Ahl-e-Qalam اھل قلم

  • Home
  • Ahl-e-Qalam اھل قلم

Ahl-e-Qalam اھل قلم Articles that meet the criteria are shared here in Ahl-e-Qalam.

ایم پی ایز کا پشین اور زمین پر موجود پشین میں فرق کیوں ہے؟کل ایک پروگرام میں پشین کے دو ایم پی ایز مدعو تھے، دونوں کی با...
06/12/2024

ایم پی ایز کا پشین اور زمین پر موجود پشین میں فرق کیوں ہے؟

کل ایک پروگرام میں پشین کے دو ایم پی ایز مدعو تھے، دونوں کی باتیں سن کر سامعین ششدر رہ گئے کہ اتنے ترقیاتی کام ہوئے ہیں، پشین کے عوام کو اتنی سہولیات فراہم کی گئی ہیں؟ اور ہمیں پتہ بھی نہیں

انکے بقول صرف پشین سٹی ایریا کے لیے چار فیڈر مکمل ہو چکے ہیں جو پشین سٹی کو چوبیس گھنٹے بجلی دے گی
انکے بقول انہوں نے ہسپتال کا معیار اتنا بلند کیا ہے کہ اب ہر کوئی اس میں علاج کر سکتا ہے اور مزید پچاس بستر اس ہسپتال میں لگیں گے

انکے بقول ہم نے تعلیم کا معیار اتنا بلند کیا ہے کہ شاید اب کوئٹہ اور دیگر اضلاع کے بچے یہاں سکالرشپ پر پڑھنے آئیں گے

انکے بقول سڑکوں کے جال بچھا دیے ہیں

ایک ایم پی اے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اتنے کم وقت میں چار دفعہ وزیراعلی کو پشین لایا ہوں

انکے بقول زمینداروں کو سولر پینلز کی مد میں دی جانے والی رقم سب سے پہلے پشین کو ملی ہے جو میں نے ممکن بنایا

اب بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس پشین کی بات کر رہا ہے؟

جس پشین میں ہم رہ رہے ہیں وہاں تو 2013 سے 2018 تک سٹی ایریا کے صرف تین فیڈرز تھے اور بجلی کم از کم اٹھارہ گھنٹے ہوتی تھی، اور جب سے یہ موصوف مسلط ہوا ہے تو فیڈر ضرور بڑھائے ہونگے لیکن بجلی 24 گھنٹے میں بمشکل 10 گھنٹے ملتی ہے, جب سے فارم 47 کی مدد سے موصوف آیا ہے اس دن سے تو بجلی 10 گھنٹے سے بھی کم ملتی ہے

ہم جس پشین میں رہ رہے ہیں اس میں 2013 سے 2018 تک ملکیار، منزکی، ڈب خانزی، اسماعیل زئی، ابراہیم زئی، منزری، علیزئی، سیمزئی، کاکازئی، شنغری، حاجیزئی، گانگلزئی، حرمزئی، خدائیدادزئی، بادیزئی، کربلا، ہیکلزئی، ملیزئی، یاسین زئی، نالی اور بٹے زئی جیسے دہی علاقوں میں بھی گیس کا لوڈ شیڈنگ بمشکل ہوتا تھا، لیکن جب سے موصوف آیا ہے ان اکثر گاؤں کے کنکشن ختم کر دیے گئے اور اب پشین سٹی میں بھی رات 11بجے سے صبح پانچ بجے تک گیس لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، جو دستیاب گیس ہے وہ بھی کمپریسر کی مدد سے کھینچنا ہوگا

بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس پشین کا ذکر کر رہے ہیں؟ جس پشین میں ہم رہتے ہیں اسکا واحد ہسپتال ڈاکٹر وکیل شیرانی نے مختلف این جی اوز کی مدد سے بھوت بنگلے سے ہسپتال کی شکل میں تبدیل کیا اور یہی موصوف ہی تھے جنہوں نے اسے اس کام کی سزا دی اور ٹرانسفر کروایا، آج بھی اس ہسپتال میں ایک سرنج بھی مریض نے بازار سے خرید کر لے جانا ہوگا، باقی ادویات تو دور کی بات ہے۔

بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ موصوف کس پشین کی بات کر رہے ہیں؟ جس پشین میں ہم رہتے ہیں اس میں 2013 سے 2017 تک کے دور میں صرف 46 سکولز بند تھے اور موصوف کے دور میں وہ تعداد بڑھ کر 296 تک پہنچ گئی اور پورے پشین کے 1100 سکولز میں ایک ہی ایسا سکول ہے جس میں کوئی اپنے بچے کو کھلے دل سے بھیج سکتا ہے وہ سکول ماڈل ہائی سکول پشین ہے جسکے پرنسپل کلیم اللہ کاکڑ نے اپنے ذاتی تعلق کی بنیاد پر اس مہمان خانے اور کوارٹر گھاٹ کو سکول میں بدل دیا اور آج بھی چیف جسٹس صاحب کی مدد سے وہاں ترقیاتی کام جاری ہے، کلیم اللہ کاکڑ بھی 2015 میں اس سکول میں پرنسپل تعینات ہوا، موصوف نے اپنے دور میں دس دفعہ انہیں ہٹانے کی کوشش کی ہے لیکن ناکامی کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کہ کلیم اللہ کاکڑ صاحب کے بیک پر مضبوط ہاتھ ہیں جو ان مذموم عزائم کو خاک میں ملاتے ہیں

بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس پشین کی بات کر رہے ہیں؟ جس پشین میں ہم رہتے ہیں اسکے 2013 میں بننے والے پشین تا ہیکلزئی اور پشین تا بٹے زئی سڑک ابھی تک ثابت یے لیکن موصوف کے دور میں پانچ سال میں پانچ دفعہ بننے والا یارو تا پشین روڈ اب بھی ٹینڈر کا منتظر ہے

بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس ترقی کی بات کر رہے ہیں؟ جس پشین میں ہم رہتے ہیں اس کے 2021 کے سیلاب میں بہہ جانے والے تمام پل ابھی تک اسی حالت میں پڑے ہیں اور زمینداروں اور ٹرانسپورٹر حضرات کے کروڑوں کا نقصان صرف ڈب کراس پل کی وجہ سے ہو رہا ہے

ایک بھی ڈیم نہیں بنایا، ایک بھی ہائی سکول کا اضافہ نہیں کیا، ایک بھی کالج یا یونیورسٹی برانچ کا اضافہ نہیں کیا بلکہ 2013 کے دور میں جو کیمپس آئے تھے وہ بھی آخری سانسیں لے رہی ہیں،

سمجھ نہیں آ رہا کہ کل انکی جانب سے بیان کیا گیا پشین گوگل میپ پر کہاں واقع ہے؟
جس پشین میں ہم رہتے ہیں اسکی حالت قابل رحم ہے۔

تحریر: عبداللہ اچکزئی

اسلام،پشتون روایات اور پشین سرکار !!رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر ؓ کی شہادت کے موقع پر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمای...
01/12/2024

اسلام،پشتون روایات اور پشین سرکار !!

رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر ؓ کی شہادت کے موقع پر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو ،اس لیے کہ ان کو ایسی خبر پہنچی ہے جو ان کو مشغول کرے گی، یعنی جعفرؓ کی شہادت کی خبر سن کر صدمہ اور رنج میں مشغول ہوکر کھانے پینے کے انتظام کی خبر نہیں رہےگی۔

جس گھر میں فوتگی ہوجائے، تو اس گھر کے لوگ غمزدہ اور رنجیدہ ہوتے ہیں اور ان کے دل و دماغ پر غم کی کیفیت طاری ہوتی ہے، اس لیے اسلام نے ان کے پڑوسیوں، عزیز و اقارب کا یہ اخلاقی فريضہ ٹھہرایا ہے کہ وہ اہلِ میت اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے لیے تین دن تک کھانے کا بندوبست کریں۔

جبکہ پشین پولیس کے ایس ایچ او نے رنجیدہ خاندان کے فاتحہ خوانی میں شرکت کرنے والوں کو گرفتار کرنے کیلئے مسجد پر چھاپہ مار کر گھر والوں کو مزید پریشانی میں مبتلاء کیا۔ مرحوم احمد ولی کے والد کے مطابق مسجد کے امام کو بھی دھمکی دی گئی کہ آپ بھی ہمارے ساتھ تھانے چلیں۔ حالانکہ پولیس پی ٹی آئی والوں کو فاتحہ کے بعد مسجد کے باہر بھی آسانی سے گرفتار کرسکتی تھی وہ مسجد سے ہیلی کاپٹر میں تو نہیں بھاگ رہے تھے۔

پھر جب میت والے خاندان کے جوانوں نے فاتحہ خوانی میں شرکت کرنے والوں کی مسجد کے اندر گرفتاری کو اپنی بےعزتی سمجھ کر اپنے مہمانوں کو بچانے پولیس کے حوالے نہ کیا تو پولیس نے رات دس بجے کے قریب میت والے خاندان کے جوانوں کو گرفتار کرنے کیلئے اُن کے گھر پر چھاپہ مارا جس سے مرحوم احمد ولی کی والدہ گلی میں بےہوش ہوگئی۔

گھر میں ایک بار پھر غم ایسا تازہ ہوا جیسے میت گھر والوں کے سامنے پڑی ہو جس سے نہ صرف میت والا گھر بلکہ پورا گاوں پریشان ہوا گھر کے جوانوں کو ہمسایوں کے گھروں میں رات گزارنی پڑی۔

نہ اسلام کو دیکھا نہ پشتون روایات کو دیکھا پتہ نہیں یہ کیسے لوگ ہیں۔ اور یہی فاتحہ خوانی اگر علاقے کے کسی بدمعاش یا خان، ملک کے گھر میں ہوتی تو ایس ایچ او مسجد پر چھاپہ مارنا تو بہت دور کی بات میت والے خاندان کو کال کرکے یہ بات کرنے کی جُرت بھی نہ کرتے کہ ملک صاحب فلاں کی گرفتاری کیلئے اوپر سے آرڈر ہے،

اُن سے کہے کہ جلد از جلد وہاں سے کسی محفوظ جگہ چلے جائے۔ ملک صاحب یہی بتاتے کہ خبردار اگر اُنہیں آج گرفتار کیا کیونکہ وہ ہماری فاتحہ خوانی میں شرکت کرنے کیلئے آیا ہے اگر وہ آج گرفتار ہوئے تو یہ میری بےعزتی ہوگی۔

ایس ایچ او صاحب یہ کہہ کر فون بند کرتے کہ نہیں ملک صاحب میں صرف آپ کو خبر دے رہا تھا کیونکہ اوپر سے آرڈر آیا تھا باقی آپ کا مہمان ہمارا مہمان ہے بےفکر رہے۔

جبکہ دوسری طرف شریف، کمزور کے نہ صرف مسجد میں فاتحہ خوانی پر چھاپہ مارا بلکہ رات کو اُن کے گھر پربھی چھاپہ مارا گیا جو انتہائی گھٹیہ عمل ہے۔ ایف سی والے بھی ایسا نہیں کرتے حالانکہ اُن کو پولیس کی بنسبت زیادہ ظالم اور بےوقوف سمجھا جاتا ہے۔

انگریزوں کو اللہ تعالی ایمان اور جنت نصیب کریں جنہوں نے یہ موبائل اور انٹرنیٹ ایجاد کئے ورنہ اِن ظالموں کے ظلم کا کسی کو پتہ بھی نہ چلتا۔ اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کیلئے بھی کوئی سسٹم نہ ہوتا بس سخت سے سخت ظلم پر خاموشی اختیار کرکے برداشت کرنا پڑتا۔

