Kuptan Lover

Kuptan Lover Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Kuptan Lover, News & Media Website, .
(7)

04/10/2024
وہ خوفناک آئینی ترمیمی مسودہ جو اپوزیشن، اتحادی جماعتوں حتی کہ حکومتی وزراء، کابینہ ممبران سے بھی خفیہ رکھا گیا ، رات کے...
16/09/2024

وہ خوفناک آئینی ترمیمی مسودہ جو اپوزیشن، اتحادی جماعتوں حتی کہ حکومتی وزراء، کابینہ ممبران سے بھی خفیہ رکھا گیا ، رات کے پچھلے پہر لیک ہو گیا، ملاحظہ کریں مسودے کا مکمل اردو ترجمہ۔


Usman Dar  عثمان ڈار کو غلط نہ سمجھیں ماں سے بڑھ کے کچھ نہیں ہوتا....
04/10/2023

Usman Dar عثمان ڈار کو غلط نہ سمجھیں ماں سے بڑھ کے کچھ نہیں ہوتا....

سب کا جگری سب کا یار قــــــیــدی نـــــمـــبر 804
25/09/2023

سب کا جگری سب کا یار
قــــــیــدی نـــــمـــبر 804

الحمد للہ، عمران ریاض بازیاب ہو کر بخیریت اپنے گھر پہنچ گئے.
25/09/2023

الحمد للہ، عمران ریاض بازیاب ہو کر بخیریت اپنے گھر پہنچ گئے.

Only Imran Khan❤️
24/05/2023

Only Imran Khan❤️

06/08/2022
05/08/2022

‏عمران خان کا قومی اسمبلی کے 9 حلقوں میں خود الیکشن لڑنے کا اعلان، جیو مرشد 💪💪💪

 ٰ_دو
03/08/2022

ٰ_دو

معمر قذافی اور صدام حسین اس دنیا میں نہیں رہے لہذا ہم الیکشن کمیشن کو ان سے لئے گئے اربوں ڈالر کا حساب نہیں دے سکتے. فضل...
02/08/2022

معمر قذافی اور صدام حسین اس دنیا میں نہیں رہے لہذا ہم الیکشن کمیشن کو ان سے لئے گئے اربوں ڈالر کا حساب نہیں دے سکتے. فضل الرحمن

اپنی حماقتوں کی وجہ سے یہ عمران خان کو ناقابلِ شکست، مظبوط ترین اور مقبول ترین بناتے جا رہے ہیں.عمران خان لوگوں کی ضِد ب...
02/08/2022

اپنی حماقتوں کی وجہ سے یہ عمران خان کو ناقابلِ شکست، مظبوط ترین اور مقبول ترین بناتے جا رہے ہیں.
عمران خان لوگوں کی ضِد بنتا جا رہا ہے، جب سب کو ایک ساتھ پچھاڑے گا تو پھر دھاندلی کا رونا روئیں گے.

‏عمران خان نے یہودیوں کا پیسہ پاکستان لاکر پاکستان تباہ کرنا چاہا اس لیے پی ڈی ایم والوں نے اپنی جان پر کھیل کر یہ پیسہ ...
02/08/2022

‏عمران خان نے یہودیوں کا پیسہ پاکستان لاکر پاکستان تباہ کرنا چاہا اس لیے پی ڈی ایم والوں نے اپنی جان پر کھیل کر یہ پیسہ واپس لندن پہنچا دیا۔ تاکہ پاکستان تباہ نہ ہو جائے۔😂😂

02/08/2022

31/07/2022

اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں. 😂😂

28/07/2022

قانون کی باتیں میرے کانوں سے گزر جاتی ہیں.

سات جنوری 1977 کو وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے اچانک قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے بھونچال برپا کر دیا۔ال...
06/07/2022

