The Post Review

  • Home
  • The Post Review

The Post Review حقیقت پر مبنی خبروں۔ تبصروں۔اور دلچسپ معلومات پر مبنی
(3)

جنگ عظیم اول کے دوران استعمال ہونے والی جرمن سائیکلپہلی جنگ عظیم (1914ء تا 1918ء) کے دوران دنیا نے بہت سی حیران کن ایجاد...
22/07/2023

جنگ عظیم اول کے دوران استعمال ہونے والی جرمن سائیکل

پہلی جنگ عظیم (1914ء تا 1918ء) کے دوران دنیا نے بہت سی حیران کن ایجادات دیکھیں جن میں ٹینک اور مشین گن وغیرہ شامل ہیں۔ دوران جنگ ضرورت کے مطابق نئی چیز بنانے یا کسی چیز میں جدت لانے میں جرمنی کو اپنے حریفوں پر برتری حاصل تھی۔ ایسی ہی ایک تبدیلی جرمنی نے اپنی فوج کے زیر استعمال سائیکلوں میں بھی کی جن میں ربڑ کی ٹیوب اور پہیوں کے بجائے لوہے سے بنے سپرنگ والے پہیے استعمال کیے گئے۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران دراصل ربڑ کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی اور سائیکلوں کے پہیے اور ان کی ٹیوبیں بنانا ممکن نہیں رہا تھا۔ اس کا حل جرمنی کی بڑی سائیکل ساز کمپنی ’’وکٹوریا ‘‘ نے یوں نکالا کہ سائیکل میں ربڑ کے بجائے لوہے سے بنے ٹائر استعمال کیے۔ لوہے کے پہیوں کو پچکنے سے بچانے اورر دوران سفر جھٹکوں سےمحفوظ رہنے کے لیے پہیوں کے اندرسپرنگ لگائے گئے تھے۔ علاوہ ازیں سائیکل پر ایک عدد جدید رائفل بھی نصب کی گئی تھی۔

جب نمبر دار علاقہ کے ذمہ دار ہوا کرتے تھے تب مسافر کے علاج اور دیکھ بھال نہ کرنے پر نمبردار پر پرچہ ہوا تھاتھانہ چھکڑالہ...
21/07/2023

جب نمبر دار علاقہ کے ذمہ دار ہوا کرتے تھے تب مسافر کے علاج اور دیکھ بھال نہ کرنے پر نمبردار پر پرچہ ہوا تھا
تھانہ چھکڑالہ (ضلع وہاڑی) میں انگریز حکمران کے اقتدار میں درج ایک تاریخی ایف آئی آر ملاحظہ کریں
یہ 1911 میں تھانہ چکڑالہ میں درج ایک ایف آئی آر ہے ۔یہ ایف آئی آر اُس وقت کے ابا خیل کے ایک نمبردار پر درج ہوئی ۔ نمبردار کا نام سردار خان لکھا ہوا ہے ۔ ایف آئی آر کے مطابق نمبردار کا جُرم یہ تھا کہ ایک مسافر ابا خیل میں آیا ،بیمار ہوا اور ایک بیری کے درخت کے نیچے فوت ہوگیا ۔اُس کے بعد پولیس نے پتہ کیا تو وہ شخص کیمبل پُور اٹک کا رہنے والا تھا۔ اس ایف آئی آر میں لکھا ہوا ہے کہ نمبردار صاحب آپکی ذمہ دار تھی کہ آپ اُس مسافر کا علاج کرواتے اور آپ اُسکو کھانا اور رہنے کی جگہ دیتے آپکی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ایک انسان کی قیمتی جان چلی گئی ہے آپکو آپنے علاقے کا پتہ نہیں ہے.۔۔۔۔۔
اور پھر پاکستان بن گیا ہم انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گئے۔

14/07/2023

ایک ارب روپے کتنے ہوتے ہیں۔۔۔؟؟؟

پہلی مثال: ۔۔اگر کسی کو ایک ارب روپے، ایک ایک روپیہ کی شکل میں دئیے جائیں اور کہا جائے کہ انہیں گنو۔۔۔
اور وہ شخص بغیر کسی وقفے کے دن رات بغیر کھائے پئیے سوئے۔۔۔گننا شروع کرے۔۔۔اور فی سیکنڈ ایک روپیہ گنے۔۔۔تو یہ رقم گنتے گنتے تقریباً 32 سال لگ جائیں گے۔۔۔۔😮😮

*دوسری مثال:
* فرض کیجئے۔۔۔ایک شخص*یکم جنوری سن ایک عیسوی کو پیدا ہوا اور اس نے روزانہ ایک ہزار (1000) روپے خرچ کرنا شروع کیے تو وہ تقریباً 2740 سال تک روزانہ یہ رقم خرچ کر سکتا ہے۔۔۔۔۔
یعنی سن ایک عیسوی سے لیکر 31 دسمبر 2018 تک اس نے تقریباً پونے ارب روپے خرچ کئیے ۔۔۔۔
اور بقیہ رقم سے مزید 722 سال تک روزانہ ایک ہزار کے اخراجات کر سکتا ہے۔۔۔۔😲😲😲

اب آخری مثال ۔۔۔۔
فرض کیجئے ایک 10 سال کی عمر کے بچے کے اکاونٹ میں ایک ارب روپے جمع کروا دئیے جائیں ،

اور وہ بچہ روزانہ تیس ہزار روپے (30000) روپے اکاونٹ سے نکلوا کر کھائے پئیے، کھلونے خریدے، رشتہ داروں میں بانٹے یا ان نوٹوں سے چڑیاں طوطے بنا کر اڑا دے۔۔۔۔۔

پھر دوسرے دن تیس ہزار نکلوائے اور دل کھول کر خرچ کرے۔۔۔۔۔۔اورپھر تیسرے۔۔۔چوتھے۔۔۔۔اسی طرح روزانہ تیس ہزار روپے خرچ کرنے کا عمل مسلسل جاری رکھے ۔
حتی' کہ جوان ہو، ادھیڑ عمری اور پھر بڑھاپے تک پہنچ جائے ۔۔۔اور پھر 100 سال کی عمر تک پہنچ کر دنیا سے رخصت ہوجائے
تب بھی اس کے اکاونٹ میں تقریباً، ڈیڑھ کروڑ روپے باقی بچ رہیں گے۔۔۔۔😲😲😲😲

سمجھ میں آئی کوئی بات ؟؟؟؟
اب ذرا سوچئیے ۔۔۔
یہ تو صرف ایک ارب روپے کی بات تھی۔۔

پاکستان میں سوائے چند ایک کے ہر کسی نے دوچار ارب سے لے کر دو چار سو ارب روپے لوٹے۔۔۔۔
آپ اور میں روزانہ سنتے اور پڑھتے ہیں فلاں نے اتنے ارب روپے کرپشن کی، فلاں نے ملکی خزانے کو اتنے ارب کا نقصان پہنچایا اور کمیشن وصول کیا، اور فلاں نے اتنے اربوں کا ڈاکہ ڈالا۔۔۔۔۔

میں حیران ہوتا ہوں کیا یہ اتنا پیسہ کفن میں ڈال کر قبروں میں ساتھ لے جائیں گے؟؟؟۔۔۔کیا کریں گے ۔۔۔

ضرورتیں تو محدود ہوتی ہیں اور خواہشیں لا محدود۔۔۔۔

اگر ساری دنیا کے کاغذ ، نوٹ بن جائیں تو یہ ان نوٹوں کو اکٹھا کرنے کا سوچتے سوچتے مر جائیں گے۔۔۔قناعت ہرگز نہ کریں گے۔۔۔۔

پاکستان کے خراب معاشی حالات میں ایک فیکٹر یہی ہے ۔۔۔
جیسے بھی ہو، جہاں سے بھی ہو۔۔۔ بس پیسہ اکٹھا کرنا ہے۔۔۔۔

کسی ایک، دو سیاست دانوں کی یا افسروں کی بات نہیں ہو رہی۔۔۔چند ایک کی تخصیص کے بغیر سب کا ایک سا چلن ہے۔۔۔

اپنے عہدے کے زور پر ناجائز کام کرنا،
کم بولی پر ٹھیکے فرنٹ مین کو دلوانا،
سرکاری اراضی،
سرکاری جنگلات بیچ کر تجوریاں بھرنا۔۔۔

یہ سب اور ان جیسے بیسیوں کام ایسے ہیں جو یہ افراد اپنا استحقاق سمجھ کر کرتے ہیں۔۔۔

ان سب پہ کوئی حیرت نہیں،
ملال اور غصہ تو ہے ۔۔ مگر حیرت نہیں۔۔۔
کیونکہ انکو گھٹی ہی حرام مال سے دی گئی ہو گی۔۔۔۔

حیرت اور افسوس اور دکھ اپنے ان دوستوں پر ہوتا ہے جو اپنے ایسے لوگوں کو جانتے ہوئے بھی انکو سپورٹ کرتے ہیں۔

دوبارہ عرض کرتا ہوں۔۔۔۔
کسی ایک پارٹی کی بات نہیں،
کسی ایک بندے کی بات نہیں ہو رہی

کوئی بھی جماعت فرشتوں سے نہیں بنی،
لیکن انسانیت کا معیار تو رکھ ہی سکتے ہیں۔۔۔۔

اگر آپ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح نہیں کہہ سکتے تو پھر آپ کو خراب ملکی حالات اور خراب معاشی حالات اور مہنگائی کا رونا بھی نہیں رونا چاہئیے ...
اللہ تعالیٰ ہمیں شعوری طور پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے

اَنْدھا بانٹے ریوڑی اَپنوں ہی کو دے...........................لاہور ہائیکورٹ سے فوج کو زرعی مقاصد کے لیے زمین دینے کے خل...
14/07/2023

اَنْدھا بانٹے ریوڑی اَپنوں ہی کو دے...........................
لاہور ہائیکورٹ سے فوج کو زرعی مقاصد کے لیے زمین دینے کے خلاف حکم دیا تھا. جس کے بعد پیش خدمت ہے اب یہ پروگرام وفاقی سطح پر...

