمختار آئینی عدالتی نظام کا قیام۔

11۔ گلگت بلتستان گورننس آرڈر 2018 ء جیسے کالونیل نظام کی جگہ جی بی کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ایک عبوری آئین کی تشکیل اور اس آئین کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ۔

12۔ ایک با اختیار آئینی نظام حکومت کا قیام۔

13۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی میں طلباء فیسوں کا مکمل خاتمہ اور دیگر بنیادی مطالبات کے گرد عوامی تحریک کو منظم و متحرک کیا جائے گا۔

ایسی صورت حال میں گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنوں پر شیڈول فور کا اطلاق کرنا حکومت کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔

گلگت بلتستان میں شیڈول فور کا اطلاق دہشتگردوں پر ہونا چاہیے نہ کہ سیاسی کارکنوں پر، کیونکہ سیاسی کارکن پر امن جدوجہد کرتے ہیں یہ ان کا بنیادی انسانی حق ہے کہ وہ پرامن جدوجہد کریں تاکہ گلگت بلتستان کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں جو پاکستان کے دیگر شہریوں اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے لوگوں کو حاصل ہیں۔ شیڈول فور کے شکار سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے حالیہ دنوں میں سیاسی کارکنوں کو شیڈول فور میں ڈالنے کا واحد مقصد ان کو گندم سبسڈی تحریک میں حصہ لینے سے روکنا ہے تاکہ وہ گلگت بلتستان کی توانا آواز بن کر عوام کی رہنمائی نہ کرسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت دہشت گردوں کو پکڑنے میں نام ہوئی ہے۔ اور ان دہشتگردوں کو شیڈول فور میں کیوں نہیں ڈالتی ہے؟ جو جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر سوشل میڈیا میں آ کر ویڈیو پیغام جاری کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر گزشتہ ماہ 2 دسمبر 2023 تاریخ کو غذر سے پنڈی جانے والی ایک مسافر بس پر دیامر ہڈور کے مقام پر دہشتگردوں نے بس پر مہلک ہتھیاروں حملہ کیا اور 14 بے گناہ افراد کا سر عام قتل کیا اور 40 کے قریب افراد کو زخمی کیا اور آسانی سے فرار ہوئے۔ تاحال حکومت انہیں گرفتار نہیں کر سکی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ حکومت نے ان کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔ حالانکہ قانون کے مطابق دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات کرنا غیر قانونی ہے۔ اس عمل پر ردعمل دیتے ہوئے گلگت بلتستان کے اپوزیشن لیڈر اور کچھ مذہبی جید علما نے اس عمل کو ایسے عناصر کی پشت پناہی کرنے کے مترادف قرار دیا ہے اور سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

گلگت بلتستان کے دانشور عزیز علی داد نے حکومت کے اس اقدام پر رد عمل دیتے ہوئے گلگت بلتستان کو زون آف زومبیز قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”آئین تو نافذ نہیں کرسکے مگر شیڈول فور جیسے گھناونے قانون کو گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں لاگو کرنے میں ان کی پھرتی تو دیکھئے۔ بہتر ہے بصری بیریئر ( جہاں سے گلگت بلتستان کا حدود شروع ہوتی ہے ) سے اوپر کی طرف سارے گلگت بلتستان کو شیڈول فور زون میں شامل کیا جائے کیونکہ شہری کے تصور کو یہاں تاراج کر کے اس علاقے کو زومبی زون بنا دیا گیا ہے“ ۔

لہٰذا اس طرح کی پالیسی اور دھرے معیار اپنانے سے گلگت بلتستان جیسے اہم سٹریٹجک علاقے میں بسنے والے باشندوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہونے کے ساتھ اس خطہ امن و امان بھی متاثر ہو سکتا ہے اور دہشتگردی کے مزید واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا شیڈول فور کا اطلاق دہشتگردوں پر کیا جائے نہ کہ سیاسی کارکنوں پر تاکہ گلگت بلتستان میں رول اف لا کا قیام ممکن ہو۔

تحریر: اشفاق احمد ایڈووکیٹ

معاشرہ اور تاریخ بنانے والے محنت کش عوام اور تاریخ کے مالک حکمران۔                                      غالباً زیرِ نظر ...
19/12/2023

معاشرہ اور تاریخ بنانے والے محنت کش عوام اور تاریخ کے مالک حکمران۔

غالباً زیرِ نظر تصاویر پچاس کے عشرے کے آخری سالوں یا ساٹھ کے اوائل کے ہونگے جب ہنزہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میر جمال خان جیپ لے کر آئے تھے۔ جس طرح محنت کَش عوام اپنی روزمرہ محنت سے معاشرے کی تعمیر کرتے ہیں ، اسی طرح یہی محنت کش عوام اپنے زمانے کے حکمرانوں کو بھی اپنی محنت سے زندہ رکھتے ہیں کیونکہ حکمران کسی بھی زمانے کے ہوں خود محنت اور مشقت کرکے اپنے آپ کو زندہ نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کا مکمل انحصار عوام کی محنت پر ہی ہوتا ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ میر آف ہنزہ کے جیپوں کے حوالے سے ہے ، مگر اِس کا ذکر کسی تصویر یا تاریخ میں نہیں ملتا۔ پچاس کے آخری سالوں میں احمدآباد کا ایک نوجوان جو یتیم تھا صبح اپنے بھیڑ بکریوں کو چرانے لے گیا اور واپس آیا تو اسے بھوک لگی تھی مگر اس کی ماں گھر پر موجود نہیں تھی۔ ماں کو ڈھونڈتے وہ کھیت کی طرف گیا تو وہاں اس کی ماں اور چاچی کھیت میں کھیتی باڑی کررہے تھے ۔ اسی دوران ایک بِلی نُما جانور وہاں نمودار ہوا تو سب ڈر گئے مگر اس جوان لڑکے نے اس بڑی بلی کا دم پکڑ کر اپنے آپ کو بچانے کے لیے اسے گھمانا شروع کیا۔ گاوں کے بڑے چھوٹے سب جمع ہوگئے ایک بوڑھے شخص نے کہا کہ یہ چیتے کا بچہ ہے احتیاط کرو۔ گاؤں کے ایک شخص چمڑی کا تھیلا لے کر آگیا اور اس جانور کو اس تھیلے میں بند کردیا۔ اور سب نے مل کر طے کیا کہ اس کو فوراً میر جمال خان کے پاس ان کے محل واقع کریم آباد لے کر جانا چاہیے۔ چیتے کے بچے کو پکڑنے والے نوجوان نے گاؤں ایک اور فرد کے ساتھ چیتے کے بچے کو giran میں لے کر میر کے محل پہنچے اور اسے اس حوالے سے مطلع کردیا۔ میر اپنے بچے سمیت نیچے آئے اور چیتے کو محل کے پیچھے ایک لوہے کے جنگلے میں محفوظ کیا گیا۔ میر نے اپنے بھائی اور سیکریٹری عیاش خان کو حکم دیا کہ اس لڑکے کو پورا 100 روپے دے دیں اور ان کو کھانا بھی کہلائیں۔ لڑکے کو دس روپے کے نوٹ مل گئے اور ساتھ میں کھانا بھی۔ تاہم میر جمال خان نے اس لڑکے کو شباشی دی اور کہا کہ تم نے میرے لیے اج ایک گاڑی خریدا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان گاڑیوں میں سے کونسی گاڑی میر نے چیتے کے بچے کو پاکستان مٰیں بیچ کر خریدا۔مگر چیتا پکڑنے والا احمدآباد کا اس وقت کا لڑکا، علی گوہر، آج گاؤں کا نمبردار ہے۔

