14/06/2018
(قسط نمبر 1)
دروازہ بند کر کہ ابھی ابھی اک آدمی باہر نکلا تھا کہ دروازے پر پھر سے دستک ہوتی ہے اور بائی ریشماں اندر آتی ہے اور کہتی ہے کہ فٹا فٹ نہا کے تیار ہو جا چوہدری جواد رضا تمہارا دیدار کرنا چاہتے ہیں..... وہ ابھی خود کو سمیٹ نا پائی تھی اور اک اور کی آمد نے اس کے وجود کو مزید منتشر کر دیا.... اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے نا ہی زبان پہ کوئی شکایت لیکن وہ زندہ تو بالکل نہیں لگ رہی تھی... اس کی شکل سے واضح تھا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے مر چکی تھی اور یہ تو گدھ آتے تھے روز اس کے وجود کو چیر پھاڑ کرنے، شکل سے بھدے اور بدبودار، گوشت خور، بے حس، لمبی لمبی چونچوں والے جھکی کمروں والے.. یہ گدھ ہی تو تھے .. خیر ریشماں بائی نے اب کی بار تھوڑا سختی سے کہا لیکن وہ بے سدھ بیٹھی ہوئی تھی، ریشماں بائی نے اب کی بار اس کی چوٹی سے پکڑ کر چلا کر کہا کہ اٹھ کر نہا لے اور لال جوڑا پہن کر تیار رہنا میں کچھ دیر تک چوہدری صاحب کو اندر بھیج رہی ہوں، یہ کہہ کر ریشماں بائی باہر جانے لگی کہ اچانک رکی اور دوبارہ سے مخاطب ہوئی اور کہا کہ چوہدری صاحب بہت نفیس انسان ہیں ان کو ناراض نا کرنا.. اس پر وہ مسکرا دی... وہ من میں کہہ رہی تھی.. نفیس اور گدھ... چھی..، خیر وہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اٹھی اور سرخ کفن میں اپنی لاش کو ملبوس کیا اور ہار سنگھار کر کے گدھ کے انتظار میں بیٹھ گئی.. کچھ ہی دیر میں چوہدری صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور شکار کو دیکھ کر پر مسرت لہجے میں سلام پیش کیا جو کہ خاموشی سے ٹھکرایا گیا...
چوہدری صاحب بستر پر بیٹھ کر کچھ دیر اسے نہارنے کے بعد رومانوی الفاظ میں گفتگو کرنا شروع کرتے ہیں جس پر وہ جھٹ سے بولتی ہے کہ آپ جس کام کے لیے آئے ہیں وہ کیجیے اور تشریف لے جائیے... میں مزید اس لال جوڑے اور ان زیورات کا وزن اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی... اس کی اس بیزارگی کا چوہدری صاحب پر بہت برا اثر ہوا اور وہ اس کی کلائی کو پکڑ کرکہتے ہیں کہ یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو تمہیں اپنے گاہکوں کو لبھانا کسی نے نہیں سکھایا... اس پر وہ خاموش رہی لیکن اس کی مقتول نگاہوں نے جلتی پہ گھی کا کام کیا اور چوہدری صاحب کو مزید طیش میں لا دیا... اب کی بار اس کی کلائی پر چوہدری صاحب کی گرفت اور مضبوط تھی اور وہ اس کے اس رویے پر دانت پیس کر رہ گئی ... خیر کچھ دیر بعد معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا...