فوج میں ایسی کونسی قابلیت ہے جو اسے زراعت کے لیے اہل کرتی ہے؟ جب آپ کے ملک میں دس لاکھ گریجویٹس اور آٹھ ہزار ایگریکلچر گریجویٹس بیروزگار پھر رہے ہیں. تو ایسی کونسی ضرورت آن پڑی کہ فوج ہی آخری حل ہے. کاشتکاری کرنے کی ایسی کونسی خفیہ رمز جانتی ہے جو یہ گریجویٹ نہیں جانتے. محکمہ خوراک، محکمہ زراعت، ایگری ایکسٹنشنز اور اتنی بڑی وزارتیں جھگ مارنے لے لیے ہیں.

اگر یہی زمین اس کے نوجوان نسل میں تقسیم کر دی جاۓ تو کیا کام کرتے ہوئے ان کے ہاتھ ٹوٹ جائیں. یا انہیں زراعت کرنی نہیں آتی.
آرمی پہلے بھی تو 16000ایکڑ پر کاشتکاری کر رہی ہے. اس سے ملک کو کتنا فائدہ ہوا؟ کتنا ٹیکس دیا؟ منافع کس کی جیب میں جا رہا ہے؟ سرکاری زمین کا ٹھیکہ کتنا دیا جا رہا ہے؟ ایک کرنل رینک کا بندہ جو فوج کے کاروبار پہ تعینات ہے وہ تنخواہ تو عوام کے پیسہ سے لے رہا ہے لیکن کاروبار فوج فاونڈیشن کا چلا رہا ہے.

سعودی عرب، قطر، یو اے ای جو دس ارب ڈالر زراعت میں انویسٹ کرنا چاہ رہے ہیں کیا وہ آپ کو خیرات دے ہیں؟ بلکل نہیں. اس پہ حاصل ہونے والا منافع ہر سال ڈالروں کی شکل میں واپس کیا جائے گا. یہ بس وقتی فائدے کے لیے اپنا الو سیدھا کرنے والے بات ہے.(یہ زرعی زمینوں پہ ایک طرح کا قرض ہے).

قائی قبیلہ (ترکی: Kayı boyu) ترک قبائل کی ایک بڑی شاخ جو  #غز ترک کے 24 قبائل میں سے ایک ہے۔ قائی ترکی زبان کا لفظ ہے جس...
09/07/2023

قائی قبیلہ (ترکی: Kayı boyu) ترک قبائل کی ایک بڑی شاخ جو #غز ترک کے 24 قبائل میں سے ایک ہے۔ قائی ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں "وہ شخص جس کے پاس قوت و اقتدار ہو"۔ یہ ایک خانہ بدوش اور جنگجو قبیلہ تھا۔

قائی قبیلہ گیارہویں صدی میں وسط ایشیا سے اناطولیہ آیا جہاں اس وقت سلجوقی سلطنت کی حکمرانی تھی۔ اس کے علاوہ قبیلہ کے بعض خاندان چودہویں صدی سے بلقان میں بھی آباد ہیں۔

موجودہ ترکی میں صوبہ بیلیجک (Bilecik) قائی قبیلہ کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ دولت عثمانیہ کے عثمانی سلاطین کا شجرہ نسب اسی قبیلے سے جا ملتا ہے۔

*چالیس سال قبل  گاؤں کے ہر گھر میں ایسا ہی برانڈڈ  کچن ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سماج میں کلاس سسٹم کا نام و نشان نہیں تھا*  ...
09/07/2023

*چالیس سال قبل گاؤں کے ہر گھر میں ایسا ہی برانڈڈ کچن ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سماج میں کلاس سسٹم کا نام و نشان نہیں تھا*

*دھرتی سے سالانہ اتنا غلہ اگتا تھا کہ کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا*
*خواہشوں کا زور نہیں تھا ۔۔۔ سادگی کا زمانہ تھا*
*پڑوس میں سالن کی پلیٹ بھیجنا احسان نہیں بلکہ سماجی رسم تھی ۔۔۔۔۔*

*چھوٹے گھروں میں بڑے دل والے لوگ رہتے تھے ۔۔۔*

*مٹی کے گھر تھے ۔۔۔ مٹی کے برتن تھے*
*مٹی کے انسان کتنے سکون سے جیتے تھے ۔۔۔۔*
*کچن کا ذائقہ تھا یا مٹی کی برکت ۔۔۔*
*نہ حرص ۔۔ نہ لالچ اور نہ ہی پوری عمر کی جھوٹی مقابلہ بازی ۔*

*مٹی کے کچن سے پل کر بڑا ہونے والے طبقاتی نظام کے درد کو خوب جانتے ہیں ۔۔۔۔*

*اب ہم نے ترقی کر لی ہے ۔۔۔ فائیو جی کا زمانہ ہے*
*دوسروں کے دکھ درد سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اپنے اپنے کمرے میں اپنی موج سے رہتے ہیں ۔۔۔*
*اور اپنی نیند کی گولی کھا کر سوتے ہیں۔۔۔۔*

پاکستان میں نیگلیریا کے بڑھتے ہوئے کیسز نیگلیریا فولیری (Nagleria fowleri) ایک پروٹوزون پیراسائیٹ ہے جسے دماغ کھانے والا...
09/07/2023

پاکستان میں نیگلیریا کے بڑھتے ہوئے کیسز

نیگلیریا فولیری (Nagleria fowleri) ایک پروٹوزون پیراسائیٹ ہے جسے دماغ کھانے والا امیبا بھی کہتے ہیں۔ یہ امیبا گرم پانی کی جھیلوں، تالابوں اور دریائوں وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ یہ عموماً ایسے پانی میں نہانے والوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ناک کے ذریعے دماغ تک پہنچ جاتا ہے اور دماغ کی بافتوں کو کھانے لگتا ہے۔ ایک دفعہ یہ دماغ تک پہنچ گیا تو پھر موت کے 97 فیصد چانسز ہوتے ہیں۔ نیگلیریا سے پیدا ہونے والی بیماری کو Primary Amoebic meningo- encephalitis (PAM) کہتے ہیں۔ اس کی علامات میں شدید سردرد اور گردن توڑ بخار شامل ہے۔ علامات ظاہر ہونے کے بعد دو ہفتوں کے اندر مریض کی موت ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں نیکگلیریا فولیری کا پہلا کیس 2008 میں رپورٹ ہوا اور 2023 تک قریب 175 لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کیسز کراچی میں رپورٹ ہوئے جبکہ کچھ ایک کیسز اندرون سندھ سے بھی سامنے آئے۔ لیکن کچھ دن قبل پنجاب میں لاہور میں بھی نیگلیریا کا پہلا کیس رپورٹ ہوا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پیراسائیٹ پنجاب میں بھی موجود ہے۔ حالانکہ یہ بیماری بہت نایاب ہے لیکن دنیا بھر کے مقابلے میں حالیہ سالوں میں پاکستان میں اس کے کیسز میں کافی تیزی آئی ہے۔ صرف 2023 میں پاکستان میں اس کے پانچ کیس رپورٹ ہوچکے ہیں۔ حکام کو چاہیے کہ پاکستان کے گرم علاقوں میں موجود پانی کے ذخائر کی بروقت کلورینیشن کرتے رہیں تاکہ اس پیراسائیٹ کے پھیلائو کو روکا جاسکے۔

ﺍﮔﺮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁپ کی ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﮐﺎﺭﮈ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻥ ﭼﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻔﯿﺪ ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﻗ...
09/07/2023

ﺍﮔﺮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁپ کی ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﮐﺎﺭﮈ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻥ ﭼﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻔﯿﺪ ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻋﺎﺟﺰ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺑﯿﺘﮯ ﮔﯽ؟

ﺍﮔﺮ ﮐِﺴﺮﯼٰ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺻﻮﻓﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﺨﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﺭﺍﻡ ﺩﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﯽ؟

ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻗﯿﺼﺮ ﺭﻭﻡ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﺷﺘﺮ ﻣﺮﻍ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﻨﮯ ﺟﻦ ﭘﻨﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﯿﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺘﻨﯽ ﮨﻮﺍ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﮧ ﺳﮯ ﺳﭙﻠﭧ ﺍﮮ ﺳﯽ ﮐﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﯾﮟ ﺣﺼﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ؟

ﺁﭖ ﺍپنی ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺳﯽ ﮐﺮﻭﻻ ﮐﺎﺭ ﻟﯿﮑﺮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻓﺮﺍﭨﮯ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺋﯿﮯ، ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺗﮑﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﻧﺨﻮﺕ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮔﯽ؟

ﮨﺮﻗﻞ ﺧﺎﺹ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﺻﺮﺍﺣﯽ ﺳﮯ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﯿﮑﺮ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍِﺱ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﭘﺮ ﺣﺴﺪ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﻮ ﺍﮔﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﻮﻟﺮ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﮮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﮯ ﮔﺎ؟

ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭨﮭﻨﮉﮮ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻡ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﻼ ﮐﺮ ﻏﺴﻞ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ ﺍﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺗﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﯽ ﺟﺎﮐﻮﺯﯼ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﮯ ﺗﻮ؟

ﺍﻭﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺣﺞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﮩﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﭼﻨﺪ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﮑﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔

ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺠﯿﺌﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺭﮨﮯ، ﺑﻠﮑﮧ ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﺎ ﺳﻮﭺ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﯿﮟ آﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺼﯿﺐ ﺳﮯ ﻧﺎﻻﮞ ﮨﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺘﻨﯽ ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﺳﻌﺘﯿﮟ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﯿﻨﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ !!!
ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﭘﮍﮬﯿﺌﮯ، ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﺧﺎﻟﻖ ﮐﯽ ﺍﻥ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ...

