Wadood Sajid

Wadood Sajid Editor Inquilab (North)

الله ہمارے ساتھ ہےودود ساجدیہ اسکرین شاٹ "الجزیرہ" کے ذریعہ جاری ایک مختصر سی کلپ کا ہے۔۔ یہ فلسطین کے مغربی کنارہ میں و...
19/02/2024

الله ہمارے ساتھ ہے
ودود ساجد

یہ اسکرین شاٹ "الجزیرہ" کے ذریعہ جاری ایک مختصر سی کلپ کا ہے۔۔ یہ فلسطین کے مغربی کنارہ میں واقع "طولکرم کیمپ" کے ایک اسکول کا واقعہ ہے۔۔

وحشی درندوں نے اس کیمپ کو ٹینکوں سے گھیر لیا ہے۔۔ یہ بچہ اپنی کلاس کی کھڑکی سے باہر ہاتھ نکال کر وحشیوں کو للکار رہا ہے۔۔۔ الجزیرہ نے اس کی آواز کے ساتھ ساتھ سب ٹائٹل میں عربی متن بھی لکھا ہے۔۔۔

اس بچہ کی شکل تو نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ ویڈیو فاصلہ سے بنائی گئی ہے تاہم آواز سے انداز ہوتا ہے کہ اس کی عمر 8 اور 10 سال کے درمیان ہوگی۔۔۔ یہ بچہ پوری طاقت سے کہہ رہا ہے کہ "تم جو ظلم چاہو کرلو ہم ہار نہیں مانیں گے۔۔ یہ نہ سمجھنا کہ ہم ڈر جائیں گے۔۔ ہم ڈرتے نہیں کیونکہ ہمارے ساتھ الله ہے۔۔۔ الله ہمارا مددگار ہے جبکہ تمہارا کوئی مولی نہیں ۔۔۔ ایک دن تم ضرور زد میں آؤگے۔۔۔"

پچھلے 36 دنوں میں بہت ضبط کیا ۔۔ بہت کچھ لکھنا تھا ۔۔۔ مگر ہمت نہ ہوئی۔۔۔ ضبط اس لئے بھی کرنا تھا کہ بھائیوں میں بڑا ہوں...
18/02/2024

پچھلے 36 دنوں میں بہت ضبط کیا ۔۔
بہت کچھ لکھنا تھا ۔۔۔ مگر ہمت نہ ہوئی۔۔۔
ضبط اس لئے بھی کرنا تھا کہ بھائیوں میں بڑا ہوں ۔۔۔ مگر آج اپنی ہی گاڑی کی یہ تصویر سامنے آئی تو ایک واقعہ یاد آگیا اور پھر ضبط نہ رہا۔۔۔

میری والدہ کے انتقال کو آج 37 واں دن ہے۔۔
پچھلے سال دسمبر میں میری بیٹی کی شادی کے موقع پر میری والدہ دہلی آئیں تو کم وبیش ایک مہینہ میرے پاس قیام کیا۔۔

میری اہلیہ نے مجھے بتایا تھا کہ آج "اماں" نے میری روح فنا کردی تھی۔۔ قصہ یوں ہے کہ تقریب سے پہلے مہمانوں کے قیام کی تیاری دکھانے کیلئے میری اہلیہ "اماں" کو فرسٹ فلور سے گراؤنڈ فلور پر لے کر آئی تھیں ۔۔۔ صفائی ستھرائی بھی چل رہی تھی ۔۔ پارکنگ بھی کھلی ہوئی تھی۔۔ اہلیہ صفائی کے عمل کی نگرانی میں مصروف ہوگئیں ۔۔۔ اچانک خیال آیا کہ اماں ارد گرد نہیں ہیں ۔۔

تلاش کرنے فرسٹ فلور پر آئیں ۔۔ پھر فورتھ فلور تک دیکھ آئیں ۔۔ چھت پر بھی دیکھا۔۔۔ پریشان ہوکر پھر نیچے آئیں۔۔۔
اچانک نظر پارکنگ کے اندرونی دروازے پر پڑی۔۔۔ اندر جھانک کر دیکھا تو یہ بھی دیکھا: میری والدہ میری گاڑی کے بونٹ پر اس طرح شفقت سے ہاتھ پھیر رہی ہیں جیسے بچہ کے سر پر پھیرا جاتا ہے۔۔۔ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی تھیں ۔۔۔ کبھی شیشے سے اندر جھانکتی تھیں ۔۔۔ اب یہ گاڑی ہر روز مجھے میری اماں کی یاد دلاتی ہے۔۔۔ اور میرے منہ سے بے اختیار یہی آیت نکلتی ہے: ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب۔۔۔

18/02/2024

شیخ نہیان کی رواداری ...
ودود ساجد

(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)

گزشتہ 14 فروری کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی راجدھانی ابوظبی کے’ابو مریخا‘ علاقہ میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نو تعمیر شدہ ہمالیائی ہندو مندر کا افتتاح کر رہے تھے توعرب سرزمین پر یقیناً وہ ایک تاریخ رقم کر رہے تھے۔ لیکن اسی وقت یہاں ہندوستان میں بھی ’ ایک تاریخ‘ لکھی جارہی تھی۔

وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زائد النہیان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’یو اے ای نے آج انسانی تاریخ میں ایک سنہرا باب رقم کیا ہے۔‘‘ یہ کتنا دلچسپ لمحہ تھا جب اس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ‘ یو اے ای کے وزیر برائے رواداری (ٹالرینس منسٹر) شیخ نہیان بن مبارک النہیان بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم نے یواے ای کے صدر شیخ نہیان کے تئیں اظہار تشکر کے طور پر افتتاحی تقریب میں موجود لوگوں سے کھڑے ہوکر تالیاں بجانے کو بھی کہا۔

بی اے پی ایس مندر یا سوامی ناراین مندر کی تعمیر کیلئے شیخ نہیان نے 27 ایکڑ انتہائی بیش قیمت زمین اپنی طرف سے تحفہ میں دی ہے۔

یہ موضوع بڑا مشکل اور بہت ٹیڑھا ہے۔ یہ دو ملکوں کے درمیان تعلقات کا موضوع ہے۔ یہ موضوع دو مختلف مذاہب اور مختلف ثقافتوں کے پیروکاروں کے درمیان رواداری کا بھی ہے۔ یہ موضوع صرف مندر کا ہی نہیں بلکہ مسجد کا بھی ہے۔ یہ موضوع ہندئوں اور مسلمانوں کا بھی ہے اور یہ موضوع رعایا کے ساتھ حکومت کے سلوک کا بھی ہے۔

یہ دراصل قومی سطح کے عمل اور بین الاقوامی سطح کے قول کے درمیان ہمالیائی تضاد کا موضوع ہے۔ وزیر اعظم نے ’شاندار‘ مندر کے افتتاح کے موقع پر ایک ’شاندار‘ خطاب بھی کیا۔ ہرچند کہ ان کے خطاب کا روئے سخن وہاں موجود ہندوستان کے ہی غیر مقیم شہریوں کی طرف تھا تاہم یہ خطاب ایک دوست ملک کی سرزمین پر ہورہا تھا۔ لہٰذا اس کا تجزیہ کرتے وقت سفارتی آداب اور دو ملکوں کے درمیان سفارتی اور اقتصادی رشتوں کی حساسیت کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔۔۔

