Talal Vlogs

Talal Vlogs Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Talal Vlogs, Digital creator, .
(1)

ہمارے سرائیکی ولاگنگ پیج میں خوش آمدید! ہمارے ساتھ سرائیکی زبان کے علاقوں کی رنگین ثقافت، دولت مند تاریخ اور دلچسپ مناظر کی سفر پر شامل ہوں شوریدہ بازاروں سکون بھرے دیہات تک ہم ولاگس کے ذریعے سرائیکی ثقافت کی خوبصورتی اور تنوع کو دکھانے کیلئے موجود ہیں۔

03/07/2024

میلہ ثقافت کی پہچان

میلہ | ثقافت کی پہچان | مقامی ثقافت تفریح اور تجارت کا مرکز| | maila
https://youtu.be/fTpBaEIjOKo

28/06/2024

کٹی پہاڑی کی سیر

Katti Pahadi | Katti Pahari | کٹی پہاڑی | ماڑی | راجن پور | خوبصورت پہاڑ
https://youtu.be/F_-x2X_PQ3U

23/06/2024

ماڑی راجن پور

Maarri RajanPur Hills | ماڑی | راجن پور | خوبصورت پہاڑی سلسلہ
https://youtu.be/gz1-HWMGdFs

18/06/2024

دلو رائے ٹھیر جامپور

13/06/2024

بہاوالدین زکریا ملتانی

‎شیخ الاسلام بہاؤ الحق و الدین زکریا ملتانی سُہروردی سلسلہ سہروردیہ کے بڑے بزرگ اور عارف کامل گذرے ہیں۔سلسلہ سہروردیہ کے صاحبِ کمال بزرگ جن کا پورا نام الشیخ الکبیر شیخ الاسلام مخدوم سید بہاؤ الدین ابو محمد زکریا الاسدی الہاشمی ہے۔ حافظ‘ قاری‘ محدث‘ مفسر‘ عالم‘ فاضل‘ عارف‘ ولی سب کچھ تھے‘۔ شیخ الشیوخ ابوحفص شہاب الدین سہروردی کے خلیفہ تھے۔ ساتویں صدی ہجری کے مجدد تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ظاہری و باطنی علوم میں یکتائے روزگار تھے، اسلام کے عظیم مبلغ تھے۔ آپ کے جد امجد مکہ معظمہ سے پہلے خوارزم آئے، پھر ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی

‎ملتان کے ضلع لیہ کے ایک قصبہ کوٹ کروڑ ضلع لیّہ میں 27 رمضان المبارک شب جمعہ آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کے جد امجدمخدوم کمال الدین علی شاہ مکہ مکرمہ سے خوارزم ہوتے ہوئے ملتان میں مقیم ہوئے۔ یہ عہد خسرو ملک غزنوی کا عہد تھا۔

‎آپ کے والد کی جانب سے اسدی ہاشمی اور والدہ کی جانب سے حسنی ہیں ۔

بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا پھر بخارا میں تحصیلِ علم کی۔ بعد ازاں حرمین شریفین پہنچے، حج و زیارت سے فارغ ہو کر بیت المقدس میں بھی علم حاصل کیا اور علم حدیث کی خاطر یمن بھی گئے۔ والد گرامی کے انتقال کے بعد آپ نے محض حصول علم و فن کے لیے پیادہ پا خراسان کا سفر کیا۔ اس کے بعد بلخ، بخارا ،بغداد اور مدینہ منورہ کے شہرہ آفاق مدارس میں رہ کر تعلیم حاصل کی۔ پانچ سال تک مدینہ منورہ میں رہے جہاں حدیث پڑھی بھی اور پڑھائی بھی۔ غرض پندرہ سال اسلام کے مشہور مدارس و جامعات میں رہ کر معقولات و منقولات کی تکمیل کی۔ مدینہ منورہ ہی میں حضرت کمال الدین محمد یمنی محدث رحمة اللہ علیہ سے احادیث کی تصحیح کرتے رہے۔ جب پورا تجربہ حاصل ہو گیا تو آپ مکہ معظمہ حاضر ہوئے اور یہاں سے بیت المقدس پہنچ کر انبیاءکرام علیہم السلام کے مزارات کی زیارات کیں۔ اس عرصہ میں آپ نہ صرف علوم ظاہر کی تکمیل میں مصروف رہے بلکہ بڑے بڑے بزرگان دین اور کاملین علوم باطنی کی صحبتوں سے بھی فیض یاب ہوئے۔ بڑے بڑے مشائخ سے ملے۔ 15 سال کی عمر میں حفظِ قرآن، حسنِ قرأت، علومِ عقلیہ و نقلیہ اور ظاہری و باطنی علوم سے مرصع ہو گئے تھے۔ آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ قرآن مجید کی ساتوں قرأت (سبعہ قرأت) پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ نے حصول علم کے لیے خراسان، بخارا، یمن، مدینہ، مکہ، حلب، دمشق، بغداد، بصرہ، فلسطین اور موصل کے سفر کر کے مختلف ماہرین علومِ شرعیہ سے اکتساب کیا۔ شیخ طریقت کی تلاش میں آپ، اپنے معاصرین حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، حضرت جلال الدین سرخ بخاری اورحضرت لعل شہباز قلندر کے ساتھ سفر کرتے رہے۔

