Umme Fahad

Umme Fahad Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Umme Fahad, Digital creator, .

09/05/2024

سومنات کا مندر اتنا بڑا تھا کہ ہندوستان کے سب راجے اس کے لیے جاگیریں وقف کرتے، اپنی بیٹیوں کو خدمت کے لیے وقف کرتے جوکہ ساری عمر کنواری رہتیں اور انہیں دیوداسیاں کہا جاتا، ہر وقت 2000 برہمن پوجا پاٹ کرنے کے لیے حاضر ہوتے اور 500 گانے بجانے خوبصورت عورتیں اور 300 قوال ملازم تھے، سومنات کے بت کی چھت 56 ستونوں پہ قائم تھی وہاں مصنوعی یا سورج کی روشنی کا بندوبست بالکل بھی نہیں تھا بلکہ ہال کے قندیلوں میں جڑے اعلیٰ درجے کے جواہرات روشنی مہیا کرتے تھے،
ﷲ کے دلاور سلطان محمود غزنوی بت شکن نے سونے و چاندی کے چھوٹے چھوٹے بتوں کو روندنے کے بعد بادشاہ بت کے سامنے جا کھڑے ہوئے، یہ بت 6 فٹ زمین کے اندر اور 9 فٹ زمین سے بلند تھا-
اسی دوران شہر کے معزز سمجھے جانے والے ہندوؤں نے منہ مانگی مال و دولت کی پیش کش کی کہ سومنات کے بادشاہ بت کو کچھ نا کہیں، تو سلطان محمود غزنوی کے دیسی دانشوروں نے مشورہ دیا کہ پتھر کو توڑنے کا کیا فائدہ جبکہ مال و دولت مسلمانوں کے کام آئے گا (یہی کنویں میں کتے والی سوچ ہمارے آجکل کے حکمرانوں کی بے کہ جہاد میں کیا فائدہ ہم اپنی معیشت مضبوط کرتے ہیں)
سلطان محمود غزنوی نے دیسی دانشوروں کی بات سُن کر کہا کہ "اگر میں نے تمھاری بات مان لی تو دنیا اور تاریخ مجھے بت فروش کہے گی جبکہ میری چاہت یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں مجھے محمود بُت شکن کے نام سے پکارا جائے"
یہ کہتے ہی محمود بُت شکن کی توحیدی غیرت جوش میں آئی اور ہاتھ میں پکڑا ہوا گرز سومنات کے دے مارا، اس کا منہ ٹوٹ کر دور جا گرا، پھر سلطان کے حکم پہ اس کے دو ٹکڑے کیے گئے تو اس کے پیٹ سے اس قدر بیش بہا قیمتی ہیرے، جواہرات اور موتی نکلے کہ جو ہندو معززین اور راجوں کی پیش کردہ رقم سے 100 گنا زیادہ تھے

محمود غزنوی نے وہ بت توڑا جو فتح مکہ سے ایک رات قبل بنو اُمیہ کے سردار نے کعبہ سے ٹرانسفر کروایا تھا کہ اسے سنبھال کے رکھنا ، ہم لینے آئیں گے ، وہ تو نہ آسکے لیکن بنو ہاشم سے محمود غزنوی ضرور پہنچ گیا توڑنے ..

اسی لئے کافر مورخین سلطان کو ڈاکو کہتے ہیں .. جبکہ اسلام اسے مال غنیمت کہتا ہے ۔
یاد رکھیں غیرت مند مسلمان بت شکن ہے... بت فروش نہیں..

بت شکن سلطان محمود غزنوی رح وہ ہستی ہے، جب ظاہر شاہ کی
حکومت میں 1974 ء کو زلزلہ
آیا ،محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی۔ منتظمین نے قبر کو ٹھیک کرنے کیلئے پوری قبر کھول دی۔ اس کو مرے ہوئے 1000 سال ہو گئے تھے۔ ان کی قبر میں عجیب منظر تھا، اس کا کفن تک میلا نہیں ہوا تھا۔ 1000 سال بعد بھی اس کا کفن ویسے کا ویسا ہی تھا۔ اس کاہاتھ سینے پر تھا اور کفن سینے سے کھلا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اسے آج ہی کوئی قبر میں اتار کر گیا ہے۔ اس کے ہاتھ کو ہاتھ لگایا گیا تو وہ نرم و نازک تھا۔ ساری دنیا میں اس بات کی خبر پھیل گئی۔

اللہ کے دین ، ملک و ملت کی حفاظت کرنے والوں کو اللہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بلند مقام عطا کرتا ہے۔🌺
اللہ پاک ہم سب کو عمل نیک کرنے کی توفیق دے آمین 🌹

08/05/2024

ڈاکٹر رابعہ کی وال سے لی گئی تحریر
عورت.