وزیر اعظم کا خطاب بڑا دلچسپ تھا۔ انہوں نے کچھ عربی کے کلمات بھی اپنے انداز میں ادا کئے۔ ان کی اس کوشش کی ستائش کی جانی چاہئے۔ ابوظبی میں مندر کے افتتاح کی یہ تقریب ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کی تقریب کے محض 24 دن بعد ہورہی تھی۔ بی جے پی اور ہندوستان کے ہندو طبقات کیلئے ’رام مندر‘ کی تعمیر اس صدی کاسب سے بڑا تاریخی واقعہ ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ایودھیا کی خوشی یہاں ابوظبی میں ملنے والی خوشی کے سبب دوبالا ہوگئی ہے‘ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ پہلےمیں ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کے افتتاح کا گواہ بنا اور اب اس مندر کی افتتاحی تقریب کا گواہ بن رہا ہوں‘ یواے ای نے ‘جوبرج خلیفہ اورشیخ زائد جامع مسجد وغیرہ کیلئے مشہور ہے‘ اب اپنی شناخت میں ایک اور ثقافتی باب کا اضافہ کرلیا ہے‘ ہم تنوع میں منافرت نہیں دیکھتے‘ ہم تنوع کو اپنی خصوصیت سمجھتے ہیں‘ مجھے یقین ہے کہ اس مندر میں بڑی تعداد میں عقیدت مند آئیں گے اور اس کے سبب عوام کا عوام سے رابطہ بڑھے گا۔‘‘۔۔

وزیر اعظم نے ایک بڑا دلچسپ نکتہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ جب میں 2018 میں متحدہ عرب امارات کے دورہ پر آیا اور صدر شیخ نہیان سے ملا تو میں نے انہیں مندر کے دو نمونے دکھائے تھے۔ ایک نمونہ ویدک طرز تعمیر پر مبنی تھا جس میں ہندو مذہبی علامات تھیں اور دوسرا نمونہ ہندو مذہبی علامات سے خالی اور سادہ طرز تعمیر پر مبنی تھا۔ لیکن شیخ نہیان کا نقطہ نظر بالکل واضح تھا: انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’ -ابوظبی میں مندر پوری شان وشوکت سے بننا چاہئے--- ‘‘ شیخ نہیان چاہتے تھے کہ مندر نہ صرف تعمیر ہو بلکہ مندر جیسا لگے بھی۔‘‘ ۔۔

اس تقریب میں یواے ای کے وزیر برائے رواداری نہیان بن مبارک النہیان نے وزیر اعظم کو ایک دوست ملک کا عظیم لیڈر قرار دیتے ہوئے ان کےسیاسی نعرے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور کہا کہ نریندر مودی کے سبب ہندوستان سے ہمارے قدیم رشتوں میں اور مضبوطی آئی۔ اس تقریب میں وہ تمام رسومات بھی انجام دی گئیں جو ایک ہندو مندر کے افتتاح کے موقع پر انجام دی جاتی ہیں۔

متعدد اخبارات نے لکھا ہے کہ ’ابوظبی میں سوامی ناراین مندر کے افتتاح کی تقریب نے ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کی تقریب جیسا نظارہ پیش کیا۔‘ انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ ابوظبی میں بھی ایک ایودھیا نمودار ہوگئی ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر کے ممالک میں سوامی ناراین طبقہ کے ذریعہ قائم 1200 مندروں میں ایک ساتھ ’گلوبل آرتی‘ بھی ہوئی جس میں وزیر اعظم نے بھی حصہ لیا۔۔۔

اس مندر کی طرز تعمیر میں دونوں ملکوں کی ثقافتوں کے چند عناصر کابھی خیال رکھا گیا ہے۔ اس میں سات چھوٹے گنبد بھی بنائے گئے ہیں جو متحدہ عرب امارات کی ان سات ریاستوں سے عبارت ہیں جن کو ملا کر ایک ملک بنایا گیا ہے۔ اس کے داخلی دروازہ پر 8 مورتیاں بھی نصب کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کےشمال ‘جنوب‘ مشرق اور مغرب کے چاروں بڑے ’بھگوانوں‘ کے مجسمے بھی نصب کئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ مندر ابو ظبی میں شیخ زائد جامع مسجد سے محض پچاس کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔

اس تقریب سے چند روز قبل انڈین ایکسپریس کو دئے گئے انٹرویو میں ہندوستان میں متحدہ عرب امارات کے سفیر عبدالناصر الشالی نے مندر کے افتتاح کو ایک خصوصی موقع بتاتے ہوئے اسے دونوں ملکوں کے باہمی رشتوں کی مضبوطی کا ضامن قرار دیا تھا۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ متحدہ عرب امارات میں ابوظبی کا مندر پہلا نہیں ہے‘ دوبئی میں دو مندر پہلے سے قائم ہیں۔ پہلا 1958میں اور دوسرا 2022 میں تعمیر ہوا تھا۔

1997میں سوامی ناراین طبقہ کے پیشوا مہنت سوامی مہاراج نے ابوظبی کے مندر کا خاکہ پیش کیا تھا۔ اگست 2015 میں یو اے ای حکومت نے اعلان کیا کہ مندر کیلئے صدر کی طرف سے جگہ کا عطیہ دیا جائے گا۔ 2017 میں وزیر اعظم مودی کے ہی ہاتھوں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ 2019 میں اس مندر کے قیام اور تعمیری سرگرمیوں کو قانونی پروانہ مل گیا۔ یہ مندر 108فٹ اونچا ‘ 262 فٹ لمبا اور 180 فٹ چوڑا ہے۔ اس کی تعمیر میں راج مستری اور مزدور تو لگے ہی ساتھ ہی متحدہ عرب امارات‘ افریقہ‘ برطانیہ ‘ امریکہ‘ ہندوستان اورخلیجی ممالک کے 200 رضاکاروں نے بھی 6لاکھ 90 ہزار گھنٹے وقف کئے۔ اس پر کل سات سو کروڑ روپیہ کا صرفہ آیا ہے۔

ہم نے اس مندر کے افتتاح کی مذکورہ تفصیل کو اس لئے ضروری سمجھا کہ اس سے ہمارے ملک اور ہمارے وزیر اعظم کا ’وقار‘ وابستہ ہے۔ جو خواب سوامی ناراین طبقہ نے 1997میں دیکھا تھا وہ 18سال بعد 2015 میں اسی وقت زمین پر اترا جب ہمارے وزیر اعظم نے متحدہ عرب امارات کے صدر سے پہلی ملاقات کی۔ لیکن خود خلیج کا میڈیا ہمارے وزیر اعظم کے تعلق سے ایک اور پہلو پر بھی رپورٹیں نشر اور شائع کرتا رہا ہے۔