‎یمن سے آپ بغداد تشریف لائے اور ابو الفتوح شہاب الدین سہروردی کی خانقاہ پہنچے۔ آپ نے صرف 17 دنوں میں بیعت و خلافت عطا فرما دی۔ بیت المقدس سے مختلف بلاد مشائخ اور مزارات کی زیارت کرتے ہوئے مدینۃ العلم بغداد میں آئے تو اس وقت حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کی ذات گرامی مرجع خلائق بنی ہوئی تھی۔ بڑا دربار تھا ‘ بڑا تقدس۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھتے ہی فرمایا باز سفید آگیا۔ جو میرے سلسلہ کا آفتاب ہو گا اور جس سے میرا سلسلہ بیعت وسعت پزیر ہوگا۔ آپ نے ادب سے گردن جھکائی۔ شیخ نے اسی روز حلقہ ارادت میں لے لیا اور تمام توجہات آپ کی طرف مرکوز تھیں۔

‎15 سال تک مختلف علاقوں میں تبلیغ اسلام کرتے آخر کار 1222ء میں واپس ملتان تشریف لائے۔ آپ کی مساعی جمیلہ سے سہروردی سلسلہ پاک و ہند میں خوب جاری ہوا۔

‎ملتان میں ہی آپ کا وصال ہوا اور اسی شہر میں آپ کا مزار پُر انوار زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔ مزار بہاؤ الدین زکریا ملتانی فنِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ کی وفات ِحسرت آیات 7 صفر 661 ھ/21دسمبر 1261ء کو ہوئی۔ آپ کا مزار شریف قلعہ محمد بن قاسم کے آخر میں مرجع خلائق ہے، مزار کی عمارت پرنقاشی کا کام قابل دید ہے اور سینکڑوں اشعار یاد رکھنے کے لائق ہیں، مزار کا احاطہ ہر قسم کی خرافات سے پاک ہے۔ عرس کے موقع پر علما کرام کی تقاریر خلق خدا کی ہدایت کاسامان بنتی ہیں، اندرون سندھ سے مریدین و معتقدین کے قافلے پا پیادہ حاضر ہوتے ہیں۔

‎بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے سات بیٹے تھے جنھوں نے بطور صوفیا شہرت حاصل کی۔
* مخدوم صدر الدین عارف
* مخدوم برہان الدین
* مخدوم ضیاؤالدین
* مخدوم علاؤ الدین
* مخدوم قدرت الدین
* مخدوم شہاب الدین
* مخدوم شمس الدین
‎مخدوم صدرالدین عارف کے بیٹے شیخ عبد الفتح رکن الدین المعروف شاہ رکن عالم مشہور بزرگ ہوئے ہیں۔

07/06/2024

حضرت شاہ رکن الدین عالم

آپ کا اسم گرامی رکن الدین ، لقب فضل اللہ اور کنیت ابو الفتح ہے.. آپ شیخ صدر الدین عارف کے بڑے صاحبزادے اور خلیفہ تھے۔ آپ کے دادا بہاؤ الدین زکریا ملتانی تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی راستی والدہ شاہ رکن عالم ہے جو فرغانہ کے شاہ جمال الدین کی صاحبزادی تھیں،اور بہاؤ الدین زکریا سے غیر معمولی عقیدت رکھتی تھیں۔ حافظ قرآن مجید تھیں ، تلاوت قرآن مجید سے غیر معمولی شغف رکھتی تھیں روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتی تھیں۔ ولادت باسعادت 9 رمضان المبارک 649ھ بروز جمعتہ المبارک کو ہوئی۔

