Nauman Khan

Nauman Khan Let's talk about social issues, common man, gentry, sports, religion, sanctions, freedom, motivation

رویےجو اقرار محبت کر لے، وہ ٹھرکی ہوتا ہے۔ جو پسند کی شادی رچا لے، وہ آزاد خیال۔ جو لڑکیاں ڈوپٹہ نہیں لیتیں، یہ انکا ذات...
12/03/2022

رویے

جو اقرار محبت کر لے، وہ ٹھرکی ہوتا ہے۔ جو پسند کی شادی رچا لے، وہ آزاد خیال۔ جو لڑکیاں ڈوپٹہ نہیں لیتیں، یہ انکا ذاتی فیصلہ ہے، جو نقاب پوش ہیں، وہ دقیانوس۔ لڑکی نوکری کر رہی ہے، ضرور خراب ہی ہوگی۔ یہ اس کے جوتے کتنے گندے ہیں، ظاہر ہے، اس بات کا تو امکان ہے ہی نہیں نا کہ یہ سول انجینئر بھی ہوسکتا ہے اور جوتے اس لیے گرد میں اٹے پڑے ہیں۔ یہ لڑکا ہمارے قریب بیٹھ گیا ہے، پکا تاڑو ہے۔ یہ کالا، وہ موٹی، یہ چھوٹا، وہ پھینا، یہ فلیٹ، وہ کھسرا لگتا ہے، یہ خراب لگتی ہے۔ بھائی اور کیا کیا لگتا ہے ہمیں؟
ہاتھ پکڑے میاں بیوی چھچورے لگتے ہیں؟
شلوار ٹخنوں سے اونچی رکھنے والا روایتی، بھلے سے پیشے کا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہو۔
ہونڈا سوک چلانے والے کو ابو بنا لینگے، اگرچیکہ وہ خود ابو کی گاڑی چلا رہا ہو۔
قطار میں چپکے سے گھس جاینگے، جانتے بوجھتے کہ فلاں صاحب پہلے آئے تھے۔
سارا دن سوشل میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں، اور آرمی کا جوان دوست بن جائے تو سیلفیاں۔
سیاستدانوں کو چور، کرپٹ، حرام خور، کمینے کہنے کی گردانیں پڑھتے ہیں، اور جب کوئی مشہور آدمی مل جائے تو اسکے ساتھ تصویر لگانے کی کمینگی بھی کرتے ہیں۔
اداکاراؤں کو گندے گندے القاب سے ملقب کرکے، سڑک پر دکھ جائیں تو حتیٰ الوسع فالو کرتے ہیں۔
مہنگے سوٹ زیب تن کیے، سالگرہ کے فنکشن میں میڈم اور میم۔ آنٹی، ہم جانتے ہیں، سفایر کی سیل میں قطار میں آپکا ایک سو دسواں نمبر تھا۔ اگر ادھر آپکی انا نے جوش نہیں مارا، تو ادھر بھی شو نا ماریں۔
نئے جوڑے سے خوشخبری کا پوچھنا بند کردیں۔ جوانوں سے تنخواہ کا پوچھنا بند کردیں۔ لڑکیوں کی عمر کی ٹوہ نا رکھیں۔ ذاتی سوال مت پوچھیں۔ دین کی دعوت دیں، نماز کی تلقین ضرور کریں، لیکن فتوے نا جھاڑیں۔ ایم ایم عالم روڈ سے پانچ ہزار کا کھانا کھا کر، بیرے اور گارڈ کو بھی سو سو روپے دے دیا کریں، ہم نے کچھ افراد کو یوں کرتے دیکھا، یقین جانیے موت واقع نہیں ہوئی۔
ایک بات کہوں؟ آپ بیٹیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں؟ چلیں آپکا نظریہ سہی، پھر آپ اپنی بیٹی کے لیے خاتون استانی کیوں تلاشتے ہیں؟ اپنی بیگم کے امید کے ایام میں، فی میل گاینوکولوجسٹ آپکی ترجیح کیوں ہے؟
بابا، بات یہ ہے کہ، یا آپ سادھو بن جائیے یا فنکار، عامر لیاقت والا سین نہیں چلے گا۔ یہ بھاشن میں آپکو یا آپ مجھے نہیں دے رہے۔ ہم دونوں کو بٹھا کر، ہمارا ضمیر ناصح ہے۔ یہ ہمارے معاشرتی رویے ہیں۔ مل کر کیمپین چلاتے ہیں۔ انہیں رفتہ رفتہ درست کرتے ہیں۔ مولا خوش رکھے! جج نہیں کرنا!