تحریر: صفی اُللہ بیگ

لسانیات کی روح سے کوئی زبان معیاری اعتبار سے چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی ، کسی زبان کے زیادہ گویان ہوسکتے ہیں کسی کے کم۔ شینا...
17/12/2023

لسانیات کی روح سے کوئی زبان معیاری اعتبار سے چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی ، کسی زبان کے زیادہ گویان ہوسکتے ہیں کسی کے کم۔ شینا زبان کے ساتھ ساتھ باقی ماندہ تمام مقامی زبانوں کو سرکاری نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے۔

کیا گلگت بلتستان والے ٹیکس نہیں دیتے؟سکردو میں ایک چائے کا کھوکھا چلانے والا حاجی روزانہ ایک کِلو ٹپال چائے جس کا جنرل س...
17/12/2023

کیا گلگت بلتستان والے ٹیکس نہیں دیتے؟

سکردو میں ایک چائے کا کھوکھا چلانے والا حاجی روزانہ ایک کِلو ٹپال چائے جس کا جنرل سیلز ٹیکس 425 روپے ایک کاٹن دودھ جس کا سیلز ٹیکس 475 روپے ، پانچ کلو چینی جس کا سیلز ٹیکس 300 روہے ، گیس سلنڈر ہفتے میں ایک ڈوم جس کا سیلز ٹیکس 450 روپے یعنی ایک دن کا 1500 روپے اور ایک مہینے کا 4500 روپے ادا کر رہے ہیں
جبکہ وہ اپنے گھر کے سودا سلف کی خریداری پر بھی اتنا ہی سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
اور اس کے عوض اس کے بچے پرائیویٹ سکول بھی پڑھتے ہیں۔
خاندان کا علاج پرائیویٹ کلینکس میں کرتے ہیں اور بائیس گھنٹے کی بد ترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں
ریاست اس غریب حاجی کو مہینے میں دو تھیلہ آٹا سبسڈائز ریٹ پر دے کر احسان جتا رہی ہے
پاکستان پہلے گلگت بلتستان سے لینے والے سیلز ٹیکس سمیت تمام محصولات کا حساب دے پھر گندم سبسڈی کے خاتمے کی کوشش کرے۔
متنازعہ خطہ گلگت بلتستان کو دیوار سے لگانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

تحریر: نجف علی

17/12/2023

بروشسکی ، وخی ، کھوار ڈوماکی اور گوجری کو نصاب میں شامل کیا جائے۔

گلگت بلتستان کی تمام مقامی زبانوں کی نصاب سازی کے نام پر سرینہ گلگت میں منعقدہ آج کی کانفرنس کُلی طور پر بروشسکی ، بلتی ...
16/12/2023

گلگت بلتستان کی تمام مقامی زبانوں کی نصاب سازی کے نام پر سرینہ گلگت میں منعقدہ آج کی کانفرنس کُلی طور پر بروشسکی ، بلتی اور وخی زبانوں کے خلاف ایک سازش تھی جو سرکاری چھتری کے نیچے روایتی طریقے سے باور کرنے کی ناکام کوشش تھی۔ کانفرنس ساری زبانوں کے نام پر بلایا گیا اور تمام زبانوں سے وابستہ معززین اور نمائندوں کو بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ صرف شینا کو سب پر امپوز کرنے کی سازش کی گئی ۔ بروشسکی اور دیگر زبانوں کو ایک ساتھ نصاب سازی کی طرف لے کرجانا ہوگا۔ اکیلے کسی ایک زبان کو لیکر آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی تو پرزور مزاحمت ہوگی۔ اور اس قسم کی کسی نصاب کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

~ اسماعیل برکی

آج شام چار بجے کے وقت نئے سال پر منظرِ عام پر آنے والی عظیم ہنزائی کے البَم ( سَوݶنݺ ہݶنِن ) میں شامل قدیم دُھن لداخِ دَ...
16/12/2023

آج شام چار بجے کے وقت نئے سال پر منظرِ عام پر آنے والی عظیم ہنزائی کے البَم ( سَوݶنݺ ہݶنِن ) میں شامل قدیم دُھن لداخِ دَنݵ میں پروئے گئے اُستاد شیربازؔ علی خان کا مقبول عام و دِل سوز بروشسکی گیت (تُرمݳ وَلتِݸلُم ھَلنڎ) کا ٹیزر عظیم ہنزائی کے یوٹیوب چینل پر نشر کیا جائے گا۔

یوٹیوب چینل کا لنک زیرِ مزکور ہے۔

https://youtu.be/M5s7GTsBBio?si=muIcbPYoNH26nW6P

16/12/2023

وزیر اعظم پاکستان کے پانچ جھوٹ اور ایک سچ | تقریر کا پوسٹ مارٹم ( عنایت بیگ )

گزشتہ ہفتے نگران وزیر اعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے آغا خان یونیورسٹی کراچی میں طلبہ و طالبات سے خطاب کیا۔ سوال جواب کے سیشن میں گلگت بلستان سے تعلق رکھنےوالے طالب علم نے گلگت بلتستان میں جاری نوآبادیاتی جبر سمیت اہم عوامی تحفظات کو بطور سوال سامنے رکھا جس کے بعد کاکڑ صاحب نے کنفیوژن میں کئی ایک تاریخی جھوٹ بولے۔ عنایت بیگ کا پوڈکاسٹ دیکھئے، جہاں وہ وزیر اعظم پاکستان کی جوابی تقریر سے 5 بڑے جھوٹ کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔

گلگت(نامہ نگار)پاکستان تحریک انصاف کے بانی ورکرو حقیقی کارکن،سماجی رہنماء وجاحت خانزادہ نے پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر ع...
15/12/2023

