ALLAH MALIK HAI

  • Home
  • ALLAH MALIK HAI

ALLAH MALIK HAI I AM NOT ALNOE ALLAH IS ALWAYS WITH ME

15/04/2024

کوشش کریں کسی نہ کسی طرح بچ بچا کر اس دنیا سے نکل جائیں ، اقدام اور فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کریں ، اپنا محاسبہ کرتے رہیں، حتیٰ المقدور معاملات کو سیدھا اور سادہ رکھیں، سادہ اور سیدھا صرف خدا تعالیٰ کی رضا کا رستہ ہے،

خیال کریں کہ کسی کی آنکھ میں آنسو کی وجہ آپ نہ ہو، دوسروں کے مشکلات حالات کو مزید مشکل کرنے میں اپنا حصہ نہ ڈالیں ، کسی کی آہ نہ لیں، بالکل سیدھی اور صاف بات کہیں مگر یاد رہے کہ الفاظ کا چناؤ مناسب ہو، جب بھی کوئی فیصلہ کریں

،ایک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچا کریں کہ آپکے مالک کی رضا کس میں ہے ، اور اس کی رضا کے لیے چیزوں پر، تعلقات پر سمجھوتا کر لیا کریں ، اس کے قرب کے لیے قربانی دے دیا کریں ،
اور پھر وہ احساس دور نہیں ہوگا کہ

"ولسوف يوتيك ربك فترضى" اور عنقریب تمہارا رب تمہیں اتنا دےگا کہ تم خوش ہو جاؤ گے "

مگر یاد رکھنا اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ تمہیں ساری دنیا ہی مل جائے گی، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس سب کے بعد خداوند تمہارا دل بدل دیں گے ، اور سب سے پہلے اس میں شکوہ کو ختم کریں گے ، پھر تمہاری ترجیحات بدل جائیں گی ، ان کے ١٠٠٠ تمہیں ١٠٠ معلوم ہوں گے ، اور تمہاری ٣١٣ ان کے لیے ٣٠٠٠ بن جائیں گے، پھر وہ ذات تمہیں غم، افسردگی اور دکھ سے محفوظ کر لے گی اور تمہیں اپنا احساس عطا کر دے گی اور اس وقت تمہیں سب سے زیادہ استقامت کو اختیار کرنا ہے ، اللّٰہ کی اس پیغام کو remind کرنا ہے ،

"وإذا عزمت فتوكل على اللّٰہ " اور جب تم پختہ عزم کر لو تو پھر اللّٰہ تعالٰی پر بھروسہ کرو.
اور اس سفر کو بخیر و عافیت مکمل کرنے کی کوشش کرو، جسے اس ذات نے بطورِ امتحان اور بطورِ مہلت تمہیں عطا فرمایا ہے ۔

15/04/2024
27/03/2024

اُس نے بیٹھے بیٹھے اچانک کہا' اصل میں معراج دو تھیں !!!
میں چونکا ! اور اسکی طرف گھُور کر دیکھا !!
وہ مُسکرایا اور کہا، پہلے میری بات پوری سُن لو !!
میں نے کہا' تم نے پھر کوئی نئی تھیوری پیش کرنی ہوگی۔۔ وہ ہنسنے لگا۔۔ کہا' یار تم لوگ بس میری مخالفت ہی کرتے رہتے ہو۔۔ کم از کم سوچا تو کرو میری بات میں کچھ نہ کچھ تو سچائی ہو سکتی ہے ۔۔
میں نے کہا' اچھا اب کہو بھی کیا کہنا چاہتے ہو !!
وہ تھوڑا سا آگے ہوا اور فلسفیانہ انداز میں بولا۔۔ ہم لوگ واقعہ معراج کا صرف ایک رُخ دیکھتے ہیں۔۔ جو کہ خالصتاً روحانی ہے۔۔ اللہ پاک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روح و جسم سمیت آسمانوں پر بلایا، سیر کرائی، اپنی قدرت کے کرشمے دکھائے، انہیں سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے بُلایا۔۔ ایسی جگہ جہاں خالق اور محبوبِ خالق کے سوا کوئی نہ تھا۔۔ راز و نیاز ہوئے۔۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 5 عدد نمازوں کا تحفہ لے کر واپس آگئے۔۔ یہ تو تھا واقعہ معراج کا خُلاصہ جسے ہم بچپن سے پڑھتے سُنتے آئے ہیں۔۔ میں نے کہا' یہاں تک تو کوئی اعتراض نہیں مجھے۔۔
اس نے کہا' یہ تو تھی پہلی معراج ۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری معراج اس واقعہ معراج کے بعد ہوئی۔۔۔ اور وہ انسانیت کی معراج تھی۔۔۔۔۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل کر کے دنیا میں واپس تشریف لائے۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ کیا شرف ہے۔۔ کیا عظمت ہے۔۔ کیا خصوصیت ہے۔۔ ذرا سوچو تو !! بندہ لکھنا چاہے تو الفاظ ساتھ چھوڑ دیں۔۔ لکھنا تو دور، بندہ سوچے کی کوشش بھی کرے تو ذہن جواب دے جاتا ہے۔۔ مگر ایسا درجہ پا لینے کے بعد واپس آ کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں؟؟ "میں تو تمہارے جیسا ہی انسان ہوں"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے جیسے؟؟ انسان؟؟؟
یہاں لوگ کچھ نہ کر کے بھی دو دو لائن کے نام بنا لیتے ہیں۔۔ اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے بعد بھی کہتے ہیں کہ "میں ایک انسان ہوں تمہارے جیسا"۔۔ !!
معراج ہے یہ عاجزی کی۔۔ یہ اصل معراج ہے جس میں انسان اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔۔ کسی قسم کے تفاخر کا شائبہ بھی نہیں۔۔ لوگ 9 سالہ عالم کا کورس کرکے فرشتوں اور انسانوں کے درمیان والی کسی جگہ جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔ یہاں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک سے ملاقات کرکے بھی کہتے ہیں کہ "میں تو انسان ہوں" یہ بھی تو واقعہ معراج کا ہی سبق ہے۔۔ کہ انسان بہرحال انسان ہی ہے۔۔ اور انسان ہی رہے گا۔۔۔۔
وہ رُکا۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ معراج دراصل دو تھیں۔۔ ایک روحانی۔۔ جس میں رسولؐ پاک کے درجات کو فرشتوں کی پہنچ سے بھی اوپر لے جایا گیا۔۔ اور دوسری انسانیت کی معراج۔۔ جب اتنی بلندی پر پہنچ کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاجزی کی حد کر دی۔۔ وہ عاجزی جو اللہ پاک کو بے حد پسند ہے !!!
وہ خاموش ہو گیا۔۔۔ اور میں چپ چاپ بیٹھا اُسکا منہ تکتا رہا۔۔!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے محمدؐ، کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے-اے محمدؐ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے (سورۃ کہف- 109, 110)

منتخب

27/03/2024

سورۃ الکہف

میں نے دو سال لگائے سورہ کہف کو سمجھنے میں اور ۱۲۰ تفاسیر کا مطالعہ کیا جن میں اردو اور عربی کی تفاسیر کا مطالعہ کیا اس کے علاوہ ایک فارسی تفسیر بھی تھی۔

