Writereeshanoor

  • Home
  • Writereeshanoor

Writereeshanoor Novel negaro or stories parhne walo kay liye behtreen page
(2)

محبت ریت کی مانندآخری قسطحصہ دوماز قلم ایشانور(ام احمد)ہ ہ ہ ہ ہ ہسیبال "وہ اس کے بلکل قریب تھا ۔۔شاید وہ بیڈ پر بیٹھ چک...
19/02/2024

محبت ریت کی مانند

آخری قسط

حصہ دوم

از قلم ایشانور

(ام احمد)

ہ ہ ہ ہ ہ ہ

سیبال "

وہ اس کے بلکل قریب تھا ۔۔

شاید وہ بیڈ پر بیٹھ چکا

تھا

اس کا بس نہیں چل رہا

تھا وہ کان بند کر دے اسے

کچھ سنائی نہ دے لیکن

جو سنائی دینا ہوتا ہے

وہ سننا پڑتا ہے ۔۔

" میری بات تحمل سے

سننا اور مجھے سمجھنا "

مطلب وہ سب سچ تھا ۔۔

اس کی سوچوں نے جملہ

مکمل کیا ۔۔" بس اب

ہم تھک چکے ہیں وعدہ

کرو تم یہاں سے نہیں

جائو گی ۔"

لیکن اس نے تو چپ کا روزہ

رکھ لیا تھا ۔۔

زہرہ کے جڑے ہاتھ طالب

کی بے بسی ۔۔

" کچھ کہو گی نہیں ۔۔"

اس نے گھونگھٹ نہیں اٹھایا

تھا اس نے آنکھیں کھولی

وہ تو۔ اس کی طرف

دیکھ بھی نہیں رہا تھا ۔۔۔

اس نے نظریں جھکائی

ہوئی تھی ۔۔

وہ قصوروار تھا ۔۔؟؟

" مجھے تمہیں منہ دکھائی

میں کچھ دینا ہے "

وہ چپ تھی ۔۔( وہ تو سب

دیتے ہیں)

" مجھے امید ہے تم اسے

قبول کرو گی ۔۔جیسے

مجھے کیا ۔۔"

( کیا مطلب تھا اس کا )

معیز نے اس کے ہاتھ اپنے

ہاتھ میں لے لیے

اس نے نظریں جھکا لی ۔۔

اس کے ہاتھ تو کانپ رہے

تھے ۔۔

لیکن یہ کیا اگلے پلے ہاتھ

چھوڑ دیے ۔" سیبال یہ

میری بیٹی ہے ۔۔"

اس نے ایک دم سے گھونگھٹ

پیچھے گرا دیا گھونگھٹ کیا

اٹھا سر پہ دوپٹہ تک نہ تھا

وہ اس چھوٹی سی بچی

کو دیکھنے لگی ۔۔۔

وہ اس کی آنکھیں دیکھ

رہی تھی

وہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑی

ہوگئی ۔۔۔

گویا سکتے میں آگئی

" سیبال " وہ اس کے قریب

آریا تھا

اس نے ہاتھ آگے کیا ۔۔

اسے آگے آنے سے روکا

لیکن۔ الفاظ دم توڑ چکے تھے

اس نے بچی کو اٹھایا

دروازے کی طرف جانے لگے

وہ صوفے پہ ڈھے جانے والے

انداز میں بیٹھ گئی جیسے

پیروں نے چلنے سے جواب

دے دیا ہو ۔۔وہ صوفے پہ

سکتے کے عالم میں بیٹھ گئی

۔۔دوپٹہ پیچھے لڑھک گیا

بھاری دوپٹہ اس کی گویا

گردن توڑ رہا تھا ۔۔

سکتہ تب ٹوٹا جب کوئی

اس کے قدموں میں آن

بیٹھا ۔۔

اس نے سر اس کی گود میں

رکھ لیا ۔۔

کمرے میں سکوت چھایا تھا

۔۔گھڑیال کی ٹک ٹک کے

سوا کوئی آواز نہ تھی ۔۔

اسے وحشت ہونے لگی گھٹن

بڑھنے لگی ۔۔

" زریش ہمارا کور تھی وہ

ہمارے

مشن کا حصہ تھی ۔۔یا یوں

کہہ دو ہم نے اسے

استعمال کیا ۔۔اس کے

جذبات سے کھیلا ۔۔"

اسے کچھ سمجھ نہ آیا ۔۔

( تھی کا کیا مطلب ہے

وہ لڑکی تو موجود ہے ۔۔)

" اس کا شوہر میرا ہم

شکل تھا ۔

اسی لیے مجھے چنا گیا

۔۔تاکے میں وہی بن کر وہاں

جائوں ۔۔" وہ اب شروع سے

اسے بتانے لگا ۔۔

وہ خاموشی سے سن رہی تھی ۔۔

جب جب وہ اپنی اور زریش کی نزدیک ہونے کی بات کرتا اس کا خون کھولنے لگتا ۔۔
...

وہ پریشان تھا ۔۔سیبال کو

سب کچھ کیسے بتائے ۔۔۔

لیکن کہیں نہ کہیں سے شروع

کرنا تھا ۔۔اس نے شروعات

اپنی اور زریش کی بیٹی

سے کی ۔۔

وہ اس چھوٹی سے گڑیا

کو اٹھائے کمرے میں

داخل ہوا ۔۔

جیسے کوئی مجرم کمرہ

عدالت میں داخل ہوتا ہے

نجانے کیوں اسے لگا

وہ سیبال کا گنہگار ہے

۔۔۔وہ ہر سزا کے لیے تیار

تھا ۔۔

کمرے میں دبیز قالین نے

اس کا استقبال کیا

ہر طرف گلاب اور موتیے

کی خوشبو پھیلی تھی ۔۔

وہ سامنے پھولوں سے

سجی سیج پر اپنی

میکسی کے گھیر میں ایک خوبصورت تتلی لگ رہی تھی ۔۔

پھولوں کے گلدستے پر

بیٹھی ایک خوبصورت تتلی ۔۔

بچی کو گود میں اٹھائے

۔۔وہ اس کی جانب چل دیا

( یہ غلط ہے معیز کم

سے کم آج کے دن یہ سب

سیبال کے ساتھ نہیں ہونا

چاہیے ۔۔) لیکن وہ فیصلہ کر

آیا تھا اسے اپنی شروعات

جھوٹ پر نہیں کرنی تھی ۔۔۔

وہ اس خوبصورت مورت کے

قریب آیا ۔۔پھولوں کی

خوشبو اور مدھم سی روشنی

اسے محسور کر رہی تھی ۔۔

لیکن اس نے اپنے جذبات

کو ایک طرف رکھ کر

اپنے آپ کو سیبال کی

عدالت میں پیش کر رہا

تھا ۔۔

اس کے پہلے جملے پر ہی

جو شدید ردعمل آیا وہ

اس کی سوچ سے برعکس

تھا ۔۔۔

سیبال کی حالت دیکھ کر وہ

رک نہ سکا ۔۔

دوپٹہ ڈھلنے پر وہ خوبصورت

مورت اور زیادہ حسین لگ

رہی تھی ۔۔

لیکن اس کے چہرہ میک اپ

کے باوجود زرد پڑ گیا

وہ کانپ رہی تھی ۔۔

اسے اب تھامنے کا وقت

تھا کچھ بھی ہو جائے

وہ سیبال کو جانے نہیں

دے سکتا تھا ۔

وہ واپس پلٹا۔اسے بیڈ

خالی نظر ایا

دل دھک سے بند ہوا

۔۔اگلے ہی پل وہ اسے

صوفے پہ بیٹھی نظر آگئی ۔

۔

ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل

گئی

اس نے خاموشی سے جا

کر اس کی گود میں سر

رکھ دیا ۔۔

لیکن۔ وہ تو مجسم تھی ۔۔۔

اسے اپنی داستاں سنانی

تھی ۔۔

۔۔۔۔

رائمہ دلہن بنی اپنے کمرے

میں صہیب کی بجائے

مبین کا انتظار کر رہی

تھی ۔۔

وہ آہستہ آ کر اسے کے

قریب بیٹھا

" ہم دونوں ایک دوسرے

کے بارے میں جانتے ہیں ۔۔"

" جی "

وہ اب کیا کہتی ۔۔

" میں نے میشا کو بہت

چاہا اسے سمجھایا ۔۔

ہمارا رشتہ ارینج تھا ۔۔لیکن

اب وہ محبت میں بدل

چکا تھا ۔۔"

( وہاں جا۔ کر صہیب کا

راگ نہ الاپنے بیٹھ جانا

عورت برادشت کر لیتی

ہے لیکن۔ مرد کا دل اتنا

بڑا نہیں ہوتا ۔۔)

اسے اپنی ماں کی نصیحت

یاد آنے لگی ۔۔

" آپ نے بھی صہیب کو

بہت چاہا ۔۔۔لیکن کیا کیا

ان بہن بھائی نے ہمارے

ساتھ ۔۔"

( اسے تو سب پتا ہے ۔۔)!