مثال کے طور پر اپریل 2023 میں ’الجزیرہ‘ کی ویب سائٹ نے سارہ اطہر کی ایک رپورٹ شائع کی۔اس کا عنوان یہ تھا: تباہی کی سیاست: ہندوستان کی مساجد کو مودی کیوں منہدم کرنا چاہتے ہیں؟۔ ہمیں اس عنوان کے تعلق سے تردد ہے۔ اس لئے کہ وزیر اعظم نے کبھی اپنے منہ سے کسی ایک بھی مسجد کے تعلق سے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ لیکن اس رپورٹ کی دیگر تفصیلات ہمارے ملک اور وزیر اعظم کی خلیجی ممالک میں پھیل جانے والی ’نیک نامی‘ کو داغ دار بناتی ہیں۔ اس رپورٹ میں یوپی‘ دہلی اور دوسرے کئی مقامات کی متعدد تاریخی مساجد کو بلڈوزر سے منہدم کرنے کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کئی مسجدوں کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھے لیکن ’تباہ کن عجلت‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں منہدم کردیا گیا۔ اس رپورٹ میں اجمالاً بابری مسجد کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا بھی ذکر ہے۔۔۔

مسجدوں پر آنے والی افتاد کی تفصیلات سے پورا ملک واقف ہے۔ لیکن تشویش یہ ہے کہ ان تفصیلات کا ذکر بین الاقوامی سطح پر بھی ہورہا ہے‘ اور ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ہمارے وزیر اعظم متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر ’تنوع میں کوئی نفرت نہیں‘ کے عنصر کو فخریہ بیان کر رہے ہیں۔ اتراکھنڈ کے ہلدوانی اور دہلی کے مہرولی میں منہدم کی جانے والی مسجدوں کا واقعہ تو بالکل تازہ ہے۔ ہلدوانی کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا جبکہ مہرولی کی 600 سالہ پرانی مسجد کے تعلق سے عدالت نے پولیس اور انتظامیہ سے سخت سوالات کئے ہیں۔ بدایوں کی 800 سال پرانی شمسی جامع مسجد کا بھی بین الاقوامی میڈیا میں ذکر ہورہا ہےجس کے بارے میں دعوی ہے کہ دسویں صدی میں یہاں ’لارڈشوا‘ کا مندر تھا۔

بین الاقوامی میڈیا میں بلڈوزر سے زمین دوز کردئے جانے والے سینکڑوں مکانات اور دوکانوں کا بھی ذکر ہورہا ہے۔ ایسے میں ڈر لگتا ہے کہ ہمارے ملک اور وزیراعظم کی بین الاقوامی سطح پر جو شبیہ بنی ہے اسے کہیں زک نہ پہنچ جائے۔ ہم وزیر اعظم کے تعلق سےسارہ اطہر کی ہیڈنگ کی تائید نہیں کرسکتے کیونکہ وزیر اعظم نے ایسی کوئی بات کہی نہیں لیکن وزیر اعظم نے شرپسندوں اور اپنے اقتدار والی ریاستوں کے وزرائے اعلی سے یہ بھی تو نہیں کہا کہ مسجدوں کا انہدام ہماری پالیسی میں نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ متحدہ عرب امارات میں رواداری کی وزارت قائم ہے جہاں رواداری کو کوئی خطرہ ہی نہیں۔ جبکہ یہاں ہر وزیر رواداری کا حلف لیتا ہے مگر رواداری کا جو حشر ہوا ہے اس پر خود رواداری بھی شرمندہ ہوگی۔۔۔

شیخ نہیان سے زیادہ بڑا روادار کون ہوگا کہ انہوں نے ایسے وقت میں ابوظبی میں ایک شاندار مندر کے افتتاح کی راہ ہموار کردی جب ابو ظبی سے دو ہزار ایک سو ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع غزہ میں اسرائیل نے 1200 میں سے ایک ہزار مسجدوں کو بمباری میں تباہ و برباد کر ڈالا‘ 100سے زیادہ ائمہ وخطباء کو بھی حملوں میں شہید کردیا اور درجنوں قبرستانوں پربمباری کرکے شہیدوں کے اجسام کو ریزہ ریزہ کردیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں 85 فیصد آبادی اجڑ گئی ہے اور 60 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔

اس سے بڑی رواداری کیا ہوگی کہ اسرائیل سے مراسم کی استواری کے تعلق سے جو موقف متحدہ عرب امارات نے پچھلے سال نومبر میں واضح کیا تھا وہ اس پر رواں سال کے فروری میں بھی قائم ہے۔ غزہ میں 35 ہزار فلسطینی شہید‘ 80 ہزار زخمی اور 20 لاکھ بے گھر ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں متحدہ عرب امارات کی سفیر ’لانا نصیبہ‘ فرماتی ہیں کہ اسرائیل سے تعلقات اور تعاون کے سبب ہی ہم غزہ میں ایک موبائل ہسپتال چلا پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ یو اے ای کو اسرائیل کی مسلسل جنگ اور خاص طور پر رفح پر حملوں کے منصوبوں کے خوفناک نتائج کا اندازہ نہ ہو‘ اسے خوب اندازہ ہے‘ اسی لئے سفیر محترمہ فرماتی ہیں کہ رفح پر بمباری کے ناقابل قبول نتائج ہوں گے مگر اس کے باوجود اسرائیل سے مراسم جاری رکھنے کے خیال کا اعادہ بھی کرتی ہیں۔

غزہ پر بمباری کے باوجود اسرائیل سے مراسم کا ذکر چلا ہے تو یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اسرائیل کو خام تیل کی سب سے بڑی سپلائی 70 فیصد مسلم آبادی والے قزاقستان اور 93 فیصد مسلم آبادی والے آذر بائیجان سے ہوتی ہے۔۔۔۔۔

([email protected])

وحشی کے خلاف ۔۔۔ آج وحشی درندے کے خلاف یرغمال شہریوں کے اہل خانہ اور سینکڑوں لوگوں نے سڑکوں پر زوردار مظاہرہ کیا۔۔ ایک ک...
16/02/2024

وحشی کے خلاف ۔۔۔

آج وحشی درندے کے خلاف یرغمال شہریوں کے اہل خانہ اور سینکڑوں لوگوں نے سڑکوں پر زوردار مظاہرہ کیا۔۔ ایک کلو میٹر لمبے اس مظاہرہ میں لوگوں نے نتن یاہو کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔۔۔ سیکیورٹی فورسز نے طاقت کا استعمال کیا اور بہت سی خواتین کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا ۔۔۔ متعدد کو گرفتار بھی کیا گیا ۔۔۔

زیر نظر اسکرین شاٹ میں موجود یہودی خاتون نے وہاں موجود میڈیا اہلکاروں سے بھی بات کی۔۔۔ اس نے زور دے کر کہا کہ ہم غزہ کی گلی کوچوں میں بہائے جانے والے خون اور بے قصوروں کے خلاف برپا کئے جانے والے تشدد کے سخت خلاف ہیں ۔۔۔

