Urdu Amaze

Urdu Amaze Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Urdu Amaze, Digital creator, .

11/03/2024

آخری حل
تحریر ؛- آصف ابراہیم خان۔۔

وہ بہت پڑھی لکھی ہے
وہ اتنی عقلمند بھی نہیں ہے
وہ حاضر جواب ہے
وہ اپنی زندگی کا سب سے بے وقوفانہ
فیصلہ کر سکتی ہے۔
کون؟؟؟
آو معاشرے کی چادر اٹھا کر
پردے کے دوسری جانب کی بلکل
سچی کہانی بیان کرتا
ہوں۔۔۔

یہ بلکل سچی کہانی نام اور جگہ
تبدیل کر کے یہاں لکھ رہا ہوں۔۔
یہ سنہ انیس سے اٹھانوے کا سال
ہے۔۔نازنین کی عمر تئیس سال ہے۔
خوبصورت ہے پڑھی لکھی ہے۔
پھر اس کے کزن کا رشتہ آتا
ہے یہ اس کا پھوپھی زاد ریحان
تھا۔۔
رعونت میں نادیہ نے یہ رشتہ
ٹھکرا دیا اور غرور میں کہا۔
میرے لیے کیا اب یہ پینڈو
رہ گیا تھا؟؟؟؟
پھر کچھ عرصے بعد نازنین
کی شادی خاندان سے باہر
ہوگئی۔۔۔
زندگی کے دن اچھے گزر
رہے تھے۔۔لیکن پھر ریحان کی
واپسی ہوئی سعودی عرب سے۔۔
اور اس نے ٹھان لیا کہ وہ
نازنین سے بدلہ لے گا اس نے
میری انسلٹ کی تھی رشتے سے
انکار کرنا تھا توطریقے سے
کرتے گھر بلا کر انکار کرنا
اور کہنا کہ میرے لیے یہ پینڈو
رہ گیا ہے ۔۔تو ریحان انتقام کی
آگ میں جل رہاتھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نازنین اپنے شوہر شوکت کے
ساتھ خوش و خرم زندگی گزار
رہی تھی اب اس کے تین بیٹے بیٹیاں
بھی تھیں۔لیکن کچھ عرصہ سے
گھر میں لڑائی جھگڑے شروع ہو
گئے تھے۔۔اور یوں روز روز کے جھگڑے
نفرت میں بدلنے لگی محِتیں۔۔
اسی دوران بازار میں خریداری
کرتی ہوئی نازنین کی ملاقات
ریحان سے ہوئی۔۔۔
ریحان اسے دیکھ کر بولا۔۔
تم نے مجھے ٹھکرایا تھا۔
مگر میں آج بھی تمھارے انتظار
میں ہوں۔۔۔
پھر چکنی چوپڑی باتوں
نے نازنین کو سوچنے
پر مجبورکر دیا
کہ ریحان ہی اچھا ہمسفر
ثابت ہوسکتا تھا شوکت
تو مجھے سمجھتا
ہی نہیں۔۔۔
یوں نمبروں کا تبادلہ ہوا۔
فون پر روابط بڑھنے لگے۔
اور نادیہ پھسلنی شروع
ہوگئی۔۔
ایک وقت آیا کہ ریحان
کے چنگل میں تھی۔
وہ جیسے کہتا
نازنین کرتی جاتی۔
سعودی عرب سے
وہ اس کی ڈوریں
ہلا رہا تھا شوکت
کو کیا پتہ تھا ۔۔۔
اور یوں۔۔
نازنین نے شوکت سے
طلاق کا مطالبہ کردیا۔
شوکت کے اوسان
َخطا ہوگئے۔۔
کہنے لگا نازنین جانتا ہوں
گھر میں لڑائی جھگڑے ہوتے
رہتے ہیں تو اس کا مطلب
یہ ہرگز نہیں کچھ بچوں
کا ہی خیال کر لو یار۔۔۔
لیکن نازنین اپنی ضد پہ
اڑی رہی۔واپسی کا راستہ
نہ بچا اور ضد کر کے
اپنے شوہر اور بچوں سے
جان چھڑا لی۔۔۔طلاق ہوگئی۔
جلد ہی معلوم پڑا
پینڈو ریحان اسے بیوقوف
بنا چکا ہے۔۔۔
اب واپسی کے راستے بہت
کٹھن تھے۔۔
شوکت روتا تھا بچوں
کے لیے ۔۔۔کہ ان کا
مستقبل تاریک نہ ہوجاے
اور نازنین روتی تھی کہ
وہ استعمال ہوئی ۔۔
دو کوڑی کی عزت باقی
نہ رہی۔۔۔خاندان میں۔۔
تو واپسی کا راستہ
جو انہوں نے اختیار کیا۔
وہ حلالہ کا تھا۔۔۔
ہر طرف ایک گونج تھی۔
حلالہ کرا کے رشتے
جوڑو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانےیہ عمل درست
عمل ہے۔۔؟؟؟ شرعیت کے
عین مطابق ہے ؟؟
باہر حال رشتہ بحال
ہوا۔۔۔۔۔
تکبرانہ جملے
اور طنز۔۔۔
اکثر دوستوں کو
دشمنوں میں بدل
دیتے ہیں۔۔۔۔
اور دوست نما
دشمن بہت خطرناک
ہوتا ہے کیوں کہ
وہ انسان کی ساری
کمزوریو سے واقف
ہوتا ہے۔۔۔۔۔