" وہ آیا تھا میرے پاس

۔۔لیکن اب اس کی کوئی

گنجائش نہیں میرے دل

میں میں نے دل سے آپ

کو قبول کیا ہے ۔۔"

" ایسا ہوسکتا ہے ۔۔"

" جی ہوسکتا ہے دل

سے اترے لوگوں کی دل

میں کوئی جگہ نہیں ہوتی "

سامنے سے خاموشی چھائی

رہی

" محبت واقعی ریت کی

مانند ہوتی ہے۔ مٹھی کتنی

بھی بند کرو رہتا ہاتھ

خالی ہی رہ جاتا ہے "

اس نے اپنا ہاتھ اس کے

ہاتھ پہ رکھ دیا ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

" سیبال پتا ہے وہ لڑکی کون

ہے ؟؟۔۔"

اس نے اپنی داستاں سنا کہ

سیبال کی جانب دیکھا ۔۔

اس کی گردن ایک طرف

لڑھک چکی تھی ۔۔سیبال

سیبال ۔۔

اس نے ایک دم سے ۔

موبائل نکالا اور کمرے سے

باہر بھاگا ۔۔

" امی ابو ۔سیبال کو

کچھ ہوگیا ہے ۔۔"

ایمبولنس آئی اس بے

جان سی دلہن کو اٹھا

کہ ایمبولنس میں ڈالا گیا ۔۔

اسے ہاسپیٹل پہنچایا گیا ۔۔

ہاسپیٹل پہنچتے ہی اسے

ایمرجنسی میں لے جایا گیا ۔۔

" کیا ہوا سیبال کو "

طالب کی پوری فیملی

ہاسپیٹل پہنچ چکی تھی ۔۔

" کیا کیا تم نے میری

بیٹی کو ۔" وہ گردن

جھکائے خاموش کھڑا

تھا ۔۔" کیا ہوگیا

سیبال کو ۔۔"

زہرہ کی حالت خراب

ہو رہی تھی سب پریشان

کھڑے تھے ۔۔

ایمرجنسی میں سب ڈاکٹرز

سیبال پر جھکے تھے ۔۔۔

ایک ڈاکٹر باہر آیا ۔۔

" کیا ہوا ہے بچی کو ۔۔"

" برین ہیمرج"

" کیا وہ ٹھیک ہو جائے

گی ۔۔"

جالب ڈاکٹر کی طرف دیکھ

رہا تھا ۔۔

" اللہ سے امید رکھیں

ہم کوشش کر رہیں ہیں ۔۔"

زہرہ کو واپس گھر بھیج

دیا گیا ۔۔

سب باری باری معیز سے

سوال پوچھ رہے تھے ۔۔

( وہ اتنی نازک دل نکلی

۔۔پوری بات تو سن لیتی ۔)

چار لوگ ہاسپیٹل میں رکے

باقی سب کو گھر بھیج

دیا گیا ۔۔

گھر میں گویا جیسے صف

ماتم بچھ گیا ہو ۔۔

سب نے مصلے بچھا کہ

دعائیں مانگنا شروع کر

دی ۔۔

زہرہ کی بلیڈ پریشر ہائی

اور لو ہو رہا تھا ۔۔

" نظر لگ گئی حاسدو

کی ۔۔ہمارے گھر کو ۔۔"

حمیرا بھی زہرہ کہ پاس

بیٹھی تھی ۔۔" دونوں

بہت خوش تھے ۔"

" نہیں میری بیٹی خوش

نہیں تھی ۔۔"

حمیر نے حیرت سے اس کی

جانب دیکھا ۔۔

" لیکن "

" ہاں نہیں تھی وہ خوش

تمہارا بیٹا کسی اور لڑکی کے پیچھے پڑا تھا ۔۔نہیں تھی

وہ خوش زبردستی رخصت

کیا بیٹی کو ۔۔"

" آپ نے بتایا کیوں نہیں

۔۔اور وہ لڑکی وہ تو طیب

کی۔۔۔۔"

" نہیں ہے کوئی واسطہ

اب اس لڑکی سے ہمارا ۔۔"

وہ مسلسل روئے جا رہی تھی ۔۔

" لیکن زہرہ وہ تو بہن

سمجھتا ہے اسے ۔۔"

اب اچنبھے میں آنے کی باری

زہرہ کی تھی ۔۔

" بہن کس کو بیوقوف بنا

رہے ؤہ بچی وہ لڑکی بس

کر دو حمیرا آپ لوگوں

کا کوئی قصور نہیں ہم ہی

مجرم ہے ۔۔"

ہ ہ ہ ہ ہ ہ

بار بار وہ کمرے کی جانب

جاتا

نلکیوں میں جکڑی سیبال

کو دیکھتا

واپس پلٹ کر کرسی پر

بیٹھ جاتا

ڈاکٹر۔ آتے جاتے

امید اور دلاسے دے جاتے

پوری رات آنکھوں میں

سانس روکے گزری ۔۔

" معیز "

وہ جو گھٹنوں پر سر دیے

مصلے پر بیٹھا تھا ۔

۔سر اٹھایا ۔۔

" سیبال " ہاں یہ آواز

سیبال کی تھی وہ اسے

بلا رہی تھی ۔۔

فجر کی آذان کا وقت ہوا ۔۔۔

وہ ایمرجنسی کے کمرے

کی طرف گیا

ایمرجنسی میں بھگدڑ مچ گئی ۔

وہ باوضو ہو کر خدا سے

اپنی محبت کی بھیک

مانگ رہا تھا ۔۔وہ بھی

اسی جانب گیا ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد سارے ڈاکٹر

آئی سی یو سے باہر نکلے ۔۔

" سوری ہم اسے نہیں

بچا سکے ۔۔"

معیز جہاں کھڑا تھا ۔

۔دو قدم پیچھے لڑھک گیا

۔۔۔اس کی دنیا اندھیر ہوگئی ۔

ﻣﺤﺒﺖ ﺭﯾﺖ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﮭﯽ،

ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﺗﮭﯽ،

ﮐﮧ

ﻣﺤﺒﺖ ﮈﮬﯿﺮ ﺳﺎﺭﯼ ﺗﮭﯽ ۔ ۔ ۔

ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮭﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ

ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﻮﮞ گی

ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﻟﻮﮞ گی،

ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮭﻮﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻭﮞ گی،

ﻣﮕﺮ

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﮈﺭ ﺳﮯ،

ﻣﺤﺒﺖ ﮨﯽ ﻧﮧ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺋﮯ

ﯾﮧ ﻣﭩﮭﯿﺎﮞ ﺑﻨﺪ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯿﮟ

ﻣﮕﺮ

ﺟﺐﻣﭩﮭﯿﺎﮞ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ

ﺗﻮﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺧﺎﻟﯽ ﺗﮭﮯ

ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍﻟﯽ ﺗﮭﮯ

ﮐﯿﻮﻧﮑﮧﻣﺤﺒﺖ ﺭﯾﺖ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﮭﯽ

ہ ہ ہ ہ

ختم شد

19/02/2024

محبت ریت کی مانند

قسط نمبر 100

از قلم ایشانور۔

(ام احمد)

گھر میں شادی کی تیاری

عروج پر تھی ۔۔

زاہد کے گھر کے سوا پورا

خاندان شامل تھا ۔۔

زاہد کو کافی منایا گیا ۔

۔لیکن اس کا غصہ ان پر

حاوی تھا ۔۔۔

" امی آپ نے ایک بات

نوٹ کی ہے ۔۔"

حمیرا کام میں لگی تھی ۔

" کونسی بات سو باتیں

ہے ۔۔"

" معیز بھائی اس لڑکی

کی کافی پرواہ کر رہا ہے " ۔

حمیرا نے زیادہ غور سے

اس کی بات نہ سنی ۔۔

" میں نے بھائی کو منع

کیا ہے لیکن۔ وہ پھر بھی

۔۔اس لڑکی کی کافی کئیر

کر رہا ہے ۔۔"

" کونسی لڑکی ۔۔؟؟"

حمیرا نے جان چھڑانے کے

لیے پوچھ ہی لیا ۔۔

" طیب کی منگیتر ۔۔"

اب کی بار حمیرا کو بھی

اچھا خاصا جھٹکا لگا ۔۔

ہ ہ ہ ہ

" بھائی آپ اس بچی

اور اس عورت کی اتنی

پرواہ کیوں کر رہے ہو ۔۔"

"۔ یہ وقت ان باتوں کا

نہیں ہے ۔۔گھر میں بہت

کام ہیں ۔۔شادی والا گھر

ہے ۔۔"

