Asad Mukhtar Jootah

  • Home
  • Asad Mukhtar Jootah

Asad Mukhtar Jootah Journalist' writter 'Columnist 'poet" social activist' Tv reporter
News Editor at Fakhar thal Layyah “Today you are You, that is truer than true.
(8)

There is no one alive who is Your than You.”

13/07/2024

ہم ظرف کے لحاظ سے اتنے چھوٹے لوگ ہیں کہ "اچھے بندے کی تعریف بھی اس کے سامنے اس لیے نہیں کرتے کہ وہ "شوخا" ہوجائے گا ۔" اتنی کمزور اور منفی سوچ کیوں ہوتی ہے ہماری ؟
اپنے احساسات کا تو کھل کر اظہار کرنا چاہیے ۔
کسی سے محبت ، چاہت ، عقیدت کا رشتہ ہے اس سے برملا اظہار کیجئیے ۔ کوئی سہیلی/دوست جی جان سے عزیز ہے اسے بتائیے کہ "تم کتنی/کتنے اچھے لگتے ہو مجھے۔"
کوئی خوبی ہے ، قابلیت ہے ، صلاحیت ہے ، کسی کی کوئی عادت بار بار پسند آرہی ہے ، دل ہی دل میں سراہنے کی بجائے اس کے منہ پر اس کی تعریف کریں ، خوبصورت الفاظ و انداز میں ۔۔۔ ایسے کہ سامنے والے کا سیروں خون بڑھ جائے ۔ ہم اپنے خونی رشتوں میں بھی اظہار سے جھجھکتے ہیں ۔ اماں ابو سے کتنا پیار ہے ، شاید ہی کبھی ان کو بھی بتایا ہو ۔ ویسے پوری دنیا کو بتانا ہے میری بیوی یا میرا شوہر بہت اچھا ہے ، نہیں کہنا تو بیوی اور شوہر کے سامنے نہیں کہنا کہ کہیں وہ بھی دو گھڑی خوش نہ ہوجائیں ۔ (یہ سب سے غلط رویہ لگتا ہے اور اس سے غلط دوسرے کی بیوی اور شوہر کی تعریف کرنی ہے لیکن اپنے کی نہیں ۔۔۔ انتہائی بری عادت)پوری دنیا کی تعریف کرنی ہے ، نہیں کرنی تو ایک چھت تلے رہنے والوں کی ۔۔۔ دوسروں کی بھابھیاں ہمیشہ اچھی لگتی ہیں ، اپنی بھابھی کی کوئی اچھائی ، خوبی نظر ہی نہیں آتی ۔تعریف کرتے رہنا چاہیے اس سے ہمارا دل کشادہ اور ہوا دار رہتا ہے ۔۔۔ گھٹ گھٹ کر اندر رکھنے کا کیا فائدہ ؟
اور رہے قریبی رشتے تو ہمارے الفاظ ، تعریف ، اظہار کے سب سے زیادہ حقدار ہمارے "اپنے" ہوتے ہیں ۔۔۔ ان کو سراہنے یا اپنے احساسات کا اظہار کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے خود کو تاکہ رشتوں کی مٹھاس برقرار رہ سکے ۔

29/06/2024

بجٹ کے نتائج آنا شروع
چاول ، دالیں مہنگی۔۔۔۔
تیل اور گھی کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا امکان

