Prof Dr. Ubaid ur Rehman Mohsin

  • Home
  • Prof Dr. Ubaid ur Rehman Mohsin

Prof Dr. Ubaid ur Rehman Mohsin On this page, you will find everything referencing the Quran and Sunnah. This page is made to refer

15/01/2025

سردی کے موسم میں بزرگوں کی دیکھ بھال
فَضِــیلةُالشَّـــیْخ پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ
گروپ لنک
https://chat.whatsapp.com/Fe4YhVVYmnj1BwKzQbnToK

14/01/2025

موزوں اور جرابوں پر مسح
🎤🎤 فَضِــیلةُالشَّـــیْخ پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ
گروپ لنک
https://chat.whatsapp.com/Fe4YhVVYmnj1BwKzQbnToK

14/01/2025

*عالم کسے کہتے ہیں؟*

تحریر:ڈاکٹر عبید الرحمن محسن

متعدد مرتبہ مجھ سے خیر وتقوی والے طلبہ وطالبات نے استفسار کیا ہے کہ عالم ہونے کا معیار کیا ہے ؟آج ہمارے معاشرتی وفکری زوال کی یہ کیفیت ہے کہ ہم عالم کی پہچان سے بھی قاصر ہیں ۔
ہر بولنے والے کو ہم عالم سمجھتے ہیں!ہر چینل پر بیٹھنے والے کو بھی ہم یہی درجہ دیتے ہیں ۔
ایک ہوتا ہے کہ حقیقی عالم اور دوسرا جو بزعم خود زبردستی اپنے آپ کو عالم باور کراتا ہے ،اسے عالم نہیں متعالم کہتے ہیں ۔
جس طرح حقیقی حکیم اور عطائی حکیم میں فرق ہوتا ہے ،ایسے ہی مستند عالم اور متعالم میں فرق ہوتا ہے۔
متعدد اہل علم نے عالم کی شروط وصفات پر لکھا ہے ،ان میں سے بالخصوص امام شوکانی اور الشیخ ابن عثیمین رحمہما اللہ کے کلام کی روشنی میں حقیقی عالم کی چند بنیادی شروط پیش خدمت ہیں ۔
عالم وہ ہے جس میں درج ذیل پانچ شروط پائی جاتی ہوں:
*پہلی شرط*
قرآن اور حدیث کی نصوص(text) کو جانتا ،ان کا معنی ومفہوم اور تشریح سے بخوبی آگاہ ہو۔
یہ ضروری نہیں کہ وہ نصوص کا حافظ ہو،البتہ یہ ضروری ہے کہ ان سے استنباط احکام(deduction) کا ملکہ رکھتا ہو۔
احادیث کے حوالے سے صحیح وضعیف کی پہچان رکھتا ہو ۔