کہانیاں از قلم ابو عیسیٰ

میم میٹیریلایام رفتہ میں سیاسی درجہ حرارت خاصہ گرمی مائل ہے۔ حکومت کا آخری سال ہے تو ظاہر ہے تمام سیاسی قوتیں متحرک ہیں۔...
11/03/2022

میم میٹیریل

ایام رفتہ میں سیاسی درجہ حرارت خاصہ گرمی مائل ہے۔ حکومت کا آخری سال ہے تو ظاہر ہے تمام سیاسی قوتیں متحرک ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں حکومت کی کارکردگی ترقی مائل ہو کہ تنزلی، ایک بات تو طے ہے کہ بحیثیت مجموعی ہماری اخلاقی اقدار برق رفتاری سے گراوٹ کا شکار ہیں۔ ہم پہلے برے تھے، اب یہ ہوا ہے کہ بہت برے ہوگئے ہیں۔ بلاول صاحب کی زبان تو کیا پھسلی ہوگی، جو ہم بحیثیت قوم پہسلے ہیں۔ کسی پر علمی، عملی، اصلی، نسلی، میرٹ پر نقد کرنے کی اہلیت تو رکھتے نہیں۔ تو آسان حل یہ ہوتا ہے کہ کسی کو کھسرا کہہ لیتے ہیں اور کسی کو ڈیزل۔ جی یہاں زبان نہیں، آپکے وزیراعظم کی تکریم پھسلی ہے۔ مولانا نے بھی یہودی ایجنٹ کا خطاب عطا کیا ہے۔

چلیے یہ تو ہوگئے سیاسی لوگ۔ اصل مرثیہ تو قوم کے جوانوں پر ہے۔
~ ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے
اب جسکو دیکھیں وہی کانپیں ٹانگ رہی ہیں پر سٹیٹس ڈالنا فرض عین سمجھتا ہے۔ چلو اگر براہ مزاح بھی ہوتا تو کم برائی تھی۔ ہماری اصل بدصورتی یہ ہے کہ ایسے سٹیٹس کے ساتھ لازماً یہ کیپشن بھی ہوتی ہے کہ " یہ کرینگے قوم کی رہنمائی "۔ یعنی واہ بھئی، کیا خوب معیار رکھا ہے۔ ہم شکر بجا لاتے ہیں کہ یہ مہربان دوست جناح صاحب کی تقریروں میں نہیں تھے، ورنہ قائد " میم میٹیریل " بن جاتے۔ سنا ہے ان کی اردو کمزور اور عزم پختہ تھا۔

آپ ہمیں کوئی مبلغ نہ سمجھیں۔ ہمارا چہرہ بھی اس بدنما داغ سے معیوب ہے۔ لیکن اب پشیمانی ہے۔ کیا اس بھانڈ پن کا کوئی مؤثر نتیجہ نکل سکتا ہے؟ کیا اس سب سے بہتر نہیں کہ میرٹ پر سیاسی مخالفین کو بھی پرکھا جائے؟ اور اسالیب اختلاف عمدہ ہوں۔ یار ابھی چند روز قبل جناب احمد جاوید صاحب نے غامدی صاحب کے افکار پر نقد کی ہے۔ بس بیس منٹ نکال کر وہ سن لیں، میری طرح شاید آپ کو بھی افاقہ ہو۔ مولا شفا دینے والا ہے۔ جو بیت گیا اسے جانے دیں۔ اب سے ہم دونوں مل کر عہد نو کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں، ارادہ باندھتے ہیں، اور بھیڑ چال سے الگ راہ اختیار کرتے ہیں۔ بھائی جنید نے کیا خوب کہا تھا۔
~ ہم کیوں چلیں، اس راہ پر، جس راہ پر، سب ہی چلیں!

تحریر پڑھ کر ممکن ہے غصہ آجاے، پیشگی معافی کا خواستگار۔

کہانیاں از قلم ابو عیسیٰ

دبئی کہانیدو برس قبل عالم رنگ و بو پر ایک ایسا جرثومہ مسلط ہوا کہ اس نے نئے آئین جہاں داری وضع کر دیے۔ داناے سائنس نے اس...
09/02/2022