وہ بستر پرنظریں نیچے کر کے بیٹھی تھی اور چوہدری صاحب کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑے ہوئے تھے کہ اچانک چوہدری جواد رضا کی نظر اس پر پڑی تو وہ کسی پری سے کم نا لگ رہی تھی... وہ پھر سے اس کے قریب گیا اور اس کے چہرے کو اس کی ٹھوڑی سے پکڑ کر اوپر کرتے ہوئے اس کہ منہ سے ماشاء اللہ کے الفاظ ادا ہوئے... اس کی نظروں سے وہ سہم سی گئی تھی... اب وہ اس کے حسین چہرے کا بغور جائزہ لے رہا تھا اور اش اش کرتے ہوئے کہہ رہا تھا سبحان اللہ... ماشاءاللہ... سبحان اللہ.. کوئی بھلا اسے دیکھتے ہوئے دیوانہ کیوں نا ہو... اس کی خوبصورت اور چوڑی پیشانی... بڑی بڑی آنکھیں،جنہیں دیکھ کر کوئی بھی پاگل ہو سکتا تھا.. پتلی اور لمبی ناک خوبصورت اور دلکش ہونٹ جو کے اب چپ سادھ چکے تھے.... مختصراً وہ لال جوڑا میں بالکل قتل کر دینے والے تیور دکھا رہی تھی... خیر انھی اداؤں اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ہی ریشماں بائی کا کوٹھا آباد تھا اور گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا تھا... چوہدری صاحب بھی اس سرخ کفن میں ملبوس زندہ لاش سے گوشت نوچنے کے بعد اپنے رستے ہو لیے...
اب وہ بے سدھ بستر پر پڑی ہوئی تھی.... اس کی آنکھیں کھلی تھیں، درد سے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک گئے... جب اسے پانی کے ان قطروں کا اندازہ ہوا تو وہ اس کے رخسار کو معطر کر رہے تھے.. اب وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اس کی آنکھوں سے نا رکنے والا آنسوں کا ریلا اُمڈ آیا.... وہ اپنے آپ کو سمیٹنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی... اس نے سرخ کفن کو پھاڑ دیا اور زیورات اس بے دردی سے کھینچ کر اتارے کے اس کے کانوں اور ناک سے خون جاری ہو گیا... کچھ لمحوں کے بعد اس کی چیخیں سسکیوں میں بدل گئی تھیں... آج بھی اس کو نوچنے چار گدھ آئے تھے... وہی لمبی ناک والے، بدبودار، بے حس اور بے رحم گوشت خور... اس کی روح اب اس گوشت کی مردہ لاش کو اٹھا اٹھا کر تھک چکی تھی وہ اب آزاد ہو جانا چاہتی تھی لیکن کیا جائے ابھی اس کو بھی موت نے آ نہیں لیا تھا وہ مجبور تھی اس بدبودار گوشت کے ڈھیر میں رہنے کے لیے... اس کے وجود کو موت آ چکی تھی لیکن اس کی روح ابھی موت کے انتظار میں تھی.. شاید وہ زندگی اور موت کا حیرت انگیز امتزاج بن کر رہ گئی تھی ... یا اس کی موت ہو چکی تھی؟؟ ... زندہ موت؟؟ ... کیا ہم اسے یہ کہہ سکتے ہیں؟؟
خیر جو بھی ہو ہمارے کہنے یا نا کہنے سے اس کے مردہ جسم میں جان تھوڑی آ جانی ... وہ دن بہ دن اور حسین ہوتے جا رہی تھی اور ریشماں بائی کی کوٹھے کی رونق میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا تھا.... اب تو اس کے ہاں بہت سے لوگ آتے اور منہ مانگے داموں اس خوبرو لاش کے گوشت کو نوچتے اور چلے جاتے... یہ سلسلہ اب طویل ہوتا جا رہا تھا اور اب اس کے جسم میں زندگی کی رہی سہی رمک بھی جاتی رہی تھی نا اب اس کا جسم ٹوٹتا تھا اور نا ہی اب اس کی روح سہمتی تھی شاید دونوں نے سمجھوتا کر لیا تھا.... اب گدھوں کی روزانہ کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تھا.. دن میں سات سے آٹھ گدھ اب اس کی لاش کے گرد گھومتے اور اسے نوچتے... خیر دن جیسے تیسے گزر رہے تھے اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ حیرت انگیز طور پر مزید خوبصورت اور زندگی سے بھرپور ہو رہی تھی.. جتنا گوشت نوچا جاتا اس سے دگنا اس کے جسم پر پھر سے چڑھا دیا جاتا...
تحریر :یامین علی احمر نسیم ✒️