فیملی کے ساتھ ایک لیڈیز بیوٹی پارلر میں جانا ہوا. داخل ہوتے ہی داخلی دروازے کے دائیں سمت پڑے صوفے پر لیٹا سفید لباس میں ملبوس بھاری تن و توش کا مالک شخص پھرتی سے اٹھ بیٹھا. خود حفاظتی نظام نے ہمیں چوکنا کیا اور ہمارے بڑھتے قدم رک گئے . غور سے دیکھا تو آشکار ہوا کہ لٹھے کی مردانہ قمیض شلوار میں ملبوس شخصیت کوئی مرد نہیں بلکہ ایک ادھیڑ عمر چاک و چوبند خاتون تھیں. پہلی نظر کی ناگواری کے بعد یہ خاتون دلچسپی کا باعث بن گئیں. کچھ دیر کی گپ شپ سے اندازہ ہوا کہ یہ پارلر ان خاتون کی بیٹی چلاتی ہیں جبکہ یہ والد نما والدہ اپنی بیٹی کی گارڈ ہیں. خاتون کے کپڑوں میں پستول بھی موجود تھا چپل بھی سیاہ رنگ کی بھاری بھرکم پشاوری چپل تھی . بالونکی کٹنگ بھی مردانہ تھی جو قمیض کے کالر کے اوپر بھلی لگتی تھی. ان سے ان کے حلیے کی بابت پوچھا تو کہنے لگیں کہ میری تین بیٹیاں تھیں . ان کے والد اچانک ہارٹ اٹیک سے چل بسے . میں جوان تھی اور بچیاں بھی جوانی کا دروازہ عبور کر رہی تھیں. ہم چار عورتیں اس طرح ہو گئیں جیسے چار بھیڑیں رال ٹپکاتے دانت نکوستے بھیڑیوں کے نرغے میں آ گئی ہوں. خاتون کے مطابق شوہر کے چالیسویں کے روز انہوں نے اپنے بال کٹوا دیے . شوہر کے کپڑے جوتے پہنے ، پستول ڈب میں لگائی اور برادری میں اعلان کر دیا کہ میری بیٹیوں کی ماں مری ہے باپ ابھی زندہ ہے . اب جسے جو بات کرنی ہے مجھے مرد مان کے برابری کے لیول پر مخاطب ہو. کہتی ہیں برادری کو سانپ سونگھ گیا. کچھ بڑوں نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن میں نے ان چالیس دنوں میں پہلے ہفتے کے بعد اپنی کسی بچی کو سکول کالج جانے نہیں دیا تھا . کیونکہ میں عدت میں تھی اور بچیوں کے ساتھ جانے کے لیے خاندان میں کوئی مرد نہ ہونے کی وجہ سے گلی محلے کی تمام مرد لفٹ دینے کے لیے تیار تھے. اس لفٹ کی قیمت ہم ادا نہیں کر سکتی تھیں. چالیسویں پر برادری نے قورمے کی دیگ پکائی لیکن اس سے پہلے دو دن سے ہم ماں بیٹیاں بھوکی تھیں اور برادری سو رہی تھی. سو وہ دن گیا آج پندرہ سال ہو گے مجھے مرے ہوئے. اور ان کے والد کو میرا جسم اختیار کیے ہوئے . میری بڑی بیٹی نے تعلیم چھوڑ کر پارلر کا کام سیکھا . میں اس کی گارڈ بنی رہی. میں نے کار چلانا ان کے والد سے سیکھی تھی آج میں اپنی بچیوں کا باپ ڈرائیور گارڈ اور گن مین سب کچھ ہوں اور اچھے سے جانتی ہوں کہ گھر کا ایک مرد کیا کچھ ہوا کرتا ہے . اپنی بچیوں کو خود سکول کالج لے جاتی اور لے کر آتی . آج اپنی منجھلی بیٹی کو بیاہ چکی چھوٹی کا رشتہ بھی طے ہے بس اس کی گریجویشن مکمل ہو جائے اسے بھی رخصت کر دینگے .. بڑی بیٹی کمانے کے چکر میں لیٹ ہو گئی ہے دیکھیں اس کی قسمت میں کوئی مرد آتا ہے یا یہ بھی میری طرح خود ہی اپنا مرد بنے گی. .

پس نوشت : آخر ہمارے معاشرے میں مرد کے سہارے سے محروم عورت کے لیے زندگی باعزت کیوں نہیں . مشکل کیوں ہے ؟ عورت اگر مرد سے محروم ہو گئی تو کیا اپنی عزت غیرت یا حمیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہے . کسی بھی راہ چلتی گاڑی میں لفٹ لے سکنے والی.
آخر اس معاشرے میں درپیش مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے عورت کو اپنی نسوانیت سے محروم کیوں ہونا پڑے. اسے عورت ہونے کی سزا سناتے ہوئے اسے انسان ہونے کی رعایت کیوں نہیں دیتے.

07/05/2024

۔ *" ایک صحابی کا خوبصورت واقعہ "*

مدینہ کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے ۔ ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا ۔ غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا ۔ تاجر کا سارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں دکھا رہا تھا۔ تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا" بیچ دے گا۔

مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کا ہی دے دوں گا۔ اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لی۔ تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی.

مکہ سے ابو حذیفہ مدینہ آئے تو انہیں بھی اس لڑکی کا قصہ معلوم ہوا۔ لڑکی کی رحم دلی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسکے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جو قبول کرلیا گیا۔ یوں واپسی پر وہ لڑکی جس کا نام ثبیتہ بنت یعار تھا انکی بیوی بن کر انکے ہمراہ تھی اور وہ غلام بھی مالکن کے ساتھ مکہ پہنچ گیا۔

ابو حذیفہ مکہ آکر اپنے پرانے دوست عثمان ابن عفان سے ملے تو انہیں کچھ بدلا ہوا پایا اور انکے رویے میں سرد مہری محسوس کی۔ انہوں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ عثمان یہ سرد مہری کیوں!!۔ تو عثمان بن عفان نے جواب دیا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور تم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تو اب ہماری دوستی کیسے چل سکتی ہے۔ ابو حذیفہ نے کہا تو پھر مجھے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو اور اس اسلام میں داخل کردو جسے تم قبول کرچکے ہو۔

چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور وہ کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ گھر آکر انہوں نے اپنی بیوی اور غلام کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تو ان دونوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔

حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے کہا کہ چونکہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہو اس لیے میں اب تمہیں غلام نہیں رکھ سکتا لہذا میری طرف سے اب تم آزاد ہو۔ غلام نے کہا آقا میرا اب اس دنیا میں آپ دونوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ آپ نے مجھے آزاد کردیا تو میں کہاں جاؤں گا۔ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ غلام نے قران پاک سیکھنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں بہت سا قران یاد کرلیا۔ اور وہ جب قران پڑھتے تو بہت خوبصورت لہجے میں پڑھتے۔

ہجرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جن صحابہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور انکا یہ لے پالک بیٹا بھی تھا۔ مدینہ پہنچ کر جب نماز کے لیے امام مقرر کرنے کا وقت آیا تو اس غلام کی خوبصورت تلاوت اور سب سے زیادہ قران حفظ ہونے کی وجہ سے انہیں امام چن لیا گیا۔ اور انکی امامت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی نماز ادا کرتے تھے ۔

مدینہ کے یہودیوں نے جب انہیں امامت کرواتے دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ وہی غلام ہے جسے کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا۔ آج دیکھو کتنی عزت ملی کہ مسلمانوں کا امام بنا ہوا ہے.

