BBC Mirpur

BBC Mirpur Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from BBC Mirpur, Media/News Company, .

کھینچی زبان اُس کی بہُت بولتا تھا وہشاہوں کے راز جو تھے سبھی کھولتا تھا وہاُس کو تھی راست گوئی کی عادت پڑی ہُوئیسب کی بی...
08/05/2024

کھینچی زبان اُس کی بہُت بولتا تھا وہ
شاہوں کے راز جو تھے سبھی کھولتا تھا وہ

اُس کو تھی راست گوئی کی عادت پڑی ہُوئی
سب کی بیان بازیوں کو تولتا تھا وہ

ہاری کِسان اُس کو بہُت ہی عزِیز تھے
مارا گیا کہ کانوں میں رس گھولتا تھا وہ

باز آؤ سچ سے دوست اُسے بولتے رہے
کِتنا نڈر تھا خطرے سبھی مولتا تھا وہ

خُود کو سنبھال، کہتا رہا، غاصِبوں سے چِھین
دینے شعُور اپنی زباں کھولتا تھا وہ

لوگو شراب اُس کا بھلا کیا بگاڑتی
جمہور کا تھا کیف جبھی ڈولتا تھا وہ

اِنسان تھا وہ اُس پہ بھی ہوتا اثر ضرُور
ہنستا رشِیدؔ، آنسُو کبھی رولتا تھا وہ

18/04/2024
فضل الرحمان: دنیا کی بلند ترین عمارت اور سعودی حج ٹرمینل بنانے والے ’آئن سٹائن آف انجینیئرنگ‘ جنھوں نے پاکستان کو خیرباد...
04/04/2024

فضل الرحمان: دنیا کی بلند ترین عمارت اور سعودی حج ٹرمینل بنانے والے ’آئن سٹائن آف انجینیئرنگ‘ جنھوں نے پاکستان کو خیرباد کہا
فضل الرحمان خان، امریکہ، پاکستان، بنگلہ دیش،تصویر کا ذریعہENGINEERING NEWS-RECORD
،تصویر کا کیپشن
فضل الرحمان خان متحدہ ہندوستان میں سنہ 1929 میں ڈھاکہ کے ضلع فرید پور میں پیدا ہوئے تھے

3 اپريل 2024
’ایک تکنیکی شخص کو کبھی ٹیکنالوجی میں گم نہیں ہونا چاہیے بلکہ اُسے زندگی کو سراہنا چاہیے۔ زندگی آرٹ ہے، ڈرامہ ہے، موسیقی ہے اور اس میں سب سے زیادہ اہمیت لوگوں کی ہوتی ہے۔‘

یہ الفاظ کسی اداکار، گلوکار یا موسیقار کے نہیں بلکہ بنگلہ دیشی انجینیئر فضل الرحمان خان کے ہیں جنھیں دورِ جدید کی بلند ترین بلڈنگز کے ڈیزائنوں کا موجد اور ’آئن سٹائن آف سٹرکچرل انجینیئرنگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ان کا ڈیزائن کیا گیا 110 منزلہ ’سیئرز ٹاور‘ سنہ 1973 سے لے کر 1998 تک دُنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ امریکی شہر شکاگو میں قائم اس بُلند و بالا عمارت کا نام بدل کر اب ’وِلس ٹاور‘ رکھ دیا گیا ہے۔

شکاگو میں واقع 100 منزلہ ’جان ہینکاک سینٹر‘ کے سٹرکچرل انجینیئر بھی فضل الرحمان خان ہی تھے، یہ بُلند و بالا عمارت 1970 میں تعمیر کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ انھوں نے سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم کنگ عبدالعزیز ایئرپورٹ کا حج ٹرمینل اور کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی بھی ڈیزائن کی تھی۔

بیسویں صدی میں بُلند و بالا عمارتیں بنانے میں لوگ زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے کیونکہ اس پر خطیر رقم خرچ ہوتی تھی اور لوگ سمجھتے تھے کہ ان عمارتوں کی تعمیر سے ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

بنگلہ دیش کے ’انسٹٹیوشن آف انجینیئرز‘ کے مطابق فضل الرحمان خان نے انجینیئرنگ کی دُنیا میں’ٹیوب سٹرکچرل سسٹم‘ متعارف کروایا جس کے سبب بُلند عمارتیں بنانے میں کم پیسے خرچ ہونے لگے اور ان عمارتوں کو مختلف اشکال دینا بھی آسان ہوگیا۔

بنگلہ دیش کی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈیپارٹمنٹ اور سِول انجینیئرنگ کے مطابق دبئی میں واقع دُنیا کی بُلند ترین عمارت ’بُرج خلیفہ‘ کا ڈیزائن بھی فضل الرحمان خلیل کے متعارف کردہ سٹرکچرل ڈیزائن کی طرز پر بنایا گیا۔