‏آپ واپس (ماضی میں) جا کر شروعات کو تبدیل نہیں کر  سکتے؛ لیکن جہاں آپ ہیں وہیں سے آغاز کر کے انجام کو ضرور تبدیل کرسکتے ...
09/07/2023

‏آپ واپس (ماضی میں) جا کر شروعات کو تبدیل نہیں کر سکتے؛ لیکن جہاں آپ ہیں وہیں سے آغاز کر کے انجام کو ضرور تبدیل کرسکتے ہیں۔“

سی ایس لوئز

سامرا شہر کی قدیم مسجد 9ویں صدی عیسوی میں عباسی خلافت زوال کا شکار ہو رہی تھی ۔ 9ویں صدی کے اواخر سے 11ویں صدی کے اوائل ...
07/07/2023

سامرا شہر کی قدیم مسجد

9ویں صدی عیسوی میں عباسی خلافت زوال کا شکار ہو رہی تھی ۔ 9ویں صدی کے اواخر سے 11ویں صدی کے اوائل کے دوران، ایک دور جسے "ایرانی انٹرمیزو" کہا جاتا ہے، عراق کے کچھ حصوں پر (جدید علاقہ) ایران کی کئی چھوٹی امارتوں کی حکومت تھی ، جن میں طاہری، صفاری، سعمانی شامل ہیں۔ اس مسجد کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے ۔ یہ ایک تاریخی مسجد ہے جو آج بھی عراق کے شہر سامرا میں موجود ہے ۔

جاؤ واپس جاکر اپنے ڈاکومنٹس گریڈ 17 سے تصدیق کروا کر پھر آؤ"روزانہ کے معمول میں یہ اوپر کا جملہ اپ نے بھی سناہوگا کوئی ب...
07/07/2023

جاؤ واپس جاکر اپنے ڈاکومنٹس گریڈ 17 سے تصدیق کروا کر پھر آؤ"
روزانہ کے معمول میں یہ اوپر کا جملہ اپ نے بھی سناہوگا کوئی بتاسکتا ہے کہ یہ گریڈ 17 آفیسر سے تصدیق پاکستان میں کیوں ہم پہ فرض کی گئی ہے؟
کیا آپ لوگوں کو ڈاکومنٹس چیک کرنا کا صرف یہ واحد معیار ہے کہ 17 سکیل کا بندہ sign کرلے جس کے پاس کوئی مشین نہیں اس کی تصدیق کیلئے؟
مزے کی بات وہ امتحانی بورڈ یا دفتر جس نے اپکو ڈگری دی ہوتی ہے اسی ڈگری کے فوٹو کاپی انکے پاس لے جاکر افس والے کہینگے گریڈ 17 سے تصدیق کرکے آؤ.
نادرا والے خود کمپیوٹر میں سارا ریکارڈ چیک کرنے کے بعد کہتے ہیں جاؤ یہ فارم 17 سے تصدیق کرکے لاؤ.
حالانکہ صرف تصدیق شدہ فوٹوسٹیٹ پر جاب نہیں ملتی بلکہ انٹرویو کے وقت اصل اسناد دکھانے پڑتے ہیں اور جب تک متعلقہ بورڈ یا یونیورسٹی سے ڈگری کی تصدیق نہیں ہوتی اس وقت تک پہلی تنخواہ جاری نہیں ہوتی.
ہمارے گاؤں کے غریب کا بچہ دستخط کے لئے ااپنے والد کو ساتھ لیکر گریڈ 17 سے دستخط کے بعد زندگی بھر اسکا ممنوں رہتاہے اور گریڈ17 کا افسر بڑے سیریس انداز میں ایک لمبا چوڑا دستخط کرکے اندر ہی اندر اس بیوقوف سسٹم پہ ہنس رہاہوتاہے.

غلامانہ دور کی عکاس روایات....!!

ایلن مسک اس وقت دنیا میں موجود سب سے زیادہ قیمتی انسان ہیں ۔ ۔ ۔ ان کی قدر و منزلت کا اندازہ اس چیز سے لگائیں کہ اگر وہ ...
07/07/2023

ایلن مسک اس وقت دنیا میں موجود سب سے زیادہ قیمتی انسان ہیں ۔ ۔ ۔
ان کی قدر و منزلت کا اندازہ اس چیز سے لگائیں کہ اگر وہ کسی چیز کے بارے میں غیر اطمنانی کا اظہار بھی کر دیں تو ایک گھنٹے سے پہلے اس چیز کو بنانے والی انڈسٹریز کے سٹاک شیئرز کی قیمتیں زمین بوس ہو جاتی ہیں ۔ ۔ ۔
ان کا ہندوستان آنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کے دن پھر گئے ہیں اور اس کی ترقی میں اب Exponential Growth دیکھنے کو ملے گی ۔ ۔ ۔

اور یہ سب ان دنوں میں ہو رہا ہے جب پاکستان کے نوجوان اس ملک سے جان چھڑانے کے لیے بحیرہ روم میں ڈوب کر مر رہے ہیں ۔ ۔ ۔

07/07/2023
نکتہ نظر آخری 200،400 سالدولت مند مسلمان حکمران اور غیر مسلم👇😔 غور طلب تحریر 👇 ‏*وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے او...
07/07/2023

نکتہ نظر آخری 200،400 سال
دولت مند مسلمان حکمران اور غیر مسلم👇😔 غور طلب تحریر 👇

‏*وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لئے ترغیب دیتا تھا*

جب امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی_عرب کو جتلایا کہ امریکی تحفظ کے بغیر تمہاری حکومت دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی۔

ان ہی دنوں سعودیہ میں ایک اونٹ کو 16 ملین ریال کا سونے کاہار پہنایا گیا تھا ۔

اسلام کا کتنا عبرتناک منظر تھا جب معتصم بااللہ آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔۔!

کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کہ سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے جواہرات رکھ دیے۔۔۔۔۔!

پھر معتصم سے کہا :
" کھاؤ، پیٹ بھر کر کھاؤ، جو سونا چاندی تم اکٹھا کرتے تھے وہ کھاؤ "

بغداد کا تاج دار بےچارگی و بےبسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔
بولا " میں سونا کیسے کھاؤں؟ "

ہلاکو نے فورا کہا :
" پھر تم نے یہ سونا اور چاندی کیوں جمع کیا؟

وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لئے ترغیب دیتا تھا،
کچھ جواب نہ دے سکا۔۔۔۔۔!

ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے
اور سوال کیا:
" تم نے ان جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہیں بنائے ؟
تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی کہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟"

خلیفہ نے تأسف سے جواب دیا:
" اللہ کی یہی مرضی تھی "

ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا:
" پھر جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے وہ بھی خدا ہی کی مرضی ہوگی "

ہلاکو خان نے معتصم بااللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا اور چشم فلک نے دیکھا کہ اس نے بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔۔۔!

ہلاکو نے کہا " آج میں نے بغداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔۔۔۔!"
اور ایسا ہی ہوا۔۔۔۔

تاریخ تو فتوحات گنتی ہے
محل،
لباس،
ہیرے،
جواہرات
اور انواع و اقسام کے لذیذ کھانے نہیں۔۔۔۔۔!

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا مگر دیوار پر تلواریں ضرور لٹکی ہوئی ہوتی تھیں۔

ذرا تصور کریں۔۔۔۔۔۔!
جب یورپ کے چپےچپے پر تجربہ گاہیں
اور تحقیقاتی مراکز قائم ہو رہے تھے تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لے کر اپنی محبوبہ کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا
اور
اسی دوران برطانیہ کا بادشاہ اپنی ملکہ کے دوران ڈلیوری فوت ہو جانے پر ریسرچ کے لئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل سکول کی بنیاد رکھ رہا تھا۔۔۔۔۔!

جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے تب یہاں تان سین جیسے گوئیے نت نئے راگ ایجاد کر رہےتھے اور نوخیز خوبصورت و پرکشش رقاصائیں شاہی درباروں کی زینت و شان بنی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔!

جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے تب ہمارے ارباب اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔۔۔

تاریخ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی ؟
شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں یا نہیں ؟

درباروں میں خوشامدیوں، مراثیوں، طبلہ نوازوں، طوائفوں، وظیفہ خوار شاعروں اور جی حضوریوں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟

تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ کبھی عذر قبول نہیں کرتی۔۔۔۔!

یاد رکھیں جن کو آج بھی دولت سے لگاؤ اور طاغوت کی غلامی کا چسکا ہے
ان کا حال خلیفہ معتصم باللہ سے کم نہیں ہو گا۔

بیل آف فلاریس" قدیم موجد کی خطرناک ایجاد جسے "Perilaus کا پیتل کا بیل" یا "Phalaris کا بیل" کہا جاتا ہے۔مجسمہ ساز Perila...
06/07/2023

بیل آف فلاریس" قدیم موجد کی خطرناک ایجاد جسے "Perilaus کا پیتل کا بیل" یا "Phalaris کا بیل" کہا جاتا ہے۔
مجسمہ ساز Perilaos 570-560 BC کے درمیان۔
اس نے ظالم فلاریس کے حکم کے مطابق پیتل کا بیل بنایا جو ایک پورے آدمی کو اپنے اندر زندہ جلاتا تھا۔ جب وہ بیل کے نیچے آگ جلاتے تھے تو اندر والے کو زندہ جلایا جاتا تھا اور اس کی دردناک آوازیں ایک خاص طریقہ کار کے ذریعے سنائی دیتی تھیں۔
جب اس نے پہلی بار اپنی ایجاد کو سسلی کے ظالم بادشاہ اکراگانٹاس کے سامنے پیش کیا تو اس نے پیریلاس کو بیل کے اندر ڈالنے کا حکم دیا اور اپنا پہلا شکار بنایا۔
ایسی شیطانی مشین کے موجد کے لیے یہ ایک موزوں انجام تھا۔

بروز، بیلجیم میں اذیت کے میوزیم سے تصویر اور ڈرائنگ۔

آج "اداس نسلیں" کے خالق عبداللہ حسین کی  برسی ہےآج سے نصف صدی قبل ایک ایسا ناول لکھا گیا جس نے نہ صرف اردو ادب میں تہلکہ...
06/07/2023

آج "اداس نسلیں" کے خالق عبداللہ حسین کی برسی ہے

آج سے نصف صدی قبل ایک ایسا ناول لکھا گیا جس نے نہ صرف اردو ادب میں تہلکہ مچا دیا بلکہ وہ ایک نئے وجود میں آنے والے ملک کی کہانی بن گیا۔ غلامی سے آزادی کے سفر کی کہانی، مرد عورت کی محبت کی کہانی، مٹی سے عشق کی کہانی۔
یہ ایک تاریخی ناول تھا جو آج بھی زندہ ہے اور کتنی ہی نسلیں اس کو پڑھ چکی ہیں۔ بقول عبداللہ حسین کے کہ جب سے ’اداس نسلیں‘ لکھی گئی اس وقت سے اس کتاب کی خوش قسمتی اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ہر نسل اداس سے اداس تر ہوتی جا رہی ہے

جب یہ ناول لکھا گیا تو اس کے مصنف ادبی حلقوں سے دور داؤد خیل کی ایک سیمنٹ فیکٹری میں میں بطور کیمسٹ کام کرتے تھے۔ نام ابھی عبداللہ حسین نہیں ہوا تھا بلکہ محمد خان تھا۔ آٹھ گھنٹے کام کرتے تھے اور آٹھ گھنٹے سوتے تھے، باقی کے آٹھ گھنٹوں میں وہاں کچھ کرنے کو نہیں تھا تو سوچا کہ محبت کی ایک کہانی لکھتے ہیں۔

06/07/2023

ایم ایم عالم :
۔"" "" "" "" "
محمد محمودعالم (جنہیں ایم ایم عالم بھی کہا جاتا ہے۔) پاکستان کے جنگی ہواباز تھے۔ جن کی وجہ شہرت گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایک منٹ میں سب سے زیادہ طیارے مار گرانے کا ریکارڈ ہے ۔
6 جولائی 1935ء کو کلکتہ کے ایک خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ثانوی تعلیم 1951ء میں سندھ گورنمنٹ ہائی اسکول ڈھاکہ (سابقہ مشرقی پاکستان ) سے مکمل کی۔ 1952ء میں فضائیہ میں آئے اور 2 اکتوبر 1953ء کو کمیشنڈ عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کے بھائی ایم شاہد عالم ایک معاشیات کے پروفیسر تھے۔ نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں اور ایک اور بھائی ایم سجاد عالم SUNY البانی میں طبعیات دان تھے۔ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کے لئے نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ان کی فیملی پاکستان میں قیام پزیر رہی ۔

پاک فضائیہ میں خدمات :
۔"" "" "" "" "" "" "" "" "" "
1965ء کی جنگ کے بعد 1967ء میں آپ کا تبادلہ بہ طور اسکواڈرن کمانڈر برائے اسکواڈرن اول کے طور پر ڈسالٹ میراج سوم لڑاکا طیارہ کے لئے ہوا، جو پاکستان ایئر فورس نے بنایا تھا۔ 1969ء میں ان کو اسٹاف کالج کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ 1972ء میں انہوں نے 26ویں اسکواڈرن کی قیادت دو مہینے کے لئے کی۔ بنگالی ہونے کی وجہ سے 1971ء کی جنگ میں آپ کو ہوائی جہاز اڑانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 1982ء میں ریٹائر ہو کر کراچی میں قیام پزیر ہوئے ۔

وجہ شہرت :
۔"" "" "" ""
سکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم کو یہ اعزاز جاصل ہے کے انھوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سرگودھا کے محاذ پر پانچ انڈین ہنٹر جنگی طیاروں کو ایک منٹ کے اندر اندر مار گرایا، جن میں سے چار 30 سیکنڈ کے اندر مار گرائے تھے۔ یہ ایک عالمی ریکارڈ تھا۔ اس مہم میں عالم صاحب ایف 86 سیبر طیارہ اڑا رہے تھے جو اس زمانے میں ہنٹر طیارے سے تین درجے فرو تر تھا۔ مجموعی طور پر آپ نے 9 طیارے مار گرا‎ئے اور دو کو نقصان پہنچایا تھا۔ جن میں چھ ہاک ہنٹر طیارے تھے۔
اس کارنامے میں درج ذیل نقصانات دشمن کے ہوئے :
* 6 ستمبر 1965, 1× ہاوکر ہنٹر
* اسکواڈرن لیڈر , No. 7 Sqn, KIA نزد ترن تارن اجیت کمار راولی.
* 7 ستمبر 1965, 5× ہاوکر ہنٹر
* اسکواڈرن لیڈر اونکار ناتھ کیکر، No. 27 Sqn, جنگی قیدی
* اسکواڈرن لیڈر اے بی دیویا , No. 7 Sqn (جن کے متعلق یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ یہ فلائٹ لیفٹنٹ امجد حسین تھے ۔
* اسکواڈرن لیڈر سریش بھی ٰبھگوت، No. 7 Sqn
* فلائٹ لفٹنٹ بی گوہا , No. 7 Sqn
* فلائنگ آفسیر جگدیشن سنگھ برار، No. 7 Sqn, KIA, نزد سانگلہ ہل.
سمتبر16, 1965, 1× ہاؤکر ہنٹر
* فلائنگ آفیسر فرخ دارا بنشا، No. 7 Sqn, KIA, نزد امرتسر.
بھارتی فضائیہ کی طرف سے ایم ایم عالم کے اس کارنامے کے تصدیق کے طور پر چار طیاروں کے مارے جانے کی اطلاع ملی۔ پانچویں طیارے اسکواڈرن لیڈر اونکار ناتھ کیکر کسی زمینی حملے کا شکار ہوئے تھے ۔

دیگر کارنامے :
۔"" "" "" "" ""
بنگالی ہونے کی وجہ سے 1971ء کی جنگ میں آپ کو ہوائی جہاز اڑانے کی اجازت نہیں دی گئی، مگر آپ نے جنگ سے بعد پاکستان میں ہی قیام کیا۔ جمعہ کے خطبہ میں فضائیہ کے بدنام سربراہ انور شمیم پر تنقید کرنے پر آپ کو ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا۔

اعزازات :
۔“"" "" "
1965ء کی جنگ کے مذکورہ بے مثال جرأت اور بہادری سے بھرپور کارنامے پر ایم ایم عالم کو ستارہ جرات سے نوازا گیا ۔

یادگار :
۔" "" "
لاہور میں گلبرگ کے علاقے میں ایک اہم سڑک کا نام فخر پاک فضائیہ ایئر کموڈور محمد محمود عالم کے نام پر ایم ایم عالم روڈ رکھا گیا۔ اسکواڈرن لیڈر زاہد یعقوب عامر نے ان کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب لکھی ہے،

آخری ایام :
۔" "" "" ""
طویل عرصے تک علیل رہنے کے بعد 18 مارچ 2013ء کو پھیپھڑے کے مرض سے کراچی میں ان انتقال ہوا۔
نماز جنازہ پی اے ایف بیس مسرور میں ادا کی گئی۔ مرحوم نے سوگواران میں تین بھائی اور ایک بہن چھوڑے ۔