گلگت(نامہ نگار)پاکستان تحریک انصاف کے بانی ورکرو حقیقی کارکن،سماجی رہنماء وجاحت خانزادہ نے پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کردیا۔ اس حوالے سے عوامی ورکرز پارٹی کے گلگت کیمپ آفس میں اہم تقریب کا انعقاد ہوا جس میں سابق امیدوار حلقہ 6ہنزہ آصف سخی، عوامی ورکرز پارٹی ضلع غذر کے رہنماء عبدالرحیم سمیت دیگر لوگوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر وجاہت خانزادہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان گزشتہ 75سالوں سے پاکستان وہاں کے چور ڈاکوں کی غلامی میں بن کفن ہو کر رہ گئے ہیں،پاکستان کے سیاسی و مذہبی جماعتوں نے گلگت بلتستان کو یرغمال بنا کے رکھا ہوا ہے،جبکہ میں گلگت بلتستان کا پی ٹی آئی کے بانی ورکرز میں شامل تھا لیکن پاکستان کی جماعتوں نے ہمیشہ ہر سچے اور حق پرست کاکن کو دیوار سے لگا کر مفاد پرستوں کے ٹولے اس خطہ پر قبضہ کرنے کی سازشیں رچائی ہوئی ہے۔پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور یہاں کے ان کے مقامی وفاقی پارٹیوں کے مفاد پرست کا ٹولہ صرف اور صرف ان کے زر خرید ملازم کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ انشاء وہ وقت دور نہیں کہ حلقہ 5نگر میں بھی بہت جلد پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا نام و نشان مٹا کر دم لیں گے۔پاکستانی پارٹیوں نے ہمیشہ اس خطہ گلگت بلتستان کو لاشوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا ہے،جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے گلگت بلتستان پر نت نئے طریقوں سے قابض ہونا وسائل لوٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے اور مذہب کے نام پر یہاں کے مقامی بھائی چارگی کے روایت اور کلچر کو تباہ کرکے اپنا تباہ شدہ کرپٹ،دو نمبر نظام کو متعارف کروایا ہے جس کی وجہ سے یہاں بھی کرپشن اور دو نمبری کا بازار گرم ہوچکا ہے۔انہوں نے سانحہ ہڈور چلاس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ دہشتگردی گلگت بلتستان میں پاکستان کی طرف سے ایکسپورٹڈ ہے۔یہاں کوئی مذہبی تذاد نہیں،ہر ایک مسلک کا شخص صدیوں سے یہاں بھائی چارگی سے آباد رہا ہے اور آپس میں رشتہ رہے ہیں لیکن پاکستان اور اس کے پارٹیوں نے یہاں ہمیشہ مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرکے اور لڑا کے حکومت بنانے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

15/12/2023

گلگت میں بجلی کا واحد حل اسپیشل لاٸن کا خاتمہ ہے تمام افسران کے گھروں میں 24 گھنٹے بجلی ہے اور عوام کے گھر لاٸٹ کانام نہیں ہے

غُلام سماج میں فوجی آفیسر، انتظامی ڈھانچہ کے ملازِم، آج کل تو ڈی سی ، اور اے سی کو عزت ملتی ہے لیکن اُستاد، شاعر اور سوا...
15/12/2023

غُلام سماج میں فوجی آفیسر، انتظامی ڈھانچہ کے ملازِم، آج کل تو ڈی سی ، اور اے سی کو عزت ملتی ہے لیکن اُستاد، شاعر اور سوال کرنے والوں کو حقارت کہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

آوارہ خیال

گلگت بلتستان کے پچاس فیصد باسی تعلیم ،کاروبار ، روزگار، اور علاجِ معالجہ کے لیے راولپنڈی ضرور جاتے ہیںآپ کو وہاں ہسپتال ...
15/12/2023

گلگت بلتستان کے پچاس فیصد باسی تعلیم ،کاروبار ، روزگار، اور علاجِ معالجہ کے لیے راولپنڈی ضرور جاتے ہیں
آپ کو وہاں ہسپتال ، سکول ، کالج ، زچہ و بچہ سنٹر ، ٹی بی ہسپتال ، چلڈرن ہسپتال ، کینسر ہسپتال ، ائی ہسپتال ، گرلز کالج ، ڈگری کالجز اور یونیورسٹیز سمیت چھوٹے موٹے فیکٹری اور میٹرو بسوں سمیت چوبیس گھنٹے بجلی ، انٹرنیٹ ، پانی اور دیگر سہولیات میسر ہوں گے۔
آپ جتنی کوشش کریں آپ کو کہیں کوئی ڈپٹی کمشنر یا ایس ایس پی کا دفتر نظر نہیں آئے گا
میرے خیال سے ضلع راولپنڈی کا آبادی کم از کم ایک کروڑ نفوس پر مشتمل ہو گا۔
یہاں سے قومی اسمبلی کے تین ممبر منتخب ہوتے ہیں اور یہ مری ، گوجر خان ، کلر سیداں ، سمیت بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے
آپ گلگت بلتستان تشریف لائیں
آپ کو جگہ جگہ ڈپٹی کمشنر آفس ، سینئر سپرٹینڈنٹ پولیس آفس ، اسسٹنٹ کمشنر آفس ، ڈپٹی سپرٹینڈنٹ پولیس آفس یعنی دفاتر اور رہائش گاہیں ہی رہائش گاہیں نظر آئینگے۔
یہاں بیس لاکھ کی آبادی کے لیے دس ڈپٹی کمشنر اور سینکڑوں اسسٹنٹ کمشنرز تعینات ہیں مگر دس کالجز یا دس ہسپتال یا ایک میڈیکل کالج یا انجنیرنگ کالج نظر نہیں آئیں گے
آپ کو گلگت بلتستان میں ہزاروں فارچونرز وی ایٹ گاڑیاں نظر آئیں گی
کالج کے طلباء وطالبات کے لیے کوئی بس روڈ پر چلتے نظر نہیں آئیں گے
آپ کو ڈیزل جنریٹر یا دُکانوں کے باہر جنریٹر نظر آئیں گے
بجلی کہیں نظر نہیں آئے گی
آپ کو یہاں پرائیویٹ سکولوں اور پرائیوٹ ہسپتالوں کا قطار نظر آئے گا
کوئی سرکاری کالج ، سکول یا ہسپتال نظر نہیں آئے گا
آپ کو دس اضلاع میں دس ڈپٹی کمشنر ملیں گے مگر دس لیڈی ڈاکٹر نہیں ملیں گے
حد تو یہ ہے چار اضلاع پر مشتمل بلتستان ریجن میں آج بھی ایک ایم آر آئی مشین نہیں ہے
یہاں ڈپٹی کمشنر اسسٹنٹ کمشنر اور ایس ایس پی کا پوسٹ تخلیق کیا جاتا ہے
پٹواری اور پولیس جوانوں کے لئے کوئی نئی پوسٹ تخلیق نہیں کیا جا رہا ہے
اگر ضلع بننے سے ہمارے مسائل حل ہوتے تو ہم راولپنڈی اسلام آباد سے تین سو گنا زیادہ ترقی کر چکے ہوتے
ہمارا مطالبہ ہے گلگت بلتستان میں صرف تین اضلاع گلگت دیامر اور بلتستان کو ہی بحال رکھ لیں باقی سات اضلاع کا خاتمہ کریں اور دفاتر کو سکولوں ہسپتالوں کے لیے استعمال کیا جائے
صرف سکردو میں پندرہ سو طلباء وطالبات داخلے سے محروم ہیں
کچھ دوستو کا خیال ہے کہ ضلع بننے سے روزگار کے دروازے کھلیں گے
ان کی معلومات میں اضافہ کے لیے اگر ہسپتال سکول کالجز ڈسپنسری بجلی گھر واٹر سپلائی سکیم اور روڈ بھی تعمیر کریں اور ان کے لیے پی سی فور منظور کریں تو وہاں بھی روزگار کے مواقع اور سہولیات فراہم ہو سکتا ہے
ہمیں اضلاع کا مطالبہ کرنے کی بجائے گلگت بلتستان اسمبلی میں نشستوں میں اضافے اور گلگت بلتستان کونسل کے خاتمہ کے اوپر بات کرنا چاہئے۔

تحریر: نجف علی

What is robbing a bank compared with founding a bank?- Bertolt Brecht
14/12/2023

What is robbing a bank
compared with founding a bank?