یہ بات ان سے گھر کے

کافی لوگ کہہ چکے تھے ۔

" لیکن بھائی لوگ الٹا

مطلب نکال رہے ہیں ۔۔"

اس نے مسکرا کر مبین

کے شانے پہ ہاتھ رکھا

جس کو جو سمجھنا

ہے سمجھنے دیں مجھے

کسی کی پرواہ نہیں ۔" ۔

" اور بھابھی کی ۔۔" ۔

وہ بنا جواب دیے پلٹ گیا

ہ ہ ہ ہ ہ

بات اڑتی اڑتی سیبال تک

پہنچ چکی تھی ۔۔

معیز کا اس لڑکی سے

پرانا چکر ہے ۔۔وہ بچی

بھی اس لڑکی کی ہے ۔۔

" مجھ پر یقین نہیں ۔۔"

معیز بازو سرہانے کیے اس

سے ویڈیو کال پر بات

کر رہا تھا ۔۔

" نہیں ایسی بات نہیں

بس لوگ "

" دیکھو سیبال پرسوں

تمہاری رخصتی ہے یہ

وقت ان باتوں کا نہیں

ہم اپنی نئی زندگی کی

شروعات ایک اچھے

طریقے سے کرنا چاہتے

ہیں اسے خراب مت کرو ۔۔"

وہ خاموش تھی ۔۔

" شادی کی رات ہر

سوال کا جواب دوں گا

لہجے میں شرارت تھی "

سیبال نے شرما کہ کال

کٹ کر دی ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

سیبال پھر سے مایوں

بیٹھی زہرہ کا دل بات

بات پر ڈوب جاتا اب

یہ نئی خبر سے زہرہ کی

حالت غیر ہونے لگی

اس کی بیٹی تیسری بار

دلہن بنی بیٹھی تھی

۔۔کوئی کچھ بھی کہتا

وہ خاموش تھی ۔۔

کہیں کچھ کہنے سے بات

نہ بگڑ جائے ۔۔

" طیب تمہاری اپنی منگیتر

سے بات ہوئی ۔۔وہ معیز

کے آگے پیچھے کیوں گھوم

رہی ہے اور معیز اس کے

۔۔دیکھو طیب میں نہیں

چاہتی اس بار پھر سے

سیبال گھر ہی بیٹھی رہے۔ "

" امی ہم بھی اسی وجہ

سے چپ ہیں ورنہ میں

خود معیز بھائی ک گریبان

پکڑ کر پوچھتا یہ سب

کیا ہے ۔ " ۔زہرہ کا دل

گویا بند ہونے لگا ۔۔

" بس دعا کرو یہ دو دن

گزر جائیں ۔۔"

زہرہ کی پریشانی اور

زیادہ بڑھ گئی ۔جب پتا لگا

وہ اس لڑکی کو اپنے گھر

لے گیا ہے ۔

ہ ہ ہ ہ

" یہ کیا نیا قصہ شروع

ہوگیا ہے ۔۔"

حمنہ سے ابٹن لگا رہی

تھی ۔۔۔ہر طرف پیلا رنگ

پھیلا تھا ۔۔سیبال کی خوشی

مندھم پڑ گئی ۔۔

" کونسا قصہ ۔۔"

" جان کے انجان بن رہی

ہو ۔۔لوگ اتنی باتیں بنا

رہے ہیں ۔۔تم۔نے معیز سے

پوچھا " وہ الجھی الجھی

سی تھی ۔

" سیبال تمہارے لیے صہیب

ٹھیک تھا ۔۔"

" نہیں ایسی کوئی بات

نہیں ایسے ہی سب شک کر

رہے ہیں

۔وہ میرے بھائی کی منگیتر

ہے ۔"

سیبال معیز کا دفاع کرنے

لگی " واہ بھئی منگیتر

ایک کی آو بھگت آپ

کے شوہر کی سمجھ نہیں

آئی بات "

سیبال کو یہ بات نجانے کتنے

لوگ بتا چکے تھے وہ دلہن

بن کے جتنی خوش تھی

۔۔اس کی خوشی کو کسی

کی نظر لگ گئی ۔۔۔

صہیب کے فون آنا بھی

اب بند ہوچکے تھے ۔۔اس

کے موبائل کی رنگ بجنے

لگی ۔

" دیکھ لیا ہم سے بیوفائی

کا نتیجہ ہم نے رشتہ آپ

کی رضامندی سے جوڑا

تھا ۔اپ نے جو ہمارے ساتھ

کیا معیز نے وہی آپ کے

ساتھ کیا کشمیری سوتن

مبارک ہو ۔۔"

بنا جواب سنے سامنے سے

فون بند کر دیا گیا ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

ہاتھوں میں پھر مہندی

لگی زندگی پھر سے

ریشم کے دھاگے کی طرح

الجھ گئی تھی ۔۔

" سیبال نہیں اب میں

تمہاری نہیں مان سکتی

تمہاری رخصتی ہوگی اور

ولیمہ بھی اس لڑکی کا

اور معیز کا جو بھی

رشتہ ہو لیکن۔ ہم یہ

رشتہ نہیں توڑ سکتے کتنی

بار رخصت ہونے کے لیے

تیار ہوئی ہو ۔۔اب یہی تمہاری

قسمت ہے ۔۔"

زہرہ کچن میں کھڑی

مہمانوں کے لیے ناشتہ

تیار کروا رہی تھی

۔شام پانچ بجے سیبال

کی رخصتی تھی ۔۔

" امی لیکن ۔۔"

" سیبال ثابت قدم رہو

جس طرف ہوا کا رخ

دیکھتی ہو چل پڑتی ہو

۔اب ہماری بس ہوگئی ہو

اور خبردار جو تم گھر

چھوڑ کے گئی ۔۔"

ہ ہ ہ ہ ہ ہ

دو دن پہلے

" معیز اب کیا ہوگا

۔تم یہ کیا گل کھلا

کے آگئے ہو ۔۔" حمیرا

پریشانی سی ٹہلنے لگی ۔۔

مبین ماں کے پیچھے ہی

چل رہا تھا

" بیٹھ جائو آپ لوگ

۔۔یہ آگے پیچھے کیوں

گھوم رہے ہو ۔۔"

وہ کچھ دیر رکی کھڑکی

کا پردہ ہٹایا باہر کھڑے

مہمان جیسے اس کا منہ

چڑھا رہے تھے ۔۔

" تم ان لوگوں کو کچھ

دن کے لیے کہیں بھیج

دو ۔ایسا نہ ہو اس شادی

میں پھر سے کوئی مسئلہ

ہو جائے اور یہ سب سن

کر سیبال نہ مانی پھر ۔۔؟؟"

سفید سلوار قمیض پہنے

دراز قد معیز کچھ دنوں

میں ہی صحتمند نظر آنے

لگا ۔۔" نہیں امی یہ اس

گھر کا حصہ ہے اور یہ

یہی رہیں گی ۔۔سیبال

بھی آئے گی ۔۔"

" لیکن معیز ؟؟"

" جو ہوگا دیکھا جائے

گا "

ہ ہ ہ ہ ہ ہ

سیبال پھر سے آئینے کے

سامنے بیٹھی دلہن بن

رہی تھی ۔۔کسی کے۔ چہرے

پر خوشی نہ تھی لیکن سب

کچھ ہو رہا تھا وہ پھر

سے رخصت ہو رہی تھی

آج وہ پھر اداس تھی ۔۔

اسے خوشی کیوں راس

نہیں آتی ۔۔

آنسو بھی خشک ہو چکے

تھے ۔۔وہ بس اس لمحے

کے انتظار میں تھی جب

معیز اسے سب بتائے گا

وہ کیسے برداشت کر

پائے گی ۔۔کیا کوئی اور

قیامت اس پہ ٹوٹنے والی

ہے ۔۔۔

باہر لڑکیوں کا شور تھا

دلیے والے آگئے دولہے والے

آگئے ۔۔

" اوو آپی آپ تو

غضب ڈھا رہی ہو بھائی

تو آپ کو دیکھتے ہی

ہوش کھو بیٹھے گا ۔۔"

وہ چپ چاپ تانیہ کو

دیکھ رہی تھی جیسے

اس نے کسی اور زبان

میں کچھ کہا ہو اور وہ

سمجھ نہ پائی ہو ۔۔

" ارے مسکراہٹ تو لائو

۔۔بھائی بھی اتنے پیارے

لگ رہے ہیں ۔۔بس نظر نہ

لگے آپ کی جوڑی کو ۔۔"

" نظر ۔۔ہاں نظر ہی تو

لگ گئی ہے ۔۔"