*دوسری شرط*
امت کا جن مسائل میں اجماع رہا ہے ۔ان اجماعی مسائل کو پہچانتا ہو۔ کیونکہ اجماع امت بھی حجت ہے۔اجماعی مسائل میں بھی نئی نئی تحقیق درحقیقت فتنہ ہوتی ہے اور گم راہی کی علامت ۔
*تیسری شرط*
عربی زبان سے واقف ہو ،کیونکہ قرآن مجید ،احادیث مبارکہ اور اسلام کے بنیادی مصادر اسی زبان میں ہو۔
عربی زبان کو براہ راست جانے بغیر محض اُردو تراجم کی مدد سے اگر کوئی شخص اپنے آپ کو عالم اور مفتی سمجھتا ہے تو یہ ایک مضحکہ خیز زعم ہے ۔اس کی مثال بالکل ایسے ہی جیسے کوئی اردو زبان کو جانے بغیر بانگ درا اور بال جبریل کی تشریح کرنے بیٹھ جائے .
*چوتھی شرط*
اصول فقہ(Islamic jurisprudence )سے اس حد تک واقف ہو کہ اسے مسائل کے استنباط کے بنیادی اصولوں میں مہارت ہو۔
عموم و خصوص ،مطلق ومقید کو جانے بغیر درست استنباط ممکن ہی نہیں ۔
*پانچویں شرط*
دین اسلام کے تاریخی پس منظر ،سیرت النبی اور دینی تعلیمات کے ارتقائی مراحل سے اس حد تک آگاہ ہو کہ کب کون سا حکم نازل ہوا؟،اور کس حکم کو کب منسوخ کر دیا گیا؟
اس کے جانے بغیر بھی درست شرعی حقیقت تک رسائی نا ممکن ہے۔
(استفادہ از "إرشاد الفحول" شوکانی 297/2– 303.،الاصول من علم الاصول ،ابن عثیمین ،ص 85_86).
ان صفات کی موجودگی میں ایک شخص عالم کہلاتا ہے۔تاہم اس سے راہ نمائی لینے کے لیے ایک بنیادی ترین چیز تقوی ،للہیت اور خشیت ہے۔کیونکہ اس کے بغیر علم انسان کو درست سمت پر نہیں چلاتا اور نہ ہی دین کا حقیقی نور نصیب ہوتا ہے ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر تو عالم نایاب ہیں ،اور حقیقت بھی یہی ہے ۔
اکثر دین کی طرف دعوت دینے والے داعی تو ہیں عالم نہیں اکثر خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے والے بھی خطیب تو ہیں عالم نہیں اور اکثر یوٹیوب چینل اور ٹی وی کی سکرین پر فر فر بولنے والے یوٹیوبر اور اسپیکر تو ہیں لیکن عالم نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا:
”(آج) تم ایسے زمانہ میں ہو کہ جس میں فقہا(یعنی علماء )زیادہ اور خطبا (اسپیکرز،مقررین ؛مفتی )کم ہیں اسی طرح مانگنے والے کم اور دینے والے زیادہ ہیں، تمہارے دور میں علم سے بہتر عمل ہے، لیکن عنقریب ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ اس میں فقہا کم اور خطبا زیادہ ہوں گے ،مانگنے والے زیادہ اور دینے والے کم ہوں گے، اس زمانے میں عمل سے بہتر علم شمار گا۔“
(طبرانی،بحوالہ سلسلہ صحیحہ ،البانی،3189).

13/01/2025

وضو انسان کا شناختی کارڈ ہے
🎤🎤 فَضِــیلةُالشَّـــیْخ پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ
گروپ لنک
https://chat.whatsapp.com/Fe4YhVVYmnj1BwKzQbnToK

13/01/2025

سردیوں کو کیسے قیمتی بنائیں؟
🎤🎤 فَضِــیلةُالشَّـــیْخ پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ
گروپ لنک
https://chat.whatsapp.com/Fe4YhVVYmnj1BwKzQbnToK

13/01/2025
11/01/2025

سردی اہل ایمان کے لیے موسم بہار اور تحفہ ہے
فَضِــیلةُالشَّـــیْخ پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ

10/01/2025

جنازہ اٹھاتے وقت کلمہ شہادت کہنا
فَضِــیلةُالشَّـــیْخ پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ
گروپ لنک
https://chat.whatsapp.com/Fe4YhVVYmnj1BwKzQbnToK

09/01/2025

عورتوں کا جنازے کے ساتھ ساتھ چلنا
🎤🎤 فَضِــیلةُالشَّـــیْخ پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ
گروپ لنک
Follow this link to join WhatsApp group: https://chat.whatsapp.com/Fe4YhVVYmnj1BwKzQbnToK

09/01/2025

جنازہ اٹھاتے وقت زور زور سے رونا
فَضِــیلةُالشَّـــیْخ پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ
گروپ لنک
https://chat.whatsapp.com/Fe4YhVVYmnj1BwKzQbnToK

08/01/2025

*کیا بغیر ارادہ تکبر کے شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنا درست ہے ؟*
تحریر
ڈاکٹر عبید الرحمن محسن