سات جنوری 1977 کو وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے اچانک قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے بھونچال برپا کر دیا۔
الیکشن کا جلد سے جلد انعقاد حزب اختلاف کی خواہش ہوتی ہے لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا۔ منتخب وزیراعظم دو ماہ کے اندر اندر نئے الیکشن کی بات کر رہے تھے اور حزب اختلاف کا یہ حال تھا جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔
ایسا نہیں کہ اپوزیشن سو رہی تھی بلکہ تقریباً گذشتہ چار برس سے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ نامی اتحاد کے ذریعے بھٹو کا مقابلہ کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہی تھی۔ لیکن بھٹو کی طرف سے ڈیڑھ سال قبل نئے انتخابات کا اعلان اس کے لیے غیر متوقع تھا۔
جواب میں اپوزیشن نے بھی بھٹو کو حیرت میں ڈال دیا۔ صدر پاکستان فضل الٰہی نے 10 جنوری 1977 کو وزیراعظم کی سفارش پر اسمبلی تحلیل کی اور اسی روز اپوزیشن کا ایک نیا اتحاد پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کے نام سے سامنے آ گیا۔
یہ اتحاد یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کی ہی توسیعی شکل تھا جس میں اصغر خان اور شاہ احمد نورانی کی شمولیت کے بعد اسے پاکستان نیشنل الائنس کا نام دیا گیا۔ اس کے صدر مفتی محمود، نائب صدر نوابزادہ نصراللہ اور جنرل سیکریٹری رفیق احمد باجوہ تھے۔
یہ کنبہ نو جماعتوں پر مشتمل تھا: تحریک استقلال، پاکستان مسلم لیگ، جماعت اسلامی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، خاکسار تحریک، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس۔
نو ستاروں کے نام سے مشہور ہونے والے اس اتحاد نے 23 جنوری 1977 کے دن کراچی کے نشتر پارک سے انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ عوام کی حاضری بھٹو ہی نہیں اپوزیشن کی توقعات سے بھی زیادہ تھی۔ ہمیشہ ضرورت سے زیادہ پراعتماد بھٹو اب بھی پرامید تھے کہ وہ دو تہائی اکثریت لے جائیں گے۔
سات مارچ کو بھٹو کی تلوار اپنی چمک سے نو ستاروں کو گہنا دینا چاہتی تھی۔ دوسری طرف اے این پی کا ہل بھٹو کی سیاست جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کو تیار تھا۔
بھٹو کے خلاف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 660 نشستوں پر پی این اے کے مشترکہ امیدوار مقابلہ کر رہے۔ بھٹو 155 جبکہ اپوزیشن اتحاد قومی اسمبلی کی محض 36 نشستیں حاصل کر سکا۔ دھاندلی کا شور بلند ہوا اور پی این اے نے 10 مارچ کو ہونے والے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔
بھٹو اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر لے آئے۔ تقریباً چار ماہ بعد مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے کہ فوجی بوٹوں کی چاپ سنائی دی۔ بھٹو کے’فرمان بردار‘ چیف آف آرمی سٹاف نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ 90 روز میں شفاف انتخابات کی بات کرنے والے ضیا الحق 11 سال بعد ’جہاز‘ سے اترے۔
بھٹو پھانسی کا پھندا چوم کر امر ہو گئے۔ ان کی وراثت ورثے میں تبدیل ہوئی اور بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی تین بار مرکزی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ پی این اے کا اتحاد محض بھٹو مخالف جذبات پر کھڑا تھا، سو مارشل لا لگتے ہی دھڑام سے جا گرا۔
نومبر 1977 میں اصغر خان اور 1978 کے اوائل میں شاہ احمد نورانی اور شیرباز مزاری اتحاد سے الگ ہو گئے۔ جماعت اسلامی نے ’اقامت دین‘ کی خاطر جبکہ مسلم لیگ نے ’نظریہ پاکستان‘ کی سربلندی کے لیے ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت کا ’اصولی فیصلہ‘ کیا۔ مفتی محمود اور نواب زادہ نصراللہ 80 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر تحریک بحالی جمہوریت میں نظر آئے۔
نو ستاروں سے پی ڈی ایم اور بھٹو سے عمران خان تک سفر طے کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہم آج بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں.