اللہ پاک نے انہیں خوش گلو اسقدر بنایا تھا کہ جب آیاتِ قرآنی تلاوت فرماتے تو لوگوں پر ایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیر ٹھٹک کر سننے لگتے۔ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی۔ آپ ﷺ نے توقف کیوجہ پوچھی تو بولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا، اسکے سننے میں دیر ہوگئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت ﷺ خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔ دیکھا تو وہ بیٹھے تلاوت کررہے ہیں۔ آپ ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا : اللہ پاک کا شُکر ہے کہ اُس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا ۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ خوش قسمت صحابی کون تھے؟ انکا نام حضرت سالم رضی اللہ عنہ تھا۔ جو سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔ اللہ کی کروڑ ہا رحمتیں ہوں ان پر ۔

_السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)_

07/05/2024

کوشش کر کے سارہ واقع پڑھیے گا 💕
حضور ﷺ کی کوئی بہن نہیں تھی لیکن جب آپ سیدہ حلیمہ سعدؓیہ کے پاس گئے تو وہاں حضور کی ایک رضاعی بہن کا ذکر بھی آتا ہے جو آپ کو لوریاں دیتی تھیں اس کا نام سیدہ شیؓما تھا ۔
شام کے وقت جب خواتین کھانا پکانے میں مصروف ہو جاتیں ،تو بہنیں اپنے بھائی اٹھا کر باہر لے جاتیں اور ہر بہن کا خیال یہ ہوتا کہ میرے بھائی زمانے میں سب سے زیادہ خوب صورت ہے ۔ ۔
بنوسعد کے محلے میں بچیاں اپنے بھائی اٹھاتیں ایک کہتی میرے بھائی جیسا کوئی نہیں اور دوسری کہتی میرے بھائی جیسا کوئی نہیں
اتنے میں سیدہ شیمؓا اپنا بھائی سیدنا محمد ﷺ اٹھا کے لے آتیں اور دور سے کہتی میرا بھائی بھی آ گیا ہے تو سب کے سر جھک جاتے اور سب کہتیں ، نہیں نہیں تیرے بھائی کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ہم تو آپس کی بات کر رہے ہیں ۔۔۔
ابن ہشام سیرت کی سب سے پہلی کتاب ہے اسی میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
سیدہ شیمؓا حضور ﷺ کو اپنی گود میں لے کے سمیٹتیں اور پھر جھومتیں اور پھر وہ لوری دیتیں اور لوری کے الفاظ بھی لکھ دیئے ہیں جن کا ترجمہ ہے

اے ہمارے رب میرے بھائی محمد کو سلامت رکھنا آج یہ پالنے میں بچوں کا سردار ہے کل وہ جوانوں کا بھی سردار ہوگا اور پھر جھوم جاتیں ۔

پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ حضور ﷺ مکے چلے گئے اور سیدہ شیمؓا بھی جوان ہوئیں ، اُن کی شادی بھی کسی قبیلے میں ہوگئی حضور ﷺ نے اعلان نبوت کیا تیرہ سال کا وقت بھی گزر گیا اور آپ ﷺ مدینہ تشریف لے گئے ۔
جب غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو جس قبیلے میں سیدہ شیمؓا کی شادی ہوئی تھی اس قبیلے کے ساتھ مسلمانوں کا ٹکراؤ ہو گیا ۔۔۔ اللہ رَبُّ العِزَّت نے مسلمانوں کو فتح عطا کر دی تو اس قبیلے کے چند لوگ صحابہ کرام ؓ کے ہاتھوں گرفتار ہوکر قید کر دیئے گئے ، تب وہ لوگ اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لئے فدیہ جمع کرنے لگے ، قبیلے کے سردار بھی گھر گھر جا کر رقم جمع کر رہے تھے ۔
چلتے چلتے وہ سیدہ شیمؓا کے گھر پہنچ گئے جو کہ اپنی عمر کا ایک خاصا حصہ گزار چکی تھیں، کہنے لگے کہ اتنا حصہ آپکا بھی آتا ہے ۔
سیدہ شیمؓا نے کہا حصہ کس لئے ؟
لوگوں نے کہا جو لڑائی ہوئی ہے اور اس میں ہمارے آدمی گرفتار ہوچکے ہیں ، باتیں کرتے کرتے کسی کے لبوں پر محمد ﷺ کا نام بھی آ گیا تو سیدہ شیؓما سن کر کہنے لگی اچھا تو کیا انہوں نے تمہارے لوگ پکڑے ہیں ؟
کہا ۔۔۔ ہاں
سیدہ شیمؓا نے کہا تم رقم اکٹھی کرنا چھوڑ دو مجھے ساتھ لے چلو ۔
سردار نے کہا آپ کو ساتھ لے چلیں ؟
سیدہ شیؓما کہنے لگیں ہاں تم نہیں جانتے وہ میرا بھائی لگتا ہے ۔
قبیلے کے سردار کے ساتھ جب سیدہ شیؓما حضور ﷺ کے نوری خیموں کی طرف جا رہی تھیں اور صحابہ کرامؓ ننگی تلواروں سے پہرہ دے رہے تھے ، وہ مدنی دور تھا ۔
سیدہ شیمؓا قوم کے سرداروں کے ساتھ جب آگے بڑھنے لگیں تو صحابہ ؓ نے تلواريں سونتیں اور پکارا
او دیہاتی عورت رک جا ، دیکھتی نہیں آگے کوچہء ِ رسول ﷺ ہے ۔۔۔آ گے بغیر اذن کے جبریلؑ بھی نہیں جا سکتے تم کون ہو؟
سیدہ شیمؓا نے جواب میں جو الفاظ کہے ان کا اردو ترجمہ یہ ہے ۔۔۔۔ میری راہیں چھوڑ دو تم جانتے نہیں میں تمہارے نبی ﷺ کی بہن لگتی ہوں ۔
تلواریں جھک گئیں ، آنکھوں پر پلکوں کی چلمنیں آ گئیں راستہ چھوڑ دیا گیا۔۔۔ سیدہ شیمؓا حضور ﷺ کے خیمہء ِ نوری میں داخل ہو گئیں تو حضور ﷺ نے دیکھا اور پہچان گئے ۔ فورا اٹھ کھڑے ہوئے فرمایا بہن کیسے آنا ہوا ؟
کہا آپ ﷺ کے لوگوں نے ہمارے کچھ بندے پکڑ لئے ہیں ان کو چھڑانے آئی ہوں ۔
حضور ﷺ نے فرمایا بہن تم نے زحمت گوارا کیوں کی ۔پیغام بھیج دیتیں میں چھوڑ دیتا لیکن تم آ گئیں اچھا ہوا ملاقات ہو گئی ۔
پھر حضور ﷺ نے قیدیوں کو چھوڑنے کا اعلان کیا کچھ گھوڑے اور چند جوڑے سیدہ شیؓما کو تحفے میں دیدیئے کیونکہ بھائیوں کے دروازے پر جب بہنیں آتی ہیں تو بھائی خالی ہاتھ تو بہنوں کو نہیں لوٹایا کرتے ۔
حضور ﷺ نے بہت کچھ عطا کیا اور رخصت کرنے خیمے سے باہر تشریف لے آئے تو صحابہ ؓ کی جماعت منتظر تھی

