Junaid Iqbal Janjua

  • Home
  • Junaid Iqbal Janjua

Junaid Iqbal Janjua Sharing my Travel Experiences, Business life and everything in between.

12/12/2023

توقیر بھائی کی وال سے شکریہ کے ساتھ

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جس کے حق میں آپ ہیں اس کے حق میں پوری کائنات کھڑی ہوجائے گی، یا جس کے مخالف آپ ہیں پوری کائنات اس کی مخالفت پر اتر آئے گی، جس نے آپ کو مسترد کر دیا تھا اسے اب پوری دنیا میں کہیں بھی جائے پناہ نہیں ملے گی, جسے آپ پانا چاہتے ہیں اس کے لیے پوری کائنات آپ کی خواہش کو پورا کرنے میں جُت جائے گی تو یاد رکھیں کہ میں، میرا یا میری رائے سب سے اہم ہے یہ محض ایک وہم ہے.

جس کمپنی نے آپ کو ملازمت دینے سے انکار کر دیا تھا وہ نہ تو ناکام ہوگی اور نہ ہی اس کا دیوالیہ نکلے گا، اس کے برعکس، وہ تیزی سے ترقی کرنے والی اور طویل عرصے تک کامیابی سے چلنے والی کمپنی بن سکتی ہے.

جس شخص نے آپ کو ٹھکرایا اور آپ کو چھوڑ دیا یہ آپ کا وہم ہے کہ وہ آئندہ زندگی میں کسی بات پر افسوس کرتے ہوئے پچھتا رہا ہوگا، ہوسکتا ہے وہ کسی نئے رشتے کے بندھن میں خوش و خرم زندگی گزار رہا ہوگا۔

آپ کے شوہر یا آپ کی بیوی جنہوں نے معمولی باتوں جیسے جلی ہوئی روٹی اور سالن میں نمک کی کمی بیشی پر جھگڑے کیے ، مار پیٹ تک نوبت پہنچی، اور اک دن برے سلوک کے باعث علیحدگی ہوگئی تو یہ نہ سوچیں کہ ظلم کے باوجود آپ کے بعد یا آپ کے بغیر وہ مشکل زندگی گزاریں گے، اس کے برعکس ممکن ہے کہ تمام تر بے یقینی کے باوجود انہیں سکون میسر ہو اور وہ راحت بھری زندگی گزار رہے ہوں۔

جس شخص نے آپ کو دکھ پہنچایا اور آپ کے لیے بہت سی پریشانیوں کا باعث بنا اسے شاید کوئی پریشانی نہ ہو بلکہ اس کے برعکس وہ خوبصورت زندگی گزار سکتا ہے اور آپ سے بہتر بھی ہوسکتا ہے۔

دنیا آپ کے لیے نہیں رکے گی اور نہ ہی کائنات کا نظام تھمے گا کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور آپ ظالم سے کہیں بہتر حیات کے مستحق ہیں تو ہر چیز آپ کا بدلہ لینے پر تل جائے۔

اگر آپ اپنی اہمیت جاننا چاہتے ہیں تو آپ جان بوجھ کر چند دن کے لیے روپوش ہوجائیں تو سب کچھ معمول کے مطابق چلتا رہے گا، اور دو یا تین ہفتوں کے بعد سب بھول جائیں گے کہ آپ اس دنیا میں آئے بھی تھے کہ نہیں، لہٰذا اپنی اہمیت جتلانے اور توجہ حاصل کرنے میں خود کو خرچ نہ کریں.

صرف اس لیے کہ آپ اچھے انسان ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا آپ کے ساتھ اچھا سلوک کرے گی۔آپ سبزی خور ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ گوشت خور درندہ آپ کو نہیں کھائے گا.

ان بے ہودہ اور فرسودہ خیالات سے جو فلمیں اور ڈرامے اور ناول آپ کے ذہن میں انڈیلتے ہیں ان سے چھٹکارا پا کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں ۔

اس دنیا میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ہے جس میں اربوں انسانوں کی متفقہ طور پر حتمی اور قطعی سچائی غالب ہو، مظلوم یا بے گناہ کو قید سے رہائی ملی ہو اور اس کی نیک نامی یا شہرت پہلے جیسی ہوگئی ہو ، اور اصل قاتل کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا ہو۔

اس دنیا میں انصاف یا سچائی کی کوئی ضمانت نہیں ہے کیونکہ یہ حساب کتاب کی جگہ نہیں ہے۔

مسلسل اداسی، پریشانی اور رونے دھونے کا مطلب ہے کہ شاندار محل شکست و ریخت کے باعث کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے. شکوے شکایت سے خود کو باز رکھیں.
جو کچھ بھی ہو چکا ہے یا بیت رہا ہے اس پر آپ کا اختیار نہیں ہے، آپ کا کام ہر حال میں آگے بڑھتے رہنا ہے، کام کریں، کوشش اور محنت کریں، کامیاب ہوں، دوبارہ خواب دیکھیں، اپنے خواب سے کہیں زیادہ حاصل کریں اور اپنی زندگی کو اطمینان بھری زندگی کے طور پر جئیں.
انتخاب، ترمیم و ترجمہ : توقیر بُھملہ

12/10/2023

جیل سے عمران خان کا اپنے خاندانی ذرائع سے عوام کیلئے پیغام:

جب پانچ اگست کو مجھے اٹک جیل میں قید کیا گیا تھا تو پہلے چند روز میرے لئے خاصے مشکل تھے۔ سونے کیلئے میرے پاس بستر نہیں تھا اور مجھے فرش پہ لیٹنا پڑتا تھا جہاں دن کے وقت کیڑے مکوڑے اور رات کو مچھر ہوتے تھے۔ لیکن اب میں اس میں ایڈجسٹ ہوگیا ہوں۔

آج کے عمران خان میں اور اُس عمران خان میں جسے پانچ اگست کے روز قید کیا گیا تھا، زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں آج روحانی، ذہنی اور جسمانی طور پر پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوں کیونکہ جیل کی تنہائی میں مجھے قرآنِ پاک کا بغور مطالعہ کرنے کا موقع ملا جس نے میرے ایمان کو مزید مستحکم کیا۔ اور قرانِ پاک کے ساتھ ساتھ میں دیگر کتب کا مطالعہ بھی کررہا ہوں اور اپنی سیاسی زندگی کے گذشتہ چند سالوں کے واقعات پہ غور بھی کررہا ہوں۔

