19/02/2024
محبت ریت کی مانند
آخری قسط
حصہ دوم
از قلم ایشانور
(ام احمد)
ہ ہ ہ ہ ہ ہ
سیبال "
وہ اس کے بلکل قریب تھا ۔۔
شاید وہ بیڈ پر بیٹھ چکا
تھا
اس کا بس نہیں چل رہا
تھا وہ کان بند کر دے اسے
کچھ سنائی نہ دے لیکن
جو سنائی دینا ہوتا ہے
وہ سننا پڑتا ہے ۔۔
" میری بات تحمل سے
سننا اور مجھے سمجھنا "
مطلب وہ سب سچ تھا ۔۔
اس کی سوچوں نے جملہ
مکمل کیا ۔۔" بس اب
ہم تھک چکے ہیں وعدہ
کرو تم یہاں سے نہیں
جائو گی ۔"
لیکن اس نے تو چپ کا روزہ
رکھ لیا تھا ۔۔
زہرہ کے جڑے ہاتھ طالب
کی بے بسی ۔۔
" کچھ کہو گی نہیں ۔۔"
اس نے گھونگھٹ نہیں اٹھایا
تھا اس نے آنکھیں کھولی
وہ تو۔ اس کی طرف
دیکھ بھی نہیں رہا تھا ۔۔۔
اس نے نظریں جھکائی
ہوئی تھی ۔۔
وہ قصوروار تھا ۔۔؟؟
" مجھے تمہیں منہ دکھائی
میں کچھ دینا ہے "
وہ چپ تھی ۔۔( وہ تو سب
دیتے ہیں)
" مجھے امید ہے تم اسے
قبول کرو گی ۔۔جیسے
مجھے کیا ۔۔"
( کیا مطلب تھا اس کا )
معیز نے اس کے ہاتھ اپنے
ہاتھ میں لے لیے
اس نے نظریں جھکا لی ۔۔
اس کے ہاتھ تو کانپ رہے
تھے ۔۔
لیکن یہ کیا اگلے پلے ہاتھ
چھوڑ دیے ۔" سیبال یہ
میری بیٹی ہے ۔۔"
اس نے ایک دم سے گھونگھٹ
پیچھے گرا دیا گھونگھٹ کیا
اٹھا سر پہ دوپٹہ تک نہ تھا
وہ اس چھوٹی سی بچی
کو دیکھنے لگی ۔۔۔
وہ اس کی آنکھیں دیکھ
رہی تھی
وہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑی
ہوگئی ۔۔۔
گویا سکتے میں آگئی
" سیبال " وہ اس کے قریب
آریا تھا
اس نے ہاتھ آگے کیا ۔۔
اسے آگے آنے سے روکا
لیکن۔ الفاظ دم توڑ چکے تھے
اس نے بچی کو اٹھایا
دروازے کی طرف جانے لگے
وہ صوفے پہ ڈھے جانے والے
انداز میں بیٹھ گئی جیسے
پیروں نے چلنے سے جواب
دے دیا ہو ۔۔وہ صوفے پہ
سکتے کے عالم میں بیٹھ گئی
۔۔دوپٹہ پیچھے لڑھک گیا
بھاری دوپٹہ اس کی گویا
گردن توڑ رہا تھا ۔۔
سکتہ تب ٹوٹا جب کوئی
اس کے قدموں میں آن
بیٹھا ۔۔
اس نے سر اس کی گود میں
رکھ لیا ۔۔
کمرے میں سکوت چھایا تھا
۔۔گھڑیال کی ٹک ٹک کے
سوا کوئی آواز نہ تھی ۔۔
اسے وحشت ہونے لگی گھٹن
بڑھنے لگی ۔۔
" زریش ہمارا کور تھی وہ
ہمارے
مشن کا حصہ تھی ۔۔یا یوں
کہہ دو ہم نے اسے
استعمال کیا ۔۔اس کے
جذبات سے کھیلا ۔۔"
اسے کچھ سمجھ نہ آیا ۔۔
( تھی کا کیا مطلب ہے
وہ لڑکی تو موجود ہے ۔۔)
" اس کا شوہر میرا ہم
شکل تھا ۔
اسی لیے مجھے چنا گیا
۔۔تاکے میں وہی بن کر وہاں
جائوں ۔۔" وہ اب شروع سے
اسے بتانے لگا ۔۔
وہ خاموشی سے سن رہی تھی ۔۔
جب جب وہ اپنی اور زریش کی نزدیک ہونے کی بات کرتا اس کا خون کھولنے لگتا ۔۔
...
