17/04/2024
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جدائی _سے_ ملن _تک
#ازقلم _زیب_انساء
قسط
اسلام علیکم داجی جی سالار نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا وعلیکم السلام برخوردار کہا غائب تھے تم دونوں وہ داجی موسی اپنے کپڑے ساتھ نہیں لایا تھا تو اس لیے اپنے کچھ کپڑے دینے چلا گیا تھا اور کچھ ضروری کال آ گئی تھی تو اسے سنتے وقت لگ گیا سہی ہے ڈاکٹر سے بات ہوئی کیا کہتے ہیں کب لے جا سکتے ہیں ہم دریہ کو اپنے ساتھ
میری تو کوئی بات نہیں ہوئی ڈاکٹر سے شاید چھوٹے بابا اوربابا ڈاکٹر کے پاس ہی گئے ہیں ٹھیک ہے یہ کام وہ لوگ دیکھ لیتے ہیں تم بچیوں کے ساتھ جاؤ اور انہیں گھر سے جو بھی ضروری چیزیں چاہیے وہ لے لیں اور اپنے ڈاکومنٹس وغیرہ بھی لے آئے
میرے خیال سے ان کے ساتھ ماما کو جانا چاہیے اور اگر پھر بھی کوئی ضرورت پڑی تو بابا یا موسی چلے جائیں گے
اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ اتنے خطرناک ماحول میں تمہاری ماں کے ساتھ بیجھو گا
تو ٹھیک ہے پھر داجی موسی چلاجاتا ہےان لوگوں کے ساتھ اور گھر سے ہر چیز کلئیر کر کے ہی آئے گا وہ
اسلام علیکم داجی اتنی دیر میں موسی کی آواز آئی لیجئے ہم نے موسی کو یاد کیا اور موسی حاظر ہو گیا سالار مسکراتے ہوئے بولا
کیا بات ہے بڈی آج کل مجھے کچھ زیادہ ہی یاد نہیں کر رہے آپ سب
کوئی بات نہیں میں تو اس سے صرف یہ کہہ رہا تھا کہ بچیوں کے ساتھ جا کر گھر سے ان کی ضروری چیزیں اور ڈاکومنٹس وغیرہ لے کر گھر کی چابی وہی کسی کو دے آئے جو لوگ اس گھر کے دعوے دار ہے ان لوگوں کو دے جب وہ لوگ آئے ہمیں کچھ نہیں چاہیے ہماری بچیاں ٹھیک ہیں ہمارے لئے یہی کافی ہے
ٹھیک ہے داجی میں چلا جاتا ہوں مس خاموش کے ساتھ اور سب کلئیر کر کے ہی واپس آئے گے ہم موسی جلدی سے بولا
اب سمجھ آئی داجی کہ میں کیوں کہہ رہا تھا کہ موسی کو بیھج دے
ہاں سمجھ تو میں بہت کچھ رہا ہوں
سہی ہے تم بچیوں کو اور مومنہ بیٹی کو ساتھ لے جاؤ تا کہ بچیوں کی کچھ مدد وغیرہ بھی کروا دے گی پیکنگ میں اور تم وہاں اس گھر کی چابی ساتھ والوں کو دے آنا اور ان سے کہنا کہ مکان مالک کو واپس کر دے جس کے نام مظہر نے مرنے سے پہلے یہ گھر کیا تھا تاکہ آگے جا کر بچیوں کو کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے میں نہیں چاہتا کہ اس برے وقت کا سایہ بھی دریہ اور اس کی بچیوں پر کبھی پڑے