ایک دن جب شاہ رکن الدین کی عمر مبارک چار سال تھی شیخ الاسلام بہاو الدین چار پائی پر بیٹھے تھے اور دستار مبارک سر سے اتار کر چار پائی پر رکھ دی تھی۔ حضرت صدر الدین عارف پاس ہی مودب بیٹھے تھے کہ ننھے رکن الدین کھیلتے کھیلتے دستار مبارک کے قریب آئے اور اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لی۔ والد ماجد نے ڈانٹا کہ یہ بے ادبی ہے مگر دادا حضور نے فرمایا کہ صدر الدین پگڑی پہننے سے اس کو نہ روکو وہ اس کا مستحق ہے اور یہ پگڑی میں اس کو عطا کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ دستار مبارک محفوظ کر دی گئی اور شاہ رکن الدین عالم اپنے والد بزرگوار کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو وہ دستار مبارک آپ کے سر پر رکھی گئی۔

ایک روز آپ کے والد ماجد دریا کے کنارے تشریف لے گئے۔ ان کے ساتھ شیخ رکن الدین ابو الفتح تھے۔ شیخ صدر الدین نے وضو کیا اور نماز ادا کی۔ اتنے میں ایک ہرن کا غول ادھر سے گذرا، اس میں ہرنی کا ایک بچہ بھی تھا۔ حضرت شیخ رکن الدین جن کی عمر اس وقت سات سال تھی، اس بچے کو پکڑنا چاہتے تھے لیکن وہ بچہ ہاتھ نہ آیا۔ نماز سے فارغ ہو کر شیخ عارف نے اپنے بیٹے کو قرآن شریف کا سبق دیا، ان کو دس مرتبہ پڑھنے پر بھی سبق یاد نہیں ہوا حالانکہ وہ تین مرتبہ پڑھ کے یاد کر لیتے تھے۔ آپ نے وجہ معلوم کی، جب آپ کو ہرن کے غول اور بچے کا اس طرف آنا معلوم ہوا تو آپ نے پوچھا کہ وہ غول کس سمت گیا۔ بیٹے نے سمت بتائی۔ آپ نے اس طرف کچھ پڑھ کر پھونکا تو غول واپس آگیا۔ رکن الدین نے دوڑ کر اس بچے کو پکڑ لیا اور بہت خوش ہوئے اور اسی خوشی میں ایک سیپارہ حفظ کر لیا۔ ہرنی کو مع بچے کے خانقاہ لے آئے۔

حضرت محبوب الہی کی وفات کے دس سال بعد حضرت شیخ رکن الدین اپنے محبوب حقیقی سے جا ملے۔ وفات سے تین ماہ پہلے لوگوں سے ملنا جلنا اور بولنا بالکل ترک کر دیا۔ صرف نماز کے لیے حجرہ سے باہر آتے تھے اور پھر واپس لوٹ جاتے۔ 735ھ رجب کی 16 تاریخ بروز جمعرات نماز مغرب کے بعد اوابین پڑھ رہے تھے کہ سجدہ کی حالت میں جان جانہ آفرین کے سپرد کر دی۔

02/06/2024

قاسم قلعہ ملتان

ملتان قلعہ یا پرانا قلعہ (جسے قلعہ کوہنا بھی کہا جاتا ہے) تقریباً 2600 سال قبل شہر کے وسط میں دریائے چناب اور راوی کے کنارے ایک اونچے ٹیلے پر تعمیر کیا گیا تھا تاکہ شہر کے مغرب اور شمال سے حملہ آوروں کے خلاف دفاع کیا جا سکے۔ تاریخ. اسے بار بار تباہ اور دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ آخری قلعہ 1100 سال پہلے بنایا گیا تھا۔ یہ 7000 فٹ لمبی دیوار کا ایک نیم دائرہ دار قلعہ تھا جس میں 46 گڑھ اور چار دروازے تھے جن کے نام خضری گیٹ، ہریری گیٹ، سکی گیٹ اور قاسم گیٹ تھے۔ دیوار کے قریب قلعوں کی حفاظت کے لیے 25 فٹ گہری اور 40 فٹ چوڑی کھائی تھی۔ یہ قلعہ 1818ء میں رنجیت سنگھ کی فوجوں نے تباہ کر دیا تھا اور آخر کار 1848-49 میں برطانوی فوج کی بمباری سے اسے مکمل طور پر منہدم کر دیا گیا تھا۔
قلعہ کوہنہ ملتان کا بارود خانہ بارود اور اسلحہ کے ذخیرہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ 1848 میں انگریزوں کے ملتان کے محاصرے کے دوران اسے بری طرح نقصان پہنچا۔ پاکستانی حکومت نے اسے دستکاری کی فروخت کے لیے نگار خانہ یا آرٹ ہاؤس میں تبدیل کر دیا۔