دہلی میں ایک عرصہ کے بعد رامز عبدالودود اوررافعہ ساجد کے ذریعہ پرسنالٹی ڈویلپمنٹ ورکشاپ ۔ ان شاء الله مئی جون میں ایک مہ...
14/02/2024

دہلی میں
ایک عرصہ کے بعد

رامز عبدالودود
اور
رافعہ ساجد کے ذریعہ
پرسنالٹی ڈویلپمنٹ ورکشاپ ۔ ان شاء الله مئی جون میں

ایک مہینہ کی اس شاندار اور نتیجہ خیز ورکشاپ کی رعایتی فیس کا اعلان بہت جلد ۔۔۔

نوبل ایجوکیشن اکیڈمی کے ذریعہ
نشستوں کی پوزیشن جاننے کے مقصد سے "پیشگی رجسٹریشن" کے جائزہ کے عمل میں خواہش مند افراد شرکت کرسکتے ہیں ۔۔۔

مرد اور خواتین کے بیچ الگ الگ ہوں گے

خوفناک علامت ۔۔۔ودود ساجدیہ لرزہ خیز تصویر مصر اور فلسطین کی سرحد پر واقع فلسطینی شہر رفح کی ہے جہاں چند گھنٹوں پہلے متع...
13/02/2024

خوفناک علامت ۔۔۔
ودود ساجد

یہ لرزہ خیز تصویر مصر اور فلسطین کی سرحد پر واقع فلسطینی شہر رفح کی ہے جہاں چند گھنٹوں پہلے متعدد افراد کے ساتھ ایسے تین معصوم بچے بھی وحشی درندے کے حملوں کا شکار ہوئے ہیں ۔۔۔

یہ تصویر محض ایک معصوم نومولود کی نہیں ہے۔۔۔ یہ تصویر عالم اسلام کے مردہ جسم کی خوفناک علامت بھی ہے۔۔ یہ تصویر فی الواقع دنیا کے سامنے عالم اسلام کا مردہ چہرہ پیش کر رہی ہے ۔۔۔ یہ تصویر رہتی دنیا تک مورخین کو بتاتی رہے گی کہ جب وحشی درندہ تمام شیطانی حدود کو پار کرتے ہوئے معصوم فلسطینی بچوں کو ذبح کر رہا تھا تو عرب ملکوں میں سے ایک ملک اپنی سرزمین پر ایک بلند ترین بت خانہ کا افتتاح کر رہا تھا ۔۔۔ انا للہ واناالیہ راجعون

11/02/2024

اسرائیل کا غروب...
ودود ساجد

(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)

اسرائیل کی شیطانی جنگ کے تناظر میں امریکہ جو امید لے کر سعودی عرب گیا تھا اس امید پر سعودی عرب نے پانی پھیر دیا ہے۔ ہرچند کہ فلسطین کے بے قصور بچوں‘عورتوں اور مردوں پر جو افتاد آئی ہے وہ زیادہ بڑی اور زیادہ خوفناک ہے تاہم سفارتی سطح پر اسرائیل پر آنے والی افتاد بھی کچھ کم نہیں ہے۔

غزہ کی تکلیف دہ صورتحال سے قطع نظر تل ابیب کی خوفناک صورتحال مظلوموں کیلئے زیادہ اطمینان بخش ہے۔ حالیہ چند برسوں میں اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو‘ سعودی عرب کو سب سے زیادہ قابل اعتبار اور محسن و غم خوار ملک کے طور پر متعارف کراتے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ 7 فروری کو امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اسرائیل سے اس وقت تک سفارتی مراسم کی استواری کے تعلق سے کوئی بات نہیں ہوگی جب تک وہ حملے روک کر فلسطین سے مکمل طور پر نہ نکل جائے اور جب تک فلسطین ایک مکمل اور خود مختار ریاست نہ بن جائے۔

سعودی عرب نے یہ بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ قضیہ فلسطین کے تعلق سے دہائیوں سےجاری اس کی مستحکم پالیسی میں کسی تبدیلی کا کوئی سوال ہی نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ اس لئے محمد بن سلمان سے ملنے گئے تھے تاکہ ان سے یہ ضمانت لے لیں کہ سعودی عرب جنگ ختم ہونے کے بعد اسرائیل سے مراسم قائم کرنے کیلئے گفتگو شروع کردے گا۔۔۔

اب اسرائیل کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس شیطانی جنگ کو کیسے روکے۔ محض اپنی سیاسی بقاء کیلئےنتن یاہو کے سرپر ایک ہی بھوت سوار ہے کہ وہ حماس کو ختم کرکے ہی دم لیں گے۔ اسرائیل کے مقابلہ میں صفر طاقت رکھنے والے جانبازوں نے اسرائیل کی تمام ہتک آمیز شرائط کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا ہےاور اپنی طرف سے جنگ بندی کی جو شرائط اسرائیل کو بھیجی ہیں انہیں نتن یاہو اپنی ہتک سمجھ رہے ہیں۔

یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ حماس نے اسرائیل کے چوطرفہ جابرانہ اور ظالمانہ محاصرہ کے 17برسوں میں جو کچھ جمع کیا ہے وہ اسرائیل سے مقابلہ کیلئے ہی کیا ہے۔ لیکن اسرائیل نے جو کچھ جمع کیا ہے وہ کھونے کیلئے نہیں کیا ہے۔لیکن اس جنگ میں اسرائیل اب تک اربوں ڈالرس کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ اسے تاریخ کی جو سب سے بڑی فوجی قیمت ادا کرنی پڑی ہے وہ الگ۔۔ دنیا بھر میں سفارتی‘ معاشی ’ تکنکی اور عسکری سطح پر اس نے جو شبیہ بنائی تھی اس کے بھی کئی ٹکڑے ہوگئے ہیں۔ نتن یاہو کے بس میں نہیں ہے کہ ان ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑ کر اسرائیل کو وہ شبیہ واپس دلوادیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اب وہ پہلے والی شبیہ واپس آنے کے امکانات سرے سے معدوم ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر سے جو یہودی اسرائیل میں لاکر بسائے گئے تھے ان میں سے کئی لاکھ اپنے اصل ملکوں کو واپس جاچکے ہیں اور اب ایسے ملک میں واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے جہاں زندگی 24 گھنٹے خطروں کے سائے میں رہتی ہو۔۔۔

