27/12/2023
مذہب بیزار اور ملک بیزار دوستوں کے نام
ایک سوچ سے دوسری سوچ کا سفر
کل کی پوسٹ کے حوالے سے ایک ایکسٹینشن۔۔
یہ جو پچھلے تھوڑے عرصے سے یا یوں کہہ لیں دو مہینے سے میں پاکستان اور خاص طور پر مذہب سے بیزاری کے متعلق مثبت رپورٹنگ کر رہا ہوں اسکی وجہ سے میرے شدید تنگ نظر لبرل، مذہب بیزار ایتھیسٹ اور وہ سستے دانشور دوست جو پاکستان کے خلاف یا پاکستانیوں کے خلاف یا کسی ایک مذہب یا فرقے کے خلاف سستی دانشوری جھاڑ کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ لوگ یا تو مجھے انفرینڈ کر گئے ہیں یا میری پوسٹس پر آنا چھوڑ گئے ہیں
ان میں میرے بہت قریبی دوست بھی ہیں جو نہ صرف میری پوسٹس پر آنا چھوڑ گئے ہیں بلکہ فیسبک کی دنیا سے باہر بھی تعلق ختم کر چکے ہیں۔۔
میں یہ رونا رونے کے لیے یہ پوسٹ نہیں لکھ رہا کہ لوگ مجھ سے دور ہوگئے ہیں بلکہ میں کچھ اور بتانا چاہ رہا ہوں
بات یوں ہے کہ شاید آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ دو ماہ پہلے میں نے کتابیں پڑھنے کا سلسلہ پھر سے شروع کردیا تھا جس میں میں نے دنیا کے عظیم ناول پڑھنے کے ساتھ ساتھ اکانومی پر لکھی گئی کتابیں بھی پڑھ ڈالی اور سائیکالوجی کے متعلق بھی پڑھتا رہا تو میرا مائنڈ سیٹ تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔۔ یاد رہے جن لکھاریوں کی میں نے کتابیں پڑھی انکا کسی مذہب سے تعلق نہیں تھا، اگر تھا بھی تو انہوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ کہیں نہیں کی یہ ایک ارتقا کا سفر ہے میری سوچ کے ارتقا کا سفر ۔۔
میں نے ان کتابوں سے سیکھا کہ بظاہر ہم (آزاد خیال لوگوں سمیت) سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی اپنے نظریے اپنی سوچ اور اپنی مرضی سے جی رہے ہیں اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں ہم میں یہ مادہ ہے کہ ہم اپنی مرضی سے کسی سوچ یا نظریے کو رد کر سکتے ہیں۔۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔۔ ہم بس کسی ایک کے نظریے کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے نظریے کو پکڑ لیتے ہیں جیسا کہ کسی مذہب بیزار شخص کی ہی بات کرلیں تو وہ اپنے آبائی مذہب کو خود نہیں چھوڑتا بلکہ کسی انفلونس کی وجہ سے چھوڑتا ہے کیونکہ اسے دلیل مل رہی ہوتی ہے ہاں ٹھیک ہے آپ نے کسی اچھی دلیل کو قبول کیا اس پر آپ داد کے مستحق ہیں لیکن آپ نے ایک دلیل (مذہب) کو رد کرکے دوسرے شخص کے مذہب یا دلیل کو مان کر اسے قبول کرلیا ہے تو آپ نے صرف ایک نظرئیے کو چھوڑ کر دوسرے کو پکڑا ہے سفر کوئی نہیں کیا۔۔ یعنی پہلے آپ ان لوگوں کی دلیلیں دیا کرتے تھے جو پرو مذہب ہیں اور اب آپ ان لوگوں کی باتوں کو کوٹ کر رہے ہو جو مذہب بیزار ہیں بس۔۔
صاف لفظوں میں کہوں تو آپکی اپنی ذات نہ پہلے کچھ تھی نہ اب کچھ ہے
میں اپنی کہی ہوئی باتوں پر بھی غور کرتا ہوں اور جب بھی مجھے لگتا ہے کہ میری بات اب ریلیوینٹ نہیں رہی تو مجھے اپنی سوچ اپنا نظریہ بدلنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی
لیکن میں اپنی دو باتوں پر اب بھی قائم ہوں
1- میں نہ کسی مذہب کا پیروکار ہوں اور نہ کسی مذہب کا مخالف ہوں حتی کہ میں خود کو ایتھیسٹ بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نظر میں ایتھیسزم بھی ایک مذہب ہی ہے
اس بات پر ہماری ایک سوشل میڈیا نیم مسلم لیکن کٹر بندی نے مجھے زچ کرنے کے لیے بہت دفعہ مجھے ملحد اور دہریا اور اس طرح کے بہت سے الفاظ کہے کہ شاید میں کوئی ری ایکٹ کروں لیکن میرا کوئی ری ایکٹ کرنا بنتا ہی نہیں تھا سو میں نے کیا بھی نہیں
2- دوسری بات جو میں ہمیشہ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ
" میں آج تک کسی بھی شخص سے اس قدر متاثر نہیں ہوا کہ اسکی ہر بات سچ مان سکوں"
ٹھیک ہے میں بہت لوگوں کی بہت سی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں پسند کرتا ہوں انہیں آئیڈلائز بھی کرتا ہوں لیکن حرف آخر کسی کو نہیں سمجھتا کیونکہ جو ارتقا کی تاریخ میں نے ایکسپلور کی ہے وہ مقبول ترین روایات سے قدرے مختلف ہے ، مختلف اسلیے بھی ہے کیونکہ وہ تاریخ میں نے خود ایکسپلور کی ہے اسکا کسی کتاب افسانے ، تھیوری یا کسی انٹرنیٹ ویب سائٹ پر ذکر نہیں
اب بات کر لیتے ہیں آجکل پرو پاکستانی ہونے کی تو اسکی وجہ بھی اوپر کی گئی باتوں سے ہی نکلتی ہے ۔۔
ایک سادہ سی لائن کہونگا پھر اسکے بعد تفصیل :
" مجھے اٹینشن سیکنگ کی بیماری نہیں ہے، اور احساس کمتری جو تھی وہ اب نہیں رہی"
جی ہاں میں سمجھتا ہوں پاکستان یا پاکستان سے باہر بیٹھے وہ لوگ جو پاکستان یا پاکستانیوں کو برا بھلا یا کمتر سمجھتے ہیں وہ دراصل زمینی حقائق سے نبرد آزما نہیں ہوتے۔۔ وہ لوگ جن چیزوں کو بنیاد بنا کر تنقید کرتے ہیں وہ چیزیں کچھ وجوہات تو ہو سکتی ہیں پر مکمل وجہ نہیں ہو سکتی۔۔ شاید میری بات پر ایسے لبرل اور ملک بیزار لوگوں کو غصہ آئے لیکن ایک حقیقت بات بتاتا ہوں آپکو۔۔ آپکو 100 میں سے شاید 2 فیصد ہی ایسے لبرل لوگ ملیں گے جنہوں نے کوئی کمپیریٹو سٹڈی کی ہوگی باقی مذہب بیزار یا ملک بیزار لوگوں کا کل علم فیسبک کی پوسٹیں یا بنے بنائے لوگوں کے شئیر کیے ہوئے کوٹ ہوتے ہیں اور یہ لوگ ایمان لانے سے پہلے ان کوٹس کی حقیقت جاننا بھی گوارہ نہیں کرتے بس اس حقیقت کی تشہیر کرنا شروع کر دیتے ہیں جو دراصل حقیقت ہوتی نہیں اور اگر ہوتی بھی ہے تو اس سینس میں نہیں ہوتی جس سینس میں یہ لوگ پھیلا رہے ہوتے ہیں مثلا وہ ایک مقبول محاورہ ہے ناں کہ
شہر جل رہا تھا نیرو پہاڑ پر بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔۔
اب یہ مثال دینے والوں کی اکثریت کو دور دور تک اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ نیرو تھا کون اور اسکا اس جلنے والے شہر سے کیا تعلق تھا، شہر کیوں جلایا گیا کس نے جلایا جب نیروں واپس آیا اس نے کیا کیا یعنی سیاق و سباق سے بالکل عاری ہوتے ہوئے بس ایک مثال کو پکڑ لیتے ہیں یا ایک کوٹ کو پکڑ لیتے ہیں اور اس کوٹ کو اسی منفی سوچ کے ساتھ شئیر کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سوچ کے ساتھ نیرو کے بارے میں یہ بات کہی گئی اور محاورہ بن گیا۔۔
پاکستان یا پاکستانیوں کے بارے میں برا بھلا بولنے والوں کو موازنے کے پیرامیٹرز کا پتہ نہیں ہوتا لیکن وہ تنقید کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ بھی انفلونس میں ہوتے ہیں وہ لوگ خود کو دانشور یا دوسرے پاکستانیوں سے الگ دکھانا چاہتے ہیں
پوسٹ زیادہ لمبی ہو رہی ہے اور میں دفتر میں بیٹھ کر یہ سب لکھ رہا ہوں اسلیے باقی باتیں پھر کبھی ، ابھی اس بات پر اختتام کرتا ہوں کہ
اے لوگو! خود کو احساس کمتری کا شکار مت کرو، خود کو کمتر سمجھنا چھوڑو گے تو بہتر انسان بنو گے جب تک اپنی سوچ میں ہی کمتر سمجھتے رہو گے تو کمتر ہی رہوگے ۔ مسائل ہیں، ہر جگہ ہوتے ہیں، ان پر تنقید کرو لیکن کوئی حل بھی کرو۔۔ دوسروں کو حل مت بتاو پہلے اپنے لیے حل کرو خود اس مسئلے سے نکلو دوسرے بھی کرلیں گے، مثبت رہو کیونکہ منفی سوچ سے آپ اٹینشن تو لے سکتے ہیں لوگوں کی واہ واہ تو لے سکتے ہیں لیکن پروگریسو نہیں ہو سکتے۔۔ بس ایک نظریے کو چھوڑ کر دوسرے کو اپناتے رہنا کوئی ارتقا نہیں ہے ارتقا یہ ہے کہ جو نظریہ تم اپنا چکے ہو اس کو بھی رد کرنے کا حوصلہ رکھو اور تخلیقی سوچ یہ ہے کہ تم اپنا خود کا نظریہ پیدا کر سکو۔۔
شکریہ
راشد علوی