Qasim Fort | Kohna Fort | قلعہ کوہنہ | ملتان | Historical Fort | Muhammad Bin Qasim Qilla Multan
https://youtu.be/Z2gMy2qsa1E

22/05/2024

بیٹی جی کا مندر

ملتان دہلی گیٹ کے اندرون میں بہت سی پرانی عمارتیں موجود جن میں سے ایک بیٹی جی کا مندر بھی ہے جو 200 سال پرانا ہے جو کہ اک ہندو نواب نے اپنی بیٹی کے لئے بنوایا تھا تا کہ وہ وہاں پہ پوجا کر سکے ۔ آزادی کے وقت وہ ہندوستان چلے گئے اور مسلمانوں نے آ کے اس مندر پہ قبضہ کر لیا اور اس کو گھر میں تبدیل کر دیا۔ اب یہ مندر تقریبا 400 لوگوں
کا گھر بن چکا ہے

18/05/2024

خونی برج

327ق م کی بات ہے۔ جب سکندر اعظم نے ہندوستان کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ اس وقت اس کی فوج میں ایک لاکھ بیس ہزار پیادے اور پندرہ ہزار سوار شامل تھے۔ جہلم میں ہندوستانی راجہ پورس سے لڑا اور جہلم کو فتح کیا۔ سکندر نے اپنی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا انھیں دولت کا لالچ دیا زرخیز زمینوں پر قبضے کی امید دلائی یہ فوج ملتان کی طرف بڑھی یہاں ملوئی قوم آباد تھی جن کی شجاعت اور بہادری کی داستانیں پھیلی ہوئی تھیں جب سکندری افواج ملتان پر حملہ آور ہوئیں تو اس قوم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اس مہم کے دوران میں سکندر کی کمر میں تیر لگا جو ریڑھ کی ہڈی میں پیوست ہو گیا حکماء کی کوششوں کے باوجود یہ تیر نہ نکل سکا اس پر انھوں نے تیر کا کچھ حصہ کاٹ دیا تاکہ سکندر جنگ جاری رکھ سکے۔ تاہم کچھ دنوں بعد ملتان فتح ہو گیا یہاں یونانی فوج نے اپنے بادشاہ کے زخمی ہونے کا بھیانک انتقام لیا کہ شہر میں کسی کو زندہ نہ چھوڑا۔ یوں سکندر نے ملتان کو بھی فتح کر لیا۔ اور شہر خوں ریزہ ہو گیا تھا۔ ‎انگریزوں نے خونی گڑھ کہا تھا اتنا ہی قدیم ہے جتنا شہر کی قلعہ بندی کی دیوار۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ سکھوں نے اسے خاص اہمیت دی ہے کیونکہ یہ اس جگہ پر 2 جنوری 1849 کو انگریزوں کے خلاف جنگ میں دونوں بازو یعنی ایک طرف دہلی گیٹ اور دوسری طرف پاک گیٹ کا دفاع کر سکتے تھے۔ یہاں یہ سکھ اور برطانوی افواج کے درمیان خونریز ترین مقابلہ تھا۔ اس لئے اس علاقے کو خونی برج کہا جاتا ہے