سبزکرائیب کردیں پلیز

11/03/2024

پاکستان نہیں جاوں گا 03 آخری قسط۔

آصف ابراہیم خان ناول نگار کہانی نویس۔

وہ جھکے ہوئے کندھے لیے جھکے ہوے سر کے ساتھ چہرے پر شدید پریشانی اور الجھن کے آثار لیے۔۔
گھر میں داخل ہوا۔۔۔۔
ماں نے بیٹے کو دیکھا تو دل پسیجا سمجھ سکتی تھی بہنوں نے بھائی کا مان توڑا تھا۔۔
وہ اپنے کمرے میں چلا گیا نہ سلام کیا نہ کوئی بات چیت۔۔۔۔ماں اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں آگئیں اور مصنوعی نارضگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولیں۔۔۔
نہ دعا نہ سلام ایسے ہی منہ اٹھائے گھر میں کوئی داخل ہوتا ہے بھلا۔؟
وہ خاموش رہا۔
ماں کب چپ رہنے والی تھیں بولیں۔۔
یہ تربیت دی ہے میں نے ؛اپنی ماں کو سلام تک کرنے میں تکلیف ہوتی ہے۔
وقار زخمی نگاہوں سے ماں کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔
ہاں ماں میری تربیت کرنے کی ذمہ داری تو خوب نبھائی۔۔میری بہنوں نے کیا قصور کیا تھا ان کی تربیت کیوں نہیں کی ایک ماں بن کر؟؟؟
یہ جواب!!!
ماں کا دل بلیوں اچھلا تھا۔۔
جواب کیا دیتیں معلوم تھا بیٹا کیوں خاموش ہے۔مگر ایک ہی بیٹا تھا بیٹیوں کی غلطیوں پر بیٹے کو یوں خاموش ہونا اسے تکلیف دے رہا تھا۔
اسی دوران ابا بھی کمرے میں داخل ہوئے اور خاموشی سے اک طرف بیٹھ گئے۔
نورین تیز طراز تھی بھائی کو شیشے میں اتارنے اور رام کرنے کی نیت سے ایک گلاس پانی لیکر آگئی۔
اور خاموشی سے اپنے بھائی کو دینے کے لیے کھڑی ہوگئی۔۔
وقار کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
لیکن بغیر لحاظ کیے بولا۔۔
تم زانی ہو ۔۔
تمھارے ہاتھ کا دیاپانی بھی نہ پیوں۔۔۔
یہ سننا تھا کہ گلاس نورین کے ہاتھ سے گر گیا۔
اور وہ بت بنی کھڑی بھائی کو گھورتی رہی۔
ماں چیخنے چلانے لگی تیری زبان لڑکھڑائی نہیں تم نے بہن پر اتنا بڑا الزام لگا دیا۔۔
ابا اٹھا اور لاٹھی اٹھا کر وقار کی طرف بھاگا۔۔
یااااااااااااااااا 😲😲😲😤😢😭😭😭 زور دار چڑھی سے وار کرنے شروع کر دیے۔۔۔
اس کے سر پر اور کمر پر درد کی ٹھیسیں اٹھیں۔۔
خون کے فوارے پھوٹ پڑے۔۔
ماں جو بیٹیوں کے حق میں بات کر رہیں تھیں ایک دم بیٹے کا درد اور محبت جاگ گئی دل میں۔۔
بھاگتے ہوئے شوہر کی برستی چھڑی کے درمیان آگئی۔۔
رک جاو خدا کے لیے میرا ایک ہی بیٹا ہے اسے یوں اتنی بے دردی سے نہ مارو۔۔۔اسے کچھ ہوا تو میں مر جاوں۔۔
ابا چیخا۔۔یہ گھٹیا آدمی میری پھول جیسی بچی پر الزام لگاتا ہے کہ وہ زانی ہے فاحشہ ہے میں ہڈیاں توڑ دوں گا اس کی ۔۔جو میری بچی پر الزام لگایا تو۔۔۔۔

یہ سب منظر دیکھ کر منجھلی والی مہرو اور سب سے چھوٹی نازنین کے ہاتھ پاوں کانپنے لگے۔۔
کہ پول تو نورین باجی کا کھلا ہے جب کہ کار خیر میں تو برابر کی شریک ہیں۔

وقار گہری خاموشی لیے ہوے تھا۔۔
اس بار نازنین نے کوشش کی کہ بھائی کا غصہ اور نفرت کم کی جاے۔۔۔
تو خود ہی سے ایک اور گلاس پانی کا بھر کے وقار بھائی کے پاس آکر کھڑی ہوئی۔۔
وقار نے غور سے گلاس کو دیکھا۔۔
طنزیہ مسکراہٹ لیے چھوٹی بہن نازنین کو دیکھا۔
بولا کیوں ابا سے مجھے مزید مار پڑوانا چاہتی ہو ۔۔پھر بولا ۔۔۔۔زانی ہو تم۔۔
اس کے ہاتھ سے بھی گلاس چھوٹ گیا۔۔۔
نہیں نہیں نہیں ہوں میں ززززااااننننییی۔۔۔
تم جھوٹ بکتے ہو۔۔۔
اسکا وجود خوف سے کانپ رہا تھا۔۔
بعض اوقات جملوں کی تپش انسان کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے لیکن جب یہ تینوں بہنیں باہر من مرضیاں کرتی رہیں گناہ کو گناہ نہ سمجھا سٹیٹس کو مقدم سمجھا دولت آنے پر اپنی اوقات بھول گئیں۔۔اور آج۔۔۔۔
ماں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ ایسا ہوگا؟؟؟
باپ نے آگے بڑھ کر دوبارہ سے بیٹے پر حملہ کیا۔۔
اس بار مہرو سامنے آگئی ۔۔
اور اس وار کو اپنے وجود پر سہا۔۔۔
بھائی کو بچالیا۔۔۔
ابا نے بہت غلیظ گالیاں دیں سخت لہجہ اپنایا۔۔
ایک جملہ اس کے منہ سے ادا ہورہا تھا میری بچیاں پھول سی بچیاں۔۔۔۔۔۔میرا مان نہیں توڑ سکتیں۔۔۔
میرے خون میں وفا ہے یہ اپنے باپ کے ساتھ بےوفائی نہیں کر سکتیں۔۔۔
جا دفع ہوجا اس گھر سے ۔۔
وہ آگے بڑھا وہ وقار کو گریبان سے پکڑ کر گھر سے دھکے دے کر باہر نکال دیا۔۔۔
نکل جاو اس گھر میں دوبارہ نہ آنا۔۔
ذلیل انسان۔۔۔
تمھاری شکل دیکھنا نہیں چاہتا۔۔
وقار کراہتا ہوا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔
ماں نے دیکھا ایک ہی بیٹا ہے وہ جا
رہا ہے وہ تڑپ کر بولیں میرا بیٹا مجھے چھوڑ کے نہ جاو ۔۔تمھاری ماں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔۔
لیکن وہ گلی مڑ گیا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابا گھر میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔
تینوں بیٹیاں خود کو مجرم تو سمجھتی تھیں مگر
جرم قبول کرنا اتنا آسان نہ تھا۔۔۔
ماں بھی سوچتی تھی۔ کہ کاش اس گھر میں باپ کا سایہ بر قرار رہتا۔۔میں نے بھائی سے کہہ کر اور طلاق کی دھمکی لگا کر اپنے ہی شوہر کو دباے رکھا۔۔
آج وہ بے بس نظر آرہا ہے۔۔۔کاش گھر کی بادشاہت میرے خاوند کے پاس ہی رہتی ۔۔کاش میں انہیں پریشرائز نہ کرتی زندہ ہونے کے باوجود بھی باپ کو لگام ڈال دی تھی ایک ہی گھر میں رہتے ہوے بھی وہ بیٹیوں پر روک ٹوک نہ کرتا تھا اسے اپنی عزت عزیز تھی۔۔
وہ ان کے پاس چلی گئیں وہ سر جھکاے رو رہے تھے۔۔
بیگم نے پوچھا۔۔بیٹے کو گھر سے نکال دیا مگر کیوں ؟؟ اسکا جرم اتنا بڑا نہ تھا جتنی بڑی سزا دی۔