- Bertolt Brecht

14/12/2023

سانحہء ہڈور چلاس کا ایک اور زخمی چل بسا! جانبحق افراد کی تعداد 12 ہوگئی! لیکن ابھی سیکیورٹی ادارے دہشتگردوں کو پکڑنے میں ناکام!

”مجھے "پریکٹیکل" انسان پر ہنسی آتی ہے۔ اگر کوئی انسان اپنے اردگرد موجود انسانوں کی تکلیفوں سے بے غرض اور لا تعلق ہو جائے...
14/12/2023

”مجھے "پریکٹیکل" انسان پر ہنسی آتی ہے۔ اگر کوئی انسان اپنے اردگرد موجود انسانوں کی تکلیفوں سے بے غرض اور لا تعلق ہو جائے، ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی بجائے صرف اپنے پیٹ کی فکر کرے اور اپنی ذات سے باہر نہ نکل سکے۔ ہاں! وہ ایسی زندگی گزارنے میں آزاد ہے، مگر معاف کیجئے، ہم اسے پریکٹیکل نہیں، بلکہ درندہ صفت انسان بولیں گے۔“

~ کارل مارکس

13/12/2023

گلگت بلتستان میں مارخور کے قاتل کو پکڑا جاتا ہے جبکہ انسانوں کا قاتل آزاد گھومتا ہے۔

Capitalism, we’re told, is a natural—even eternal—expression of the human condition. It seems, the argument goes, that h...
13/12/2023

Capitalism, we’re told, is a natural—even eternal—expression of the human condition. It seems, the argument goes, that human beings are hardwired to be greedy, hierarchical, and inevitably organized into dog-eat-dog societies. A policy paper from the Cato Institute, for instance, explained: “Property rights are prefigured in nature by the way animals mark out territories for their exclusive use in foraging, hunting, and mating.” They concluded, “the human mind is ‘built’ to trade.”But capitalism is not eternal, and it is not intrinsic to “human nature,” if such a thing exists. An exploitative system of commodity production and exchange arose over time, neither inevitably nor smoothly, appearing on the scene only recently in human history. The first traces of modern humans date back to more than two hundred thousand years ago. But it was only in the last five thousand years (i.e. during less than three percent of human history) that the first class societies arose.3 Modern industrial capitalism surfaced just a few hundred years ago (i.e. in the last 0.25 percent of human history). In other words, if human history took place over the course of a single day, capitalism only unfolded three minutes before midnight.
Throughout most of our history, humankind lived in hunter-gatherer societies, which organized themselves to meet basic needs—food, water, shelter. Agriculture had not yet been developed, and societies generated little to no excess beyond what was needed for day-to-day subsistence. There was no significant surplus to be hoarded by individuals or communities. Our ancestors tended, in fact, toward common ownership and egalitarianism, and organized themselves by and large into loose-knit collectives with decision-making dispersed among its members.4

Hadas Thier
Book: A people's guide to capitalism " An Introduction to Marxist economics"

گلگت کے اہم ہائی سکیورٹی زون میں پولیس اہلکار اور پرائیویٹ سکیورٹی اہلکاروں کا گلگت بلتستان چیف کورٹ کے ایک  دیانت دار ا...
18/10/2023

گلگت کے اہم ہائی سکیورٹی زون میں پولیس اہلکار اور پرائیویٹ سکیورٹی اہلکاروں کا گلگت بلتستان چیف کورٹ کے ایک دیانت دار اور جرات مند جج جسٹس راجہ شکیل احمد پہ حملہ گلگت بلتستان پولیس اور انٹرنل سکیورٹی کے اداروں کی کارکردگی پہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

احسان علی ایڈووکیٹ

کیوبا جو دنیا کے ہر کونے میں آفت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے ڈاکٹرز بھیجتا ہے اس پر امریکی سامراج نے معاشی پابندیاں عائد کی ...
18/10/2023

کیوبا جو دنیا کے ہر کونے میں آفت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے ڈاکٹرز بھیجتا ہے اس پر امریکی سامراج نے معاشی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ جبکہ اسرائیل جو غزہ کے ہسپتالوں پر بمباری کررہا ہے امریکہ اسے سب سے زیادہ فوجی امداد دیتا ہے۔

17/10/2023

ہنزہ سے تعلق رکھنے والی نویں جماعت کی طالبہ کی مبینہ طور پر خودکشی سے موت واقع ہونے کی خبر ہے۔ اس واقع کی مکمل تحقیقات کر کے اصل محرکات تک پہنچنا بے حد ضروری ہے۔ خبر کے مطابق ٹیچرز کی طرف سے بچی پر ذہنی و جسمانی تشدد کا بھی الزام ہے۔ اگر اس بات میں حقیقت ہے تو یہ ہمارے ہاں فرسودہ تعلیمی نظام کے اوپر سوالیہ نشان ہے۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ سکولوں میں اساتذہ جدید سائنسی طریقہ تددریس سے زیادہ اپنی روایتی سوچ اور اپنے غیر مناسب رویوں کو استعمال میں لاتے ہیں اور ان رویوں کو وہ درست سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ماہرین کے مطابق دنیا کے مقابلے میں ہمارے ہاں تعلیمی نظام انتہائی فرسودہ اور ناقص ہے جہاں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا گلا گھونٹنے کے علاوہ ان کی خوداعتمادی اور عزت نفس مجروح کی جاتی ہے اور وہ ساری زندگی اس نفسیاتی کرب سے نہیں نکل پاتے ۔
ضرورت اس امر کی ہے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کے دوران ٹیچنگ میتھڑز کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی ، جسمانی ، جنسی و نفسیاتی تحفظ کے علاوہ ان کے ساتھ بہتر اور مہذب برتاو کی تربیت بھی شامل کی جائے۔
مذکورہ واقع انتہائی افسوسناک ہے اس واقع کی شفاف تجقیقات کے بعد بچی کی موت کے اصل محرکات کو منظر عام پر لایا جائے اور ذمہ دار افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے

منجانب: اسرار الدین اسرار
کوآرڈینیٹر گلگت بلتستان ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان

گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے سربراہ و صفِ اوّل کے حق پرست رہنما شبیر مایار کو سکردو انتظامیہ نے گرفتار کرلیا ہے جس کی...
15/10/2023

گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے سربراہ و صفِ اوّل کے حق پرست رہنما شبیر مایار کو سکردو انتظامیہ نے گرفتار کرلیا ہے جس کی ہم پرزور الفاظ میں مزمت کرتے ہیں۔

05/10/2023

یہ زمین حساس لوگوں کے مقتل گاہ ہے۔

محمد بخش

03/10/2023

بتھریت(داہیمل) ضلع غذر میں ایک اور معلم کے قتل کے ساتھ مقتولین کی تعداد 23 ہو گئی۔ ریاست اپنی ترجیحات واضح کرے۔ رجعت پسندی کا ایک لاوا پک رہا ہے، پرامن شہریوں کو تشدد پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔

آج بتھریت میں ہونے والے افسوس ناک واقعے کی تفصیلات جانئے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن گلگت بلتستان سندھ زون کے جنرل سکریٹری دیدار علی سے

میں نے اپنے دوست سے پوچھا: تمہاری مرغی نے آج صبح بانگ نہیں دی؟  کہنے لگا؛ پڑوسیوں نے شکایت کے کہ وہ صبح جگا کر انہیں پری...
18/09/2023

میں نے اپنے دوست سے پوچھا: تمہاری مرغی نے آج صبح بانگ نہیں دی؟ کہنے لگا؛ پڑوسیوں نے شکایت کے کہ وہ صبح جگا کر انہیں پریشان کرتا، اس لئے ہم نے اسے ذبح کردیا-- اس سے مجھے سبق ملا کے جو بھی لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ جان سے جاتا ہے

ڈاکٹر علی شریعتی

مہنگائی اِس قدر ہے وطن میں کہ ہائے ہائےمُفلس یہاں پہ لوہے کے چنّے چبا رہے ہیںشاہد
17/09/2023

مہنگائی اِس قدر ہے وطن میں کہ ہائے ہائے
مُفلس یہاں پہ لوہے کے چنّے چبا رہے ہیں
شاہد

گلگت بلتستان:سچ کی قربان گاہتحریر: عزیزعلی دادسبق:ذبح شدہ سچ جھوٹ کی حلال خوراک ہے۔بزدل معاشروں کاایک المیہ یہ ہوتاکہ ان...
16/09/2023