29/06/2024

کیا ہوا تیرا وعدہ وہ قسم ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

29/06/2024

کچھ دن پہلے فیملی رشتہ دیکھنے آئی ۔۔ لڑکی تو ماشااللہ بہت پیاری ہے اور تعلیم ماسٹر ہے۔۔ واہ واہ ماشاءالله
چائے دینے کے بعد لڑکی روم میں چلی آئی۔
کچھ تعریفوں کے بعد بات پکی ہونے لگی تو سوال جہیز کا چھڑ گیا ۔
لڑکے کی ماں ہمارے خاندان میں یہ رواج ہے کہ 15 تولہ سونا 10 مرلے کا پلاٹ اور فلاں فلاں سامان فرنیچر وغیرہ ہوتا ہے اور ساتھ بیٹھا بیٹا چائے کے سپ مزے سے لیتا رہا۔۔ کچھ دیر پہلے جہاں رشتے کی بات اور ہنسی مزاق چل رہا تھا اب وہاں سناٹا سا چھا گیا ۔۔۔
آخر کار جواب انکار ۔ لڑکی ڈر کے مارے کمرے سے نہ نکل رہی تھی۔ آخر برتن اٹھانے کے لیے آئی تو غیرت مند (پڑھا لکھا ماسٹر گریجوٹیڈ ) بھائی بولا " جتنا اس کو پڑھانے پر پیسا لگایا اس سے اچھا تھا جہیز بنا لیا ہوتا۔۔ پھر غصہ سے بہن کی طرف مخاطب ہوا
اتنا پڑھایا کوئی اچھی جاب کر اور جہیز بنا۔۔. وہاں بیٹھا باپ خاموش اور ماں کی أنکھیں آنسوں سے تر۔۔۔۔
میری اکثر یہ کوشش ہوتی ہے جو لکھوں کہانی نہ حقیقت ہو۔۔ سچ ہو
باقی اگر جہیز کے حوالے سے پوسٹ لگاؤ تو ہر فرد یہاں "جہیز لعنت ہے" کے نعرے مگر درحقیقت تو خاموش بیٹھے چائے پیتے جیسی ہے۔۔اللہ ہمیں ہدایت دے
آمین ثم آمین یا رب العالمین
پرانی پوسٹ ترمیم کے ساتھ
~اسد مختار

29/06/2024

وہ کہتے ہیں کہ کچھ عناصر جان بوجھ کر مایوسی پھیلا رہے ہیں لیکن میں نے آج سے پہلے پاکستانی مردوں کے چہروں پر ایسی بے بسی اور پژمردگی کبھی نہیں دیکھی. ایسی اکتاہٹ، افسردگی، تفکرات اور بے چارگی ہے کہ فکریں چہروں سے اُمڈ رہی ہیں.
کوئی ایک بندہ ہاتھ میں مائیک پکڑے پوچھتا ہے، مہنگائی ہو گئی ہے آپ کے حالات کیسے ہیں؟
جواباً منہ سے ٹوٹے پھوٹے چند فقرے نکلتے ہیں، ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں رواں ہو جاتی ہیں.
ایسی کوئی ایک ویڈیو نہیں ہے، سینکڑوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل رہی ہیں.
ایک ویڈیو میں تو ایک موٹر سائیکل سوار انتہائی متانت والا ہے، کسی طرح بھی نہیں لگ رہا تھا کہ غریب ہے یا اس کے حالات مشکل ہوں گے. ایک مائیک والا بس ایک فقرہ کہتا ہے کہ پیٹرول مزید مہنگا ہو گیا ہے.
وہ شخص کچھ توقف کے بعد بڑے حوصلے سے جواب دیتا ہے،
’’یہ بھی سہہ لیں گے‘‘
یہ فقرہ ابھی مکمل نہیں ہوتا لیکن آنسو ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کے طرح آنکھ سے گرنا شروع ہو جاتے ہیں.
وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھتا ہے تا کہ آنسوؤں کا سیلاب بند نہ توڑ پائے لیکن جنموں کے مارے آنسوکہاں رکتے ہیں، غیرت ایسی ہے کہ فوراً اپنے سر پر ہیلمٹ پہن لیتا ہے تاکہ اُسے روتا ہوا کوئی نہ دیکھ لے.
یہ کیسی بے بسی ہے؟
آپ چیخنا چاہتے ہیں، آپ چلانا چاہتے ہیں، آپ حکومت کو کوسنا چاہتے ہیں، آپ حاکم اور منصف کا گریبان پکڑنا چاہتے ہیں لیکن آپ اپنا غصہ، اپنا غم اندر ہی اندر پیتے جا رہے ہیں، اپنی ہی موٹر سائیکلیں توڑتے جا رہے ہیں اور یہ گُھن آپ کو اندر ہی اندر کھاتا جا رہا ہے.
ریاستی جبر کے سامنے آپ خاموش ہیں، کوئی سننے والا نہیں اور احتجاج کرنے والے جیلوں میں پھینک دیے جاتے ہیں.
پاکستان ایک روایتی معاشرہ ہے، جہاں خاندان کا سارے کا سارا معاشی بوجھ زیادہ تر ایک مرد پرڈال دیا جاتا ہے، جہاں اسکول چھوڑتے ہی فکر معاش شروع ہوتی ہے اور پھر زندگی بھر یہ تگ و دو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی. بیٹی یا بہن کے جہیز سے شروع ہونے والی یہ جمع تفریق موت کی آخری ہچکیوں تک جاری رہتی ہے.
اس مہنگائی اور اس بیروزگاری میں ایک غریب مرد اتنا بے بس ہو گیا ہے کہ اس سے کوئی چھوٹا سا سوال کرتا ہے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی رونا شروع کر دیتا ہے.
اسے سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ بیوی کو کیسے بتائے کہ چیزیں اور اخراجات اس کے بس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں،