آپ بے فکر رہیں داجی ان لوگوں کی طرف آنے والی ہر پریشانی کو پہلے سالار راجپوت سے ٹکرانا پڑے گا میں نے ابھی سے انہیں اپنی بہنیں مانا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ میں اپنے رشتوں کی خوشیوں کے لیے کوئی کمپرومائز نہیں کرتا اس لیے اس طرف سے بے فکر رہیں ان لوگوں کی پڑھائی سے لے کر شادیوں تک کی ذمہ داری میں خوشی خوشی پوری کرونگا اور یہ وعدہ میں پھوپھو کے سامنے کر رہا ہوں پھوپھو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں اس نے دریہ کو جاگتے دیکھ کر کہا نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں بلکہ میں تو خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی ہوں کیونکہ کہ آج میں بہت خوش ہوں کہ کوئی تو ہے جو میرے بعد میری بچیوں کی اچھی دیکھ بھال کر سکتا ہے
ارے پھوپھو آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں ابھی آپ کو بہت جینا ہے اور بہت ساری خوشیاں دیکھنی ہیں کیوں داجی سالار نے دریہ کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا
بالکل بھئ تو سالار کی موسی کی اور نائل کی بچیوں۔ کی شادی تم نے خود اپنے ہاتھوں سے کروانی ہے داجی بولے اسی وقت دروازہ کھلا اور شاداب صاحب اور آفتاب صاحب کمرے میں داخل ہوۓ
کیا باتیں ہو رہی تھی ہمارے آنے سے پہلے سالار اور موسی کی شادی کی بات کر رہے تھے ہم لوگ کہ دریہ کے ٹھیک ہوتے ہی ان لوگوں کی شادی کر دے گے
بلکل بابا یہاں سے جاتے ہی یہ نیک کام کردے گے ہم کیوں گڑیا
جیسا آپ کو مناسب لگے آپا لوگ کب تک آئے گے جب تم گھر پہنچو گی وہ سب لوگ گھر میں ہی موجود ہوں گے پہلے سے تم فکر مت کرو آفتاب صاحب بولے
کب تک لے جا سکتے ہیں ہم پھوپھو کو
کل صبح ہی نکلے گے اب آگے تمہاری ذمہ داری ہے سب ارینج کروانا گاڑی اور ساتھ میں ایک ڈاکٹر جو وہاں تک ہم لوگوں کے ساتھ جاسکے شاداب صاحب بولے
ٹھیک ہے آپ لوگ اپنی تیاری کرے باقی سب میں سنبھال لو گا
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
اسلام علیکم امی آپ کب آئی واپس اور ہمیں بتایا بھی نہیں رانیہ نے نیچے ہال میں ماں کو بیٹھے ہوئے دیکھ کر کہا وعلیکم السلام میں تو رات کو ہی واپس آ گئی تھی تب تم لوگ سو رہے تھے تھے تو میں نے تم لوگوں کو اٹھانا مناسب نہیں سمجھا تم بتاؤ تمہارا باپ اور بھائی کہاں غائب ہیں تم لوگوں کو دو دنوں سے اکیلے چھوڑ کر
ارے امی ہم کوئی چھوٹے بچے ہیں جو اپنا خیال نہیں رکھ سکتے عیسی آتے ہوئے بولا
ہاں جی تم لوگ تو بہت بڑے ہو گئے ہو اب تم لوگوں کو ہماری کیا ضرورت اسی لیے تو تم لوگ مجھے کچھ بتانا ضروری نہیں سمجھتے
ارے نہیں میری پیاری امی جان بس ہم لوگ آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے نہیں بتایا اور پھر ہم کوئی چھوٹے بچے تھوڑی ہیں کہ ہم اکیلے میں ڈر جائے گے رانیہ کہتے ہوئے زہرہ بیگم کے کے پاس ہی آ کر بیٹھ گئی اور پھر ماما وہ لوگ کون سا ہمیں بتا کر گئے ہیں کہ وہ لوگ کہاں جا رہے ہیں