تانیہ نے نا سمجھی میں

اسے دیکھا

سیبال کو باہر لایا گیا ۔۔

معیز تو واقعی عضب

ڈھا رہا تھا لیکن۔ ساتھ

وہ لڑکی وہ اسے کیا

سمجھے سوتن یا بھابھی ۔۔۔

وہ ابھی معیز کے ساتھ

تھی ۔۔

وہ بولنے کے لیے لب کھولنے

ہی لگی ۔۔

زہرہ نے نفی میں سر ہلا

کہ اسے روکا " سیبال

کوئی تماشہ نہیں جو

حساب کتاب کرنا ہے

رخصتی کے بعد کرنا "

سیبال کا صبر جواب

دے گیا ۔۔لیکں نظر

ماں کے بندھے ہاتھوں

پر پڑی ۔۔

وہ تڑپ کے رہ گئی ۔۔

اس انسان کی آنکھوں

میں تو زرا بھی لحاظ

نہ تھا ۔۔وہ لڑکی اب

بھی اس کی کانوں میں

کچھ کہہ رہی تھی ۔۔

وہ اس کے اتنے قریب

وہ سب دیکھ اور سہہ

رہی تھی ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

لائٹ پنک کا کلر کی پیروں

سے نیچے تک آتی برائیڈل

میکسی پورے بیڈ پر

پھیلی تھی وہ بت بنی اسے

سجی سیج پر بیٹھی

تھی ۔۔ہر طرف گلاب کے

پھولوں کی مہک تھی ۔۔۔

پورا کمرے نئے سرے

سجایا گیا تھا ۔۔

رنگ روغن فرنیچر ہر چیز

نئی تھی ۔۔وہ اس بیوفا کے

لیے سجی سنوری بیٹھی

یہی دعا مانگ رہی تھی

۔۔اس لڑکی اور بچی کا

اس سے کوئی تعلق نہ ہو ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

چند گھنٹے پیچھے

رائمہ کے قبول کہتے ہی

ہر طرف مبارک ہو کی

سدائیں بلند ہونے لگی ۔۔

پاس کھڑا ایک انسان اداس

تھا ۔۔وہ یہ سب منظر

دیکھ رہا تھا ۔۔

" آپ لوگوں نے اچھا کیا

آگئے بھلا کوئی خاندان

سے ایسے رشتے تھوڑی

توڑتا ہے ۔۔"

اس کی پھوپھو زارا نے

چند سیکنڈ تک کر ان کو

داد دی

پھر سے سب اپنے کام میں

مصروف

" یہ جگہ تو اس کی تھی "

رخصتی کا لمحہ آن پہنچا

دونوں بہن بھائی ان کو

دیکھ رہے تھے ۔۔ایک اس

سے محبت کرتی دوسرے

سے وہ محبت کرتی تھی ۔۔

ادھوری رہ گئی محبت

کی داستاں کیونکہ محبت

ریت جیسی ہے ۔۔

بھائی بہن نے ایک دوسرے

کو دیکھا ۔۔

ایک دوسرے کے ہمدرد بنے

کھڑے تھے ۔۔

خاموشی ویرانی اداسی

سب نے میشا کے گھر

ڈیرہ ڈال لیا تھا ادھوری

رہ گئی میشا اور رائمہ کی

محبت کی داستاں ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ ہ

دل زور سے دھڑکنے لگا

وہ لمحہ آن پہنچا تھا ۔۔

اس نے دوپٹہ ٹھیک کیا

گھونگھٹ نکال لیا ۔۔

وہ آرہا تھا ۔۔۔وہ قریب

آچکا تھا ۔۔

کوئی اور بھی تھا اس

کے ساتھ سیبال نے آنکھیں

بند کر دی نجانے اس پہ

کیا کچھ آشکار ۔ہونے والا

تھا

ہ ہ ہ ہ ہ

جاری ہے

محبت ریت کی مانندقسط نمبر 99از قلم ایشانور(ام احمد)" ماشاءاللہ لڑکی تو بہتپیاری ہے "" اور میں پیاری نہیںہوں "تانیہ منہ ب...
19/02/2024

محبت ریت کی مانند

قسط نمبر 99

از قلم ایشانور

(ام احمد)

" ماشاءاللہ لڑکی تو بہت

پیاری ہے "

" اور میں پیاری نہیں

ہوں "

تانیہ منہ بنا کر بولی ۔۔

" ارے توں تو میری

جان کا ٹوٹا ہے ۔۔زہرہ پہلے

لے گئی ۔۔ورنہ میں لے جاتی

تجھے ۔۔" تانیہ کے پر نکل

آئے تھے ۔۔

" یہ معیز کہاں رہ گیا ابھی مظفرآباد بھی جانا ہے ۔۔۔"

حمیرا کو اپنے دوسرے بیٹے

کی بھی تاریخ مقرر کرنی

تھی ۔۔اسے کچھ زیادہ ہی

جلدی تھی ۔۔

" وہ سیبال کو لے گیا

ہے شاپنگ کروانے " مبین

اور طیب ان کا لایا سامان

رکھنے لگے ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

" تیرا سسرال کچھ زیادہ

نہیں آرہا ۔۔" ۔ثانیہ اور

رانیہ کھانے کے لوازمات ٹ

رے میں نکال رہی تھی

۔۔ٹانیہ اسے تنگ کر رہی

تھی ۔۔

" اب تمہارے سسرال والے

تم سے تنگ ہیں تو بھئی

ہم کیا کریں ۔ہے نا " وہ

لڑکی سامنے کھڑی تھی ۔۔۔

سامنے کھڑی لڑکی نے بھی

گردن دھونی ۔۔

" ارے تم نے کب پارٹی

بدلی ۔۔۔"

ہ ہ ہ ہ ہ

" ابھی اور کتنی شاپنگ

کرنی ہے ۔۔"

" ابھی شروع کہاں کی

ہے "

اس نے ہاتھ میں اٹھائے

شاپنگ بیگز دیکھے ۔۔" تو

یہ سب کیا ہے ۔۔"

وہ بار بار اس کے سامنے

آرہا تھا ۔۔

" معیز اب تم میرے سامنے

نہیں آنا ۔۔"

وہ جانتی تھی وہ اسے کن

نظروں سے چھپا رہا ہے

۔یہ ۔وہی انسان تھا

اس کو کسی اور کے حوالے

کر رہا تھا کہاں کسی کا

دیکھنا تک گوارہ نہ تھا ۔۔

" سیبال چلیں باقی شاپنگ

واپسی پر کر لیں گے ۔۔۔"

لیکن وہ بھی ایک لڑکی تھی

ہاں ہاں کرتے کرتے ایک گھنٹہ

اور لے ہی لیا ۔۔

" یار آپ نے اتنی دیر کر

دی ۔۔پاکستان کی لڑکیاں

کافی مشکل ہوتی ہیں ۔کہاں

کش۔۔۔"

وہ کچھ کہتے رکا تھا ۔۔

" کیا کراچی والیاں بھی

پاکستان ہی کی لڑکیاں

ہیں ۔۔ویسے آپ کو ان کا

کیسے پتا ۔۔"

ہ ہ ہ ہ ہ

" کس کا پتا "

وہ جو شاپنگ بیگز گاڑی

کی پچھلی سیٹ پر رکھ

رہا تھا انجان بن کر پوچھا

وہ ماضی کے سب دریچے

بند کر کے سیبال کے پاس

لوٹا تھا ۔۔

"۔ ابھی جو کچھ کہہ رہے

تھے ۔۔چلو رہنے دو ۔۔جلدی

سے چل کر کچھ کھاتے ہیں

مجھے بہت زوروں کی بھوک

لگی ہے ۔۔"

وہ اس کی خوشی دیکھ

رہا تھا وہ بلکل بچپن والی

سیبال بن گئی تھی ۔۔

اس نے گاڑی ایک ریستوران

کے سامنے روکی ۔۔

وہ ٹیبل پر بیٹھے کھانے کا

انتظار کر رہے تھے ۔۔سیبال

کی ایک اور فرمائش درج

ہوگئی ۔

" کھانے کے بعد کسی جھولوں

والی پارک میں چلیں گے ۔۔"

وہ ان سب پارکوں کے نام

گنوانے لگی ۔۔۔

"اور امی والے ۔۔"

" معیز میں مظفرآباد نہیں

جانا چاہتی ۔۔"

آخر وہ اپنے اصل مفہوم کی

طرف پلٹی ۔۔

" مجھے صہیب سے ڈر لگنے

لگا ہے ۔۔وہ پاگل ہوگیا ہے ۔۔"

وہ اس کے چہرے کی جانب

دیکھ رہا تھا ۔۔

"کیوں ؟؟"

" پتا نہیں ۔۔لیکن میں کیا

کر سکتی ہوں ۔۔"

اس نے اپنا ہاتھ اس کے

ہاتھ پہ رکھا ۔۔

" کچھ نہیں ہوگا وقتی

پاگل پن ختم ہو جائے گا "