یہ لوگ مجھے جس جیل میں بھی رکھیں، جیسے حالات میں بھی رکھیں آپ نے گھبرانا نہیں ہے اور نہ ہی میرے متعلق پھیلائی جانے والی افواہوں سے پریشان ہونا ہے۔ آپکا کپتان عوام کے حقِ حاکمیت اور آئینِ پاکستان کی بنیادی ترین شرط، صاف شفاف الیکشن، کے مطالبے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ جو لوگ مجھے کہ رہے ہیں کہ آپ ملک چھوڑ کر چلے جائیں انکو میراایک ہی جواب ہے کہ میرا جینا مرنا پاکستان کیساتھ ہے اور میں اپنی دھرتی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔

جہاں تک سائفر مقدمے کا تعلق ہے، میرے پاکستانیو، یہ مقدمہ سابق آرمی چیف جرنیل باجوہ، ڈونلڈ لو کو بچانے کیلئے گھڑا گیا ہے۔ ملک کا منتخب وزیراعظم تو میں تھا، جنرل باجوہ کے ساتھ مل کر غداری تو میرے ساتھ کی گئی اور آج مجھ پہ مقدمہ اسلئے قائم کیا گیا کہ میں نے پاکستانی عوام کو، جو کہ اس ملک کے اصل حاکم ہیں، اس غداری کی خبر دی۔

مجھے اگر کسی چیز کی تکلیف ہے تو اُن کارکنان، خصوصاً خواتین کارکنان، کی اسیری کی تکلیف ہے جنہیں طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا چند افراد نے اپنی انا کی تسکین کیلئے کئی ماہ سے قید کیا ہوا ہے۔ میری عدلیہ سے اپیل ہے کہ ہمارے کارکنان کو رہائی دلائی جائے ۔

آخر میں میرے پاکستانیو! آپ نے ہمت نہیں ہارنی۔ آپ ثابت قدمی سے ڈٹے رہیں۔ یہ آزمائش کا وقت ختم ہو کر رہے گا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ "ہر مشکل کیساتھ آسانی ہے"۔ آپ ہر فورم پہ اس غیر منتخب حکمران ٹولے اور انکے سہولتکاروں کیخلاف آواز اُٹھاتے رہیں اور ملک میں صاف شفاف الیکشن کا مطالبہ کرتے رہیں۔

میں پیشنگوئی کررہا ہوں کہ جس دن بھی الیکشن ہوا، انشاءاللہ پاکستانی عوام کروڑوں کی تعداد میں نکلیں گے اور تحریکِ انصاف کو ووٹ ڈال کر لندن پلان والوں کو شکست دیں گے۔ یہ لوگ جتنی مرضی دھاندلی کرلیں، انکا مقدر صرف اور صرف شکست ہے۔

پاکستان زندہ باد

01/10/2023

دیسی مہینے
ان کا تعارف اور وجہ تسمیہ
برِصغیر پاک و ہند کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس خطے کا دیسی کیلنڈر دنیا کے چند قدیم ترین کیلنڈرز میں سے ایک ہے۔ اس قدیمی کیلنڈر کا آغاز 100 سال قبل مسیح میں ہوا۔ اس کیلنڈر کا اصل نام بکرمی کیلنڈر ہے، جبکہ پنجابی کیلنڈر، دیسی کیلنڈر، اور جنتری کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔

بکرمی کیلنڈر کا آغاز 100 قبل مسیح میں اُس وقت کے ہندوستان کے ایک بادشاہ "راجہ بِکرَم اجیت” کے دور میں ہوا۔ راجہ بکرم کے نام سے یہ بکرمی سال مشہور ہوا۔ اس شمسی تقویم میں سال "چیت” کے مہینے سے شروع ہوتا ہے۔

تین سو پینسٹھ (365 ) دنوں کے اس کیلینڈر کے 9 مہینے تیس (30) تیس دنوں کے ہوتے ہیں، اور ایک مہینہ وساکھ اکتیس (31) دن کا ہوتا ہے، اور دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ بتیس (32) بتیس دن کے ہوتے ہیں۔

1- چیت/چیتر (بہار کا موسم)
2- بیساکھ/ویساکھ/وسیوک (گرم سرد، ملا جلا)
3- جیٹھ (گرم اور لُو چلنے کا مہینہ)
4- ہاڑ/اساڑھ/آؤڑ (گرم مرطوب، مون سون کا آغاز)
5- ساون/ساؤن/وأسا (حبس زدہ، گرم، مکمل مون سون)
6۔ بھادوں/بھادروں/بھادری (معتدل، ہلکی مون سون بارشیں)
7- اسُو/اسوج/آسی (معتدل)
8- کاتک/کَتا/کاتئے (ہلکی سردی)
9۔ مگھر/منگر (سرد)
10۔ پوہ (سخت سردی)
11- ماگھ/مانہہ/کُؤنزلہ (سخت سردی، دھند)
12- پھاگن/پھگن/اربشہ (کم سردی، سرد خشک ہوائیں، بہار کی آمد)

1: 14 جنوری۔۔۔ یکم ماگھ
2: 13 فروری۔۔۔ یکم پھاگن
3: 14 مارچ۔۔۔ یکم چیت
4: 14 اپریل۔۔۔ یکم بیساکھ
5: 14 مئی۔۔۔ یکم جیٹھ
6: 15 جون۔۔۔ یکم ہاڑ
7: 17 جولائی۔۔۔ یکم ساون
8: 16 اگست۔۔۔ یکم بھادروں
9 : 16 ستمبر۔۔۔ یکم اسوج
10: 17 اکتوبر۔۔۔ یکم کاتک
11: 16 نومبر۔۔۔ یکم مگھر
12: 16 دسمبر۔۔۔ یکم پوہ

بکرمی کیلنڈر (پنجابی دیسی کیلنڈر) میں ایک دن کے آٹھ پہر ہوتے ہیں، ایک پہر جدید گھڑی کے مطابق تین گھنٹوں کا ہوتا ہے.
ان پہروں کے نام یہ ہیں۔۔۔
1۔ دھمی/نور پیر دا ویلا:
صبح 6 بجے سے 9 بجے تک کا وقت