ہم اس سورۃ کو صرف غار والوں کا واقعہ سمجھتے ہیں مگر اصل مدعا جو ہے اس کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں گئی۔

تو اس سورۃ کامقصود/ لب لباب یا سینٹرل آئیڈیا کہہ لیں یہ ہے کہ اللہ اس دنیا میں لوگوں کو آٹھ طرح کے حالات سے آزماتے ہیں، عزت، ذلت، صحت، بیماری، نفع، نقصان، خوشی ، غمی۔
ہر بندہ ہر وقت ان میں سے کسی ایک حال میں ہوتا ہے۔ ان آٹھ کو اگر تقسیم کریں تو دو دو حالات میں تقسیم ہو ں گے۔ تو یا تو اچھے حالات ہوں گے یا برے۔ یعنی یا تو بندہ عزت میں ہوگا یا ذلت میں۔ یا صحت ہو گی یا بیماری۔ تو اللہ دو حالات میں آزماتے ہیں یا تو اچھے یا برے۔ کہ یہ بندہ اچھے حالات میں شکر کرتا ہے یا نہیں اور برے حالات میں صبر کرتا ہے یا نہیں۔
تو دو پیپر بنے ایک شکر کا پیپر اور دوسرا صبرکا پیپر۔ اب اگر بندے نے اچھے حالات میں شکر کیا تو اس نے پیپر کو پاس کیا اور اگر ناشکری کی تو اس پیپر کو فیل کیا ۔ اور اگر صبر کے پیپر میں صبر کیا تو پاس ہوا اور بے صبری کی تو فیل ہوگیا۔
یہ زندگی دار الامتحان ہے جہاں ہم نے دو پیپر دینے ہیں ایک صبر کا دوسراشکر کا۔
اللہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کو بھی ان دو پیپرز میں آزمایا۔ پہلا شکر کا تھا جو کہ جنت کی نعمتیں تھیں، دوسرا درخت کا پھل تھا جو کھانے سے منع کیا گیا تھا تو یہ صبر کا پیپر تھا جس میں شیطان نے ان کو کامیاب نہ ہونے دیا۔
سورہ کہف میں پانچ واقعات ہیں۔
*حضرت آدم علیہ اسلام کاواقعہ۔
یہ قلب ہے اس سورت کا۔ آیتیں تھوڑی ہیں اس لیے پڑھنے والوں کی توجہ ہی نہیں جاتی۔
آدم علیہ السلام کے واقعہ سے پہلے دو واقعات عام الناس کے ہیں جن میں سے ایک اصحاب کہف تھے یہ عام نوجوان تھے اور انہوں نے صبر کا امتحان دیا اور اس پیپر میں پاس ہو کر مقبول بندوں میں شامل ہو گئے، دوسرا واقعہ دو باغوں والے شخص کا تھا یہ بھی عام شخص تھا جس کو مال و دولت دی گئی تھی اس کا پیپر شکر کا تھا کہ تم نے نعمتوں پر شکر کرنا ہے تو یہ فیل ہو گیا۔ اس کے بعد آدم علیہ السلام کا واقعہ اور پھر دو واقعات ہیں خواص کے۔ ایک موسٰی علیہ السلام کا کہ ان سے بھی صبر کا پیپر لیا گیا اور سکندر ذوالقرنین کا شکر کا پیپر تھا اور انہوں نے غرور و تکبر نہیں کیا اور شکر کا پیپر پاس کیا۔ اسی طرح اللہ اولاد آدم سے بھی صبر اور شکر کےپیپر لیتے ہیں۔
کچھ نکات

※ اللہ نے اس سورۃ کی شروعات میں اپنی الوہیت کا ذکر کیا اور ختم اپنی ربویت کے تذکرے پر کیا۔
※ شروع سورۃ میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت کا تذکرہ کیا اور اختتام ان کی بشریت پر کیا۔
※ انسان کے لیئے دنیا میں سب سے بڑی بلندی عبدیت ہے۔ اسی لیئے انسان ذکر کرتا ہے تاکہ اللہ کی محبت اس کے دل میں آ جائے۔ اب صرف محبت کا آ جانا مقصود نہیں ہے ، جب محبت آ جائے تو پھر محب ہمیشہ محبوب کو راضی کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اور رضا کیا ہے اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا، اگر اللہ اچھے حالات بھیجے تو شکر کرنا اور برے حالات میں صبر کرنا۔
جب بندے کو یہ مقامِ رضا حاصل ہو جائے تو پھر اس کو مقام عبدیت حاصل ہو جاتا ہے۔
※ عبد کا لفظ اللہ نے اپنے حبیب کے لیئے استعمال کیا۔
مفسرین کی نظر میں عبد وہ ہوتا ہے جس کو اپنے آقا کے سوا کچھ نظر نہ آئے۔ بعض کے نزدیک عبد وہ ہوتا ہے جو اپنے آقا سے کسی بات میں اختلاف نہیں کرتا ، ہر حال میں راضی رہتا ہے، شکوہ نہیں کرتا۔
※ چونکہ اس سورہ کو دجال سے حفاظت کے لیے پڑھنے کا ذکر احادیث میں آتا ہے۔ اس لیےکہ یہ ہمیں اس سے بچاتی ہے۔
※ پہلے دجال کے معنی کو سمجھیں کہ یہ دجل سے نکلا ہے دجل فریب کو کہتے ہیں اور ملمع سازی کرنے کو کہتے ہیں جس طرح تانبے پر سونے کا پانی چڑھا دیا جائے تو وہ اوپر سے کچھ ہو گا اور اندر سے کچھ ،اسی طرح دجال بھی اندر سے کچھ اور ہوگا اور باہر سے کچھ اور۔
آج کے دور میں اسی طرح دجالی تہذیب ہے کہ اوپر سے تو خوش نما نظر آتی ہے مگر اندر سے کچھ اور ہے۔ آج کے دور میں ایمان اور مادیت کی ایک جنگ چل رہی ہے۔ اب اس دور میں اگر اپنا ایمان بچانا ہے تو ہمیں بھی کہف میں گھسنا ہونا ہوگا۔ جی ہاں کہف میں!
※ آج کے زمانے میں جو کہف ہیں۔ اگر انسان ان میں داخل ہو جائے تو وہ دجال کے فتنے سے بچ سکتا ہے۔
قرآن مجید
جو قرآن کے ساتھ نتھی ہو جاتا ہے اس کو پڑھنا ،سیکھنا ،سمجھنا شروع کر دیتا ہے تو وہ بھی اپنا دین بچا لیتا ہے اور قرآن اس کے لئیے کہف بن جاتا ہے۔
مکہ اور مدینہ
احادیث کے مطابق جو بھی ان میں داخل ہو جائے وہ بھی دجال سے محفوظ رہے گا۔
جن میں داخل ہونے سے انسان اپنے ایمان کو بچا لیتا ہے اور دجال سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

اس سورت کا ہر واقعہ ہمیں ایک سبق سکھاتا ہے کہ کس طرح ہم نے خود کو دجال سے بچانا ہے۔
※ اصحاب کہف کے قصے سے یہ سبق ملا کہ ہم کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لئیے کسی نہ کسی کہف میں پناہ لینی ہے تاکہ ہم اپنا ایمان بچا لیں اور دجال سے محفوظ رہیں۔