" اگر نا ہوا تو "

وہ اس کی آنکھوں میں

دیکھ رہی تھی ۔۔

" تمہیں اس کے بارے

میں ہی سوچنا ہے تو پھر

گھر چلیں ۔"

کچھ دیر پہلے جو چہک

رہی تھی ۔۔۔

اچانک سے مایوس نظر آئی ۔۔

" تمہیں کیا لگتا ہے تم نے

صہیب کے ساتھ غلط کیا

ہے "

ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے

وہ سامنے دیکھ رہا تھا ۔۔

" نہیں قسمت نے کیا ہے

۔۔میری قسمت اچھی تھی

اس کی بری ۔۔"'

اس کے چہرے پر پھر

سے مسکراہٹ آگئی ۔۔

" اچھا "

وہ بھی اسے دیکھ کہ

مسکرایا ۔۔

" چلیں پارک ؟؟" ۔اس

نے بھی بچوں کی طرح

گردن ہلائی ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ ہ

" میشا یہ ہمارے ساتھ

اچھا نہیں ہوا ۔۔"

اداس بیٹھی میشا نے

اپنے بھائی کی جانب دیکھا

" نجانے قسمت نے ہمارے

ساتھ ایسا مذاق کیوں کیا ۔۔"

" تم نے انکار کیوں کیا

۔۔تم نے میری وجہ سے ۔۔"

" میں نے آپ کی وجہ

سے کچھ نہیں کیا "

جھولا آہستہ آہستہ ہل رہا

تھا وہ سر گھنٹوں میں

دیے دھیمے لہجے میں گویا

ہوئی ۔۔

" ہمارے لہجے ایک دوسرے

کے لیے تلخ ہوچکے تھے

۔۔ہمارا ساتھ رہنا کوئی نیا

رشتہ جوڑنا ممکن نہ تھا "

اس نے سر اٹھا کر اپنے

بھائی کی جانب دیکھا

" لیکن۔ بھائی آپ نے رائمہ

کے ساتھ اچھا نہیں کیا

ابھی بھی وقت ہے ۔۔اس

واپس بلالو وہ اتنی دور

نہیں گئی ۔۔"

صہیب نے ٹھنڈی آہ بھری ۔۔

" وہ میرے پاس کب تھی ۔"

" وہ آپ سے بے پناہ

محبت کرتی تھی ۔۔اور اب

بھی کرتی ہے .."

صہیب اٹھا اس نے میشا

کہ سر پہ ہاتھ رکھا اور

باہر نکل گیا ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

" یہ بچی بہت پیاری ہے

۔۔کس کی بچی ہے یہ "

حمیرا نے چھوٹی دو سال

کی بچی کو گود میں

اٹھایا ہوا تھا

۔۔"زہرہ یہ کہیں اس کی

بچی تو نہیں ؟؟"

زہرہ ہنسنے لگی ۔" آپ

کی شک کی عادت نہیں

گئی ۔۔لڑکی چھوٹی عمر

کی لگ رہی ہے ۔۔میں نے

پوچھا تھا یہ اس کی

بھتیجی ہے ۔۔"

لیکن حمیرا کو کہاں یقین

آنا تھا ۔۔

" پھر بھی زہرہ کسی انجان

لڑکی پر کیسے اعتبار کر لیا "

زہرہ اس کی باتوں پر مسکرا

رہی تھی ۔۔

" یہ ایک سال سے یہاں ہے

۔۔بہت اچھی بچی ہے طیب

کو پسند ہے اور مجھے

بھی ۔۔"

" تمہاری مرضی پھر بھی

اپنوں میں دیکھ لیتی ۔۔"

حمیرا کی۔ نظریں اس لڑکی

پر گڑی تھی ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

وہ نظریں جھکائے ان کے

پاس چائے لے آئی تھی

وہ طیب کی چاچی اسے

کب سے گھور رہی تھی ۔۔

اور اسے اپنی جانب ٹٹولتی

نظریں تکلیف دے رہی تھی

۔۔نجانے کتنی بار ان نظروں

سے گزری ہر گزرتا لمحہ ۔۔

ہر نیا دن ایک نئی تکلیف

سے ابھرتا لوگوں کی باتیں

ہر چیز ڈر ڈر کہ اٹھانا ۔

۔کہیں کوئی چوری کا الزام

نہ لگا دے ۔۔

" کیا ہوا کیوٹ گرل ۔"

تانیہ نے پھر سے اس کے

گال کھینچ کہ رکھ دیے ۔

"" تانی کی بچی ۔۔تم نے

میرے گالوں کا کیا حشر

کیا ہے "

" بات مت گھمائو بتاؤ

کیا ہوا ہے ۔۔"

وہ اپنے داستان سنا سنا

کہ تھک۔ چکی تھی ۔۔

" کچھ نہیں چلو کھانا

لگاتے ہیں ۔۔"

ہ ہ ہ ہ

" سیبال لڑکیاں اتنی مشکل

ہوتی ہیں ۔۔"

وہ دونوں ہنستے ہوئے اندر

داخل ہوئے ۔۔

" جی نہیں میں تو بلکل

سادہ ہوں لڑکیاں بہت

مشکل ہوتی ہیں ۔۔"

زہرہ اور حمیرا انہیں خوش

دیکھ کر صدقے واری جا

رہی تھی ۔۔

" اتنی دیر کر دی اب ک

ل ہی نکلیں گے مظفرآباد "

" امی میں نہیں جا رہی ۔"

" واہ "

تانیہ تو گویا اچھل پڑی

سیبال سے لپٹ گئی ۔۔

" شرم کر پاگل لڑکی

تیرا سسرال ہے ہم "

سیبال نے تانیہ کے سر پہ

چپٹ لگائی ۔۔

" ارے واہ بھئی ساری

شرم ہمارے لیے اور آپ

جناب جو پوری شاپنگ

کر کے آگئی ہیں ۔۔"

وہ دونوں مذاق کرتی اندر

داخل ہوگئی ۔۔

وہ بھی اندر جانے لگا

جب صحن میں کھیلتی

چھوٹی بچی پر اس

کی نظر پڑی ۔۔وہ معصوم

چہرہ نیلی آنکھیں

۔۔دیکھتے ہی پیار آنے لگتا

جہاں تک اسے یاد تھا اس

گھر میں کوئی چھوٹا بچا

نہیں تھا ۔۔رانیہ کی رخصتی

سے پہلے طلاق ہو چکی

تھی ۔۔اور ثانیہ اور تانیہ

کی شادی ابھی فکس ہوئی

تھی ۔۔

"ہیلو بیبی ۔۔" وہ اسے

دیکھ کر آنکھیں ٹمٹما رہی

تھی ۔۔

" امی کہاں ہیں ۔۔"

" مر گئی ۔۔" " آوز

کانپ رہی تھی ۔۔

" یہ آواز یہ تو جانی

پہچانی ۔۔"

وہ ایک دم سے پلٹا ۔۔

اور وہی منجمد ہوگیا ۔۔۔

زبان اس کا ساتھ نہیں

دے رہی تھیں وہ جسے

پچھلے کئیں دونوں سے

ڈھونڈ رہا تھا ۔۔

" مر گئی"

وہ الفاظ کانوں میں گونج

رہے تھے ۔۔وہ پتھر کا بت

بنا ۔۔اسے دیکھ رہا تھا ۔۔

" تت۔۔تم "

ہ ہ ہ ہ

جاری ہے ۔۔۔۔

19/02/2024

محبت ریت کی مانند

قسط 98

از قلم ایشانور

(ام احمد)

ہ ہ ہ ہ

وہ دو ہفتے تک انہیں

تلاش کرتے رہے ۔۔لیکن

ان کا کچھ اتا پتا نہ چلا ۔۔

آخر کار معیز تھک ہار کر

واپس گجرنوالہ لوٹ گیا ۔۔۔

وہاں حالات ہی کچھ اور تھے

۔۔سب کافی اداس تھے پرانے

رشتے جوڑنے میں نئے رشتے

ٹوٹ گئے ۔۔۔

" یہ کیا پاگل پن ہے مبین

تم لوگ اپنا رشتہ ہماری وجہ

سے کیوں ختم کر رہے ہو ۔۔۔"

سامنے سے کوئی جواب نہ

آیا

" مبین ۔۔"

لیکن وہ رکا نہیں ۔۔

وہ شاید ان سے بات کرنے

آیا تھا ۔۔

الٹا ان سے سوال جواب ۔۔

بیرونی دروازے پر اسے سیبال

مل گئی ۔۔

" معیز آگیا ۔۔؟؟"

" جی "

وہ اندر جانے لگی ۔۔

" بھابھی "

