عجیب غریب واقعات

  • Home
  • عجیب غریب واقعات

عجیب غریب واقعات سچی کہانیاں وقعات حالات دنیاء عجیب و غریب..معلومات
کے ل?

جنوبی سوڈان میں شادی کا مطلب ہے دلہن کے لیے 4 سال کی آزادی یہ جنوبی سوڈان میں شادی کا ڈنکا رواج ہے۔ 100 سے 500 گایوں تک ...
17/08/2024

جنوبی سوڈان میں شادی کا مطلب ہے
دلہن کے لیے 4 سال کی آزادی

یہ جنوبی سوڈان میں شادی کا ڈنکا رواج ہے۔ 100 سے 500 گایوں تک کے حق مہر کی ادائیگی کے باوجود خواتین کے ساتھ خدائی سلوک کیا جاتا ہے۔
مرد کی شادی ہو جائے تو اس کی بیوی 4 سال تک کھانا پکائے گی نہ جھاڑو دے گی۔

اس مدت کو "Anyuuc" (سخاوت مندانہ استقبال) کہا جاتا ہے۔ یہ نئی دلہن کے لیے آرام کرنا، آرام کرنا اور اپنے شوہر کے گھر کی اقدار کا مطالعہ کرنا ہے۔

اس دوران اس کے شوہر کی بہن کھانا پکانے، برتن دھونے، لکڑیاں جمع کرنے، پانی لانے اور دیگر گھریلو کام چار سال تک کرے گی۔

4 سال کے بعد، اس کے شوہر ایک بہت بڑی پارٹی کا اہتمام کرنے کا فیصلہ کرتا ہے جسے "تھاٹ" (کھانا پکانے کا تہوار) کہا جاتا ہے جہاں 3 گائے اور 5 بکرے ذبح کیے جاتے ہیں تاکہ بیوی کو خاندان کے لیے کھانا پکانے کی شروعات کی جا سکے۔

لیکن اگر مرد نے 4 سال کے دوران بدتمیزی کی تو بیوی چھوڑنے کا فیصلہ کر سکتی ہے اور اسے حق مہرمیں لی گئی گائیوں کو بھی واپس نہیں کرنا پڑے گا۔
طالب دعا محبتی مورزادو گورشانی

پاکستان کا وہ علاقہ جہاں لوگ 25 کلومیٹر دور دستیاب سامان کے لیے 1400 کلومیٹر کا ’اذیت ناک سفر‘ کرنے پر مجبور ہیںماشکیلمض...
03/08/2024

پاکستان کا وہ علاقہ جہاں لوگ 25 کلومیٹر دور دستیاب سامان کے لیے 1400 کلومیٹر کا ’اذیت ناک سفر‘ کرنے پر مجبور ہیں
ماشکیل

مضمون کی تفصیل
مصنف,محمد کاظم
عہدہ,بی بی سی اردو، ماشکیل
30 جولائی 2024
’25 کلومیٹر پر دستیاب اشیا کے لیے 1400 کلومیٹر سفر کی مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے۔‘

امین اللہ بلوچ پاکستان کے ایک ایسے علاقے کے رہائشی ہیں جہاں کے باسیوں کو مہنگائی کے اس دور میں ایک عجیب سی مشکل کا سامنا ہے۔ انھیں روز مرہ زندگی کے لیے درکار سامان صرف 25 کلومیٹر دوری پر سستے داموں دستیاب تو ہے لیکن انھیں اس مقام تک جانے کی اجازت نہیں۔

اور اسی لیے انھیں ایک معمول کی چیز کے لیے بھی ایک ایسا طویل اور مشکل سفر برداشت کرنا پڑتا جو ان کے الفاظ میں کسی اذیت سے کم نہیں۔

آپ بھی یقینا یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہوں گے کہ آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ اس علاقے کے لوگ اتنی مشکل سے دوچار ہیں؟