اسرائیل کے نیم سرکاری اخبار’دی ٹائمز آف اسرائیل‘نے تارکین وطن کی آبادی کا حساب کتاب رکھنے والے سرکاری ادارے ’عالیہ‘ کے حوالہ سے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے دسمبر 2023 تک 4 لاکھ 70 ہزار یہودی اسرائیل چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ واپس آئیں گے۔ اسی طرح دوسرے ملکوں سے اسرائیل آکر بسنے کی خواہش رکھنے والے درخواست گزاروں کی تعداد میں 70 فیصد کی کمی آگئی ہے۔ پہلے ہر مہینے 4500 درخواستیں آتی تھیں‘ اب محض ایک ہزار ہی آرہی ہیں۔7 اکتوبر 2023 کو جب حماس کے جانبازوں نے ’طوفان الاقصی‘ نامی آپریشن کے تحت غزہ سے متصل اسرائیلی بستیوں پر دھاوا بولا تھا تو اسی دن ہزاروں اسرائیلی شہری بدحواس ہوکر ایرپورٹ کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت سے اب تک باہر جانے والوں کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کے حماس کے حملوں سے کافی پہلے سے اسرائیلی شہریوں نے ’فارن پاسپورٹ‘ کیلئے درخواستیں دینی شروع کردی تھیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق یہ شہری وزیر اعظم نتن یاہو کی اس پالیسی سے ناراض تھے جس کے تحت وہ عدلیہ کے اختیارات میں کمی کرنا چاہتے تھے۔ بعد میں سپریم کورٹ نے نتن یاہو کی اس قرارداد کو کالعدم کردیا تھا۔ 80 فیصد اسرائیلی شہریوں کا خیال تھا کہ اگر عدلیہ کے اختیارات کم کردئے گئے تو اس سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد اسرائیلی شہریوں میں یہ خوف دوگنا ہوگیا کہ اگر صورتحال مزید خراب ہوئی تو اسرائیل سے ’منفی نقل مکانی‘ شروع ہوسکتی ہے۔ یعنی جو لوگ دوسرے ملکوں سے یہاں آکر آباد ہوگئے تھے وہ اپنے اپنے ملکوں کو واپس جاسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ 20 ویں صدی میں مختلف ملکوں سے سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے منتقل ہوجانے کے سبب ہی اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اب ان یہودیوں کی دوسری اور تیسری نسل کے اندر خوف جاگزیں ہوگیا ہے۔ ’فارن پاسپورٹ‘ کیلئے درخواست جمع کرنے والوں کی تعداد میں 80 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔

فارن پاسپورٹ کا مطلب یہ ہے کہ بعض ملکوں کے نئے ضابطوں کے مطابق اسرائیلی شہری دوہری شہریت کیلئے ان ملکوں میں سے بھی کسی ایک کا پاسپورٹ بنوا سکتے ہیں۔ ایسے شہریوں کو ان ملکوں میں جاکر بس جانے کیلئے پیشگی ویزا کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بہت سے اسرائیلی شہریوں کا خیال ہے کہ اسرائیل میں ان کی اگلی نسلوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہے اس لئے وہ پیش بندی کے طور پر امریکہ‘ اسپین اور جرمنی جیسے ملکوں کے پاسپورٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔

اسرائیل کی اقتصادی حالت بھی بہت خراب ہے۔ اسے مختلف محاذوں پر افرادی قوت کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ مثال کے طور پر اس کے ہزاروں غیر ملکی زرعی مزدور اسرائیل سے بھاگ گئے ہیں۔ ان میں سات ہزار تھائی لینڈ کے بھی مزدور ہیں۔ حماس کے جانبازوں نے اسرائیلی شہریوں کے ساتھ دو درجن تھائی شہریوں کو بھی اغوا کرلیا تھا۔ اس کے علاوہ تین درجن تھائی مارے بھی گئے تھے۔ اسی طرح فلپائن کے بھی بہت سے مزدور اپنے ملک کو واپس چلے گئے ہیں۔ اب تعمیراتی سیکٹر کیلئے ہندوستان سے بھی مزدوروں کی بھرتی کی جارہی ہے۔

اسرائیل کا زرعی سیکٹر بری حالت میں ہے۔ جو پھل اسرائیل کی گھریلو ضرورت کو پورا کردیتے تھے اب وہ دوسرے ملکوں سے درآمد کئے جارہے ہیں۔ پھلوں کی سب سے بڑی کھیپ ترکی سے آتی ہے۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ زراعت کے میدان میں اسرائیل نے دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ بہت سے ملکوں کو اسرائیل نے اپنی زرعی تکنالوجی سے فیضیاب بھی کیا تھا۔ ان میں ہندوستان کا صوبہ ہریانہ بھی شامل ہے۔ لیکن اس جنگ سے سب سے زیادہ متاثر یہی شعبہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جن شعبوں کو جنگ نےسب سے زیادہ متاثر کیا ہے ان میں تیل‘ گیس‘ سیاحت‘ طبی سہولیات‘ رٹیل اور تکنالوجی وغیرہ شامل ہیں۔

اسرائیل کے ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ یہ تمام شعبے ایک طویل مدت تک سنبھل نہیں سکیں گے۔ زراعت کے شعبہ کا حال یہ ہے کہ فصلیں نومبر سے تیار کھڑی ہیں لیکن انہیں کاٹنے والا کوئی نہیں ہے۔ زیادہ تر کھیت فوجی گاڑیوں کیلئے پارکنگ کا کام دے رہے ہیں۔۔۔

اسی طرح اسرائیل میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ تکنالوجی کے میدان میں غیر ملکی سرمایہ کاری 40 فیصد کم ہوگئی ہے۔ اسرائیل کا بجٹ خسارہ 6.6 فیصد ہوگیا ہے۔ وزارت خزانہ کے حوالہ سے آنے والی مختلف رپورٹوں کے مطابق حماس کے حملہ سے بھی پہلے ستمبر میں اسرائیل میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری میں 60 فیصد کی کمی آگئی تھی۔ اس سے اسرائیل کو 2.6 بلین ڈالر س کا خسارہ ہوا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حماس کے حملوں کے بعد وہاں کیا حال ہوگا۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق تکنالوجی کے میدان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 80 فیصد تک کی کمی آگئی ہے۔ اب تک مجموعی طور پر اسرائیل کو اس محاذ پر 4.76 بلین ڈالرس کا نقصان ہوچکا ہے۔

2022 میں تنہا امریکہ سے ہی 22 بلین ڈالرس کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ غیر ملکی کرنسی میں لین دین میں بھی زبردست کمی آئی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی کرنسی ’شیکل‘ کی قدر میں بھی زبردست گراوٹ آئی ہے۔ اسے سنبھالنے کیلئے اسرائیل کے سینٹرل بنک نے 8 بلین ڈالرس فروخت کردئے ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی اقتصادی تنزلی 14سال پہلے کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
اسرائیل نے جب غزہ میں جنگ شروع کی تھی تو اس نے اس کیلئے 200 ملین ڈالرس مختص کئے تھے۔ جلد ہی اسے احساس ہوا کہ یہ جنگ 200 ملین ڈالرس سے نہیں جیتی جاسکتی۔ نومبر 2023 تک اس کے یہ 200 ملین ڈالرس ختم ہوچکے تھے۔۔