اس نے کافی وقت کے

بعد اسے بھابھی کہا ۔۔

وہ بھی مسکرائی

" آپ لوگ لڑائی مت کرنا "

وہ بھی مسکرایا ۔۔

" وہ تو ہوگی ۔۔" ۔ایک

کاغذ تھامے وہ اندر چلی

گئی ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

اس نے نا وہ کاغذ کھولا

نہ پڑھا

(" نجانے اس میں کیا ہو

بہتر ہے مجھے ۔معیز کا

انتظار کرنا چاہیے ")

وہی ورق تھامے وہ اب

اس کے پاس پہنچی تھی ۔۔

پہلے کی نسبت وہ کافی

خوش تھی ۔۔

" کیا لکھا تھا اس میں"

وہ بیگ کھولے اپنا کپڑے

نکال کر الماری میں سیٹ

کر رہا تھا ۔۔

اس کی اچانک انٹری سے

وہ چونکا ضرور تھا ۔۔

" کسی کے کمرے میں

ایسے نہیں آتے " جواب

بنا پلٹے آیا ۔۔

" لیکن اپنے میں آسکت

ے ہیں ۔۔"

اب کی بار وہ اچنبھے

سے اس کی جانب دیکھتا

رہ گیا ۔۔

وہ اس کی جانب آریا تھا ۔۔

دل کی دھڑکن بے ترتیب

ہوئی ۔۔" تم نے واقعی نہیں

پڑھا ۔۔"

اس نے سر نفی میں ہلایا ۔

ہ ہ ہ ہ ہ

وہ مبین کے جانے کے بعد

ان دونوں کے بارے میں

سوچ رہا تھا ۔۔جب کسی

کی آواز پر وہ چونکا

کیونکہ اس کے آنے کی

توقع نہ تھی اسے ۔۔

اس نے پلٹ کر دیکھا ۔۔

اس نے ہلکے گلابی رنگ

کا جوڑا پہن رکھا تھا

۔۔دوپٹہ سر سے سرک چکا

تھا ۔۔۔انکھوں میں بھر بھر

کے کاجل لگایا گیا تھا ۔۔

ہونٹ بھی سرخی سے گلابی

لگ رہے تھے وہ نکھر گئی

تھی ۔۔۔اس کہ نہ ہونے کہ

باوجود ۔۔اسی بات پہ آکر

اس کے بڑھتے قدم رک

جاتے ۔۔۔

" کیا دیکھ رہے ہو سوال

کا جواب دو ۔۔"

وہ اب اس کے ہاتھ سے

اس کے کپڑے لے کر الماری

میں سیٹ کرنے لگی ۔۔"

کچھ نہیں تھا اس میں "

اس نے کاغذ لے کر ٹکڑے

ٹکڑے کر دیا ۔۔

ٹکڑے دراز میں رکھ دیے ۔۔"

تم یہاں کیا لینے آئی ہو "

لیکن وہ ڈھیٹ بن کر بیٹھ

گئی ۔۔

" میں اپنے گھر آئی ہوں

۔۔اپنے گھر بندہ کیا لینے

اتا ہے ۔۔۔"

وہ غصہ کرنا چاہتا تھا ۔۔

لیکن اس کی آنکھوں میں

اپنے لیے اپنائیت دیکھ

کر وہ خاموش رہا ۔۔

وہ اب اس کے بلکل مقابل

کھڑی تھی ۔۔

نجانے اگلے پل میں کیا ہوا

اس کی آنکھوں میں نمی

اتری ہوئی تھی ۔۔

اس نے کمرے کا دروازا بند

کیا ۔۔

" رہنے دیتے کوئی فرق نہیں

پڑتا ۔۔بس ایک بات بتا

دو ۔۔۔"

اس کی آواز کانپنے لگی ۔۔

( اسے کیا ہوگیا کچھ دیر

پہلے تو بڑی چہک رہی

تھی ۔۔۔) " اس کاغذ

میں کیا تھا ۔۔"

" کچھ نہیں تھا یار ۔۔"

" طلاق۔۔"

ہ ہ ہ ہ ہ ہ

" پاگل ہو کیا یار "

سیبال کا دل ڈوب کے

ابھرا ۔۔۔

" کچھ بھی سوچ لیتی

ہو ۔۔"

وہ اس کی جانب نہیں

دیکھ رہا تھا لیکن اس

کے لفظوں میں تو بس

پیار ہی تھا ۔۔۔اخر کیا چیز

اسے روک رہی تھی مبین

میشا کا رشتہ ۔۔؟؟

یا کوئی اور وجہ

" ہیلو میڈم ۔۔"

اس نے ہاتھ ہلایا وہ واپس

پلٹی ۔

۔" ہم دونوں اپنے آنا کہ

بت کیوں نہیں توڑ

دیتے ۔۔۔"

معیز نے گلاس اٹھایا

اور چھوڑ دیا ۔۔

وہ چھن سے ٹوٹ کے

بکھر گیا ۔۔

وہ اس کے اس عمل پہ

گویا اچھل گئی ۔۔" یہ

کیا کیا آپ نے ۔۔"

لیکن وہ تو ہنس رہا تھا ۔۔۔

اتنا زور سے ہنستے اس

نے نجانے کتنے سالوں

بعد معیز کو دیکھا تھا ۔۔۔

زندگی سے بھرپور ہنسی ۔۔

" آنا کا بت توڑ دیا ۔۔۔"

وہ اس کے قریب آیا اس

کی چہرے پہ آتی لٹیں

ہٹائی ۔۔۔وہ بھی اسے دیکھ

رہی تھی ایک پل سے

شرم سے نظریں جھکی ۔۔

دوسرے پل دروازا کھلا ۔۔

" معیز بیٹا ۔۔"

ان دونوں کا اتنا قریب

دیکھ کہ جالب مسکرایا "

غلط وقت پر آگیا ۔۔"

ان دونوں نے شرما کہ

نظریں جھکائی ۔۔" دروازا

بند کر دینا "

" وہ بابا ۔۔"

" کوئی بات نہیں بعد

میں بات کرتے ہیں "

سیبال شرم سے کچھ کہہ

بھی نہ پائی ۔۔

" تم بھی نہ موقع نہیں

دیکھتے ۔۔" وہ جانے لگی ۔"

سیبال اب نہیں "

اس نے اس کا ہاتھ تھام

لیا تھا ۔۔" تو ڈولی لے

آنا ۔۔"

" پھر کچھ ہوگیا تو۔۔"

"اللہ نہ کرے "

وہ ایک دم سے پلٹی اس

کہ منہ پہ ہاتھ رکھا ۔۔

" وہ معیز بابا ۔۔"

اب کی بار بخشو آیا تھا

وہ دونوں تھوڑا دور ہو

کہ ایک دوسرے کو دیکھ

کہ زور سے ہنسے ۔۔۔"

وہ بابا معاف کرنا ۔۔"

اب کی بار اس کا رکنا

محال ہو رہا تھا ۔۔وہ

دروازے کی طرف پلٹی "

کہاں جا رہی ہو ۔۔"

" گھر " وہ اب کچھ

فاصلے پہ کھڑی تھی

گویا کوئی اور نہ اجائے "

کچھ دیر رک جائو ۔۔"

وہ دروازے کی طرف

پیٹھ کر کہ کھڑی تھی

آہاں " دھوم۔دھام سے

لینے آئو گے تب "

" بس یار اب نہ جائو ۔۔"

وہ وہی کھڑا تھا ۔۔اپنے

لفظوں کی جال بن رہا تھا ۔۔۔

" جا رہی ہوں ہمیشہ

آنے کے لیے ۔۔"

" پکا بھاگ تو نہیں

جائو گی "

وہ اس کی طرف لپکا ۔۔

لیکن وہ دورزا کھول کہ

باہر نکل آئی اسے منہ

چڑھا کہ چلی گئی ۔۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

وہ ایک خوشگوار پل

چھوڑ کے کمرے سے

نکل گئی وہ بھی اس

پل میں جی رہا تھا

جیسے ہی دراز کھولا

چہرے سے مسکراہٹ غائب

ہوگئئ ۔۔" یہ کیا کر

رہا تھا میں۔ یہ تو

دھوکہ ہے ۔۔۔لیکن وہ تو ۔۔"

اس نے موبائل نکالا اور

حارث کو کال کی ۔۔۔"

حارث میں کیا کروں

۔۔زریش "

ہ ہ ہ ہ ہ

" زبیر بھائی آپ ان کی

باتیں بلکل نہ سنیں آپ

کی بھی تو بیٹی تھی

زاہد بھائی نے لی نہیں

نا پھر اب کیوں میرے

پیچھے پڑیں ہیں ۔۔اپ

مبین کو رشتہ دے دیں

لاکھوں میں ایک ہے لڑکا

۔۔۔پہلی منگنی بھی تو

نہیں چلی " ۔

زبیر کچھ دیر خاموش رہا

" لیکن۔ پھر زاہد بھائی ۔۔"

