Master Israr

Master Israr Follow my page for everyday new topic information poste and available vedio make it to your.israr....
(5)

08/04/2024

.وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے ۔۔ جب سلطان محمد فاتح رحمۃ اللہ علیہ نے قسطنطنیہ (استنبول) فتح کیا تھا ،،

اور آیا صوفیہ کے خفیہ راستوں کے نقشے ،، عیسائیوں کو دیے تھے ،،،

پھر سلطان عبد الحمید خان رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں عیسائیوں نے ایک پلان بنایا تھا ،،
آیا صوفیہ پر ایک بہت بڑی صلیب کھڑی کرنے کا ،،،

انہوں نے چرچ کے پادری سے ، وہ خفیہ نقشہ لے کر ایک پلان بنایا ۔۔ اور وہ چرچ کے اندر پلان بنا رہے تھے کہ وہاں بیٹھا ایک نوجوان جو کے ایک ٹانگ سے معذور تھا ،،

جسے سلطان عبد الحمید خان رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مسنوئی لکڑی کی ٹانگ بنا کر دی تھی ،، وہ نوجوان سارا پلان سن رہا تھا ،،

اچانک وہاں سے اٹھا اور سلطان عبد الحمید خان رحمتہ اللہ علیہ کے پاس تشریف لے گیا ،،،

اور سارا پلان بتا دیا ،، سلطان جوش میں آ گئے ،، بڑی تیزی سے دوڑے ۔۔۔
اور نقشے ڈھونڈھے ،،
اور خود گئے آیا صوفیہ کے خفیہ راستے پر اپنے کامل ایمان کے ساتھ ،،

جب عیسائی خفیہ راستے سے آ رہے تھے تو انکا سامنا سلطان عبد الحمید خان رحمتہ اللہ علیہ سے ہو گیا ،،

اور سلطان نے فرمایا اگر تم لوگوں نے ایسا کرنا ہے تو میری لاش سے گزر کر کرنا ہو گا ،،،

سلطان نے جب وہاں نظر دوڑائی سارے عیسائی ایسے تھے جو اپنے مشکل وقت میں سلطان کے پاس آتے اور اپنی مشکل حل کرواتے تھے ،،،

سلطان نے سب کو گرفتار کر لیا اور عیسائیوں کا خطرناک پلان ناکام بنایا ،،،

ایسے تھے ہمارے سلطان ۔۔۔۔ اللہ مسلمانوں کو سلطان عبد الحمید خان رحمتہ اللہ علیہ جیسا نیک سیرت سلطان عطا فرمائے آمین

۔تحریر محمد جاوید باجوڑے ✍️✍️

21/03/2024

🔴 فوری | غزہ میں سرکاری میڈیا آفس:
صہیونی جارحیت میں اب تک شہید، زخمی اور لاپتہ ہونے والوں کی تعداد تقریباً 110,000 ہے۔
- غزہ کی پٹی کے 90 فیصد شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔
صیہونی جارحیت کی وجہ سے اب تک کا براہ راست نقصان 30 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔
- اس میں رہائش، سہولیات، اور بنیادی ڈھانچہ شامل ہیں، بشمول سڑک، بجلی، پانی، اور سیوریج نیٹ ورک

08/03/2024
08/03/2024

♥لوگ تاج محل کو محبت کی علامت قرار دیتے ھیں مگر یقین کریں کہ عثمانی دور میں مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر تعمیرات کی دنیا میں محبت اور عقیدت کی معراج ھے
ذرا پڑھیے اور اپنے دلوں کو عشق نبی ﷺ سے منور کریں ۔

ترکوں نے جب مسجد نبوی کی تعمیر کاارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع عریض ریاست میں اعلان کیا کہ انھیں عمارت
سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکار ھیں، اعلان کرنے کی دیر تھی کہ ھر علم کے مانے ھوۓ لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں،
سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہر بسایا گیا جس میں اطراف عالم سے آنے والے ان ماہرین کو الگ الگ محلوں میں بسایا گیا اس کے بعد عقیدت اور حیرت کا ایسا باب شروع ھوا جس کی نظیر مشکل ھے خلیفۂ وقت جو دنیا کا سب سے بڑا فرمانروا تھا شہر میں آیا اور ھر شعبے کے ماہر کو تاکید کی کہ اپنے ذھین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھاۓ کہ اسے یکتا و بیمثال کر دے اس اثنا میں ترک حکومت اس بچے کو حافظ قرآن اور شہسوار بناۓ گی

دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب و غریب منصوبہ کئی سال جاری رھا 25 سال بعد نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار ہوئی جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتاۓ روزگار تھے بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور باعمل مسلمان بھی تھا یہ لگ بھگ 500 لوگ تھے اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی نئی کانیں دریافت کیں، جنگلوں سے لکڑیاں کٹوایٔیں، تختے حاصل کئے گئے اور شیشے کا سامان بہم پہنچایا گیا،
یہ سارا سامان نبی کریم ﷺ کے شہر پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم تھا کہ اسے رکھنے کے لیۓ مدینہ سے دور ایک بستی بسائی گیٔ تا کہ شور سے مدینہ کا ماحول خراب نہ ھو،

نبی ﷺ کے ادب کی وجہ سے اگر کی پتھر میں ترمیم کی ضرورت پڑتی تو اسے واپس اسی بستی بھیجا جاتا ماھرین کو حکم تھا کہ ھر شخص کام کے دوران با وضو رھے اور درود شریف اور تلاوت قرآن میں مشغول رھے ھجرہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا کہ گرد غبار اندر روضہ پاک میں نہ جاۓ ستون لگاۓ گئے کہ ریاض الجنت اور روضہ پاک پر مٹی نہ گرے یہ کام پندرہ سال تک چلتا رھا اور تاریخ عالم گواہ ھے ایسی محبت ایسی عقیدت سے کوئی تعمیر نہ کبھی پہلے ہوئی اور نہ کبھی بعد میں ھو گی ۔💞۔۔۔۔ .

