Fort Munro
#muhammadtalalqadir #saraiki #reels #viral #vlog #viralreels #instagram #fortmunro #valleyofbeauty #dgk #deraghazikhan #dery #adventure #trip
دلو رائے ٹھیڑ جامپور
دلو رائے ٹھیر جامپور
حضرت بہاوالدین زکریا
بہاوالدین زکریا ملتانی
شیخ الاسلام بہاؤ الحق و الدین زکریا ملتانی سُہروردی سلسلہ سہروردیہ کے بڑے بزرگ اور عارف کامل گذرے ہیں۔سلسلہ سہروردیہ کے صاحبِ کمال بزرگ جن کا پورا نام الشیخ الکبیر شیخ الاسلام مخدوم سید بہاؤ الدین ابو محمد زکریا الاسدی الہاشمی ہے۔ حافظ‘ قاری‘ محدث‘ مفسر‘ عالم‘ فاضل‘ عارف‘ ولی سب کچھ تھے‘۔ شیخ الشیوخ ابوحفص شہاب الدین سہروردی کے خلیفہ تھے۔ ساتویں صدی ہجری کے مجدد تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ظاہری و باطنی علوم میں یکتائے روزگار تھے، اسلام کے عظیم مبلغ تھے۔ آپ کے جد امجد مکہ معظمہ سے پہلے خوارزم آئے، پھر ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی
ملتان کے ضلع لیہ کے ایک قصبہ کوٹ کروڑ ضلع لیّہ میں 27 رمضان المبارک شب جمعہ آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کے جد امجدمخدوم کمال الدین علی شاہ مکہ مکرمہ سے خوارزم ہوتے ہوئے ملتان میں مقیم ہوئے۔ یہ عہد خسرو ملک غزنوی کا عہد تھا۔
آپ کے والد کی جانب سے اسدی ہاشمی اور والدہ کی جانب سے حسنی ہیں ۔
بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا پھر بخارا میں تحصیلِ علم کی۔ بعد ازاں حرمین شریفین پہنچے، حج و زیارت سے فارغ ہو کر بیت المقدس میں بھی علم حاصل کیا اور علم حدیث کی خاطر یمن بھی گئے۔ والد گرامی کے انتقال کے بعد آپ نے محض حصول علم و فن کے لیے پیادہ پا خراسان کا س
Hazrat Shah Rukn e Alam
#shaheuknealam #insta #instagram #muhammadtalalqadir #instagood #viral #viralreels #viralvideos #viralpost #viralmalaysia #foryou #foryou #foryoupage
حضرت شاہ رکن عالم ملتانی
حضرت شاہ رکن الدین عالم
آپ کا اسم گرامی رکن الدین ، لقب فضل اللہ اور کنیت ابو الفتح ہے.. آپ شیخ صدر الدین عارف کے بڑے صاحبزادے اور خلیفہ تھے۔ آپ کے دادا بہاؤ الدین زکریا ملتانی تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی راستی والدہ شاہ رکن عالم ہے جو فرغانہ کے شاہ جمال الدین کی صاحبزادی تھیں،اور بہاؤ الدین زکریا سے غیر معمولی عقیدت رکھتی تھیں۔ حافظ قرآن مجید تھیں ، تلاوت قرآن مجید سے غیر معمولی شغف رکھتی تھیں روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتی تھیں۔ ولادت باسعادت 9 رمضان المبارک 649ھ بروز جمعتہ المبارک کو ہوئی۔
ایک دن جب شاہ رکن الدین کی عمر مبارک چار سال تھی شیخ الاسلام بہاو الدین چار پائی پر بیٹھے تھے اور دستار مبارک سر سے اتار کر چار پائی پر رکھ دی تھی۔ حضرت صدر الدین عارف پاس ہی مودب بیٹھے تھے کہ ننھے رکن الدین کھیلتے کھیلتے دستار مبارک کے قریب آئے اور اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لی۔ والد ماجد نے ڈانٹا کہ یہ بے ادبی ہے مگر دادا حضور نے فرمایا کہ صدر الدین پگڑی پہننے سے اس کو نہ روکو وہ اس کا مستحق ہے اور یہ پگڑی میں اس کو عطا کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ دستار مبارک محفوظ کر دی گئی اور شاہ رکن الدین عالم اپنے والد بزرگوار کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو وہ دستار مبارک آپ کے سر پر رکھی گئی۔