اس کا جواب کافی سادہ ہے۔ یہ علاقہ بلوچستان کے ضلع واشک کی ایک چھوٹی تحصیل ماشکیل کا ہے جہاں صحرا کی ریت تو ہر طرف ہے لیکن سایہ، پانی اور سڑک ناپید۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مغرب میں تقریباً 700 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ علاقہ آج تک ایک پختہ سڑک کی سہولت سے محروم ہے لیکن چند سال قبل تک یہ محرومی اتنی بڑی محسوس نہیں ہوتی تھی جتنی اب ہوتی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مقامی لوگ صرف 25 کلومیٹر دور ایرانی علاقے سے انتہائی ارزاں داموں پر ضروریات زندگی خرید سکتے تھے۔
یہی نہیں بلکہ اس ریگستانی تحصیل کا سب سے بڑا ذریعہ معاش بھی ایران سے متصل سرحد ہی سے وابستہ تھا اگرچہ اس کی وجہ سمگل شدہ ایرانی تیل کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔
لیکن چند سال قبل ہی سرحد کی نگرانی سخت ہوئی اور پابندیوں کے بعد ایرانی سستے سامان کی خریدوفروخت آسان نہیں رہی جس کے بعد مقامی افراد کے مطابق انھیں 400 گنا تک مہنگے داموں ضروریات زندگی کوئٹہ سے حاصل کرنی پڑتی ہیں جو 1400 کلومیٹر دور ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرحدی پابندیوں کے بعد سستا ایرانی سامان بھی مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔
مگر ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ بلوچستان کے سابق چیف سیکریٹری احمد بخش لہڑی طویل عرصے تک سرحدی ضلع چاغی کے ڈپٹی کمشنر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ’ماضی میں سرحدی معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے چرواہوں کو اجازت تھی کہ وہ دوسرے ملک کی سرحد کے اندر 60 کلومیٹر تک مویشی لے جا سکتے تھے۔ اسی طرح دونوں اطراف کے لوگ 60 کلومیٹر تک ایک دوسرے کے حدود میں اپنا سامان لے جا کر فروخت کر سکتے تھے۔‘
سرحدی اضلاع میں خوراک اور ایندھن کا انحصار گذشتہ کئی دہائیوں سے ایران پر ہے
واضح رہے کہ بلوچستان کے ایران اور افغانستان سے جڑے زیادہ تر سرحدی اضلاع کے معاش اور روزگار سرحد سے جڑا ہے لیکن ایران سے متصل پانچ مخصوص اضلاع کی آبادی خوراک کی اشیا کے لیے ایران کی جانب ہی دیکھتی ہے۔ ایران پاکستان سرحد پر بلوچستان کے پانچ اضلاع واقع ہیں جن میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر شامل ہیں۔
ایف بی آر اور کسٹمز کے حکام کا یہ موقف رہا ہے کہ بلوچستان میں سرحدوں سے بڑے پیمانے پر سمگلنگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت اور صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
بی بی سی نے ماشکیل تک کا سفر کیا تا کہ یہ جانا جا سکے کہ کیا واقعی پاکستان کا یہ دور دراز علاقہ اتنی مشکل سے دوچار ہے اور کیا یہاں تک کا سفر اتنا ہی مشکل ہے جتنا بتایا جاتا ہے۔

ہمارے سفر کے دوران پختہ روڈ جس مقام پر ختم ہوئی تو علم ہوا کہ باقی راستہ پانچ گھنٹے ریگستان سے گزرے گا۔ یہاں ڈرائیور انجان ہو تو راستہ بھٹک کر شدید گرمی میں جان سے بھی گزر سکتا ہے۔

ہمارے ڈرائیور اکرام احمد نے بتایا کہ ’مقامی ڈرائیور بھی قافلوں کی شکل میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

ماشکیل تک سفر کے دوران بگ نامی علاقہ بھی آتا ہے جہاں ایک نئی مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔ زیادہ بارشوں کی صورت میں ایران اور دیگر علاقوں سے سیلابی پانی یہاں اکھٹا ہو کر راستہ بند کر دیتا ہے اور اکثر یہ علاقہ تین ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک باقی پاکستان سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔

اس صحرا میں ہم نے سبزہ دیکھا، نہ کوئی سایہ دار درخت، نہ پانی تھا اور نہ کوئی اور سہولت۔
دوسری جانب بلوچستان کے وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ کہا کہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پسماندگی زیادہ ہے۔