اسی بات کی وجہ تمہارے باپ کا اور میرا جھگڑا ہوتا ہے کہ کبھی بھی کچھ بتا کر نہیں جاتے کہ ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں خاص کر جب اپنے اس چہیتے کے ساتھ یا اپنے باپ کے ساتھ کہیں جائے تو
ماما وہ ہمارے داجی ہیں اور وہ ہم لوگوں سے کتنا پیار کرتے ہیں یہ بات آپ بھی اچھی طرح سے جانتی ہیں بابا اور آپ کا جھگڑا بھی ہمیشہ اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ آپ کبھی بھی بولتے وقت سوچتی نہیں عیسی کھڑے ہوتے ہوئے بولا اور رہی بات سالار بھائی کی تو وہ اس قابل ہیں کہ ان کی ہر بات مانی جائے کیونکہ کہ وہ کبھی بھی ہم لوگوں اور مشی آپی میں فرق نہیں کرتے
ہو تم لوگوں کو نجانے کون سے تعویذ کھلوائے ہیں اس نے کہ اس کے خلاف ایک بات نہیں سن سکتے اور کتنا کہا تھا اس لڑکی سے کے اس کے ساتھ رشتے کے لیے ہاں نہ کرے لیکن تم سب لوگوں کو تو میری کہیں کوئی بات سمجھ نہیں آ تی
پلیز ماما آپ جانتی ہیں کہ میں اس معاملے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی یہ میری زندگی کا معاملہ تھا اور داجی بابا اور بھائی سب نے ہی مجھے یہ حق دیا تھا کہ میں اپنا فیصلہ خود کروں اور میں سالار کے ہاں اسی لیے کی تھی کیونکہ وہ رشتوں کو کتنی عزت دیتے ہیں یہ آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں کیونکہ آپ ان کے ساتھ جتنے بھی روکھے انداز میں بات کرے لیکن کبھی بھی انہوں نے پلٹ کر جواب نہیں دیا کیونکہ وہ آپ کی کی عزت کرتے ہیں
ہوں جانتی ہوں میں کتنی عزت کرتا ہے ہر چیز پر قبضہ کر کے بیٹھا ہوا ہے ایک تمہارا بھائی جسے فوج میں بیجھ دیا اس نے تاکہ ہر چیز پر خود ہی قابض ہوسکے
موم یہ بھائی کا اپنا شوق تھا آرمی میں شمولیت اختیار کرنا اور اگر کل کو میں بھی کوئی اور فیلڈ چنو گا تو اس میں بھی سالار بھائی کا قصور نکال دیجیۓ گا
تم لوگوں سے تو بات کرنا ہی بیکار ہے تم لوگ ہو ہی اس کے چمچے ہمیشہ سے
موم ہون تسی زیادتی کر رہے ہو سالار بھائی نال عیسی نے مسکراہٹ دباتے ہوئے پنجابی میں کہا کیونکہ کہ وہ جانتا تھا کہ زہرہ بیگم کو ان لوگوں کا پنجابی بولنا نہایت ہی ناپسند تھا اس لیے جب ان لوگوں نے زہرہ کا دھیان بھٹکانے کی کوشش کرنی ہوتی تو وہ لوگ پنجابی زبان بولتے اور وہ چڑ کر غصے میں ان لوگوں سے ناراض ہو کر واک آؤٹ کر جاتی
ہاں تم لوگ کبھی مجھے سمجھ نہیں سکتے اور مجھے کیا فائدہ تم لوگوں کو اتنا پڑھانے کا اگر یہی جاہلوں والی زبان تم لوگ نہیں چھوڑ سکتے
اچھا مما سوری اور عیسی تم بھی موم سے معافی مانگو موم آپ جو کہیں گی وہی ہو گا پلیز آپ غصہ نہ کریں بابا سے میری صبح بات ہوئی تھی وہ لوگ آج یا صبح تک آ جائے گے