نعمت اللہ خوشحال

30/11/2024

د بابړه سانحه
کيسه داسې وه چې د کال 1948 د جولايي پۀ میاشت کښې د سرحد حکومت یو "بل" وړاندې کړ چې حکومت کؤلے شي، هر څوک بغېر د څۀ دلیل نه ونیسي، جېل ته یې واچوي او د هغۀ جایداد ضبط کړي. ددې پرېکړې ترمخه نیول شوے وګړے دا حق هم نۀ لري چې هغه د خپلې ګرفتارۍ خلاف اپیل وکړي. ددې بل د پاس کېدو نه پس د باچاخان، ډاکټر خان، ولي خان، غني خان او د قاضي عطأالله خان پۀ ګډون د خدايي خدمتګار تحريک زرګونه کسان بغېر د څۀ جرم او ګناه پۀ جېلونو کښې بند کړے شؤل. د دوي زمکې او جايدادونه هم ضبط شؤل. ددې خلاف د اشنغر او د نورې پښتونخوا خلکو د يو سولیز لاريون هڅه وکړه او د چارسدې د بابړې پۀ ميدان کښې د راټولېدو يې پرېکړه وکړه. جلوس روان وۀ او چې بابړې ته را ورسېد نو دلته د پوليسو لخوا ورباندې مخامخ ډزې شورو شوې. کابو 612 یا زیات پښتانۀ شهيدان او زر نور يې زخميان کړل.
دومره ډېره مرګ ژوبله يې وکړه چې پۀ وروستیبال کې ښځې لۀ کورونو نه راووتې، قرانونه يې پۀ سرونو نيولي وو او د امن سوالونه يې کؤل. ويل کېږي چې پوليسو بیا هم ډزې بس نۀ کړې او قرانونه یې هم وویشتل.
د انسانانو پۀ وينو يې لارې کوڅې ولړلې او پۀ دې هم تمامه نۀ شوه. د مړو او زخميانو بېعزتي وشوه او هغه داسې چې ځنې مړي او نيمه مړي وجودونه سيند ته وغورځؤل شول.
کوم خلک چې پۀ دغې پېښه کښې شهيدان او زخميان شؤل د هغوے لۀ کورنيو نه حکومت د ټوپک د ګوليو او بارودو د نقصان پوره کؤلو پيسې وغوښتې. ددې لپاره يې د مړو جسدونه ایسار کړل او د زخميانو علاج يې ودراوۀ. ښه وه چې د باچاخان پۀ وينا د هغۀ خپله زمکه خرڅه کړے شوه او حکومت ته يې د خلکو د وژلو لۀ وجې د شوي نقصان تاوان ورکړ.
د پېښې د ګواهانو ترمخه دغه ورځ د قيامت لۀ ورځې نه کمه نه وه. هره خوا مړي او زخميان پراتۀ وو، چې پکښې ماشومان او مېرمنې هم وې. د هغې وخت د اخبار خبر دا وۀ چې پولیسو پۀ سرخپوشو ډزې کړي چې پینځلس کسان یې وژلي دي. د تور درواغژن صحافت او د ریاستي پراپېګنډې دا تاریخ هم د ریاست د زېږون لۀ ړومبۍ ورځې دے چې تر ننه دوام لري.
دا هر څۀ د هغۀ وخت د سرحد حاکم "قيوم خان کشميري" پۀ امر وشؤل چا چې يو وخت پۀ خپل کتاب کښې د باچاخان ډېر تعريفونه کړي وو خو کله چې يې د انګرېزانو او انګرېزپالو چاپلوسي شورو کړه نو پۀ هماغۀ خپل کتاب يې بندېز ولګاوۀ، لۀ خلکو نه يې په لوړه بيه واخيست او لۀ بازارونو څخه یې را ټول کړ.
ددې دومره ظلم او وینخړ نه وروسته قیوم خان پۀ اسمبلۍ کښې ویلي وو چې پۀ اشنغر کښې کرفیو وه او د دوے نصیب ښۀ وۀ چې پۀ ټوپکونو کښې مرمۍ خلاسې شوې. ولې د هغې وخت د کمشنر د وینا ترمخه پۀ دې ورځ هېڅ ګرځبندېز "کرفیو" نۀ وۀ.

پۀ نصاب کښې مې ټېپو، بابر، تېمور دي
د بابــــــــړې پېښه نشته، نــــۀ ټکر شته
د قاتــــل کاړتوس پیسې مې هم ورکړي
لــۀ یزید ځنې بهیـــره! لا بتـــــــــر شته

بلوچستان میں ابلاغ عامہ آغاز و ارتقاء(1888 تا 2005)، اسلام آباد، صفحہ 178 ڈاکٹر سیمی نغمانہ، ڈین فیکلٹی کراچی یونیورسٹی ...
30/11/2024

بلوچستان میں ابلاغ عامہ آغاز و ارتقاء
(1888 تا 2005)، اسلام آباد، صفحہ 178
ڈاکٹر سیمی نغمانہ، ڈین فیکلٹی کراچی یونیورسٹی



خان عبدالصمد خان اچکزی ایک مضبوط اور متعین سیاسی فکر رکھنے والے رہنما اور صحافی تھے. ان کے سیاسی افکارو نظریات سے اختلاف کی گنجائش تو رکھی جا سکتی ہے مگر اپنے مقاصد اور نظریے کے ساتھ ان کی بےلوث محبت اور قربانیوں کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. بلوچستان کی صحافت اور سیاست کی تاریخ کا وہ نہایت روشن اور تابندہ باب ہیں اور اگر انھیں مہلت دی جاتی تو وہ بلوچستان کی صحافت کیلئے اور بہت کچھ کر پاتے. خان عبدالصمد خان نے ٹوٹ ٹوٹ اور بکھر بکھر کر جیسے اور جتنے عرصے تک مطلق العنان انگریز اور پھر دیسی حکمرانوں کے استبدادی رویوں کے باوجود قلم کی آبرو کو زندہ رکھا بلوچستان بلکہ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں اب بھی اس کی نظیر ملنی ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے.

حوالہ:
پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ، بلوچستان میں ابلاغ عامہ
آغاز و ارتقاء (1888 تا 2005)، اسلام آباد، صفحہ 178