29/02/2024
29/02/2024

سلطان فیروالدین کون تھا!!!

♦ ایوبی ریاست بننے سے کئی سالوں پہلے کسرہ پر مسلمانوں کا ایک چھوٹا سلطنت قائم تھا۔اس ریاست کا تو کوئی حاص نام نہیں تھا لیکن اس ریاست کا دارالحکومت مرکز کسرہ تھا۔
♦ سلطان فیروالدین سلطان نظام الدین ارجہ کا بیٹھا تھا اس شھزادی نے اپنے آباؤ اجداد کی ویراث کی طور پر اس ریاست کا سلطان بن گیا سلطان فیروالدین نے اس ریاست کو دشمنوں کی ہاتھ میں ایک غلطی کی وجہ سے دے سلطان فیروالدین نے کسرہ میں آنے والے تاجروں کو ایناسوریا کی عیسائیوں کے ملکیت میں دیا اور اس کا حفاظت اور مسؤل کا زمیدارے ان کے ہاتھ دیا تھا۔جب سلطان فیروالدین نے یہ معاہدہ #ایناسوریا۔ کی عیسائیوں کے ساتھ کے تو اس سے اس ریاست کے دشمنوں نے فائدا اٹھالیا۔سلطان فیروالدین کا بیٹھا شھزادہ عبدالمنان نے اپنے آبا سلطان فیروالدین سے اس بات پر اختلاف کی اور دونوں آپس میں ایک قسم کا جنگ کردیا سلطان فیروالدین نے اپنے بیٹے کو کہا آج سے تم میرے بیٹھا نہیں ہو اور ابی یہ سر زمیں چوڑ کر کہی دور میرے نظروں سے جاؤ۔
♦ شھزادہ عبدالمنان نے اپنے پاس اپنے بیوی اور اپنی وہ سپاہی اور سلطان فیروالدین سے بغاوت کرنے والوں کو سب اپنے پاس لیکر اس ریاست سے دور نکل گئے کسرہ کا پڑوسی حکومت #ایناسوریا۔ کی سرحدوں پے گئے۔
وہاں عیسائیوں کی سرزمینوں میں ان کو حبر ملے کہ دو دن تک مہلت ہے تمہاری پاس یہ ہمارے زمین چوڑ کر کہی اور جاؤ جب شھزادہ عبدالمنان نے اس حبر پر اپنے پاس سب لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہاں آج سے ہم نے خقیقی راستہ اپنایا ہے اس لیے ہمارے لے اس سارے دنیا میں کوئی جگہ نہیں دے رے۔اور یہ بھی کہا ہم جس راستے پر چلتے ہے ہمیشہ اس راستے پر چلتے رہے گا۔۔۔۔لوگوں نے کہاں ہم عیسائیوں کا کیا کرے گا۔ عبدالمنان نے کہا ہم جنگ کرے گا۔

♦ غلاموں کی طرح زندگی گزارتے ہوئے بڑے بڑے کمان داروں کو شکست دے اور وہاں سرحد پر قابض ہوگئے۔۔سرحدے بازار مار مارک میں اپنے تجارت کرنا شروع کے۔ٹھورے ہی وقت میں ایک سردار عبدالمنان کے نام سے سرحدوں میں مشہور ہوگیا۔وہاں جب سلطان فیروالدین کو پتہ لگا کہ میری بہادر بیٹی نے تو وہاں بازیتینوں سے حالات جنگ میں ہیں تو دوسری طرف سلطان فیروالدین کے ریاست پر حملہ ہوا اور ریاست کا جسم ٹوڑ دیا۔وہاں سے جب شھزادہ عبدالمنان کو حبر ہوئے تو شھزادہ عبدالمنان اپنے سپاہیوں کی ساتھ ان کی مدد کے لئے وہ گئے اور اپنی۔

29/02/2024

۔سلطان محمد فاتح کی تلوار جو #قسطنطنیہ فتح کرتے وقت ان کے پاس تھی.
اس تلوار کا وزن 7 کلوگرام اور یہ 125 سینٹی میٹر لمبی ہے. یہ تلوار سٹیل، لوہے اور سونے کا مرکب ہے.
اس تلوار پر عربی زبان میں لکھا گیا ہے
"اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت رحمان، نہایت رحیم ہے، جس نے روشن آیات اور ہمیشہ تیز رہنے والی اور چمکتی تلواروں کے ساتھ ایمان سے نوازا.
سلام اور صلوات ہمارے پیغمبر محمد اور ان کی آل پر، جن سے ہم نے انتہائی نفیس الفاظ منسوب کیۓ.
مراد دوئم کے بیٹے محمد دوئم کو برکت اور قوت عطا فرما، جہاد کے لیۓ حاضر رہنے والی زبردست تلوار اور مجاہدوں اور غازیوں کا سلطان جو اللہ کے بابرکت لوگوں کی تسبیح کے لیے کوشاں ہے، شریعت کے دشمنوں کی گردنیں اس کی تلوار کی میان بن جائیں، اس کے قلم پر اپنی فضل کی سیاہی بہا.
عثمان کی اولاد، اورحان کی اولاد، مراد کی اولاد، بایزید کی اولاد، محمد کی اولاد؛ اللہ انہیں جنت کے پانی سے پاک کرے، جو غازیوں کی تلواروں سے بہتا ہے، اور انہیں جنت میں تلواروں کے ساۓ میں جگہ عطا فرما"..
آمین
یہ تلوار ترکی کے توپ کپی میوزیم میں رکھی گئی ہے..

ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی قول، واقعہ،سچی کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو سکتی ہے۔۔۔

27/02/2024

3war lattice place and planishing Pakistan friends........

. . . . . . . . . . . . . .

13/02/2024

چار عظیم اور بڑے ریاستی جس نے آدھا دنیا پر حکومت کے ہیں۔۔۔۔

13/02/2024
13/02/2024

مملکت خدا داد پاکستان مصائب اور عذابوں کے سائے میں!!!
وجوہات،اسباب اور کرنے کا کام۔

،وطن کی فکر کر ناداں! مصیب آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں!!!.

• یوں تو اہل پاکستان پون صدی یعنی 76 سال سے سن رہے ہیں کہ پاکستان کے حالات خراب ہیں اور پاکستان ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔لیکن آج یہ بات ایک خوفناک حقیقت بن کر ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔سیاسی عدم استحکام بدترین داخلی انتشار کا باعث بن چُکا ہے۔معاشی بد حالی سے پیدا ہونے والی گرانی سے اب غریب ہی نہیں متوسط طبقہ کی لوگوں کے لیے بھی زندگی وبال بن گئی ہے۔بچوں کو بھوک سے تڑپتی ہوئی دیکھ کر کئی والدین نے خودکشی یعنی حرام موت کو گلے لگا لیا ہے۔اخلاقی دیوالیہ پن اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔اس حوالے سے اسلام تو دور کی بات ہے،ہم عام انسانی سطح سے بھی گر چکی ہیں۔
♦ ہمارے معاشرے میں ظلم، ناانصافی، کرپشن، خیانت، جھوٹ، بددیانتی اور منافقت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔مقتدر طبقات کی لوٹ مار اور دولت اور سائل کی اس غیر منصفانہ تقسیم نے طبقاتی خلیج کو وسیع کردیا ہے۔ایک طرف وہ لوگ ہیں جو نازلہ وزکام کی علاج کے لیے یورپ میں ہسپتال بک کرواتے ہیں اور اپنے کتوں کے لیے ایئر کنڈیشنڈ کمرے تعمیر کرواتے ہیں،دوسرے طرف وہ لوگ ہیں جو بنیادی ضروریات سے محروم کے باعث بھوک اور بیماری کے ہاتھوں موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔
♥ سیاسی سطح پر ایک دوسرے سے دست وگریباں ہی رہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔کئی سیاسی لیڈروں سمیت چند مزہبی سیاسی رہنماؤں کی گفتگو اسلام کے اعلیٰ وارفع معیار تو درکنار کسی طور پر ایک انسانی معاشرے کے معیارات پر بھی پورا نہیں اترتے۔۔اقتدار کی رسہ کشی سیاست دانوں کی ذاتی دشمنی اور عناد میں مبتلا کرچکی ہے جس کا خمیازہ عوام بھگت رہی ہے۔انایت کی روش نے ملکی سالمیت کو شدید خطرات سے دو چار کردیا ہے۔
♦ قرآن کریم بتایا ہے کہ لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے انہیں پر مصائب و آفات میں مبتلا کردیا ہے جس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کا گناہوں سے باز آئیں اور اصلاح کا رویہ اختیار کریں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے٫٫خشکی وتری میں فساد رونما ہوگیا لوگوں کی اعمال کی وجہ سے تاکہ وہ(اللّٰہ) انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا تاکہ وہ(اللّٰہ کی طرف)پلٹ آئیں،،{سورۃ الروم آیت 41}۔اس طرف قرآن مجید

13/02/2024

. .

محمد جاوید حان باجوڑے۔

یہ اشتہار امریکی حکومت کی طرف سے ایک کثیر الاشاعت امریکی اخبار میں دیا گیا

'' امریکہ کے ایک سرکاری ادارے کو خاکروبوں کی ضرورت ہے۔صرف مسلمان یا غیر مسیحی درخواست دیں‘‘۔

ایسا نہیں ہوا۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر فی الواقع ایسا ہو جائے تو آپ پسند کریں گے ؟ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کا کیا ردِ عمل ہو گا؟جو امریکی غیر مسلم ہیں‘ کیا وہ اس پر خاموش رہیں گے ؟