پھر وہ آہستہ سے بولے۔۔۔
یہ سزا اس کے لیے نہیں تمھارے لیے ہے۔
بہنوں کو عزت سے بیاہنا وقار کی سب سے بڑی خواہش تھی زندگی کی۔ اس کے لیے وہ کوریا گیا پردیس کاٹی ۔۔لیکن واپسی پر اسے پتہ چلا کہ پیسوں کی ریل پیل نے ماں بیٹیوں کا دماغ خراب کر دیا اور حرام حلال محرم نا محرم رشتے آزادی چست و بے ہودہ لباس کو دیکھ کر بہت پیار سے طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی خود سے کمٹمنٹ کی کہ وہ اپنی بہنوں کو راہ راست پر لے آئے گا مگر۔۔۔
اسے جب پتہ چلا کہ بہت دور چلی گئیں ہیں اس کی بہنیں۔۔تو طوفان نے تو آنا تھا۔۔
میرا بیٹا چلا گیا گھر سے۔۔
اس کا مطلب ہے سب عیش و عشرت اس گھر کی ساتھ لے گیا۔۔تمھاری بیٹیاں بلکل ویسے ہی ہیں جیسے وقار کہہ رہا تھا۔۔۔
ہاں میں نے بیٹیوں کی طرف داری کی کیوں کہ وہ صرف بھائی بن کر سوچتا تھا۔۔
اور میں باپ بن کر۔۔۔
میرے لیے میری بیٹیاں پھول جیسی ہیں۔۔
میں کیسے بھول سکتا ہوں وہ دن جب نورین پیدا ہوئی تھی۔۔مجھ سے میری ماں نے منہ پھیر لیا تھا۔۔خاندان والو نے افسوس کا اظہار کیا تھا مگر میں نے نورین کو گود میں اٹھایا تو مجھے فخر ہوا میں بیٹی کا باپ بن گیا ہوں۔۔۔۔
مجھے اللہ نے دوسری بیٹی عطا کی تو اللہ کی دین پر خوش اور راضی ہوا جہاں لوگوں نے مبارک باد ۔۔
کی جگہ افسوس کرتے رہے۔۔۔
تیسری نازنین کی پیدائیش لوگوں نے مجھے بدنصیب کہناشروع کر دیا۔۔۔لیکن مجھے جتنا لوگ لفظوں کے وار سے چوٹ پہنچاتے میں اور اللہ کے حضور جھک کر شکر ادا کرتا۔۔۔
پھر میرے گھر میں ۔۔۔
وقار نے آنکھ کھولی۔۔۔
میرا بیٹا۔۔
میری جان تھا۔
میرا مان ۔۔
اپنی بہنوں کی عزت کا رکھوالا۔
اور بہنوں نے کیا کردیا۔۔۔
میں نہیں کر سکتا لوگوں کی طرِح کہ غیرت کے نام پر قتل کر دیتے ہیں۔۔
میری بچیاں میری جان ہیں۔میرے لیے آزمائیش نہیں۔میں نہیں کر سکتا۔۔کہ
انہیں گھر سے نکالوں۔۔۔
ان کی بے راہ روی کی وجہ ایک بڑی ہستی ماں ۔۔۔جس نے انہیں اس جگہ تک پہنچایا ہے۔۔تربیت کرنی تھی تم نے بیٹیوں کو بتانا تھا ۔۔۔
دولت آجاے تو آپے سے باہر نہیں ہوتے۔
خدا وہی ہوتا ہے نبی ص وہی ہوتے ہیں۔۔قران وہی ہوتا ہے قران میں حکم وہی ہوتا ہے۔۔تو اللہ کی رسی کو دولت آنے کے بعد چھوڑا نہیں جاتا۔۔
بیگم کا چہرہ آنسووں سے تر تھا پاوں میں گر گئی۔۔
مجھے معاف کردیں میرے سرتاج۔۔۔۔مجھے معاف کردیں۔۔۔۔
نورین نازنین مہرو تینوں قریب ہوئیں۔۔
اور پاوں میں گر گئیں۔۔ہمیں معاف کردیں ابا جی۔۔
بھائی کو منائیں ہماری آنکھوں پر خود غرضی کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔۔
ہم بھول چکیں تھیں بھائی ۔۔اپنی بہنوں کی عزت کے محافظ ہوتے ہیں انہیں بلائیں ہم ۔۔معافی مانگنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
ابا جواب میں خاموش رہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کراہتا ہوا گلی مڑا ہی تھا۔
کہ ایک چھے اسلحہ برادر بھری جیپ سامنے سے آتی ہوئی دکھائی دی۔اکرام فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔
گاڑی رکی اکرام تیزی سے وقار کے قریب آیا اور
ایک تھپڑ مار کہا کیوں ؟ کہاں بھاگتے ہو۔۔میرے آفس آکر مجھے مارا پیتا تھا نا اب کرتا ہوں حساب برابر تمھارا۔۔۔
اس نے ایک لات ماری اس کے پیٹ میں۔۔
وہ جو پہلے سے زخمی تھا ابا کی مار کھا کر زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔۔بے اختیار تکلیف سے اس کے منہ سے نکلا۔۔یا اللہ موت کیوں نہیں آتی مجھے۔۔۔
اکرام اس پر جھکا اسے گریبان سے پکڑکر گھسیٹا ۔اور طنزا مسکرا کر بولا ۔۔تجھے موت نہیں دینی بیٹا حساب چکتا کرنا ہے۔۔۔
اوراس کے منہ پر جھامپڑ رسید کر دیا۔
تجھے نشان عبرت بناوں گا تمھاری بہنیں لڑکے پھانسیں اور پھر تم آکر غیرت جھاڑ کر پٹائی کرو۔۔
اس نے مار مار کر ادھ موا کر دیا۔۔۔
وقار کو۔۔
تبھی وقار ہنسنے لگا۔۔
اس کی آنکھیں بند تھیں۔
اکرام کو اس کا یوں ہنسنا عجیب لگا ۔اتنی مار کھائی ہے اور یہ؟؟
وقار زمین پر لیٹے لیٹے بولا۔۔
اکرام ۔۔زنا قرض ہے ۔۔یہ قرض تمھاری بہن تمھاری بیٹی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ادا کرے گی۔۔اور زانی شخص اللہ کی پکڑ میں ضرور آتا ہے۔۔۔وہ بے ہوش ہوچکا تھا۔
اکرام اپنے بدمعاش ساتھیوں کے ساتھ جیپ میں بیٹھ کر جا چکا تھا۔۔۔
محلے والے جو پہلے قریب نہ آے اکرام کے جاتے ہیں دوڑے اور وقار کے ابا کو بلا لائے ساری باتیں کیں۔۔