14/05/2024

جام پور کا پرانا نام جادم پور تھا۔ جام پور لفظ کے دو حصے ہیں: "جام" اور "پور"۔ "جادم" (ذات کے لحاظ سے جاکھڑ تھا) وقت کے ساتھ ساتھ "جام" میں تبدیل ہو گیا
ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور شہر کی تاریخ وادی سندھ کی تہذیب (IVC) سے ملتی ہے۔ یہ شہر ڈیلو رائے تھیرے کے قدیم شہر کے کھنڈرات کے قریب واقع ہے جو آئی وی سی کا ایک بڑا مرکز تھا۔ IVC کے زوال کے بعد، اس خطے پر متعدد مختلف خاندانوں کی حکومت تھی، جن میں موریا، کشان اور گپت شامل تھے۔ 11 ویں صدی میں، یہ خطہ غزنویوں نے فتح کیا، جن کے بعد غوریوں اور دہلی کی سلطنتیں آئیں۔
16ویں صدی میں یہ خطہ مغلیہ سلطنت نے فتح کر لیا تھا۔ مغلوں کے دور میں جام پور ایک خوشحال تجارتی مرکز بن گیا۔ یہ شہر بہت سے علماء اور شاعروں کا گھر بھی تھا۔
18ویں صدی میں اس علاقے پر سکھوں نے حملہ کیا۔ سکھوں نے اس خطے پر 1849 تک حکومت کی، جب وہ انگریزوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ انگریزوں کے دور میں جام پور نسبتاً چھوٹا اور غیر اہم شہر رہا۔
1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد جام پور صوبہ پنجاب کا حصہ بن گیا۔ 1982 میں راجن پور ضلع بنایا گیا اور جام پور تحصیل ہیڈ کوارٹر بنا۔
جام پور شہر زیادہ تر قلموں پر نقش و نگار کے لیے مشہور ہے۔ لوگ کھدی ہوئی تحریری قلمیں ملک اور بیرون ملک دوسروں کو بطور تحفہ دینا پسند کرتے ہیں۔ یہ ایک کلاسک آرٹ ہے جو جام پور میں پہلی بار ایجاد ہوا ہے۔
جام پور کا لکڑی کا کام بھی مشہور ہے۔ جامپوری چارپائی اپنے موٹے اور ڈیزائن شدہ ستونوں کے لیے مشہور ہے۔

10/05/2024

قوم جس کا نام مالی تھا یہاں آکر آباد ہوئی اور سنسکرت میں آباد ہونے کو استھان کہتے ہیں یوں اس کا نام مالی استھان پڑ گیا پھر وقت کے ساتھ ساتھ مالیتان ، مولتان اور اب ملتان بن گیا۔ 327 قبل مسیح میں جہلم اور گجرات کی فتح کے بعد سکندر کی فوج تھکاوٹ کی وجہ سے مزید آگے نہیں بڑھناچاہتی تھی لیکن سکندر نے اپنی فوج کوآگے بڑھنے کا حکم دیا انھیں دولت کا لالچ دیا زرخیز زمینوں پر قبضے کی امید دلائی یہ فوج ملتان کی طرف بڑھی یہاں ملوئی قوم آباد تھی جن کی شجاعت اور بہادری کی داستانیں پھیلی ہوئی تھیں جب سکندری افواج ملتان پر حملہ آور ہوئیں تو اس قوم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اس مہم کے دوران سکندر کی کمر میں تیر لگا جو ریڑھ کی ہڈی میں پیوست ہو گیا حکماء کی کوششوں کے باوجود یہ تیر نہ نکل سکا اس پر انھوں نے تیر کا کچھ حصہ کاٹ دیا تاکہ سکندر جنگ جاری رکھ سکے ۔ تاہم کچھ دنوں بعد ملتان فتح ہو گیا یہاں یونانی فوج نے اپنے بادشاہ کے زخمی ہونے کا بھیانک انتقام لیا کہ شہر میں کسی کو زندہ نہ چھوڑا
712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے فتح کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی
997 عیسوی میں محمود غزنوی نے ہندوستان کو فتح کرنے کے ساتھ ملتان کو بھی فتح کی
1175 عیسوی میں سلطان شہاب الدین محمد غوری نے خسرو ملک کو شکست دے کر ملتان پر قبضہ کر لی
1857 کی جنگ ِ آزادی کے بعد انگریزوں نے ملتان پر مکمل قبضہ کر لیا۔اور 1947 تک بریٹش امپائر کے کنٹرول میں رہا۔آزادی کے بعد یہ پاکستان کا حصہ بنا۔
1. حضرت شاہ شمس تبریز(رض)
2. حضور سیدنا یوسف شاہ گردیزی ؓ
3. حضرت بہاؤالحق (رض)،
4. بی بی نیک دامن (رض)،
5. حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی(رض) ،
6. حضرت شاہ رکن عالم(رض) ،
7. حضرت منشى غلام حسن شہيد ملتانى (رض)
8. حضرت موسیٰ پاک شہید (رض)،
9. حضرت سید احمد سعید کاظمی(رض) ،
10. حضرت حافظ محمد جمال (رض) ،
11. حضرت بابا پیراں غائب(رض)