اس کے بعد امریکہ نے بھی 14بلین ڈالرس کی مدد کی لیکن ماہرین جنگ کا اندازہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کے جو قیمتی ٹینک تباہ کئے ہیں ان سے ہی اسرائیل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے‘ لہٰذا یہ 14بلین ڈالر س بھی ختم ہوگئے ہوں گے۔ میں نے اپنے پچھلے مضامین میں عرض کیا تھا کہ اسرائیل کے ایک میرکافا ٹینک کی قیمت 35 لاکھ ڈالر ہے۔ حماس کے جانباز اب تک 1100سے زائد مختلف قسم کے ٹینک تباہ کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ غزہ سے جو ہزاروں چھوٹے بڑے میزائل اسرائیل کی طرف داغے گئے ہیں اور جن میں سے بیشتر کو اسرائیل کے ’آئرن ڈوم سسٹم‘ نے مارگرایا ہے ان پر بھی کروڑوں ڈالر صرف ہوچکے ہیں۔

آئرن ڈوم ایک حملہ کو ناکام کرنے کیلئے جو وار کرتا ہے اس پر بھی 60 ہزار ڈالر کا خرچ آتا ہے۔ ماہرین جنگ کا خیال ہے کہ ابھی اسرائیل کو کئی بلین ڈالرس کی ضرورت ہوگی اور جنگ ختم ہونے کے بعد اس کی تلافی کئی برس تک نہیں ہوسکے گی۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس بار کی جنگ پچھلی تمام جنگوں سے مختلف ہے کیونکہ فلسطینی مزاحمت کار گروپ اسرائیل کو عدیم المثال ٹکر دے رہے ہیں۔ بہت سے ملکوں کی ایرلائنز نے اسرائیل کو جانے والی اپنی معمول کی پروازیں بھی روک دی ہیں۔

ایک اسرائیلی ماہر اقتصادیات نے رپورٹ دی ہے کہ 2006 میں حزب اللہ اور 2014 میں حماس کے خلاف لڑائی کے بعد اسرائیل کی گھریلو شرح نمو میں اعشاریہ پانچ فیصد ہی کا خسارہ ہوا تھا لیکن اس بار یہ خسارہ 3.5 فیصد تک پہنچنے کا اندازہ ہے۔ دوسرے پچھلی جنگوں میں صرف سیاحت کی صنعت متاثر ہوئی تھی لیکن اس بار تمام محاذ متاثر ہوئے ہیں۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق لبنان سے متصل اسرائیل کے بہت سے شہر اور قصبات میں ہو کا عالم ہے۔ ڈھائی لاکھ لوگوں سے ان کے مکانات خالی کرالئے گئے ہیں اور انہیں ہوٹلوں یا رشتہ داروں میں پناہ لینی پڑی ہے۔ تین لاکھ 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس طرح جن کمپنیوں میں یہ لوگ حالت امن میں کام کر رہے تھے وہ کمپنیاں بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔ 150بڑی کمپنیوں نے اپنی بقا کی خاطر بڑے سرمایہ کاروں سے مدد طلب کی ہے۔

الغرض افراتفری کا وہ عالم ہے کہ جو اسرائیل نے اپنے وجود کے 75برسوں میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب تک 28 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں لیکن حماس کے جانباز بھی اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ لگاکر مار رہے ہیں۔ اس صورتحال سے نپٹنے میں اسرائیل ابھی تک ناکام نظر آتا ہے ۔۔

انقلاب کا انقلابی قدم ۔۔۔ ودود ساجدگزشتہ روز "ہمدرد" کے اشتراک سے روزنامه انقلاب نے "انقلاب اچیورس ایوارڈ" کا نیا سلسلہ ...
04/02/2024

انقلاب کا انقلابی قدم ۔۔۔
ودود ساجد

گزشتہ روز "ہمدرد" کے اشتراک سے روزنامه انقلاب نے "انقلاب اچیورس ایوارڈ" کا نیا سلسلہ شروع کیا۔۔۔

طب یونانی اور آیورویدا کے زمروں میں دو شخصیات کو حکیم عبدالحمید ایکسی لینس ایوارڈ کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والی دس شخصیات کو "انقلاب اچیورس ایوارڈ" پیش کئے گئے۔۔

اس کی تفصیلی خبر آج کی اشاعت میں آچکی ہے۔۔ مزید تصاویر اور ایوارڈ یافتگان کی آراء پر مبنی تفصیلی رپورٹ عنقریب شائع کی جائے گی ۔۔

زیر نظر تصویر میں اگلی صف میں بیٹھے ہوئے' بائیں سے : ہمدرد کے چیئرمین جناب عبدالمجید' مرکزی وزیر مملکت برائے آیوش منج پارا مہیندر بھائی اور یہ خاکسار ۔۔۔ جبکہ پیچھے کھڑے ہوئے ایوارڈ یافتگان میں بائیں سے: نسرین شیخ' پروفیسر وسیم بریلوی' حاجی غلام رسول' ساجد اختر' پروفیسر دانش ظفر' وید دویندر تری گنا' سراج الدین قریشی' نواز دیوبندی' ڈاکٹر ایس وائی قریشی' ڈاکٹر عبدالقدیر' پروفیسر فیضان مصطفیٰ اور ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد ۔۔۔

یہ پروگرام دہلی کے پانچ ستارہ ہوٹل "دی للت" میں منعقد ہوا تھا۔۔ اس کامیاب اور شاندار پروگرام کے انعقاد کی تمام تر تیاریوں کی عملی نگرانی کیلئے جاگرن پرکاشن کے چیف جنرل مینجر نیتیندر سریواستو' انقلاب کے مارکیٹنگ ہیڈ اور ڈی جی ایم ( بزنس) عارف محمد خان اور ہمدرد کے سیلس ڈائریکٹر محمد زبیر مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں ۔۔

عام طور پر صحافیوں' اخبار نویسوں اور میڈیا ہاؤسز کو معاشرہ کے افراد' انجمنیں اور ادارے' ایوارڈ دیتے ہیں۔۔ لیکن اردو اخبارات کی دنیا میں انقلاب نے پہلی بار یہ طرح ڈالی ہے کہ وہ معاشرے کے ممتاز افراد' انجمنوں اور اداروں کو ایوارڈ دیا کرے گا۔۔۔

مذکورہ کوشش اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔۔۔ یہ در اصل اس سلسلے کی توسیع ہے جس کے تحت ہمدرد کے اشتراک سے ہم ہر برس کوئز منعقد کرکے دس کامیاب شرکاء کو عمرہ کے سفر پر بھیجتے رہے ہیں ۔۔ اس بار بھی 12 فروری کو دس افراد ان شاء الله عمرہ کے سفر پر روانہ ہوں گے۔۔۔

28/01/2024

نسل کشی کا مجرم ---
ودود ساجد

(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)

نیدر لینڈ کے شہر ہیگ میں قائم عالمی عدالت برائے انصاف (انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس یا آئی سی جے) کے عبوری حکم پر عجلت اور جذبات میں کوئی منفی رائے قائم کرنا درست نہیں ہوگا۔۔