04/07/2022

کرامت اللہ غوری اپنی کتاب ”روزگار سفیر“ میں بھٹو صاحب کے آخری دور کے حوالے سے ایک مشہور واقعہ کا تذکرہ کرتے ہیں کہ پاکستانی ایجنسیوں نے ایک امریکی سفارت کار کی گفتگو ٹیپ کی جس میں جملہ بولا گیا " The Party is over“۔ بھٹو صاحب نے یہ بات خود بتائی اور ان کا کہنا تھا کہ اس کوڈ ورڈ جملے کا مطلب یہ بتانا ہے کہ بھٹو کی حکومت جانے والی ہے۔ بھٹو صاحب نے یہ بات میڈیا پر بتانے کے بعد اپنے مخصوص انداز میں امریکہ پر جارہانہ حملے بھی کئے، اسے ہاتھی کہا اور بھی بہت کچھ۔ کرامت غوری تب اسلام آباد، وزارت خارجہ میں ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اس واقعے کی تفصیل بیان کی ہے. کرامت غوری نے بتایا کہ ان دنوں امریکی سفارت خانے کے چند افسر بڑی پابندی کے ساتھ دفتر خارجہ کے چکر لگایا کرتے، ان میں ایک میاں بیوی سفارت کاروں کا جوڑا تھا، خاوند کا نام ہاورڈ شیفر تھا جسے ہاوی کہہ کر پکارا جاتا، اس کی بیوی تیریستھا بھی سفارت کار تھی۔ بھٹو اور پی این اے کے نو ستاروں کی لڑائی ہاتھیوں کی لڑائی تھی جس میں ہاوی شیفر نجانے کہاں سے آ گیا۔انکل سام کا نمائندہ امریکی سفارت خانہ اور اس کے چوکس سفارت کار اقتدار کی کشمکش کو بہت غور اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے، سفارت کاروں کا کام ہی میزبان ملک کی نبض پر ہمہ وقت ہاتھ رکھنا ہوتا ہے۔ کرامت غوری کے بقول اسی ہاوی شیفر کی ایک حساس گفتگو جو وہ دلی میں امریکی سفارت خانے کے ایک ہم منصب سے کر رہا تھا، وہ ہمارے اداروں نے ریکارڈ کر لی اور وہ اتنی تہلکہ خیز تھی کہ انہوں نے خبر فوری طور پر وزیراعظم بھٹو کو پہنچا دی۔ ہاوی شیفر کی ریکارڈ کی ہوئی گفتگو کے مطابق دلی میں اپنے ہم منصب کو بھٹو صاحب کی روز بروز بڑھتی پریشانی کا احوال بتا رہا تھا کہ ان کے گرد مخالفوں کا گھیرا دن بہ دن تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ جب دوسری طرف سے سوال ہوا کہ بھٹو کے افق پر چھائی کالی گھٹاؤں سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے تو شیفر نے جواب میں کہا کہ بھٹو کی جڑیں اکھڑ گئی ہیں، اس کا جملہ تھا The Party is over for the Bhutto۔ یعنی بھٹو صاحب کا کھیل ختم ہوا اور ان کا بوریا بستر بندھنے کو ہے۔
”بھٹو صاحب کی انا تو ویسے بھی عام حالات میں ہمالیہ اور قراقرم کی بلندیوں کو شرماتی تھی، ہاوی شیفر کی پیش گوئی ان کے دل میں تیر ہوگئی۔ ایک معمولی سفارت کار کی یہ مجال کہ وہ پاکستان کے شہنشاہ وقت کے زوال کی بات کرے۔ بھٹو صاحب نے فوری طور پر وزارت خارجہ کو حکم دیا کہ ہاوی شیفر کو ناپسندیدہ شخص قرار دے کر نکال دیا جائے۔ ہاوی شیفر کو اڑتالیس گھنٹے کی مہلت دی گئی۔ امریکی سفارت خانہ نے بھٹو صاحب کے اس فیصلے پر احتجاج یا اعتراض کئے بغیر ہاوی شیفر کو چوبیس گھنٹے میں دلی منتقل کر دیا۔ ”بھٹو صاحب کی انا پر وار ہوا تھا، وہ تلملا رہے تھے اور اسی تلملاہٹ میں انہوں نے اسی شام قوم سے ٹی وی پر خطاب کیا جو ان کا آخری خطاب ثابت ہوا۔ اسی خطاب میں انہوں نے پی این اے کے بیرونی طاقتوں سے گٹھ جوڑ سے قوم کو آگاہ کرتے ہوئے وہ تاریخی جملہ کہا جو ان کے سیاسی زوال کے تابوت میں آخری کیل بن گیا۔ انہوں نے اپنی کرسی جس پر وہ بیٹھے تھے، اس پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا، "میں کمزور ہوسکتا ہوں، لیکن یہ کرسی بہت طاقتور ہے۔“ اس جذباتی لمحے میں انہوں نے کہاں سوچا ہوگا کہ چند روز میں یہ کرسی ساتھ چھوڑنے والی ہے۔“
کرامت غوری نے اس واقعے کی تفصیل رقم کرنے کے بعد ایک دلچسپ نکتہ اٹھایا وہ لکھتے ہیں کہ ”سفارتی اصولوں کے مطابق کسی سفارت کار کو اگر میزبان ملک ناپسندیدہ قرار دے تو اسے واپس اپنے ملک بلا لیا جاتا ہے، لیکن امریکی حکومت نے ہاوی شیفر کو واشنگٹن بلانے کے بجائے پاکستان کے پڑوس یعنی دلی میں تعینات کر دیا۔ بھلا ایسا کیوں کیا؟ ہم دفتر خارجہ والے اس سوال کی گتھیاں سلجھانے میں اپنا سر کھپاتے رہے، حتیٰ کہ پانچ جولائی آ گیا، پاکستان میں ایک اور مارشل لاء نے اس سوال کو جواب فراہم کر دیا۔
”مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان علی الصبح ہوا تھا۔ اسی شام کو امریکی سفارت خانہ میں امریکہ کے قومی دن یعنی چار جولائی کے حوالے سے ایک استقبالیہ تھا۔ وہاں مہمانوں کا خیر مقدم کرنے والوں میں ہاوی شیفر اپنے چہرے پر تمام تر مسکراہٹیں بکھیرے موجود تھا۔ مارشل لاء کا نفاذ ہوتے ہی شیفر نے اسلام آباد کا رخ کر لیا تھا۔ بھٹو کے غروب آفتاب کے ساتھ ہی شیفر کے بخت کا سورج طلو ع ہوگیا۔ شیفر اور وہ ملک جس کی وہ سفارتی نمائندگی کر رہا تھا، وہ اس اعلان فتح کے ساتھ ہمیں اور ہم جیسے دیگر ممالک کو یہ پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ”دیکھویاد رکھنا، ہاتھی سے گنا چھیننے کی غلطی مت کرنا، ہم دریا کے مگر مچھ ہیں، دریا میں رہنا ہے تو ہم سے بیر نہ رکھنا۔“
سابق سفیر پاکستان کرامت غوری آگے لکھتے ہیں:”بھٹو کی طرح ہاوی شیفر بھی تاریخ ہوچکا ہے، وہ بھی دنیا میں نہیں، لیکن میں آج بھی یہ سوچتا ہوں کہ جو کچھ ہوا، کیا وہ ایسا ڈرامہ تھا جس کا سکرپٹ پہلے سے لکھا جا چکا تھا؟ ہماری ایجنسیوں کی (فون ٹیپ کرنے کی) عادت سے اسلام آباد کے سب سفارت کار آشنا تھے۔ پھر وہ تو دور ابتلا تھا جس میں سفارت خانوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی تھی۔
”امریکی سفارت کار تو دوسروں سے زیادہ دانائے راز تھے۔ ان سے کیا چھپا تھا؟ پھر ہاوی شیفر نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے ایسی بات کیوں کی جو اس کے خلاف بھٹو کے ہاتھ میں لوڈڈ گن بن جائے؟ کیا بھٹو کو اشتعال دلانا مقصود تھا؟ یا پھر امریکی بھٹو کو اشاروں، کنایوں میں کوئی پیغام دینا چاہتے تھے؟ کیا پیغام دینا چاہتے تھے وہ؟ وہی جو شیفر نے فون پر اپنے دوست سے دلی میں کہا کہ بھٹو کا سامان لد چکا ہے؟ کیا وہ بھٹو کو سمجھانا چاہ رہے تھے کہ یا تو اقتدار سے بغیر کسی غل غپاڑے کے الگ ہوجاؤ ورنہ بدتر انجام کے لئے تیار ہوجاؤ؟“