ہمارے ہاں تو ایسا ہو رہا ہے۔ جانے کب سے ہو رہا ہے۔ ہماری وزارتیں اور سرکاری محکمے خاکروبوں کی خالی اسامیاں مشتہر کرتے ہیں تو اشتہار میں صراحت اور التزام کے ساتھ بتاتے ہیں کہ درخواست دینے والے غیر مسلم ہونے چاہئیں یا مسیحی! بھلا ہو کہ آخر کار اسلام آباد کی عدالتِ عظمیٰ نے مختلف وزارتوں کو اس ضمن میں نوٹس جاری کئے ہیں اور دو ہفتوں میں جواب طلب کئے ہیں۔ یہ ازخود نوٹس نہیں تھا۔ پاکستان یونائٹڈ کرسچین موومنٹ اور ایک اور تنظیم ''سنٹر فار رُول آف لا‘‘ نے عدالت میں درخواست دائر کی اور فریاد کی کہ اس طرزِعمل سے مذہبی تعصب کی فضا پیدا ہوتی ہے اور مسیحی اور غیر مسلم پاکستانیوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے۔ یہ وزارتیں اور یہ محکمے عدالت کو کیا جواب دیں گے ؟ غالباً ان کا جواب یہ ہو گا کہ ''شروع‘‘ سے ہی ایسا ہو رہا ہے اور ماضی میں دیے جانے والے اشتہار بھی ایسے ہی تھے۔ ظاہر ہے ان کے پاس کوئی اور دلیل نہیں ہو گی۔ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ غیر مسلم کمتر ہیں یا یہ تقاضا آئین کا ہے۔ فرض کیجیے عدالت ان سے پوچھتی ہے کہ کیا ایسا اشتہار اخلاقی‘ قانونی یا آئینی لحاظ سے درست ہے تو ان کا کیا جواب ہو گا؟

ایسا بھی نہیں کہ پاکستانی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ہر تیسرے گھر کا ایک فرد امریکہ میں مقیم ہے یا یورپ میں یا آسٹریلیا میں۔ ان ملکوں میں کسی سے نہیں پوچھا جاتا کہ مسیحی ہو یا غیر مسیحی۔ مسلمانوں کے لیے نہ ہی دوسرے غیر مسیحی مذاہب کے پیرو کاروں کے لیے اقلیت کالفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ منطقی طور پر جو سلوک ہم غیر مسلموں کے ساتھ کرتے ہیں‘ ویسا ہی اگر مغرب میں غیر مسیحیوں کے لیے ہو تو کیا ہم اعتراض کر سکتے ہیں؟ کچھ لوگوں کے لیے ہمارے گھروں میں‘ عام طور‘ پر برتن الگ رکھے جاتے ہیں۔ کیا یہ کوئی مذہبی تقاضا ہے؟ مغربی ملکوں میں انہی لوگوں کے گھروں میں کھانا کھائیں تو ہم میں سے بہت سے اس پر فخر م

13/02/2024

👇ہنسوں کا حوفیا زبان کیسی سیکھے؟
انگلش کا گرامر۔.(A1)(B2)(C3)(D4)(E5)(F6)(G7)(H8)(i9)(j10)وعیر وعیر۔اب اس گرامر کو کیسے استعمال کرنا ہیں۔اب یہاں میں ایک مثال دیتا ہو۔انگلش میں جاوید کیسی لکنا ہے۔javed.اب اس کو ہنسوں میں کیس لکنا ہے۔دیکھے۔وہاں👆 ہم نے j.لفظ کی لیے کیا استعمال کیا تھا۔10.کا استعمال کیا تھا ہم نے۔پھر کیا ہے۔A۔ہم کے لیے کیا استعمال کیا تھا۔1۔کا استعمال کیا تھا ہم نے۔پھر کیا ہے۔j.10.کا استعمال ہوگیا۔دوسرا۔A1.کا استعمال کیا۔پھر کیا تھا۔V اب اس کے لیے کیا استعمال کرے گا۔ہم نے تو دس تک ہنسی اور j.تک الفاظ دیا تھا آپ کاپی میں ساری الفاظ اور ہنسی لکھی۔V۔کے لیے 22.کا استعمال کرے گا۔پھر E۔ہے اس کے لیے بھی ہم گرامر میں دیکھے۔پھر E.کے لے ہم 5۔ کا استعمال کرے گا۔پھر D.ہے اس کے لیے ہم 4.کا استعمال کرے گا۔اب دیکھے سارہ مکمل ہوگیا۔javed.انگلش میں آگیا۔اور ہنسوں میں یہ آگیا۔10.1.22.5.4.یہ ہو گیا ہنسوں میں۔بس یہی طریقہ ہے۔اگر پھر بھی کسی چیز کا سوال کرنا چاہتے ہو تو ہمیں cammed.میں ضرور بتائیں گا۔۔۔۔ #اب اگر اس پر بھی سمجھ نہیں آئی تو ہمیں ۔ضرور بتائیں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر کردا۔(محمد جاوید حان باجوڑے✍️✍️✍️) learning to this Urdu to grammar.in this post is information poste.lanik. . and .and. .and ...and available play store a appreciation. . .

10/02/2024

گرین لینڈ دنیا کا ایسا خطہ ہے جس کا نام سن کر یوں لگتا ہے جیسے یہ ایک وسیع و عریض سرسبز و شاداب علاقہ ہو گا جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔گرین لینڈ کے زیادہ تر حصے پر برف کے پہاڑ اور چٹانیں ہیں۔

گرین لینڈ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے جہاں پر سب سے بڑے گلیشیئرز بھی ہیں جن کے پگھلنے کی تیز رفتاری سے سائنس دان تشویش میں مبتلاہیں۔

ایک حالیہ سائنسی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ گرین لینڈ کے تمام گلیشیئرز پگھلنے سے دنیا بھر کے سمندروں میں پانی کی سطح 10 انچ سے زیادہ بلند ہو جائے گی جس کے نتیجے میں کئی ساحلی علاقے ڈوب جائیں گے اور موسموں کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا۔