ایم ایم عالم نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن ملک بھارت کے پانچ لڑاکا جہازوں کو پے در پے اپنے لڑاکا طیارے سیبر 86 کی گنوں سے نشانے پر رکھنے کے بعد زمین بوس کر دیا تھا۔ ایم ایم عالم کا جنگی ہوا بازی کا کارنامہ آج بھی سننے والو ں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
ایم ایم عالم نے ایک ہی وقت میں جن 5 بھارتی ہنٹر طیاروں کو خاک چٹائی وہ ایم ایم عالم کے اپنے جنگی جہاز سیبر 86 سے کئی گنا زیادہ برق رفتار اور جنگی صلاحیتوں کے حامل تھے، ان ہی غیر معمولی جنگی ہوائی مہارتوں پر انھیں فالکن اور لٹل ڈریگن جیسے القابات سے نوازا گیا-
ایم ایم عالم نے 1965ء کی جنگ میں مختلف محاذوں پر کل 11 بھارتی طیاروں کو تباہی سے دوچار کیا جن میں 9 مکمل طور پر تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔ گیارہ بھارتی ترنگے ان کے جہاز کی باڈی پر نمایاں دکھائی دیتے تھے۔
1971ء کی جنگ لڑنے والے پاک فضائیہ کے جنگی ہوا باز ائیر کموڈور (ر) شبیر احمد خان کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ایم ایم عالم کے تاریخی کارنامے کے پس منظر میں پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ملک کے ساتھ جنون کی حد تک محبت کا جذبہ بھی کار فرما تھا، جس نے ایک ان ہونی بات کو ہونی بنا دیا۔
ائیر کموڈور (ر) شبیر احمد خان کا کہنا تھا کہ جب جونیئر ان کے پاس جاتے تھے تو ان کو ایک سبق ضرور ملتا تھا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے اور اس کے لئے اگر جان دینے کا موقع آئے تو اسے نچھاور کرنے میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کرنی۔ وہ بالکل اس شعر کی مانند ایک شمع جلا کر چلے گئے جو وہ اکثر دہرایا کرتے تھے کہ
شکوہ ظلمت سے تو بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔

شبیر احمد خان کے مطابق ایم ایم عالم کا معمول تھا کہ جب لوگ گھر کی آرائش کے لئے ڈیکوریشن پیس خریدتے تھے تو کتاب خرید لیتے تھے۔ ان کی لگ بھگ 5 ہزار کتابوں کا مجموعہ اس وقت بھی پی ایف بیس مسرور اور نورخان ائیر بیس (چکلالہ) میں موجود ہے۔

ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران محیر العقول کارنامے انجام دینے والے قومی ہیرو ایم ایم عالم کا ’ سیبر‘ طیارہ ٹاؤن ہال کے پلیٹ فارم پر نصب کر دیا گیا۔ لاہور کے لئے یہ تیسرا طیارہ تھا، جو پاک فضائیہ نے بطور تحفہ دیا۔ سیبر (F-86 Sabre) طیارہ نقل و حرکت اور پرواز کے اعتبار سے بہترین جنگی جہاز تھا۔ اسے تیار کرنے والی فرم نے ایسے نو ہزار جہاز تیار کئے تھے۔ جنگ کے دوران ڈپٹی سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم (محمد محمود عالم) نے اس طیارے کی مدد سے دشمن کے نو جنگی لڑاکا طیاروں کو گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ایم ایم عالم نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سرگودھا کے محاذ پر پانچ انڈین ہنٹر جنگی طیاروں کو ایک منٹ کے اندر اندر مار گرایا۔ پھر چار طیارے تیس سیکنڈ کے اندر مار گرائے۔ اس مہم میں عالم صاحب نے نو طیارے مار گرائے اور دو کونقصان پہنچایا۔ جن میں چھ ہاک ہنٹر طیارے بھی تھے۔ جنگ کے خاتمے پر یہ طیارہ کراچی منتقل کر دیا گیا۔ پہلے طیارے کو نیلام کرنے کا سوچا گیا۔ تاہم اہلِ لاہور کی خواہش تھی کہ طیارہ لاہور لایا جائے۔ لاہور کارپوریشن اور پاک فضائیہ کی خط و کتابت کے بعد 19 مئی 1982ء کو پونے سترہ سال بعد یہ طیارہ لاہور کو تحفتاً مل گیا۔طیارے کو نصب کرنے کے لئے ’’روزگارڈن‘‘ جناح ہال کا انتخاب ہوا۔ فوج کے ماہرین نے 28 جولائی 1983ء کو طیارہ پلیٹ فارم پر نصب کیا۔۔!!!

A long-buried co**se, preserved by one of Earth's driest climates, Chile's Atacama Desert, where it has retained centuri...
06/07/2023

A long-buried co**se, preserved by one of Earth's driest climates, Chile's Atacama Desert, where it has retained centuries-old skin, hair and clothing. Dated around 5020 BC

مسلمانوں کی 800  سالہ کامیاب حکومت کا یہ بھی ایک راز تھا.قطب الدین ایبک شکار کھیل رہے تھے، تیر چلایا اور جب شکار کے نزدی...
05/07/2023

مسلمانوں کی 800 سالہ کامیاب حکومت کا یہ بھی ایک راز تھا.

قطب الدین ایبک شکار کھیل رہے تھے،
تیر چلایا اور جب شکار کے نزدیک گئے، دیکھا تو ایک نوجوان ان تیر سے گھائل گر پڑا تڑپ رہا ہے...
کچھ ہی پل میں اس گھائل نوجوان کی موت ہوجاتی ہے پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ پاس کے ہی ایک گاؤں میں رہنے والی بزرگ کا اکلوتا سہارا تھا.
اور جنگل سے لکڑیاں چن کر بیچتا اور جو ملتااسی سے اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ بھرتا تھا

قطب الدین ایبک اس کی ماں کے پاس گیا، بتایا کہ اس کی تیر سے غلطی سے اس کے بیٹے کی موت ہوگئی ماں روتے روتے بے ہوش ہوگئی.
پھر قطب الدین نے خود کو قاضی کے حوالے کیا اور اپنا جرم بتاتے ہوئے اپنے خلاف مقدمہ چلانے کی آزادی دی

قاضی نے مقدمہ شروع کیا بوڑھی ماں کو عدالت میں بلایا اور کہا کہ تم جو سزا کہو گی وہی سزا اس مجرم کو دی جائے گی.
بوڑھی عورت نے کہا کہ ایسا بادشاہ پھر کہاں ملے گا جو اپنی ہی سلطنت میں اپنے ہی خلاف مقدمہ چلائےاس غلطی کے لئے جو اس نے جان بوجھ کر نہیں کی....

آج سے قطب الدین ہی میرا بیٹا ہے اور میں اسے معاف کرتی ہوں.

قاضی نے قطب الدین کو بری کیا اور کہا اگر تم نے عدالت میں ذرا بھی اپنی بادشاہت دکھائی ہوتی تو میں اس بڑھیا کے حوالے نہ کرکے خود ہی سخت سزا دیتا.
اس پر قطب الدین نے اپنی کمر سے خنجر نکال کر قاضی کو دکھاتے ہوئے کہا اگر تم نے مجھ سے مجرم کی طرح رویہ نہ اپنایا ہوتا تو اور میری بادشاہت کا خیال کیا ہوتا تومیں تمہیں اسی خنجر سے موت کے گھاٹ اتار دیتا

یہ ہے اصل حکمرانی بادشاہت و انصاف.اور
یہی ہے اسلام کی تعلیمات

اس تصویر نے کچھ دیر کے لیے میرا دماغ اڑا دیا۔ یہ جولیا پاسٹرنا ہے۔ میکسیکو کی یہ خاتون پیدائشی طور پر بہت نرم دل تھی لیک...
05/07/2023

اس تصویر نے کچھ دیر کے لیے میرا دماغ اڑا دیا۔

یہ جولیا پاسٹرنا ہے۔ میکسیکو کی یہ خاتون پیدائشی طور پر بہت نرم دل تھی لیکن اسے دنیا کی خوفناک ترین شکل کہا جاتا تھا۔ وہ 1834 میں میکسیکو کے پہاڑوں میں پیدا ہوئیں اور پیدائش سے ہی اس کے پورے جسم پر بال بہت تیزی سے بڑھنے لگے۔ کسی نے اسے قبول نہیں کیا کیونکہ ان کے مطابق یہ ایک عفریت تھا اور اس کی وجہ سے جولیا کو گھر سے بھاگنا پڑا۔

سفر کے دوران، جولیا کا سامنا ایک ایسے شخص سے ہوا جو سرکس چلاتا تھا اور اس نے جولیا کو اس سرکس میں نوکری کی پیشکش کی۔ اس سرکس میں جولیا کو ’پاگل‘ کہا جاتا تھا اور لوگ اسے دیکھنے کے لیے پیسے دینے لگے۔ جولیا کے لیے یہ کام مشکل تھا لیکن اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسے یہ یقینی بنانا تھا کہ وہ کیا کھائے گی اور کہاں سوئے گی۔ اس لیے اس نے یہ کام کیا۔