امریکی سٹرکچرل انجینیئر مارک سارکیسین ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’فضل الرحمان خان ایک دور اندیش شخص تھے جنھوں نے شہروں کے اندر بُلند عمارتوں کو بدل کر رکھ دیا لیکن انجینیئرنگ کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے۔‘

پاکستان سے امریکہ کا سفر اور بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے جدوجہد
فضل الرحمان خان متحدہ ہندوستان میں سنہ 1929 میں ڈھاکہ کے ضلع فرید پور میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے والد عبدالرحمان خان ریاضی کے اُستاد تھے۔

’انسٹٹیوشن آف انجینیئرز‘ کے مطابق فضل الرحمان خان نے انجینیئرنگ کی تعلیم موجودہ انڈیا کی ریاست مغربی ریاست میں قائم ’بنگال انجینیئرنگ اینڈ سائنس یونیورسٹی‘ سے حاصل کی۔

ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ مشرقی پاکستان آ گئے اور انھیں امریکہ میں فُل برائٹ سکالرشپ مل گئی اور وہ یونیورسٹی آف ایلانائے پڑھے چلے گئے۔

فضل الرحمان خان نے اگلے تین برس میں سٹرکچرل انجینیئرنگ اور اپلائیڈ مکینکس میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔

انسائیکلوپیڈیا کمپنی بریٹینیکا کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ مختصر وقت کے لیے وہ پاکستان واپس آئے اور کراچی ڈویلپمینٹ اتھارٹی میں ملازمت اختیار کی۔

فضل الرحمان خان، امریکہ، پاکستان، بنگلہ دیش،تصویر کا ذریعہSOM
،تصویر کا کیپشن
ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ مشرقی پاکستان آ گئے

لیکن جلد ہی 1952 میں انھوں نے پاکستان کو خیرباد کہا اور امریکہ منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے مشہورِ زمانہ تعمیراتی کمپنی ’سکِڈمور، اوونگز اینڈ میرل‘ میں ملازمت اختیار کی۔

اُن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں امریکی حکومت نے شہریت بھی دے دی تھی۔

صرف یہی نہیں سنہ 2009 میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے دورے کے موقع پر اس وقت کے امریکی صدر بارک اوبامہ نے اپنی تقریر کے دوران مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے فضل الرحمان خان کا بھی نام لیا۔

بنگلہ دیش کی آزادی اور فضل الرحمان خان کی خدمات
بنگلہ دیش کی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پر فضل الرحمان خان کی زندگی پر چھپے ایک مضمون کے مطابق انھوں نے ملک کی آزادی کی جنگ شروع ہونے کے بعد امریکہ میں بنگلہ دیشی افراد کو متحرک کیا اور انھیں آزادی کے حق میں قائل کیا۔

’وہ بنگلہ دیش کے حق میں لوگوں کی رائے بنانے میں مصروف رہے اور شکاگو میں بنگلہ دیش ایمرجنسی ویلفیئر اپیل اور بنگلہ دیش ڈیفنس لیگ نامی تنظیمیں بھی قائم کیں۔‘

اس مضمون کے مطابق فضل الرحمان خان نے امریکہ میں پاکستانی سفارت اور قونصل خانوں میں تعینات سفیروں کو بنگلہ دیشی سفارتخانے جوائن کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔

’بنگالی سفارت کاروں کی اکثریت پاکستان سفارتخانے چھوڑ کر بنگلہ دیشی سفارتخانے قائم کرنے پر راضی تو تھی لیکن انھیں مالی غیر یقینی کا سامنا تھا۔‘

ایسے وقت میں فضل الرحمان خان نے واشنگٹن اور نیویارک میں موجود سفارت کاروں کو مالی مدد کی یقین دہاںی کروائی۔

’انسٹٹیوشن آف انجینیئرز‘ کے مطابق ربندراناتھ ٹیگور کی بنگالی شاعری میں دلچسپی رکھنے والے انجینیئر کو بنگلہ دیش کی حکومت نے 1999 میں ’یومِ آزادی ایوارڈ سے بھی نوازا اور ان کے اعزاز میں یادگار سٹیمپ بھی جاری کی۔‘

فضل الرحمان خان کو سِول انجینیئرنگ کے لیے ان کی خدمات پر دُنیا بھر میں ایوارڈز سے نوازا گیا۔

وہ 27 مارچ 1982 میں صرف 52 برس کی عمر میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں انتقال کر گئے اور انھیں شکاگو میں دفنایا گیا۔

ان کی موت پر امریکی میگزین ’انجینیئرنگ نیوز ریکارڈ‘ نے لکھا تھا کہ ’ان کی بنائی گئی عمارتیں برسوں کھڑی رہیں گی اور ان کے آئیڈیاز کبھی نہیں مریں گے۔‘

متعلقہ عنوانات

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when BBC Mirpur posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share