※ صاحب جنتین کے قصے سے یہ سبق ملا
کہ اللہ نے جو مال دیا اس کو اپنی طرف منسوب نہ کرے جیسا کہ اس باغ والے نے کیا اور پکڑ میں آ گیا اور اس نعمت سے محروم کر دیا گیا۔
※ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملا کہ یہ دنیا ہمارے لیئےدار اقامت ہے ہمارا اصلی وطن جنت ہے دنیا میں رہ کر دنیا کو اپنا اصلی وطن سمجھ لینا اور ساری محنتیں اور ساری امیدیں دنیا پر لگا دینا بےوقوفی کی بات ہے۔ شیطان بدبخت نے ہمیں چھوٹی قسمیں کھا کھا کر اصلی وطن سے نکالا تھا اب یہاں بھی یہ ہمارا دشمن ہے اور ہم سے گناہ کرواتا ہے تاکہ دوبارہ جنت میں جانے کے قابل نہ رہیں۔ اللہ شر سے بچائے اور ہمارے اصلی گھر جنت میں پہنچا دے۔ آمین
※ موسٰی علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم دنیا میں جتنا بھی علم حاصل کر لیں ،دنیا میں کوئی نا کوئی ہم سے بھی بڑھ کر جاننے والا ہوگا۔
انسان کبھی بھی اشیاء کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتا۔
جب ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں تو پھر ہم دجال فتنے میں پھنس جائیں گے اس لیے اللہ نے موسی علیہ السلام کا واقعہ بیان کر دیا تاکہ ہم لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں سب پتا ہے بلکہ یہ کہیں کہ اللہ ہی حقیقت حال کو جانتے ہیں۔
علم اوربھی اس سے کہیں زیادہ ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے، اسی لیئے سورہ کہف انسان کو دجال کے فتنے سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کی ذہن سازی کرتی ہے اور ایسا ذہن بناتی ہے کہ بندہ کا ذہن محفوظ ہو جاتا ہے۔
※ حضرت ذوالقرنین کے واقعے سےسبق ملا
حضرت ذوالقرنین جہاں گئے وہ ان کے کوئی دوست رشتے دار نہیں تھے یا کوئی جاننے والے نہیں تھے کیوں کہ وہ تو ان کی زبان تک نہیں جانتے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے ان لوگوں کی مدد کی کیوں کہ وہ اللہ کی رضا کے لیئے اللہ کے بندوں کو نفع پہنچاتے تھے۔ ان سے کوئی پیسہ وغیرہ نہیں مانگتے تھے بلکہ جب انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو اس کے لیئے پیسے دیں گے تو انہوں نے انکار کر دیا۔ دوسرا یہ کہ وہ اللہ کی زمین پراللہ کا قانون نافذ کرتے تھے۔ جب ان کو اختیار دیا گیا کہ آپ اس قوم کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں مطلب چاہیں تو سزا دیں یا اچھا سلوک کریں تو انہوں نے اس قوم کو اللہ کی طرف بلایا تھا اور اپنے اختیار/ طاقت کو اللہ کے قانون کے نفاذ میں استعمال کیا۔

※ سورہ کہف میں پہلے پانچ واقعات بیان کر کے بندے کے ذہن سازی کی گئی اور اب آخری آیات میں اس ساری سورت کا نچوڑ بیان کی جا رہا ہے جو کہ تین باتیں ہیں :۔
1-جو لوگ دنیا ہی کو بنانے میں لگے رہتے ہیں درحقیقت وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔ ہر وقت دنیا اور اس کی لذات کو پانے کی فکر میں رہنا ہے دجالی فتنہ ہےلہذا فقط دنیا ہی کی فکر میں نا رہیں بلکہ آخرت کی بھی سوچیں۔

2-اس کے بعد اللہ نے اپنی صفات کو بیان فرمایا کہ اگر تم اپنے رب کی تعریفوں کو بیان کرو اور سمندر سیاہی بن جائیں اور دوسرا سمندر بھی اس میں ڈال دیا جائے تو تم پھر بھی اپنے رب کی تعریف بیان نہ کرسکو گے۔

3- آخر میں بتایا کہ جو اپنے رب کا دیدار کرنا چاہے، جو کہ سب سے بڑی اور سب سے بڑھ کر نعمت ہے، اس کا کیا طریقہ بتایا کہ وہ شخص جو کام کرے صرف اللہ کریم اور نبی کریم ﷺ کی خوشی کے لئے کرےاور جو ایسا کرے گا اللہ اس کو اپنا دیدار عطا کریں گے۔
اللہ ہمیں بھی اپنا دیدار عطا فرمائے۔الھم آمین

سر طور ہو سر حشر ہو ہمیں انتظار قبول ہے،
وہ کبھی ملیں، کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

منقول

27/02/2024

کیا آپ نے کبھی شدید دکھ میں سورۃ الضحی کو سُنا یا پڑھا ہے ؟
آپ اسکو سُن کر تو دیکھے پڑھ کر تو دیکھے آپکے دل کی تنگی تحلیل ہوگی۔اس سورۃ کو anxiety ,depression کی دوا بھی کہا جاتا ھے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ کے آغاز میں دو قسمیں کھاتے ہیں۔

وَالضُّحٰى (1)

دن کی روشنی کی قسم ہے۔

وَاللَّيْلِ اِذَا سَجٰى (2)

اور رات کی جب وہ چھا جائے۔

اس سے پتہ چلتا ہے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی دونوں کتنی Value رکھتی ہیں۔
زندگی بھی تو ایسے حالات سے گزارتی ہے ۔ کبھی روشن کبھی تاریک۔
تو پتہ چلا دونوں ہی برے نہیں ہوتے ہیں۔ دونوں کا آنا لازم ہوتا ہے۔ اور دونوں اپنی خوبصورتی کے ساتھ آتے ہیں۔
جب روشنی ہوتی ہے تو تاریکی چھانا لازمی امر ہے اور جب تاریکی ہے تو روشنی آنا بھی لازمی امر ہے۔
بات یہ ہے آپکو یقین ہونا چاہیے۔
کیا یقین ہونا چاہیے ؟
کہ کچھ بھی ہو۔

مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى (3)

آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ بیزار ہوا ہے۔

ہمارا رب نہ ہمیں چھوڑے گا نہ بیزار ہوگا۔
ساری دنیا چھوڑ سکتی ہے رب نہیں چھوڑے گا
جب لوگ آپ کو چھوڑ جائیں تو پریشان مت ہو۔ آپکا رب نہیں چھوڑے گا۔
ہر محبت بیزار ہوسکتی ہے۔پر خالق کی محبت مخلوق سے ختم نہیں ہوتی 🤍
کتنی پیاری تسلی ہے نا ۔ اللہ ہمیشہ ساتھ ہیں ۔۔۔
جب ہم دنیا میں خسارے میں جارہے ہوتے ہیں۔ہر تعلق آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہوتا ہے ۔ ہر چیز دور جا رہی ہوتی ہے۔ دنیا منہ موڑے کھڑی ہوتی ہے تو یاد رکھے

وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْـرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى (4)

