13/06/2024
کتوں کی نمائش اور ہماری خواہش
پچھلے چند دنوں سے بلتستان یونیورسٹی شدید طعن و تشنیع کی زد میں ہے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ینگ وٹرنری ڈاکٹرز نے بلتستان یونیورسٹی کے تعاون سے پالتو جانوروں کی ایک نمائش رکھی تھی جس میں کتے بلیوں کو خوب دوڑایا، نچایا اور لڑایا گیا تھا۔ ظاہر ہے بلتستان جیسے علم و ادب اور دینی اقدار کے حامل خطے میں ایسے مشاغل کو نہیں سراہا جانا تھا اور نہیں سراہا گیا۔
کاش ! اس نمائش کے منتظمین یہاں کی تہذیبی روایات، مذہبی اعتقادات، عوامی رجحانات، فکری ترجیحات اور عصری ضروریات کو مدِ نظر رکھ کر ایسے سیمنار منعقد کرتے جس سے یہاں کے باسیوں کو بھی فائدہ ملتا اور اپنے مقاصد بھی پورے ہوتے۔
مثلا:-
اس وقت بلتستان سیاحت کا مرکز بن چکا ہے۔ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاوسز میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ سالانہ لاکھوں سیاح اس جنت نظیر خطے کا رخ کر رہے ہیں۔ اگلے چند سالوں میں بلتستان کے چھوٹے موٹے ہوٹلوں کی تعداد ہزاروں میں ہو گی۔ فرض کریں ہانچ سو ہوٹلز کھلتے ہیں اور ہر ہوٹل روزانہ چار بکرے زبح کرتے ہیں تو روزانہ دو ہزار مویشی درکار ہوں گی۔
کاش ! آپ مستقبل میں گوشت کی کھپت کو پورا کرنے کے لیے کوئی ایسا سیمنار رکھتے جس میں گوشت والے جانوروں کی افزائشِ نسل اور دیکھ بھال ہر بحث ہو اور مختلف نسل کے بھیڑ بکریوں کی نمائش ہوتی۔ اس طرح مستقبل میں مجموعی طور پر روزانہ کڑوڑوں روپے کی آمدنی ہوتی۔
اس وقت بلتستان کی نصف سے زیادہ آبادی دودھ کی جگہ چائکا ، آل میکس ، ترنگ اور قدرط نامی عجیب و غریب سفید رنگ استعمال کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے بلتستان کے عوام مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
کاش ! آپ دیسی دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے کوئی سیمنار رکھتے۔ تاکہ ہماری نئی نسل کی صحت تباہ ہونے سے بچ سکے۔
بلتستان میں ہر ماہ کم و بیش پانچ کروڑ مالیت کے فارمی گلے سڑے انڈے مانسہرہ اور دیگر شہروں سے آتے ہیں اور دانا پانی سے مالا مال خطہِ بلتستان کی خواتین ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں۔ معلوم ہے کیوں؟ کیونکہ انہیں مرغبانی کی حروف تہجی بھی نہیں معلوم۔ کاش وٹرنری ڈاکٹرز اور بلتستان یونیورسٹی مل کر مرغیوں کی مختلف نسلوں کی پہچان، وقت اور موسم کے مطابق ان کی دیکھ بھال اور سالانہ انڈے دینے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لیے گاوں گاوں سیمنار منعقد کرتے۔ تاکہ خواتین اس شعبے کے ذریعے انسانی صحت اور علاقائی معیشیت کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
یاک (ہیاق ، ہیاقمو)، خوش گاو (ظو ، ظومو) اور گھوڑے گدھے وغیرہ اب معدوم ہو رہے ہیں۔
کاش ! آپ ان مفید جانوروں کی معدوم ہوتی نسل کو بچانے کے لیے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو کام میں لاتے تاکہ گلہ بانی سے منسلک افراد کی مالی حالت بہتر ہوتی۔
کھیتوں میں استعمال ہونے والی زہریلی ادویات انسانی صحت کے ساتھ ساتھ پرندوں کی بھی نسل کُشی کر رہی ہیں۔
کاش ! آپ اس بڑے مسئلے کا کوئی پائدار حل ڈھونڈنے کے لیے کوئی سروے یا سیمنار کرتے۔
گائے کے بچھڑے ، بھینس کے کٹے ، بکری کے میمنے ، بھیڑ کے برّے اور مرغی کے چوزے وغیرہ کی نمائش رکھنے کے بعد آپ ان مشاغل کے سلسلے کی ایک کڑی کتے کے پِلّوں اور الو کے پٹھوں کی طرف موڑ دیتے تو عوام کو آپ میں مغرب پسندی نظر نہ آتی۔ لیکن آپ نے وہی کیا جس کو اسلام اچھی نگاہ سے دیکھتا ہےباور نہ ہی ہمارا معاشرہ۔
نہ صرف ہم انسان معاشرے کے برے اور گندے شخص کو کتا کہتے ہیں بلکہ حضورِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے بھی فرمایا ہے کہ " رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنم کے کتے ہیں"۔
احادیث میں کتا پالنے کی سخت ممانعت آئی ہے ۔ کہتے ہیں کہ اس گھر میں فرشتے نہیں آتے جس گھر میں کتے ہوں۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ بلا ضرورت کتا پالنے والے کے اعمال میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔ لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا خیر و برکت سے محرومی کا باعث ہے؛ اس لیے شوقیہ طور پر کتے پالنے سے اجتناب بہت ضروری ہے۔ البتہ اگر کتے کو جانوروں اور کھیتوں کی حفاظت کے لیے یا شکار کے لیے پالا جائے تو اس کی شریعت نے اجازت دی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز بے مقصد اور بے کار نہیں ہے۔ ہر جاندار کے فائدے اور نقصانات ہیں اور ان کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اس سے بھی ضروری امر یہ ہے کہ ہم سر زمین بلتستان کے دینی اور ثقافتی اقدار کی پاسداری کرے جس کے بارے میں شیخ سحر مرحوم نے فرمایا تھا۔ ع
تصوف کے رموز اکثر ہوئے کندہ چٹانوں پر
ادب کے گلستان پھولے پھلے ہیں ان ہہاڑوں میں
اور پچھلے دنوں سرزمینِ بلتستان ہمارے عزیز دوست عارف سحاب کے اس مصرعے سے گونج اٹھا تھا کہ:
"یہ دھرتی علیؑ کی دھرتی ہے"