"آپ سوچ لیں اگر مجھے

یہی کہا ہے اگر میں رمشہ

کا انکار نہیں کروں گی

تو آپ رامیہ نہیں لیں گے ۔۔"

زارا کی آنکھیں بھر آئیں

تھی ۔۔

" نہیں نہیں میں ایسا

کیوں کروں گا آپ ٹھیک

کہتی ہیں وہ میری بیٹی

چھوڑ کر زہرہ کی بیاہی

بیٹی لینے چلے گئے میں

رائمہ سے پوچھ کر ان

کو جوب دیتا ہوں ۔۔"

" بھائی رائمہ سے میں

نے پوچھ لیا ہے اسے

کوئی اعتراض نہیں ۔۔"

وہ اپنی بیوی کی جانب

دیکھنے لگا

ہ ہ ہ ہ ہ ہ

" ایسے کیسے ہوسکتا ہے

۔۔۔زبیر اور ہادیہ ہمارے

ساتھ ایسا کیسے کر سکتے

ہیں ۔۔کچھ تو لحاظ رکھیں ۔"

رائمہ اور مبین کی بات کا

سن کر ان پر قیامت ٹوٹ

پڑی ۔۔

" جی بات پکی ہوچکی ہے

نکاح کروا رہے ہیں ۔۔اور

دونوں بیٹوں کا ولیمہ

ایک ساتھ ۔۔"

صہیب کچھ فاصلے پر

کھڑا سن رہا رہا تھا ۔

۔اس کا رخ اب اپنے چچا

کے گھر کی طرف تھا ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

'رائمہ تم نے ہاں کر دی "

" کیوں نہیں کرنی چاہیے

تھی ۔۔" وہ ناخن تراشتے

ہوئے ایک ادا سے گویا

ہوئی ۔۔۔

" وہ مجھ سے محبت

کے دعوے ۔۔"

" یک طرفہ محبت بڑی

تکلیف دہ ہوتی ہے ۔

۔۔میں نے آزاد کر دیا

دل کو اس محبت

سے بہتر ہوگا تم بھی

کر لو ۔۔"

" اگر میں تمہاری محبت

کو قبول کر لوں ۔۔" ۔

" اوو محبت یا معیز سے

نفرت اس کی سزا مبین

کو دینا چاہتے ہو ۔۔۔لیکن

معاف کرنا وقت گزر چکا

ہے۔۔اپ جا سکتے ہیں

مجھے اور بھی کام ہیں ۔۔"

وہ دیکھتا رہ گیا دونوں

ہاتھ خالی اور یہ سب۔

اس کے ساتھ جالب

کے گھر والے کر رہے تھے ۔۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ ہ

چار دن بعد

"سب تیاریاں ہوگئی ہیں "

حمیرا ہر چیز کا بغور جائزہ

لے رہی تھی ۔۔

" ارے زہرہ آپ کیوں چلی

آئیں مجھے بلا لیا ہوتا ۔۔"

دونوں مسکرا کر ملی ۔۔

" وہ معیز اور مبین کہاں

ہیں ۔۔چلنا تھا پنڈی اور

مظفرآباد بھی جانا ہے

اتنا لمبا سفر ہے ۔۔"

" اچھا بات ہوگئی ۔۔؟؟"

حمیرا بڑی فرصت سے زہرہ

کی بات سن رہی تھی ۔۔"

ہاں بس طیب کا باقاعدہ

رشتہ لینے جانا ہے منگنی

کی رسم معیز کے ولیمے

میں کر لیں گے ۔۔"

" ساتھ ہی کر لیتی آپ

کے بیٹوں کا ولیمہ کتنا

اچھا لگتا پانچ دولہے ایک

ساتھ "

" راضی تو میں۔ بھی

تھی لیکن سیبال نہیں

مانی اسے اپنے بھائیوں کی

شادی میں خوب ہنگامہ

کرنا ہے ۔ ۔۔"

" بس اب خیر سے اب

سیبال میرے گھر اجائے

ماشاءاللہ سے اب دونوں

بہت خوش ہیں ۔۔"

زہرہ نے بھی اس کی ہاں

میں ہاں ملائی ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ

" سیبال تم کیوں چل

رہی ہے ہو پنڈی یہاں

سب کچھ تو مل جاتا ہے

۔۔اور میں سوچ رہی ہوں

حمیرا کو بھی منع کردوں

نجانے دل میں عجیب سے

وسوسے آرہے ہیں ۔۔۔"

(وہ وسوسے بلاوجہ نہ تھے

سامنے ایک نیا انکشاف ان

کا منتظر تھا )

ہ ہ ہ ہ ہ ہ

جاری ہے

19/02/2024

محبت ریت کی مانند

قسط 97

از قلم ایشانور

( ام احمد)

ہ ہ ہ ہ ہ

خاندان میں سب کے رشتے۔

طے کر دیے گئے تھے ۔۔

سارا خاندان حشمت اور

حیدر نے جوڑ لیا تھا ۔۔

" سب کے رشتے طے ہوگئے

ہیں اب طیب کے لیے بھی

کوئی لڑکی دیکھ لو ۔۔"

ہادیہ زہرہ کا کچن میں

ہاتھ بٹاتے ہوئے گویا ہوئی ۔

" ہاں لیکن اس نے ایک لڑکی

دیکھ رکھی ہے ۔۔جب ہم تانیہ

کی بات پکی کرنے گئے تھے

وہاں ایک لڑکی تھی میں

نے پہلے تو کبھی نہیں

دیکھا اسے لیکن وہ بہت

خوبصورت تھی مجھے بھی

پسند آئی بس دادا حیدر سے

اس کے لیے بات کروں گی ۔۔"

زہرہ تو خیالوں خیالوں میں

رشتہ بھی کر چکی تھی ۔۔

" دیکھ زہرہ میری ایک

بیٹی ہے لیکن کیسی قسمت

آئی خاندان میں کوئی رشتہ

ہی نہیں آیا "

" دیکھ بھابھی تم نے ہی

صہیب کا انتظار کیا میں

نے تو کہا تھا طلحہ کہ

لیے لیکن آپ کی بیٹی

مانے تب نہ ایک بات کہوں

بھابھی برا نا مانے آپ نے

لڑکی کو آزادی بہت دے

دی ۔۔" بات زیادہ آگے

بڑھتی لیکن ہادیہ سمجھدار

تھی ۔۔اس نے خاموشی میں

ہی غنیمت جانی

" اچھا ہوا ہمارا پورا

خاندان ایک ہو گیا " میشا

اور رمشہ سب کے رشتوں

کی لسٹ کھول کہ بیٹھی

تھی کتنی شادیاں ہوں گی

خاندان میں"

" میں تو کہتی ہوں اجتماعی

شادی کر لیں " رامیہ سب

کی دادی بنی ہوئی تھی ۔۔

" اچھا زرا پھر سے بتانا

رشتے کہاں کہاں طے ہوئے "

حمنہ سب کزنز کے بیچ بیٹھی

تھی " اچھا تو سنو " اب

کی بار سیبال بولی ۔۔

" شکر ہے تم بھی تو کچھ

بولی ۔۔"

اس نے گویا سنا ہی نہیں

" حذیفہ کا ثانیہ سے حسن

کا رامیہ سے طلحہ کا تانیہ

سے ۔۔"

" واہ واہ کیا کافیہ باندھا

ہے "

رمشہ نے واہ واہ کر کے بات

کو ادھورا کر دیا ۔۔

" میشا کا مبین سے ۔۔باقی

کون بچا "

اب کی بار سیبال چپ ہوگئی

اب جو نام تھے ان سے

اچھی یادیں نہ تھی "

طاہر کا رمشہ سے " میشا

نے بھی بیچ میں لقمہ دیا ۔۔

اور رائمہ اور صہیب کا کیا

ہوا۔

" صہیب بھائی کا کیا ہو

تو گیا نکاح۔ اس کا "

میشا غصے سے اٹھی

" اب اس نکاح کا کوئی

وجود نہیں "

سیبال نے میشا کی جانب

دیکھا

" تو پھر میرے اور مبین

کے رشتے کا بھی کوئی

وجود نہیں "

" یہ بات کو تم کہاں لے

کہ جا رہی ہو "

رمشہ نے چپ کرانے کے

لیے امن کا جھنڈا اٹھایا

" نہیں اب ہمارے اس

خاندان سے کوئی رشتہ

نہیں آپ سب آپس میں

جڑے رہیں ۔۔"

" بکواس بند کرو اپنی ۔"

سیبال نے۔ اس کی جانب

دیکھ کر کہا " کیسی

بکواس مس سیبال ہم

کوئی قربانی کے جانور

نہیں۔ تم میرے بھائی

کی حالت نہیں دیکھ رہی

ایک مردہ قبر سے اٹھتا۔"