29/11/2024

اے این پی کی کمزوریاں
#شازار جیلانی
یہ دعویٰ میں یقین کے ساتھ کرتا ہوں، کہ خیبر پختونخوا میں ترقی کے اعتبار سے، امیر حیدر خان ہوتی کی گزشتہ حکومت سے بہتر حکومت، پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں آئی۔ اگرچہ اس وقت پختونخوا صوبہ میں ایک مسلط کردہ جنگ بھی جاری تھی، جس کا الزام بھی پروپیگنڈا مشینری اے این پی پر ڈال رہی تھی۔
ایک طرف جنگ، دہشت گردی، خود کش حملے اور سیاسی قتل ہو رہے تھے، سکول اڑائے جا رہے تھے، کالجز اور یونیورسٹیاں ٹارگٹ کی جا رہی تھیں، اور دوسری طرف ان سب کے باوجود ، کالجز، یونیورسٹیاں، ہسپتال اور جدید ذرائع مواصلات مہیا کی جا رہی تھیں۔ پولیس کو جدید اسلحہ، ٹریننگ، اوزار، گاڑیاں اور اچھی تنخواہیں مل رہی تھیں۔ مزید اساتذہ بھرتی کئے جا رہے تھے۔
پختونوں کی خودساختہ بدقسمتی یہ ہے، کہ یہ پروپیگنڈا کے بہت جلد شکار ہوجاتے ہیں، جنکی سوفٹ بلی، یعنی نرم ہدف تین ہیں، یعنی غیر سیاسی شعور، مذہب پرستی اور بہادری۔ جب پروپیگنڈسٹ کہتے ہیں، کہ پختون بہت بہادر ہے۔ تو پختون اس پروپیگنڈا کو سچ ثابت کرنے کیلئے اپنے ساتھ بم باندھ کر پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے، اور وہاں سے بتائے گئے دشمن پر چھلانگ لگا دیتا ہے، خواہ وہ اس کا سگا بھائی کیوں نہ ہو۔ اس دوران وہ اپنے بچوں، ان کے مستقبل، اور نہ بوڑھے والدین کے بارے میں سوچتا ہے، اور نہ اپنی زندگی کو کوئی اہمیت دیتا ہے۔ کیونکہ اس کو سمجھایا گیا ہے کہ موت ایک بار آتی ہے۔
دوسری اسکی بیجا مذہب پرستی ہے۔ سب تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سب سے "زیادہ مسلمان" ہے، لیکن پھر بھی وہ ہر وقت یہ دعویٰ سچ ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے۔ تیسری اور سب سے اہم بات جس سے پختون کا استحصال کیا جاتا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ پختونخوا کے باشندے بہت زیادہ سیاسی شعور کے مالک ہیں، اس لیے وہ دوبارہ کسی حکومت کو موقع نہیں دیتے۔ جبکہ یہی خیبر پختونخوا کے پختونوں کی سب سے بدقسمتی اور سیاسی حماقت بھی ہے، کہ وہ اس پروپیگنڈا کے شکار ہوکر اپنے پیروں پر بار بار کھلاڑی چلاتے ہیں۔
امیر حیدر خان ہوتی کو اتنے بدترین حالات میں بھی اتنا کچھ کرنے کے باوجود دوبارہ ووٹ نہ دینا خیبر پختونخوا کے پختونوں کے اسی ذہنی سیاسی نابالغ پن کا ثبوت زندہ ہے۔
پنجاب میں پینتیس سال سے نون لیگ کی شہباز شریف کی پنجابی قوم پرست حکومت موجود ہے۔ اس کی حکومت سے جو بنتا ہے، وہ اپنے صوبے اور خصوصاً لاہور کیلئے کرتی آئی ہے۔ عمران خان نے جونہی لاہور میں اس کیلئے مسائل بنانے شروع کئے، تو وہ ایسٹبلشمنٹ کی ہم آواز بن کر اسے مٹانے پر تل گئی۔ لیکن غیر سیاسی پختونوں کو ساتھ ملا کر خیبر پختونخوا میں امیر حیدر خان ہوتی کو دوسری باری نہیں لینے دی گئی، تاکہ وہ اپنے ادھورے منصوبے پورے کرکے کہیں مستقل بیٹھ نہ جائے۔ جس قسم کی جنگ کا سامنا حیدر خان ہوتی نے کیا تھا، اگر ویسی جنگ شہباز شریف پر مسلط کردی جائے، تو ترقی اور ابادی تو دور وہ اپنے کبھی اپنے گھر سے بھی نہیں نکل سکے گا۔
اے این پی کے پاس الیکشن جیتنے کیلئے سارے مصالحے اور حالات موجود ہیں۔ قربانیوں اور قید و بند کی لمبی داستان، ترقی اور عزیمت کی شاندار مثالیں، نوجوان لیڈرشپ، لیکن ایک تو اس کا بیانیہ اصل مسائل پر مرکوز نہیں، دوسرا وہ پی ٹی آئی کو ٹارگٹ کر رہا ہے، جو اس وقت خود وکٹم کارڈ بڑی کامیابی سے کھیل رہا ہے، جس کی وجہ سے اے این پی کی بات موثر تو کیا بیک فائر کر رہی ہے، اور تیسرا اے این پی جانتی نہیں کہ وہ اپنے اتنے شاندار مصالحے دار بیانیہ کو کیسے مارکیٹ کرے۔
فوری کرنے کا کام یہ ہے، کہ پی ٹی آئی کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے اس کے کارکنان کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں۔
ایسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ پختونخوا میں اے این پی کی علاج کیلئے مذہبی سیاست کی دانے درمے سخنے مدد کی، جس نے گزشتہ دو عشروں میں اے این پی کو جڑ سے اکھاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
عمران خان آیا تو اس نے اے این پی پر سیاسی احسان کرتے ہوئے مذہبی سیاست کیلئے سر چھپانے کیلئے جائے پناہ اور الیکشن لڑنے کیلئے کوئی محفوظ سیٹ نہیں چھوڑی۔
اے این پی اگر سیاسی سٹریٹیجی سمجھتی، یا اتنی کمزور پچ پر نہ کھیلتی تو پی ٹی آئی کے قریب جاتی، تاکہ صوبے سے مذہبی سیاست کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیا جاتا، لیکن اس نے اس کی بجائے پی ٹی آئی کے مردہ گھوڑے اور عوامی ہمدردی کے حامل جماعت پر زور آزمائی شروع کردی۔ یوں ان کی سیاسی انرجی، ایک غیر ضروری اور ہاری ہوئی جنگ میں غلط محاذ پر دوسروں کی خوشنودی کیلئے ضائع ہو رہی ہے۔
پاکستان کی سیاست شاہد ہے کہ عوام نے ہمیشہ اینٹی ایسٹبلشمنٹ پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔
ریاست پاکستان کا بیانیہ ہے کہ عمران خان پاکستان کی ساری خرابیوں کا ذمہ دار ہے، اور دوسرا دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے، اور ان دونوں باتوں میں اے این پی ریاست کی ہمنوائی کرتی ہے۔ جو ان کی ناقابلِ برداشت بیگیج بنا ہوا ہے۔
باقی پھر کبھی سہی۔
پاسہ لالیہ مازیگر دی

جمہوریت کے سچے پاسبان تحریر: ذریاب اچک2007 میں لندن میں میثاقِ جمہوریت کے نام پر بننے والے سیاسی اتحاد نے انتخابات میں ح...
22/10/2024