بحرِ اوقیانوس میں واقع اس جزیرے کی لمبائی 2670 کلومیٹر اور چوڑائی 1050 کلومیٹر ہے۔ یہ جزیرہ قطب شمالی کے بہت قریب واقع ہے اور اس کا دو تہائی حصہ قطبی دائرے کے اندر ہے۔
یہ خیال ہی خوف طاری کر دیتاہے کہ جب 18 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے میں پھیلی ہوئی پانچ ہزار سے 10 ہزار فٹ برف کی موٹی پرتیں پگھل کر سمندروں میں شامل ہو جائیں گی تو دنیا کا کیا منظر نامہ ہو گا۔
سائنسی جریدے ’کلائمٹ چینج‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرین لینڈ کی تمام برف پگھلنے سے دنیا بھر کے سمندروں کی سطح کم ازکم 30 انچ اونچی ہو جائے گی جس سے نہ صرف بہت سے ساحلی علاقے ڈوب جائیں گے بلکہ سمندروں میں جہاز رانی بھی مشکل تر ہو جائے گی۔
برف اور پانی کا توازن بگڑنے کا نتیجہ انتہائی شدید موسم اور خطرناک طوفانوں کی شکل میں نکلے گا۔
سائنسی مطالعے کے شریک مصنف اور گلیشیئرز کے علوم کے ایک ماہر ولیم کولگن کہتے ہیں کہ قیاس یہ ہے کہ اس صدی کے آخری یا اگلی صدی کے وسط تک تمام برف پگھل جائے گی۔
ولیم کولگن کہتے ہیں کہ اس وقت موسمی حالات کیا ہوں گے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل ہمارا سامنا اکثر جن شدید طوفانوں سے ہوتا ہے، 50 برس پہلے اتنے شدید طو فان بہت کم آتے تھے۔
ولیم کولگن کہتے ہیں کہ گلیشیئرز میں دو قسم کی برف ہوتی ہے، ایک وہ جو گلیشیئر کا حصہ ہوتی ہے اور دوسری وہ ہے جو پگھل کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہوتی ہے۔ اس برف کو انہوں نے ’مردہ برف‘ کہتے ہوئے ’زومبی آئس‘ کا نام دیا۔
گرین لینڈ کی 'زومبی آئس'، ساحلی آبادی اور جہاز رانی کے لیے بڑا خطرہ
سائنس دان کہتے ہیں کہ سورج کی گرمی سے گلیشیئرز میں پگھلنے کا عمل شروع ہوتا ہے البتہ جب

 .*سلطان رکن الدین بیبرس*بارہویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی قیادت میں صحرائے گوبی کے شمال سے خوں خوار منگول بگولا اٹھا ج...
26/01/2024

.*سلطان رکن الدین بیبرس*
بارہویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی قیادت میں صحرائے گوبی کے شمال سے خوں خوار منگول بگولا اٹھا جس نے صرف چند دہائیوں میں ہی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا. منگول لشکروں کے سامنے چین، خوارم، وسط ایشیا، مشرقی یورپ اور بغداد کی حکومتیں ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں. منگول حملے کا مطلب بے دریغ قتل عام اور شہر کے شہر کی مکمل تباہی تھی.....دنیا تسلیم کر چکی تھی کہ ان وحشیوں سے مقابلہ ناممکن ہے. منگول نا قابل شکست ہیں.
منگولوں نے اول خوارزم کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور پھر پانچ سو سال سے زائد قائم خلافت عباسیہ کو عبرتناک انجام سے دوچار کیا. منگولوں نے خوارزم میں کھوپڑیوں کے مینار بنائے تو بغداد میں اتنا خون بہایا کہ گلیوں میں کیچڑ اور تعفن کی وجہ سے عرصے تک چلنا ممکن نہ رہا. اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی حیثیت کٹی پتنگ کی سی تھی. مسلمان نفسیاتی طور پر کسی مقابلے کے قابل نظر نہ آتے تھے.
ایسے میں مصر میں قائم مملوک سلطنت ایک مدھم سی امید کی لو تھی. وہی سلطنت جس کی بھاگ دوڑ غلام اور غلام زادوں کے ہاتھ میں تھی. "منگول - یوروپئن ایکسز " کا اگلا ہدف بھی یہی مسلم ریاست تھی. وہ آخری ریاست جس کی شکست مسلمانوں کے سیاسی وجود میں آخری کیل ثابت ہوتی. مملوک بھی اس خوفناک خطرے کا پورا ادراک رکھتے تھے. جانتے تھے آج نہیں تو کل یہ معرکہ ہو کر رہے گا
اور یہ معرکہ ہوا
تاریخ تھی ستمبر 1260 اور میدان تھا عین جالوت
منگول مسلم سیاسی وجود کو ختم کرنے سر پر آن پہنچ چکے تھے. منگول طوفان جو بڑی بڑی سلطنتوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے تھے آج ان کے مد مقابل مملوک تھے جسکی قیادت رکن الدین بیبرس کر رہا تھا. وہی بیبرس جو کبھی خود بھی فقط چند دینار کے عوض فروخت ہوا تھا. کم وسائل اور عددی کمتری کے باوجود بیبرس کو یہ معرکہ ہر حال میں جیتنا تھا. مسلمانوں کے سیاسی وجود کو قائم رکھنے کے لیے آخری سپاہی ، آخری تیر اور آخری سانس تک لڑائی لڑنی تھی
طبل جنگ بجا. بد مست طاقت اور جنون کے درمیان گھسمان کا رن پڑا. طاقتور منگول جب اپنی تلوار چلاتے تھے تو ان کا وار روکنا مشکل ترین کام ہوتا تھا لیکن آج جب مملوک وار روکتے تو تلواریں ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتیں. اور پھر جب جوابی وار کرتے تو منگولوں کے لیے روکنا مشکل ہو جاتا. منگولوں نے مملوکوں کو دہشت زدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ

.
26/01/2024

.