گلگت بلتستان:سچ کی قربان گاہ
تحریر: عزیزعلی داد

سبق:ذبح شدہ سچ جھوٹ کی حلال خوراک ہے۔
بزدل معاشروں کاایک المیہ یہ ہوتاکہ ان میں حقیقت کاسامناکرنےکی جرات نہیں ہوتی ہے۔ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہےکہ وہ حقیقت سے دوررہیں۔اسی لیے وہ ہمیشہ جھوٹ میں پناہ لیتے ہیں اوراسی پناہ گاہ میں بیٹھ کرکسی قربانی کےبکرے کو تلاش کرتے ہیں تاکہ اس کوجھوٹ کےدیوتاکےحضورمیں قربانی کےلیے پیش کیاجاسکے۔جھوٹ کا آدم خور دیوتاانسانوں کےخون کااتناپیاساہوتا ہےکہ وہ ہروقت سچ کی قربانی طلب کرتاہےکیونکہ ذبحنشدہ سچ جھوٹ کی حلال خوراک ہے۔یوں معاشرے کے مقتدر حلقوں اورلوگوں کی ساری زندگی اس سچ کی قربانی کی تلاش اوراس کوذبح کرنے میںبگزرجاتی ہے۔یوں ایسامعاشرہ ایک خون آشام منحوس چکر میں پھنس جاتا ہے۔
علم بشریات کامطالعہ ہمیں قربانی کے بکرےبننانےکی نفسیات پرہمیں اچھی طرح آگاہی فراہم کرتاہے۔قدیم زمانے میں بلادالشام کے معاشروں کو جب گناہوں اوربدی کی قوتوں سے پاک کرناہوتاتھاتوایک بکرےکو پکڑاجاتا تھا،اورمندرکامذہبی رہنما اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا تھاتاکہ بدی کیبساری قوتیں اس میں منتقل ہوسکیں۔بعدمیں اس جانورکو بیابان میں چھوڑدیاجاتاتھااوریوں تصور کیاجاتاتھاکہ معاشرہ اب گناہوں اور بدی سے پاک ہوچکاہے۔
آج کل گلگت بلتستان کی بھی ہو بہو یہی صورتحال ہے۔چونکہ ہم نفسیاتی طورپرجھوٹ اورمغالطوں میں رہنے کےعادی ہیں اس لیے ہم جلدی سے الزام کسی اورپر لگاکر اپنےاندرکی بدی کی خصلت اورخفت کومٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔اوراگرکوئی ہمیں ہمارےاندرکی بیماری اور بدی کو دکھانے یاخواب غفلت سے جگانےکی کوشش کرتایاکرتی ہےتو اسےقربانی کابکرابناکراس کی شخصیت کشی کی جاتی ہے۔اسی لیے ہمارامعاشرہ ہرخرد پسندکو اذیت کے تاریک زندانوں میں ڈال دیتاہے۔چونکہ اس معاشرے میان پنہاں بدی ہمیں حقیقت سےاندھاکردیتی ہے، اس لیے یہ شیطان کونجات دہندہ سمجھ کرگلےلگاۓ رکھتا ہے اور نجات دہندہ کو شیطان سمجھتا ہے۔یوں معاشرے کے اقدار کامنتشر ہوجاتا ہے۔
گلگت والوں کوبہتر پتہ ہےکہ ہم نے مذہبی شیطانوں کی ایماپرجوہرعلی ایڈوکیٹ کےساتھ کیاسلوک کیا۔مرحوم کواتناشیطان بنناکرپیش کیا کہ وہ معاشرہ توچھوڑیۓ اپنےہی گھر میں تنہاہوگئے۔جوہر علی وہ مرد قلندراورخردکاترجمان تھاجسےآدم خور مذہبی معاشرہ نگل گیا۔ہم نے جوہرعلی کی خردکی روشنی سے منہ موڈ کرجہالت کےاندھیروں میں پناہ لی۔اسی لیےآج گلگت کامعاشرہ اجتماعی پاگل پنے میں مبتلاہوگیا ہے۔اس پاگل پنےمیں ہم نےخردافروزی کی طرف رجوع کرنےکی بجاۓ،علاج کیلۓ ان کی طرف رجوع کیا ہےجنکاکام ایک نئے معاشرے اور سوچ کی تخلیق نہیں، بلکہ نت نئے اورجھوٹے بت تراشنا ہےاورآدم خورنظام اورسوچ کےدیوتا کے لیےقربانی کےبکرےتلاش کرناہے۔چلو دیکھتے ہیں کہ ہم سچ سےبچنے کے لیےقربانی کےبکرےکہاں تلاش کرتے ہیں۔جب سے میں نے ہوش سنبھالاہے، تب سےگلگت میں خون میں لتھڑے ہوۓالفاظ ہی ذہن کوملے ہیں۔جب بھی گلگت میں فرقہ وارانہ قتل وغارت گری ہوتی ہےتو کہاجاتاہےکہ اس میں باہرکاہاتھ ہے۔گلگت بلتستان میں حالیہ فرقہ وارانہ کشیدگی پربھی یہی کہاگیاکہ اس میں راکا ہاتھ ہے۔یہ کتنا لمبا ہاتھ ہے کہ ہر گھر تک پہچ جاتا ہے۔یہ کیسا ہاتھ ہے اس کو میں آپ کو دوہزار پانچ کے ایک واقعے سے سمجھاتا ہوں۔۲۰۰۵ میں گلگت شہر ٹارگٹ کلنگزز اور فرقہ وارانہ قتل کی وجہ سے مسلسل ہمیشہ فائرنگ کی آوازوں سے گونجتا رہتا تھا۔جب بھی لوگ اکھٹے ہوتےتھےتوکہتےتھےکہ اس میں انڈیاکے ایجنسی راکاہاتھ ہے، مگراکیلےمیں دوسرےفرقے کے لوگوں کومارنےکا پلان بناتےتھے۔اس سلسلے میرےمحلےکاایک بندہ ہرواقعہ کو انڈیاسےمنسوب کرتاتھا۔اس کی خود اہنی حالت یہ تھی کہ بچوں کو معاشی تنگدستی کی وجہ سے سکول نہیں بھیج سکا تھا۔چھوٹی موٹی مزدوری کرکےگزارہکرتاتھا۔یہ غالبا اکتوبر۲۰۰۵ کا مہینہ تھا۔گلگت شہر میں کسی اہم شخصیت کاقتل ہوا۔پھرکیاتھاکہ پورا شہردھماکوں سے لرزاٹھااورگولیوں کی تھرتھراہٹ سے گونج اٹھا۔میرے گھر کے ساتھ جڑے ہمساۓ کے گھر میں دستی بم پھینکا گیا۔کہتے ہیں کہ کچھ جگہوں پہ راکٹ لانچرز بھی استعمال ہوۓ۔کچھ پرندے گولیاں لگنے سے مر کر میرے گھر کے صحن میں گرے۔انھی دنوں میں پی آۓ اےکافوکرطیارہ فائرنگ کی وجہ سےگلگت ایئر پورٹ پرلینڈ نہیں کرسکا۔اس دوران میرےگھر کے عقبی دروازے،جو محلے کی اندرونی گلیوں کی طرف نکلتا ہے، کے باہرشدید فائرنگ ہو رہی تھی۔میں دروازہ سرکا کر دیکھا تو پتہ چلا معاشی تنگدستی کامارا میرا وہ محلےدارجواپنے بچوں کوسکوَل میں نہیں پڑھا سکتا ہےایک آٹومیٹک بندوق جسے مقامی زبان میں پشپشا (Tommy gun کی طرح) کہا جاتا ہے سے ہوائی فائرنگ کررہا ہے۔مختصراً یہ کہ میرے محلہ دار نے اس گن کی گول میگزین جس میں کوئی ستر یا اسی گولیاں جاتی ہونگی خالی کی۔یوں ایک میگزین آج کےحساب سے پندرہ سے بیس ہزار کی پڑتی ہے۔اس نے دس منٹ میں کوئی چھ میگزین خالی کردیے۔پھرجاتےہوۓکہنےلگا "باڑے کے پٹھانوں کےاسلحے کی نالی جلدی گرم ہوجاتی ہےاور گن لاک ہوجاتا ہے۔ان جہنمیوں کے لیے انگریز کا اسلحہ ٹھیک علاج ہے۔"اب یہ ہوائی فائرنگ یہ بندہ اکیلانہیں کررہاتھا۔یہ فائرنگ ہرگھرسےہورہی تھی۔ہوائی فائرنگ کا مقصد مخالف فرقےکےلوگوں کو اپنےپاس موجوداسلحےکی طاقت دکھاناہوتا ہے۔تب میرے ذہن میں سوال آیاکہ"کیاہرگھرکےاندرملک دشمن ایجنٹس کاہاتھ ہے؟جس گھر اورہاتھ سےفائرنگ ہورہی ہے،ان کےمالک ہم ہی ہیں۔ہم توایک دوسرے کے ہاتھ کاپکایاہوا نہیں کھاتےہیں،تو باہرکےلوگوں کاہاتھ کیسےتھام سکتے ہیں۔اس وقت گلگت توویسے ہی شیعہ اورسنی علاقوں میں تقسیم ہوچکاتھا۔حدیہ تھی کہ پبلک ٹرانسپورٹ کےروٹ، سکوَل،کال،ہسپتال ایئرپورٹ سے نکلنےکی جگہ،حکومتی دفاتراورسب کچھ سنیوں اورشیعوں کےلیےالگ الگ قائم ہوگۓتھے۔سب اپنےفرقےکی آغوش میں جاچکےتھے۔اس میں کسی بھی بندےکااپنے مخالف فرقےکے محلے میں جاناتودرکنار،کوئی پرندہ بھی وہاں پربھی نہیں مارسکتاتھا۔ایسےمیں کیسےبیرونی شازشی عناصر لوگوں کےگھروں میں داخل ہوگئے یہ بات سمجھ سے بالاترہے۔البتہ اس دن کےبعدمیرے لیے یہ بات بالکل عیاں ہوگئی کہ گلگت کا معاشرہ کس طرح ایک جھوٹ کے بلبلے میں رہ رہاہےاورکس طرح یہ جھوٹ ان کےذہنوں کوماوف کرہا ہے اور دلوں کو وحشی بنارہا ہے۔اسی لیے گلگت میں جوجتنامذہبی ہوگا،وہ اتنا ہی وحشی نکلتاہے۔جب ہم ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں توہمیں باہر سےکسی دشمن کی ضرورت نہیں۔گلگت سےہمارے صحافی دوست امتیاز علی تاج ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ہم خود ہی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں توکسی بیرونی ایجنسی کواپناپیسہ اورتوانیاں ہم پر خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اب چلتےہیں حالیہ واقعات کی طرف۔ان کاجائزہ لیکراس حقیقت سے متنفر ذہنیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہاں یہ بات ذہن نشین کرنالازمی ہےکہ میکس ویبر نے جدیدریاست کی بنیاد تشدد پراجارہ داری ہرقائمنکیاہے۔ریاست کے علاوہ جو بھی تشتددکا مرتکب ہوگا،وہ سزاکامستحق ہوگا۔گلگت بلتستان کے حالیہ فرقہ وارانہ تناو میں لوگ کھم کھلا قتل اورعبرتناک نتائج کی دھمکیاں بلاخوف وخطردےرہےتھے۔مگر ریاست نےان کوگرفتارکرنے کی جرات نہیں کی۔اس کی جرات صرف ایک طالب علم رہنما تجمل حیسن مرحوم کوMPOیعنی نقص عامہ کے قانون کےتحت گرفتاری کی صورت میں سامنے آئی۔تجمل قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں طالب علموں کے فیسوں کےاظافے کے خلاف آوازاٹھارہےتھے۔اب اہل اقتدارتشتددپرآمادہ لوگوں سے نظریں چراتےہیں اوراپنی عقابی نظریں بےضررطلباپر جماتے ہیں۔یہ ہمارے لیڈراقبال کے شاہین نہیں،بلکہ گدھ ہیں جو مردوں کی بدولت ہی زندہ رہتے ہیں۔مختصریہ کہ معاشرےکی طرح ہماری ریاست میں بھی حقیقت کاسامنا کرنے کی جرات نہیں۔اسی لیے تو حکومتی عہدہ دار فرقہ وارانہ کشیدگی کا ذمہ دار بھارتی ایجنسی قراردیتے ہیں۔یہ حرکات اور بیانات ہماری بذدل نفسیات کے محرکات اور حرکیات کو عیاں کرتے ہیں۔
اب حقیقت سے بھاگ کرکسی جھوٹ میں پناہ لینےکےایک اور مظہرکودیکھئے۔آج کےانفارمیشن ٹیکنالوجی اور جدید ابلاغ کے اس دور میں گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کو اکتوبر تک بند کردیا ہےکیونکہ اس کی وجہ سےکشیدگی پھیلتی ہے۔کمال کی منطق ہے۔جوکشیدگی پھیلا رہے ہیں،ان کو سلاخوں کے پیچھے بند کرو نہ کہ معلومات تک رسائی کو۔اس فیصلےکاخمیازہ آن لائن کاروبار سے وابستہ ہزاروں لوگ اور طلبا اٹھا رہے ہیں۔ہماری طرز حکمرانی کودیکھ کردنیاکےلوگ ہنستے ہیں اورہم ہیں کہ اپنی طرز حکمرانی پرناز کررہےہیں۔ترک زبان میں ایک محاورہ ہےکہ
جب بادشاہی مسخرےکےہاتھ میں آجاتی ہے،توسارادربارسرکس میں تبدیل ہوجاتا ہے۔آج کل گلگت بلتستان کی سیاست اورمعاشرےکو دیکھ کرپاگل خانےکا گمان زیادہ ہوتا ہے۔آج ہمارا معاشرہ سچ کی قربان گاہ بن گیا ہے جہاں جھوٹ کو خوش کرنے کے لیے اس کو ذبح کیا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا تجربوں اور اس اسے حاصل ہونے والے سبق کی وجہ سے آج مجھے شازشی تھیوریز اورشازشی بیانیوں پر کوئی اعتبار نہیں رہا۔پہلے مجھے ان سب چیزوں پہ زیادہ ہنسی آتی تھی۔پر اب ہنسی بھی نہیں آتی:
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
پر اب کسی بات پر نہیں آتی۔
ہنسی نہ آنے کی وجہ سے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔کیونکہ ہنسی نہ آنارونے کی تمہید ہے۔یادرکھنااگرہم شازشی اورحقیقت سےگریزاں جھوٹےذہن کی معاشرے،سیاست،ریاست اور حکومت پرسیادت اسی طرح جاری رہی،تو ہم سب سے مسکراہٹیں چھین جائینگی اوربہت جلدہمیں دائمی طور پر رونا ہوگا،کیونکہ تاریخ جب دوسری مرتبہ اپنےآپ کو دہراتی ہے تو وہ المیہ کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔اس المیہ کےتخلیق کار کوئی اور نہیں ہے۔اس کے تخلیق کار ہمارہ بزدل معاشرہ اور اس کی حقیقت گریز ذہنیت ہی ہیں۔
پینٹنگ میں قدیم میکسیکوکےآزٹیک لوگ اپنےدیوتاوں کوانسانوں کی قربانےدےرہےہیں۔اس رسم میں مرکزی کردارمیں بادشاہ، وزراہ،سپاہی اورمعبدکامذہبی رہنما ہیں۔