2۔ دوپہر/چھاہ ویلا:
صبح کے 9 بچے سے دوپہر 12 بجے تک کا وقت

3۔ پیشی ویلا: دوپہر 12 سے سہ پہر 3 بجے تک کا وقت

4۔ دیگر/ڈیگر ویلا:
سہ پہر 3 بجے سے شام 6 بجے تک کا وقت

5۔ نماشاں/شاماں ویلا:
شام 6 بجے سے لے کر رات 9 بجے تک کا وقت

6۔ کفتاں ویلا:
رات 9۔بجے سے رات 12 بجے تک کا وقت

7۔ ادھ رات ویلا:
رات 12 بجے سے سحر کے 3 بجے تک کا وقت

8۔ سرگی/اسور ویلا:
صبح کے 3 بجے سے صبح 6 بجے تک کا وقت

لفظ "ویلا” وقت کے معنوں میں برصغیر کی کئی زبانوں میں بولا جاتا ہے۔ گجر ۔راجپوت۔ جاٹ ۔اور اراٸیں لوگوں کے ہاں خاص کر یہی زبان بولی جاتی تھی۔
Pak Virsa پاک ورثہ

12/09/2023

توقیر بھائی کی وال سے شکریہ کے ساتھ۔

توانائی کے لحاظ سے انسانوں کی تین قسمیں ہیں:

• پہلی قسم.
پہلی قسم کے انسان کی جیسے ہی آپ آواز سنتے ہیں یا اس کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو آپ اس کی مثبت توانائی سے اپنے آپ کو چارج ہوتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

• دوسری قسم..
جیسے ہی آپ اس سے بات چیت یا کوئی معاملہ کرتے ہیں تو آپ کی توانائی ختم ہوجاتی ہے۔

• تیسری قسم...
اس قسم کے انسان کی موجودگی میں آپ کی توانائی گھٹنے یا بڑھنے کی بجائے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر برابری کی سطح پر رہتی ہے۔

• پہلی قسم.. چارجر افراد
اس قسم کے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی توانائی آپ سے زیادہ ہوتی ہے، جیسے ہی آپ انہیں دیکھتے یا سنتے ہیں، آپ خوشی اور مثبت توانائی کے ساتھ چارج ہونے لگتے ہیں، آپ ان سے جتنی بھی توانائی کشید کریں وہ آپ پر منفی اثرات مرتب نہیں کرتے۔
اس قسم کی موجودگی کسی بھی جگہ اور کسی بھی شخص میں ایک ٹھوس توانائی کا اضافہ کرتی ہے۔
وہ آپ کو اپنی کامیابی، امید اور اچھائی سے متاثر کرتے ہیں۔
اگر آپ کے آس پاس 'چارجر افراد' نہیں ہیں تو انہیں تلاش کریں اور ان کے ساتھ خود کو منسلک کریں کیونکہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ان کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے..

• دوسری قسم .. چُرانے والے یا توانائی چوس افراد
اس قسم کے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس شکایتوں کے انبار ، ناراضی، گلے شکوے اور حقیقت کو جھٹلانے کے علاوہ زندگی میں دیگر کوئی کام نہیں ہوتا۔
اس قسم کے لوگ جو ہر چیز کے بارے میں شکایت کرتے ہیں اور خود ساختہ اصولوں کے سوا کچھ بھی پسند نہیں کرتے وہ منفی توانائی کا ٹرانسفارمر ہوتے ہیں ۔
وہ آپ کو ان چیزوں کے بارے میں بحث کرنے پر مجبور کرتے ہے جن کو وہ خود مسترد کرچکے ہوتے ہیں یا وہ انکو ذاتی طور پر پسند نہیں ہوتیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ارد گرد والے ان کی پسند ہر صورت اختیار کریں. زیادہ تر ان کے پاس اپنی زندگی کے متعلق ایسے مسائل ہوتے ہیں جنہیں وہ حل کرنے کی بجائے لوگوں کی ہمدردی سمیٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں. انہیں ڈرامے بازی پسند ہوتی ہے، وہ بہت باتونی ہوتے ہیں، اور ہمیشہ اپنے باطن کو چھپا کر مصنوعی پن دکھانے میں مصروف رہتے ہیں ، ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، وہ ہر وقت خیالی دنیا میں رہتے ہوئے دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ وہ بہت بڑا کام کرنے اور نام کمانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، وہ اپنا آپ مظلوم کردار بنا کر پیش کرتے ہیں. جیسے ہی آپ اس قسم کے افراد سے بات چیت کرتے ہیں، آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے احساسات بدل گئے ہیں، آپ کی توانائی سَلْب ہوچکی ہے، اور اداسی آپ کے دل میں گھر کر چکی ہے ۔۔
۔ آپ کی زندگی میں یا آپ کے ارد گرد اس قسم کے کسی کردار کا ہونا آپ کی تمام تر مثبت توانائی چھین سکتا ہے، توانائی چوس افراد جتنے بھی جال بچھا لیں آپ کو ہر صورت ان سے جان چھڑانی ہوگی.

• تیسری قسم .. یہ توانائی میں آپ کے برابر ہوتے ہیں.
اس قسم کے افراد میں آپ کو اپنا آپ دکھائی دیتا ہے، ان سے بات چیت کرتے ہوئے کمتری یا برتری کا احساس نہیں ہوتا. ایسے افراد جو توانائی میں ہم آہنگ ہوں، ان کے ساتھ محفل میں ہوں یا تنہائی میں آپ کبھی بوریت محسوس نہیں کرتے، باتوں سے اکتاتے نہیں ہیں، بلکہ ان کی موجودگی میں راحت محسوس ہوتی ہے اور غیر موجودگی میں کسی چیز کی کمی کا احساس ستاتا رہتا ہے. آپ انہیں ہر وقت اپنے آس پاس دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
آپ کے خیالات ان کے خیالات سے ملتے جلتے یا پھر قریب قریب ہوتے ہیں۔
آپ دونوں توانائی میں برابر ہوتے یا برابری کے قریب مگر آپ ایک دوسرے کی توانائی کو چُراتے یا ختم نہیں کرتے، مگر ایک دوسرے کے ساتھ توانائی کے چارج کا تبادلہ ہر لحظہ ہوتا رہتا ہے۔
آپ اسے اپنا، آئینہ اپنا مماثل، روح کا رفیق، یا اپنی زندگی کا دوسرا نصف کہہ سکتے ہیں۔
ابراہیم الفقی / توقیر بُھملہ

12/09/2023

" ہُنر دینا منع ہے "