فرمایا اے صحابہ ! آپ جانتے ہیں کہ جب بھی میں قیدی چھوڑا کرتا ہوں تو میری یہ عادت ہے کہ آپ سے مشاورت کرتا ہوں لیکن آج ایسا موقع آیا کہ میں نے آپ سے مشاورت نہیں کی اور قیدی بھی چھوڑ دیئے
صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ حضور ﷺ مشاورت کیوں نہیں کی؟ ارشاد تو فرمائیں ۔۔۔
فرمایا آج میرے دروازے پر میری بہن آئی تھیں

••

06/05/2024

🥀 _*بیٹیوں کو گھر داری ضرور سکھائیں*_ 🥀

اپنی بیٹی کو آپ جیسی چاہیں جدید تعلیم دلوائیں مگر ان کو گھر کے کام ضرور سیکھائیے انہیں سر چڑھا کر ناکارہ مت بننے دیں
محبت کریں بیٹیوں کے احساسات کا خیال کریں
ان کو اچھائی برائی میں فرق سیکھا کر ضرورت کے مطابق آزادی بھی دیں مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں یاد دلاتی رہیں کے ان کے ہاتھوں میں آپ کی عزت ہے
ماسیوں کی عادت نہ ڈالیں اسے چھوٹی عمر سے گھریلو سرگرمیوں میں شامل کریں تاکہ انہیں بڑے ہو کر اور سسرال جا کر کام کرنا ظلم نہ لگے اپنی بیٹی کو کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی نہ بنائیے
جس طرح ایک مرد جو کمانے سے جی چرائے اور اپنی بیوی بچوں کی ذمہ داری نہ اٹھائے وہ عوامی زبان میں ہڈ حرام کہلاتا ہے
بالکل اسی طرح وہ عورت جو گھر کے کاموں سے جی چرائے جیسے گھر سمبھالنا نہ آئے وہ بھی اس نکمے مرد کی طرح ہڈ حرام کہلانے کی مستحق ہوتی ہے
بیٹیوں کی شادی سے پہلے ان کے منہ میں لگی چوسنی چھڑوا دیں
سسرال والے آپ کی بیٹی کو بہو بنانے آئینگے اسے گود لینے نہیں کم از کم اتنا کام ضرور سیکھا کر بھیجیں کے لڑکی کو وہاں کا کام دیکھ کر یہ حیرانی نہ ہو کہ اچھا گھر میں یہ سب بھی ہوتا ہے ؟
اپنی بیٹیوں کو ایک مکمل ذمہ دار عورت بنائیے انہیں بتائیے کہ حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا جو کے تمام جنت کی عورتوں کی سردار ہیں وہ بھی اپنے گھریلو کام خود کیا کرتی تھیں اس لیے گھر کے کام کرنے میں تمھاری کوئی تزلیل نہیں ہوگی
اشد ضرورت اور دکھ بیماری کے وقت ملازموں کی مدد ضرور لی جا سکتی ہے مگر خود کو ان کا عادی بنا لینا کاہلی اور سستی کے سوا اور کچھ نہیں
آپ کی بیٹی کی گود میں آپ کی اور اس کے نصیب میں لکھے ہوئے مرد کی پوری نسل پروان چڑھے گی ایک نکھٹو عورت پوری نسل کو نکمہ بنانے کی طاقت رکھتی ہے
ہمارے ارد گرد ایسے کئی سلجھے ہوئے اور پڑھے لکھے خاندان موجود ہیں کہ جن کے گھر کے ماحول اور نسل کو ایک نکمی عورت نے آ کر تباہ کیا خدارا اپنی بیٹیوں کو ناکارہ مت بنایے۔

04/05/2024
04/05/2024

ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے ‏قران پاک کے 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات۔

1 - گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83

2 - غصے کو قابو میں رکھو۔
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134

3 - دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو۔
سورۃ القصص، آیت نمبر 77

4 - تکبر نہ کرو۔
سورۃ النحل، آیت نمبر 23

5 - دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو۔
سورۃ النور، آیت نمبر 22

6 - لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو۔
سورۃ لقمان، آیت نمبر 19

7 - اپنی آواز نیچی رکھا کرو۔
سورۃ لقمان، آیت نمبر 19

8 - دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو۔
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 11

9 - والدین کی خدمت کیا کرو۔
سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23

10 - والدین سے اف تک نہ کرو۔
سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23

11 - والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو۔
سورۃ النور، آیت نمبر 58

12 - لین دین کا حساب لکھ لیا کرو۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282

13 - کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو۔
سورۃ الإسراء، آیت نمبر 36

14 - اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 280

15 - سود نہ کھاؤ۔
سورۃ البقرة ، آیت نمبر 278

16 - رشوت نہ لو۔
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 42

17 - وعدہ نہ توڑو۔
سورۃ الرعد، آیت نمبر 20

18 - دوسروں پر اعتماد کیا کرو۔
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

19 - سچ میں جھوٹ نہ ملایا کرو۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 42

20 - لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو۔
سورۃ ص، آیت نمبر 26

21 - انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 135

22 - مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیا کرو،
سورۃ النساء، آیت نمبر 8

23 - خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 7

24 - یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 2

25 - یتیموں کی حفاظت کرو۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 127

26 - دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 6

27 - لوگوں کے درمیان صلح کراؤ۔
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 10

28 - بدگمانی سے بچو۔
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

29 - غیبت نہ کرو۔
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

30 - جاسوسی نہ کرو۔
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

31 - خیرات کیا کرو۔
سورۃ البقرة، آیت نمبر 271

32 - غرباء کو کھانا کھلایا کرو۔
سورة المدثر، آیت نمبر 44

33 - ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو۔
سورة البقرۃ، آیت نمبر 273