بات تو میری بھی صبح ہوئی تھی لیکن کیا ضروری کام ہے جو کسی کو بتا نہیں رہے
اوکے موم آئے گے تو خود ہی پوچھ لیجئے گا آپ اب ریلیکس ہو جائے رانیہ ہم دونوں کو اچھا سا ناشتہ کرواتی ہے عیسی کہتے ہوئے دوسری طرف آ کر اس کے پاس بیٹھ گیا
ٹھیک ہے رانی سے کہتی ہو کہ آپ لوگوں کے لیے اچھا سا ناشتہ اور میرے لیے جوس بنائے میرا یونیورسٹی میں آج ضروری اسائنمنٹ ہے اس لیے مجھے جلدی جانا ہے
ٹھیک ہے تم جا کر اپنی تیاری کرو ناشتہ کے لیے رانی سے کہہ جاؤ
اوکے اللہ حافظ میری پیاری موم کہتے ہوئے وہ ان کے گال چوم کر بھاگ گئی
پاگل ہے بالکل کہتے ہوئے وہ مسکرائیں
موم وہ آپ سے بہت پیار کرتی ہے شاید مجھ سے اور موسی بھائی سے زیادہ تو پلیز اسے کسی آزمائش میں نہ ڈالیے گا کہتا ہوا وہ اپنے کمرے میں چلا گیا
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
مشی تمہاری سالار بھائی سے بات ہوئی زمل کہتے ہوئے مشعال کے کمرے میں داخل ہوئی
نہیں جب سے گئے ہیں میری تو کوئی بات نہیں تمہاری ہوئی
نہیں ہوئی اسی لیے تو آپ سے پوچھ رہی ہو
ویسے یہ سہی ہے کبھی مشی کبھی آپو
ہاں تو کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ مشی کہو کتنا اچھا ساؤنڈ کرتا ہے مجھے بہت پسند ہے
ٹھیک ہے جو تمہارا دل چاہے وہ کہو
ارے نہیں میری پیاری مشی آپو وہ تو کبھی کبھی دل کرتا ہے
اچھا ٹھیک ہے کیا بات کرنی تھی تم نے سالار بھائی سے
کچھ نہیں بس نائل کی شکایت لگانی ہے کہ یہ ہم لوگوں کا اچھے سے خیال نہیں رکھ رہا
بلکل پاگل ہو تم دونوں پھر سے جھگڑا کر لیا
کچھ نہیں میں نے تو بس اتنا کہا کہ ہم لوگوں کو گھما پھرا کر لائے تو کہتا ہے کہ اس نے سب کچھ پہلے ہی دیکھا ہوا ہے
اچھا چلو جھگڑا نہ کرو سالار بھائی آئے گے تو ان کے ساتھ جائے گے ویسے ہی پہلے ہی اس کے اوپر کتنی زمہ داری ہے ہم لوگوں کی پڑھائی سے لے کر گھر کے سامان تک کی
ٹھیک ہے نہیں کہتی اسے اب لیکن وہ یہ بھی تو کہہ سکتا تھا کہ پھر کبھی لے جاؤ گا
ادھر بیٹھو زمل ہر بات پر جھگڑا کرنا اچھی بات نہیں تم لوگوں نے ساری زندگی اکٹھے گزارنی ہے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کیا کرو جھگڑا کرنے کی بجائے اب تم لوگوں کے رشتے کی نوعیت کچھ اور ہے یہ اپنے آپ میں بہت مضبوط لیکن کچے دھاگے سے نازک ہوتا ہے اس لیے احتیاط کرنی چاہیے
اوکے آپو اب میں جاؤ میں جا کر اپنا اسائنمنٹ تیار کر لو دو مہینے ہو گئے ہیں لیکن مجھے یہاں بلکل بھی مزا نہیں آرہا میں نے تو ماموں جان سے پاکستان میں رہنے اور پڑھائی کرنے کی پرمیشن مانگنے کو کہا تھا اور ماموں جان ہمیں یہاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں ہائے کتنا مزا آتا جب ہم لوگ آپ کے ساتھ آپ کے گھر میں رہتے اور مامی کے ہاتھ کے بنے ہوئے لذیز کھانے کھاتے
