اُردو کی محبت،خلوص اور اپنائیت سے بھری دنیا میں آپ کا دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید :)
01/04/2024
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے، ہم اُس سے جلتے ہیں
جون
16/03/2024
16/03/2024
21/05/2023
آج کل سونے کے علاوہ اور کوئی کام ہے تمہیں؟
21/05/2023
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
مکمل غزل
سینہ خوں سے بھرا ہوا میرا
اُف یہ بد مست مے کدہ میرا
نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نا رسا میرا
عشق کو منہ دکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اڑ گیا میرا
دلِ غم دیدہ پر خدا کی مار
سینہ آہوں سے چِھل گیا میرا
یاد کے تند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جل اٹھا میرا
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
منّتِ چرخ سے بری ہوں میں
نہ ہوا جیتے جی بھلا میرا
ہے بڑا شغل زندگی اخترؔ
پوچھتے کیا ہو مشغلہ میرا
(اختر انصاری)
20/05/2023
ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں
رک کر اپنا ہی انتظار کیا
گلزار
19/05/2023
اپنا پسندیدہ شعر سنائیے۔۔۔
19/05/2023
دل جو اپنا ہوا تھا زخمی چور
ضبط گریہ سے پڑ گئے ناسور
صبح اس سرد مہر کے آگے
قرص خورشید ہو گیا کافور
ہم ضعیفوں کو پائمال نہ کر
دولت حسن پر نہ ہو مغرور
ق
عرش پر بیٹھتا ہے کہتے ہیں
گر اٹھے ہے غبار خاطر مور
شکوۂ آبلہ ابھی سے میرؔ
ہے پیارے ہنوز دلی دور
19/05/2023
نہ تمہارا حُسن جواں رہا ، نہ ہمارا عشق تپاں رہا
نہ وہ تم رہے نہ وہ ہم رہے ، جو رہا تو غم کا سماں رہا
نہ وہ باغ ہیں نہ گھٹائیں ہیں،نہ وہ پھول ہیں نہ فضائیں ہیں
نہ وہ نِکہتیں نہ ہوائیں ہیں، نہ وہ بیخودی کا سماں رہا
نہ وہ دل ہے اب نہ جوانیاں ، نہ وہ عاشقی کی کہانیاں
نہ وہ غم نہ اشک فشانیاں ، نہ وہ دردِ دل کا نشاں رہا
نہ چمن ہے وہ نہ بہار ہے، نہ وہ بُلبُلیں نہ ہزار ہے
یہی چار سمت پکار ہے ، نہ وہ رُت ہے، اب نہ سماں رہا
نہ وہ قصّے ہیں نہ حکایتیں نہ وہ شکوے ہیں نہ شکایتیں
نہ وہ دردِ دل کی شکایتیں ، نہ غمِ شرارہ فشاں رہا
نہ وہ عشق ہے نہ وفا رہی ، نہ وہ حُسن ہے نہ جفا رہی
نہ وہ اپنی اپنی ادا رہی، نہ وہ اپنا اپنا جہاں رہا
نہ وہ عمر ہے نہ مسرّتیں ، نہ وہ عیش ہے نہ وہ عشرتیں
نہ وہ آرزوئیں نہ حسرتیں ، نہ خوشی کا نام و نشاں رہا
نہ نشاں ہے ساقی و جام کا نہ وہ بادہ ہائے چمن ادا
نہ مغنّیہ رہی محوِ ساز ، نہ وہ ساز مستِ فُغاں رہا
یہ بہار ِگُلشنِ آب و گِل ہے فنا اثر تو ہوں کیوں خجِل
وہ گُلِ فسرُدہ ہے میرا دل ، کہ ہمیشہ نذرِ خزاں رہا
نہیں صبر ساقیا لا بھی دے ، قدحِ بہار اُٹھا بھی دے
ابھی سِن ہے لا کے پلابھی دے کہ ہمیشہ کون جواں رہا
کہوں کیا کہ رنج رسیدہ ہوں ، میں برنگِ ابر رمیدہ ہوں
نفسِ شمیم پریدہ ہوں کہ رہا تباہ ، جہاں رہا
اثرِ بہارِ خزاں اثر ہے کہ ہے فسُردہ مری نظر
نہ ہوائے عشرتِ بال و پر، نہ جنونِ باغِ جناں رہا
میں گُلِ رمیدۂ رنگ و بُو ، توُ بہارِ میکدۂ نموُ
میں ہمیشہ خستۂ آرزو ، توُ ہمیشہ عیشِ جواں رہا
نہ سکونِ دل نہ قرارِ جاں ، نہ قیامِ صبر کوئی زماں
یہ سرشکِ غم کا ہے کارواں کہ یونہی ہمیشہ رواں رہا
تُو متاعِ گُلکدۂ نظر ، گُلِ نو بہارِ بہشت اثر
میں وہ عندلیبِ شکستہ پَر کہ ہمیشہ محوِ فُغاں رہا
نہ وہ سوزوسازِ دروُں ہے اب ، نہ وہ چشمِ گُلکدہ گُوں ہےاب
نہ وہ سر ہے اب نہ جنوں ہے اب ، نہ وہ ذوقِ شعلہ چکاں رہا
ہے فلک کی بدلی ہوئی نظر، کہیں کس سے اخترِؔ نالہ گر
کہ میں اس کے جورِ الم اثر سے ہمیشہ محوِ فُغاں رہا
(اخترؔ شیرانی)
19/05/2023
خطوط غالب سے اقتباس
یہ میرا حال سنو کہ بے رزق جینے کا ڈھب مجھکو آ گیا ہے۔ اس طرف سے خاطر جمع رکھنا۔ رمضان کا مہینا روزہ کھا کھا کر کاٹا۔ آیندہ خدا رزّاق ہے کچھ اور کھانے کو نہ ملا تو غم تو ہے۔ بس صاحب ایک چیز کھانے کو ہوئی اگرچہ غم ہی ہو تو پھر کیا غم ہے۔
(خط بنام میر مہدی مجروح، اردوئے معلیٰ،157)
18/05/2023
کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنا یک دل ہزار خواہش
میر تقی میر
18/05/2023
بے دل ہوئے ، بے دیں ہوئے ، بے وقر ہم ات گت ہوئے
بے کس ہوئے ، بے بس ہوئے ، بے کل ہوئے ، بے گت ہوئے
ہم عشق میں کیا کیا ہوئے ، اب آخر آخر ہو چکے
بے مت ہوئے ، بے ست ہوئے ، بے خود ہوئے ، میّت ہوئے
الفت جو کی ، کہتا ہے جی ، حالت نہیں ، عزّت نہیں
ہم بابتِ ذلّت ہوئے ، شائستۂ کُلفت ہوئے
گر کوہِ غم ایسا گراں ہم سے اُٹھے ، پس دوستاں!