تحریر~آصفہ عنبرین قاضی

میرے دو سٹوڈنٹس کا فون آیا کہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ یہ وہ دو بچے تھے جنہوں نے 2015 میں میٹرک میں ٹاپ کیا تھا اور پورے شہر اور مضافات میں ان ہونہار طلبا کا چرچا تھا بڑے بڑے پینا فلیکس پر ان کی ادارے کے نام کے ساتھ تصاویر لگی تھیں ، بڑے کالجز کی طرف سے فری ایجوکیشن کی پیش کش ہوئی اور انہوں نے من پسند کالجز کا انتخاب کرکے اس میں داخلہ بھی لیا ، اگلے چار سالوں میں کامیابی کا تناسب بھی قدرے بہتر رہا۔گریڈ میں استحکام رہا ۔ تب ان کو یوں لگا جیسے دنیا فتح کر لیں گے ، ان کے گریڈ ان کی کامیابی کی دلیل اور گارنٹی ہیں ۔ ان کی میڑک کی سند ان کی اعلی ملازمت پر قبولیت کی سند ہے ۔۔۔ لیکن نتائج اس کے برعکس رہے

وہ جس بڑے ادارے میں انٹرویو دینے گئے بہت کم نمبروں سے ٹیسٹ پاس ہوسکے ، تحریری ٹیسٹ پاس کر بھی لیے تو انٹرویو میں رہ گئے ، پینل کے سوالات ان کے سر سے گزر گئے ، اسناد میں اے پلس گریڈ دھرے کے دھرے رہ گئے ، ریک میں رکھی ٹرافی ان کے کسی کام نہ آئی ۔
آج وہ کچھ سنانے آئے تھے اور میں خاموشی سے دونوں کو سن رہی تھی ۔ دونوں کے چہروں پر مایوسی اور انجانا سا عدم تحفظ تھا ، چائے کا کپ رکھ کر ایک نے فرش کو دیکھتے ہوئے آخری جملہ بولا " میڈم تعلیی نظام نے بہت ظلم کیا ہے ہم پر ۔۔۔ "
میں نے مسکرا کر کہا " بیروزگاری تو ہمارا بہت پرانا مسئلہ ہے شہزادے، میرٹ نہیں دیکھا جاتا"
" نہیں میڈم ! " دوسرا تڑپ کر بولا " ہمیں بیروزگاری نے نہیں ، ہماری ڈگریوں نے مارا ہے ، ہمیں وہ کچھ سکھایا ہی نہیں گیا جو اگلے دس سال ہمارے کام آتا ،، میں ایک بار پھر غور سے سننے لگی ۔ آج ان کے بولنے کی باری تھی۔

" ہمیں اعتماد نہیں سکھایا گیا ، انگریزی میں پورے نمبر دے کر انگریزی بولنا نہیں سکھایا گیا ، میتھ میں سو بٹہ سو لینے والے اپنی ہی زمین کا رقبہ نہیں نکال سکتے ، اردو میں پورے نمبر لے کر بھی ہم وزیر اعلی کو عرضی نہیں لکھ سکتے ، میرٹ ہمارے قدموں کی دھول ہے لیکن نالج ہمارے پاس صفر ہے ، آپ نے نمبروں کی مشینیں بنائی ہیں، جینیس نہیں ۔" آواز اس کے گلے میں رندھ گئی ۔
میرے پاس کوئی جواب نہ تھا

" میرے ابو کے زمانے میں ڈاکٹری کا میرٹ %78 فیصد تھا، اب % 91 پر بھی پاکستان کے سب سے تھکے ہوئے کالج میں بھی داخلہ نہیں ملتا۔" اس کے چہرے پر تھکن ہی تھکن تھی ۔
، لگتا تھا نوکریاں ہمارے قدموں میں گریں گی، آج جس کمپنی میں جاتے ہیں وہاں پورے نمبر لینے والے سینکڑوں کی تعداد میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن ٹیسٹ اور انٹرویو میں سب رہ جاتے ہیں ، کہاں گئے وہ نمبر؟؟ "

وہ اپنا کتھارسس کر رہے تھے یا سوال ۔۔۔ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔ ہم نمبروں کی مشینیں ہی تو بنا رہے ہیں ، میرے نظروں میں کوویڈ میں میٹرک اور ایف ایس سی میں پورے نمبر لینے والے گیارہ سو ستانوے طلبا گھوم گئے ۔۔۔ کچھ سالوں بعد اُن کے سوالات اِن سے بھی تلخ ہوں گے۔ گیارہ سو طلبا اپنے ٹیچر کو فون کرکے کہیں گے " آپ سے بات کرنی ہے"
اور جواب میں وہی خاموشی۔۔۔ طویل خاموشی ملے گی ۔

01/09/2023

ابھی عوام بجلی کے بل کا رونا رو رہے تھے کہ پٹرول بم بھی داغ دیا گیا۔ اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ نگران وزیر اعظم یہ فرما رہے ہیں کہ کوئی مہنگائی نہیں ہے، ویسے شور مچایا جا رہا ہے۔

الامان الحفیظ۔ بے حسی، بے شرمی اور ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایک تو عوام کا گلا کاٹ رہے ہیں اور اوپر سے زخموں پر نمک پاشی بھی کر رہے ہیں۔ اور کیوں نہ کریں، نگران وزیر اعظم صاحب کی ٹوٹل قابلیت یہ ہے کہ طاقتوروں کے چہیتے ہیں اور انہیں اسی مقصد کے لیے لایا گیا ہے کہ عوام کا بھرکس نکال دیں۔

ایک جانب عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی مگر دوسری جانب اشرافیہ مفت پٹرول اور مفت بجلی کے مزے اٹھا رہی ہے۔ جب تک عوام اپنے حق کے لیے نہیں نکلتی، تب تک یہ ظلم جاری رہے گا۔ اب یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ وہ کب تک خودکشیاں کریں گے اور کب خودکشی کے بجائے اپنا حق اشرافیہ سے چھینے گے۔

17/08/2023

بات تو سچ ہے، پر بات ہے رسوائی کی!

سید مہدی بخاری کی ایک دلگداز اور آنچ دیتی تحریر!