34 - فضول خرچی نہ کیا کرو۔
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67

35 - خیرات کرکے جتلایا نہ کرو۔
سورة البقرۃ، آیت 262

36 - مہمانوں کی عزت کیا کرو۔
سورۃ الذاريات، آیت نمبر 24-27

37 - نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر44

38 - زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو۔
سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 36

39 - لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو۔
سورة البقرة، آیت نمبر 114

40 - صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں۔
سورة البقرة، آیت نمبر 190

41 - جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو۔
سورة البقرة، آیت نمبر 190

42 - جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ۔
سورة الأنفال، آیت نمبر 15

43 - مذہب میں کوئی سختی نہیں۔
سورة البقرة، آیت نمبر 256

44 - تمام انبیاء پر ایمان لاؤ۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 150

45 - حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو۔
سورة البقرة، آیت نمبر، 222

46 - بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ۔
سورة البقرة، آیت نمبر، 233

47 - جنسی بدکاری سے بچو۔
سورة الأسراء، آیت نمبر 32

48 - حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 247

49 - کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو۔
سورة البقرة، آیت نمبر 286

50 - منافقت سے بچو۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 14-16

51 - کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو۔
سورة آل عمران، آیت نمبر 190

52 - عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے۔
سورة آل عمران، آیت نمبر 195

53 - بعض رشتہ داروں سے شادی حرام ہے۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 23

54 - مرد خاندان کا سربراہ ہے۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 34

55 - بخیل نہ بنو۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 37

56 - حسد نہ کرو۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 54

57 - ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 29

58 - فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 135

59 - گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو۔
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2

60 - نیکی میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2

61 - اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی۔
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 100

62 - صحیح راستے پر رہو۔
سورۃ الانعام، آیت نمبر 153

63 - جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو۔
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 38

64 - گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو۔
سورۃ الانفال، آیت نمبر 39

65 - مردہ جانور، خون اور سور کا گوشت حرام ہے۔
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 3

66 - شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو۔
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90

67 - جوا نہ کھیلو۔
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90

68 - ہیرا پھیری نہ کرو۔
سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 70

69 - چغلی نہ کھاؤ۔
سورۃ الھمزۃ، آیت نمبر 1

70 - کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو۔
سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31

71 - نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو۔
سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31

72 - آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو، انھیں مدد دو۔
سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 6

73 - طہارت قائم رکھو۔
سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 108

74 - اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
سورۃ الحجر، آیت نمبر 56

75 - اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 17

76 - لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ۔
سورۃ النحل، آیت نمبر 125

77 - کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
سورۃ فاطر، آیت نمبر 18

78 - غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔
سورۃ النحل، آیت نمبر 31

79 - جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو۔
سورۃ النحل، آیت نمبر 36

80 - کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو (تجسس نہ کرو)۔
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

81 - اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو۔
سورۃ النور، آیت نمبر 27

82 - اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے۔
سورۃ یونس، آیت نمبر 103

83 - زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو۔
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 63

84 - اپنے حصے کا کام کرو۔ اللہ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین تمہارا کام دیکھیں گے۔
سورة توبہ، آیت نمبر 105

85 - اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
سورۃ الکہف، آیت نمبر 110

86 - ہم جنس پرستی میں نہ پڑو۔
سورۃ النمل، آیت نمبر 55

87 - حق (سچ) کا ساتھ دو، غلط (جھوٹ) سے پرہیز کرو۔
سورۃ توبہ، آیت نمبر 119

88 - زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو۔
سورۃ الإسراء، آیت نمبر 37

89 - عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں۔
سورۃ النور، آیت نمبر 31

90 - اللّٰه شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 48

91 - اللّٰه کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
سورۃ زمر، آیت نمبر 53

92 - برائی کو اچھائی سے ختم کرو۔
سورۃ حم سجدۃ، آیت نمبر 34

93 - فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو۔
سورۃ الشوری، آیت نمبر 38

94 - تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 13

95 - اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے۔
سورۃ الحدید، آیت نمبر 27

96 - اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے۔
سورۃ المجادلۃ، آیت نمبر 11

97 - غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ۔
سورۃ الممتحنۃ، آیت نمبر 8

98 - خود کو لالچ سے بچاؤ۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 32

99 - اللہ سے معافی مانگو وہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 199

100 - جو دست سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو۔
سورۃ الضحی، آیت نمبر 10

اسے لازمی پڑھیں اور دیکھیں کہاں کہاں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ایک ڈائری بنا لیں تو ذیادہ اچھا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا کثیرا

انسان اتنا برا نہیں ہوتا جتنا شناختی کارڈ پر نظر اتا ہے🥺😑 اور اتنا اچھا بھی نہیں ہوتا جتنا فیس بک پر نظر آتا ہے🥴Every ti...
03/05/2024

انسان اتنا برا نہیں ہوتا جتنا شناختی کارڈ پر نظر اتا ہے🥺😑
اور اتنا اچھا بھی نہیں ہوتا جتنا فیس بک پر نظر آتا ہے🥴

Every time is
Tea time..

‏اس بلڈنگ کو غور سے دیکھیے اس پرعربی میں لکھا ہے فندق وقف عثمان بن عفان  یعنی یہ ہوٹل عثمان بن عفان کی جانب سے وقف ہے۔یہ...
02/05/2024

‏اس بلڈنگ کو غور سے دیکھیے
اس پرعربی میں لکھا ہے
فندق وقف عثمان بن عفان
یعنی
یہ ہوٹل عثمان بن عفان کی جانب سے وقف ہے۔

یہ عثمان بن عفان کون ہیں ؟

داماد محمد رسول اللہ ﷺ
خلیفہ سوئم سیدنا عثمان بن عفان ؓ ہیں۔

ان کی ملکیت آج بھی مدینہ منورہ میں موجود ہے اور اس زمین پر سعودی حکومت کی جانب سے ہوٹل تعمیر کیا گیا ہے جس کی آمدن غربا اور مسکین میں سیدنا عثمان ؓ کی جانب سے صدقہ کی جاتی ہے۔