سوکھے سے ہم دنیت ہوئے ، تنکے سے ہم پربت ہوئے
کیا روئیے قیدی ہیں اب ، رویت بھی بن گُل کچھ نہیں
بے پر ہوئے ، بے گھر ہوئے ، بے زر ہوئے ، بے پت ہوئے
آنکھیں بھر آئیں جی رُندھا ، کہیے سو کیا ، چپکے سے تھے
جی چاہتا مطلق نہ تھا ، ناچار ہم رخصت ہوئے
یا مست درگاہوں میں شب ، کرتے تھے شاہد بازیاں
تسبیح لے کر ہاتھ میں یا میر اب حضرت ہوئے
(میر تقی میر)
18/05/2023
مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے ۔
لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابلِ رشک ملکہ ش*ذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے ۔
اب سگریٹ کو ہی لیجیے ۔
ہمیں کسی کے سگریٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں ، لیکن مرزا سگریٹ چھوڑنے کا جو فلسفیانہ جواز ہر بار پیش کرتے ہیں وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا ۔
مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہو کر سگریٹ شروع کر دی اور اس کے عادی ہو گئے تو انہوں نے چھوڑ دی ۔
کہنے لگے ، بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر سگریٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا وہ در اصل پیدا ہی کثرتِ سگریٹ نوشی سے ہوئے تھے ۔
(مشتاق احمد یوسفی، موذی، چراغ تلے)
18/05/2023
برکاتِ حکومتِ غیر انگلشیہ:
عزیزو!بہت دن پہلے اس ملک میں انگریزوں کی حکومت ہوتی تھی اور درسی کتابوں میں ایک مضمون "برکاتِ حکومتِ انگلشیہ" کے عنوان سے شامل رہتا تھا۔اب ہم آزاد ہیں۔اُس زمانے کے مصنف حکومتِ انگلشیہ کی تعریف کیا کرتے تھے،کیونکہ اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ہم اپنے عہد کی آزاد اور قومی حکومتوں کی تعریف کریں گے۔اس کی وجہ بھی ظاہر ہے۔
عزیزو!انگریزوں نے کچھ اچھے کام بھی کئے لیکن ان کے زمانے میں خرابیاں بہت تھیں۔کوئی حکومت کے خلاف لکھتا یا بولتا تھا تو اس کو جیل بھیج دیتے تھے۔اب نہیں بھیجتے۔رشوت ستانی عام تھی۔آج کل نہیں ہے۔دکاندار مہنگی چیزیں بیچتے تھے اور ملاوٹ بھی کرتے تھے۔آج کل کوئی مہنگی نہیں بیچتا۔ملاوٹ بھی نہیں کرتا۔انگریزوں کے زمانے میں امیر اور جاگیردار عیش کرتے تھے،غریبوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا۔اب امیر لوگ عیش نہیں کرتے اور غریبوں کو ہر کوئی اتنا پوچھتا ہے کہ وہ تنگ آجاتے ہیں۔خصوصا حقِ رائے دہندگی بالغاں کے بعد سے۔
تعلیم اور صنعت و حرفت کو لیجئے۔ربع صدی کے مختصر عرصے میں ہماری شرح خواندگی اٹھارہ فیصد ہوگئی ہے۔غیر ملکی حکومت کے زمانے میں ایسا ہوسکتا تھا؟
انگریز شروع شروع میں ہمارے دستکاروں کے انگوٹھے کاٹ دیتے تھے،اب کارخانوں کے مالک ہمارے اپنے لوگ ہیں۔دستکاروں کے انگوٹھے نہیں کاٹتے ہاں کبھی کبھار پورے دستکار کو کاٹ دیتے ہیں۔آزادی سے پہلے ہندو بنئے اور سرمایہ دار ہمیں لوٹا کرتے تھے۔ہماری خواہش تھی کہ یہ سلسلہ ختم ہو اور ہمیں مسلمان بنئے اور سیٹھ لُوٹیں۔الحمداللہ کہ یہ آرزو پوری ہوئی۔جب سے حکومت ہمارے ہاتھ میں آئی ہے۔ہم نے ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔درآمد برآمد بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ہماری خاص برآمدات دو ہیں۔وفود اور زرِ مبادلہ۔درامدات ہم گھٹاتے جارہے ہیں۔ایک زمانہ میں تو خارجہ پالیسی تک باہر سے درآمد کرتے تھے۔اب یہاں بننے لگی ہے۔
Be the first to know and let us send you an email when Urdu Adab posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.