ہو میں بھی ماما کو بہت مس کر رہی ہو کتنا مزا آ رہا تھا جب وہ لوگ یہاں تھے
ہاں لیکن سالار بھائی کو تب بھی ٹائم نہیں ملا ہم لوگوں کے ساتھ رہنے کا تب وہ اپنے دوست کے پاس چلے گئے تھے
چلو کوئی بات نہیں جب چھٹیاں ہو گی تب سیدھا پاکستان ہی جائیں گے
وہ تو صحیح ہے لیکن میرا بلکل دل نہیں ہے یہاں رہنے کا اب مجھے لگتا ہے کہ نائل نے اچھا کیا کہ وہ کچھ ماہ میں یہاں سے چلا جائے گا تو کیا پھر ہم دونوں اکیلے ہی یہاں رہے گی
لو باہر بل ہوئی ہے لگتا ہے نائل آیا ہے میں دیکھ کر آتی ہوں تھوڑی دیر میں ہی نائل کمرے کے اندر آیا
کیا ہوا اس طرح منہ لٹکا کر کیوں بیٹھی ہو چلو میں آپ دونوں کو گھما پھرا کر لاتا ہوں پھر آ کر پیکنگ کرے گے پیکنگ کیا تم ابھی جا رہے ہو زمل جلدی سے بولی
ارے نہیں میری پگلی ہم تینوں ہی پاکستان جا رہے ہیں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ماموں جان کا فون آیا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سرپرائز ہے اس لیے سب پاکستان اکٹھے ہو رہے ہیں کل خالہ لوگ پاکستان جا رہے ہیں سعد کا میسج آیا تھا تمہارے پاس بھی آیا ہو گا تم نے دیکھنے کی زحمت نہیں کی ہو گی
اس کے کہنے پر اس نے فون چیک کیا تو واقع ہی سعد کا میسج تھا
تو کیا ہم لوگ بھی کل ہی جا رہے ہیں مشعال نے پوچھا
نہیں ہمیں تو تقریباً ایک ہفتے بعد کی ٹکٹ ملی ہے میں نے اور سالار بھائی نے بہت کوشش کی لیکن اس سے پہلے نہیں ہو سکا اور کچھ زمل کا جو ایک دو پریکٹیکل رہتے ہیں وہ بھی پورے ہو جائیں گے چلو اب جلدی سے تیار ہو جاؤ ماموں جان کا آرڈر ہے کہ تم لوگ اچھے سے گھما پھرا کر لاؤ تاکہ تم لوگوں کا شوق پورا ہو جائے
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
موسی جیسے ہی مومنہ بیگم اور اقرا کو لے کر گلی میں داخل ہوا تو اسے خطرے کا احساس ہوا کیونکہ دن میں بھی اتنی خاموشی تھی جیسے یہاں کوئی رہتا ہی نہیں
اس نے سالار کو میسج کیا اور کہا کہ وہ جلدی سے یہاں پہنچ جائے فورا ہی اس کا ریپلائے آیا کہ وہ آ رہا ہے تو اسے کچھ تسلی ہوئی کیونکہ کہ اگر وہ خود اکیلا ہوتا تو وہ سنبھال لیتا لیکن مومنہ بیگم اور اقرا کی جان وہ خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا
اقرا آپ یہ چابی مجھے دیں پہلے لاک کھول کر اندر میں جاؤ گا کیوں کوئی پریشانی ہے موسی مومنہ بیگم بولی
ارے نہیں بڑی ماما لیکن آپ کو نہیں لگتا کہ اتنا بڑا محلہ ہے یہ اور کتنی خاموش ہے اور یہی بات کچھ تشویش ناک ہے اتنی دیر میں اس نے لاک کھول کر اندر داخل ہو کر جائزہ لیا تو سب ٹھیک ہی لگا
ٹھیک ہے آپ لوگ اندر جائے میں یہی ہو کوئی بھی بات غلط لگے تو فوراً مجھے میسج یا فون کر لینا