.’خلائی مخلوق زمین کے لیے ہمارے ہی خلائی جہاز استعمال کر سکتی ہے‘
سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انسانوں کے ذریعے مختلف انواع ایک سے دوسرے براعظموں میں منتقل ہوئی ہیں اور نظام شمسی کے باہر بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ خلائی مخلوق خلا میں بھیجے گئے انسانوں کے خلائی جہازوں کو ہی زمین تک پہنچنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ انسانوں کے ذریعے مختلف انواع ایک سے دوسرے براعظموں میں منتقل ہوئی ہیں اور نظام شمسی کے باہر بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔

مونٹریال کی میک گل یونیورسٹی میں انویژن بائیولوجی کے پروفیسر انتھونی ریکارڈی نے سائنسی خبروں کی ویب سائٹ لائیو سائنس سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہماری دنیا سے باہر زندگی کی تلاش، ایک پرجوش کوشش ہے جو مستقبل میں ایک بہت بڑی دریافت کر سکتی ہے۔‘
ان کی تحقیق جرنل بائیوسائنس میں شائع ہوئی ہے۔

انہوں نے لائیو سائنس کو بتایا: ’بڑھتے ہوئے خلائی مشنز (بشمول وہ جو زمین پر نمونے واپس لانے کا ارادہ رکھتے ہیں) کے پیش نظر، دونوں سمتوں میں حیاتیاتی آلودگی کے خطرات کو کم کرنا بہت ضروری ہے۔‘

محققین کا کہنا ہے کہ ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔ ان کے مطابق یہ زیادہ امکان ہے کہ اجنبی سیارے پر ملنے والی کوئی بھی انواع زمین پر بیکٹیریا سے مشابہت رکھتی ہو۔ تاہم کسی بڑی انواع کے سیاروں کے درمیان سفر کے امکانات کم ہیں، کیونکہ خلائی سفر مشکل اور خطرناک ہوتا ہے۔

.
26/01/2024

.


26/01/2024

.


.
26/01/2024

.


. ..سال 2024 کی آمد،ماہرین فلکیات کی سورج اور چاند کو گرہن لگنے کی پیشگوئی

سال 2023 اختتام پذیر ،2024 کی آمد آمد، نئے سال میں نئے حالات ، نئی دنیا ، عالمی صورتحال میں تشویشناک حد تک بگڑتے حالات، کیساتھ آسمان پر بھی بڑی تبدیلیوں کا امکان ماہر فلکیات ہر سال کی طرح نئے سال کی آمد پرسورج اور چاندگرہن لگنے کی پیشگوئی کررہے ہیں ، ماہرین فلکیات کے مطابقسال 2024 کا پہلا سورج گرہن 8 اپریل کو ہوگا۔

یہ مکمل سورج گرہن جنوبی بحر الکاہل سے شروع ہوکرشمالی امریکا تک پھیلے گا اور امریکا، میکسیکو اور کینیڈا سے گزرے گا۔بحیرہ کیریبین کے جزیرہ ممالک جیسے کیوبا ، کوسٹا ریکا ، کیمین جزائر ، ڈومینیکا ، فرانسیسی پولینیشیا ، جمیکا اور دیگر میں جزوی سورج گرہن نظر آئے گا۔سورج گرہن کا آغازپاکستانی وقت کے مطابق سہ پہر 3 بج کر 12 منٹ پر اور اختتام شام 4 بج کر 6 منٹ پر ہوگا۔سال 2024 میں 2 اکتوبر کو بھی سورج کو گرہن لگے گا۔مکمل سورج گرہن جنوبی امریکا (ارجنٹائن اور چلی) میں نظر آئے گا جبکہ جنوبی امریکا، بحر الکاہل، بحر اوقیانوس اور شمالی امریکا میں سورج کو جزوی گرہن لگے گا۔سورج گرہن کا آغاز: سہ پہر 3 بج کر 12 منٹ پر جبکہ اختتام 4 بج کر 20 منٹ پر ہوگا۔سال 20024 کا تیسرا سورج گرہن 14 اکتوبر کو ہوگا جس کے اثرات تمام سیاروں پر پڑیں گے۔سال کا پہلا چاند گرین 25 مارچ کو دیکھنے میں آئے گا۔یہ چاند گرہن یورپ، آسٹریلیا، افریقہ، شمالی/مشرقی ایشیا، شمالی امریکا، جنوبی امریکا اور بحرالکاہل اور انٹارکٹیکا میں نظر آئے گا۔چاند گرہن کا آغاز پاکستانی وقت کے مطابق صبح 4 بج کر23 منٹ پر ہوگا۔ صبح 6 بج کر 42 منٹ پر یہ اپنے عروج پر ہوگا جبکہ 9 بج کر 2 منٹ پر چاند گرہن اپنے اختتام کو پہنچے گا۔نئے سال کے ماہ ستمبر میں دوسرا چاند گرہن 18 ستمبر کو ہوگا۔یہ جزوی چاند گرہن یورپ، ایشیا، آسٹریلیا، افریقہ، شمالی/ مغربی شمالی امریکا، شمالی / مشرقی جنوبی امریکا، بحر الکاہل، بحر اوقیانوس، آرکٹک اور انٹارکٹیکا میں نظر آئے گا۔چاند گرہن کا آغاز سہ پہر3 بج کر 8 منٹ پر ہوگا، 4 بج کر 6 منٹ پر جزوی چاند گرہن دیکھنے میں آئے گا۔ شام 5 بج کر 43 منٹ پر مکمل چاند گرہن ہوگا ۔چابند گرہن کااختتام رات 8 بج کر 57 منٹ پرہوگا۔

.
26/01/2024

.