’’آزادی، بزرگی ، تجربے  کی تنہائی کا بوجھ‘‘ایرخ فرام  نے کوئی اسی  برس پہلے  لکھا تھا کہ لوگ  اپنی ہی آزادی سے  فرار حاص...
15/09/2023

’’آزادی، بزرگی ، تجربے کی تنہائی کا بوجھ‘‘

ایرخ فرام نے کوئی اسی برس پہلے لکھا تھا کہ لوگ اپنی ہی آزادی سے فرار حاصل کرتے ہیں۔ وہ آزادی کی آرزو میں مرے جارہے ہوتے ہیں۔پھر آزادی کے لیے لڑتے ہیں۔ بالآخرآزادی حاصل بھی کر لیتے ہیں، مگر پھر کیا ہوتا ہے ؟

وہ اسی آزادی سے خوف کھاتے ہیں اور اسی سے دور بھاگتے ہیں۔کیوں ؟ ا س لیے کہ آزادی کا ایک اپنا بوجھ ہے۔ آزادی سے پہلے ، آ پ دوسرے کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ ’دوسرے ‘ آ پ کی تقدیر کے مالک ہوتے ہیں۔
آزادی ،آپ حاصل ہی اس لیے کرتے ہیں کہ اپنی تقدیر خود ، اپنے ہی قلم سے لکھ سکیں۔

آپ کے ہاتھ میں قلم آبھی جاتا ہے ،مگر اپنی تقدیر کا پہلا لفظ خود لکھنے سے ، آ پ پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے ۔ اپنے لیے کوئی فیصلہ کرنے، اپنے ہی بل پر کوئی قدم اٹھانے کے خیال ہی سے آ پ کو پسینے آنے لگتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ فیصلے مشکل ہوتے ہیں ، بلکہ اس لیے کہ ان فیصلوں کی جملہ ذمہ داریاں بھی آ پ ہی کو اٹھانا ہوتی ہیں۔ آزادی کا خوف ،دراصل خود فیصلہ کرنے اور اس کے نتائج قبول کرنے کا خوف ہے۔

جس طرح اپنی آزادی کا خوف ....اور بوجھ ہے، اسی طرح اپنی عظمت و بزرگی کا بھی ایک ڈر اور ایک بار گراں ہوتا ہے۔
بزرگی وعظمت کی آرزوتو بہت سے دلوں میں ہوتی ہے، مگر ہر ایک کی بساط ہوتی ہے نہ توفیق کہ اسے سہا ر سکے۔ چناں چہ کئی لوگ اس عظمت کا ایک نقاب سا اوڑھ لیتے ہیں۔ انھیں نقاب منتخب کرنے، یا بنانے اور عمدگی سے پہننے میں مہارت ہوتی ہے، اس لیے وہ دنیا کو یقین دلانے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں کہ وہ واقعی ایک برگزیدہ ،جملہ افضل و اعلیٰ انسانی صفات کی حامل شخصیت ہیں۔اوران کی زبان سے نکلا ہر لفظ صداقت کا حامل اورا ن کا ہر عمل اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں کا پاسدار ہے۔