اور البتہ آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے۔

اصل چیز تو آخرت ہے۔
دنیا میں نہ ہو کامیابی، لیکن آخرت پر کمپرومائز نہیں ہوسکتا ہے
آپ کیوں امید کرتے ہیں لوگ راضی کریں ؟
آپ کیوں ایسے اعمال نہیں کرتے جن سے اللّٰہ تعالیٰ راضی ہو،
آپ اللہ کے لیے کوشش کریں اللہ تسلی دیتے ہیں۔

وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَـرْضٰى (5

اور آپ کا رب آپ کو (اتنا) دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔

کیا ہوا جو ساری محنت ضائع ہوگی ؟ کیا ہوا سب نے چھوڑ دیا ؟ کیا ہوا سب کے آگے برے بن گے ؟ کیا ہوا مسلسل ناکامی ہے ؟ کیا ہوا مسلسل تنگی ہے؟ کیا ہوا کوئی راہ نظر نہیں آتی ۔
یاد رکھے ! اللہ آپکے ساتھ ہیں وہ آپکو بھولے گا نہیں۔
تو پھر کیا غم ؟ پھر کیا پریشانی ؟
تو مسکرائیے اور ہر دکھ ' درد تکلیف کو سپرد خدا کردیں۔
🔥
Everyone

31/01/2024

کیا آپ کو پتہ ہے فرض نمازوں اور قیام اللیل میں کیا فرق ہے ؟؟
سب سے زیادہ تحقیق جو میں نے قیام اللیل کے متعلق کی ہے ، اس سے آپ کے تن بدن میں رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے۔
میری خواہش ہوگی کہ آپ سب اس تحریر کو آخر تک لازمی پڑھیں ۔
یہ " دعوت " کا کارڈ ہے
( رب العالمین ) کی طرف سے۔
مجھے رات کے آخری حصے کی نماز ( قیام اللیل) نے تعجب میں مبتلا کر دیا!
اور میں نے اس میں پایا کہ :
۔ فرض نمازوں کی ندا بشر ہی لگاتے ہیں ، جبکہ قیام اللیل کی ندا رب العالمین لگاتے ہیں۔
۔ فرض نمازوں کی ندا ہر شخص سنتا ہے ، جبکہ قیام اللیل کی ندا بعض لوگ ہی محسوس کرتے ہیں ۔
فرض نمازوں کی ندا
( حي علی الصلاۃ ، حي علی الفلاح ) ہے ۔
جبکہ قیام اللیل کی ندا
(ھل من سائل فأعطیہ )
ہے کوئی سوال کرنے والا میں اسے عطا کروں ؟
۔ فرض نمازیں تمام مسلمانوں پر فرض ہیں
جبکہ قیام اللیل صرف اللہ کے چُنے ہوئے مومن ہی ادا کرتے ہیں ۔
۔ فرض نمازیں بعض لوگوں کی دکھاوے کی نظر ہو جاتی ہیں ۔
جبکہ قیام اللیل چپ کر اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ادا کی جاتی ہے۔
۔ فرض نمازوں کو ادا کرتے وقت مسلمان دنیاوی سوچوں میں مگن اور شیطانی وسوسوں میں مبتلا رہتا ہے ۔
جبکہ قیام اللیل میں مومن دنیا سے منقطع اور آخرت کی فکر میں مگن ہو جاتا ہے ۔
۔ فرض نمازوں میں مسلمان مسجد میں دوسروں سے ملاقات میں مشغول ہو جاتا ہے ،
جبکہ قیام اللیل میں مومن اللہ سے ملاقات کا شرف اور اس سے کلام اور سوال کا متلاشی رہتا ہے ۔
۔ فرض نمازوں میں دعا قبول ہونے کا علم نہیں ۔
جبکہ قیام اللیل میں اللہ نے خود اپنے بندے سے دعا کی قبولیت کا وعدہ کیا ہے۔
آخر میں !!
قیام اللیل اس خوش نصیب کو حاصل ہوتی ہے جس سے اللہ کلام کرنا چاہتا ہو ، اور اس کے ھم و غم سننا چاہتا ہو ، کیونکہ وہ اپنے اس مومن بندے کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔
بس خوش قسمت ہے وہ شخص جس نے اللہ ذوالجلال والاکرام کی طرف سے بھیجا گیا دعوت نامہ کارڈ کی صورت میں حاصل کیا اور اس کے سامنے بیٹھ کر باتیں کیں اور اس سے
مناجات کی لذتیں حاصل کیں ۔
جب آپ رات کے آخری پہر اندھیروں میں اپنے مالک الملک کے سامنے پیش ہوں تو بچوں والا اخلاق اپنائیں۔
کہ جب کوئی بچہ چیز مانگتا ہے تو نہ ملنے پر وہ روتا ہے ، یہاں تک کہ حاصل کر لیتا ہے ۔ پس آپ بھی اپنے رب سے بچوں کی طرح مانگیں ۔
اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ترغیب دیں ۔ تاکہ دوسروں کے عمل کا آپ کو بھی پورا اجر ملے۔
🕋
کاپیڈ

✍🏻

30/01/2024

‏اللہ تعالیٰ اپنی حاکمیت میں مداخلت پسند نہیں کرتا !

سورہ یوسف وہ واحد طویل سورت ھے جو یہود کے سوال کے جواب میں بیک وقت نازل ھوئی !
اس کو بیک وقت نازل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہود یہ نہ کہہ سکیں کہ نبی پاک ﷺ کسی سے پوچھ پوچھ کر قسطوں میں جواب دیتے ھیں !

یہ سورہ یوسف سے شروع ھونے والی داستان سورہ القصص میں جا کر مکمل ھوتی ھے جہاں اس کی انتہا ھوئی ھے !

یہود کا سوال یہ تھا جو کہ مکے کے مشرکوں کے ذریعے کیا گیا تھا کہ اگر وہ اللہ کے نبی ھیں تو ان سے پوچھو کہ بتائیں بنی اسرائیل فلسطین سے مصر کیونکر منتقل ھوئے !

جواب میں پورا قصہ یوسف بیان کیا گیا ،، اذھبوا بقمیصی ھذا فألقوہ علی وجہ ابی یأت بصیراً " وأتونی بأھلکم اجمعین " میری قمیص لے جا کر میرے ابا جی کے منہ پہ ڈالو ،، وہ دیکھنے لگ جائیں گے اور اپنی اپنی فیملیوں سمیت سارے میرے پاس آ جاؤ " گویا یوسف کو پہلے لے جا کر بادشاہ بنایا تا کہ بنی اسرائیل کے لئے پناہ گاہ میسر ھو پھر انہیں وھاں شفٹ کیا گیا !
دوسرا یہ کہ بڑے پیارے انداز میں تعریض فرمائی کہ ،،جو یوسف کے بھائیوں نے اس کے ساتھ کر کے بادشاہ بنوایا ،،آج اے مشرکینَ مکہ اور یہودِ مدینہ تم ٹھیک ٹھیک وھی کچھ محمد ﷺ کے ساتھ کر رھے ھو ،، مگر نہ برادرانِ یوسف میری اسکیم کو روک سکے تھے اور نہ تم روک سکو گے، " لقد کان فی یوسف و اخوتہ آیاتٓ للسائلین !ا ان سوال کرنے والوں کے لئے یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں بڑی نشانیاں ھیں !!