اگر آپ کو یاد ہو، تیرہ برس قبل انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں دو خودکش حملے ہوئے تھے جن میں چھ طلباء و طالبات جاں بحق اور پچاس زخمی ہوئے۔ یونیورسٹی کی کینٹین جو سو سوا سو کے قریب طالبات سے بھری تھی اس میں خودکش حملہ آور نے داخل ہو کر دھماکا کرنا چاہا مگر ایک خاکروب نے پہچان لیا اور وہ آگے بڑھ کر اس سے لپٹ گیا۔ یوں وہ خودکش دھماکہ کینٹین کے باہر ہی ہو گیا جس کے سبب جانی نقصان کم ہُوا۔

اگلے روز ایک سب سے بڑے ٹی وی چینل کی ٹیم ہمارے ہیرو اس خاکروب کے گھر گئی۔ اہلِ خانہ کی کسمپرسی و آہ و زاری ریکارڈ کی اور اس کی بنائی ہوئی خبری رپورٹ مجھے یاد ہے جس کا ایک جملہ آج تک میرے زخمی دل سے نہیں نکل سکا۔ “اگرچہ پرویز مسیح کا تعلق مسیحی برادری سے تھا مگر اس نے حُب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے جان کی قربانی دے کر یونیورسٹی طالبات کو ایک بڑے ممکنہ جانی نقصان سے بچا لیا”۔ اس رپورٹ میں لفظ “مگر” مجھے قبر تک یاد رہے گا۔

مگر اس پچیس چھبیس سالہ میڈیا رپورٹر کا بھی کیا قصور۔ اسے تو شعور کی آنکھ کھُلنے سے یہی سُننے کو ملا ہو گا کہ صرف ایک سچا مسلمان ہی محب الوطن ہو سکتا ہے۔ اقلیتیں تو قومی جہیز میں ملیں لوٹے کی سی ہیں۔ ستمبر بائیس سنہ 2013 میں پشاور چرچ پر خودکش حملہ ہُوا۔ ایک چینل کے خبری بُلٹن کی سُرخی اسی ذہنیت کی عکاسی کر رہی تھی۔ “صفائی کرنے والوں کا صفایہ”۔ قومی اخبارات میں چھپے بلدیہ کے ایک سرکاری اشتہار میں سینٹری ورکرز کی آسامیوں کی نمائش کی گئی تھی جس پر جلی حروف میں ایک لائن چمک رہی تھی “ صرف غیر مسلم اپلائی کریں”۔

آپ کو یاد ہو یا نہ ہو، قبلہ رضوی مرحوم ایک سے زائد مواقعوں پر منبر سے بابانگ دہل فرماتے رہے “کون کہتا ہے اسلام امن کا دین ہے ؟ اسلام امن سے نہیں پھیلا۔ یہ نبی کریم (ص) کی تلوار سے پھیلا” اور مجمع داد دیتا۔ بات یہ ہے کہ جب فضا ببول کی کاشت کے لیے سازگار ہو تو پھر اس بات پر کیا رونا کہ ببول میں کتنے کانٹے ؟۔ فرق تو بس اتنا ہے کہ کچھ حملہ آوروں کے ہاتھ میں ڈنڈے، آگ کے گولے اور جان لیوا ہتھیار ہوتے ہیں اور باقیوں کے دماغ میں تعصب، مصلحت، خاموشی و منافقت کا بارود کوٹ کوٹ کے بھرا ہوتا ہے۔

شاید آپ کو 2003 کی عراق جنگ یاد ہو۔اس جنگ کے خلاف اور اسے رکوانے کے لیے سان فرانسسکو سے سڈنی تک ڈیڑھ کروڑ لوگ سڑکوں پر نعرے لگا رہے تھے۔ مجھے وہ مناظر یاد ہیں کہ لندن میں پندرہ لاکھ لوگوں کا جلوس نکلا تھا جن کے ہاتھوں میں بُش اور ٹونی بلئیر کے خلاف پلے کارڈز تھے۔ الجزیرہ کا رپورٹر ایک خاتون سے پوچھ رہا تھا “ آپ کیوں فروری کی سردی میں اپنے ننھے بچے کو اُٹھائے عراق جنگ کے خلاف نعرے لگا رہی ہیں ؟”۔ ماں نے جواب دیا “ جب یہ بچہ بڑا ہو گا تو اسے آج کا دن یاد رہے گا اور احساس دلائے گا”۔ رپورٹر نے پھر سوال کیا “ لیکن عراقی تو مسلمان ہیں”۔ عورت کا جواب آیا “ مگر انسان بھی تو ہیں”۔ اس عورت کے جواب میں “مگر” بھی مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔

یوں تو اس ملک میں بلاتفریق مذہب و مسلک سب مرے ہیں سب اُڑے ہیں مگر عجب بات یہ ہے کہ جب سُنی مرتے ہیں تو صرف سُنی ہی جلوس نکالتے ہیں۔ شیعہ مرتے ہیں تو شیعہ ہی دھرنا دیتے ہیں۔ جب مسیحی مرتے ہیں تو صرف مشن سکولز ہی سوگ میں تین دن بند ہوتے ہیں۔ اور احمدیوں کا ذکر ہی کیا کرنا ، وہ تو خیر ۔۔۔

باقی سب آن لائن یا خبری بُلٹن میں تعذیتی پیغامات کے ذریعے مرنے والوں کے غم میں “برابر کے شریک” ہو جاتے ہیں اور پھر “ ہور سناؤ، بال بچے دا کی حال اے” میں لگ جاتے ہیں۔

کیسا دردِ دل ہے ہمارا جو فلسطین کے المئیے پر پی ایل او سے زیادہ حساس ہے۔ جو برما کے مسلمانوں کے غم میں ڈسٹرب ہو جاتا ہے۔جو شام کے المئیے پر سینے میں پھانس محسوس کرتا ہے۔ جنہیں کشمیری مسلمانوں کی چیخیں سونے نہیں دیتیں۔ جنہیں بھارتی مسلمانوں کی زباں حالی بے چین کر دیتی ہے۔جنہیں چیچنیا کا حال تڑپا تڑپا دیتا ہے۔

مگر کتنوں کو یہ پوچھنا یاد ہے کہ گوجرہ کی عیسائی بستی میں جو گزری اس کی تحقیقات کہاں تک پہنچیں ؟ لاہور میں احمدی عبادت گاہ میں 94 احمدیوں کو مارنے والے کس جیل میں ہیں ؟ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا شکار کرنے والے کتنے پکڑے گئے ہیں ؟ قراقرم ہائی وے پر بسوں سے اُتار کر شیعوں کو مارنے والے کن پہاڑوں میں چھُپ گئے ؟ دیامر بیس کیمپ میں دس غیر ملکی کوہ پیماؤں کو مارنے والے کتنے پکڑ لیے ؟

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ جب تم ایک اُنگلی دوسرے کی طرف اُٹھاتے ہو تو اُسی ہاتھ کی تین اُنگلیاں تمہاری طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔اپنی تین اُنگلیاں بھی دیکھ لیجئیے۔ بہت مہربانی۔