مدینہ منورہ 🥰🤍
کیا آپ کو معلوم ہے کہ سعودی عرب کے ایک بینک میں خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کا آج بھی کرنٹ اکاؤنٹ ہے۔ یہ جان کر بھی آپ کو حیرت ہوگی کہ مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے۔آج بھی حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ مسجد نبوی کے قریب ایک عالیشان رہائشی ہوٹل زیر تعمیر ہے جس کا نام ’’ عثمان بن عفانؓ ہوٹل ‘‘ہے۔ تفصیل جاننا چاہیںگے؟ یہ وہ عظیم صدقہ جاریہ ہے جو حضرت عثمان بن عفان ؓکے صدق نیت کا نتیجہ ہے۔
جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں پینے کے صاف پانی کی بڑی قلت تھی۔ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا تھا۔اس کنویں کا نام ’’ بیئر رومہ ‘‘ یعنی رومہ کاکنواں تھا۔ مسلمانوں نے رسول اکرمؐ سے شکایت کی اور اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا:
کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کیلئے وقف کردے،ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطا کرے گا۔حضرت عثمان بن عفانؓ ، یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لئے یہودی نے فروخت کرنے سے انکار کردیا۔ حضرت عثمانؓ نے یہ تدبیر کی کہ یہودی سے کہا کہ پورا کنواں نہ سہی، آدھاکنواں مجھے فروخت کردو۔آدھا کنواں فروخت کرنے پرایک دن کنویں کا پانی تمہارا اور دوسرے دن میرا ہوگا۔ یہودی لالچ میں آگیا۔اس نے سوچا کہ حضرت عثمانؓ اپنے دن میں پانی زیادہ پیسوں میں فروخت کریں گے،اس طرح مزید منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان کو فروخت کردیا۔
حضرت عثمانؓ نے اپنے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دی۔ لوگ حضرت عثمان کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کیلئے بھی ذخیرہ کرلیتے۔یہودی کے دن کوئی شخص بھی پانی خریدنے نہیں جاتا۔ یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان سے باقی آدھا کنواں خریدنے کی گزارش کی۔ اس پر حضرت عثمانؓ راضی ہوگئے اور پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔
اس دوران ایک آدمی نے حضرت عثمانؓ کو کنواں دوگنا قیمت پر خریدنے کی پیشکش کی۔ حضر ت عثمانؓ نے فرمایا کہ مجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیشکش ہے۔ اس نے کہا کہ3 گنا دوںگا۔ حضرت عثمان نے فرمایا مجھے اس سے کئی گنا کی پیشکش ہے۔ اس نے کہا کہ میں 4گنا دوں گا۔ حضرت عثمان نے کہا مجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیشکش ہے۔اس طرح آدمی بڑھاتا رہا اور حضرت عثمان یہی جواب دیتے رہے۔یہاں تک اس آدمی نے کہا حضرت آخر کون ہے جو آپ کو 10گنا دینے کی پیشکش کر رہا ہے۔ حضرت عثمان نے فرمایا کہ میرا رب مجھے ایک نیکی پر 10گنا اجر دینے کی پیشکش کرتا ہے۔
وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا۔ عثمانی سلطنت کے زمانے میں اس باغ کی دیکھ بھال ہوئی۔ بعد ازاں سعودی حکومت کے عہدمیں اس باغ میں کھجوروں کے درختوں کی تعداد1550 ہوگئی۔
یہ باغ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پر رجسٹرڈ ہوا۔ وزارت زراعت یہاں کے کھجور، بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پر بینک میں جمع کرتی رہی یہاں تک کہ اکائونٹ میں اتنی رقم جمع ہوگئی کہ مرکزی علاقہ میں ایک پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفانؓ کے نام پر ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیاجانے لگا۔
اس ہوٹل سے سالانہ 50ملین ریال آمدنی متوقع ہے۔
اس کا آدھا حصہ یتیموں اور غرباء میں تقسیم ہوگا جبکہ دوسرا آدھا حضرت عثمان کے اکائونٹ میں جمع ہوگا۔
اندازہ کیجئے کہ حضرت عثمانؓ کے اس مقدس عمل کو اللہ تعالیٰ نے کیسے قبول فرمایا اور اس میں ایسی برکت عطا کی کہ قیامت تک کیلئے ان کیلئے صدقہ جاریہ بن گیا۔

عجب دُنیا عجب نظارے.....خیبر پختونخواہ ( صوبہ سرحد) کے علاقے خیبر ایجنسی ( لنڈی کوتل)  کے  خیبر رائفلز آفیسر میس میں جب ...
02/05/2024

عجب دُنیا عجب نظارے.....خیبر پختونخواہ ( صوبہ سرحد) کے علاقے خیبر ایجنسی ( لنڈی کوتل) کے خیبر رائفلز آفیسر میس میں جب برٹش انڈین آفیسر جیمز سکویڈ نے برگد کے درخت کو زنجیروں میں جکڑنے کا حُکم دیا. ..یہ کہانی ہے 1898 کی ...ایک دن جب برٹش انڈین رجمنٹ کا آفیسر جیمز سکویڈ شراب پی کر اپنے کمرے سے باہر نکلے,تو اُسکا سر چکرا رہا تھا.اسی حالت میں اُسکی نظر اس برگد کے درخت پر پڑی ,وہ سوچنے لگا کہ یہ درخت اپنی جگہ سے حرکت کر رہا ہے.تو فوراً اُس نے نشے کی حالت میں برٹش انڈین سپاہیوں کو حُکم دیا.کہ اس برگد کے درخت کو گرفتار کرکے زنجیروں میں جکڑا جائے...پس جیمز سکویڈ کے حُکم سے اس درخت کو زنجیروں میں جکڑا گیا...جو آج تک 121 سال گُزرنے کے باوجود زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے....ہا ئے رے تاریخ کیا کیا رنگ ا دکھائے گی..