4 جولائی 1995 کو جموں کشمیر میں 6 مغربی سیاحوں کا اغوا، جن میں دو امریکی، دو برطانوی، ایک جرمن اور ایک نارویجن شامل تھے،...
04/07/2022

4 جولائی 1995 کو جموں کشمیر میں 6 مغربی سیاحوں کا اغوا، جن میں دو امریکی، دو برطانوی، ایک جرمن اور ایک نارویجن شامل تھے، جن میں سے ایک فرار ہو گیا، جموں کشمیر میں الفاران نام کے گروپ نے اغواء کر رکھا تھا۔ امریکہ میں کلنٹن انتظامیہ نے ان کی رہائی کے لیے بے نظیر سے مدد طلب کی اس نے اور آصف زرداری نے فضل الرحمان سے کہا کہ وہ اغوا کاروں کو ان کی رہائی پر آمادہ کرنے کے لیے بھارت جائیں۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی پاکستانی حکومت سے یہ بات طے ہوئی کہ فضل الرحمن کا دورہ دونوں ممالک میں انتہائی خفیہ رکھا جائے گا، لیکن فضل الرحمن کے دہلی پہنچتے ہی کسی بھارتی صحافی کو خبر مل گئی کہ فضل الرحمن دہلی خفیہ دورے پر پہنچ چکے ہیں. تب تک پاکستانی میڈیا کو کانوں کان خبر نہ تھی کہ فضل الرحمن کہاں ہیں۔ خبر لیک ہوتے ہی بھارتی میڈیا کی پوری توجہ دہلی پر مرکوز ہو گئی. راؤ سرکار اور بینظیر سرکار دونوں ہی شدید پریشانی میں مبتلا تھے لیکن فضل الرحمٰن بلکل بھی پریشان نہ ہوئے انہوں نے اس دورے کو ایک اعلیٰ سطح کے دورے میں بدل دیا اور میڈیا سے مختصر بات بھی کی جس میں انہوں نے کہا کہ میں اغوا کاروں کو نہیں جانتا امریکہ اور برطانیہ کی درخواست پر میں یہاں آگیا لیکن اغوا کاروں سے مزاکرات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی. میں ضرور چاہوں گا کہ اغوا کار معصوم سیاحوں کو آزاد کر دیں. ساتھ ہی انہوں نے یہ کہہ دیا کہ مجھے اغوا کاروں نے نامعلوم نمبروں سے پاکستان میں دو بار فون کیا گیا اور مزاکرات میں ثالثی کی درخواست کی گئی. فضل الرحمن کے ان آخری الفاظ نے انڈین ایجنسیوں کے کان کھڑے کر دیے اور انہیں بہت خطرناک منصوبہ بنانے میں مدد کی. ایجنسی والوں نے بھارتی وزیراعظم نرسمہا راؤ کو بتایا کہ فضل الرحمن کو کشمیر بھیجنے کے بجائے دہلی سے ہی واپس پاکستان بھیج دیا جائے. صورتحال یہ تھی کہ امریکہ اور برطانیہ فضل الرحمن کو اپنا مددگار سمجھ رہے تھے، مجاہدین ان کو اپنا مددگار جبکہ انڈین ایجنسیاں سارے معاملے کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے اور پاکستان کو سارے واقعے کا زمہ دار بنانے کے خطرناک منصوبے کی بنیاد ڈال چکی تھی. اور شاید انہوں نے فضل الرحمن کی دہلی پہنچنے کی خبر جان بوجھ کر لیک کی تاکہ میڈیا سے گفتگو کے دوران فضل الرحمن کے منہ سے کوئی ایسی بات کہلوائی جائے جو مستقبل میں کام آ سکے. واضح رہے کہ اغوا کاروں نے مطالبہ رکھا ہوا تھا کہ ہم سیاحوں کو اس صورت میں آزاد کریں کہ انڈین حکومت مولانا مسعود اظہر کو بیس ساتھیوں سمیت رہا کر دے. فضل الرحمن کشمیر جانے اور مزاکرات میں مدد کرنے کے بجائے دہلی میں کچھ وقت گزار کر واپس پاکستان آ گئے لیکن ان کے آنے کے بعد معاملہ نیا رخ اختیار کر چکا تھا اور یہ نئی صورتحال اغوا کاروں کے چنگل سے زندہ بچ کر فرار ہونے والے ایک امریکی سیاح نے تفصیل سے بیان کی. واضح رہے کہ اس واقعہ میں نہ تو مسعود اظہر اور ان کے ساتھی رہا ہوئے نہ غیر ملکی سیاح زندہ بچے (سوائے ایک امریکی سیاح کے جو خوش قسمتی سے جان بچا کر نکل گیا) اور نہ ہی اغوا کار زندہ بچے. بھارتی ایجنسی نے اپنے ایک خفیہ گروپ کے زریعے الفاران گروپ سے معاملات طے کر کے تمام مغوی سیاحوں کو اپنے قبضے میں لیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا جبکہ امریکہ اور برطانیہ کو خبر بھی نہ ہونے دی کہ سیاح اب اصل اغوا کاروں کے پاس موجود نہیں بلکہ ہمارے اپنے گروپ کے پاس ہیں. آج تک کسی کو یہ بھی نہیں پتہ چلا کہ الفاران گروپ نے کس یقین دہانی پر تمام سیاح انکے حوالے کر دیئے. کچھ دنوں بعد انڈین آرمی نے مشترکہ آپریشن کر کے الفاران گروپ کےتمام اغوا کاروں کو مار دیا اور ساتھ ہی اغوا ہونے والے غیر ملکی سیاحوں کو بھی خود ہی مار دیا اور پوری دنیا میں یہ خبریں چلا دی کہ اغوا کاروں کا تعلق پاکستان سے تھا وہ پاکستان سے مسلسل رابطے میں تھے انہوں نے تمام سیاحوں کو قتل کر دیا تھا جس کے بعد انڈین آرمی نے آپریشن کیا اور سب اغوا کاروں کو مار دیا. اس جھوٹ سے پردہ اس وقت اٹھا جب زندہ بچ نکلنے والے امریکی سیاح نے بتایا کہ الفاران گروپ سے جب ہمیں ایک دوسرے گروپ کے حوالے کیا گیا تو ہم نے وہاں چند باوردی انڈین فوجی اہلکاروں کو بھی دیکھا اور ہمیں آرمی کی سرکاری جیپوں میں بھی کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کیا جاتا رہا. اس کا مطلب صاف ہے کہ تمام سیاح آرمی کی خفیہ کسٹڈی میں مارے گئے. ‏انڈین ایجنسیوں نے یہ سب پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا. اور اس سارے معاملے میں میں فضل الرحمن واحد شخصیت تھی جس نے انڈیا کا خفیہ دورہ کیا جو کہ انڈیا نے منصوبے کے تحت میڈیا کے سامنے نہ صرف ظاہر کیا بلکہ فضل الرحمن کی میڈیا ٹاک بھی کروائی.