حرم دروازہ
پاک دروازہ
بوہڑ دروازہ
دہلی دروازہ
دولت دروازہ
لوہاری دروزہ

03/05/2024

Saraiki Shadi | Jhummar | سرائیکی شادی | جاگا | جھمر | نکاح

سرائیکی روایتی شادیاں روایتی رسومات اور عوامل کے ساتھ بھر پور ہوتی ہیں۔
عام طور پر، یہ مختلف روایتی رسومات اور عوامل سے گزرتی ہیں جو نسل سے نسل تک پہنچتی ہیں۔ “مہنڈی” کی تقریب ایک ایسی تقریب ہے جس میں دلہا کا خاندان دلہن ک گھر جا کر دلہن کی بالوں کی گانٹھ کھولتے ہیں اور مٹھائی بانٹتے ہیں۔ اس کے بعد 'مہندی' کی تقریب ہوتی ہے، جہاں دلہن کے ہاتھ اور پاؤں پر گہرے مہندی کے نقشے لگائے جاتے ہیں۔ اصل شادی کا طریقہ، جو 'نکاح' کہلایا جاتا ہے، اس میں وعدہ اور دعاؤں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ 'بارات'، یا شادی کا جلوس، ایک شاندار موقع ہوتا ہے جہاں دولہا کی طرف سے خاندان، ساتھ ساتھ موسیقی اور ناچ گانے کے ساتھ، دلہن کے گھر پہنچتا ہے اسے لے جانے کے لئے۔ آخر کار، 'رخصتی' دلہن کا والدین کے گھر سے روانہ ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنی نئی زندگی اپنے شوہر کے ساتھ شروع کر سکے۔ ان تقریبات کے دوران، روایتی سرائیکی موسیقی، 'جھمر' اور 'لدی' جیسے ناچ گانے اور لذیذ مقامی کھانے، دو خاندانوں کے ملاپ کو منانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

27/04/2024

Hazrat Sahl Bin Addi Ansari | صحابی رسول حضرت سہل بن عدی انصاری رضی اللہ تعالی عنہ | Koh E Suleman

حضرت سہل بن عدی رضی اللّه عنه صحابی رسول تھے۔ انہوں نے غزوہ بدر اور غزوہ احد سمیت مختلف غزوات میں شرکت کی تھی۔ ان کا تعلق انصار مدینہ کی ایک شاخ قبیلہ خزرج سے تھا۔ یہ قبیلہ یمن سے ہجرت کرکے مدینہ میں آباد ہوا تھا۔ بنو خزرج کے 6 افراد سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔
رسول ص انہی اصحاب کی دعوت پر ان سے ملاقات کرنے مدینہ آئے تھے۔ صحابہ کی برصغیر میں آمد کے حوالے سے مختلف تعداد بتائی گئی ہے۔ بہتر روایت میں تعداد 25 بتائی گئی ہے۔ ان میں سے 12 حضرت عمر رضی اللّه عنه کے دور میں آئے۔ اسلام کے بعد صحابہ نے یہاں جہاد، تبلیغ اور تجارتی غرض سے سفر کیا۔
حضرت عمر رضی اللّه عنه نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو خط لکھا کہ حضرت سہل کو مکران کا والی مقرر کیا جائے۔ حضرت سہل مکران اور کیچ گئے اور اس کے گردونواح کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ علاقے اب بلوچستان کا حصہ ہیں۔ اس ملک پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں ایک بدری صحابی کی آمد ہوئی۔ یہ 23 ھجری کا واقعہ ہے۔
حضرت سہل بن عدی کی وفات 27 ہجری کو ہوئی۔ اس مقام پر دیگر قبریں بھی موجود ہیں۔ قبر کے ارد گرد دائرے کی طرز پر پتھر رکھے گئے ہیں۔ یہاں تک آنے کا راستہ داجل سے نکلتا ہے اور وہاں سے 30 کلومیٹر دور یہ مقام ہے۔ باقی تقریبا تیس سے چالیس منٹ پیدل چل کر قبر تک پہنچا جاسکتا ہے.

21/04/2024

History of Harand Fort | ہڑند قلعے کی کہانی
اس قلعے کا اصل نام ہری نند تھا لیکن اب اس کو لوگ ہڑند کے نام سے پکارتے ہیں۔ 1848-49 کی جنگ میں انگریزوں نے یہ قلعہ فتح کیا۔ 97-1893 کے گیزیٹیئر کے مطابق کیفٹیننٹ ینگ نے اس قلعے کو گورچانی قبیلے کی مدد سے فتح کیا۔ جب اس قلعے پر سکندرِ اعظم نے حملہ کیا تو اس وقت اس پر ایرانیوں کے قبضے میں تھا۔
،کتاب کے مطابق اس قلعے کو فتح کرنے کے بعد سکندرِ اعظم نے دارا یوش کی بیٹی سے اسی قلعے میں شادی کی.

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Talal Vlogs posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share