اکرام کی کہانی یہ ہے کہ وہ ایک مہذب اور پڑھا لکھا دولت مند شخص تھا بہت سی گرل فرینڈ رکھی تھیں گرل فرینڈز رکھنا اس کے لیے عام سی معمولی بات تھی ان پر پیسہ خرچنا اور موقع سے عزت سے کھیلنا بھی عام سی بات تھی اس کے لیے۔
اس کے اندر انتقام کی آگ اس لیے لگی کہ اسے کاروبار کو سہارا دینے کے لیے ایک مظبوط انویسٹر کی ضرورت تھی۔پھر اس کی ملاقات وقار سے ہوئی جو کوریا سے آیا تھا اور اس کے پاس نوٹ تھے۔
لیکن اس بار ہوا یوں کہ اس کا پالاایک غیرت مند آدمی سے ہوگیا جس نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیے۔۔۔کاروبارمیں لاسٹ ہوا۔۔انویسٹر بھی گیا۔
اور اپنے قریبی اور خاندان کے لوگوں میں اسکی عزت بھی دو کوڑی کی نہ رہی۔۔پولیس کو بھی رقم دے کر ساتھ ملایا کہ اس کے خلاف کاروائی سے باز رہے۔۔۔۔
لیکن پھر جب بادشاہت سے زمین پر گرا تو انکشاف ہوا۔۔اس کو بھی اللہ نے تین بیٹیوں سے نوازا تھا۔
بیوی اس کی باپردہ خاتون تھی۔ بچیاں پہلی تیسری اور پانچویں جماعت کی طالبات تھیں۔۔۔

اصل امتحان تو مرد کا تب ہوتا ہے وہ غریب ہوجاے اور اس کی شریک حیات اسے چھوڑ جاے غربت کی وجہ سے۔
قدرت کی لاٹھی بھی پڑنی تھی۔
اس کی بیوی ایک دن گھر میں نہ تھی۔۔
وہ بہت پریشان ہوا۔۔ اسکے موبائیل میں ایک آڈیو بھیجی تھی۔۔
اکرام۔۔بس بہت ہوگیا۔۔تمھارے ساتھ اس طرح زندگی کے دن نہیں گزار سکتی۔۔پل پل جیو پل پل مرو۔
کبھی گھر میں ایک ضرورت کی چیز لاع تو دوسری نہیں لا سکتی۔۔۔ایسی حالت میں گزارہ کب تک کرتی۔
لہذا میں نے اور جمال نے بھاگ کر شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔ہاں مجھے کھوجنے کی ضرورت نہیں ہے جب تم یہ ریکارڈنگ سنو گے تب میں بہت دور جا چکی ہونگی۔۔۔۔۔بچیوں کا خیال رکھنا۔۔۔

اکرام دیوانہ ہوگیا۔۔بہت رویا بہت تڑپا۔۔
پتہ چلا اس نے بھی تو کسی کو پریشان کیا تھا۔
دکھی کیا تھا۔
آج قدرت وہی سب کچھ اس کے ساتھ بھی کر رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن بے ہوش بیٹے کو گھسیٹ کر گھر لاتے ہوئے وقار کے ابا بہت رویا کاش تمھیں کوریا نہ جانے دیتا۔۔کاش یہیں پر رہ کر دال روٹی کمانے کا کہتا آج یہ سب نہ ہوا ہوتا۔محلے والے اکھٹے ہوے اور انہیں کہا گھر جانے کی بجاے ہسپتال لے چلو۔۔
اس کی حالت بہت خراب ہے۔۔
اسے ہسپتال لے گئے۔۔
اس کا ٹریٹمنٹ ہوا۔۔
دو دن ہسپتال میں رہا۔۔
بہنیں بہت تڑپیں بہت روئیں۔۔
بھائی کے لیے۔۔سمجھتی تھیں یہ سب ان کے کرتوتوں کا صلہ ہے ۔۔ماموں اور ممانی بھی وہیں تھے۔
افسوس کر رہے تھے۔۔اپنی باجی سے کہا کہ آپا ہم غلط تھے کاش کہ بچیوں کو وہ آزادی کا ماحول نہ دیتے آج یہ سب نہ دیکھنا پڑتا۔۔
ان کی بیٹی افشین بھر پور نقاب میں۔۔
ہسپتال میں وقار کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے بھی تو خواب ادھورے تھے۔۔وہ بچپن سے ایک ہی خواب دیکھتی آئی تھی۔۔۔وقار کا۔۔آج اتنا کچھ ہوا تو۔۔دل کرچی کرچی ہوگیا۔۔افشین
نے وضو کیا۔اور ہسپتال میں جاے نماز بچھا کر اللہ سے وقار کی زندگی کے لیے دعا کرتی رہیں۔۔۔
وقار بے ہوش تھا۔۔
اس کی گڑگڑاہٹ اس کی سچائی اس کی سچی محبت اس کا صبر اس کی دعا اللہ نے سن لی۔۔۔

بے ہوش وقار کو ہوش تو آجاتا ہے مگر اسے اک خواب دکھتا ہے وہ کوریا آجاتا ہے دوبارہ۔۔
اور کسی صورت واپس جانے کو تیار نہیں ہوتا۔۔
بھلے اس کا ابا کہے اس کی ماں اس کی بہنیں۔۔
وہ سب کو معاف تو کردیتا ہے مگر اس کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے واپس نہ جانے کا۔۔۔

لیکن پھر اک لڑکی آتی ہے خوبصورت آنکھوں والی۔۔
اتنی خوبصورت کہ کسی کا بھی دل دھڑکادے۔۔
خوبصورت قدر آور لڑکی جس کی آنکھوں میں بلا کی حیا ہوتی ہے۔۔
وہ لڑکی اسے کہتی ہے میری خاطر پلیز پاکستان آجائیے۔۔نا۔۔۔اس آواز میں اتنی کھنک تھی اتنی اپنائیت تھی کہ اپنی ضد کو شکست ہوتے دیکھ کر وہ بے اختیار کہنے لگا نہیں کسی صورت نہیں جاوں گا۔۔پاکستان واپس۔۔
وہاں مان توڑے جاتے ہیں اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔۔۔۔پاکستان نہیں جاوں گا۔۔
یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھ کھل گئی وہ مکمل ہوش میں گیا۔۔اس کے وارڈ میں کچھ فاصلے پر جاے نماز بچھاے افشین جو اللہ کے حضور اس کے لیے دعا
کر رہی تھی۔۔۔نظر آئی۔
اس کو ہوش میں دیکھ کر آمین کہہ کر دعا مکمل کی اور بھاگتے ہوے اس کے قریب آئی۔۔
کہنے لگی آپ پاکستان میں ہی ہیں ۔۔۔وقار۔
وقار نے غور سے دیکھا خواب میں افشین ہی تھی جو واپس آنے کو کہہ رہی تھی۔۔۔افشین کا روپ اسے بھاگیا۔۔
سب گھر والے اکھٹے ہوگئے۔۔

مختصر قصہ یہ کہ وقار نے معاف کر دیا۔اس کے پاس اسکے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا بہنوں کو سبق مل گیا ماں کو بہت زیادہ۔۔۔