جمہوریت کے سچے پاسبان
تحریر: ذریاب اچک
2007 میں لندن میں میثاقِ جمہوریت کے نام پر بننے والے سیاسی اتحاد نے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت تمام سیاسی قوم جماعتوں جس میں ن لیگ پی پی پی اے این پی پی میپ جے یو آئی جے آئی پی ٹی آئی بی این پی مینگل و دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے۔ اس فہرست میں تین اہم شخصیات شامل تھیں،جو اپنے موقف پر سچے اور ڈٹے رہے ان میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جماعت اسلامی کے قائد مرحوم قاضی حسین احمد، اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی۔
یہ تینوں قائدین نہ صرف اس وقت اپنے موقف پر ڈٹے رہے بلکہ آج بھی ان کی جماعتیں اور ان کے جانشین اپنے اصولوں پر قائم ہیں۔ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ ان کی جانب سے جمہوریت پر مکمل یقین اور غیر لچکدار موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ اس وقت بھی میں نے ایک تجزیہ پیش کیا تھا کہ مستقبل قریب میں یہ تینوں رہنما ایک ہی لائن پر آئیں گے اور حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کریں گے۔ میرے اس تجزیے کا کئی لوگوں نے مذاق بھی اڑایا، لیکن وقت نے میری بات کو سچ ثابت کیا۔
آج بھی یہ تین جماعتیں اپنے اصولوں پر قائم ہیں، جبکہ دیگر کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مجبوری یا مفادات کے تحت ترمیمی مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ لیکن عمران خان، جماعت اسلامی کے موجودہ قائد حافظ نعیم الرحمن، اور محمود خان اچکزئی نے اپنی تاریخی بائیکاٹ پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے جمہوریت کی پاسداری کی۔
یہ موقف نہ صرف ان کے اصولوں کی بلندی کا مظہر ہے بلکہ یہ ااس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جمہوریت کے حقیقی محافظ ہیں، جو اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے اور ملک کے لیے ایک مضبوط اصولی مؤقف پر قائم رہے۔
تاریخ میں ان کے نام ہمیشہ ان قائدین کے طور پر لکھے جائیں گے جنہوں نے جمہوریت کے اصولوں کی پاسبانی کی اور عوامی مفاد کے لیے اپنے موقف کو قربان نہیں کیا۔
باقی جو سیاستدان ووٹ کے حق میں گئے وہ نہ لیڈر ہے اور نہ رہینگے کیونکہ ان کو ریٹ مل گئے ورنہ سیاسی لیڈر کی قد کاٹ کسی بھی ریٹ کا محتاج نہیں..........

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیرمین و رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی کسی تعارف کے محتاج نہیں اور نہ ہی موصوف کا جمہوری...
22/10/2024

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیرمین و رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی کسی تعارف کے محتاج نہیں اور نہ ہی موصوف کا جمہوریت کے لئے قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی ہے ،

محمود خان اچکزئی کے ساتھ لوگوں کے سیاسی اختلافات ضرور ہوں گے لیکن مجھ سمیت کسی کا ذاتی اچکزئی صاحب کے ساتھ ذاتی اختلاف نہیں ہوگا

سیاسی کھیل میں بھی ایسی سیاسی جماعتیں اور سیاست دانوں میں بھی ایسے درجنوں چہرے ہیں جن کا کردار بیان کرنے کے قابل نہیں جو ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کے مفادات کیلئے استعمال ہوتے رہے ہیں

لیکن پاکستانی تاریخ میں کوئی بھی ادارہ یا شخص یہ ثابت نہیں کر سکے گا کہ محمود خان اچکزئی کسی ایسے عمل کا حصہ بنے جو جمہوریت کے خلاف ہو ، آئین پاکستان کے خلاف ہو ، عدلیہ کی خودمختاری کے خلاف ہو ، میڈیا کی آزادی کے خلاف ہو ، پارلیمنٹ کی سپریمیسی کے خلاف ہو

محمود خان اچکزئی موجودہ پارلیمان کا وہ واحد رکن ہے جس کے ساتھ کسی نے 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کیلئے رابطہ نہیں کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ محمود خان اچکزئی کبھی بھی کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں بنے گا جو پارلیمنٹ اور عدلیہ کی خودمختاری کے خلاف ہو

موجودہ آئینی ترمیم میں عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کو نہ صرف محدود کردیا گیا بلکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کا انتخاب بھی اب سینئر ترین ججوں میں سے ہوگا یعنی جو جج اپنے فیصلوں میں حکومت وقت کو ریلیف دے گا اسی کا انتخاب کیا جائے گا

26ویں آئینی ترمیم وہ زہر ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی عوام کو پینا ہوگا

آئینی ترمیم میں کیا ہے اور کیا نہیں اس سے متعلق تمام تر معلومات میڈیا کے مختلف ویب سائٹس پر موجود ہے اس لئے تفصیل سے لکھنے اور بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ،
تحریر ، عبدالروف بازئی

09/10/2024

نیشنل عوامی پارٹی کے خاتمے کا پروجیکٹ

عامر حسینی

بلوچستان میں 1974ء سے شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران جس بڑے پیمانے پر ماورائے عدالت قتل ہوئے، نیپ سے وابستہ سیاسی کارکنوں، مزدور رہنماؤں، صحافیوں، شاعروں ، ادیبوں اور طالب علموں کو گرفتار کیا گیا اور انھیں سیکورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اہلکاروں نے ٹارچ سیلوں میں اذیتیں دیں ، قلی کیمپ کے عقوبت خانوں سے جو کہانیاں باہر آئیں اس نے فوج کے خلاف پاکستان کے اندر کافی غم و غصے کو جنم دیا تھا-

بھٹو دور میں پیپلزپارٹی کے اندر اور باہر سے پنجاب ، سندھ اور صوبہ سرحد / خیبر پختون خواہ میں جو جمہوری ترقی پسند اپوزیشن تھی کی سب سے بڑی ترجمان نیشنل عوامی پارٹی تھی پر پابندی لگائی جا چکی تھی اور اس کے تمام قابل ذکر مرکزی و صوبائی لیڈر جیل میں تھے اور کچھ زیر زمین تھے اس لیے میدان مذھبی سیاسی جماعتوں اور سنٹر رائٹ کی جماعتوں کے لیے کھلا تھا جو اصل میں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں اور امریکی سرمایہ دار ی کیمپ کی دلال جماعتیں تھیں -