02/05/2024

میں نے اپنی زندگی کے گزرے ہوۓ چند دنوں سے جو سیکھا ہے وہ ہے خاموش ہو جانا، کوئی دل دکھاۓ، خاموش ہو جاؤ کوئی آپ کے بارے میں غلط بات کرے، خاموش ہو جاؤ رونے کا دل چاہے، خاموش ہو جاؤ ازیّت حدوں کو چھونے لگے، خاموش ہو جاؤ ماضی کے دکھ دن و رات کے کسی بھی پہر آپ کو رلانے آئیں خاموش ہو جاؤ کوئی آپ کو آپ کی برداشت کی آخری حد تک ستاۓ، تب بھی خاموش ہو جاؤ قسم سے آپ کی اس خاموشی کا اجر آپ کو آپ کا رب ایسے عطا کرے گا کہ آپ کی آنکھیں تشّکر سے بھیگ جإیں گی، آپ کا دل ان شکر کے سجدوں میں ہی کہیں رہ جاۓ گا اور اس لمحے آپ کو احساس ہو گا کہ خاموش ہو جانا کس قدر بہتر ہے گلہ و شکوہ کرنے سے - 🔥💯👑

30/04/2024

‏ایک نائب قاصد تھا‘ پوسٹل سروس کے چیئرمین کے دفتر پر کام کرتا تھا‘ وہ صاحب کی فائلیں ڈی جی کے آفس لے کر جاتا تھا‘ فائلیں وہاں سے اکاؤنٹس برانچ جاتی تھیں اور پھران فائلوں کو واپس چیئرمین آفس لانا بھی اس کی ذمہ داری تھی‘بندہ محمد بشیر کی ذمہ داریاں یہیں تک محدود نہیں تھیں بلکہ گرمیوں میں صاحب کے آنے سے پہلے اے سی آن کرنا اور سردیوں میں ہیٹر جلا کر دفتر گرم کرنا‘
میز کی صفائی‘ ڈسٹ بین کلیئر کرنا‘ باتھ روم میں تولیہ‘ صابن‘ ٹشو پیپرز‘ ٹوتھ پیسٹ اور ماؤتھ واش رکھنا۔ صاحب کی گاڑی کا دروازہ کھولنا‘ ڈکی سے بریف کیس نکالنا‘ مہمانوں کا استقبال‘ چائے پانی کا بندوبست‘ ٹفن باکس کھول کر لنچ لگانا‘ برتن دھونا‘ صاحب کا۔ کوٹ اتارنا‘ میٹنگ سے پہلے کوٹ پہنانا‘ صاحب کا بریف کیس گاڑی تک لانا‘ صاحب کیلئے دروازے کھولنا‘ صاحب کے جانے کے بعد دفتر کو اپنی نگرانی میں لاک کرانا‘ بیگم صاحبہ کی فرمائشیں پوری کرنا‘ خانساماں کو سبزی‘ ترکاری‘ گوشت اور اناج کی دکانوں تک لے کر جانا‘ درزی سے کپڑے لانا‘ بیگم صاحبہ کے جوتے تبدیل کرانا اور دھوبی کے ساتھ حساب کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا لیکن ان تمام فرائض کی ادائیگی کے بعد اسے صرف آٹھ ہزار روپے ملتے تھے‘ یہ آٹھ ہزار روپے اس کی کل متاع تھے‘ زندگی کے تمام تقاضے آٹھ ہزار روپے کے اس کمزور سے ستون پر کھڑے تھے اور یہ ستون روز دائیں بائیں لرزتا کانپتا تھا۔وہ نسلوں سے غریب تھا‘ والد بھی نائب قاصد تھا‘ وہ فوت ہونے سے پہلے اسے بھی نائب قاصد بھرتی کراگیا‘ تعلیم انڈر میٹرک تھی اور یہ تعلیم بھی اس نے ٹھنڈی ننگی زمین پر بیٹھ کر حاصل کی تھی‘ بہنیں شادی شدہ تھیں مگر وہ بھی عسرت ناک زندگی گزار رہی تھیں‘ ایک بڑا بھائی تھا‘ وہ غربت کی وجہ سے بھاگ گیا‘ وہ آخری بار کراچی میں دیکھا گیا‘
اس کے بعد اس کی کوئی خبر نہیں ملی‘ چیئرمین صاحب کی مہربانی سے والد کا سرکاری کوارٹر اس کے نام منتقل ہو گیا‘ یہ بوسیدہ‘ بدبودار کوارٹر اس کی کل کائنات تھا لیکن ٹھہریئے کوارٹر کے علاوہ بھی اس کی ایک کائنات تھی۔ یہ کائنات بوڑھی بیمار والدہ تھی‘ بندہ محمد بشیر نے بچپن میں مولوی صاحب سے سن لیا‘ ماں کی خدمت کرنے والا دنیا اور آخرت دونوں میں سرفراز ہوتا ہے‘یہ نقطہ بیج بن کر اس کے دماغ کی زرخیز مٹی میں گرا اور وہ بیج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تناور درخت بن گیا‘
ماں اس کی واحد پناہ گاہ تھی اور وہ ماں کا تنہا سہارا تھا‘ وہ دن کے وقت چیئرمین صاحب کی چاکری کرتا تھا اور صبح‘ شام اور رات میں والدہ کی خدمت‘ یہ اس کی کل زندگی تھی‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں بندہ محمد بشیر نے شادی نہیں کی کیوں؟ یہ وجہ بھی اس کی زندگی کی طرح دلچسپ تھی‘ بندہ محمد بشیر کی والدہ حج کرنا چاہتی تھی‘ یہ والدہ کی زندگی کی واحد خواہش تھی‘ بندہ محمد بشیر جب ماں کی گود میں تھا تو ماں اسے تھپتھپاتی تھی‘ ہلاتی تھی‘ لوریاں دیتی تھی اور ساتھ ساتھ کہتی جاتی تھی
’’میرا محمد بشیر مجھے حج کرائے گا‘ میرا محمد بشیر مجھے مکے مدینے لے کر جائے گا‘‘ بندہ محمد بشیر یہ فقرہ سن سن کر بڑا ہوا تھا چنانچہ اس نے ماں کے حج کو بھی اپنے فرائض کا حصہ بنا لیا تھا‘ وہ ماں کو ہر صورت حج کرانا چاہتا تھا حج مہنگا تھا اور بندہ محمد بشیر کی آمدنی قلیل تھی‘ وہ اگر اس قلت میں شادی بھی کر لیتا تو ماں کا حج ناممکن ہو جاتا چنانچہ اس نے ماں کے حج تک شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا‘ وہ ہر ماہ اپنی قلیل آمدنی سے ڈیڑھ دو ہزار روپے بچاتا لیتا تھا
