24/08/2023
تحریر : تہزیب حسین
وطن کی فکر کر ناداں ۔
میری اس تحریر میں مخاطب وہ روشن خیال افراد ہیں جو کہ معملات فہم ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار پر مبنی زندگی بسر کررہے ہیں ۔
آپ کے دور کی خیر ہو حاکموں،
آپ کا لطف بھی ہے جفا کی طرح
خیر ایمان کی، نہ مال اور جان کی،
زندگی ہو گئی ہے سزا کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال میں اٹھنے والی فرقہ وارانہ لہر، ماضی کی عکس بندی اور مستقبل کی اک روشن پیشنگوئی ہے اور میں تصدیق سے کہہ سکھتا ہوں کہ یہ لہر آنے والے کل میں بھی اسی آب و تاب سے اٹھے گی۔ اس میں کوٸی بعید نہیں کیونکہ سامراجی قوتوں نے قباٸلی علاقوں میں اپنے بین الاقوامی مفادات کے لیے اس فرقہ واریت کا بیچ بویا ہے تاکہ قباٸلی علاقوں کے لوگوں کے دین سے متعلق جزبہ کو استعمال میں لاکر اپنے مقاصد حاصل کریں اور انکی برسوں کی تحقیق کے بعد ایسے علاقوں کو زیادہ اس کام کے لیے زرخیز سمجھا گیا جہاں لوگ پہلے ہی انتشار کا شکار ہیں۔ ۔زرخیزی کا تعلق اس عمل کے لیے جزبات سے تھا عقل و شعور سے نہیں تو یہی سے کام شروع کیا گیا حالانکہ انکو اپنے مفادات سے غرض تھا بعد کے نتاٸج سے انکا کوٸی سروکار نہیں تھا ۔ میں تفصیل پہ جانا نہیں چاہتا نہ ہی میں ہر ایک نتیجہ کو جو کہ اسلام تو دُور کی بات انسانیت کو بھی شرماۓ، ذکر میں نہیں لانا چاہتا، مختصراً رقم کر رہا ہوں کہ کریں تو کیا کیا کریں ۔حوا کی بیٹیوں کو بیچ مردوں کے، توہین مزہب کے نام پر ذلیل و رسوا کرکے قتل کرنا اور کسی ماں کی آغوش اور باپ کے بڑھاپے کے سہارے کو ایک گولی سے ہمیشہ کے لیے بُجھا دینا، کسی کے بساۓ ہوۓ گھر کو جلاکر خاکستر کرنا، ان تمام کا ذکر میں نہیں کرونگا بس میں بات اپنے خطہ کی کرونگا جہاں پر اس بیج کو ایسے بویا گیا کہ وہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا، اور انسان، انسان کا دشمن بن گیا۔
وہ علاقہ جہاں بین المسالک رشتہ داریاں، ہمدردیاں، روابط ایک دم سے ختم ہوۓ اور نوگو ایریاز بننے شروع ہوۓ ۔وہ خطہ جو کہ پسماندہ تھا، بنیادی انسانی حقوق سے محروم تھا ،بنیادی ضروریات کو کھیتی بھاڑی کے ذریعہ پورا کرنے کے علاوہ اور کوٸی ذریعہ معاش سے واقف نہیں تھا، ایسے خطہ کو آج فرقہ واریت کی فلک کو چھوتے آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
مگر افسوس کا مقام یہاں پر یہ تھا باشعور ، عاقل اور اہل علم اس کے مستقبل قریب میں بھرپا ہونے والے مسائل اور نتاٸج سے آگاہ تھا جو کہ بہت بیانک تھے مگر کوٸی عملی میدان میں کردار ادا نہ کرسکا اور انگشت بہ دنداں ہمہ تن محوِ تماشہ رہا، جسکی وجہ سے میدان خالی دیکھ کر ایسے افراد کا حوصلہ بلند ہوا جو کہ اس بیج کے بنے درخت تھے، جو سامراج نے اگایا تھا وہ مہراب و ممبر تک آپہنچے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکے نتاٸج مسلسل آرہے ہیں اور اک شفاف آئینے کی مانند مستقل کا عکس بھی واضح دکھ رہا ہے، یہ خطہ ایسے ہی پسماندہ در پسماندہ رہے گا ۔سکردو اٸیرپورٹ پہ انٹرنیشنل فلاٸٹس کا امد و رفت شروع ہوا ،بابوسر اور فیری میڈوس تک انٹرنیشنل اور نیشنل سیاح کا آنا جانا شروع ہوا اور اس جنت نظیر وادی کو دیکھنے کے لیے سیاح کا آنا اس علاقے کے جوانوں اور لوگوں کے لیے نیک شگون ہے۔
اس علاقے میں سرکاری نوکریاں نا ہونے کے برابر ہیں کوٸی انڈسٹری نہیں اور روزگار کے دیگر ذراٸع صفر ہیں۔ اس صورت میں دانشور اور عقل و شعور رکھنے والے کردار ادا کرے تو ۔ ایسے میں ایک امید جاگ جاۓ اور حالات زندگی یہاں کے لوگوں کی ٹورییزم کے ذریعہ بہتر ہونے لگے اور آنے والی نسل تک بہترین اور روشن مستقبل کی زمانت بنے، تعلیم عام ہو، عقل و شعور اور سوچ آزاد ہو، اور انسان اپنی زندگی اور رہن سہن کا فیصلہ اپنے اختیار سے کرے، اب آپ بتائیں کہ پھر کیوں میں مثل سامانِ سکوں اس شرپسند کے ہاتھ کا کھلونا بن کر جیوں؟
خونِ ناحق بہت پی چکی یہ زمیں
اب کوئی دن میں یہ خوں اگلنے کو ہے
ختم ہوجائیگی یہ تماشا گری
وقت پلٹے گا، روزِ جزا کی طرح ۔