بھٹو صاحب کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت ایک بہت بڑے تضاد میں گھری ہوئی تھی - ایک طرف بھٹو صاحب نے علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کے میدان میں تھرڈ ورلڈ میں لیفٹ ونگ پاپولزم کے زیر اثر مسلم ممالک کے اتحاد اور اپنے تئیں انھیں سوویت یونین اور امریکی سرمایہ داری کیمپ کے قطبین سے نکال کر ایک تیسرا بلال تشکیل دینے کا "یوٹوپیائی" ایجنڈا اٹھا رکھا تھا - بھٹو صاحب مڈل ایسٹ کی عرب بادشاہتوں اور عرب قوم پرست بعث ازم کی حکومتوں کے ساتھ مل کر اور مڈل ایسٹ کے تیل کی کمائی سے پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی مملکت بناکر مسلم ممالک کے بلاک کے پرچارک بنے ہوئے تھے - دوسری جانب وہ پاکستان کے فوجی اور سویلین سیکورٹی آپریٹس کی مدد سے بلوچستان میں ایک ایسے فوجی آپریشن کا سیاسی چہرہ بنے ہوئے تھے جس نے ملک کے اندر جمہوری اور ترقی پسند حلقوں کے ایک بڑے حصے میں انھیں انتہائی غیر مقبول بناکر رکھ دیا تھا - پاکستان میں امریکی سرمایہ داری کیمپ کے دلال فوجی جرنیلوں پاکستان میں سوویت یونین کی قیادت میں کمیونسٹ بلاک اور ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کے حامی طبقات جن کی ترجمانی نیشنل عوامی پارٹی کر رہی تھی اور اس حامی ٹریڈ یونینز اور طلباء یونینز کو کچلنے اور ان کے حامی پریس کو ختم کرنے کے لیے پوری طرح سے استعمال کیا - پاکستان کی معشیت میں اس دور میں ایرانی سرمایہ کاری بڑی اہمیت کی حامل تھی اور فوج کو جدید طیاروں ہیلی کاپٹرز 'اسلحہ و گولہ و بارود کی فراہمی میں بھی ایران کا بڑا کردار تھا - بھٹو حکومت کے شاہ ایران کے جو سٹریٹیجک تعلقات تھے اس کی روشنی میں بھی شاہ ایران جو اس وقت خطے میں امریکی چوکیدار کے فرائض سر انجام دے رہا تھا کے ذریعے امریکی سرمایہ داری کیمپ سے شاہ ایران کو پاکستان میں نیشنل پارٹی کے بارے میں ملنے والی ہدایات کو نظر انداز کرنا مشکل ہو رہا تھا - جبکہ چین اور سوویت یونین کے درمیان جو جھگڑا چل رہا تھا اس کے تناظر میں چینی اسٹبلشمنٹ کو نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی- بھٹو صاحب اور ان کے حامی پریس نے جن میں ایک بڑا سیکشن چین نواز لیفٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے والا بھی تھا نیشنل عوامی پارٹی کو سوشل سامراج روس کا ایجنٹ قرار دیا - پیپلزپارٹی میں کنونشن لیگ کی باقیات ، زمیندار اشرافیہ اور 74ء میں بھٹو کے دائیں طرف مزید جھکاؤ سے شروع ہونے والی اسلامائزیشن پر مبنی رجعت پرستانہ اقدامات کو بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ گر دانے والے پنجابی حامیوں کا ایک بڑا سیکشن اور پیپلزپارٹی پنجاب کی حامی پرتوں میں کرش انڈیا اور اینٹی انڈیا کیمپ نیشنل عوامی پارٹی کو غدار ، ہندوستانی ایجنٹ بتلا رہا تھا -

بھٹو صاحب کی نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف تقریروں کا ایک بڑا حصہ بھی نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے حامیوں کے خلاف اینٹی انڈیا بیانیہ کو ہی تقویت پہنچا رہا تھا - بھٹو صاحب نے نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے حامیوں کو ملک کی سلامتی کے خلاف سب سے بڑا خطرہ بناکر پیش کر رہے تھے -

بھٹو 74ء سے اس کوشش میں بھی لگے رہے کہ وہ کسی طرح سے اپنے خلاف دائیں بازو کی پروپیگنڈہ اور منظم مہم میں سب سے طاقتور عنصر جماعت اسلامی کی قیادت سے بھی نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف اپنی مہم کے لیے تعاون حاصل کر لیں وہ اس خیال کے اتنے اسیر ہوئے کہ اچھرہ میں مولانا مودودی سے ملاقات کرنے جا پہنچے -

بھٹو کے دائیں طرف جھکاؤ کے خلاف خود ان کی پارٹی میں موجود بائیں بازو کے سیکشن جن میں ایک حصہ وہ بھی تھا جو نیشنل عوامی پارٹی (ولی خان) کیمپ سے ان کی پارٹی میں شامل ہوا تھا(پنجاب میں اس کی قیادت محمود قصوری کر رہے تھے) ان سے ٹکراؤ میں آیا تو بھٹو نے انہیں پنجاب کی تنظیم میں بے اثر اور غیر موثر بنانے کے لیے اپنی پارٹی کے دروازے پنجاب کی زمیندار اشرافیہ کے لیے کھول دیے اور 74ء میں پنجاب کے وہ بڑے زمیندار سیاسی گھرانے جنھیں ستر کے انتخابات میں عوام نے بدترین شکست سے دوچار کیا تھا کو بڑی تعداد میں اپنی پارٹی میں شامل کر لیا اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کی صدارت بہاولنگر کے ایک بڑے زمیندار سیاست دان میاں افضل وٹو کے سپرد کردی اور پنجاب کی وزرات اعلی ملتان ڈویژن کے اندر برطانوی راج سے چلی آ رہی زمیندار اشرافیہ کے درمیان تقسیم کے ایک کیمپ قریشی گروپ کے سربراہ نواب صادق قریشی کو دے ڈالی اور پنجاب کی پاور پالیٹکس اور پنجاب حکومت کی طاقت کا سب سے بڑا مرکز بھی لاہور اور ملتان میں وائٹ ہاوس کو بنایا- پنجاب کی بیوروکریسی اور پولیس کے ذریعے بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی کے اندر پارٹی کے دائیں سمت جھکاؤ خلاف لیفٹ اپوزیشن کو بھی غیر موثر بنا کر رکھ دیا - پیپلزپارٹی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی ان دنوں پنجاب کی زمینداراشرافیہ کی لونڈی بنی تو اس کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی پنجاب کے اضلاع میں پارٹی کی ضلعی تنظیموں میں شیخ محمد رشید، ڈاکٹر مبشر حسن ، خورشید حسن میر کے حامیوں کو بھی نکال باہر کیا گیا-
بھٹو فوجی جرنیلوں کی جانب سے بلوچستان کی فوجی مہم سے پیدا ہونے والی صورت حال میں فوج کے خلاف نفرت کو بھٹو اور پیپلزپارٹی کی طرف کرنے کی سازش اور منصوبہ بندی کا بر وقت ادراک نہ کرسکے - انھوں نے حیدرآباد جیل میں قید نیپ کی قیادت میں فوجی جرنیلوں کی منصوبہ بندی اور سازش کا سب سے زیادہ اور ٹھیک ادراک رکھنے کمیونسٹ سیاست دان میر غوث بخش بزنجو کی جانب سے نیپ کی قیادت سے مذاکرات کرنے اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کو بند کرانے کی تجویز پر عمل کرنے کی بجائے میر غوث بخش بزنجو پر نیپ سے الگ ہونے اور بروٹس بن جانے پر ہی سارا زور صرف کیے رکھا -( بزنجو وہ واحد سیاست دان تھے جو پہلے دن سے یہ نظریہ رکھتے تھے کہ فوجی جرنیل پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لیے پی پی پی اور نیپ کے درمیان تصادم کی سازش کر رہے ہیں اور وہ پی پی پی اور نیپ دونوں کو اس راستے پر چلنے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے لیکن بھٹو نے 1973ء کے آئین کی منظوری کے ہوتے ہی تصادم کے راستے پر چلنے اور اپنا اقتدار فوجی طاقت کے بل بوتے پر قائم کرنے کا راستا اختیار کیا - بھٹو نے کے پی کے سے اس راستے کے لیے اپنا بازو خان قیوم کو بنایا جسے وہ کبھی ڈبل بیرل خان جیسا جنسیت زدہ لقب جلسوں میں کھلے عام دیا کرتے تھے )