1️⃣.ہمارے علم کے مطابق قصدا شلوار،ٹخنوں سے نیچے لٹکانا سخت مذموم اور حرام ہے۔ چاہے تکبر کی نیت سے ہو یا بلا تکبر ،نماز کے دوران ہو یا نماز کے علاوہ۔
اگر تکبر کی نیت شامل ہو جائے تو گناہ بالائے گناہ ہے۔

اس بارے میں ایسی صریح اور دو ٹوک احادیث موجود ہیں جو بھی نیوٹرل رہ کر ،احادیث کے مکمل احترام کے ساتھ انہیں پڑھے گا،اسی نتیجے پر پہنچے گا۔ صرف اس ایک حدیث میں ہی غور کر لیجیے ،کافی ہے۔
جناب سیدنا شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أبصر رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ رجلًا يجرُّ إزارَهُ، فأسرع [إليه] أو هرول، فقال: ارْفَعْ إِزَارَكَ، وَاتَّقِ اللهَ، قال: إني أحنفُ تَصطَكُّ ركبتايَ، قال ارْفَعْ إِزَارَكَ، فَإِنَّ كُلَّ خّلْقِ اللهِ حَسَنٌ.فما رُؤِيَ [ذلك] الرجلُ بعدُ إلا إزارَه يصيبُ أنصافَ ساقيْهِ، أو إلى أنصافِ ساقيهِ.
(: جامع المسانيد والسنن - الرقم: 5198،والحدیث صحیح)

رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کودیکھاجو اپنی چادر کھینچتا ہوا جا رہا تھاآپﷺ اس کی طرف جلدی سے گئے یا دوڑ کر گئےاور فرمایا
اپنی چادر اوپر اٹھاؤ اور اللہ سے ڈرو،اس نے کہا: میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں، میرے گھٹنے آپس میں رگڑ کھاتے ہیں۔
آپﷺ نے فرمایا:
اپنی چادر اوپر اٹھاؤ کیونکہ اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز ہی خوبصورت ہے.
تو اس کے بعد اس آدمی کو جب بھی دیکھا گیا اس کی چادر نصف پنڈلی پر ہوتی تھی.
____________
1.اس حدیث سے اس معاملے کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔کہ اپنے ایک امتی کا لباس ٹخنوں سے نیچے دیکھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوڑ لگادی،تیزی سے اس کی طرف روانہ ہوئے۔
2.اسے چادر اوپر رکھنے کا حکم دیا۔اس نے ایک جائز عذر پیش کیا،اس کے باوجود آپﷺ نے اسے ناپسند فرمایا۔اور اسے چادر ٹخنوں سے اوپر اٹھانے کا حکم دیا۔
3.اگر بلا تکبر چادر نیچے رکھنا جائز ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کو ضرور اجازت دیتے۔
تو جو حضرات بغیر کسی مجبوری اور معذوری کے چادر لٹکاتے ہیں انھیں اس حدیث پر غور کرنا چاہیے
4.معذوری کے باوجود اس صحابی رسول رضی اللہ عنہ نے پھر کبھی اپنی چادر ٹخنوں سے نیچے نہیں رکھی۔
2️⃣سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( إِزْرَةُ الْمُؤْمِنِ إِلَى أَنْصَافِ السَّاقَيْنِ ، لَا جُنَاحَ - أَوْ لَا حَرَجَ - عَلَيْهِ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَعْبَيْنِ، مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ فِي النَّارِ، لَا يَنْظُرُ اللهُ إِلَى مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا) رواه أحمد (17/52) وصححه الألباني .