آگے مت پڑھیے بس سمجھ جائیے۔۔
کہ افشین اور وقار کا نکاح ہورہاہے۔۔۔
بہنیں ڈھولکی رکھے گلہ پھاڑ پھاڑ گارہی ہیں۔۔
دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا۔
امڑی دے دل دا سہارا تے ویر میرا کوڑی چڑیا ۔۔۔۔۔
🙈🙈🙈🙈🙈🙈🙈🙈🙈🙈🙈🙈🙈

اور ہاں ختم شد تو کہنا میں بھول ہی گیا تھا۔۔

ختم شد۔

26/02/2024

پیار اک پھول ہے
اس پھول کی خوشبو تم ہو۔

پہلے تو صبع صبع شوہر کو گھر سے
دفتر روانہ کیا بچوں کو چھٹی تھی
تو انہیں جگایا نہیں کہ وہ صبع صبع
اودھم مچائیں گے سارے گھر میں
بھاگتے دوڑتے رہیں گے اور میں پاگلوں
کی طرح سمیع ۔۔انیسہ ۔۔شارخ ادھر
مت جاو ادھر مت جاو یہ نہ کرو وہ
کرو میں گزرے گا اور یہ میری ناک میں
دم کرتے رہیں گے
میں نے سوچا کہ دن کو چنا چاٹ
بھی بنا لوں فٹا فٹ چھولے کوکرمیں
ڈال کر
چڑھایا چولہے پر۔
منے نے پاٹی کی تھی اس کی وخری
ٹینشن ۔۔۔وہ بابا بابا کرتا کبھی کمرے
کے مشرق میں تو کبھی مغرب میں
گھومتا۔۔۔افففووو
میں جھنجھلا جاتی۔۔یار اتنا پریشر
لے کر کیسے کام سارے سر انجام دوِں
گی دسو۔۔؟؟

خیر میں نے دوپٹہ سر سے نیچے کر
کے گردن میں لپیٹ کر سارے کمرے
پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالی۔اور
سب سے پہلے منے کا پیمپر چینج کیا
۔۔اسے صاف کیا باتھ روم سے نکلی۔
۔تو دیکھا کہ سمیع جاگا ہے اور دبے
پاوں چھت پر جانے کے لیے آدھی
سیڑھیاں چڑھ گیا ہے میں نے اسے
آڑے ہاتھوں لیا سمیع عععععع؟؟
کہاں جا رہے ہو مجھ سے پوچھے بغیر؟؟
ماممممی وہ میں وہ۔۔۔
چھے سالہ ننھے سمیع کو سجھائی
نہ دیا۔کیا جواب دے تو اداس سا
نیچے اترنے لگا۔۔سیڑھیاں واپس۔۔
میں نے بھی آنکھیں نکال کر اسے
گھور کر دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔غضب
خدا کا ابھی تو
صرف نو بجے ہیں اور سمیع صاحب
جاگ گئے ہیں۔۔چلو جاو شاباش لیٹ
جاو اور بارہ بجے سے پہلے نہیں اٹھنا
۔۔اتنے سارے کام ہیں ۔۔تم لوگوِں کو اپنی
ماں پر ذرا رحم نہیں آتا۔۔۔

وہ منہ بسورتا کمرے میں گھس گیا۔۔
مجھے کچھ تجسس ہوا کمرے کی
لائیٹ کیوں جل رہی ہے؟؟
میں نے منے کو قالین پر چھوڑا دو
عدد کھلونے اس کے سامنے رکھے
وہ مشغول ہوگیا کھیلنے میں میں
البتہ دبے پاوں کمرے میں گئی کیا
دیکھتی ہوں۔۔

کمرے کا ستیاناس کیا ہوا ہے بسترے
رضایاں تلایاں۔
آگڑوم باگڑوم اور آٹھ سال کا شارخ
اور گیارہ سالہ انیسہ آپس میں گھتم
گھتا تھے۔۔۔
سمیع انہیں دیکھ کر ریفری بنا تھا۔۔۔
میں نے چلانا شروع کیا تو تینوں بستر
میں آڑھے ترچھے گھسے۔۔۔رضائی میں
ڈر کے مارے۔۔

یہ کیا اودھم مچا رکھا ہے۔۔۔شرم نہیں آتی سارا دن کولہو کے بیل طرح سارے گھر کے کام کرتی ہوں۔۔
مجھ پر رحم نہیں آتا تم لوگوں کو ؟؟؟جتنامیں چیخ کر بول سکتی تھی بولی۔۔۔
کہ آٹھ سال کے شارخ کے منہ سے ڈائیلاگ نکلا۔۔
رحم عالی جاہ عالم پناہ رحم۔۔۔
یہ سن کر جہاں انیسہ اور سمیع کی بتیسی نکل آئی وہیں میرا بلڈ پریشر آوٹ آف کنٹرول ہوگیا اور آندھی طوفان کی طرح دھاڑتی ہوئی ان کو پھینٹا لگانے بیڈ پر چڑھ گئی۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ شارخ کو تھپڑ مارتی۔۔۔
ان کی بڑی بہن انیسہ سامنے آگئی۔۔۔
وہ تو ڈھال بنی ہی تھی کہ چھوٹا بیٹا ۔۔
سمیع نے بھی میرے دوپٹے کو پیچھے سے پکڑ کر مجھے روکنے کی کمزور کوشش کی۔۔ابھی میرا غصہ کافور ہوا ہی تھا۔کہ ڈیڑھ سالہ عدن کمرے میں خود کو گھسٹتا ہوا پہنچا بابا بابا کہتے۔۔۔۔
افففففف

میرے جسم کی طاقت ہی ختم ہوگئی وہیں بیٹھ گئی۔۔۔کیا تم لوگوں نے۔۔کمرے کا حشر کیا ہوا ہے۔۔۔
آج میں نے مشین لگانی کپڑے دھونے ہیں دن کو مہمانوں نے آنا ہے اس کے لیے تیاری کرنی ہے اور تم لوگوں نے میرا کام بڑھا دیا ہے میرا بی پی شوٹ ہوجاے گا میں مر جاوں گی۔۔میں روہانسی ہوگئی۔
تبھی شارخ انیسہ سمیع قریب ہوئے۔اور کہا ماما آپ ٹنشن نہ لیں ہم ہیں نا اس کمرے کو سنبھالیں گے۔اور اس کاکے کو بھی اس نے ننھے عدن کی طرف مسکراتے ہوئے کہا۔
تبھی انیسہ بولی ماما کیا ہوگیا ہے بیٹیاں کس لیے ہوٹی ہیں ۔۔میں ہوں نا چاے بنانا اور بریڈ ٹوسٹ کر کے سب کو ناشتہ کرا دیتی ہوں کوئی راکٹ سائیس تو ہے نہیں اور یہ کمرا بھی پورا ٹھیک کر دو گی۔۔ٹینشن کیوں لیتی ہیں۔۔۔