تیڈیاں نت خیراں منگدوں فقیر صفت تے دھرتی دا درد اپنڑے سینے اندر رکھنڑ والا سوہنڑاں انسان جیویں پیا تو ڈھیر جیسیں اللّه ت...
29/06/2024

تیڈیاں نت خیراں منگدوں فقیر صفت تے دھرتی دا درد اپنڑے سینے اندر رکھنڑ والا سوہنڑاں انسان جیویں پیا تو ڈھیر جیسیں
اللّه تیڈی حفاظت کرئے سوہنڑاں مرشد❤
Syed Makhmoor Qalandri


#مخمور #قلندری #ویسب #دامان

15/06/2024

اسلام علیکم دوستوں کیا حال ہیں

16/04/2024

کچھ لوگوں کو جواب دیے بغیر اگے نکل جانا چاہئے
آج میں بلڈ ڈونیشن کیس میں ورک کررہا تھا ۔
ایک معلم سے ملاقات ہوئی الفاظ دل پر برے اثرات چھوڑ گے ۔
بلڈ کیس انتہائی متواسط طبقے سے تھا
ایک باپ جس کے دو ننھے پھول ایک بیٹا اور بیٹی جو کہ تین سے چار سال کے ہوں گے ۔
بیٹی فالج کی مریضہ ہے پہلے گھر میں چھوٹی موٹی دوکان چلاتی تھی لیکن طبعیت ناساز ہونے کی وجہ سے بند کرنی پڑی ۔۔۔۔۔۔
والد خود کینسر کا پیشنٹ ہے جسے ہر ماہ ایک سے دو بوتل خون لگتا ہے
آج مجھے کال رسید ہوئی
اسد بیٹا میری ایچ بی 2.99 پر ہے اور طبعیت بہت ناساز ہے تو بلڈ کا ارینج ہوسکے تو بھلا ہوگا
میرے ساتھ بہت سارے نوجوان جوڑے ہیں جو اکثر خون کا عطیہ دیتے ہیں
لیکن اس بار کچھ مسائل کی بینا پر ارینج نہ ہوسکا کچھ نے شہر سے باہر ہونے کا کہا اور کچھ نے بھائی ابھی ماہ ہوا ہے دیے ہوئے ۔اور کچھ دوستوں نے تو کال اٹھانا ہی گوارہ نہ کی ۔۔۔۔۔
حالات بہت سنگین تھے تو یونیورسٹی میں کیمپین شروع کی۔۔۔
استائزہ کے دفتر میں اجازت کے حصول کے لیے جانا ہوا تو وہاں استاد صاحب سے خود پر تنقید برداشت کی کہ خود کیوں نہیں دیا۔۔۔۔۔۔
خاندان والے کہاں ہیں
سوال پر سوال
عرض کیا استاد محترم جب پریشانی یا دکھ کے لمحات آ پہنچتے ہیں تو سارے پرائے ہوجاتے ہیں
ایچ بی کتنی ہے ؟
جی سر 2.11
انہوں آپ فروٹس کا مشورہ کیوں نہیں دیتے
میں وہاں چپ جی سر کہوں گا ۔
دفتر سے جانے کا حکم دیا گیا
اس لمحے یہ سوچیں آ رہی تھیں کہ یار جو بندہ خود بیماری سے گزر رہا ہے۔۔۔
بھائی کلیم ایسی کئی باتیں سنتے ہوں گے ۔
یار حالات سمجھنے کی کوشش کیا کریں کچھ لوگ واقعی مستحق ہوتے ہیں درد کے قرب سے پہلے ہی گزر رہے ہوتے ہیں
خود اندازہ لگائیں جو بندہ بیمار ہو اور بٹھے پر مزدور ہو ساتھ میں دو بچے اور بیوی سمیت خود گھر کے آخراجات سے پس رہا ہو وہ کہاں فروٹس کھا سکتا ہے ۔۔۔۔۔
آپ کے پاس کوئی مدد کا وسائل نہ ہو تو چپ ہو جایا کریں آگے سے لیکچر جھاڑنا شروع نہ کیا کریں
کسی کی زندگی کا بھی سوال ہوسکتا ہے یار۔۔۔۔۔۔۔
کلیم بھائی کو ہر ماہ اے پوزٹیو بلڈ لگتا ہے کوئی بھائی بہن عطیہ کرنا چائیں تو رابطہ کرسکتے ہیں
~اسد مختار