اس حدیث میں شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا دو دفعہ تذکرہ ہے اور علیحدہ علیحدہ سزا بھی مذکور ہے
۔بغیر تکبر کے نیچے لٹکانا نار جہنم کا باعث ہے اور تکبر کے ساتھ لٹکانا اس سے بھی بدتر ہے کہ رب کریم ایسے شخص کی طرف نظر رحمت سے دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے۔
3️⃣ احادیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چادر ٹخنوں سے نیچے لٹکانا بجائے خود تکبر کا باعث ہوتا ہے ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے کہا:
وارفع إزارك إلى نصف الساق فإن ابيت فإلى الكعبين، وإياك وإسبال الإزار فإنها من المخيلة، وإن الله لا يحب المخيلة.
اور اپنا تہ بند نصف «ساق» (پنڈلی) تک اونچی رکھو، اور اگر اتنا نہ ہو سکے تو ٹخنوں تک رکھو، اور تہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ غرور و تکبر کی بات ہے، اور اللہ غرور پسند نہیں کرتا۔(ابوداؤد 4084). صحیح ۔

4️⃣ *چادر ٹخنوں سے نیچے رکھنا کیوں منع ہے*
1.اس میں فضول خرچی ہے۔
2.یہ فعل تکبر کا باعث بنتا ہے۔
3.کم از کم متکبرین بادشاہوں کی مشابہت ہوتی ہے ۔
4.غلاظت ،آلودگی اور نجاست لگنے کا بھی ذریعہ ہے۔
5.عورتوں سے مشابہت ہے۔
*چادر اوپر رکھنے کی برکات*

1.ٹخنوں سے اوپر رکھنا تواضع کا باعث ہے۔
2.پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
3.صالحین سے مشابہت ہے۔
4.اسلامی لباس کے کلچر کو فروغ ملتا ہے اور تہذیبی و ثقافتی شناخت کا مظہر ہے۔

5️⃣.اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ،قصدا ٹخنوں سے نیچے نہیں رکھتا،بے دھیانی میں دوڑ لگاتے ،چلتے ،کھیلتے ہوئے ،اٹھتے بیٹھتے شلوار ٹخنوں سے نیچے ڈھلک جاتی ہے۔تو یہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے ۔
اس بارےمیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث منقول ہے

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَحَدَ شِقَّيْ إِزَارِي يَسْتَرْخِي، إِلَّا أَنْ أَتَعَاهَدَ ذَلِكَ مِنْهُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَسْتَ مِمَّنْ يَصْنَعُهُ خُيَلَاءَ ".
(صحیح بخاری 5784).
حضرت عائشہ کی ایک روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے ہے:وہ فرماتی ہیں
کان ابو بکر احنی لا یستمسک ازارہ یسترخی عن حقویہ
ابو بکر کا قد جھکا ہوا تھا ۔۔۔اپنی چادر تھام نہیں سکتے تھے۔۔وہ ان کے کولہوں سے ڈھلک جاتی تھی۔(فتح الباری ،بذیل حدیث مذکور)۔۔۔مسند احمد میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ ،کبھی کبھی ایسے ہو جاتا تھا ۔
(إن إزاري يسترخي أحيانا )
دیگر طرق کی توضیحات سے معلوم ہوتا ہے کہ

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ عام حالات میں شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھتے تھے۔
2.ابو بکر رضی اللہ عنہ جان بوجھ کر چادر نیچے نہیں لٹکاتے تھے۔۔۔
3.کبھی کبھی بے توجہی ہو جاتی تو نیچے ڈھلک جاتی ۔۔
4.اس کی بنیادی وجہ ان کا نحیف و نزار بدن تھا کہ جس پر چادر پوری طرح ٹکتی نہ تھی۔
5.اس کے باوجود وہ اونچی رکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔
6.پھر بھی فکر مند ہوئے کہیں میں تو اس وعید میں شامل نہیں،تو آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے اس صورت حال میں انہیں مستثنی قرار دیا
اس حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ۔اس طرح اگر کسی کی چادر ڈھلک جاے تو نہ یہ تکبر ہے اور نہ اس پر مواخذہ ہے۔
7.جان بوجھ کر نیچے لٹکانا مظنہ تکبر ہے۔ اور وہ بہر صورت ناپسندیدہ ہے۔
6️⃣اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس حدیث اور واقعہ سے یہی سمجھے تھے ،ان سے مصنف ابن ابی شیبہ میں منقول ہے
عن ابن عمر أنه كان يكره جر الإزار على كل حال (فتح الباری).