وہ پریشان تھا ۔۔سیبال کو
سب کچھ کیسے بتائے ۔۔۔
لیکن کہیں نہ کہیں سے شروع
کرنا تھا ۔۔اس نے شروعات
اپنی اور زریش کی بیٹی
سے کی ۔۔
وہ اس چھوٹی سے گڑیا
کو اٹھائے کمرے میں
داخل ہوا ۔۔
جیسے کوئی مجرم کمرہ
عدالت میں داخل ہوتا ہے
نجانے کیوں اسے لگا
وہ سیبال کا گنہگار ہے
۔۔۔وہ ہر سزا کے لیے تیار
تھا ۔۔
کمرے میں دبیز قالین نے
اس کا استقبال کیا
ہر طرف گلاب اور موتیے
کی خوشبو پھیلی تھی ۔۔
وہ سامنے پھولوں سے
سجی سیج پر اپنی
میکسی کے گھیر میں ایک خوبصورت تتلی لگ رہی تھی ۔۔
پھولوں کے گلدستے پر
بیٹھی ایک خوبصورت تتلی ۔۔
بچی کو گود میں اٹھائے
۔۔وہ اس کی جانب چل دیا
( یہ غلط ہے معیز کم
سے کم آج کے دن یہ سب
سیبال کے ساتھ نہیں ہونا
چاہیے ۔۔) لیکن وہ فیصلہ کر
آیا تھا اسے اپنی شروعات
جھوٹ پر نہیں کرنی تھی ۔۔۔
وہ اس خوبصورت مورت کے
قریب آیا ۔۔پھولوں کی
خوشبو اور مدھم سی روشنی
اسے محسور کر رہی تھی ۔۔
لیکن اس نے اپنے جذبات
کو ایک طرف رکھ کر
اپنے آپ کو سیبال کی
عدالت میں پیش کر رہا
تھا ۔۔
اس کے پہلے جملے پر ہی
جو شدید ردعمل آیا وہ
اس کی سوچ سے برعکس
تھا ۔۔۔
سیبال کی حالت دیکھ کر وہ
رک نہ سکا ۔۔
دوپٹہ ڈھلنے پر وہ خوبصورت
مورت اور زیادہ حسین لگ
رہی تھی ۔۔
لیکن اس کے چہرہ میک اپ
کے باوجود زرد پڑ گیا
وہ کانپ رہی تھی ۔۔
اسے اب تھامنے کا وقت
تھا کچھ بھی ہو جائے
وہ سیبال کو جانے نہیں
دے سکتا تھا ۔
وہ واپس پلٹا۔اسے بیڈ
خالی نظر ایا
دل دھک سے بند ہوا
۔۔اگلے ہی پل وہ اسے
صوفے پہ بیٹھی نظر آگئی ۔
۔
ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل
گئی
اس نے خاموشی سے جا
کر اس کی گود میں سر
رکھ دیا ۔۔
لیکن۔ وہ تو مجسم تھی ۔۔۔
اسے اپنی داستاں سنانی
تھی ۔۔
۔۔۔۔
رائمہ دلہن بنی اپنے کمرے
میں صہیب کی بجائے
مبین کا انتظار کر رہی
تھی ۔۔
وہ آہستہ آ کر اسے کے
قریب بیٹھا
" ہم دونوں ایک دوسرے
کے بارے میں جانتے ہیں ۔۔"
" جی "
وہ اب کیا کہتی ۔۔
" میں نے میشا کو بہت
چاہا اسے سمجھایا ۔۔
ہمارا رشتہ ارینج تھا ۔۔لیکن
اب وہ محبت میں بدل
چکا تھا ۔۔"
( وہاں جا۔ کر صہیب کا
راگ نہ الاپنے بیٹھ جانا
عورت برادشت کر لیتی
ہے لیکن۔ مرد کا دل اتنا
بڑا نہیں ہوتا ۔۔)
اسے اپنی ماں کی نصیحت
یاد آنے لگی ۔۔
" آپ نے بھی صہیب کو
بہت چاہا ۔۔۔لیکن کیا کیا
ان بہن بھائی نے ہمارے
ساتھ ۔۔"
( اسے تو سب پتا ہے ۔۔)!