15/04/2024

ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کے آج کل اتنی غربت کیوں ہے؟
جواب ملا...
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا لوگوں نے شور مچا رکھا ہے.
آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ دراصل خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے
‏ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (مٹی) لگایا کرتے تھے.
(سلیٹ) پر سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (بجری کا) کنکر استعمال کرتے تھے.
اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہی عید پر بھی پہن لیتے تھے.
‏اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے.
کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے.
جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے.
اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا.
‏گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے.
آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ہے.
مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ہے.
آج تو اسکول کے بچوں کے دو یا تین یونیفارم ضرور ہوتے ہیں
‏آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں.
ہمارے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی.
‏آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ہے اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل، کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا...
غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے...
‏آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ہے...
اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ہے میں
غریب ہوں.
آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ہے.
ہم ناشکرے ہوگئے ہیں, اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں.

انسان خواہشات کا غلام بن جائے تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے جیسے اپنے پاؤں پر کلہاڑی سے وار کرکے انسان زخمی ہوکر تڑپتا ہے ٹھیک اسی طرح سادگی کو چھوڑ کر پریشانیوں کا طوق گلے میں ڈالنا ایسا ہی ہے خواہشات پورا کرنے والے بادشاہ بھی گداگر بن جاتے ہیں.

افتتاح پشاوری ٹی شاپ نزد ریلوئے روڈ لیہ اللّه کریم بھائی کے کاروبار میں برکت رزق میں اضافہ کرے ۔آمین
15/04/2024

افتتاح پشاوری ٹی شاپ نزد ریلوئے روڈ لیہ اللّه کریم بھائی کے کاروبار میں برکت رزق میں اضافہ کرے ۔آمین