جولیا نے سرکس میں بہت پیسہ اور شہرت کمائی اور اسی وجہ سے جولیا کے منیجر تھیوڈور لینٹ نے اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اس زمانے کی سب سے زیادہ چرچے والی شادیوں میں سے ایک تھی اور لوگ سوچ رہے تھے کہ کوئی شخص کسی عفریت سے کیسے شادی کر سکتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ جولیا نے ایک نارمل بچے کو جنم دیا۔ لیکن بچے کی پیدائش کے صرف 48 گھنٹے بعد ہی جولیا اور بچہ دونوں کی موت ہوگئی۔

جولیا کی بد قسمتی اس کی موت کے بعد بھی جاری رہی کیونکہ اس کے لالچی شوہر نے اس کی لاش کو ممی کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ آدھا انسان آدھا بندر دکھا کر لوگوں سے پیسے کمانا چاہتا تھا۔ جولیا کی لاش کئی بار چوری ہوئی اور بالآخر 2005 میں ایک کوڑ
دان سے ملی۔آخر ڈیڑھ سو سال بعد جولیا کو اسی طرح عزت کے ساتھ دفن کیا گیا جس طرح انسان کو دفنایا جانا چاہیے۔

05/07/2023

ستر کی دہائی میں اسلام آباد آنا ہوا۔ لال کوارٹرز نئے نئے بنے تھے۔ یہاں گیس فری تھی۔ نصف صدی گزر چکی ہے لیکن میرے ذہن پر یہ نقش ہے کہ ماچس کی تیلی بچانے کیلئے مکین چوبیس گھنٹے چولھا جلائے رکھتے تھے۔

اب چلتے ہیں آفیسرز کالونی اینگرو رحیم یار خان۔ بجلی فری تھی اور بیگمات تین چار دن بھی گھر سے جاتی تھیں تو اے سی آن کرکے جاتی تھیں تاکہ واپسی پر گھر ٹھنڈا ملے۔

غریب اور امیر دونوں کے رویے آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ دونوں میں کوئی مبالغہ نہیں۔

اب آئیں جرمنی کے اس ریسٹورنٹ میں جہاں کچھ پاکستانی ڈھیر سارا کھانا منگوا کر آدھا چھوڑ کر نکلنے لگتے ہیں تو ایک خاتون کسٹمر روک کر پوچھتی ہیں کہ اگر کھانا نہیں تھا تو اتنا منگوایا کیوں۔؟ پاکستانی جواب دیتے ہیں کہ ہم نے کیش پے کیا ہے آپ کو اس سے کیا۔؟

وہ پولیس کو کال کرتی ہیں۔ پولیس آفیسر ساری بات سن کر پچاس یورو جرمانہ کرتا ہے اور جو الفاظ بولتا ہے کاش ہمارے ذہنوں پر بھی نقش ہوجائیں۔ اس نے کہا۔ "پیسہ تمہارا ہے لیکن ریسورسز سوسائٹی کے ہیں اور تمہیں انہیں ضائع کرنے کا کوئی حق نہیں !!

سارا الزام حکمران اور طاقتور طبقوں پر رکھ کر ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اپنے گریباں میں بھی جھانکنا ہوگا۔

*" نو جولائی کو ایک عورت کی برسی آنے والی ہے ،،**اس عورت کی جس کی خاطر شیخ مجیب ڈھاکہ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگایا...
05/07/2023

*" نو جولائی کو ایک عورت کی برسی آنے والی ہے ،،*

*اس عورت کی جس کی خاطر شیخ مجیب ڈھاکہ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگایا کرتا تھا ،،*

*اس عورت کی برسی ہے جسکو جنرل ایوب نے اپنی فوجی آمریت کو مضبوط کرنے کیلیے غدار اور سیکورٹی رسک قرار دیا تھا ،،*

*اس عورت کی برسی ہے جس کے متعلق پاکستان کے پہلے سول آمر مسٹر بھٹو نےکہا تھا یہ شادی کیوں نہی کرتی*

*اس جملے کو سن کر ایک برطانوی صحافی رو پڑا تھا کہ یہ کیسی قوم ہے جو اس عورت پر الزام لگاتی ہے جسے یہ مادر ملت یعنی قوم کی ماں کہتی ہے ،،،*

*جنرل ایوب نے جب اسکو دھاندلی سے ہرایا تو اس وقت متحدہ پاکستان بھی ہارگیا ،،،*

*فاطمہ جناح ملت کے پاسبان کی بہن تھی ،،،*

*وہ ایوب سےجیت جاتی توپاکستان واقعی آج ایشین ٹائیگر ہوتا ،،،*

*اس کی ہار کی سزا آج تک پاکستان بھگت رہا ہے.*

*پوری قوم سے درخواست ہے کہ وہ قوم کی محسن' محمد علی جناح کو قائداعظم بنانے والی' مادر ملت محترمہ فا طمہ جناح کے ایصال ثواب کے لئے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھ کر دعا کریں.*

سوزوکی آلٹو 800 سی سی نیا ماڈل،قیمت 3 لاکھ 39 ہزار روپے آپ کے لئے نہیں انڈین عوام کیلئے، آپ کیلئے نیا ترانہ ریلیز ہو رہا...
05/07/2023

سوزوکی آلٹو 800 سی سی نیا ماڈل،قیمت 3 لاکھ 39 ہزار روپے آپ کے لئے نہیں انڈین عوام کیلئے، آپ کیلئے نیا ترانہ ریلیز ہو رہا ہے، انتظار کرو.

His name was Dina Sanichar and he passed away in 1895.
05/07/2023

His name was Dina Sanichar and he passed away in 1895.

یہ ایڈنبرا کے ہسپتال کے ایک کمرے کا منظر تھا۔ایک مریض کو رسیوں سے جکڑا ہوا تھا اور اس کے حلق سے درد ناک چیخیں نکل رہی تھ...
03/07/2023

یہ ایڈنبرا کے ہسپتال کے ایک کمرے کا منظر تھا۔
ایک مریض کو رسیوں سے جکڑا ہوا تھا اور اس کے حلق سے درد ناک چیخیں نکل رہی تھیں۔ دراصل اس بچارے کی ٹانگ ایک حادثے میں بری طرح سے زخمی ہوگئی تھی۔ ٹانگ کاٹنے کی علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ آخر کار اس کی ٹانگ کو ایک آری سے کاٹ دیا گیا۔ مریض درد سے تڑپ کر بے ہوش ہوگیا۔ یہ منظر ڈاکٹری پڑھنے والے ایک طالب علم نے بھی دیکھا۔ اس دن اس نے عہد کیا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایسے دوا ایجاد کرےگا، جس سے مریض کو اس خوفناک تکلیف سے نجات مل جائے۔ اس نوجوان کا نام جیمس ینگ سمپسن تھا۔ اس نے دن رات محنت کرکے تعلیم حاصل کی اور صرف اٹھارہ برس کی عمر میں ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرلیں۔ اس نے لوگوں کے علاج معالجے کیساتھ ساتھ اپنے تجربہ گاہ میں مسلسل تحقیق کا کام جاری رکھا۔ آخرکار اس کی محنت رنگ لائے اور ایسے دوا بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس سے مریض آپریشن کی دوران میں بے ہوش رہے اور اسے کسی قسم کی تکلیف محسوس نا ہو۔ یہ دوا کلوروفارم کی نام سے مشہور ہوئے اور دنیا بھر کے مریضوں کیلئے ایک نعمت ثابت ہوئی-

پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک ’داؤد فیملی‘ کون ہے؟تحریر زین العابدینداؤد فیملی کے کاروبار کا آغاز اس وقت ہوا ...
03/07/2023

پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک ’داؤد فیملی‘ کون ہے؟
تحریر زین العابدین

داؤد فیملی کے کاروبار کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک یتیم نوجوان احمد داؤد نے پتھارے پر کپڑے کے تھان لگانا شروع کیے اور پھر بمبئی میں یارن کی دکان کھولی۔
داؤد فیملی کا نام گذشتہ دنوں سے ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں زیر گردش ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹائٹن آبدوز کے حادثے میں جن پانچ مسافروں کی ہلاکت ہوئی ان میں سے دو کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔
شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان اس آبدوز میں سوار تھے جو تفریحی مقاصد کے لیے بحر اوقیانوس میں ڈوبے جہاز ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے کے لیے سمندر کی گہرائیوں میں گئی۔ مگر حکام کے مطابق اس دورے پر زیر آب دباؤ کی وجہ سے آبدوز دھماکے کا شکار ہوئی اور اس میں سوار پانچ مسافر ہلاک ہوگئے۔
داؤد فیملی کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے۔ شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔ یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔

مگر داؤد فیملی کا کاروبار ملک کے اندر اور باہر وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے جس کے علاوہ یہ خاندان صحت اور تعلیم جیسے سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتا ہے۔