وزیراعظم بننے کے بعد جب نواز شریف نے برطانیہ کا پہلا سرکاری دورہ کیا تو سفیر (ہائی کمشنر) ڈاکٹر ہمایوں خان تھے۔ اس وقت ک...
03/07/2022

وزیراعظم بننے کے بعد جب نواز شریف نے برطانیہ کا پہلا سرکاری دورہ کیا تو سفیر (ہائی کمشنر) ڈاکٹر ہمایوں خان تھے۔ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم جان میجر نے میاں صاحب کے لیے اپنی سرکاری رہائش گاہ ٹین ڈائننگ سٹریٹ پر دعوت کا اہتمام کیا۔ برطانوی پروٹوکول نے پاکستانی ہائی کمشنر کو آگاہ کیا کہ لنچ میں کوئی تقریر نہیں ہوگی۔ اس لیے میاں صاحب کے لیے تقریر نہیں لکھی گئی۔ لنچ کے دوران جان میجر اچانک کھڑے ہوئے اور تقریر شروع کر دی یہ دیکھ کر نوازشریف کا رنگ اڑ گیا کہ اب میں مجھے بھی تقریر کرنی پڑے گی. مہمانوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی لیکن وہ وزیر اعظم اور میزبان تھے، وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ نواز شریف زیادہ پریشان اس لئے تھے کہ انگریزی میں لکھی ہوئی تقریر پڑھنا ان کے لیے بہت مشکل کام تھا، بے ساختہ تقریر تو دور کی بات ہے۔ پاکستانی سفیر ڈاکٹر ہمایوں خان نے موقع کی نزاکت دیکھ کر فوراً اپنی جیب سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا اور چند سطریں لکھیں تاکہ میاں صاحب کو کچھ اعتماد حاصل ہو سکے۔ نواز شریف نے کپکپاتی زبان سے وہ الفاظ پڑھے لیکن لنچ ختم ہوتے ہی انہوں نے ڈاکٹر ہمایوں خان پر طنز کیا۔ میاں صاحب نے کہا کہ ہائی کمشنر نااہل ہیں، انہوں نے جان بوجھ کر وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھا اور ان کے لیے شرمندگی پیدا کی۔ حکم دیا گیا کہ ڈاکٹر ہمایوں خان کو فوری طور پر برطرف کیا جائے۔ انگریز ایک چالاک شخص تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ ساری صورت حال ہمایوں خان کے لیے ایک المیہ ہے اور وہ بلاجواز برطرف کیا گیا ہے۔ برطانوی حکومت نے ہمایوں کو کامن ویلتھ سیکرٹریٹ میں کلیدی عہدے پر ترقی دے دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ میاں صاحب کی ڈاکٹر ہمایوں سے ناراضگی کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ میاں صاحب کے ایک قریبی دوست کا نام برطانوی وزیر اعظم کے دعوت نامے میں شامل نہ کرا سکے جو کہ امریکہ میں کاروبار کر رہے تھے، نواز شریف کی درخواست پر حکومتی وفد میں شامل ہوئے تھے.