_*🌙چاند کس کا ہے؟ حق ملکیت کی ’’جنگ‘‘چھڑنے کا خدشہ🤫*_

🌙چاند پر پہلے انسانی قدم کو تقریباً 50 برس گزر چکے ہیں، نیل آرمسٹرانگ وہ پہلا انسان تھا جس نے چاند پر قدم رکھا،اس تاریخی قدم کے تھوڑی دیر بعد ہی نیل آرمسٹرانگ کے ہمسفر بز ایڈرن بھی اس پرسکون سمندر‘ میں قدم رکھ چکے تھے۔ چاند گاڑی ایگل کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے جب بز ایڈرن نے چاند کی دور دور تک خالی سطح پر نظر دوڑائی تو اسے ایک ’شاندار ویرانی‘ سے تعبیر کیا تھا۔ اسی چاند پر اب حق ملکیت کیلئے جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے کیونکہ اب کئی ایک کمپنیاں نہ صرف چاند کی سطح کے بارے میں مزید کھوج لگانے میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں بلکہ اسے کھود کر وہاں سے سونا، پلاٹینم اور الیٹکرونکس میں استعمال ہونے والی دیگر معدنیات نکالنے کا بھی سوچ رہی ہیں۔ بی بی سی مطابق جولائی سنہ 1969 کے اِس اپالو 11 مشن کے بعد سے چاند انسانی ہاتھوں سے زیادہ تر دور ہی رہا اور سنہ 1972 کے بعد کوئی انسان وہاں نہیں اترا،پچھلے ہی ماہ چینی ماہرین نے چاند کے اس حصے پر اپنا خلائی مشن اتارا جو ہمیں زمین سے دکھائی نہیں دیتا اور وہاں کپاس کا بیج اگانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ لگتا ہے اب چین وہاں ایک تحقیقی مرکز بھی قائم کر دے گا۔ ایسے میں کیا کوئی قوانین یا اصول موجود ہیں جن کے اطلاق سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ایڈرن کی ’شاندار ویرانی‘ اپنی جگہ پر قائم رہے؟مغرب اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے دنوں سے خلا میں چھان بین اور خلائی اجسام پر پائے جانے والے ممکنہ قدرتی وسائل پر حق کے حوالے سے بحث ہوتی رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے سنہ 1967 میں امریکہ ، برطانیہ اور سوویت یونین سے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کروائے جب امریکہ کا خلائی ادارہ ناسا چاند پر انسانی مشن بھیجنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اقوام متحدہ میں ہونے والے اس معاہدے کو 'آؤٹر سپیس ٹریٹی' کے طور پر جانا جاتا ہے، چاند کی زمین کی ملکیت یا اس پر کان کنی کا حق کس کے پاس ہے اور کس کے پاس نہیں۔ تاہم جوں جوں ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی ہے چاند کے ممکنہ وسائل سے منافع کمانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اب بھی یہ بات ہے تو مستقبل بعید کی لیکن اس کے امکانات بہرحال زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی خیال کے پیش نظر اقوام متحدہ نے ’ میثاقِ قمر ‘ کے نام سے ایک معاہدہ جاری کیا تھا جس کا مقصد چاند اور دیگر آسمانی اجسام پر مختلف ممالک کی سرگرمیوں کو قانونی دئ

.
26/01/2024

.


خرگوش: Rabbit
انہیں دیکھتے ساتھ ہی خوبصورتی، نرمی، تیزی اور گاجر کا خیال آتا ہے۔ ساری باتیں درست ہیں سوائے گاجر والی بات کہ یہ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ کبھی ان کو چوہوں کے خاندان(Rodents) کا حصہ سمجھا جاتا تھا لیکن جب سائینسدانوں نے اسکےدانتوں کا مشاہدہ کیا تو دیکھا کہ یار اس کے تو دو دانت (Incisors)زیادہ ہیں۔ پھر ان کا الگ سے آر ڈر بنایا اور اس کا نام Lagomorph رکھ دیا. ان میں تین جانور آجاتے ہیں Hares, Rabbits اور Pika(پائی کا) ۔
عام طور پر Hares کو بھی خرگوش ہی سمجھا جاتا ہے لیکن خرگوش اور Hares میں کافی فرق ہوتا ہے۔
بنیادی فرق:
۰ جنگلی خرگوش اپنا زیر زمین گڑھا کھود کر سرنگیں بناتے ہیں جسے Burrow کہتے ہیں جبکہ Hares سرنگیں نہیں بناتے بلکہ زمین کے اوپر ہی گھونسلہ بنا کر رہتے ہیں۔
۰ جنگلی خرگوش کے بچے پیدائیشی طور پر آنکھیں نہیں کھول پاتے اور نہ آزادی سے حرکت کرسکتے ہیں انہیں زبردست نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ Hares کے بچے پیدائشی طور پر طاقتور ہوتے ہیں اور کچھ گھنٹوں بعد ہی ماں باپ کا ہاتھ بٹانا شروع کردیتے ہیں۔
۰ جنگلی خرگوشوں کے کان اور ٹانگیں Hares کی نسبت چھوٹی ہوتی ہیں۔ جنگلی خرگوش ہجوم میں رہتے جسے Colony کہا جاتا ہے اور بہت تیز دوڑتے ہیں جبکہ Hares اکیلے رہتے اور آہستہ رفتار رکھتے ہیں۔
پائی کا(Pika) اونچے ٹھنڈے پہاڑی علاقوں کا ننھا سا خوبصورت جانور ہے جو اپنی آواز سے مشہور ہے۔ یہ گرمیوں میں رنگ برنگ پودوں کے تنکے پتے اکٹھے کرکے اپنی Burrow جو چٹانوں کے اندر ہوتی ہے جمع کرتا رہتا ہے،اسکی شکل خرگوش سے بہت ملتی جلتی ہے لیکن کان اور پائوں بہت چھوٹے ہوتے۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہ یہ ہمالیہ کے پہاڑوں میں موجود ہے۔
گھریلو خرگوشوں کا جد امجد یورپی خرگوش ہے اور انہی کی سیلیکٹو بریڈنگ کرکے پالتو خرگوش جو ہمارے گھروں میں ملتے ہیں وجود میں آئے ہیں۔ کبھی خرگوش صرف یورپ اور افریقہ میں تھے لیکن اب ساری دنیا میں ہیں۔ سیلیکٹو بریڈنگ کی وجہ سے انکی اب 300 سے بھی زیادہ نسلیں ہوچکی ہیں۔
کچھ دلچسپ معلومات:
۰ نر کو Buck اور مادہ کو Doe کہتے ہیں جبکہ بچے کو Kitten کہا جاتا ہے۔ لفظ Bunny ایسے ہی ہے جیسے ہم بلی کو پیار سے Kitty کہتے ہیں۔
۰ خرگوش دو فٹ سے بھی اوپر چھلانگ لگا سکتے اور 70 کلومیٹر کی رفتار تک دوڑ سکتے ہیں۔
۰ انسانی آنکھیں 120 زاویے تک دیکھتی ہیں اور اگر مز