ایک روز آپ کے والد ماجد دریا کے کنا
قلعہ کوہنا قاسم باغ
قاسم قلعہ ملتان
ملتان قلعہ یا پرانا قلعہ (جسے قلعہ کوہنا بھی کہا جاتا ہے) تقریباً 2600 سال قبل شہر کے وسط میں دریائے چناب اور راوی کے کنارے ایک اونچے ٹیلے پر تعمیر کیا گیا تھا تاکہ شہر کے مغرب اور شمال سے حملہ آوروں کے خلاف دفاع کیا جا سکے۔ تاریخ. اسے بار بار تباہ اور دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ آخری قلعہ 1100 سال پہلے بنایا گیا تھا۔ یہ 7000 فٹ لمبی دیوار کا ایک نیم دائرہ دار قلعہ تھا جس میں 46 گڑھ اور چار دروازے تھے جن کے نام خضری گیٹ، ہریری گیٹ، سکی گیٹ اور قاسم گیٹ تھے۔ دیوار کے قریب قلعوں کی حفاظت کے لیے 25 فٹ گہری اور 40 فٹ چوڑی کھائی تھی۔ یہ قلعہ 1818ء میں رنجیت سنگھ کی فوجوں نے تباہ کر دیا تھا اور آخر کار 1848-49 میں برطانوی فوج کی بمباری سے اسے مکمل طور پر منہدم کر دیا گیا تھا۔
قلعہ کوہنہ ملتان کا بارود خانہ بارود اور اسلحہ کے ذخیرہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ 1848 میں انگریزوں کے ملتان کے محاصرے کے دوران اسے بری طرح نقصان پہنچا۔ پاکستانی حکومت نے اسے دستکاری کی فروخت کے لیے نگار خانہ یا آرٹ ہاؤس میں تبدیل کر دیا۔
Qasim Fort | Kohna Fort | قلعہ کوہنہ | ملتان | Historical Fort | Muhammad Bin Qasim Qilla Multan
https://youtu.be/Z2gMy2qsa1E
بیٹی جی کا مندر
بیٹی جی کا مندر
ملتان دہلی گیٹ کے اندرون میں بہت سی پرانی عمارتیں موجود جن میں سے ایک بیٹی جی کا مندر بھی ہے جو 200 سال پرانا ہے جو کہ اک ہندو نواب نے اپنی بیٹی کے لئے بنوایا تھا تا کہ وہ وہاں پہ پوجا کر سکے ۔ آزادی کے وقت وہ ہندوستان چلے گئے اور مسلمانوں نے آ کے اس مندر پہ قبضہ کر لیا اور اس کو گھر میں تبدیل کر دیا۔ اب یہ مندر تقریبا 400 لوگوں
کا گھر بن چکا ہے
Khoni Burj | خونی برج | سکندر اعظم
خونی برج
327ق م کی بات ہے۔ جب سکندر اعظم نے ہندوستان کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ اس وقت اس کی فوج میں ایک لاکھ بیس ہزار پیادے اور پندرہ ہزار سوار شامل تھے۔ جہلم میں ہندوستانی راجہ پورس سے لڑا اور جہلم کو فتح کیا۔ سکندر نے اپنی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا انھیں دولت کا لالچ دیا زرخیز زمینوں پر قبضے کی امید دلائی یہ فوج ملتان کی طرف بڑھی یہاں ملوئی قوم آباد تھی جن کی شجاعت اور بہادری کی داستانیں پھیلی ہوئی تھیں جب سکندری افواج ملتان پر حملہ آور ہوئیں تو اس قوم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اس مہم کے دوران میں سکندر کی کمر میں تیر لگا جو ریڑھ کی ہڈی میں پیوست ہو گیا حکماء کی کوششوں کے باوجود یہ تیر نہ نکل سکا اس پر انھوں نے تیر کا کچھ حصہ کاٹ دیا تاکہ سکندر جنگ جاری رکھ سکے۔ تاہم کچھ دنوں بعد ملتان فتح ہو گیا یہاں یونانی فوج نے اپنے بادشاہ کے زخمی ہونے کا بھیانک انتقام لیا کہ شہر میں کسی کو زندہ نہ چھوڑا۔ یوں سکندر نے ملتان کو بھی فتح کر لیا۔ اور شہر خوں ریزہ ہو گیا تھا۔ انگریزوں نے خونی گڑھ کہا تھا اتنا ہی قدیم ہے جتنا شہر کی قلعہ بندی کی دیوار۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ سکھوں نے اسے خاص اہمیت دی ہے کیونکہ یہ اس جگہ پر 2 جنوری 1849 کو انگریزوں کے خلاف جنگ میں دونوں بازو یعنی ایک طرف دہلی گیٹ اور دوسری طرف پاک گیٹ کا دفاع کر سکتے ت