سابق سفیر کرامت اللہ غوری صاحب اپنی کتاب ” بارشناسائی“ کے صفحہ115سے 118 میں لکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن تب چیئرمین خا...
03/07/2022

سابق سفیر کرامت اللہ غوری صاحب اپنی کتاب ” بارشناسائی“ کے صفحہ115سے 118 میں لکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن تب چیئرمین خارجہ امور کمیٹی (قومی اسمبلی)تھے، وہ کویت آئے۔ ان کے آنے سے پہلے وزیراعظم بینظیر بھٹو کا ایک خفیہ مراسلہ پاکستانی سفارت خانے کے پاس آیا جس میں بی بی نے کہا کہ مولانا ایک اہم مشن پر کویت بھیجے جا رہے ہیں تاکہ وہ کویتی اراکین پارلیمنٹ کے کلیدی ارکان کو مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف سے آگاہ کریں۔ پاکستانی سفارت خانہ اس پر مستعد ہوگیا۔ مولانا کے دورہ کی پہلی صبح انہیں کویتی پارلیمان کی خارجہ امورکمیٹی سے ملاقات کے لئے لے جایا گیا۔تب ڈاکٹر جاسم الصقر اس کمیٹی کے سربراہ تھے ، ستر پچھتر سالہ بزرگ، نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ، فرانس سے انہوں نے قانون اور معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لی تھیں۔ کویتی پارلیمانی کمیٹی برائے خارجہ امور کے پانچ چھ دیگر اراکین بھی تھے جو سب اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، ان کے پاس امریکہ اور برطانیہ سے یونیورسٹی کی اسناد تھیں اور وہ سب ہی انٹرنیشنل افیئرز کے ماہر تھے ۔ مولانا فضل الرحمن کا سب نے پر تپاک استقبال کیا اور کانفرنس روم میں بٹھایا گیا۔ کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر جاسم الصقر نے مولانا فضل الرحمن سے درخواست کی کہ وہ جس مقصد کے لئے آئے ہیں بیان کریں۔ کرامت غوری کہتے ہیں مجھے شدید حیرت ہوئی جب مولانا فضل الرحمن نے مجھے کہا کہ کشمیر پرپاکستانی موقف سے کویتی اراکین پارلیمنٹ کو آگاہ کرو۔ کرامت غوری نے بطور سفیر پاکستان مولانا کو یاد دلایا کہ وہ وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے خصوصی ایلچی کے طور پر آئے ہیں، اس لئے آپ ہی بیان فرمائیں۔ مولانا اس پر بدمزہ تو ہوئے مگر جب کانفرنس روم میں خاموشی بوجھل ہونے لگی تو انہوں نے رک رک کر اردو زبان میں پانچ سات منٹ تک کلمات ادا کئے جن کا کرامت غوری انگریزی میں ترجمہ کرتے رہے۔ غوری صاحب کو اندازہ ہوا کہ مولانا اصل موضوع کی طرف نہیں آ رہے، کویتی اراکین پارلیمنٹ بھی ایک دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس پر مجبور ہو کر کرامت غوری نے کہا کہ اگر مولانا اجازت دیں تو میں گفتگو آگے بڑھاﺅں۔ مولانا نے خوش ہو کر فوری ہامی بھر لی اور پھر سامنے میز پر رکھے کیک پیسٹری کی طرف متوجہ ہوگئے، اگلے ایک گھنٹے تک سفیر پاکستان گفتگو کرتا رہا جبکہ مولانا پیٹ پوجا کرتے رہے ۔ کرامت غوری کہتے ہیں میرا خیال تھا کہ باہر نکل کر مولانا فضل الرحمن میرا شکریہ ادا کریں گے کہ میں نے ان کی مشکل حل کر دی۔ اس کے بجائے انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی فرمائش داغ دی کہ کویت کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم بیت الزکواتہ کے صدر جاسم الحجی سے ملاقات کرائی جائے ۔ کویت کی یہ فلاحی تنظیم دنیا بھر کے مسلم ممالک میں مدرسوں، ہسپتالوں، یتیم خانوں اور اس طرح کے دیگر فلاح وبہبود کے اداروں کو مالی وسائل فراہم کرتی ہے۔ کرامت غوری اگلے روز مولانا فضل الرحمن کو جاسم الحجی کے پاس لے گئے، مگر انہیں پہلے پوری بریفنگ دی کہ بیت الزکواتہ کے پاس کروڑوں ڈالر کے فنڈز ہیں، مگر وہ انہیں یوں ضائع نہیں کیا کرتے، ان سے مدد لینے والے کے پاس پورا منصوبہ تفصیل کے ساتھ ہونا چاہیے اور اگر کوئی مدرسہ وغیرہ بنوانا ہے تو اسکی فیزیبلٹی سٹڈی کے ساتھ تعمیراتی کام کی متعلقہ نقشہ بھی ہو، ورنہ کوئی فائدہ نہیں۔ غوری صاحب نے مولانا سے پوچھا کہ وہ اپنے ساتھ منصوبے کی پوری تفصیل لائے ہیں، مولانا نے کہا کہ وہ کیل کانٹے سے لیس آئے ہیں۔ اگلی صبح ملاقات میں حجی صاحب نے مولانا فضل الرحمن سے دریافت کیا کہ وہ اپنے مدرسے کی جس توسیع کی بات کر رہے ہیں، جس کے لئے مد د چاہیے ، اس کے لئے ضروری دستاویزی کارروائی کر لی گئی ہے؟ اور ان کے پاس ضروری کاغذات موجود ہیں؟تب مولانا نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس سوائے اعداد وشمار کے جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے سادہ کاغذ پر لکھے تھے، اور کوئی تفصیل نہیں۔ اس پر جاسم الحجی صاحب نے معذرت کر لی کہ وہ ایسے کچھ مدد نہیں کر سکتے۔ مولانا کا یہ اعتراف اور یوں خالی ہاتھ اس میٹنگ کے لئے جانا ظاہر ہے کرامت غوری کے لئے بہت تکلیف دہ تھا، تاہم اصل شرمندگی انہیں شام کو ہوئی۔ اسی شام کویت کے ایک اور معروف ادارے نے مولانا کے اعزاز میں تقریب رکھی، یہ تنظیم کویت میں مقیم غیر مسلموں میں بڑے سلیقے سے تبلیغ کا کام کرتی تھی۔ اس تنظیم کے عمائدین کا خیال تھا کہ مولانا چونکہ ایک عالم دین ہیں اس لئے وہ شام کو کچھ وقت دیں اور ان غیر مسلموں کو اپنے علم سے فیض پہنچائیں جو اس ادارہ کی تبلیغ کے نتیجے میں مسلمان ہوئے تھے۔ تقریب کے وقت پر ڈیڈ ھ سو کے قریب لوگ ہال میں جمع ہوگئے تھے، مگر مولانا فضل الرحمن نہیں پہنچے۔ انہوں نے پاکستانی سفارت خانہ رابطہ کیا تو وہ چکرا گئے ۔کرامت اللہ غوری کو اطلاع ملی تو انہوں نے پریشانی اور شرمندگی کے عالم میں مولانا فضل الرحمن کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ انہیں یہ تو اطمینان تھا کہ کویت میں وہ اغوا نہیں ہوسکتے تھے، مگر تشویش تھی کہ اپنے فائیو سٹار ہوٹل سے وہ کیسے لاپتہ ہوگئے ؟ کرامت غوری نے کویتی میزبانوں کو تسلی دی کہ وہ مولانا کو ڈھونڈ کر لا رہے ہیں جبکہ کویتی پروٹوکول کو بھی اطلاع دی کہ مولانا لاپتہ ہیں، ان کا اتاپتہ معلوم کریں۔ کرامت اللہ غوری نے اپنی کتاب میں اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں بیان کی ہے ،”آدھے گھنٹے بعدجب میں جلسہ گاہ پہنچ چکا تو کویتی پروٹوکول کے ایک ذمہ دار افسر نے فون پر اطلاع دی کہ مولانا شہر سے باہر پٹھانوں کے ایک ڈیرے میں دعوت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کچھ دیر بعد میرے اپنے ماتحت نے فون پر یہ خبر سنائی کہ مولانا دعوت تو اڑا رہے تھے لیکن ساتھ میں اپنے مدرسوں کے لئے چندہ بھی جمع کر رہے تھے۔ ”سو مولانا اپنے مداحوں سے ہر پہلو سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ دو ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے جب مولانا وہاں جلسہ گاہ میں تشریف لائے تو میزبان بے چارے تو کچھ نہ کہہ سکے مگر میں نے مولانا سے صاف الفاظ میں شکوہ کیا کہ انہوں نے اس مصروفیت پر اپنی ذاتی مصروفیت کو جس کا مجھے(بطور سفیر پاکستان) نہ پہلے سے علم تھا اور نہ ہی کویتی میزبانوں کو، ترجیح دے کر نہ صرف اپنے آپ کو شرمندہ کیا تھا بلکہ میرے ساتھ ساتھ ملک وقوم کو بھی ، اپنی اس حرکت سے انہوں نے ملک کے وقار کو دھچکا پہنچایا تھا۔ ”مولانا وہاں تو سب کے سامنے کچھ نہ کہہ سکے مگر پاکستان پہنچتے ہی انہوں نے بے نظیر سے شکایت کہ کہ پاکستانی سفیر نے ان کے احترام میں کسر چھوڑی تھی، لیکن انہوں علم نہیں تھا کہ ان کی شکایت سے پہلے میری تحریری شکایت جس میں اس پورے واقعے کا تذکرہ تھا، وہ وزیراعظم تک پہنچ چکی تھی۔ البتہ مولانا کو میرا شکرگزار ہونا چاہیے کہ میں نے مولانا کی اپنے اصل مشن میں پھسڈی کارگزاری کاتذکرہ نہیں کیا جس کے لئے انہیں خاص طور سے کویت بھجوایا گیا تھا۔ “