اس سماج میں بستے مجھے خود کلامی اور خواب دیکھنے کی عادت پختہ ہو چکی ہے۔ قائداعظم کا پاکستان بحال کرنے کا خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ کہنے میں بھی کوئی خطرہ نہیں کہ اس ملک میں ایک ادارہ ہی چلتا ہے اور جس کی چلتی ہے تو وہ فوج ہے۔ یہ کہنے میں بھی کوئی خاص خطرہ نہیں کہ مولوی اور ملائیت اور ان کی لبیکی سوچ نے اس سماج اور دین کی پوشاک کو تار تار کرنے میں آگے بڑھ کر حصہ لیا ہے۔مُلا ملٹری الائینس نے اس ملک میں وہ گُل کھلائے ہیں جن کا رنگ سیاہی مائل سُرخ ہے۔ نہ تو میں قائداعظم ہوں اور نہ ہی فوجی اور نہ ہی مولوی۔ لہٰذا کسی تجربہ کار مستند ماہر کی نگرانی کے بغیر سچ لکھنے کا کرتب دکھانا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

میرا مشورہ ہے کہ سچ ضرور بولئیے مگر کمرے میں، بااعتماد لوگوں کے سامنے، ہوسکے تو تنہائی میں یا زیادہ سے زیادہ شیشے کے روبرو اور خبردار، سچ کو کبھی تنہا باہر مت جانے دینا، بھیجنا ضروری بھی ہو تو جھوٹ کے کپڑے پہنا کے بھیجنا، ورنہ پیروں پر جائے گا۔ ایمبولینس میں آئے گا۔ یا ڈالے میں لے جایا جائے گا۔

اور سب سے اہم بات یہ کہ ہم کبھی جناح کا پاکستان نہیں دیکھ سکتے، جناح نے پاکستان ضیاء الحق سے نہیں ماؤنٹ بیٹن سے لیا تھا۔ اور ہمیں پاکستان ضیاء الحقوں سے لینا ہے۔ یہ نہ ہو پائے گا۔ اور اس سے زیادہ میں کچھ کہہ نہ پاؤں گا۔

دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم تو پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

کس کو پتھر ماروں قیصرؔ کون پرایا ہے
شیش محل میں اک اک چہرا اپنا لگتا ہے

سید مہدی بخاری

Syed Mehdi Bukhari

01/08/2023
01/08/2023

تجربہ کار ٹیم اور پردے کے پیچھے چھپے اداکاروں کی فلم کی کھڑکی توڑ نمائش جاری

آئی ایم ایف ڈیل کی مبارکباد کی اگلی قسط

بجلی کی قیمت میں اضافے کی مقبولیت دیکھتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں بے پناہ اضافہ

عوام کی ایک دوسرے کو مبارکباد، تجربہ کار ٹیم کی تجربہ کاریوں کو سلام اور پردہ نشیں بوٹوں کو سیلوٹ۔ پورے ملک میں جشن کا سماں

غم حسین اور محبت اہل بیت ہر مسلمان کی میراث اور بخشش کا سامان ہے۔ ظلم کے سامنے ڈٹ جانے اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق ...
29/07/2023

غم حسین اور محبت اہل بیت ہر مسلمان کی میراث اور بخشش کا سامان ہے۔
ظلم کے سامنے ڈٹ جانے اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی وہ مثال قائم کی کہ رہتی دنیا تک حریت کا استعارہ بن گئے۔

عاشورہ کا پیغام یہ ہے کہ ظلم کے سامنے کلمہ حق کہا جائے۔ ہر زمانے کے یزید کے سامنے کلمہ حق بلند کیا جائے۔ چاہے کتنی ہی تکالیف برداشت کرنی پڑیں۔

28/06/2023

دنیا بھر میں عید الضحی منانے والے برادران اسلام کو عید کی ڈھیروں خوشیاں مبارک

اپنے اردگرد موجود ایسے لوگوں کا خیال رکھیں جو اپنے حالات کے ہاتھوں مجبور ہیں اور خوشیاں نہیں منا سکتے، آپکی ذرا سی توجہ انہیں بھی خوشیوں دے سکتی ہے۔ اور یہی عید قربان کا فلسفہ ہے۔

25/06/2023

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ؟ فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَنْ أَسُبَّهُ، لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ، خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللهِ خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ» قَالَ فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ: «ادْعُوا لِي عَلِيًّا» فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ، فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ، فَفَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ، وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ} [آل عمران: 61] دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي»

بکیر بن مسمار نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے ، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا ، کہا : آپ کو اس سے کیا چیز روکتی ہے کہ آپ ابوتراب ( حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) پر سب (لعن طعن) کریں ۔ انھوں نے جواب دیا : جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ( حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے کہی تھیں ، میں ہرگز انھیں برا نہیں کہوں گا ۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی میرے لئے ہوتو وہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پسند ہوگی ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا ، آپ ان سے ( اس وقت ) کہہ رہے تھے جب آپ ایک جنگ میں ان کو پیچھے چھوڑ کر جارہے تھے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا تھا : اللہ کےرسول !آپ مجھے عورتوں اوربچوں میں پیچھے چھوڑ کرجارہے ہیں؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہو جوحضرت ہارون علیہ السلام کاموسیٰ علیہ السلام کےساتھ تھا ، مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے ۔ اسی طرح خیبر کے دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سناتھا : اب میں جھنڈ ا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اوراس کے رسول! سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا ر سول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ کہا : پھر ہم نے اس بات ( مصداق جاننے ) کے لئے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر ( ہرطرف ) دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : علی کو میرے پاس بلاؤ ۔ انھیں شدید آشوب چشم کی حالت میں لایا گیا ۔ آپ نےان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اورجھنڈا انھیں عطافرمادیا ۔ اللہ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کردیا ۔ اورجب یہ آیت اتری : ( تو آپ کہہ دیں : آؤ ) ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلالیں ۔ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اورحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا : اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں ۔

صیح مسلم 6220

19/06/2023

ملک میں رینے کی امید توڑنے والوں کو سیلوٹ

400 لوگ ڈوب کر مر گئے۔

کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا، کوئی جیو فنسنگ نہیں ہو گی۔کوئی نادرا ریکارڈ نہیں نکلے گا، کوئی جواب طلبی نہیں ہو گی کہ آخر یہ ملک نوجوان نسل کے لیے اس قدر جہنم کیوں بن چکا ہے کہ ہر کوئی یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہے، بھلا اس کی قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔
کیوں اس ملک کے لاکھوں والدین اپنے لخت جگر کو اپنی تمام جمع پونجی دے کر کہتے ہیں کہ کسی طرح اس ملک سے نکل جائو، ہماری پرواہ نہ کرو، ہم نے تو اس جہنم میں زندگی گزار دی، تم کسی طرح نکل جائو۔ کوئی سوچ سکتا ہے کس کرب سے والدین اپنی اولاد کو بڑھاپے میں بیرون ملک روانہ کر دیتے ہیں۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ کس قدر مجبور ہو کر خاندان بکھر جاتے ہیں۔