06/04/2024

ہم باحثیت مسلمان ماں کی درد بھری کہانی 😭

20/03/2024

چاچو !
سموسہ کتنے کا ہے؟
پچیس روپے بچا۔
جیب میں پیسے ٹوٹلتے ہوئے ہاتھ مار کر اداس لہجے میں پوچھا
اور پکوڑے؟
ڈیڑھ سو روپے پاؤ.
حلوائی نے تازہ اور خستہ سموسے پکوڑے کڑاھے سے نکال کر نُچڑنے کے لئے جالی دار تھال میں رکھے۔
اب کے بچہ بُسی ہوئی شکل کے ساتھ واپس مڑنے لگا۔ بچے کا چھوٹا بھائی اس کا بازو کھینچنے لگا۔
"بھائی ! او بھیا ۔۔۔۔۔ لے لے ناں پکوڑے۔
آج روزہ افتار کر لیں گے نہ
بڑا لڑکا بغیر کچھ بولے ننھے ننھے مگر ڈھائی ڈھائی من کے پیر اٹھاتا خود کو پکوڑوں کی دکان سے آگے گھسیٹ رہا جبکہ چھوٹا اسے واپس کھینچ رہا تھا۔حلوائی کا پکوڑے بناتا ہاتھ یک لخت رک گیا۔
اوئے بچے اوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔او چھوٹے
گلی کے شور میں اس کی آواز گونج اٹھی ۔ دوسرے بچے کو اشارہ کیا اور واپس دونوں بھائیوں کو بلانے کے لیے کہا
کیا ہوا؟
سموسے پکوڑے لئے نہیں؟
بچہ شرما سا گیا۔ چاچا پیسے پورے نی ہیں۔
اوئے چل کوئی بات نہیں۔ جتنے ہیں اتنے دے جانا ۔ چھوٹے کے منہ پر رونق آئی۔ چار گرما گرم سموسے اور پاؤ بھر پکوڑے اس نے تھیلے میں ڈالے ۔
کیچپ چٹنی ڈالوں؟
ہاں چاچا وہ میٹھی والی بھی۔
ایک تھیلی میں بھر کر وہ بھی ڈال دی۔
"اے لو ۔ لے جاؤ میرا پُتر ۔ "
بچے نے جیب سے بیس روپے نکال کر دے دیے۔
حلوائی نے چپ چاپ رکھ لئے۔
لوگ پوچھتے ہیں سچی خوشی کیا ہے؟
دوسرے اس کے جواب میں الف لیلے تا میں ہوں مغرور لیلے تک کا فلسفہ بیان کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں سچی خوشی فقط اسی طرح کی ہوا کرتی ہے۔ جس سے دینے والا ، لینے والے اور دیکھنے والے تک ہر شخص مستفید ہو۔
سکون اور خوشی حاصل کرنے کے لئے آپ کا کوئی بڑا آدمی بننا ضروری نہیں۔ سکون اور خوشی تو ایک پکوڑے والا بھی حاصل کر سکتا ہے۔..رمضان کا اصل مقصد بھی یہی درس دیتا ہے ایسے لوگوں کے دکھوں کو سمجھنے کا ''''
جس نے نماز اور روزہ کو اپنی عادت بنا لیا مگر اس شخص میں سچائی اور دیانتداری نہیں ہے تو یہ سب اس کے کچھ کام نہیں آنا۔
اگر ہماری نماز میں خشوع و خضوع نہیں تو اس نماز کو ہم عادت تو کہہ سکتے ہیں مگر عبادت نہیں۔ چاہے وہ کوئی بھی نیک عمل ہو جو ہم کرتے ہیں مگر اس میں رضائے الٰہی اور تقویٰ نہ ہو ایسے اعمال کے متعلق اللّٰہ پاک فرماتے ہیں
" روزِقیامت یہ سب اعمال تمہارے منہ پہ مار دیے جائیں گے۔"
تو ہمیں چاہیے کی ہم جو بھی عمل کریں وہ خالصتاً اللّٰہ کی رضا کےلیے کریں
~اسد مختار