دنیا بھر کے انصاف پسندوں اور فلسطینیوں کے قتل عام پر تڑپ اٹھنے والے اربوں عام انسانوں کو عالمی عدالت کے عبوری حکم میں کوئی شدت بھلے ہی محسوس نہ ہو لیکن حقائق اور عالمی سیاسی اثرات کے حوالے سے یہ فیصلہ انتہائی اہم اور تاریخی ہے۔خود فلسطینیوں اور حماس نے اس فیصلہ کو اسرائیل کی گرفت کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔۔

اسرائیل کی 75 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی عالمی پلیٹ فارم پر اس کی ایسی اجتماعی اور عوامی سبکی ہوئی ہے۔ امریکہ نے ہر موقع پر اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں لائی گئی ہرقرار داد کو مسترد کیا ہے۔ لیکن عالمی عدالت نے خود اسرائیل کی اس اپیل کو مسترد کردیا جس کے تحت اس نے اپنے خلاف دائر جنوبی افریقہ کے مقدمہ کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔یعنی بادی النظر میں جنوبی افریقہ کے الزامات کو مسترد نہیں کیا گیا ہے اور اسرائیل کونسل کشی کے الزامات میں کلین چٹ نہیں دی گئی ہے۔ یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ عالمی عدالت فی الواقع اقوام متحدہ کا ہی ایک ادارہ ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ عالمی عدالت کا عبوری حکم آنے سے پہلے ہی اسرائیل درپردہ امن کی بھیک مانگنے لگا تھا۔ گوکہ اس نے اپنی شکست خوردگی کو اپنی وحشت ناکی کے پردہ میں چھپاکر رکھا لیکن مصر اور قطر کے توسط سے اس نے دو مہینہ کی جنگ بندی کی جو تجویز رکھی تھی ‘ اور جسے حماس نے حقارت اور پوری قوت کے ساتھ مسترد کردیا تھا‘ وہ فی الواقع اس کی شکست خوردگی اور اس کے اندر پنپنے والے خوف کا ہی مظہر ہے۔

اسرائیل نے جو تباہی فلسطین اور خاص طور پر غزہ میں برپا کی ہے فلسطین کی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔لیکن اس تباہی کے توسط سے اس نے جو نشانہ حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا تین مہینے سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اسے اس میں ذرہ برابر کامیابی نہیں ملی ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے کہ غزہ میں ہر روز عام شہریوں کا بھیانک قتل عام ہورہا ہے‘لیکن یہ کسی روح افزا عجوبہ سے کم نہیں ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کو بھی جہنم رسید کیا جارہا ہے۔غزہ میں محاذ جنگ پر بھی اور سیاسی طور پر غزہ کے باہر عالمی سطح پر بھی اسرائیل کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ اس کی لغت میں تھا ہی نہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 1982میں جنوبی لبنان پر اسرائیل کی چڑھائی سے لے کر 26 اکتوبر 2023 تک اسرائیل کے خلاف لائی جانے والی قراردادوں کو امریکہ نے 46 بار ’ویٹو‘ کیا ہے۔ برسبیل تذکرہ یہ جاننا اہم ہے کہ 198ملکوں والی اقوام متحدہ میں صرف پانچ ممالک ‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ فرانس اور روس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جس اہم قرارداد کو چاہیں ’ویٹو‘ کردیں۔ ویٹوکا مطلب اسے سرے سے مسترد اور کالعدم کردینا ہے۔ان پانچ میں سے کوئی ایک بھی جب اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں کسی قرار داد کو ’ویٹو‘ کردیتا ہے تو پھر وہ قرارداد مسترد ہوجاتی ہے۔۔۔

ان پانچوں ملکوں کو اقوام متحدہ کی اصطلاح میں’پی فائیو‘ کہا جاتا ہے۔انہیں یہ اختیار اس لئے دیا گیا تھا کہ انہی پانچوں نے اقوام متحدہ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔لہذا اس بار یہ اہم ہے کہ امریکہ ‘عالمی عدالت میں اسرائیل کی کوئی مدد نہیں کرسکا اور عالمی عدالت کے 17میں سے 15ججوں نے اسرائیل کو کٹگھرے میں کھڑا کردیا۔ عموماً عالمی عدالت میں 15مستقل جج ہوتے ہیں۔ایک ایک جج‘ مقدمہ کے دونوں فریق ممالک عارضی طور پر منتخب کرتے ہیں۔اسرائیل کے ’عارضی جج‘ اہارون باراک اور یوگانڈا کی مستقل جج سیبوٹینڈے نے عالمی عدالت کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دیاہے۔ لیکن ایک اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے مستقل جج‘ جسٹس دلویر بھنڈاری نے فیصلہ کی ہر شق کے حق میں یعنی ہر نکتہ پر اسرائیل کے خلاف ووٹ دیاہے۔۔

عالمی عدالت کا عبوری فیصلہ خاصا طویل ہے۔ تاہم اصل فیصلہ کے چند نکات انتہائی اہم ہیں۔ عدالت نے اسرائیل کو ہدایت دی کہ وہ اقوام متحدہ کے ’کنونشن برائے انسداد نسل کشی و اجتماعی سزا‘ کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے اقدامات سے فوری طور پر باز آئے۔اس کے علاوہ کنونشن کے آرٹیکل 2 کے تحت ان اقدامات سے بھی باز رہنے کو کہا گیا جن میں کسی گروپ کے ارکان کو قتل کرنے‘ گروپ کے ارکان کو ذہنی اور جسمانی نقصان پہنچانے‘ جان بوجھ کر کسی گروپ کے ارکان پر عرصہ حیات تنگ کرنے‘ گروپ کے ارکان کو کلی یا جزوی طور پر تباہ کرنے اور گروپ کے ارکان پر ایسے حالات مسلط کرنے سے روکا گیا ہے جن میں وہ گروپ افزائش نسل سے محروم ہوجائے۔

اس کے علاوہ اسرائیل کو یہ بھی ہدایت دی گئی کہ وہ اپنی فوج کو وہ حالات پیدا کرنے سے باز رہنے کا پابند بنائے جو اوپر مذکور ہیں۔یہ بھی ہدایت دی گئی کہ اسرائیل وہ تمام اقدامات کرے جن کے تحت غزہ میں فلسطینیوں کو اکساکر اور بھڑکاکر ان کی نسل کشی کے حالات کو پیدا ہونے سے روکاجاسکے۔ اسی طرح اسرائیل کو یہ ہدایت بھی دی گئی کہ وہ فوری طور پر غزہ میں لازمی انسانی ضرورت اور خورد و نوش کا سامان جانے کے حالات پیدا کرے اور ضرورت کی ہر وہ چیز فوری طور پر غزہ میں جانے دے جس سے انسانی زندگی کو بچانا مطلوب ہو۔ اسی طرح اسرائیل کو انسداد نسل کشی کنونشن کے آرٹیکل 2 اور 3 کے تحت تباہی کے اقدامات سے موثر طور پر رک جانے اور اپنے اوپر عاید الزامات کے تعلق سے موجود شواہد کو محفوظ رکھنے کی ہدایت دی گئی۔عدالت نے حماس سے بھی کہا کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو اغوا کئے گئے اسرائیلی شہریوں کو بلا شرط رہا کرے۔۔۔