ا س یقین پر ارادت مندوں کے گروہ کے گروہ ان کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں ۔ مگر ان کے دل کا حال خدا جانتا ہے یا کچھ وہ لوگ جنھیں ان کی خلوت میسر ہوتی ہے۔ وہی جانتے ہیں کہ ان ’’بزرگ شخصیتوں ‘‘کا دل اوران کی روح ، اس عظمت وبزرگی کا بوجھ اٹھانے سے اپنی معذوری ظاہر کرچکے ہوتے ہیں۔

وہ اپنی کمزور،خوفزدہ ، پژمردہ روح کی تسکین کے دوسرے ذرائع تلاش کرتی ہے۔ دنیوی مرتبے، ناموری ، دولت، جائیداد، جنسی لذت وغیرہ۔ مگر ان سب کے لیے بھی کئی عمدہ ،نفیس اورنہایت مہین نقاب ہوتے ہیں۔ ارادت مند پہچان ہی نہیں سکتے۔ یہ بزرگ سب شعبہ ہاے زندگی میں موجود ہوا کرتے ہیں۔

اسی طرح آدمی کے تجربے کا بھی ایک بوجھ ہوتا ہے۔ جس طرح آزادی اور بزرگی کی خواہش کی جاتی ہے، اسی طرح نئے نئے تجربات کی بھی آرزو کی جاتی ہے۔ مگر جس طرح لوگوں کے کندھے آزادی اور بزرگی کے بوجھ سے عاجز ہوتے ہیں، اسی طرح خود اپنے ہی تجربات کے بوجھ سے ۔

وہ نئے تجربوں کی آرزو تو کرتے ہی ہیں، زمانہ بھی انھیں نئے نئے تجربے کرواتا ہے۔ بوجھ،ان دونوں تجربوں کا ہوتا ہے۔ تجربے کا بوجھ کیا ہے؟تجربے کو الف تا ی پوری طرح ، ہر طرف،ہر جہت سے محسوس کرنا ، اس کے کسی بھی رخ سے روگردانی نہ کرنا، اس کی جملہ تمازت ، شدت ، یہاں تک کہ کراہت کو بھی دیانت داری سے محسوس کرنا اور اسے علم کا سرچشمہ بنانا۔

لوگوں کے لیے کتاب ، کسی مقتدر شخصیت ، کسی معروف قول ، رائج حکایتوں کو علم کا سرچشمہ بنانے میں آسانی ہے کہ وہ خود سوچنے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں۔ وہ سفر کیے بغیر منزل پر پہنچنے کا اطمینان محسوس کرسکتے ہیں۔درخت اگانے اور اس کی دیکھ ریکھ و تراش خراش کی زحمت اٹھائے بغیر، پھل کھاسکتے ہیں۔ آدمی کے لیے وہ سب’’ دوسرے ‘‘جو شہرت، قدامت ،روایت، طاقت کے حامل ہوتے ہیں، ان پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنا آسان ہوتا ہے۔ اپنے سلسلے میں آدمی شک میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ خود کو دوسروں کی ذمہ داری بنانے میں راحت محسوس کرتا ہے۔

آزادی، بزرگی اور تجربے کا بوجھ،دراصل اپنی تنہائی کا بوجھ ہے۔ ایسی تنہائی جو ہر طرح کی بیرونی و ماورائی مدد کے یقین سے خالی ہو اور آدمی کو اپنے وجود کے سب اسرار کا سامنا ہی اکیلے نہ کرنا پڑے ، بلکہ خود سے متعلق ہر سوال کا جواب ،خود اپنے بشری ذرائع سے تلاش کرنا ہو۔ لوگ تنہائی کا واویلا بہتت کرتے ہیں، تنہا ہوتے نہیں ہیں۔ وہ تنہا ہونے کی دہشت سے سہمے ہوتے ہیں۔ وہ اس دہشت سے بچنے کے لیے ’دوسروں ‘ پر انحصار کرتے ہیں۔ انھیں اپنے کہے، لکھے، کیے کی حیثیت، معنویت اوراہمیت کا خود ہی کم یقین ہوتا ہے۔

آزادی کی تنہائی کے بوجھ سے بچنے کے لیے بہ قول ایرخ فرام لوگ اذیت رساں(sadist) اور اذیت کو ش(masochist) بنتے ہیں۔ دونوں ’دوسرے ‘ پر انحصار کرتے ہیں۔ایک،کسی دوسرے شخص کو مسلسل اذیت پہنچاتا ہے، ایک خود ہی پر ہر قسم کا تیر ستم آزماتا رہتا ہے ۔ کچھ کے یہاں اس درجہ اپنی تنہائی کا خوف طاری ہوتا ہے کہ وہ تخریب پر اتر آتے ہیں۔ وہ جنگیں کرتے ہیں، قتل کرتے ہیں، ریپ کرتے ہیں،یا پھر دوسروں کی دن رات کردار کشی کرتے ہیں۔ ’دوسروں ‘ یا خود کو مسلسل اذیت پہنچانے والے، سب سے زیادہ خود ہی سے دہشت زدہ ہوتے ہیں۔

اپنی بزرگی کی تنہائی کے بوجھ سے بچنے کے لیے، اپنے ارادت مندوں کے گروہ میں ہر وقت رہنا اور اپنے لیے احترام وعقیدت کے اظہار کو پسند کیا جاتا ہے۔

اپنے تجربے کی تنہائی کے بوجھ سے گریز کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔ لوگ دن رات تفریحی ولذت انگیز سرگرمیوں میں محو رہتے ہیں۔ وہ دوسروں کی بنائی ہوئی دنیا میں مگن ہوتے ہیں کہ اپنی تنہائی کے سامنے کا وقت ہی نہ ملے۔ دوسروں کی بنائی ہوئی دنیا میں سوشل میڈیا، کھیلیں، ڈرامے، کتابیں، گیت، فلم ،تھیئٹر کچھ بھی شامل ہوسکتا ہے۔

اس دنیا میں سب کچھ برا نہیں۔ اگر کوئی برائی ہے تو ان کی طرف وہ التفات ہے جو اپنے تجربے سے گریز کے سبب کیا جائے، یعنی اگر آ پ کتاب اس لیے پڑھیں کہ آ پ اپنے تجربے میں مضمر سوال کا سامنا کرنے سے بچ سکیں تو پھر آپ خود سے گریز کررہے ہیں اور کتاب میں محض پنا ہ لے رہے ہیں، خود کو ایک مصنف کی ذمہ داری میں سونپ رہے ہیں۔

اگر آ پ کتاب اور اپنے حقیقی تجربات میں ایک مسلسل گفت وشیند شروع نہیں کرسکتے ، دونوں کو ایسےآئنے نہیں بناتے جو ایک دوسرے کے مقابل آکر عکسوں کا لامتناہی سلسلہ خلق کرتے ہیں تو کتاب بینی بھی ، اپنی تنہائی کے بوجھ سے گریز کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

تحریر: ناصر عباس نیّر
۱۵ ستمبر ،۲۰۲۳ء

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ترقی پسند گلگت بلتستان posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share