1975ء کے آتے آتے بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف اپنے اقدامات سے ایسی فضا پیدا کردی تھی جس سے جرنیلوں کو یہ موقعہ ملا کہ وہ بھٹو کی حکومت اور جمہوریت کی بساط لیٹے جانے کے لیے ایک ایسے اپوزیشن اتحاد کی تشکیل کا راستا ہموار کریں جس کی ڈوری پس پردہ ان کے ہاتھ میں ہو اور اسے پنجاب اور سندھ کے شہری مذھبی دائیں بازو اور سنٹر رائٹ جماعتوں کی قیادت کے پاس ہو اور اس اتحاد میں نیشنل عوامی پارٹی کے اندر موجود کمیونسٹ دھڑے کو ہر صورت الگ تھلگ رکھا جائے -

کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کمیونسٹ پارٹی کی نمائندگی سی سی پی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر اعزاز نذیر کرتے تھے وہ گرفتار نہیں تھے -
جون 1975ء میں بھٹو حکومت کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دیا جا رہا تھا جو متحدہ جمہوری محاذ- یو ڈی ایف کے نام سے تشکیل پایا - اس اتحاد کی اصل طاقت پاکستان مسلم لیگ -قیوم کے ملک قاسم ، پی ڈی پی کے نوبزادہ نصر اللہ ، جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل ، تحریک استقلال پارٹی کے ائر مارشل (ر) اصغر خان ، جے یو آئی کے مفتی محمود ، جے یو پی کے مولانا شاہ احمد نورانی ، مسلم لیگ آزاد کشمیر کے صاحبزادہ عبدالقیوم ، خاکسار پارٹی کے خان اشرف ، مسلم لیگ کے چوہدری ظہور الٰہی تھے -

جون میں کامریڈ رمضان میمن کے بقول کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر اعزاز نذیر نے لاہور میں پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا ایک اجلاس یو ڈی ایف کی لاہور میں کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد سے ایک روز پہلے بلایا گیا اور اس میں ڈاکٹر اعزاز نذیر نے انکشاف کیا کہ امریکی سرمایہ داری کیمپ کی اشیر باد سے پاکستانی فوج کے جرنیلوں نے بھٹو حکومت کا خاتمہ کرنے اور بھٹو کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنا لیا ہے کیونکہ بھٹو کو وہ پاکستان میں نیشنل عوامی پارٹی کو ختم کرنے کا کام لے چکے اور بھٹو کی مسلم ممالک کے بلاک کے قیام کی کوششیں امریکی کیمپ کے لیے ناقابل قبول ہیں اور امریکی کیمپ پاکستان میں اپنے جرنیل دلالوں اور ان کے راتب خور سیاسی مذھبی جماعتوں کو بھٹو حکومت کے خاتمے کے لیے استعمال کریں گے - ڈاکٹر اعزاز نذیر کی قیادت میں کالعدم نیپ میں موجود سی سی پی کے اراکین کے ساتھ کل جماعتی کانفرنس میں جرنیلوں کی منصوبہ بندی کو بے نقاب کرنے اور مذھبی جماعتوں کے دلال کردار کو ننگا کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کی گئی - لیکن کانفرنس کے پہلے دن اسٹیج پر نہ تو ڈاکٹر اعزاز نذیر کو بیٹھنے کی اجازت ملی اور نہ انھیں تقریر کرنے دی گئی - اسٹیج کے سامنے جب نیپ کے کارکنوں نے ڈاکٹر اعزاز نذیر کی قیادت میں بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کرو ، بلوچستان سے فوج واپس بلاو، فوجی جرنیل مردہ باد کے نعرے لگائے گئے تو خاکسار پارٹی کے بیلچہ بردار کارکنوں نے نیپ کے کارکنوں پر بیلچوں سے حملہ کردیا - جس سے ڈاکٹر اعزاز نذیر سمیت کئی کارکن زخمی ہوگئے - دوسری جماعت اسلامی کے کارکنوں نے نیپ کے نعرے لگانے والے کارکنوں کو پیپلزپارٹی کے ایجنٹ قرار دے ڈالا - دوسرے دن نیپ کے مرکزی رہنما اور سینٹ میں ڈپٹی چیئرمین ہاشم غلزئی اسٹیج پر بٹھائے گئے اور انھوں نے نیپ کی طرف سے اپنے علاوہ رفیق کھوسو کو تقریر کی دعوت دی تو جب رفیق کھوسو نے بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کرنے ، اسیر قیادت اور کارکنوں کو رہا کرنے اور نیپ کی قیادت پر چل رہے بغاوت و غداری کے خصوصی ٹربیونل کے مقدمے کے خاتمے کی مانگ پر مبنی تقریر کی تو پیچھے سے ان کی قمیض کھینچنے اور انھیں اسٹیج سے اتارنے کی کوشش کی گئی یہاں تک کہ ایک موقعہ پر ڈائس پیچھے کو گرنے لگا - صاحبزادہ عبدالقیوم نے جب فوج کی زیر نگرانی انتخابات کرانے کی قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی تو نیپ کے کارکنوں نے شور مچا دیا اور پنڈال میں سے بھی اس کے خلاف آوازیں آنے لگیں تو ملک قاسم نے نیپ کے لوگوں سے کہا وہ نیچے بیسمنٹ میں بیٹھ کر بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کرنے سمیت اپنے دیگر مطالبات پر مشتمل قرارداد تیار کریں اور وہ نیپ کے لوگوں کو نیچے لے گئے اور خود اوپر جاتے ہوئے باہر سے کنڈی لگا گئے - اس دوران یو ڈی ایف کے زیر انتظام کانفرنس میں صاحبزادہ عبدالقیوم کی قرارداد پاس کر لی گئی اور اس کے فوری بعد نوابزادہ نصر اللہ خان کی صدارتی تقریر کرواکے کانفرنس ختم کردی گئی - یوں یو ڈی ایف کو جرنیلوں نے اپنے کنٹرول میں رکھنے میں کامیابی حاصل کر لی اور ولن بننے سے اپنے آپ کو بچا لیا -