عالمی عدالت کے اس عبوری فیصلہ کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں عدالت نے اسرائیل کے وزیر اعظم اور صدر سمیت دوسرے شرپسند وزیر وں کے متعدد خوفناک بیانات کا بھی حوالہ دیا۔ان بیانات سے جنوبی افریقہ کے نسل کشی کے الزامات کی تائید ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح عدالت نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری ’انتونیو گوتریس‘ کے ان تاریخ وار بیانات کا بھی حوالہ دیا جن سے فلسطینیوں پراسرائیل کے بھیانک مظالم کی تصدیق ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ عالمی عدالت کیلئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے بیانات سے زیادہ اور کس کے بیانات معتبر ہوں گے۔ عدالت نے جنوبی افریقہ کے صدر اور وزیروں کے بیانات کا بھی حوالہ دیا۔یہ تمام بیانات ‘خبریں اور رپورٹیں اس فیصلہ کا حصہ ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت نے معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر از خود بھی شواہد جمع کئے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عالمی عدالت کا طریقہ کار دنیا کی دوسری روایتی عدالتوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کا دائرہ کار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ‘جنیوا کنونشن یا حقوق انسانی سے متعلق وقتاً فوقتاً منظور شدہ قرار دادیں ہوتی ہیں۔زیر نظر معاملہ میں جنوبی افریقہ نے بھی عبوری حکم دینے کی درخواست کی تھی۔ابھی جنوبی افریقہ کے الزامات پراسرائیل کے خلاف ٹرائل شروع نہیں ہوا ہے۔ ابھی ثبوت وشواہد بھی پیش نہیں کئے گئے ہیں۔یوں سمجھئے کہ ابتدائی طور پر عدالت کو یہ طے کرنا تھا کہ اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی یہ اپیل قابل سماعت ہے بھی یا نہیں۔


اسرائیل نے سماعت کے دوران ایک طرف جہاں نسل کشی کے الزامات کو مسترد کیا تھا وہیں اس نے جنوبی افریقہ کی اپیل کو سماعت کے قابل ہونے کے سوال پر چیلنج بھی کیا تھا۔لیکن عدالت نے واضح کردیا کہ جنوبی افریقہ کو اسرائیل کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہی نہیں بلکہ عدالت نے بادی النظر میں اپیل کو حق بجانب بھی قرار دیا ہے اور اسرائیل کے اعتراض کو مسترد کردیا ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی افریقہ اور اسرائیل دونوں نے اقوام متحدہ کےاس کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں جس کے تحت کسی بھی نسلی‘ لسانی یا مذہبی گروپ کی نسل کشی ممنوع ہے۔عدالت نے از خود بھی غزہ میں انسانی اتلاف اور انسانی حقوق کی شدید بے حرمتی پر اپنی دردمندی ظاہر کی ہے اور اعداد و شمار کی روشنی میں شہیدوں‘ زخمیوں‘ ہجرت اور فاقہ کشی پر مجبور لاکھوں لوگوں ‘ عورتوں اور بچوں پر آنے والی افتاد کا ذکر کیا ہے۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دنیا کی دوسری روایتی عدالتوں کی طرح عالمی عدالت کے پاس کوئی قوت نافذہ نہیں ہے۔ لہذا جو طبقات یہ کہہ رہے کہ عدالت نے جنگ بندی کا حکم کیوں نہیں دیا ہے وہ عدالت کی صحیح صورتحال کو سمجھ نہیں پائے ہیں۔۔۔

عالمی عدالت سے ملنے والی سبکی اور ہزیمت اسرائیل کیلئے بالکل اسی طرح ہے جس طرح اس کے بھیانک مظالم کے مقابلہ میں حماس کی طرف سے دیا جانے والا سخت جواب ہے۔ اسرائیل اب تک یہی سمجھتا رہا ہے بلکہ عملاً ثابت بھی کرتا رہا ہے کہ اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کرسکتی۔ اقوام متحدہ میں آج تک کوئی قرارداد تک اسرائیل کے خلاف پاس نہیں ہوسکی‘ ایسے میں عالمی عدالت کا اس کے خلاف دائر مقدمہ کو تسلیم کرلینا اور یہ کہنا کہ بادی النظر میں جنوبی افریقہ کی اپیل درست معلوم ہوتی ہے ‘ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیل کی تخلیق جن شیطانی باقیات سے ہوئی ہے ان کی سرشت میں راہ راست پر آنا ہے ہی نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیل اپنے دفاع کے حق کا بہانہ بناکر عالمی عدالت کے فیصلہ پر عمل آوری سے روگردانی کرے گا۔ لیکن عالمی عدالت میں اس کی جو ذلت آمیز سبکی ہوئی ہے وہ تاریخی اور بے مثال ہے۔ فلسطین کے معتبر تجزیہ نگارمصطفی برغوثی کاخیال ہے کہ "جو کچھ فیصلہ آیا ہے وہ کم نہیں ہے‘ یہ بے نظیر فیصلہ ہے‘ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اسرائیل سے وہ استثنی اور تحفظ چھین لیا گیا ہے جو اسے 75 سال سے حاصل تھا‘ اسی طرح کئی دہائیوں سے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں مغربی ممالک اور امریکہ کو جو استثنی اور تحفظ حاصل تھا وہ بھی ختم ہوگیا‘ خودعالمی عدالت کے عبوری حکم میں بیان کردہ تمام نکات اسرائیل کے جرائم کو بے نقاب اور ثابت کرتے ہیں۔‘‘

عالمی عدالت کے اس فیصلہ نے مسلم اور عرب دنیا کو بھی آئینہ دکھا دیا ہے۔جنوبی افریقہ نے اس سلسلہ میں مسلم اور عرب دنیا پر سبقت حاصل کرلی ہے۔ 100سے زیادہ اسرائیلی شہریوں کو حماس کے قبضہ سے آزاد کراکر عالمی سطح پر جس طرح قطر نے ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا تھا اسی طرح عالمی عدالت میں اپیل دائر کرکے اور اسرائیل کے خلاف عبوری حکم حاصل کرکے جنوبی افریقہ نے بھی عالمی پلیٹ فارم پر ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا ہے۔۔۔ اس پورے قضیہ کا بس یہی ایک نکتہ افسوس ناک ہے۔۔

لیکن اب بھی ایک موقع باقی ہے۔ شرپسند نتن یاہو کے ہاتھ روکنے کیلئے اب بھی مسلم دنیا اور خاص طور پر مضبوط عرب ممالک ایک کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ اگر حماس کو پسند نہیں کرتے تو اس سے نپٹنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ فی الحال تو مظلوم فلسطینیوں کو بچانے کا سوال سب سے اہم ہے۔۔۔۔۔

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Wadood Sajid posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Wadood Sajid:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share