زوردار تھپڑ میشا کہ چہرے

پہ پڑا

کچھ پل پہلے خوشی کا

ماحول اچانک تناؤ میں

بدل گیا

" اور بکواس میں نہیں

سن سکتی اگر معیز کے

بارے میں یہ الفاظ کسی

نے ادا کیے " کسی نے

منہ پہ ہاتھ رکھا کسی

نے گال پہ

" اوو میڈم اتنی آپ

اچھی ہیں نہیں جتنی

بنتی ہیں رائمہ ٹھیک

کہتی تھی تیرا کردار "

" نکل جائو میرے گھر

سے ۔" رمشہ میشا کو

کھینچ کر۔ باہر لے گئی ۔

سیبال کا سانس پھولنے

لگا۔ ۔۔

" رامیہ بھاگ زہرہ آنٹی

کو بلاؤ سیبال کو کچھ

ہوگیا ہے ۔۔"

" ڈرامے باز "

میشا زیرلب بڑبڑائی۔۔

محبت کے رشتے نفرت

میں بدل چکے تھے کہیں

کوئی روٹھے ہوئے ملے

تو کوئی مل کے بچھڑ گئے

۔۔۔( ہر خاندان کی یہی

کہانی ہے )

ہ ہ ہ ہ ہ

" یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں

۔معیز اور صہیب کے

جھگڑے میں آپ مبین اور

میشا کا رشتہ کیوں خراب

کر رہے ہیں ۔۔" زاہد اور

ہاجرہ جالب اور حشمت

کے سامنے بیٹھے تھے ۔۔

" بس اب کچھ بھی پہلے

جیسا نہیں رہا آپ نے بیٹی

دی تو ہم نے بھی دی آپ

نے واپس لے لی تو بس "

" میشا یہ سب کیا ہے ۔۔"

مبین نے سنتے ہی میشا کو

کال ملائی ۔۔

" کیا ہے ۔۔وہی ہے جو تم

سن رہے ہو ۔۔"

" لیکن ہم تو ایک دوسرے

کو پسند کرتے ہیں "

" تھے ۔۔اب کچھ نہیں

ہمارے بیچ آپ کا بھائی

آیا میرے بھائی کی

خوشیاں کھا گیا ۔۔"

" وہ بیچارا "

" وہ بیچارا نہیں دشمن

ہے ہماری خوشیوں کا ۔۔اچھ

ا ہوتا وہ وہی مر "

" بس میشا بس بہت

ہوگیا ۔۔"

" یہی تو میں کہہ رہی

ہوں بس بہت ہوگیا نہیں

سن سکتے نہ تم " اس

نے قہقہہ لگایا ۔۔

" سہی ہے پھر یوں تو

پھر یونہی سہی تم اپنے

بھائی کی خوشیوں کی

وجہ سے اپنا گھر تباہ کر

رہی ہو "

" کیونکہ میں خود غرض

نہیں ۔۔مجھے نفرت ہے

معیز سے آپ کے گھر کی

خوشیوں سے جو ہماری

خوشیاں کھا گئے ۔۔میں

ایسے گھر میں کیسے

آسکتی ہوں "

مبین کا صبر جواب دے

گیا ۔۔

اس نے کال ڈسکنکٹ کر

دی

" اتنا زہر میشا اتنا زہر ۔۔"

ہ ہ ہ ہ ہ

زاہد کا خاندان سب سے۔

رشتہ توڑ کر جا چکا تھا ۔۔

زہرہ کے آنسو تھمنے کا نام

نہیں لے رہا تھا زہرہ کا

میکہ اس سے چھن رہا تھا

باقی رشتے بھی ختم کرنے

کی باتیں چل رہی تھی

حشمت خان کے خاندان

کو رشتہ نہیں دے گے

لیکن زارا مسلسل بہن

کا ساتھ دے رہی تھی ۔۔"

نہیں اما میں صہیب کی

نصیب کی وجہ سے اپنی

بیٹی کیوں بٹھا کہ رکھوں

۔۔انہوں نے رشتہ توڑا نہیں

سیبال صہیب کا نصیب

نہیں تھی بس ۔۔اب نکاح

کے اوپر تو نکاح نہیں رہ

سکتا آپ لوگوں نے بہت

غلط کیا میشا اور مبین

کا رشتہ ختم کر کے

آپ اپنی بیٹی کا رشتہ

ڈھونڈے "

" تو آپ رامیہ دے دیں

ہوسکتا ہے زبیر ہمارا ساتھ

دے ۔۔" ۔زاید نے غصے

سے بہن کو دیکھا ۔۔" آپ

زبیر سے پوچھ لیں

مجھے کوئی اعتراض نہیں "

وہ کہہ کر رکی نہیں

ہاجرہ زارا کو دیکھتی

رہ گئی ۔۔

ہ ہ ہ ہ ہ ہ

رائمہ تو میشا پر جان

چھڑک رہی تھی ۔۔لیکن

زارا کی بیٹیوں نے وہاں

آنا جانا بند کر دیا تھا ۔۔

" بہت اچھا فیصلہ کیا

تم نے ۔۔۔

مبین کو چھوڑ دیا ۔۔۔"

" نہیں میں نے بہت

غلط کیا ۔۔میں بھی سیبال

بن گئی ہوں اس کی

صحبت میں رہ رہ کر

میں نے بہت غلط کیا ۔۔"

وہ پھوٹ پھوٹ کر رو

پڑی ۔۔

رائمہ جو جلتی۔ پر تیل

کا کام کرنے آئی تھی

الٹا مرہم کا کر گئی ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

حیدر اور حشمت نے پھر

سے جالب اور زاہد کو بلا لیا ۔۔

" دیکھو تم بڑے ہو بیٹے

کو سمجھاؤ نا کہ ان کے

غلط فیصلوں کے پیچھے

چل دو طالب کا کوئی

قصور نہیں نا ہی جالب کا

۔۔نصیب کی بات ۔۔کیا پتا تھا

۔۔معیز آ جائے گا ۔۔"

" مجھے اب اس گھر میں

کوئی رشتہ نہیں کرنا جو

میرے بیٹے کہ واپس آنے

پر خوش نہیں اس کے لیے

بد دعائیں کرتے ہو ۔۔"

" بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں

مجھے بھی اب یہ رشتہ

نہیں کرنا ۔۔"

،( یوں یہ خاندان ٹوٹ

گیا ۔۔پھر سے ایک اور

معیز اور سیبال بن گئے )

ہ ہ ہ ہ

(" تم لوگ آزاد کشمیر

چلے جاؤ بھابھی کی طبیعت

ٹھیک نہیں ۔۔"

" حارث جو میں نے کہا

اس پہ غور کیا ۔۔"

اس نے اٹھ کر نازو کہ

سر پہ ہاتھ رکھ دیا ۔۔

" یہ میری بہن ہیں بھابھی

کیوں کہ معیز نے اسے

بہن کہا ہے یہ

ہماری عزت ہے کیونکہ

یہ ہماری چھوٹی بہن ہے "

" لیکن حارث "

" میں اس کی عزت کا

محافظ ہوں میں اس کا

بھائی ہوں "

جو بات زریش نے کہی

تھی وہ اسے بہت گراں

گزری اس نے ہمیشہ

نازو کو بہن سمجھا تھا

جب سے معیز نے کہا تھا

آج سے میں مصطفیٰ ہوں ۔۔

" ہم سب ساتھ نکلتے ہیں۔

۔۔میں آپ لوگوں کو

مظفرآباد چھوڑ کر

آئؤں گا " ۔۔۔)

" زریش نے ایسی بات

کیسے سوچی " بہنیں

جوان ہوجائیں تو سوچنی

پڑتی ہیں ۔۔"

" اس کے بعد "

حارث اسے گزرے وقت

کی باتیں سنا رہا تھا ۔۔

" اس کے بعد ہمارا

ساتھ مظفرآباد کے ایک

نواحی گاؤں تک تھا ان

لوگوں کو میں چھوڑ آیا

تھا۔۔اس نے تمہارے گھر

کا پتہ مانگا تھا ۔۔۔

میں نے مظفرآباد میں

تمہارے رشتے داروں کا

پتا اسے دیا تھا ۔۔گھر

کا نہیں دیا اب وہ

وہاں گئی تھی یا نہیں

مجھے اس کا نہیں پتا

۔۔میں نے چھٹی لے لی

ہے ہم دونوں ساتھ

چلتے ہیں انہیں ڈھونڈنے ۔۔"

معیز نے سر اثبات میں

ہلایا۔

حارث تیاری کرنے لگا

ہ ہ ہ ہ ہ

جاری ہے

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Writereeshanoor posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share