ڈاکٹراعزاز نذیر نے کالعدم نیپ کی جانب سے قرارداد کے متن پر مشتمل پریس ریلیز اخبارات کو بھیجی لیکن سب اخبارات نے فوج کے زیر نگرانی انتخابات کرانے کی قرارداد پر مشتمل یو ڈی ایف کی طرف سے جاری پریس ریلیز کو صفحہ اول پر شہ سرخی کے ساتھ شایع کیا اور جو کچھ نیپ کے کارکنوں کے ساتھ ہوا اسے رپورٹ نہیں کیا جبکہ اعزاز نذیر کی پریس ریلیز کو ایک اور دو کالمی سرخی کے ساتھ غیر غیرنمایاں کرکے شایع کیا -

ایک طرف فوجی جرنیل پاکستان میں بھٹو حکومت کے خاتمے کی منصوبہ بندی اور پاکستان میں مذھبی اور سنٹر رائٹ سیاسی جماعتوں کی قیادت میں بڑی تحریک چلانے اور بھٹو کو بلوچستان آپریشن کا واحد ولن قرار دینے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تو دوسری جانب بھٹو کے پنجاب کے چیف منسٹر نواب صادق قریشی کے گھر پر نواب صادق قریشی کی وساطت سے کورکمانڈر ملتان جنرل ضیاء الحق کو ملک کی مسلح افواج کا نیا سربراہ بنانے کے لیے بھٹو سے جنرل ضیاء الحق کا ایک مرنجان مرنج فوجی افسر کے طور پر تعارف کرایا جا رہا تھا جسے تابعداری اور اطاعت میں بے مثال بنا کر پیش کیا جا رہا تھا -

ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء میں تابعداری اور اطاعت شعاری کچھ اس طرح سے بھائی کہ ایک طرف تو انھوں نے اپنے سب سے معتمد اور انتہائی وفادار اس وقت سبکدوش ہونے کی تیاری کر رہے مسلح افواج کے سربراہ جنرل ٹکا خان کے تفصیلی نوٹ اور سفارشات کو بالکل نظر انداز کردیا تو دوسری جانب انھوں نے ٹکا خان سے اس معاملے پر مشاورت تک نہ کی - وہ جنرل ضیاع الحق کے بارے میں یہ بھی بھول گئے کہ فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث اس وقت کے بریگیڈیئر ضیاع الحق کو کورٹ مارشل سے بچانے کی سفارش ان کے خلاف مبینہ سازشیں کرنے والے اور انھیں بنگلہ دیش بنانے کا ذمہ دار قرار دینے والے جنرل گل حسن نے کی تھی -

مجھے یاد آیا کہ بھٹو نے جماعت اسلامی کو خوش کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں یونین الیکشن میں جماعت اسلامی کے طلباء ونگ اسلامی جمعیت طلباء کو یونین انتخابات دھاندلی اور دھونس سے جیتنے کا موقعہ بھی فراہم کیا تھا -

بھٹو نے کراچی میں دو فیکٹریوں پر چین نواز ٹریڈ یونینسٹوں کے قبضے کے ایڈونچر کی سزا بھی نیشنل عوامی پارٹی کی حمایت یافتہ نیشنل ٹریڈ یونینز فیڈریشن اور فیکٹریوں میں اس کی حمایت یافتہ سی بی اے یونینز کے خلاف پولیس آپریشن ، لیبر ڈپارٹمنٹ اور نئے ادارے این آئی سی آر ( جس کا چئیرمین مولوی مشتاق) کی کارروائیوں کے ذریعے دی تھی اور جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی تو کراچی میں ایمپریس مارکیٹ صدر کی گھڑیالی بلڈنگ میں قائم پاکستان ورکرز فیڈریشن مرکزی دفتر کو سیل کردیا گیا اور وہاں پر موجود کراچی کی فیکٹریوں میں اس سے الحاق رکھنے والی ٹریڈ یونینوں کا سارا ریکارڈ قبضے میں لیا گیا اور اس ریکارڈ میں موجود مزدور یونینوں کے کارکنوں اور عہدے داروں کو غدار اور ایجنٹ قرار دے کر جیلوں میں بند کردیا گیا جبکہ درجنوں مزدور کارکنوں کو زیر زمین جانے پر مجبور کردیا گیا - یہ کراچی میں ترقی پسند سیاسی باشعور کارکنوں پر سب سے بڑا کریک ڈاؤن تھا -

پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے دوران سندھی لینگویج بل آنے کے بعد سے سندھ میں خاص طور پر کراچی کے تعلیمی اداروں اور کارخانوں طالب علموں اور مزدوروں کو نسلی و لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور ان میں دوریاں بنانے کا عمل شروع ہوچکا تھا جس کے خلاف جام ساقی سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن بناکر سندھی اور اردو بولنے والے طالب علموں میں یک جہتی اور اتحاد بنائے رکھنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے اور پاکستان ورکرز فیڈریشن کراچی ، حیدر آباد میں مزدوروں کو تقسیم ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے - لیکن اس وقت سندھ کے چیف منسٹر ممتاز بھٹو درپردہ جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تعلیمی اداروں میں سرپرستی کرنے میں مصروف تھے - کراچی اور حیدرآباد میں جماعت اسلامی کی حمایت یافتہ پاکٹ ٹریڈ یونینز مزدوروں کو پہلے مذھبی بنیاد پر تقسیم کر رہی تھیں اب وہ اردو اسپیکنگ مہاجر شاونزم کو بھی ہوا دے رہی تھیں -

اس زمانے میں کراچی میں نیپ بھاشانی کے سابق جنرل سیکرٹری محمود الحق عثمانی بھی مہاجر شاونزم کا جھنڈا اٹھا چکے تھے اس سے نیپ میں سی پی پی کے زیر اثر کام کرنے والی ٹریڈ یونینز کا نسلی و لسانی شناختوں سے ماورا مزدور ایکتا کے نعرے کے تحت کام بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا -
74ء سے 77ء تک کا پرآشوب دور کراچی کی سیاست کو بنیاد پرستی اور مہاجر نسل پرستی کی طرف بتدریج دھکیل رہا تھا - نیشنل عوامی پارٹی کے خاتمے کا پروجیکٹ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے لیے ہی زھر قاتل ثابت نہیں ہوا بلکہ اس نے آخرکار پاکستان میں جمہوریت کی بساط لیٹنے اور پاکستان کے سب سے بدترین اور گھٹیا مارشل لاء کی تاریک رات کو مسلط کرنے کا کام بھی سر انجام اور جرنیل بھٹو کو پھانسی چڑھانے میں بھی کامیاب رہے -

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ahl-e-Qalam اھل قلم posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share