یاد رکھو اللہ اپنے ٹارگٹ تک بڑے لطیف اور غیر محسوس طریقے سے پہنچتا ھے !

کوئی اس کے اگلے قدم کو preempt نہیں کر سکتا !

یوسف کو بادشاھی کا خواب دکھایا ،، باپ کو بھی پتہ چل گیا ، ایک موجودہ نبی ھے تو دوسرا مستقبل کا نبی ھے ! مگر دونوں کو ھوا نہیں لگنے دی کہ یہ کیسے ھو گا !

خواب خوشی کا تھا ،، مگر چَکہ غم کا چلا دیا !

یوسف دو کلومیٹر دور کنوئیں میں پڑا ھے ،،خوشبو نہیں آنے دی !

اگر خوشبو آ گئ تو باپ ھے رہ نہیں سکے گا ،، جا کر نکلوا لے گا ! جبکہ بادشاھی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے لکھا گیا تھا !

سمجھا دونگا تو بھی اخلاقی طور پہ بہت برا لگتا ھے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بادشاہ بنانے کے لئے اسے کنوئیں میں ڈال کر درخت کے پیچھے سے جھانک جھانک کے دیکھ رھا ھے کہ قافلے والوں نے اٹھایا ھے یا نہیں ! لہذا سارا انتظام اپنے ھاتھ میں رکھا ھے !

اگر یوسف کے بھائیوں کو پتہ ھوتا کہ اس کنوئیں میں گرنا بادشاہ بننا ھے اور وہ یوسف کی مخالفت کر کے اصل میں اسے بادشاہ بنانے میں اللہ کی طرف سے استعمال ھو رھے ھیں تو وہ ایک دوسرے کی منتیں کرتے کہ مجھے دھکا دے دو !

یوسف عزیز کے گھر گئے تو نعمتوں بھرے ماحول سے اٹھا کر جیل میں ڈال دیا کہ ، ان مع العسرِ یسراً ،،

جیل کے ساتھیوں کی تعبیر بتائی تو بچ جانے والے سے کہا کہ میرے کیس کا ذکر کرنا بادشاہ کے دربار میں ،،مگر مناسب وقت تک یوسف کو جیل میں رکھنے کی اسکیم کے تحت شیطان نے اسے بھلا دیا یوں شیطان بھی اللہ کی اسکیم کو نہ سمجھ سکا اور بطورِ ٹول استعمال ھو گیا ،،اگر اس وقت یوسف علیہ السلام کا ذکر ھو جاتا تو یوسف سوالی ھوتے اور رب کو یہ پسند نہیں تھا ،، اس کی اسکیم میں بادشاہ کو سوالی بن کر آنا تھا ، اور پھر بادشاہ کو خواب دکھا کر سوالی بنایا اور یوسف علیہ السلام کی تعبیر نے ان کی عقل و دانش کا سکہ جما دیا ،، بادشاہ نے بلایا تو فرمایا میں : این آر او " کے تحت باھر نہیں آؤں گا جب تک عورتوں والے کیس میں میری بے گناھی ثابت نہ ھو جائے ،،عورتیں بلوائی گئیں،، سب نے یوسف کی پاکدامنی کی گواھی دی اور مدعیہ عورت نے بھی جھوٹ کا اعتراف کر کے کہہ دیا کہ : انا راودتہ عن نفسہ و انہ لمن الصادقین ،،،

وھی قحط کا خواب جو بادشاہ کو یوسف کے پاس لایا تھا ،، وھی قحط ھانکا کر کے یوسف کے بھائیوں کو بھی ان کے دربار میں لے آیا ،، اور دکھا دیا کہ یہ وہ بےبس معصوم بچہ ھے جسے تمہارے حسد نے بادشاہ بنا دیا ، فرمایا پہلے بھی تم میرا کرتہ لے کر گئے تھے ،جس نے میرے باپ کی بینائی کھا لی کیونکہ وہ اسی کرتے کو سونگھ سونگھ کر گریہ کیا کرتے تھے ،، فرمایا اب یہ کرتہ لے جاؤ ،، یہ وہ کھوئی ھوئی بینائی واپس لے آئے گا !
اب یوسف نہیں یوسف کا کرتا مصر سے چلا ھے تو : کنعان کے صحراء مہک اٹھے ھیں، یعقوب چیخ پڑے ھیں : انی لَاَجِدُ ریح یوسف لو لا ان تفندون ،، تم مجھے سٹھیایا ھوا نہ کہو تو ایک بات کہوں " مجھے یوسف کی خوشبو آ رھی ھے : سبحان اللہ ،،جب رب نہیں چاھتا تھا تو 2 کلومیٹر دور کے کنوئیں سے خبر نہیں آنے دی ،،جب سوئچ آن کیا ھے تو مصر سے کنعان تک خوشبو سفر کر گئ ھے !

واللہ غالبٓ علی امرہ ولٰکن اکثر الناس لا یعلمون ! اللہ جو چاھتا ھے وہ کر کے ھی رھتا ھے مگر لوگوں کی اکثریت یہ بات نہیں جانتی !

یاد رکھیں آپ کے عزیزوں کی چالیں اور حسد شاید آپ کے بارے میں اللہ کی خیر کی اسکیم کو ھی کامیاب بنانے کی کوئی خدائی چال ھو ،، انہیں کرنے دیں جو وہ کرتے ھیں، اللہ پاک سے خیر مانگیں !

جو آپ کو جاب سے نکلوانا چاھتا ھے شاید کسی اچھے پیکیج کی راہ ھموار کر رھا ھے !!
قاری حنیف ڈار۔۔۔۔✍️✍️

