
06/12/2024
ایم پی ایز کا پشین اور زمین پر موجود پشین میں فرق کیوں ہے؟
کل ایک پروگرام میں پشین کے دو ایم پی ایز مدعو تھے، دونوں کی باتیں سن کر سامعین ششدر رہ گئے کہ اتنے ترقیاتی کام ہوئے ہیں، پشین کے عوام کو اتنی سہولیات فراہم کی گئی ہیں؟ اور ہمیں پتہ بھی نہیں
انکے بقول صرف پشین سٹی ایریا کے لیے چار فیڈر مکمل ہو چکے ہیں جو پشین سٹی کو چوبیس گھنٹے بجلی دے گی
انکے بقول انہوں نے ہسپتال کا معیار اتنا بلند کیا ہے کہ اب ہر کوئی اس میں علاج کر سکتا ہے اور مزید پچاس بستر اس ہسپتال میں لگیں گے
انکے بقول ہم نے تعلیم کا معیار اتنا بلند کیا ہے کہ شاید اب کوئٹہ اور دیگر اضلاع کے بچے یہاں سکالرشپ پر پڑھنے آئیں گے
انکے بقول سڑکوں کے جال بچھا دیے ہیں
ایک ایم پی اے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اتنے کم وقت میں چار دفعہ وزیراعلی کو پشین لایا ہوں
انکے بقول زمینداروں کو سولر پینلز کی مد میں دی جانے والی رقم سب سے پہلے پشین کو ملی ہے جو میں نے ممکن بنایا
اب بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس پشین کی بات کر رہا ہے؟
جس پشین میں ہم رہ رہے ہیں وہاں تو 2013 سے 2018 تک سٹی ایریا کے صرف تین فیڈرز تھے اور بجلی کم از کم اٹھارہ گھنٹے ہوتی تھی، اور جب سے یہ موصوف مسلط ہوا ہے تو فیڈر ضرور بڑھائے ہونگے لیکن بجلی 24 گھنٹے میں بمشکل 10 گھنٹے ملتی ہے, جب سے فارم 47 کی مدد سے موصوف آیا ہے اس دن سے تو بجلی 10 گھنٹے سے بھی کم ملتی ہے
ہم جس پشین میں رہ رہے ہیں اس میں 2013 سے 2018 تک ملکیار، منزکی، ڈب خانزی، اسماعیل زئی، ابراہیم زئی، منزری، علیزئی، سیمزئی، کاکازئی، شنغری، حاجیزئی، گانگلزئی، حرمزئی، خدائیدادزئی، بادیزئی، کربلا، ہیکلزئی، ملیزئی، یاسین زئی، نالی اور بٹے زئی جیسے دہی علاقوں میں بھی گیس کا لوڈ شیڈنگ بمشکل ہوتا تھا، لیکن جب سے موصوف آیا ہے ان اکثر گاؤں کے کنکشن ختم کر دیے گئے اور اب پشین سٹی میں بھی رات 11بجے سے صبح پانچ بجے تک گیس لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، جو دستیاب گیس ہے وہ بھی کمپریسر کی مدد سے کھینچنا ہوگا
بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس پشین کا ذکر کر رہے ہیں؟ جس پشین میں ہم رہتے ہیں اسکا واحد ہسپتال ڈاکٹر وکیل شیرانی نے مختلف این جی اوز کی مدد سے بھوت بنگلے سے ہسپتال کی شکل میں تبدیل کیا اور یہی موصوف ہی تھے جنہوں نے اسے اس کام کی سزا دی اور ٹرانسفر کروایا، آج بھی اس ہسپتال میں ایک سرنج بھی مریض نے بازار سے خرید کر لے جانا ہوگا، باقی ادویات تو دور کی بات ہے۔
بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ موصوف کس پشین کی بات کر رہے ہیں؟ جس پشین میں ہم رہتے ہیں اس میں 2013 سے 2017 تک کے دور میں صرف 46 سکولز بند تھے اور موصوف کے دور میں وہ تعداد بڑھ کر 296 تک پہنچ گئی اور پورے پشین کے 1100 سکولز میں ایک ہی ایسا سکول ہے جس میں کوئی اپنے بچے کو کھلے دل سے بھیج سکتا ہے وہ سکول ماڈل ہائی سکول پشین ہے جسکے پرنسپل کلیم اللہ کاکڑ نے اپنے ذاتی تعلق کی بنیاد پر اس مہمان خانے اور کوارٹر گھاٹ کو سکول میں بدل دیا اور آج بھی چیف جسٹس صاحب کی مدد سے وہاں ترقیاتی کام جاری ہے، کلیم اللہ کاکڑ بھی 2015 میں اس سکول میں پرنسپل تعینات ہوا، موصوف نے اپنے دور میں دس دفعہ انہیں ہٹانے کی کوشش کی ہے لیکن ناکامی کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کہ کلیم اللہ کاکڑ صاحب کے بیک پر مضبوط ہاتھ ہیں جو ان مذموم عزائم کو خاک میں ملاتے ہیں
بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس پشین کی بات کر رہے ہیں؟ جس پشین میں ہم رہتے ہیں اسکے 2013 میں بننے والے پشین تا ہیکلزئی اور پشین تا بٹے زئی سڑک ابھی تک ثابت یے لیکن موصوف کے دور میں پانچ سال میں پانچ دفعہ بننے والا یارو تا پشین روڈ اب بھی ٹینڈر کا منتظر ہے
بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس ترقی کی بات کر رہے ہیں؟ جس پشین میں ہم رہتے ہیں اس کے 2021 کے سیلاب میں بہہ جانے والے تمام پل ابھی تک اسی حالت میں پڑے ہیں اور زمینداروں اور ٹرانسپورٹر حضرات کے کروڑوں کا نقصان صرف ڈب کراس پل کی وجہ سے ہو رہا ہے
ایک بھی ڈیم نہیں بنایا، ایک بھی ہائی سکول کا اضافہ نہیں کیا، ایک بھی کالج یا یونیورسٹی برانچ کا اضافہ نہیں کیا بلکہ 2013 کے دور میں جو کیمپس آئے تھے وہ بھی آخری سانسیں لے رہی ہیں،
سمجھ نہیں آ رہا کہ کل انکی جانب سے بیان کیا گیا پشین گوگل میپ پر کہاں واقع ہے؟
جس پشین میں ہم رہتے ہیں اسکی حالت قابل رحم ہے۔
تحریر: عبداللہ اچکزئی