داؤد فیملی نے پتھارے پر کپڑے کے تھان لگا کر کاروبار شروع کیا
پاکستان کے سب سے بڑے صنعت کاروں میں شامل داؤد فیملی نے 20ویں صدی کے اوائل میں ایک پتھارے سے کاروبار کا آغاز کیا اور چند دہائیوں میں اس خاندان کا شمار خطے کے امیر ترین گھرانوں میں ہونے لگا۔
آج اس خاندان کی کئی درجنوں صنعتیں و تجارتی ادارے ہیں۔ ان کا کاروبار پاکستان سے برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے۔
داؤد فیملی کے سربراہ احمد داؤد کی پیدائش 1905 میں انڈیا کے صوبے کاٹھیاواڑ کے علاقے بانٹوا میں ہوئی۔ ان کے والد تاجر تھے۔ انھوں نے صرف تین جماعتوں تک تعلیم حاصل کی تھیں۔ بچپن میں ہی والد کی وفات ہوگئی جس کے بعد ان کی پروش کی ذمہ داری دادا پر آگئی۔
’احمد داؤد ایک پیکر اوصاف‘ نامی کتاب کے مصنف عثمان باٹلی والا لکھتے کہ احمد داؤد نے 16 سال کی عمر میں پتھارے پر کپڑے کے تھان لگا کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا جبکہ داؤد انویسٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق یتیم نوجوان احمد داؤد نے 1920 میں بمبئی میں یارن کی دکان کھولی تھی۔
عثمان باٹلی والا، جو احمد داؤد سے متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ سیٹھ احمد بتاتے تھے کہ ان کی والدہ ذہین اور سمجھدار خاتون تھیں۔ وہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں جس کی وجہ سے انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا رہا۔
میمن شخصیات پر کتاب کے مصنف عمر عبدالرحمان لکھتے ہیں کہ انھوں نے کاٹن جننگ پریسنگ فیکٹری کے علاوہ تیل کی مِل اور ویجیٹیبل آئل کی فیکٹری قائم کی اور دیکھتے ہی دیکھتے داؤد فیملی کے دفاتر اور ان کی شاخیں کلکتہ، مدراس، کانپور، متھورہ، لدھیانہ اور دلی وغیرہ میں پھیل گئیں۔
عثمان لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے خوردنی تیل کا کارخانہ لگایا تو پھر ان کے کاروبار میں وسعت آئی اور یہ کامیابی سے چل پڑا۔ اس کاروبار میں ان کے بھائی سلیمان داؤد، علی محمد داؤد، صدیق داؤد اور ستار داؤد بھی شریک رہے۔
برصغیر کے بٹوارے اور قیام پاکستان کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے جہاں کچھ عرصہ رہے۔ بعد میں وہاں سے پاکستان آ گئے۔ انھوں نے مانچسٹر اور پاکستان میں داؤد پرائیوٹ لمیٹڈ کے نام سے کمپنی قائم کی۔
پاکستان میں فوجی جرنیلوں کے ابتدائی ادوار اور داؤد خاندان
پاکستان کے فوجی ادوار داؤد فیملی کے لیے سازگار رہے، پھر چاہے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت ہو یا جنرل ضیالحق کی۔
عثمان باٹلی والا لکھتے ہیں کہ احمد داؤد نے پاکستان میں کاٹن کی بروکری شروع کی۔ ایوب خان کے دور حکومت میں کراچی میں اور بورے والا میں ٹیکسٹائل فیکٹریاں غیر فعال ہوگئیں جو سرکاری ادارے پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کے زیر انتظام تھیں لیکن وہ انھیں چلا نہیں پا رہے تھے۔
لہذا ایوب خان کو مشورہ دیا گیا کہ اگر یہ فیکٹریاں احمد داؤد کو دی جائیں تو اچھا پرفارم کریں گی۔ انھیں یہ پیشکش کی گئی تو انھوں نے اور ان کے بھائیوں نے اس کو قبول کر لیا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ حالیہ نجکاری کے طریقہ کار کے مطابق ماضی میں اس کام کے لیے کوئی بولی وغیرہ نہیں لگی نہ نیلامی ہوئی۔ فیکٹریاں انھیں سپرد کی گئیں اور انھوں نے رقم ادا کی۔ اس سے قبل ان کے پاس لانڈھی میں داؤد کاٹن ملز موجود تھیں جو 1952 سے کام کر رہی تھی۔
مغربی پاکستان کے بعد وہ مشرقی پاکستان میں بھی قسمت آزمانے چلے گئے۔ یہ موقع بھی ایوب خان حکومت میں انھیں میسر ہوا۔ وہاں کرنافلی پیپر ملز اور کرنافلی ٹیکسٹائل ملز مزدوروں کے احتجاج اور دیگر معاملات کی وجہ سے غیر فعال ہوچکی تھیں۔
عثمان باٹلی والا کے مطابق نواب آف کالا باغ نے سیٹھ احمد کو پیشکش کی کہ ان کو خرید لیں، انھوں نے اس کو قبول کیا اور محنت کی تو یہ بحال ہوگئیں۔ پیپر ملز اس وقت پاکستان کی واحد مل تھی جس میں بانس سے پیپر بنایا جاتا تھا۔
17 جنوری 1969 میں نیویارک ٹائمز نے اپنی اشاعت میں احمد داؤد فیملی کو پاکستان کا دوسرا سب سے امیر خاندان قرار دیا جس کے اثاثوں کی مالیت اس وقت 200 ملین ڈالرز تھی۔ ان کے پاس کاٹن، وولن، ٹکسٹائل، یارن، کیمکلز، مائننگ، بینکنگ، انشورنس، پیپر اور فرٹیلائزر کے کارخانے تھے۔
1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ سے کرنافلی پیپر ملز، داؤد مائننگ، داؤد شپنگ سمیت کئی کارخانے اور کاروبار متاثر ہوئے۔ عثمان باٹلی والا بتاتے ہیں کہ ان دنوں ان کے نقصان کا تخمینہ 30 سے 35 کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔
’پاکستان کے امیر ترین‘ بائیس خاندان اور داؤد فیملی
فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں ڈاکٹر محبوب الحق نے بجٹ تقریر کے دوران انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کی ’60 سے 80 فیصد دولت پر صرف 22 خاندان قابض ہیں‘ تاہم انھوں نے ان خاندانوں کے نام نہیں بتائے تھے۔
تاہم اس معاملے نے ایک مزاحمتی عنصر کو جنم دیا اور پاکستان کے عوامی شاعر حبیب جالب نے لکھا کہ:
بیس گھرانے ہیں آباد، اور کروڑوں ہیں ناشاد
ہم پر اب تک جاری ہے، کالی صدیوں کی بے داد
صدر ایوب زندہ باد۔
ذوالفقار علی بھٹو سوشلزم کے نعرے کے ساتھ جب برسرِ اقتدار آئے تو انھوں نے ان خاندانوں کی نشاندہی کی اور متنبہ کیا کہ اس وقت پاکستان کو سرمائے کی ضرورت ہے، لہذا یہ خاندان اپنا سرمایہ واپس لائیں ورنہ وہ انھیں گرفتار کر لیں گے۔
بعد میں انھوں نے داؤد فیملی سمیت کئی خاندانوں کی املاک کو قومی تحویل میں لے لیا، یعنی انھیں نیشنلائز کر دیا۔
عثمان باٹلی والا کے مطابق ان بائیس خاندانوں میں سے 14 میمن گھرانے تھے اور داؤد فیملی دوسرے نمبر پر تھی۔ اس عرصے میں سیٹھ داؤد کو نظر بند کر دیا گیا اور جب وہ رہا ہوئے تو امریکہ چلے گئے۔ خیال ہے کہ اس وقت انھیں ’دو ارب روپے کا نقصان‘ ہوا تھا۔
احمد داؤد نے امریکہ میں آئل ایکسپلوریشن کمپنی کے ساتھ کاروبار کا آغاز کیا اور ایک جگہ ڈریلنگ کی تو وہاں سے پیٹرول نکل آیا اور ان کے اچھے دن دوبارہ آگئے جب پاکستان میں جنرل ضیا الحق بھٹو کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قابض ہوگئے۔
اس دور میں احمد داؤد واپس پاکستان آگئے اور ان کی صنعتوں اور سرمایہ کاری کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔ خیال ہے کہ ان کے جنرل ضیا الحق کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔
عثمان باٹلی والا کے مطابق ان کے 20 ایسے منصوبے تھے جو انھوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بھائیوں سلیمان داؤد، علی محمد داؤد، صدیق داؤد اور ستار داؤد میں تقیسم کیے اور ہر ایک کے حصے میں صنعتیں آئیں جن کو انھوں نے آگے بڑھایا۔
داؤد فیملی کے اہم عہدیدار
داؤد فاونڈیشن کے سربراہ اس وقت احمد داؤد کے بیٹے حسین داؤد ہیں۔
پاکستان میں داؤد خاندان کا ایک اور معروف نام رزاق داؤد ہیں جو سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں مشیر تجارت رہے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وزارت تجارت کا قلمدان ان کے پاس تھا۔
رزاق داؤد سلیمان داؤد کے بیٹے ہیں جو احمد داؤد کے بھائی تھے۔ رزاق داؤد ڈسکن انجیئنرنگ کمپنی کے مالک ہیں۔
دوسری جانب شہزادہ داؤد کے والد حسین داؤد اور ان کا خاندان اینگرو کارپوریشن اور داؤد ہرکولیس کارپوریشن کے مالک ہیں۔
ٹائٹن حادثے میں ہلاک ہونے والے شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔
اینگرو اور داؤد ہر کولیس کارپوریشن