31/12/2023

پنجاب کے کسی دیہات میں ایک خوبرو قادیانی لڑکی شادی کے لئے ایک فوجی آفیسر کو پیش کی گئ
فوجی آفیسر نے شادی کی حامی بھرنے سے پہلے ایک شرط رکھی کہ وہ کبھی بھی قادیانیت قبول نہیں کرے گا
قادیانیوں نے اس کی شرط مان لی اور لڑکی فوجی آفیسر کے ساتھ روانہ کردی
شادی کے بعد رشتے ناطے میں آنا جانا لگا رہا اور نرمی سے فوجی آفیسر کو مائل بھی کیاجاتا رہا ایک دن قادیانیوں کے پوپ تشریف فرما تھے اور انہوں نے فوجی آفیسر سے کہا کہ آپ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتے نہ مانیں لیکن ہماری ایک بات قبول کیجیۓ ، آپ استخارہ کریں کہ آیا نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہے یا نہیں ؟
مرزا غلام احمد قادیانی سچا نبی ہے یا نہیں ؟
فوجی کو زہر پلایا جا رہا تھا مگر اسے پیتے ہوۓ احساس تک نہیں ہوا کہ وہ زہر کا پیالا چڑھا چکا ہے
اس نے استخارہ کرنے کی حامی بھر لی ، رات کو استخارہ کیا تو خواب میں نظر آیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نبی بنا ہوا ہے اور اس کے آس پاس لوگ جمع ہیں
صبح اٹھا تو اپنے کیے ہوۓ استخارے کے مطابق قادیانیت پر ایمان لے آیا
محض خود ایمان لاتا تو اتنا مسئلہ نہیں تھا اس نے باقاعدہ مرزے کی نبوت کی دعوت دینا شروع کر دی اور اپنے خاندان کو مرزا قادیانی کا امتی بنا ڈالا
سارے علماء بے بس تھے ، جو عالم اسے دعوت دیتا تو وہ کہتا میں نے کسی قادیانی کی دعوت پہ مرزے کو نبی نہیں مانا میں نے باقاعدہ استخارہ کیا ہے اور استخارے میں مجھے قادیانی بطور نبی دکھلایا گیا ہے ۔ مجھے از خود خواب دیکھنے کا موقع ملا ہے
جب کوئی بھی عالم اسے دلیل سے مطمئن نہ کر سکا تو وہ تنگ آکر علماء سے ملنا ہی چھوڑ گیا
بالاخر چناب نگر کے جلسے میں مولانا یوسف لدھیانوی شہید تشریف لاۓ ، ان کا شہرہ تھا اور یہ فوجی آفیسر اس زعم سے ملنے کو تیار ہو گیا کہ ان کے بڑے مولوی کو بھی دیکھ لیتے ہیں
مولانا سے جب فوجی آفیسر نے اپنا قضیہ بیان کیا کہ وہ کسی کی دعوت یا کسی لالچ میں قادیانی نہیں ہوا بلکہ وہ خود دیکھی ہوئی دلیل سے متاثر ہو کر قادیانی ہوا ہے
استخارہ اللہ سے مشورہ ہے ، میں نے رب کے ساتھ مشورہ کیا جس کا حکم اسلام میں ہے تو اللہ نے مجھے مرزا قادیانی کو نبی دکھلا دیا
اب میں اللہ کی مانوں یا مولویوں کی ؟
جو اللہ نے مجھے از خود خواب میں دکھایا وہ چھوڑ کر مولویوں کی کیسے مان لوں ؟
لدھیانوی شہید نے اس کا ہاتھ تھاما اور گویا زبان حال سے کہا فی الحال رب کی نہ مان اس درویش مولوی کی مان ، کہ مولوی ہی بتائے گا اصلی رب کیا کہہ رہا ہے
مولانا گویا ہوۓ اور کہا ، جب تم نبی اکرم ﷺ کی ذات میں شک سے گزرے تو مسلمان ہی نہیں رہے اگر تمہیں یقین کامل ہوتا کہ نبی اکرم ﷺ کی ذات ہی آخری نبی ہیں اور کوئی نبی آ ہی نہیں سکتا تو استخارے کے لیے ہر گز تیار نہ ہوتے
جب تم نے استخارے کی ٹھان لی تو گویا تمہیں شک ہوا کہ سید الابرار ﷺ آخری نبی ہیں بھی یا نہیں ؟
جب نبی اکرم ﷺ کی ذات کے حوالے سے تم شک سے گزرے تو کافر ہو گئے ، نبی کی ذات میں شک کرنا بھی کھلا کفر ہے ، جونہی تم شک میں مبتلا ہوۓ تو کافر ہو گئے اور حالت کفر میں تمہیں قادیانی ہی نبی نظر آنا تھا
فوجی آفیسر جھوم اٹھا دلیل سن کر ، اور کھڑا ہو کر مولانا شہید سے لپٹ گیا ، اسی وقت توبہ کی اور پھر سے مسلمان ہوا
تو ذرا سوچیے ابتداء کہاں سے ہوئی ؟ کیسے اسے سید الابرار ﷺ کی ذات کے حوالے سے شک میں ڈالا گیا اور انجام کیا ہوا ؟
امام اعظم ابو حنیفہ نے یہی تو کہا تھا کہ بنا کسی دلیل کے ختم نبوت پہ ایمان لے آؤ جو سوال کرے گا وہ کافر ہو جاۓ گا ، سوال شک کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور نبی اکرم ﷺ کی ذات میں شک کھلا کفر ہے
ایک اور واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ
کچھ دن پہلے ایک محفل میں بیٹھے تھے قادیانیوں کا ذکر چلا تو ایک صاحب بڑے فخر سے بولے کہ میرا ایک قادیانی سے چالیس سال سے تعلق ہے لیکن اس نے تو مجھے کبھی گمراہ کرنے کی کوشش نہیں کی، وہاں ایک بزرگ بھی بیٹھے تھے انہوں نے کہا کہ قادیانی ہو اور کسی مسلمان کا ایمان نہ لوٹے ایسا ممکن نہیں، قادیانیوں کی دشمنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور ان کے امتیوں سے ہے،قادیانی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ بیٹھنے والے مسلمان کا ایمان خرید لے اگر ایسا نہ ہو تو بھی وہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ یہ مسلمان نہ رہے،
جب اس سے پوچھا کہ قادیانی نے کبھی کوئی سوال کیا تو کہنے لگا بہت سال پہلے ایک سوال کیا تھا لیکن اس کا جواب نہ دے سکا ،، جب اس سے پوچھا کہ سوال کیا تھا تو وہ بولا کہ قادیانی نے مجھ سے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام تو تمھارے عقیدے کے مطابق آسمان پر حیات ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں تو مجھے بتاؤ کہ ایک غیر افضل نبی اوپر ہے اور افضل نبی نیچے ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
تو وہ بزرگ بولے کہ اس قادیانی نے تیرے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں شک ڈال دیا اب مجھے یہ بتا کہ ایمان شک کا نام ہے یا یقین کا نام ہے، تم کہتے ہو اس نے کبھی کچھ کہا ہی نہیں وہ تو تیرا ایمان ہی لوٹ کر لے گیا اور تجھے علم بھی نہ ہوسکا،

تو وہ شخص بولا کہ بزرگو اس کا جواب کیا ہے تو وہ بولے تم نے ترازو دیکھا ہے جو بھاری حصہ ہوتا ہے وہ نیچے ہوتا ہے اور خالی اوپر ہوتا ہے تو پھر وہ بولے کہ فرشتے آسمان پر ہیں تو فرشتے افضل ہیں یا انبیاء افضل ہیں پھر وہ مسکرا کر بولے تو اپنے آپ کو دیکھ تیرے سر پر ٹوپی ہے اب بتا کہ ٹوپی افضل ہے یا دماغ افضل ہے پھر وہ کہنے لگے کہ یہ مت سوچ کون اوپر ہے کون نیچے ہے یہ دیکھ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام کیا ہے وہ زمین پر ہیں لیکن ان کے جسم سے چھونے والی مٹی اللہ کے عرش سے بھی افضل ہے پھر انہوں نے کہا کہ قادیانیوں سے دور رہا کرو یہ ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والے لوگ ہیں یہ خود تو جہنم میں جلیں گے اپنے ساتھ تعلق والے مسلمانوں کو بھی جلا دیں گے.

