03/08/2024
پاکستان کا وہ علاقہ جہاں لوگ 25 کلومیٹر دور دستیاب سامان کے لیے 1400 کلومیٹر کا ’اذیت ناک سفر‘ کرنے پر مجبور ہیں
ماشکیل
مضمون کی تفصیل
مصنف,محمد کاظم
عہدہ,بی بی سی اردو، ماشکیل
30 جولائی 2024
’25 کلومیٹر پر دستیاب اشیا کے لیے 1400 کلومیٹر سفر کی مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے۔‘
امین اللہ بلوچ پاکستان کے ایک ایسے علاقے کے رہائشی ہیں جہاں کے باسیوں کو مہنگائی کے اس دور میں ایک عجیب سی مشکل کا سامنا ہے۔ انھیں روز مرہ زندگی کے لیے درکار سامان صرف 25 کلومیٹر دوری پر سستے داموں دستیاب تو ہے لیکن انھیں اس مقام تک جانے کی اجازت نہیں۔
اور اسی لیے انھیں ایک معمول کی چیز کے لیے بھی ایک ایسا طویل اور مشکل سفر برداشت کرنا پڑتا جو ان کے الفاظ میں کسی اذیت سے کم نہیں۔
آپ بھی یقینا یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہوں گے کہ آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ اس علاقے کے لوگ اتنی مشکل سے دوچار ہیں؟
اس کا جواب کافی سادہ ہے۔ یہ علاقہ بلوچستان کے ضلع واشک کی ایک چھوٹی تحصیل ماشکیل کا ہے جہاں صحرا کی ریت تو ہر طرف ہے لیکن سایہ، پانی اور سڑک ناپید۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مغرب میں تقریباً 700 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ علاقہ آج تک ایک پختہ سڑک کی سہولت سے محروم ہے لیکن چند سال قبل تک یہ محرومی اتنی بڑی محسوس نہیں ہوتی تھی جتنی اب ہوتی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مقامی لوگ صرف 25 کلومیٹر دور ایرانی علاقے سے انتہائی ارزاں داموں پر ضروریات زندگی خرید سکتے تھے۔
یہی نہیں بلکہ اس ریگستانی تحصیل کا سب سے بڑا ذریعہ معاش بھی ایران سے متصل سرحد ہی سے وابستہ تھا اگرچہ اس کی وجہ سمگل شدہ ایرانی تیل کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔
لیکن چند سال قبل ہی سرحد کی نگرانی سخت ہوئی اور پابندیوں کے بعد ایرانی سستے سامان کی خریدوفروخت آسان نہیں رہی جس کے بعد مقامی افراد کے مطابق انھیں 400 گنا تک مہنگے داموں ضروریات زندگی کوئٹہ سے حاصل کرنی پڑتی ہیں جو 1400 کلومیٹر دور ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرحدی پابندیوں کے بعد سستا ایرانی سامان بھی مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔
مگر ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ بلوچستان کے سابق چیف سیکریٹری احمد بخش لہڑی طویل عرصے تک سرحدی ضلع چاغی کے ڈپٹی کمشنر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ’ماضی میں سرحدی معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے چرواہوں کو اجازت تھی کہ وہ دوسرے ملک کی سرحد کے اندر 60 کلومیٹر تک مویشی لے جا سکتے تھے۔ اسی طرح دونوں اطراف کے لوگ 60 کلومیٹر تک ایک دوسرے کے حدود میں اپنا سامان لے جا کر فروخت کر سکتے تھے۔‘
سرحدی اضلاع میں خوراک اور ایندھن کا انحصار گذشتہ کئی دہائیوں سے ایران پر ہے
واضح رہے کہ بلوچستان کے ایران اور افغانستان سے جڑے زیادہ تر سرحدی اضلاع کے معاش اور روزگار سرحد سے جڑا ہے لیکن ایران سے متصل پانچ مخصوص اضلاع کی آبادی خوراک کی اشیا کے لیے ایران کی جانب ہی دیکھتی ہے۔ ایران پاکستان سرحد پر بلوچستان کے پانچ اضلاع واقع ہیں جن میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر شامل ہیں۔
ایف بی آر اور کسٹمز کے حکام کا یہ موقف رہا ہے کہ بلوچستان میں سرحدوں سے بڑے پیمانے پر سمگلنگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت اور صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