اس کے کہنے پر اقرا نے سر ہلایا اور اندر چلی گئی بڑی ماما آپ بھی جائے اور احتیاط کی جئے گا ٹھیک ہے لیکن ایک بات تو ہے تم نے مس خاموش نام بلکل ٹھیک رکھا ہے اس کا انکی بات سن کر وہ مسکرایا ان لوگوں کے اندر جانے کے بعد اس نے آس پاس کا جائزہ لیا واقع ہی پوری گلی سائیں سائیں کر رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہاں کیمرے فکس ہو اس کی ادھر ادھر دیکھتے ہی نظر گھر کی چھت پر گئی تو اس نے دوبارہ سامنے والے گھر کی طرف دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ گھر کی چھت پر شاید کچھ لوگ تھے شٹ شٹ میرا اس طرف دھیان کیوں نہیں گیا وہ جلدی سے گھر میں داخل ہوا اور اس نے لاک لگایا اور آس پاس دیکھتے ہوئے اس کمرے میں داخل ہوا جہاں اقرا اور مومنہ بیگم تھیں وہ دونوں بہت خاموشی سے کچھ چیزیں سمیٹ رہی تھی
کیا ہوا اس نے اندر داخل ہو کر پوچھا
دراصل اقرا کو لگ رہا ہے کہ ان کی چھت پر کوئی ہے
بڑی ماما لگ نہیں رہا بلکہ چھت پر کچھ لوگ ہیں اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہمیں یہاں سے نکلنا کیسے ہے جس کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے
ابھی وہ لوگ بات کر رہے تھے کہ سالار کا میسج آیا کہ وہ باہر آ گیا ہے ٹھیک ہے آپ لوگ سب چیزوں کو سمیٹ کر ایک بیگ میں ڈالیں اور پلیز یہ کپڑوں کا جھنجھٹ مت کرنا جتنا چھوٹا بیگ ہو گا ہم اچھے سے کیری کر سکے گے میں سالار کو لے کر آتا ہوں کہہ کر وہ باہر نکلا
اس نے جیسے ہی دروازا کھولا سالار نے نے اسے ایک گھونسا لگایا
کون ہو تم اور گھر میں کیسے داخل ہو رہے ہو پیچھے ہٹو راستہ دو کہہ کر وہ اندر داخل ہوا کیا ہوا سب ٹھیک ہے نہ اس نے اسے گلے سے پکڑے ہوئے کہا ہاں بس تم بڑی ماں کو نکالو باقی میں سنبھال لو گا میرے خیال سے میں دونوں کو ہی لے جاتا ہوں
نہیں اقرا کے پاس کچھ سامان ہے اس طرح ان لوگوں کو شک ہو جائے گا
ٹھیک ہے پھر میں ماں کو لے جاتا ہوں ماں چلے یہ سب کیا ہے انہوں نے اس کے حلیے کی طرف دیکھ کر کہا جس نے شرٹ کے بٹن کھلے چھوڑے ہوئے تھے اور ہاتھ میں گن تھی کچھ نہیں مام آپ لوگوں کو سیف نکالنے کے لیے یہ حلیہ بنانا ضروری تھا
میرے خیال سے ایک فائر کرنا چاہیے موسی نے کہا ٹھیک ہے موم چلے جلدی سے وہ ان کو گن پوائنٹ پر لے کر باہر نکلا اور دروازے کے باہر فائر کیا جس کی وجہ سے مومنہ بیگم اور اقرا کی چیخ نکل گئی
ان لوگوں کے جاتے ہی اس نے گھر میں کھڑی موٹر بائیک کو دیکھا اور اسکا پیٹرول چیک کیا جو کے کافی تھا
یہ بائیک صحیح چلتی ہے ہاں یہ آرزو اور شفق کی ہے ان لوگوں کو بائیک چلانے کا شوق ہے اس کے بتانے تک اس نے بائیک سٹارٹ کر لی چلو جلدی سے پیچھے بیٹھو