19/03/2024

‏تاریخ اسلام میں دو شخصیات ایسی ہیں کہ جن کو اللہ نے اپنے پیارے محبوب محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نیابت، حفاظت اور خدمت کے لیے منتخب کیا۔ وہ حضرت مولا علی علیہ السلام اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
یہ تو ہم سب کا ایمان ھے کہ رسول اللہ ص اللہ کی منشاء کے بغیر کچھ نہ کرتے تھے ۔خاص طور پر ہجرت تو اللہ کے حکم اور نگرانی میں ہوئی۔ حکم ہوا اپنی نیابت کے لئے علی علیہ السلام بتائیں۔ چنانچہ آپ کے بستر پر علی سو گئے ۔ اور فرمایا کہ کل امانت والوں کی امانتیں واپس کر کے مدینہ آ جانا۔ یہاں بتاتا جاوں کہ حضرت علی فرماتے ہیں کہ ساری زندگی میں وہ ایک رات تھی کہ جب مجھے یقین تھا کہ صبح میں سو کر اٹھوں گا۔
رسول اللہ اپنے بستر پر علی علیہ السلام کو سلا کر حضرت ابوبکر کے گھر جاتے ہیں اور ان کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔میں یہاں ہجرت کی باقی تفصیلات میں نہیں جاوں گا صرف وہ پوائنٹ بتانا ھے جو لوگوں نے نہیں بتایا۔ آپ نے دیکھا سنا یا مشاہدہ کیا ہو گا کہ اگر آپ اپنے کسی پیارے کو سفر پر روانہ کرتے ہیں تو کوشش ہوتی کہ کسی قابل اعتماد انسان کے ساتھ روانہ کیا جائے۔ تو اللہ نے ہجرت کے سفر کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو چنا۔اس کا مطلب ھے کہ اللہ کو ابوبکر پر اعتماد تھا کہ یہ رسول اللہ کی خدمت بھی کریں گے ،حفاظت بھی کریں گے۔ خطرہ دونوں جگہوں پر تھا بستر پر بھی اور دوران سفر بھی۔ اللہ نے ایک جگہ کے لیے علی علیہ السلام کو منتخب کیا اور دوسری جگہ کے لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا۔

اس رمضان
17/03/2024

اس رمضان

کیا حال ہے دوستوں کیسے ہیں آپ ؟
12/02/2024

کیا حال ہے دوستوں کیسے ہیں آپ ؟

11/01/2024

لڑکیاں اچھی ڈرائیونگ کرتی ہیں یا لڑکے 🤣 ضرور دیکھیں

سردی تو سب کو لگتی ہے نہ دعا بدلے تقدیر ۔۔اؤ کسی کی دعا ہی لے لیں۔۔۔۔۔غریب اور یتیم بچوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہمارا ح...
15/12/2023

سردی تو سب کو لگتی ہے نہ
دعا بدلے تقدیر ۔۔اؤ کسی کی دعا ہی لے لیں۔۔۔۔۔
غریب اور یتیم بچوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہمارا حق ہے تو آپ سے التماس ہے اپنے ساتھ متواسط طبقے غریبوں کا ضرور خیال رکھیں۔دوسروں کے لیے جینا ہی اصل زندگی ہے سکول جاتے بچوں کا ضرور خیال رکھیں ۔اپنے پرانے کپڑے ان تک پہنچائیں تاکہ وہ اپنا جسم ڈھنپ سکیں 🙏🏼🙏🏻