بظاہر تو یہ سب باتیں بہت اچھی اور بھلی لگ رہی تھی۔مگر کام جب تک سر انجام نہ دیا جاے تب تک تو مجھے سکون کہاں ملنا تھا لہذا میں نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا ۔کہ فٹا فٹ یہ کمرہ صاف ہونا چاہیے بلکل چمکا ہوا۔۔۔اور انیسہ تم جاو پہلے بریڈ گرم کرو پھر چاے بنانے کا میں جیسے جیسے کہتی ہوں ویسے ہی بنانا۔۔۔سمجھ گئی نا وہ اٹھی اور معصوم چہرا بناے بولی۔۔ماما پہلے میں باتھ روم کا چکر نہ لگا لوِں؟؟ افف میں نے کہا جاو جلدی کرو۔۔
ابھی وہ اٹھنے کے لیے ہلی ہی تھی۔کہ شارخ جمپ لگا کر بیڈ سے اترا۔۔۔اور باتھ روم میں گھس گیا۔۔۔
انیسہ میری طرف اداس سی دیکھنے لگی ۔۔
ماما دیکھے نا شارخ پہلے چلا گیا۔۔
میں نے گھور کر دیکھا کہ انیسہ تم بچی تو نہیں ہو نا سب بہن بھائیوں سے بڑی ہو لہذا کچھ بڑے پن کا مظاہرہ کیا کرو۔۔۔

وہ خاموش ہوگئی۔ سمیع کو کہا
۔۔کہ منے کے ساتھ
کھیلو میں نے مشین لگانی ہے
کپڑے دھونے ہیں اور
کمرا صاف کرنے کی ذمہ داری
شارخ کی۔۔۔

میں حکم صادر کرتی باہر
نکلی تو
پتہ لگا کہ گیس
صاحب جا چکے ہیں۔۔۔
اور کوکر میں چھولے رکھ کر
چڑھاے تھے
وہ کام ناکام ہوگیا۔۔اوفففوووو۔
میں نے حکومت وقت کو ڈھائی
سو
بددعائیں دے ڈالیں۔۔۔اور سوچنے
لگی چاٹ
باہر سے ہی منگوایا جاے۔۔۔چلو
ابھی میں
نے سوچا ہی تھا کہ لائیٹ صاحب
بھی چلے
گئے ایک گھینٹے کے لیے۔۔۔
اس بار تو میں نے یہ موٹی
موٹی گالی
دی حکومت کو۔مجھے بہت
فکر رہتی ہے
کام نبٹانے کے لیے۔۔۔
اب کمرا بھی صاف نہ ہوا
۔۔جو چیز
جہاں تھی وہیں پڑی رہ گئی۔
۔اور بچے کمرے
سے باہر نکل آئے۔
انیسہ نے پھرتی دکھائی تھی
بریڈ اور چاے بنانے میں وہ چاے
نک میں چاے ڈال کر برامدے میں
ہی لے آئی۔۔۔
چاے بننے کی خوشبو نے مجھے
تھوڑا فریش کیا تھا۔
پھر شارخ نے دسترخوان بچھادیا
اور سمیع سے عدن کو لے کر کہا
جاو منہ ہاتھ دھو آو۔عدن کو مجھے
پکڑا دو۔۔۔۔انیسہ چاےناک اور کپ
ٹرے میں سجاے آئی ایک پلیٹ میں
ڈبل روٹیاِ بھی تھیں۔۔

سچ پوچھو تو مجھے بھی بھوک
لگ گئی۔
بچوں کو کام کرتا دیکھ کر دل کو
عجیب سی خوشی محسوس ہورہی تھ
خیر برامدے میں سورج کی روشنی کا
تھوڑا بہت اہتمام تھا اس کی روشنی
میں ناشتہ کیا گیا میں نے بھی
چاے پی واقعی انیسہ نے کمال
کی چاے بنائی تھی۔۔۔۔۔
میں نے شاباشی دی انیسہ کو۔
۔وہ خوش ہوئی۔۔
کہ سمیع بولا شارخ سے بھائی جان
آج تمھاری وجہ سے انیسہ آپی کو
پھینٹی لگنے والی تھی۔
تھوڑا دھیان کیا کرو۔۔۔
اس کی بات سن کر میں حیران ۔
۔یہ پدو سا اپنے قد سے بڑی باتیں کرنے لگا ہے۔۔
شارخ نے جواب دیا۔۔تو کیا ہوا اچھا ہے پھینٹی لگ جاتی مزا آجاتا۔۔۔۔
تبھی ننھا سمیع بولا۔۔
شارخ بھائی جان انیسہ نے گھر چھوڑ
کر چلے جانا ہے کل تب تم ہی رو گے
انیسہ کے پیچھے۔ یہ مہمان ہے۔
اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔۔۔
اس کی باتیں سن کر میری آنکھوں
میں آنسو آگئے۔۔
خود کو کنٹرول کرتے ہوئے۔۔سمیع
سے پوچھا۔بیٹا یہ باتیں کس نے
بتائی ہیں۔۔۔؟؟؟
سمیع بولا ماما پھپھو بھی تو شادی
کر کے یہاں سے اپنے شوہر کے گھر
چلی گئی ۔۔اور زرین خالہ بھی تو
شادی کر کے اپنے شوہر کے گھر چلی
گئی۔۔اس لیے انیسہ بھی چلی جاے گی۔۔
۔۔ایک دن۔
میں نے سمیع کو گلے لگا کر پیار کرتے
ہوے کہا بیٹا ابھی تم بہت چھوٹے
ہو یہ باتیں تمھاری سوچنے کی نہیں۔۔
ناشتہ کرتے وقت منے کو اپنے دودھ
پر کردیا کہ اس کا پیٹ بھرے یہ
سوجاے ۔اسے سلا کر کمرے میں
لیٹا دیا اب کچھ بوجھ ہلکا ہوا تھا۔
کہ اب پوری سپیڈ سے کپڑے دھونے
پر دھیان دینا ہے بس لائیٹ آجاے
اک بار۔بچوں نے اچھے بچوں کی
طرح سارے برتن سمیٹے اٹھاے
اور کچن میں لے جانے لگے۔۔انیسہ نے ایک اور پہاڑ بھی سر کر لیا۔