" وہ آیا تھا میرے پاس
۔۔لیکن اب اس کی کوئی
گنجائش نہیں میرے دل
میں میں نے دل سے آپ
کو قبول کیا ہے ۔۔"
" ایسا ہوسکتا ہے ۔۔"
" جی ہوسکتا ہے دل
سے اترے لوگوں کی دل
میں کوئی جگہ نہیں ہوتی "
سامنے سے خاموشی چھائی
رہی
" محبت واقعی ریت کی
مانند ہوتی ہے۔ مٹھی کتنی
بھی بند کرو رہتا ہاتھ
خالی ہی رہ جاتا ہے "
اس نے اپنا ہاتھ اس کے
ہاتھ پہ رکھ دیا ۔۔
ہ ہ ہ ہ ہ
" سیبال پتا ہے وہ لڑکی کون
ہے ؟؟۔۔"
اس نے اپنی داستاں سنا کہ
سیبال کی جانب دیکھا ۔۔
اس کی گردن ایک طرف
لڑھک چکی تھی ۔۔سیبال
سیبال ۔۔
اس نے ایک دم سے ۔
موبائل نکالا اور کمرے سے
باہر بھاگا ۔۔
" امی ابو ۔سیبال کو
کچھ ہوگیا ہے ۔۔"
ایمبولنس آئی اس بے
جان سی دلہن کو اٹھا
کہ ایمبولنس میں ڈالا گیا ۔۔
اسے ہاسپیٹل پہنچایا گیا ۔۔
ہاسپیٹل پہنچتے ہی اسے
ایمرجنسی میں لے جایا گیا ۔۔
" کیا ہوا سیبال کو "
طالب کی پوری فیملی
ہاسپیٹل پہنچ چکی تھی ۔۔
" کیا کیا تم نے میری
بیٹی کو ۔" وہ گردن
جھکائے خاموش کھڑا
تھا ۔۔" کیا ہوگیا
سیبال کو ۔۔"
زہرہ کی حالت خراب
ہو رہی تھی سب پریشان
کھڑے تھے ۔۔
ایمرجنسی میں سب ڈاکٹرز
سیبال پر جھکے تھے ۔۔۔
ایک ڈاکٹر باہر آیا ۔۔
" کیا ہوا ہے بچی کو ۔۔"
" برین ہیمرج"
" کیا وہ ٹھیک ہو جائے
گی ۔۔"
جالب ڈاکٹر کی طرف دیکھ
رہا تھا ۔۔
" اللہ سے امید رکھیں
ہم کوشش کر رہیں ہیں ۔۔"
زہرہ کو واپس گھر بھیج
دیا گیا ۔۔
سب باری باری معیز سے
سوال پوچھ رہے تھے ۔۔
( وہ اتنی نازک دل نکلی
۔۔پوری بات تو سن لیتی ۔)
چار لوگ ہاسپیٹل میں رکے
باقی سب کو گھر بھیج
دیا گیا ۔۔
گھر میں گویا جیسے صف
ماتم بچھ گیا ہو ۔۔
سب نے مصلے بچھا کہ
دعائیں مانگنا شروع کر
دی ۔۔
زہرہ کی بلیڈ پریشر ہائی
اور لو ہو رہا تھا ۔۔
" نظر لگ گئی حاسدو
کی ۔۔ہمارے گھر کو ۔۔"
حمیرا بھی زہرہ کہ پاس
بیٹھی تھی ۔۔" دونوں
بہت خوش تھے ۔"
" نہیں میری بیٹی خوش
نہیں تھی ۔۔"
حمیر نے حیرت سے اس کی
جانب دیکھا ۔۔
" لیکن "
" ہاں نہیں تھی وہ خوش
تمہارا بیٹا کسی اور لڑکی کے پیچھے پڑا تھا ۔۔نہیں تھی
وہ خوش زبردستی رخصت
کیا بیٹی کو ۔۔"
" آپ نے بتایا کیوں نہیں
۔۔اور وہ لڑکی وہ تو طیب
کی۔۔۔۔"
" نہیں ہے کوئی واسطہ
اب اس لڑکی سے ہمارا ۔۔"