15/12/2023

ایک صاحب روزانہ مسجد آتے اور نماز پڑھ کر ادھر ادھر دیکھتے کہ لوگ کیا کررہے ہیں ۔تو وہ شخص دیکھتا کہ لوگ کچھ گلی محلے کی بتائیں لے کر بیٹھے ہوتے یا کچھ کے میسجز آرہے ہوتے کچھ اس طرح کی چیزیں اس صاحب نے نوٹ کی ۔
کچھ دن وہ مزید یہی چزیں نوٹ کرتا رہا آخر ایک دن تنگ آ کے امام مسجد سے کہا کہ میں کل سے مسجد نہیں آوں گا تو امام مسجد نے جواب میں پوچھا کیا میں جان سکتا ہوں آخر وجہ کیا ہے ؟
تو وہ صاحب بتانے لگے کہ میں اکثر یہاں نوٹ کرتا ہوں کچھ حضرات گلی محلے کی باتیں لے بیٹھے ہوتے ہیں تو کچھ کے میسجز آرہے ہوتے ہیں اور کچھ گپیں ہانک رہے ہوتے ہیں ۔
میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں کل سے نہیں آوں گا
تو امام مسجد نے کہا آپ ذرا اپنے فیصلے پے غور فرمائیں آخر آپ غلط بھی تو ہو سکتے ہیں ۔
وہ صاحب ڈٹے رہے اور کہا میں نے آخیر فیصلہ کر لیا ہے
تو امام مسجد نے کہا اگر میں عرض کروں تو آپ مانیں گے وہ بولے جی ضرور ۔
امام مسجد نے کہا یہ لو پنسیل اور مکمل دیوار پر سیدھی لائن لگا کر آو
وہ صاحب خوشی سے دوڑے اور لائن لگا کر امام مسجد کے پاس لوٹے اور بولے جی میں نے لگا دی ۔
امام مسجد نے سوال کیا کیا اس وقت آپکو لوگوں کی گپیں اور موبائل کے آواز سنائی دے رہی تھی
وہ صاحب بولے جناب میں لائن لگانے میں مصروف تھا اور میں نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا
امام مسجد بولے جب یہاں اللّه کے گھر آتے ہو تو کیوں لوگوں کی طرف دھیان دیتے ہو ۔جس رب تعالیٰ کے لیے آئے ہو اس کی عبادت کرو اس طرف دھیان کیوں دیتے ہو ؟؟؟
وہ صاحب چپ ہو گے
~اسد مختار جوتہ

12/12/2023

O+postive blood is needed for mine family's very urgent anyone want to donate
Contact please 🙏🏼
03087338182

سوائل سائنس اور اس کی اہمیتروزنامہ کیپیٹل لاہور میں  شائع ہونے والا کالم احباب کے ذوق مطالعہ کے لئے
07/12/2023

سوائل سائنس اور اس کی اہمیت
روزنامہ کیپیٹل لاہور میں شائع ہونے والا کالم احباب کے ذوق مطالعہ کے لئے

رویا جو میں، میرے وجد کے اغیار میں تھے تم تھیں تمہاری  یادیں، لفظوں کی بہار میں تھے تم جھانکا جو گہرائی میں، دل شیفتگی م...
24/11/2023

رویا جو میں، میرے وجد کے اغیار میں تھے تم
تھیں تمہاری یادیں، لفظوں کی بہار میں تھے تم
جھانکا جو گہرائی میں، دل شیفتگی میں تھے تم
تصور میں تھے تم دالان میں تھے تم
گو آجنبی سی دستک میں تھے تم
کیا خبر سرگوشی سے ہو جائیں سرشار آپ
مسرتوں میں، روحِ بے تاب میں تھے تم
وعدوں کی گٹھڑی میں وفا کی دل داریاں
مگر محبت کے جزبے سے بالکل بھی بے خبر تھے تم
~اسد مختار جوتہ

24/11/2023

سب قابلِ احترام فرینڈز کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
ڈھیروں دعائیں

24/11/2023

الحمدللہ مٹھڑی بولی(زبان) سرائیکی کوں بین الاقوامی زبانیں اچ شامل کر ڈتا گئے ۔ سارے سرائیکی بھیرانویں کوں مبارکباد
Proud to be a Saraiki ❤️

24/11/2023

زندگی بغیر کسی مقصد کےبسر نہیں کی جا سکتی، کوئی اٹکاؤ، کوئی لگاؤ،کوئی بندھن ہوناچاہیے،جس کی خاطر زندگی کےدن کاٹے جاسکیں. غبار خاطر

11/11/2023

آج کی بات/ 11 نومبر 2023
معاشرے کے بد کردار لوگوں کا معتبر اور با اثر ہو جانا...
معاشرے کی تباہی و بربادی کی دلیل ہے...!!!

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Asad Mukhtar Jootah posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share