کوئی ریاست سے سوال نہیں کرے گا کیوں کہ مر جانے والوں کی اوقات کیڑے مکوڑوں سے بڑھ کے نہیں۔ چار سو کے بجائے چار ہزار بھی مر جائیں تو کیا، چار لاکھ بھی مر جائیں تو کیا۔ یہاں کسی گیٹ کی حرمت انسانی جانوں سے بڑھ کر ہے۔ گیٹ توڑنے والوں کو دس سال قید ہو گی۔ اس ملک میں رہنے کی امید توڑنے والوں کو سیلوٹ ہو گا۔

#جنیدجنجوعہ

19/06/2023

عارف انیس کی وال سے

دل کا پرچم، سرنگوں ہے!

تقریباً 400 پاکستانی بحیرہ روم میں اپنے وطن سے بھاگتے ہوئے ڈوب گئے. تف ہے ہم سب پر، جو سیاست دان بنے، وزراء اعظم بنے، افسر بنے، مگر اس ملک کو کمزوروں کے لیے رہنے کے قابل نہ بنا سکے!

وسعت اللہ خان کا کالم پڑھیے، اپنے میں تو کچھ ہمت اس سانحے پر لکھنے کی نہیں رہی.

شاید ہی کوئی ہفتہ جاتا ہو جب خبر نہ آتی ہو کہ ترکی یا لیبیا کی سمت سے بحیرۂ روم کے دوسری جانب یونان یا اٹلی جاتے ہوئے غیر قانونی تارکینِ وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئی اور اس میں اتنے افغان، افریقی اور پاکستانی سوار تھے۔

بحیرۂ روم اس وقت دنیا کا سب سے بڑا آدم خور سمندر ہے جو ہر سال کم از کم 20 ہزار انسان نگل جاتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ حالات اور خود سے تنگ زندگی کے متلاشیوں کو موت کی پناہ بخش دیتا ہے۔

ایسی ہر خبر کے بعد یہ بھی ہمارا قومی معمول ہے کہ انسانی سمگلروں کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ پکڑ دھکڑ ہوتی ہے اور پھر اگلی خبر تک ایک بے بس خاموشی چھا جاتی ہے۔

تازہ ترین بھی وہی باسی ترین کہانی ہے کہ ایک کشتی جس میں گنجائش سے کہیں زیادہ (ساڑھے سات سو) انسان سمگلروں کو لاکھوں روپے دے کر سوار ہوئے۔ یہ کشتی یونان کے ساحل کے قریب ڈوب گئی۔ ایک سو بیس انسان بچا لیے گئے۔ ان میں بارہ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ بقیہ چھ سو سے زائد لاشوں میں سے کتنے پاکستانی ہیں؟ اس کی چھان بین حسبِ معمول دفترِ خارجہ کر رہا ہے۔

شناحت ایک مشکل کام ہے کیونکہ غیر قانونی تارکینِ وطن کا باقاعدہ یا سرکاری ریکارڈ تو کہیں بھی نہیں ہوتا۔ وہ جب کسی حادثے سے دوچار ہوتے ہیں، گرفتار یا ڈی پورٹ ہوتے یا مرتے ہیں تب ہی ان کی شناخت کے لیے سرکاری سطح پر بھاگ دوڑ ہوتی ہے۔

اگر یہ ساڑھے سات سو لوگ بھی یورپ کے ساحل پر زندہ اتر کے غائب غلا ہو جاتے تو سوائے ان کے گھر والوں کے کسی بھی ادارے کو ہوا تک نہ لگنی تھی کہ کتنے پاکستانی کس دن یہ ملک چھوڑ گئے۔ اب چونکہ لاشوں اور ڈی پورٹیز کی واپسی کا معاملہ ہے لہذا بادلِ نخواستہ ریاستی اداروں کو رسمی ہاتھ پاؤں چلا کے اپنا وجود ثابت کرنا پڑ رہا ہے۔

بنیادی طور پر انسانی سمگلنگ کی روک تھام ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے۔ ایف آئی اے جئید انسانی سمگلروں کی ایک سالانہ ریڈ بک بھی شائع کرتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنے سمگلر یا ریکروٹنگ ایجنٹ پکڑے گئے، کتنوں کے لائسنس منسوخ ہوئے اور کتنے مفرور ہیں۔

پر آج تک یہ خبر پڑھنے کو نہیں ملی کہ کتنے انسانی سمگلروں کو طویل المیعاد قید کی سزا نہ صرف سنائی گئی ہو بلکہ انھوں نے پوری کاٹی بھی ہو۔

دراصل یہی وہ لوگ ہیں جن کے مقدمے دہشت گردی کی عدالتوں میں چلنے چاہییں۔ مگر اربوں روپے کی اس انڈسٹری میں سمگلرز، ان کے پشت پناہ سیاستدان اور ان کے پشت پناہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ان کے پشت پناہ عرف جہاں پناہ۔ سب کے سب ایک ہی پیج پر ہیں۔

لہذا جتنے انسانی سمگلر پکڑے جاتے ہیں لگ بھگ اتنے ہی بھائی بھتیجے کچھ دنوں میں اور نمودار ہو جاتے ہیں۔

پکڑ دھکڑ کا یہ ٹوپی ڈرامہ بھی ایسے ہی ہے جیسے کسٹم والے شراب ضبط کر کے گودام میں جمع کرتے جاتے ہیں۔ اچھی والی بوتل خود بخود الگ ہو جاتی ہے اور گھٹیا والیوں کو ایک ڈھیر پر سجا کے میڈیائی کرائم رپورٹرز کی موجودگی میں نذرِ آتش کر دیا جاتا ہے۔ ضبط شدہ منشیات کے ساتھ بھی لگ بھگ ایسا ہی سلوک ہوتا ہے۔

تو کیا انسانی سمگلروں کو لعن طعن کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟

یہ تو سیدھا سیدھا سپلائی اور ڈیمانڈ کا مسئلہ ہے۔ ویسے بھی اپنے حال سے ناامید کسی بھی انسان کو سنہرے مستقبل کی شارٹ کٹ پگڈنڈی دکھا کے پھانسنا پیشہ ور دھندے بازوں کے لیے کس قدر مشکل ہے؟

عوام کو خوشحالی کا جھانسہ دے کر اختیار و وسائل سمیٹنے کی بات ہو، کسی انتہائی غیر اہم اور نکھٹو سمجھے جانے والے نوجوان کو جنت بذریعہ جہاد کی راہ دکھاتے دکھاتے کسی اور کی جنگ کا خام مال بنانے یا خودکش جیکٹوں کے گودام تک پہنچانے کی حکمتِ عملی ہو، ایک لاکھ کے کرارے نوٹوں کی دو ڈھائی گڈیاں دکھا کے گردے بیچنے کی ترغیب ہو یا پھر یورپ کی رنگین گلاسی تصاویر سے مبہوت لڑکے کا ماں کے زیور بیچ کر کسی انسانی سمگلر کے ہاتھوں میں اپنی زندگی سونپنے کا فیصلہ ہو۔ یہ سب ایک ہی سکے کے کثیرالجہتی رخ ہیں۔ جہاں شکار وہیں شکاری۔

ایک ایسی ریاست جسے کلپٹو کریسی نے ایناکونڈا کی طرح جکڑ لیا ہو۔ وہاں کے کس ادارے سے پوچھا جائے کہ جن سمگلروں اور ان کے پشت پناہوں اور پشت پناہوں کے بھی آقاؤں کی داستانیں، طریقہِ واردات، دلالوں کا نیٹ ورک اور شکار ہونے والے طبقات و کرداروں کی تفصیل شمالی و وسطی پنجاب کے ایک ایک قصبے کے بچے بچے کو معلوم ہے، ان پر ہاتھ ڈالنا کتنا آسان یا کتنا دشوار ہے؟

یہ پوری ٹریل کس طرح کسی منڈی بہاؤ الدین، یا سمبڑیال یا کامونکی سے چلتی ہوئی براستہ بحر و بر کس طرح شمالی افریقہ اور یورپ تک پہنچتی ہے؟ سب کچھ اتنا ہی واضح ہے جتنی کہ دیوارِ چین۔ پر جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔

پہلے پاکستانی پاسپورٹ بے توقیر ہوا اور دنیا کے دو سو میں سے صرف دس ممالک ایسے باقی ہیں جہاں پاکستانی پیشگی ویزے کے بغیر داخل ہو سکتے ہیں۔ پہلے ملک بلیک لسٹ ہوتے تھے۔ اب سنا ہے کہ پاکستانی شہر بھی بلیک لسٹ ہو رہے ہیں جہاں کے مکینوں کو ویزہ اس خدشے کے پیشِ نظر زیادہ مشکل سے ملتا ہے کہ کہیں طیارے سے اترتے ہی ’سلپ‘ نہ ہو جائیں۔

مگر میں جس طبقے کی بات کر رہا ہوں وہ پاسپورٹ، ویزے اور انٹرویو کے جھنجٹ میں پڑے بغیر جانا چاہ رہا ہے اور جا رہا ہے۔ ان میں ان پڑھ، پڑھے لکھے کی بھی قید نہیں۔ ناخواندہ کے لیے ویسے ہی یہاں اندھیرا ہے اور خواندہ و ہنرمند کو دور دور تک روشنی نظر نہیں آ رہی۔

آخر باہر ایسی کون سی جنت منتظر ہے جس میں فوراً ہی داخل کر لیے جائیں گے؟ یہ سوال نہ کوئی پوچھتا ہے نہ کسی کے پاس جواب ہے۔ بس ایک دھن ہے کہ کسی طرح بھی باہر جانا ہے بھلے وہاں جی جائیں یا مرجائیں۔ خود گھر والے بھی جانتے بوجھتے اپنے بچوں کو انجانستان کے بیابان میں دھکیل دیتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ وسطی و شمالی پنجاب کی مائیں اپنے بچوں سے پوچھتی تھیں کہ ’پتر توں ڈپٹی کمشنر تے لگ گیاں اے پر فوج وچ کدوں بھرتی ہووییں گا۔‘

آج کی مائیں پوچھتی ہیں کہ ’پتر تیری پینچروں کی دوکان تو اچھی چل رہی ہے پر باہر کب جائے گا۔ تیرے خاندان کے سارے سپین، اٹلی، ناروے چلے گئے تو کیوں یہاں بیٹھا بیٹھا ہماری بیستی کروا رہا ہے۔ تجھے کون اچھا رشتہ دے گا؟‘

جب اس قدر ناامیدی ہو کہ جو جاگتے میں بھاگ سکتا ہے وہ رکنے کو تیار نہ ہو اور جو نہیں بھاگ سکتا وہ سوتے میں بھاگ رہا ہو۔ تو پھر بقول شیکسپئیر ’ریاست ڈنمارک میں کچھ نہ کچھ تو گل سڑ رہا ہے۔‘

اور جو گل سڑ رہا ہے وہ کیا ہے؟ جانتے بھی ہو تو ہرگز مت بوجھنا۔

"سب سے پہلے تو جو کچھ ویڈیوز میں میں نے کہا میں اس سب کی تصدیق کرتا ہوں۔ ‏سوال تو یہ ہے کہ جب میں جنرل فیصل نصیر کیخلاف ...
13/06/2023

"سب سے پہلے تو جو کچھ ویڈیوز میں میں نے کہا میں اس سب کی تصدیق کرتا ہوں۔

‏سوال تو یہ ہے کہ جب میں جنرل فیصل نصیر کیخلاف مقدمہ تک درج نہیں کروا سکا جس کے بارے میں مجھے علم تھا کہ وہ (رانا ثناء اللہ اور شہباز شریف کے ساتھ) مجھ پر قاتلانہ حملے کے منصوبے میں ہی نہیں بلکہ اس حملے کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) جو اس نتیجے پر پہنچی کہ حملے میں تین حملہ آور تھے، کی تحقیقات کو سبوتاژ (کور اپ) کرنے میں بھی ملوث تھا، تو میں شواہد کیسے مہیّا کر سکتا ہوں؟

‏تاہم اگر کبھی معاملے کی آزادانہ تحقیقات کی گئیں تو میں ثابت کروں گا کہ یہ شخص ہمارے شہریوں کیخلاف بدترین جرائم میں ملوث رہا ہے"۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Junaid Iqbal Janjua posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Junaid Iqbal Janjua:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share