لیکن مجھے بہت ڈر لگتا ہے کچھ نہیں ہوتا جلدی کرو وہ لوگ نیچے آ رہےہیں اس نے اس ہاتھ پکڑ کر اسے بیٹھایا اب بائیک چلانے لگا ہو مجھے اچھے سے پکڑ کر بیٹھنا کیوں کہ سپیڈ تیز ہو گی کہتے ہی اس موٹر بائیک چلا دی گھر سے نکلتے ہی جو لوگ چھت سے چھلانگ لگا کر اتر گئے تھے وہ لوگ ان لوگوں کے پیچھے دوڑے لیکن سپیڈ تیز ہونے کی وجہ سے وہ لوگ کافی آگے بڑھ گئے تو وہ لوگ گاڑی میں بیٹھ کر ان لوگوں کا پیچھا کرنے لگے ان لوگوں کے گاڑی میں ہونے کی وجہ سے اس نے بائیک کو گلیوں میں ڈال دیا ایک گلی سے دوسری گلی اس طرح وہ کافی دور نکل آئے تو اس نے سالار کو میسج اور لوکیشن سینڈ کی تو کچھ ہی دیر میں وہ پہنچ گیا ابھی وہ لوگ بیٹھ ہی رہے تھے کہ اچانک وہ لوگ لوگ نجانے کہاں سے نکل آئے اور انہوں نے اقرا پر گولی چلائی موسی نے اسے گاڑی میں دھکا دیا لیکن گولی ایک اور گولی اڑتی ہوئی آئی اور موسی کا بازو چیرتی ہوئی نکل گئی لیکن وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گیا موسیٰ یہ سب سالار جلدی کرو یہاں سے نکلو ان سے بعد میں نپٹ لےگے ابھی بڑی ماما اور اقرا کو سیف کرنا زیادہ ضروری ہے
لیکن آپ کے تو بہت خون نکل رہا ہے اقرا اس کے بازو کی طرف دیکھ کر روتے ہوئے بولی کچھ نہیں ہوا مس خاموش تم بس جلدی سے یہاں کچھ باندھ دو تاکہ خون نہ بہے
موسی اس نزدیک والے ہوسپٹل چلتے ہیں
نہیں بڈی بس تھوڑا رہ گیا ہے
اقرا نے سر پر سکارف پہنا تھا اس وجہ سے اپنا دوپٹہ اتار کر اس کو دیا
مس خاموش مجھ سے تو نہیں باندھا جائے گا یہ زحمت بھی آپ کو ہی کرنی پڑے گی
اس نے دوپٹہ پکڑ کر باندھنا چاہا لیکن گاڑی تیز ہو نے کی وجہ سے باندھ نہیں پا رہی تھی تو اس نے دوپٹہ زخم پر رکھ کر اپنا ہاتھ اوپر ہی رکھا موسیٰ پر درد اور خون بہنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ غنودگی طاری ہو رہی تھی اس نے آنکھیں کھول کر مسکرا کر اسے دیکھا
تو اس نے اپنی نظریں چرائی
بس ہم پہنچ گئے ہیں موسی اپنی آنکھیں بند مت کرنا
اقرا اسے ہلاؤ اور اس سے باتیں کرو موسی پلیز اپنی آنکھیں کھولیں وہ روتے ہوئے بولی تو اس نے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا مس خاموش روئیے مت مجھے کچھ نہیں ہو گا اب اتنی جلدی میں تمہاری جان نہیں چھوڑ نے والا وہ دیکھیں ہوسپٹل آ گیا ہے ہوسپٹل کی عمارت کو دیکھ کر شاید اپنی زندگی میں وہ پہلی دفعہ اتنی خوش ہوئی تھی شاید
سالار نے گاڑی روکتے ہی اسکو سہارا دے کر باہر نکالا اقرا کو اشارہ کیا کہ وہ جلدی سے اسٹریچر لے کر آئے تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر اسے آپریشن تھیٹر میں لے گئے
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️