’بجٹ کی کتابوں میں فنڈز ہوتے ہیں لیکن وہ صحیح معنوں میں نہیں لگتے۔ اگر وہ فنڈز صحیح معنوں میں لگ جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی اور لوگوں کو بہت ساری سہولیات مل جاتیں۔‘

انھوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں کے لوگ سینکڑوں سال سے آباد ہیں جن کی رشتہ داریاں سرحد کے پار بھی ہیں۔ ’لیکن پہلے اور آج کے حالات مختلف ہیں۔‘

وزیر خزانہ نے کہا کہ ’اگر سرحدی تجارت بند ہوتی ہے تو سرحدی علاقوں کے لوگ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوں گے اور جب تک نعم البدل نہیں ہوتا تو اس سے پہلے اسے بند کرنے سے بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے۔‘ تاہم ان کے مطابق سرحدی تجارت کے لیے بین الاقوامی معیار کو اپنانا پڑے گا۔

شعیب نوشیروانی نے کہا کہ ’ماشکیل کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انھیں ایک پوائنٹ کھول کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے لیے خوراک اور دیگر اشیا لا سکیں‘ اور انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

مطالبوں اور دعووں کی بھرمار سننے کے بعد ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا تو ایک بار پھر اسی صحرا سے گزر کر جانا تھا جسے پار کرتے کرتے چہرے دھول سے بھر جاتے ہیں اور حلق خشک ہو جاتے ہیں۔
اسی صحرا سے گزرتے ہوئے ہمیں ایک ڈبل ڈور پک اپ گاڑی نظر آئی جو تکنیکی مسئلے کا شکار تھی۔ قریب پہنچے تو علم ہوا کہ خواتین اور بچوں سمیت مسافروں کے پاس پانی ختم ہو چکا تھا۔ ایسے میں ہم نے پانی کی پیشکش کی تو ان کی سانس میں سانس آئی۔

عزت اللہ نامی ایک مسافر نے بتایا کہ ان کی گاڑی شدید گرمی میں دو گھنٹے سے خراب کھڑی ہے جس میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ عزت اللہ نے کہا کہ ’اگر آپ کی گاڑی نہیں آتی تو شدید گرمی میں معلوم نہیں ان کا کیا حال ہوتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان صحراوں میں گرمی اور پیاس کی وجہ سے کئی لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔

’حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک پختہ روڈ بنا دے اور ان صحراوں میں پانی اور سایے کا انتظام کرے تاکہ کسی مشکل میں لوگوں کی جان نہ جائے۔
طالب دعا محبتی مورزادو گورشانی
03023187434

دنیا میں ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں روزانہ سونے کی بارش ہو رہی ہے۔محققین کے مطابق، دنیا کے سب سے سرد مقام انٹارکٹیکا میں ...
26/04/2024

دنیا میں ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں روزانہ سونے کی بارش ہو رہی ہے۔

محققین کے مطابق، دنیا کے سب سے سرد مقام انٹارکٹیکا میں دنیا میں سے زیادہ فعال آتش فشاؤں میں سے ایک موجود ہے، جو روزانہ 80 گرام سونے کی دھول ہوا میں اُڑا رہا ہے، جس کی قیمت تقریباً 5 ہزار پاؤنڈ (تقریباً 17 لاکھ 22 ہزار پاکستانی روپے سے زائد) ہے۔

اس آتش فشاں کا نام ”ماؤنٹ ایریبس“ ہے جو گیس، بھاپ اور چٹانی ٹکڑوں کے ساتھ ساتھ کرسٹلائزڈ سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی چھوڑتا ہے۔

پاکستان میں سونے کی قیمت میں ہوشربا کمی

اور یہ سونے کے ذرات ایریبس سے 621 میل دور بھی ہوا میں پائے گئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آتش فشاں کس قوت سے پھٹ رہا ہے اور اسے کرہ ارض پر سب سے زیادہ فعال دراڑ کیوں سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اگر کوئی وہاں جا کر امیر بننے کا سوچ رہا ہے تو جان لے کہ اسے انتہائی خطرناک حالات سے گزرنا ہوگا، جن میں آرکٹک کا منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت بھی شامل ہے۔