کاروباری اداروں کی کارکردگی اور ان کی ریٹنگ پر کام کرنے والے ادارے پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی (پاکرا) کے جائزے کے مطابق اینگرو کارپوریشن کی بنیاد 1965 میں رکھی گئی تاہم اس وقت اس کا نام ایسو پاکستان فرٹیلائزر کمپنی تھا جو ماڑی گیس فیلڈ کی دریافت پر قائم کی گئی تھی۔
غیر ملکی شراکت داروں کے نکلنے کے بعد اس کا نام اینگرو کیمیکل کر دیا گیا جو فرٹیلائزر کے شعبے میں کام کر رہی تھی اور دوسرے شعبوں میں داخل ہونے کے بعد اس کا نام اینگرو کارپویشن رکھ دیا گیا جس کے تحت دس سے زائد کمپنیاں کام کرتی ہیں۔
اینگرو کارپوریشن پاکستان سٹاک مارکیٹ پر لسٹڈ کمپنی ہے جس میں اکثریتی حصص داؤد فیملی کے اداروں اور افراد کے ہیں۔ شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین تھے جبکہ ان کے والد حسین داؤد اس کے چیئرمین ہیں۔ شہزادہ داؤد کے بھائی صمد داؤد اس کے ڈائریکٹر ہیں۔
حسین داؤد اور ان کے خاندان کی دوسری بڑی کمپنی داؤد ہر کولیس کارپوریشن ہے جو اینگرو کارپوریشن میں بھی حصص رکھتی ہے۔
داؤد ہرکولیس کارپوریشن کے چیئرمین حسین داؤد ہیں جبکہ ان کے بیٹے حسین داؤد اس کے وائس چیئرمین ہیں اور شہزادہ داؤد اس کے ڈائریکٹر تھے۔
اگرچہ حسین داؤد اور ان کے خاندان کی ملکیتی اینگرو کارپوریشن اور داؤد ہر کولیس کارپوریشن سٹاک مارکیٹ پر لسٹڈ کمپنیاں ہیں جس میں عام عوام کے علاوہ اداروں کے بھی حصص ہیں تاہم ان کے اکثریتی حصص داؤد فیملی کے پاس ہی ہیں۔
پاکرا کے مطابق اینگرو کارپوریشن کے بورڈ میں سپانسرنگ فیملی یعنی داؤد خاندان کے افراد غالب ہیں۔
پاکستان میں داؤد خاندان کی کمپنیاں اور اثاثے
حسین داؤد اور ان کے بچے داؤد ہرکولیس کارپوریشن اور اینگرو کارپوریشن میں اکثریتی حصص مالک ہیں۔ یہ دونوں کارپوریشن معیشت کے مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔
داؤد ہر کولیس گروپ کی سالانہ رپورٹ ک مطابق یہ گروپ اپنی مختلف ایسوسی ایٹ کمپنیوں اور ذیلی اداروں کے ذریعے سرمایہ کاری کرتا ہے۔ جیسے اینگرو فرٹیلائرز میں اینگرو کارپویشن کے 56 فیصد حصص ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2022 سے لے کر اب تک یہ گروپ توانائی، فوڈ اینڈ ایگری کلچر، پیٹرو کیمیکل، کیمیکل سٹوریج، قابل تجدید توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل شعبوں میں سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔
’اینگرو ایگزمپ ایگری‘ میں کارپویشن سو فیصد حصص کی مالک ہے۔ اینگرو انرجی ٹرمینل میں اس کے 56 فیصد حصص ہیں جبکہ اینگرو انرجی لمٹیڈ میں یہ سو فیصد حصص کی مالک ہے جس کے تحت اینگرو پاور جن قادر پور اور اینگرو پاور جن تھر پاور پلانٹس ہیں۔
جبکہ سندھ حکومت کی اینگرو کول مائئگ کمپنی میں حسین داؤد کے خاندان کی ملکیت اینگرو کارپوریشن گیارہ فیصد حصص کی مالک ہے۔ کمپنی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اسی طرح کیمیکل کے شعبے میں اینگرو پولیمر اینڈ کیمیکل میں کارپوریشن 56 فیصد حصص کی مالک ہے۔
اینگرو کارپوریشن کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق یہ مجموعی طور پر تقریباً 750 ارب روپے کے اثاثوں کی مالک ہے۔
اینگرو کارپویشن کے 2022 کے سالانہ مالیاتی گوشواروں کے مطابق اس نے پورے سال میں 46 ارب روپے کا منافع کمایا۔ داؤد ہر کولیس کارپوریشن کے سالانہ مالیاتی نتائج کے مطابق اس کا 2022 میں منافع ساڑھے تین ارب روپے سے زائد رہا۔
سالانہ رپورٹ کے مطابق داؤد ہرکولیس کارپوریشن مختلف شعبوں میں دو ہزار سے زائد افراد کو ملازمت دی رہی ہے جبکہ دوسری جانب اینگرو کارپویشن کی مختلف کمپنیوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زائد ہے۔
اینگرو کارپوریشن کے مطابق اس نے سنہ 2022 میں سماجی شعبے میں 84 کروڑ روپے خرچ کیے جن میں صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر، ماحولیات کی بہتری وغیرہ شامل ہیں۔
کارپوریشن کے مطابق اس نے حکومت کو ٹیکس کی مد میں 2022 میں ساڑھے 29 کروڑ ڈالر جمع کرائے جبکہ اس کی ذیلی کمپنی اینگرو انرجی نے ملک کے نوے لاکھ افراد کے گھر میں توانائی کی ضرورت پوری کی۔
پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے مطابق داؤد گروپ کے ملکیتی ادارے اینگرو کارپویشن کی کارکردگی مسلسل بہتر رہی ہے۔ اس کی لانگ ٹرم کارکردگی پلس اے اے ہے اور اس کا آؤٹ لُک (مجموعی حالت) مستحکم ہے۔
داؤد خاندان کی تعلیم، سائنس اور صحت کے شعبوں میں خدمات
پاکستان میں 1961 میں داؤد فاؤنڈیشن قائم کی گئی جس کا افتتاح جنرل ایوب خان نے کیا تھا۔ داؤد فیملی نے تعلیم کے فروغ پر توجہ دی۔
فاونڈیشن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیٹھ احمد خان نے بتایا تھا کہ مشرقی پاکستان کے شہر میسور میں انھوں نے سکول کی عمارت قائم کی ہے، اس کے ساتھ بورے والا میں گورنمنٹ کالج میں سائنس بلڈنگ کی تعمیر کرائی گئی اور کراچی کے دیہی علاقے درسانو چھنو میں سکول تعمیر کیا گیا۔
داؤد فاونڈیشن نے 1962 میں کراچی میں داؤد کالج آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی قائم کیا جو پاکستان کے نجی شعبے میں انجینیئرنگ کی تعلیم فراہم کرنے والا پہلا پروفیشنل کالج تھا۔ یہاں کیمیکل انجینیئرنگ، میٹالرجی اور میٹریلز انجینیئرنگ کے شعبوں میں تعلیم دی جاتی تھی۔
بعد میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت میں اس کو نیشنلائز کر دیا گیا اور اس کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس آگیا۔
کراچی میں 1983 کے دوران احمد داؤد گرلز پبلک سکول کی بنیاد رکھی جو اس وقت بھی فاونڈیشن کے زیر انتظام ہے جہاں 2500 سے زیادہ لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ لمس لاہور، کراچی یونیورسٹی میں بھی داؤد فیملی کے نام سے بزنس سکول موجود ہیں۔
کراچی میں 1991 سے قائم پاکستان میں گردوں کے سب سے بڑے ہسپتال انسٹیٹوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ یعنی ایس آئی یو ٹی میں بھی داؤد فیملی کا بڑا کردار ہے۔
ایس آئی یو ٹی کے ڈاکٹر گوہر کے مطابق بشیر داؤد انھیں اربوں روپے کے عطیات کر چکے ہیں جن سے تین بڑی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ یہاں بچوں اور کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈائلاسز اور ٹرانسپلانٹ کی مشنری کی خریداری میں بھی معاونت کی جاتی ہے۔
سائنس کے فروغ کے لیے کراچی میں اپنی نوعیت کا پہلا سائنس میوزیم قائم کیا گیا۔ میگنیفائی سائنس نامی اس میوزیم میں سائنس کی نمائشیں اور تعلیمی پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔
ریلوے کے گودام کو تین منزلہ سائنسی میوزیم میں تبدیل کیا گیا ہے جہاں سائنس، فزکس اور ریاضی کی تھوریز کے حوالے سے تجربات اور مشقیں کی جاتی ہیں۔
داؤد فاونڈیشن نے کراچی میں پبلک سپیس کے فروغ کے لیے ٹی ڈی ایف گھر بنایا۔ 1930 میں تعمیر کیے گئے اس گھر میں کراچی کی تاریخ اور پرانی یادوں سے وابستہ فرنیچر، گراموں فون سمیت دیگر اشیا موجود ہیں اور یہاں سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے مزار کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
ٹی ڈی ایف گھر کراچی میں متوسط طبقے کے لیے بنائی گئی پہلی کوآپریٹو سوسائٹی جمشید کواٹرز میں واقع ہے جو کراچی کی ثقافتی تاریخ کا اہم حصہ رہی ہے۔
اس سوسائٹی کی بنیاد 1920 میں جمشید نسروانجی نے رکھی تھی اور یہاں مسلمان، ہندو، مسیحی، پارسی اور یہودی ساتھ ساتھ رہتے تھے۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when The Post Review posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to The Post Review:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share