کچن میں رات کے گندے برتن
صبع کے برتن۔
دھونے کے لیے پڑے تھے سنک سارا
بھرا تھا۔
انیسہ نے کمال پھرتی اور تیزی سے
لکڑی کی پیڑی رکھ کر اس پر کھڑی ہوئی
۔اور سنک میں موجود برتن دھونے لگی۔۔
لیمن میکس لونگ بار پر برتن
دھونے میں مصروف ہوگئی۔۔
مجھے معلوم نہ تھا بے دھیانی میں
کچن میں جھانکا تو انیسہ کو کام کرتے دیکھ کر اسے ڈھیر ساری دعائیں دے ڈالیں۔۔۔
میں نے سارے کپڑے جمع کیے
ایک طرف واشنگ مشین میں آدھی
بالٹی ٹھنڈا پانی ڈالا۔
اور لائیٹ لائیٹ کرتی میں تو آپے
لائیٹ ہوئی کے مصداق۔۔۔بچے کمرے
میں گھسے کیا کر رہے تھے؟
میں نے جھانک کر دیکھا ۔میرا موبائیل
ان کے پاس تھا وہ گیم کھیل رہے تھے۔
ٹہر تیری تو۔۔تم لوگوں کو منع کیا ہے
میرا موبائیل نہ استعمال کرو۔۔۔
آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ سے
موبائیل لے لیا۔
شارخ اور سمیع اٹھے اور دوسرے کمرے میں لڈوکھیلنے لگے۔۔
میں خاموش ہوگئی چلو۔ کیا منع کرنا۔۔
۔موبائیل ان سے لیتے ہی یاد آیا آج تو
باجی فریحہ کی بڑی بیٹی کا پیپر
ہے فون کر کے پوچھوں تو صحیع کہ
کیسی ہوئی تیاری۔۔
میں نے ڈائیل نمبرز میں فریحہ کا نمبر
ڈھونڈ کر ری ڈائیل کر دیا۔۔۔
پہلی گھینٹی پر ہی فون اٹھا لیا۔۔
ہاے نی فریحہ کیا حال ہیں اسلام علیکم۔

میں نے کال ملتے ہی
اسے بولنے کا ذرا
موقع نہ دیا۔
واعلیکم سلام۔۔ارے
پروین صبع صبع۔
ہی کال کھڑکا دی۔۔لگتا
ہے میاں کے
دفتر جانے کا انتظار تھا۔
مجھے اچھا نہ لگا۔میں نے کہا۔
باجی آپ کو پتہ ہے نا آجکل کے
میاں کتنی باتیں پوچھتے ہیں۔کس
کی کال آئی تھی کیا
کہہ رہی تھی بلا بلا۔۔۔
تم سناو تمھاری بیٹی
ماریہ سکول
گئی آج تو اس کا پیپر تھا میں نے
سوچا فون کر کے پوچھوں۔۔
باجی کہنے لگی۔۔بہت
زبردست تیاری
ہے ماریہ کی۔
دیکھنا فرسٹ آئے گی۔۔
۔میں نے بغیر
جلے کہا انشااللہ اپنی
انیسہ بھی
کچھ کم نہیں ہے۔۔بہت زبردست
پڑھائی کر رہی ہے۔۔۔
میری بات پر باجی
فریحہ کھلکھلا
کر ہنس دیں۔

جیسے انہیں میری بات پر
اعتبار نہ ہو۔۔
مجھے کچھ اچھا نہ لگا تھا۔۔
تو سوچا ۔۔۔کہ گڈ باے کہہ ہی دوں۔
اچھا باجی پھر بات ہوگی ادھر
واشنگ مشین لگائی ہے۔
۔اوکے اللہ حافظ۔
موبائیل بند۔۔
انیسہ اسی دوران
کچن سے نکلی
میں نے مسکرا کر پوچھا
ہاے میری
شہزادی نے سارے
برتن دھو دیے؟؟؟
اس نے اثبات میں
سر ہلایا۔
اور کہنے لگی ماما اس
وقت سے آپ
فون پر خالہ سے گپ
شپ کر رہیں
ہیں۔بجلی کیا پتہ آئے
ہی نا؟ کپڑے
ہاتھوں سے ہی دھو
لیتیں۔۔۔جتنا کام
نبٹتا ہے اتنا تو نبٹائیں۔۔
مجھے اس کی بات پر
غصہ آگیا۔
انیسہ ۔۔۔۔۔میری ماں
بننے کی کوشش
نہ کرو۔۔
سمجھی۔
وہ بے زار سی منہ لٹکاے
اندر کمرے
میں چلی گئی۔

میں نے دل ہی دل میں سوچا
خوامخواہ بے عزت
کردیا بے چاری
نے کچن میں ساری برتن
بھی دھوے
اور میں نے اسے؟؟؟؟؟؟
خیر اسے منانے کا اس وقت کوئی
ارادہ نہیں تھا میرا۔۔کہ باہر کا دروازہ
کسی نے پیٹ ڈالا۔
افووو اس وقت کون آگیا؟
میں ٹھمک ٹھمک چلتی بیرونی
دروازے کو کھول کر
باہر دیکھنے لگی۔۔۔کوئی بھی نہیں تھا۔
اچانک ہی ساتھ والی پارو دانت نکالے
نظر آئی۔میرے کچھ پوچھنے سے
پہلے ہی بولی۔۔
اے باجی کیا حال ہیں۔۔
میر موڈ خراب ہوگیا اس پارو
کو دیکھ کر۔
لیکن اخلاق کا دامن ہاتھ میں
لیکر مسکراتے ہوئے پوچھا
جی کراں نے۔۔۔
تبھی وہ بولی۔۔۔
باجی اصل میں نا وہ میرے گھر
آج مہمان آرہے ہیں میرے رشتے
کے لیے۔۔تو میں آلو گوشت بنا رہی تھی۔
پیاز اور لہسن چاہیے تھا اگر مل سکے؟
میں نے سرہلا کر کہا اچھا دیتی ہوں ۔

اندر آئی دو پیاز اور لہسن لے کر
دروازے میں کھڑی
پارو کو دیے۔۔
اس نے بتیسی نکال کر شکریہ ادا
کیا اور پھر دھماکہ کر دیا۔۔۔کہنے
لگی باجی آپ کو پتہ فرخندہ کی
منگنی ٹوٹ گئی۔۔
میری تو جیسے پاوں کے نیچے سے
زمین سرک گئی۔
مگر کیسے؟؟
میں مجسس تھی۔۔ ہلکا ہلکا سا
رونا بھی آرہا تھا۔
تبھی وہ رازدارا نہ لہجے میں بولی۔۔
ارے باجی کسی کو بتانا نہیں۔۔۔
منگیتر نشئی نکلا۔۔۔
افففففف۔۔۔۔ مجھے دلی صدمہ پہنچا۔۔
یار کتنا غلط ہوا فرخندہ کے ساتھ۔۔
خیر میں نے رخصت لی ۔۔کہ میں
نے واشنگ مشین
لگا کر کپڑے دھونے ہیں۔۔۔لہذا میں
جا رہی ہوں۔
میں گھر کے اندر ہوئی ہی تھی
کہ لائیٹ آگئی۔۔
میں نے دیکھا میرا موبائیل میرے
بچوں نے دوبارہ سے چپکے سے اٹھا
لیا تھا اور ٹک ٹاک دیکھ رہے تھے۔