تقریباً 3,794 میٹر بلند ایریبس پہاڑ انٹارکٹیکا کا سب سے اونچا آتش فشاں ہے جو ایک اندازے کے مطابق 138 چھوٹے آتش فشاؤں کا گھر بھی ہے۔

بھارتی سائنس دانوں نے مشروم سے سونا نکالنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا

یہ بحیرہ راس میں راس جزیرے (Ross Island) پر واقع ہے، جس کا نام کیپٹن سر جیمز کلارک راس کے نام پر رکھا گیا ہے جنہوں نے 1841 میں ایریبس کو پھٹتے ہوئے دریافت کیا تھا۔

کولمبیا یونیورسٹی کے لامونٹ ڈوہرٹی ارتھ آبزرویٹری کے ایک تحقیقی سائنسدان کونور بیکن نے لائیو سائنس کو بتایا کہ ایریبس، جو سکاٹ جزیرے پر مک مرڈو ریسرچ بیس کے اوپر ہے، کم از کم 1972 سے مسلسل پھٹ رہا ہے۔

01/04/2024

مس مس 2 ويبسائيٽ تي پنهنجو ڪتاب آپلوڊ ڪيو آھي اوھان دوستن کي عرض آھي تہ دانلوڊ ڪري ڏسو ڇا اوھان دوستن وٽ ڊائونلوڊ ٿي وڃن ٿا نه
مھرباني ڪري ايھو به ٻدايو ته ڪھڙي ويب بڪس مان وٽ سٺي طرح ڊائونلوڊ ٿين ٿا
بس ادا معاف ڪجو نؤ نؤ سکون ٿا وڌيڪ اوھان کي به خبر ھجي رھنمائي ڪجو
اوھان جو ڀاء محبتي مورزادو گورشاڻي حسيني القادري
03023187434

30/03/2024

پليز پليز پليز پليز

گوگل ويبسائيٽ تي پنهنجو ڪتاب pdf آپلوڊ ڪرڻو آھي ڪنھن به دوست کي خبر ھجي تہ مھرباني ڪري رھنمائي ڪري ھميشه دعاگو رھندس
03023187434

ڈیسک( دنیا کے ہر خطے کے لوگ مختلف قسم کے تہوار مناتے ہیں لیکن انڈونیشیا کے جزیرے سلاویسی پر آباد توراجا نسل کے لوگوں کے ...
30/09/2023

ڈیسک( دنیا کے ہر خطے کے لوگ مختلف قسم کے تہوار مناتے ہیں لیکن انڈونیشیا کے جزیرے سلاویسی پر آباد توراجا نسل کے لوگوں کے سالانہ تہوار میں ان کے مردہ عزیزوں کی لاشیں ان سے ملنے چلی آتی ہیں اور گاﺅں می وقت گزارنے کے بعد دوبارہ قبروں میں چلی جاتی ہیں

ییے۔ ان لوگوں کی صدیوں پرانی روایت کے مطابق ہر سال اگست کے مہینے میں مردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر گاﺅں میں واپس لایا جاتا ہے اور پھر انہیں نہلا کر خوشبو لگائی جاتی ہے اور نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ مردوں کو خوب بنا سنوار کر کی انہیں سارے گاﺅں میں گھمایا جاتا ہے۔ اس تہوار پر بوڑھوں، بچوں،عورتوں، مردوں سمیت سب کی لاشیں نکال لی جاتی ہیں۔گاﺅں کے باہر پتھر کے بالا خانوں میں لاشوں کو سجایا جاتا ہے جہاں یہ سارے گاﺅں والے نظارہ کرتی ہیں۔ اس تہوار کے خاتمہ پر لاشوں کو دوبارہ قبروں میں پہنچادیا جاتا ہے۔ جہاں یہ اگلے سال کے تہوار تک آرام کرتی ہیں۔