بی بی سی نے ماشکیل تک کا سفر کیا تا کہ یہ جانا جا سکے کہ کیا واقعی پاکستان کا یہ دور دراز علاقہ اتنی مشکل سے دوچار ہے اور کیا یہاں تک کا سفر اتنا ہی مشکل ہے جتنا بتایا جاتا ہے۔
ہمارے سفر کے دوران پختہ روڈ جس مقام پر ختم ہوئی تو علم ہوا کہ باقی راستہ پانچ گھنٹے ریگستان سے گزرے گا۔ یہاں ڈرائیور انجان ہو تو راستہ بھٹک کر شدید گرمی میں جان سے بھی گزر سکتا ہے۔
ہمارے ڈرائیور اکرام احمد نے بتایا کہ ’مقامی ڈرائیور بھی قافلوں کی شکل میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
ماشکیل تک سفر کے دوران بگ نامی علاقہ بھی آتا ہے جہاں ایک نئی مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔ زیادہ بارشوں کی صورت میں ایران اور دیگر علاقوں سے سیلابی پانی یہاں اکھٹا ہو کر راستہ بند کر دیتا ہے اور اکثر یہ علاقہ تین ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک باقی پاکستان سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔
اس صحرا میں ہم نے سبزہ دیکھا، نہ کوئی سایہ دار درخت، نہ پانی تھا اور نہ کوئی اور سہولت۔
دوسری جانب بلوچستان کے وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ کہا کہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پسماندگی زیادہ ہے۔
’بجٹ کی کتابوں میں فنڈز ہوتے ہیں لیکن وہ صحیح معنوں میں نہیں لگتے۔ اگر وہ فنڈز صحیح معنوں میں لگ جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی اور لوگوں کو بہت ساری سہولیات مل جاتیں۔‘
انھوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں کے لوگ سینکڑوں سال سے آباد ہیں جن کی رشتہ داریاں سرحد کے پار بھی ہیں۔ ’لیکن پہلے اور آج کے حالات مختلف ہیں۔‘
وزیر خزانہ نے کہا کہ ’اگر سرحدی تجارت بند ہوتی ہے تو سرحدی علاقوں کے لوگ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوں گے اور جب تک نعم البدل نہیں ہوتا تو اس سے پہلے اسے بند کرنے سے بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے۔‘ تاہم ان کے مطابق سرحدی تجارت کے لیے بین الاقوامی معیار کو اپنانا پڑے گا۔
شعیب نوشیروانی نے کہا کہ ’ماشکیل کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انھیں ایک پوائنٹ کھول کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے لیے خوراک اور دیگر اشیا لا سکیں‘ اور انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
مطالبوں اور دعووں کی بھرمار سننے کے بعد ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا تو ایک بار پھر اسی صحرا سے گزر کر جانا تھا جسے پار کرتے کرتے چہرے دھول سے بھر جاتے ہیں اور حلق خشک ہو جاتے ہیں۔
اسی صحرا سے گزرتے ہوئے ہمیں ایک ڈبل ڈور پک اپ گاڑی نظر آئی جو تکنیکی مسئلے کا شکار تھی۔ قریب پہنچے تو علم ہوا کہ خواتین اور بچوں سمیت مسافروں کے پاس پانی ختم ہو چکا تھا۔ ایسے میں ہم نے پانی کی پیشکش کی تو ان کی سانس میں سانس آئی۔
عزت اللہ نامی ایک مسافر نے بتایا کہ ان کی گاڑی شدید گرمی میں دو گھنٹے سے خراب کھڑی ہے جس میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ عزت اللہ نے کہا کہ ’اگر آپ کی گاڑی نہیں آتی تو شدید گرمی میں معلوم نہیں ان کا کیا حال ہوتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان صحراوں میں گرمی اور پیاس کی وجہ سے کئی لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔
’حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک پختہ روڈ بنا دے اور ان صحراوں میں پانی اور سایے کا انتظام کرے تاکہ کسی مشکل میں لوگوں کی جان نہ جائے۔
طالب دعا محبتی مورزادو گورشانی
03023187434