تینوِں ۔۔انیسہ شارخ اور سمیع۔۔
ٹک ٹاک پر عارف لوہار کا مشہور
گانا لگا کر تینوں ناچتے ہوئے برامدے
میں نکلے۔۔
اور میری طرف اشارے کر کے اس
گانے پر لپسنگ کرنے لگے۔۔آ آآآآ نی
آ تینوں موج کراواں آ۔۔تینوِ سیر
کراواں۔۔آاااااااا نی جاں۔۔۔
خیر لائٹ آنے کی خوشی مجھے
بھی بہت زیادہ تھی۔مگر اتبی
نہیِں کہ عارف لوہار کے گانے پر
ڈانس کروں۔۔میں نے آگے بڑھ کر ان
سے موبائیل لیا۔اور کہا بیٹری لو ہے
چلو کل کے پیپر کی تیاری کرو شاباش۔۔
اور مجھے واشنگ مشین لگانے دو۔۔
انیسہ بولی ماما۔۔۔واشنگ مشین
لگانی ضروری ہے یا مہمانوں کے
لیے کھانا بنانا۔
میں نے گھڑی کی طرف نظر
دوڑائی ابے۔۔
یہ بارہ بج گئے ہیں مہمانوں نے
آنا ہے۔۔ڈیڑھ بجے تک۔۔
تبھی کپڑے دھونے چھوڑ کر میں
کچن میں بھاگی۔
کچھ چھوٹے موٹے کام گیارہ سالہ
انیسہ کے سپرد کیے اور کچھ میں
نے سپیڈ ماری۔۔
روٹیاں سالن میٹھے میں کسٹرڈ کھیر
۔میں نے کردیں۔۔سالاد اور دیگر
چیزیں انیسہ نے۔۔۔
اس سارے ہھرتیلے انداز میں کام
سر انجام دیتے دیتے کب
سوا ایک بج گیا۔۔۔
ظہر کی آذانیں شروع ہوگئیں۔
میں نے آذان کی احترام میں سب
کام چھوڑ کر آذان سننے پر سارا
دھیان دیا۔۔۔اور دوپٹہ سر پر لے
کر ڈھانپ لیا۔۔میری دیکھا دیکھی۔۔
انیسہ نے بھی دوپٹہ سے سر ڈھانپ لیا۔
میں مسکرا دی۔۔

آذان ختم ہوئی۔۔
میری ٹینشن کچھ کم ہوئی۔۔
چلو ایک کام تو سر انجام دیا۔۔
میں سوچنے لگی ویسے اتنا
کام تھا نہیں جتنا میں
نے رولا ڈالا ہے ۔۔۔خیر اپنی سوچ
پر خود ہی مسکرا دی۔۔۔
میں نے انیسہ کو کہا۔بابا کو فون
کرو۔۔۔کہ مہمانوں سمیت کب
گھر تشریف لارہے ہیں کھانا
تیار کر دیا ہے۔۔۔۔
انیسہ نے فون کر دیا۔۔تھوڑی
دیر بعد انیسہ واپس کچن میں آئیں
اور مجھے کہا۔کہ ماما بابا تو کہتے
ہیں کہ آج مہمان نہیں آرہے۔
۔۔ان کی بیٹی کا پیپر تھا۔۔۔

مجھے شدید غصہ آیا اپنے
میاوِں جی پر
ذرا خیال نہیں ہے کولہو کے
بیل کی طرح صبع سے شام
تک گھر کے کام کرتی ہوں۔
۔۔پہلے بتاتے نا۔۔
اتنی ٹینشن لی ہے ۔۔ابھی تک
واشنگ مشین نہیں لگائی کہ
مہمانوِ نے آنا تھا۔
میرے ہسبنڈ بولے ۔۔۔کچھ سو
لوشن نکالتے ہیں بیگم
اور فون بند۔۔۔۔
میرا غصہ تھا کم ہونے پر
نہیں آرہا تھا۔۔
مجھے بھوک لگی ہوئی تھی
۔بچوں کو بھی کھانا کھلا کر کہا
بچوِں اس وقت سو جاو۔۔پھر ظہر
کی نماز پڑھ کے سیدھا کل کے پیپر
کی تیاری کرنی ہے۔۔

میں بھی سستانے کے لیے۔۔
کچھ دیر لیٹ گئی پھر ایسی نیند آئی۔۔۔
کہ آنکھ مغرب کے بعد کھلی۔۔۔
میں جاگی سر بھارا بھارا ہو رہا
تھا یہ مجھے اتنی گہری نیند آئی
تھی پکی بے ہوش ہوگئی تھی۔۔
کیا دیکھتی ہوِں میرے میاوِں
صاحب آئے ہوئے تھے۔
گھر جے کپڑوں میں باہر کچھ
کام کرنے میں مصروف تھے بچے
بھی ساتھ ساتھ۔۔
میں نے اپنا تجسس ختم کرنے
کے لیے باہر آئی۔
تو دیکھا واشنگ مشین دھوئی
جا رہی ہے۔یہ کیا دیکھنا پڑ رہا ہے آج۔۔
مجھے دیکھ کر بچے مسکرا
کر یکزبان بولے۔۔سرپرائیز۔
ماما ۔۔۔۔۔۔۔بابا اور ہم نے سارے
کپڑے دھو دیے۔۔
حیرت سے میری آنکھیں
پھٹی کی پھٹی۔
ابے اس وفا کو اب میں
کیا نام دوں۔۔
میرے شوہر مسکرا کر بولے۔
بیگم میں نے کہا تھا نا
سولوشن نکال لیں گے ٹینشن نہ لو۔۔۔
سارے کپڑے نہ صرف دھوئے
اسے سپنر کیے اور چھت
پر پھلائے بھی اب وہ مکمل
خشک ہوچکے ہونگے لہذا چھت
سے اتارنے والی ذمہ داری آپ کی۔۔

کیوں کہ میِ دفتر میں کولہو
کے بیل کی طرح کام کرتا ہوں
مگر تھکتا نہیں۔سخت سردی
گرمی میں بارش میں طوفان
میں بائیک چلاتا ہوں۔۔
میں نے آگے بڑھ کر ان کے منہ
پر ہاتھ رکھتے ہوے ان کے کان
میں سرگوشی کی آج رات
کومیں آپ کی ساری تھکن
اتار دوِں گی پرامس۔۔
وہ مسکرا دیے۔

دوستو میاِں بیوی گاڑی کے
دو پیے ہیں۔۔۔ایک رک جاے
تو دوسرا بھی رک جاتا ہے۔
زندگی کو خوبصورت بنائیے
ایک دوسرے کا خیال رکھ کر ۔۔

18/02/2024
Hajjaj Bin Yousaf Ki Mout ka Dilkharash Waqia Urdu Amaze .must watch
16/02/2024

Hajjaj Bin Yousaf Ki Mout ka Dilkharash Waqia Urdu Amaze .must watch

Hajjaj Bin Yousaf Ki Alamnaak Mout Ka Dikharash Waqia||An Emotional Story Of Most Crual Muslim King support me by liking and subscribing. Asif Khan.😇 About...

Kala gulab famous Urdu Noval epi .1 must watch .
16/02/2024

Kala gulab famous Urdu Noval epi .1 must watch .

کالا گلاب || ناول || قسط نمبر 1 || Urdu Amaze 02👉This video covers the topic of An Urdu Noval base on Love Story / True Story. in urdu voice over.👉it is an...

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Amaze posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share