.
26/01/2024

.


‏مارگلہ پر بہار نہیں، پولن آتی ہے.

بہار آتی ہے تو اسلام آباد کے راستے پھولوں سے اور ہسپتال مریضوں سے بھر جاتے ہیں ۔ پولن الرجی کا یہ عذاب ہمارے فیصلہ سازوں کے فکری افلاس کا تاوان ہے جو آج ہم ادا کر رہے ہیں اور کل ہماری نسلوں کو ادا کرنا ہو گا۔

اسلام آباد سے پہلے مارگلہ کے پہاڑ خشک اور ویران نہ تھے۔ پرانی تصاویر آج بھی دستیاب ہیں اور دیکھا جا سکتا ہے ان میں وہی حسن تھا جو پوٹھوہار کے باقی پہاڑوں میں ہے ۔ غیر ملکی ماہرین شہر کی پلاننگ کر رہے تھے، انہیں مقامی تہذیب کا کچھ علم نہ تھا اور ایوب خان صاحب فیصلہ ساز تھے جو حکم اور تعمیل کے بیچ کسی وقفے کے ذائقے سے آشنا نہ تھے ۔

ایک شام فیصلہ ہوا،اسلام آباد کو مزید سر سبز بنانا چاہیے ۔ مقامی درختوں اور پھلدارپودوں کی ایک فہرست پیش کی گئی جسے یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ مقامی درخت بڑا ہونے میں وقت لیتے ہیں اور پھلدار پودوں کو بہت نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔

فیصلہ سازوں کو اسلام آباد ”جلد از جلد“ سر سبز چاہیے تھا۔ چنانچہ ”ماہرین کرام“ نے شمال مشرقی ایشیاء سے جنگلی توت منگوانے کا مشورہ دیا اور بتایا کہ اسے نہ پانی درکار ہو گا نہ نگہداشت، بس اس کا بیج لا کر پھینک دیجیے اور تماشا دیکھیے۔یہ مشورہ قبول فرما لیا گیا۔اسلام آباد میں اور مارگلہ کی پہاڑی کے ساتھ ساتھ جنگلاں گاؤں کے شمال مشرق سے لے کر درہ کوانی سے آگے درہ کالنجر تک اس پردیسی درخت کا بیج جہازوں کے ذریعے پھینکا گیا۔

دوسرے ہی سال اسلام آباد میں ”وبا“ پھیل گئی۔1963 میں اسلام آباد میں جو تھوڑی بہت آبادی تھی، جاڑا ختم ہوتے ہی سرخ ناک، بہتی آنکھیں اور اکھڑتی سانسیں لیے، الامان الامان پکارتی اکلوتے طبی مرکز جا پہنچی۔ شہر میں خوف پھیل گیا کہ یہ کون سی وبا آ گئی ہے۔پاکستان آرکائیوز کی لائبریری میں اس زمانے کے راولپنڈی سے شائع ہونے والے اخبارات دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے شہر میں سراسیمگی سی پھیل گئی تھی کہ یہ ہو کیا گیا ہے۔تیسری بہار میں جا کر معلوم ہو گیا کہ جو منحوس بیج بویا گیا تھا یہ اس کا فیض عام ہے۔

یہ جنگلی توت مقامی ماحول کے لیے سازگار نہیں ہے۔ اس کی شاخوں میں زہر ہے۔ اسلام آباد کے جنگلوں کی ایک ایک پگڈنڈی میں نے گھومی ہے اور مجھے آج تک اس کی شاخوں میں کوئی گھونسلہ نظر نہیں آیا۔ کوئی پرندہ اس پر رہنا پسند نہیں کرتا۔ اس درخت کی وجہ سے پرندوں پر کیا بیتی اگر اس کا مطالعہ ہ

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Master Israr posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share