21/07/2024
جب بھی کسی علاقے میں اپنے حق مانگنے کے لیے تحریک ابھری ہو اور ریاست نے ان کے مطالبات مانے کی بجاۓ طاقت کا استعمال کیا ہو تو ہمیشہ سے اس کا نتیجہ آزادی کی شکل میں نکلا ہے کیونکہ طاقت کے استعمال کرنے سے کوئی نہ کوئی سانحہ جنم لیتا ہے جو اس تحریک کے جڑوں کو اس علاقے میں مضبوط کر دیتا ہے اور ریاست بوکھلا ہٹ کا شکار ہوجاتی ہے اور ریاست کے پچاری جن کے مفادات ریاست سے جڑے ہوتے ہیں وہ بھولے ہو کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور ایسے اقدامات کرتے ہیں جن سے فائدہ اس تحریک کو ہوتا ہے جیسکہ تحریک کو کچلنے کے لیے ایک غیر قانونی فورس یا ڈیتھ سکواڈ بنائے جاتے ہیں جس کو فری ہینڈ دے دیا جاتا ہے اور اکثر وہ فورس اسی علاقے کے لوگوں سے بنائی جاتی ہے اور وہ قاتل و غارت شروع کر دیتی ہے اور نتیجہ اس علاقے کے علیحدگی کی شکل میں نظر آتا ہے۔
اگر ہم بنگلادیش کی مثال لے لیں ۔۔۔۔۔۔ بنگالیوں کی تحریک پہلے اپنی شناخت یعنی زبان کی تحریک تھی جس کو کچلنے کی کوشش ہوئی تو وہ وسائل پر کنٹرول کی تحریک میں بدل گئی اور جب حکومت نے آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا تو انجام بنگلادیش کی شکل میں نکلا۔ اس دوران جس سانحے نے سب کو اکھٹا کیا وہ تھا ڈھاکہ یونیورسٹی کا قتل عام جس میں 85 لوگوں کو قتل کیا گیا تھا-
امریکہ کی آزادی بھی دراصل ٹیکس کے خلاف تحریک سے حاصل ہوئی تھی۔ لوگ سٹیپم اکٹ کے خلاف نکلے تھے اور اس کو ختم کرنے کی جدو جہد کر رہے تھے کہ برطانوی فوج نے Boston Massacre کیا جس میں انھوں نے 5 بندوں کو قتل کر دیا اور اس طرح ٹکس کے خلاف نکلی تحریک آزادی کی تحریک میں بدل گئی اور آخر کار اختتام آزادی کی شکل میں ہوا۔
پی ٹی ایم اور BYC بھی حقوق کی حصول کے لیے بنی تھیں مگر ریاست کی طاقت کا استعمال ان کو اب دوسری طرف دھکیل رہا ہے اور ان کے خلاف بھی ڈیتھ سکواڈ بنائیں گے ہیں۔ اور اگر ریاست نے اپنی پالیسیاں اسی طرح جاری رکھیں تو کئی انجام اس کا بھی آزادی نہ بن جاۓ اس حکومت کو چاہیے کہ وہ فیصلہ ان سے نہ کروائیں جن کا کاروبار ہی جنگ سے چل رہا ہے۔ ریاست طاقت کے استعمال کو فوراً روکھے کیونکہ اب صرف ایک سانحے کی دیر ہے۔