اور ماں کے حج فنڈ میں جمع کر دیتا تھا‘ یہ فنڈ چیونٹی کی طرح رینگتا رینگتا آگے بڑھ رہا تھا‘ ہم سٹوری کو یہاں روکتے ہیں اور آپ کو یہ بتاتے ہیں لوگ محمد بشیر کو بندہ محمد بشیر کیوں کہتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے محمد بشیر کو عاجزی اور انکساری کی نعمت سے نواز رکھا تھا‘ وہ جس کو بھی اپنا تعارف کراتا تھا‘ ذرا سا جھکتا تھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہتا تھا ’’بندے کا نام ہے محمد بشیر‘‘ سننے والوں کو ہنسی آ جاتی تھی‘ لوگوں نے آہستہ آہستہ اس کا نام ہی بندہ محمد بشیر رکھ دیا‘ وہ اس ٹائٹل پر خوش تھا‘
وہ درخواستوں میں خود اپنا نام بندہ محمد بشیر لکھ دیتا تھا اور یوں وہ سچ مچ بندہ محمد بشیر بن گیا۔ہم واپس ماں کے حج کی طرف آتے ہیں‘ بندہ محمد بشیر نے بہرحال 2005ء میں حج کے پیسے جمع کر لئے‘ وہ درخواست جمع کرانے گیا تو پتہ چلا ماں محرم کے بغیر حج نہیں کر سکتی۔ یہ نئی افتاد تھی‘وہ بڑی مشکل سے دس سال میں ایک حج کے پیسے جمع کر پایا تھا‘ وہ اب اپنے لئے کہاں سے پیسے لاتا؟ وہ ہمت ہار گیا اور پریشانی کے عالم میں گلیوں میں پھرنے لگا‘ اس دوران ایک اور واقعہ پیش آ گیا‘
محمد نعیم ساتھی نائب قاصد تھا‘ نعیم کا بیٹا پتنگ اڑاتا ہوا چھت سے گر گیا‘ بچہ شدید زخمی تھا‘
‏نعیم کو آپریشن کیلئے دو لاکھ روپے چاہیے تھے‘ اس نے دوڑ بھاگ کرکے لاکھ روپے جمع کر لیے‘ لاکھ روپے کی کمی تھی‘ نعیم مجبوری کے عالم میں بندہ محمد بشیر کے پاس آ گیا‘ محمد بشیر عجیب مخمصے کا شکار ہوگیا‘ وہ حج کی دوسری درخواست کے لیے خود قرض تلاش کر رہا تھا جبکہ محمد نعیم اس سے ماں کی درخواست کے پیسے بھی مانگ رہا تھا‘ وہ نعیم کو انکار کرتا تو بچے کے بچنے کے امکانات کم ہو جاتے
اور وہ اگر حج کے پیسے نعیم کو دے دیتا تو ماں بیمار تھی وہ حج کے بغیرہی دنیا سے رخصت ہو جاتی‘ محمد بشیر بری طرح پھنس گیا‘ نعیم کے پاس وقت کم تھا‘ وہ محمد بشیر کے قدموں میں جھک گیا اور یہ وہ لمحہ تھا جس میں بشیر نے اپنی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ کیا‘ وہ گھر گیا‘ الماری سے رقم نکالی اور نعیم کے حوالے کردی۔ وہ اس کے بعد سیدھا مسجد گیا‘ دو رکعت نماز نفل پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کی ’’یا باری تعالیٰ میری کوشش میں کوئی کمی نہیں تھی‘ شاید آپ ہی کو منظور نہیں تھا‘
آپ اب میری ماں کو صبر دے دیں‘ آپ اسے حوصلہ دے دیں‘‘ یہ دعا دعا کم اور دوا زیادہ تھی‘ وہ اطمینان قلب کی دولت سمیٹ کر گھر واپس آیا اور گہری نیند سو گیا۔ بندہ محمد بشیر کا اگلا دن حیران کن تھا‘ محکمے نے دو سٹاف ممبرز کو سرکاری اخراجات پر حج پر بھجوانے کا فیصلہ کیا‘ قرعہ اندازی ہوئی اور بندہ محمد بشیر اور محمد نعیم کے نام نکل آئے‘ محمد نعیم کو ہسپتال میں اطلاع دی گئی‘ وہ سیدھا دفتر آیا‘ چیئرمین سے ملاقات کی اور محمد بشیر کی زندگی‘ دس سال تک ماں کے حج کیلئے رقم جمع کرنے
اور پھر یہ رقم زخمی بچے کے آپریشن کیلئے دینے تک ساری داستان انہیں سنا دی‘ چیئرمین کے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ محمد نعیم نے چیئرمین سے عرض کیا ’’میری درخواست ہے آپ میری جگہ محمد بشیر کی والدہ کو حج پر بھجوا دیں‘ میں جوان آدمی ہوں‘ مجھے اللہ تعالیٰ مزید مواقع دے گا‘‘ چیئرمین کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی‘ نعیم نے درخواست دی۔ چیئرمین نے منظوری دے دی اور یوں بندہ محمد بشیر اپنی والدہ کو ساتھ لے کر حج پر روانہ ہو گیا‘ محمد بشیر حج کے دوران
اپنی ماں کی جی جان سے خدمت کرتا رہا‘ یہ خدمت دیکھ کر ایک ساتھی خاندان متاثر ہوا اور حج کے دوران ہی اسے بیٹی کا رشتہ دے دیا‘ وہ اور اس کی والدہ واپس آئے‘ چند ماہ بعد شادی ہوئی‘ سسر نے بیٹی کو جہیز میں دس مرلے کا چھوٹا سا مکان دے دیا‘ یہ لوگ نئے گھر میں شفٹ ہوئے‘ لڑکی پڑھی لکھی اور سمجھ دار تھی‘ اس نے گھر میں دس سلائی مشینیں رکھیں۔ محلے کی لڑکیاں اکٹھی کیں
اور اپنا بوتیک بنا لیا‘ بوتیک کامیاب ہو گیا‘ آج دس برس بعد بندہ محمد بشیر ملک محمد بشیر بن چکا ہے‘ یہ ہر سال دس ضرورت مندوں کو حج کراتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہے‘ یہ اپنی کامیابی کو کامیابی نہیں حج اکبر کہتا ہے‘ ایک ایسا حج جس کا دروازہ محمد نعیم کے زخمی بیٹے کے زخمی سر میں تھا اور محمد بشیر اس پھٹے ہوئے کھلے سر سے ہوتا ہوا خانہ کعبہ پہنچا تھا ’’دی بیسٹ روڈ ٹو مکہ‘‘۔۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Umme Fahad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share