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قادیانی فتنے سے محفوظ رکھیں ۔۔۔

21/12/2023

اے رب تعالی تمام بے اولادوں کی گودیں آباد فرما دیں
ناجانے کتنے بہنوں کی گودیں ویران ہیں
صرف تیرے کن کی منتظر ہیں ؟؟

"جب درد حد سے بڑھ جائے تو اس کی دوا کے لیے کبھی اِس کے در کبھی اُس کے در پر حاضریاں نہ لگانے لگ جانا بلکہ اسکے در پر جانا جہاں دلوں کو سکون اور روح کو قرار بخشا جاتا ہے ، جہاں جانے کے لئے پرہیزگار یا گناہگار ہونا لازم نہیں ، بس تڑپتی ہوئی ایک پکار ہی کافی ہے اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا جو ساری کائنات کا رب ہے کہ جس کے ہاتھ میں ہر درد کی شفا ہے ، جو مسبب الاسباب ہے اور سب سے بڑھ کر جو کُن فیکون کا مالک ہے
مایوس نہ ہونا کبھی بھی اپنے رب سے وہ کہیں بھی کچھ بھی عطا کر سکتا ہے"

سالوں کے دوران..میں نے لاشعوری طور پر اللہ المستعان کا ورد کرنے کی عادت ڈالی.. جب بھی مجھے کسی ایسی چیز کا سامنا کرنا پڑ...
04/12/2023

سالوں کے دوران..
میں نے لاشعوری طور پر اللہ المستعان کا ورد کرنے کی عادت ڈالی..
جب بھی مجھے کسی ایسی چیز کا سامنا کرنا پڑا جس سے میرا سکون خراب ہو..
لیکن مجھے اتنے طاقتور لفظ کے پس منظر کی کہانی سے کچھ عرصہ پہلے تک معلوم نہیں تھا..
جب میں نے سورہ یوسف پر نعمان علی خان کے ایک لیکچر میں اس کے بارے میں سنا تھا..
لفظ واللہ المستعان..
جیسا کہ قرآن میں مذکور ہے..
یعقوب علیہ السلام نے کہا تھا..
جب ان کے بیٹوں نے جھوٹی کہانی پیش کی کہ یوسف ع کے ساتھ کیا ہوا..
یعقوب نے سچائی تلاش کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اس کے بیٹوں نے اپنے گھناؤنے فعل اور جھوٹ کا دفاع کیا..
حالات سے تنگ آکر یعقوب نے اللہ سے صبرو جمیل (خوبصورت صبر) اور اس کے بعد واللہ المستعان کی درخواست کی..
قرآن کے مفسرین کے مطابق..
واللہ المستعان اس وقت اللہ کی مدد کے لیے استعمال ہوتا ہے ..
جب آپ اپنے آپ کو ناممکن حالات میں پاتے ہیں..
جب لوگ آپ کے خلاف اپنے جھوٹ کا دفاع کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں..
جب لوگ آپ پر کوئی جھوٹا الزام لگاتے ہیں..
جب آپ اپنے آپ کو کچھ دے چکے ہوتے ہیں..
آپ کا بہترین اور شدت سے مطلوبہ نتائج کا انتظار ہے..
جب آپ محسوس کریں کہ آپ ایسی صورتحال میں ہیں جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے..
یہ لفظی طور پر اللہ سے کہہ رہا ہے..
کہ میں نے اپنا بہترین دیا ہے..
اور اب میں پیچھے ہٹ رہا ہوں..
میں چاہتا ہوں کہ آپ ڈرائیونگ سیٹ کی ذمہ داری سنبھالیں اور اس معاملے کو اپنی الٰہی مداخلت سے حل کریں..
اور صبر خود بخود خوبصورت ہو جاتا ہے..
جب آپ پورے دل..
دماغ اور جان سے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں..
آپ سب کے ساتھ اس کا اشتراک کر رہی ہوں..
کیونکہ میں نے سوچا کہ یہ کسی کا دن روشن کر سکتا ہے..
پریشان نہ ہوں..
اگر صورتحال ناممکن نظر آتی ہے..
یاد رکھیں..
کہ آپ اس سے پوچھ رہے ہیں..
جس نے صرف 'کن' کہنا ہے..
اور یہ ہے..
آپ اپنے آپ کو الفتح کہنے والے سے پوچھ رہے ہیں..
جب کوئی راستہ نظر نہیں آتا تو کون راستہ نکالتا ہے..
اس لیے پیچھے ہٹیں اور باقی اللہ کو کرنے دیں..

اللہ المستعان ..

پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے 👉ٹگے دی ہانڈی گئی تے کتے دی ذات پہچانی گئی☺ پرانے وقتوں میں لوگ بہت سیانے ہوا کرتے تھے بڑی ز...
18/09/2023

پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے 👉
ٹگے دی ہانڈی گئی تے کتے دی ذات پہچانی گئی☺

پرانے وقتوں میں لوگ بہت سیانے ہوا کرتے تھے بڑی زیرک نگاہ کے حامل ہوا کرتے تھے ۔پھر یوں ہوا کے گھر لاۓ جانور(کتے) کی نسل کا ادراک کرنے کیلئے انواع و اقسام کے کھانے بناۓ گے اور ہانڈیوں کے ڈھکن ہٹا دیے گے اور اس پے اس کتے کو چھوڑ دیا گیا اب وہ کتا ہر ہانڈی میں منہ مارنے لگا تو اس پہ کیا خوب کہا کہ اس میں اس کتے کا قصور نہیں بلکہ اس کی کمظرف نسل کا ہے ہانڈی ضائع ہو گئی دوبارہ سے بن جائے گی پر اس کتے کی ذات پہچان لی گئی ہے اگر یہ اچھی نسل کا ہوتا تو ہر جگہ منہ نہ مارتا ۔ اب اگر آپکو بھی ایسا لگتا ہے کے آپ نے ایک شخص پر اپنی تمام چاہتیں محبتیں عقیدتیں نچھاور کر دی پر وہ پھر بھی ہمارا نہیں بن سکا پھر بھی بےوفائی کر گیا تو جس کو جگہ جگہ منہ مارنے کی عادت ہو نا اس کا کسی ایک پہ اکتفا نہی ہو سکتا اس میں آپکا یا آپکے جذبات کا قصور نہیں ہے اور نہ ہی اس شخص کا قصور ہے وہ بھی تو مجبور ہے اپنے ہی ہاتھوں کیوں کے عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اب اپ سوچے کے اگر اپ ایک بے قدر اور بےوفا کے ساتھ اتنا مخلص ہو کے رشتہ نبھا سکتے ہیں تو جو اپکے ساتھ مخلص ہو گا اس کے ساتھ اپ کیسا رشتہ نبھا سکتے ہیں رونا دھونا ایک ہی جگہ پڑے رہنا اپکی ذات کو زنگ آلود کر دے گا آپکے آنسوں بہت قیمتی ہیں اپکی ذات بہت قیمتی ہے ان لوگوں پہ ضائع مت کریں جو اپکی ایک نظر کے بھی مستحق نہیں ہیں بلکہ اپنی ذات کو وقف کر دیں ان لوگوں کیلئے جن کیلئے اپکی ایک مسکراھٹ قیمتی متاع کی اہمیت رکھتی ہے اٹھیں کے ایک خوبصورت زندگی اپکی منتظر ہے رشتے کم ہی سہی پر خالص بناۓ اور مخلصانہ نبھاۓ خوبصورت رشتوں کی اساس مخلصی اور احساس پہ ہی قائم ہے خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں😘
میرے سخت الفاظ اگر کسی کو برے لگے تو معذرت... 🌹❤️

20/06/2023

===========

*خاص دن کے لیے خاص تیاری*

کسی بھائی کا کہنا ہے کہ جب ذى الحجة کے پہلے دس دن اور خاص طور پر یوم عرفہ قریب ہوتے ہیں تو مجھے (سباستیان) یاد آ جاتا ہے.
یہ کون ہے؟ اور اس کا ان دنوں سے کیا تعلق ہے؟
وہ شخص بتاتا ہے کہ (سباستیان) ایک جرمن نوجوان ہے.
اکتوبر 2012 میں saturn نامی ایک کمپنی نے ایک مسابقے کا اعلان کیا اور اس مسابقے میں جیتنے والوں کو اس کمپنی نے اجازت دی کہ وہ 150 سیکنڈ میں اس مارکیٹ میں داخل ہوں گے اور جو جو سامان اٹھا لیں گے وہ ہی ان کا انعام ہوگا اور اس کی قیمت نہیں ادا کرنا ہوگی.