وہ مسلسل روئے جا رہی تھی ۔۔
" لیکن زہرہ وہ تو بہن
سمجھتا ہے اسے ۔۔"
اب اچنبھے میں آنے کی باری
زہرہ کی تھی ۔۔
" بہن کس کو بیوقوف بنا
رہے ؤہ بچی وہ لڑکی بس
کر دو حمیرا آپ لوگوں
کا کوئی قصور نہیں ہم ہی
مجرم ہے ۔۔"
ہ ہ ہ ہ ہ ہ
بار بار وہ کمرے کی جانب
جاتا
نلکیوں میں جکڑی سیبال
کو دیکھتا
واپس پلٹ کر کرسی پر
بیٹھ جاتا
ڈاکٹر۔ آتے جاتے
امید اور دلاسے دے جاتے
پوری رات آنکھوں میں
سانس روکے گزری ۔۔
" معیز "
وہ جو گھٹنوں پر سر دیے
مصلے پر بیٹھا تھا ۔
۔سر اٹھایا ۔۔
" سیبال " ہاں یہ آواز
سیبال کی تھی وہ اسے
بلا رہی تھی ۔۔
فجر کی آذان کا وقت ہوا ۔۔۔
وہ ایمرجنسی کے کمرے
کی طرف گیا
ایمرجنسی میں بھگدڑ مچ گئی ۔
وہ باوضو ہو کر خدا سے
اپنی محبت کی بھیک
مانگ رہا تھا ۔۔وہ بھی
اسی جانب گیا ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد سارے ڈاکٹر
آئی سی یو سے باہر نکلے ۔۔
" سوری ہم اسے نہیں
بچا سکے ۔۔"
معیز جہاں کھڑا تھا ۔
۔دو قدم پیچھے لڑھک گیا
۔۔۔اس کی دنیا اندھیر ہوگئی ۔
ﻣﺤﺒﺖ ﺭﯾﺖ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﮭﯽ،
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﺗﮭﯽ،
ﮐﮧ
ﻣﺤﺒﺖ ﮈﮬﯿﺮ ﺳﺎﺭﯼ ﺗﮭﯽ ۔ ۔ ۔
ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮭﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﻮﮞ گی
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﻟﻮﮞ گی،
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮭﻮﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻭﮞ گی،
ﻣﮕﺮ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﮈﺭ ﺳﮯ،
ﻣﺤﺒﺖ ﮨﯽ ﻧﮧ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﯾﮧ ﻣﭩﮭﯿﺎﮞ ﺑﻨﺪ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﻣﮕﺮ
ﺟﺐﻣﭩﮭﯿﺎﮞ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ
ﺗﻮﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺧﺎﻟﯽ ﺗﮭﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍﻟﯽ ﺗﮭﮯ
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧﻣﺤﺒﺖ ﺭﯾﺖ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﮭﯽ
ہ ہ ہ ہ
ختم شد