سابق سفیر کرامت اللہ غوری فرماتے ہیں کہ جب 17 اگست 1999 کو ترکی میں ایک تباہ کن زلزلہ آیا جس نے انقرہ اور استنبول کے درم...
03/07/2022

سابق سفیر کرامت اللہ غوری فرماتے ہیں کہ جب 17 اگست 1999 کو ترکی میں ایک تباہ کن زلزلہ آیا جس نے انقرہ اور استنبول کے درمیان کئی شہروں اور ایک بڑے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ 18 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوئیں جبکہ 50 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ تین دن بعد وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے مجھے فون کیا کہ نواز شریف ترکی کا دورہ کرنا چاہتے ہیں. جس پر میں نے کہا کہ فی الحال دورہ ممکن نہیں یہاں قیامت سغرہ کا منظر ہے حکومت اور تمام ادارے ہنگامی حالات سے دو چار ہیں ایسے حالات میں ترک حکومت میاں صاحب کی میزبانی نہیں کر پائے گی. سرتاج عزیز نے جواب دیا کہ چلو ٹھیک ہے آپ خود میاں صاحب کو فون کر کے معاملہ سمجھا دیں. پھر میں نے نواز شریف کو فون کیا تو انہوں نے فوری دورہ کرنے کی خواہش دہرائی جس پر میں نے میاں صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ترک قیادت اس وقت امدادی کارروائیوں میں مصروف ہے اور ان کے پاس میزبانی کا وقت نہیں ہے آپ کچھ دن ٹھہر جائیں میں حکومت سے طے کر کے آپ کو اطلاع کروں گا۔ بالآخر نواز شریف نے بمشکل 5 روزہ التوا پر رضامندی ظاہر کی جس کے بعد وہ استنبول پہنچ گئے۔ انہوں نے ترک قیادت سے تعزیت کی اور زلزلے میں تباہ ہونے والے علاقوں کا معائنہ کیا۔ دورے کی مصروفیات سے فارغ ہوتے ہی میاں صاحب نے فرمائش کی کہ کباب کھانے جانا ہے، دراصل نواز شریف کو استنبول کا ایک کباب بہت پسند تھا۔ وہ جب بھی آتے، اس ہوٹل میں جا کر کباب کھاتے۔ اس بار بھی وہ ایسا کرنا چاہتے تھے لیکن میں نے میاں صاحب کو یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ میزبان ترک قیادت اسے ناپسند کرے گی۔ سب سے مضبوط دلیل یہ تھی کہ جہاں وہ تعزیت کے لیے گئے تھے، وہاں ان کے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے تمام پروٹوکول کے ساتھ کباب کھانے جائیں۔ اس پر میاں صاحب خراب موڈ کے ساتھ راضی تو ہوئے لیکن ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ چلو ہم نہیں جاتے تم کباب یہی منگوا دو، ایک بار پھر میں نے میاں صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ بھی غیر مناسب ہوگا کیونکہ جب وی وی آئی پی کے لئے کھانا آتا ہے تو سیکیورٹی ادارے، اجنسی والے سب چیک کرتے ہیں اور کبابوں کی بات حکام تک ضرور پہنچ جائے گی. بہرحال میں نے میاں صاحب سے وعدہ کیا کہ اگلی صبح استنبول سے انقرہ جانے والی فلائٹ میں آپ کے پسندیدہ کباب رکھ دیے جائیں گے جس پر وہ بمشکل راضی ہوگئے۔ اگلی صبح جب ہم انقرہ جانے کے لئے جہاز میں سوار ہونے لگے تو میاں صاحب نے سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ غوری صاحب وہ کباب پہنچ گئے جہاز میں؟ جس پر میں نے تسلی دی کہ جی ہاں پہنچ گئے آپ بے فکر رہیں. اس کے بعد میاں صاحب سارے راستے کباب کھانے میں مشغول رہے اور میں دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ میاں صاحب تو جہاز میں ہی پیٹ بھر کے کباب کھا رہے ہیں جبکہ انقرہ میں صدر سلیمان نے لنچ پہ مدعو کیا ہوا ہے وہاں کیا کریں گے. لیکن مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب انقرہ پہنچ کر میاں صاحب نے لنچ پر بھی بھرپور انصاف کیا.

02/07/2022

‏لے پھر آ گئے.... سب راضی خوشی...؟😎

‏سعودیہ کے بعد ترکی نے بھی بھکاریوں کو کہا "اللہ بھلا کرے، معاف کرو"‎ ‎
02/06/2022

‏سعودیہ کے بعد ترکی نے بھی بھکاریوں کو کہا
"اللہ بھلا کرے، معاف کرو"

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kuptan Lover posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share