مقررہ دن ڈھائی منٹ کے لیے وہ سب جو مسابقے میں جیتے تھے، مارکیٹ میں داخل ہوئے اور جلدی جلدی سامان سمیٹنے لگے اور دکان سے باہر پھینک کر دوسرا اٹھا لیتے. جو بھی سامنے نظر آیا فوراً اٹھا لیا. جو ان کو چاہیے تھا یا نہ چاہیے تھا، قیمتی تھا یا سستا تھا، ان کو اس بات کی پرواہ نہیں تھی. ان کو بس ڈھائی منٹ میں سامان سمیٹنا تھا.

*لیکن سب سے انوکھا کام اس نوجوان کا تھا.* اس نے جلدی سے طےشدہ پروگرام کے تحت ترکیز کے ساتھ سامان سمیٹا جیسے کہ سب کچھ پہلے سے ہی جانتا ہے. قیمتی ترین موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور اچھی برانڈ کا سامان وہ اوپر نیچے رکھتا ہوا باہر نکلتا، پھر دوبارہ داخل ہوتا. باقی لوگ اس کی پرفارمنس اور سلیکشن اور ہمت دیکھ کر بہت حیران تھے. بالآخر ڈھائی منٹ کے بعد وہ تھکاوٹ سے زمین پر گر گیا اور آپ اندازہ کر لیں کہ اس نے صرف ڈھائی منٹ میں 29 ہزار یورو کا سامان اٹھا لیا تھا.

اور سب سے پہلا جملہ باہر نکلتے ہی جو اس جوان کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا کہ *میں اپنی تکنیک میں کامیاب ہو گیا.*

اب اس کا انٹرویو کیا گیا کہ آپ نے یہ جملہ کیسے کہا؟ تو اس نے بتایا کہ جس دن میں نے اس مسابقے کا سنا تو روز اس مارکیٹ جاتا اور اپنے ذہن میں ترتیب کرتا کہ مہنگا سامان کہاں پڑا ہے اور اپنی ترجیحات کو سب سے اوپر رکھتا اور طریقہ سوچتا کہ مجھے جب ڈھائی منٹ کے لئے اس مارکیٹ میں جانے کا موقع ملے گا تو میں کیسے قیمتی سامان لوں گا. چونکہ میں دماغی طور پر پلاننگ کر چکا تھا اس لیے باہر نکلتے ہی اپنی جیت کا تصور الفاظ کی صورت میں میرے منہ سے نکلا.

جو بھائی یہ سارا قصہ سنا رہا تھا کہتا ہے اس قصے میں مجھے اپنے لیے عبرت نظر آئی کہ مجھے ان دس دنوں میں اسی جرمن نوجوان کی طرح اول آنا ہے.
اس نے تو 29 ہزار یورو صرف دو منٹ میں حاصل کر لئے. مجھے ان دس دنوں میں بہت کچھ حاصل کرنا ہے. عرفہ جیسے عظیم دن میں اللہ سے بہت دعائیں مانگنی ہیں.

امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
*"میں ایسی قوموں کو جانتا ہوں جو یوم عرفہ کے لئے اپنی حاجات سنبھال لیتے (اپنی دعاؤں کی لسٹ تیار کرتے) تاکہ اس دن اللہ سے مانگیں."*

ہم کیسے جانیں گے ان دنوں کی عظمت اور فضل کو اگر ہمارے پاس پہلے سے کوئی پروگرام نہ طے ہو کہ ان دنوں میں کیسے فائدہ لینا ہے؟

کیسے جانیں گے کہ عرفہ کے دن سب سے زیادہ گردنیں اللہ تعالی جہنم سے آزاد کرتے ہیں. اس دن اللہ کی رحمت بہت جوش میں ہوتی ہے. اس دن کا روزہ پچھلے سال اور آنے والے سال کے گناہوں کی معافی کا پیغام لاتا ہے اور پھر اس کے لیے کوئی تیاری نہ کریں.

اگر یہ سب جان لیا تو پھر کیا پلاننگ کی ہم نے؟

اللہ کی قسم! اس دن بہت سے لوگوں کو دعا مانگنے کے سبب وہ کچھ مل گیا جس کا وہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے. اس لئے ہم سب کو دنیا اور آخرت میں جو جو کچھ چاہیے اس کی لسٹ بنالیں.
پھر عرفہ والے دن ہر کام کو بھول کر ظہر سے مغرب تک اپنے اللہ سے مانگ لیں.
کسی پر قرض ہے،
رشتہ نہیں ہو رہا،
اولاد نہیں ہو رہی،
کوئی مریض ہے،
فقر ہے،
روزگار نہیں ہے،
گناہ بہت ہیں،
تو پھر کس چیز کا انتظار ہے؟

ہم خوبصورت ترین دنوں میں ہیں. مانگ لیں اپنے رب سے اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ ایک بار پھر زندگی میں عرفہ کا دن آ رہا ہے.
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں عرفہ کے دن عصر کے بعد سفیان ثوری رحمہ اللہ کے پاس گیا تو دیکھا وہ گھٹنوں کے بل کھڑے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے ہیں.
انہوں نے مجھے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا کہ اس میدان میں سب سے برے حال میں کون ہے؟
کون آج کے دن سب سے بدنصیب انسان ہے؟
انہوں نے جوب دیا کہ جو آج یہ سوچ لے کہ اللہ مجھے معاف نہیں کرے گا۔

اے مسلمانو! اپنے گناہوں کو اس دن بڑا نہ سمجھنا بلکہ اللہ سے امید رکھنا، وہ سب معاف کر دے گا. اور اس دن اپنی کسی حاجت کو بڑا یا ناممکن نہ سمجھ لینا. جو دل چاہے اپنے رب سے مانگ لینا.
اللہ تعالیٰ ہم سب کے ہر طرح کے گناہ معاف کر دے. ہمیں جہنم سے آزاد کر دے. ہماری سب دعائیں قبول فرما لے اور ہمارے روزے، ہماری نمازیں اور باقی نیکیاں قبول فرما لے.
اور اے کریم رب! اپنی رحمت کے سائے میں ہم سب کو لے لینا، آمین.

_____________

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ALLAH MALIK HAI posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share