پاکستان میں روزانہ کتنے بچے پیدا ھوتے ہیں
07/08/2023

پاکستان میں روزانہ کتنے بچے پیدا ھوتے ہیں

*موسم برسات کی ایک خوراک*  کھمبی برسات کے موسم (ساون) میں بارش کے بعد عموما ایک نبات( جسے آپ سبزی کہ سکتے ہیں ) قدرتی طو...
31/07/2023

*موسم برسات کی ایک خوراک* کھمبی
برسات کے موسم (ساون) میں بارش کے بعد عموما ایک نبات( جسے آپ سبزی کہ سکتے ہیں ) قدرتی طور پر زمین کو پھاڑ کر نکلتی ہے جسے ہم اپنی زبان میں نُتْکو کہتے ہیں اردو میں کھمبی اور انگریزی میں اسے مشروم کہتے ہیں۔
حدیث شریف میں اسے من و سلویٰ میں سے شمار کیا گیا ہے اور اس کے پانی کو آنکھوں کی شفاء یابی قرار دیا گیا ہے
رسول اللہﷺ کے زمانے میں کھمبیاں بہت زیادہ ہوا کرتی تھی تو بعض صحابہ کرام کہنے لگے کہ یہ زمین کے چیچک ہیں( یعنی جس طرح انسان سے بیماری میں چیچک نکلتا ہے اور انہوں نے اسے کھانے سے انکار کردیا یہ بات رسول اللہﷺ تک پہنچی تو آپ نے منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ کھمبی زمین کا چیچک ہے، خبردار سنو یہ زمین کا چیچک نہیں بلکہ من و سلویٰ سے ہے اور اسکے پانی میں آنکھوں کے لئے شفاء ہے
[شرح مشكل الآثار، ٣٦٧/١٤]
آنکھوں پر کھمبی کا خالص پانی نچوڑ کر لگایا جائے یہ آنکھوں کی بینائی کیلئے شفایاب ھے اور آنکھیں ٹھیک ہوگئی یہ ایک ایسی سبزی ہے جو تنا اور پتوں کے بغیر ہوتی ہے اور زمین میں بغیر بوئے پائی جاتی ہے.. *واللہ اعلم*

اطلاع عام15 جولائی سے 15 ستمبر تک مِیل اور فی مِیل سانپوں کے ملاپ کا وقت ہوتا ہے، اور سانپوں کی تقریباً تمام اقسام ہی اِ...
22/07/2023

اطلاع عام

15 جولائی سے 15 ستمبر تک مِیل اور فی مِیل سانپوں کے ملاپ کا وقت ہوتا ہے، اور سانپوں کی تقریباً تمام اقسام ہی اِن دو ماہ میں اپنے سامنے آنے والی کسی بھی چیز (انسان، جانور) پر حملہ کردیتی ہیں

ان دو ماہ میں شام سے لیکر اگلے روز صبح تک سانپ باہر نکلتے ہیں، سانپ زیادہ تر نمی والی جگہ یا ایسی جگہ جہاں پانی کھڑا ہو اُسکے کنارے پر موجود ہوتے ہیں

گاؤں کے لوگ ان دو ماہ میں خاص احتیاط کریں، رات کے وقت ٹارچ اپنے ہاتھ میں رکھیں اور نظریں زمین پر رکھیں

اگر خدا نہ کرے بلفرض سانپ آپکو ڈس لیتا ہے تو ایک پودا جو دیہات میں عام ہے جس کو "اَک" کہتے ہیں اُسکے پَتوں سے دودھ نکلتا ہے، اُس دودھ سے سانپ کے کاٹنے والی جگہ پر ہلکا مساج کریں اور فوری طور پر طبی امداد کیلئے مقامی ڈاکٹر سے رجوع کریں

یاد رکھیں ان دو ماہ میں سانپ انسانوں پر باقاعدہ حملہ آور ہوتے ہیں لہٰذا خود بھی احتیاط کریں اور اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں، رات کو ہر صورت بچوں کو زمین پر نہ کھیلنے دیں
طالب دعا مورزادو گورشانی

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when عجیب غریب واقعات posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to عجیب غریب واقعات:

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share