8.بلکہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔جس کی چادر نیچے ڈھلک گئی ،اس کے علم میں یہ بات آگئی اور پھر بھی جان بوجھ کر اس نے لٹکائی رکھی تو بالاتفاق یہ مکروہ یے۔اگرچہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے یا تحریمی۔
(فتح الباری).
7️⃣امام ابن العربی لکھتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں نص کے اندر حرمت کی وضاحت آجائے تو پھر اپنی طرف سے کوئی یہ کہنے کا مجاز نہیں ہے کہ میرے اندر چونکہ علت تکبر نہیں ،اس لیے میں اس نص میں شامل نہیں ۔نص کے ہوتے ہوئے یہ علت پیش کرنا بھی تکبر ہی ہے۔

لَا يَجُوز لِلرَّجُلِ أَنْ يُجَاوِز بِثَوْبِهِ كَعْبه , وَيَقُول : لَا أَجُرّهُ خُيَلَاء , لِأَنَّ النَّهْي قَدْ تَنَاوَلَهُ لَفْظًا , وَلَا يَجُوز لِمَنْ تَنَاوَلَهُ اللَّفْظ حُكْمًا أَنْ يَقُول : لَا أَمْتَثِلهُ لِأَنَّ تِلْكَ الْعِلَّة لَيْسَتْ فِيَّ , فَإِنَّهَا دَعْوَى غَيْر مُسَلَّمَة , بَلْ إِطَالَته ذَيْله دَالَّة عَلَى تَكَبُّره "۔فتح الباری 10/264.
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اسبال ہر حال میں قابل مذمت ہے البتہ تکبر کے ساتھ اسبال میں شدید وعید ہے۔
(التمہید 3/244).
مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
جر الثوب ممنوع عندنا مطلقا، فهو إذن من أحكام اللباس(فیض الباری)۔
کپڑا نیچے لٹکانا ہمارے نزدیک مطلقا ممنوع ہے
اس لحاظ سے ہمارے مطابق یہ مسئلہ لباس کے عمومی شرعی احکام کا ایک حصہ ہے۔
امام البانی ،امام ابن عثیمین اور امام ابن باز رحمہم اللہ کے نزدیک بھی کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا مردوں کے لیے علی الاطلاق درست نہیں ہے ۔
8️⃣جس طرح لباس کے بعض دیگر مسائل میں مردوں اور عورتوں کے احکام جدا جدا ہیں ،اسی طرح چادر لٹکانے کے مسئلے میں بھی عورتوں کا لباس مردوں سے یکسر مختلف ہے ۔عورتوں کے پاؤں ڈھکے ہونے چاہئیں۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ، لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "
جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا“
تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا" يُرْخِينَ شِبْرًا "
”ایک بالشت لٹکا لیں“انہوں نے کہا: تب تو ان کے قدم کھل جائیں گے، آپ نے فرمایا
" فَيُرْخِينَهُ ذِرَاعًا لَا يَزِدْنَ عَلَيْهِ" (چلیں زیادہ سے زیادہ) ایک بازو کے برابر لٹکا لیں،اور اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ۔
(جامع ترمذی ،1731).

واللہ تعالیٰ اعلم

08/01/2025

میت پر گلاب کی پتیاں ڈالنا
فَضِــیلةُالشَّـــیْخ پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ
گروپ لنک
https://chat.whatsapp.com/Fe4YhVVYmnj1BwKzQbnToK

08/01/2025

میت پر قرآنی آیات والی چادر
فَضِــیلةُالشَّـــیْخ پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ
گروپ لنک
https://chat.whatsapp.com/Fe4YhVVYmnj1BwKzQbnToK

Address

Rajowal Okara

144039

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Prof Dr. Ubaid ur Rehman Mohsin posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share