دبئی کہانی

دو برس قبل عالم رنگ و بو پر ایک ایسا جرثومہ مسلط ہوا کہ اس نے نئے آئین جہاں داری وضع کر دیے۔ داناے سائنس نے اسکا نام کورونا وائرس رکھا۔ اس وبا نے جہاں تمام شعبہ ہائے حیات کو متاثر کیا، وہیں اس نے سفر کی مشکلات میں بھی مزید اضافہ کر دیا۔ بہرحال، رندوں کو کب تک جام سے دور رکھا جاسکتا ہے؟ طویل انتظار کے بعد ہم نے بھی رخت سفر باندھا اور اب کے منزل ٹہری صحرائے عرب کی وہ سرزمین جو جدید دنیا میں دبئی کے نام سے موسوم ہے۔

اب سے پچاس برس قبل جس سرزمین پر محض ریت چمکتی تھی، آ ج وہاں دنیا کے مہنگے ترین زیورات کی چمک دمک ہے۔
جو میدان اونٹوں کی آماجگاہ ہوا کرتے تھے، آ ج آ ڈی، فراری، مرسیڈیز، مرک، جی ایم سی، فورڈ، اور بی ایم ڈبلیو جیسی فراٹے مارتی عالیشان گاڑیاں چارکول سے بنی سڑکوں پر دیکھنے والوں کو محو حیرت کر دیتی ہیں۔
جن چٹیل میدانوں میں چند اونچے نیچے پہاڑی ٹیلے سورج کی تپش سے سیاہ پڑ جاتے تھے، آج وہاں برج خلیفہ، برج العرب، اور سینکڑوں فلک شگاف عمارتیں فن تعمیر کا اوج کمال پیش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
ارض عرب کے جس حصے کا شمار دنیا کے نقشے پر محض چند نکتوں کی سیاہی سے زائد نا تھا، آج چہار سو عالم کے کھانے، ثقافتیں، نمایندگی، لباس، اور افراد وہاں سال کے تین سو پینسٹھ دن موجود ہوتے ہیں گویا عالمی میلا ہو۔
دبئی اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہے۔ اس شہر سے آپ جو مانگیں گے یہ آپکے سامنے رکھ دیگا۔ یہ شہر پانچ درہم سے پانچ سو درہم تک کے کھانوں سے آپکو شکم سیر کرسکتا ہے۔ آپنے دور دراز سفر کرنا ہے تو چند سکوں کے عوض روشنی کی رفتار پر بھاگتی میٹرو بس پر سوار ہو جائیں، اور چاہیں تو لکثری گاڑی پر ہزاروں درہم گل کر دیں۔ اس شہر نے ہمیں سیون سٹار ہوٹل بھی دکھائے اور اسی میں ایک کمرے میں جانوروں کی سی زندگی بسر کرتے درجنوں مزدور بھی ان آنکھوں کے مشاہدے میں آئے۔ انسان کی مالی استعداد مستحکم ہو یا تہی دست۔ فطرتاً اسکے کچھ جسمانی تقاضے ہوتے ہیں۔ ان تقاضوں کی تکمیل کے بھرپور ذرائع بھی یہ شہر مہیا کرتا ہے۔ عیال سے دور اہل ثروت ہوں یا مزدور طبقہ، جسمانی بھوک مٹانے کو جگہ جگہ زمین پر بکھرے کال گرلز کے رابطہ کارڈز فروا ملتے ہیں۔
بہرحال شہر کے طول و عرض میں پھیلی مساجد اور انکے چمکتے مینارے اسکے اسلامی پس منظر پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔
سمندر اور صحرا قدرت کے دو ایسے نمونے ہیں جو مذہب بیزار اذہان کو بھی وجود خدا کا اقرار کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ انکی وسعت دیکھ کر انسان کو اپنا وجود نہایت معمولی معلوم ہوتا ہے۔ بقول غالب؛

~ صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں

دونوں میں قدر مشترک ریت کا ایک ذرہ اور پانی کا ایک قطرہ ہیں کہ ان سے عیاں ہے کہ کائنات کی ہر بڑی شے کھربوں چھوٹی اشیاء کا مجموعہ ہے۔ یہ شہر آپ پر فطرت کے ان دونوں کمالات کو بھی آشکار کرتا ہے۔
یہاں کا سیاسی نظام خاندانی ملوکیت ہے اور قدرتی وسائل میں سے تیل یہاں فروا ہے۔ ماہرین کے مطابق دبئی میں قدرتی تیل کے ذخائر 2029 تک سمٹ جائیں گے اور اسی پیشینگوئی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں کی ریاست نے خود کو دنیا کے لیے ایک مالیاتی مرکز کی حیثیت سے ڈھال لیا ہے۔ دبئی انٹرنیٹ سٹی میں آپ کو مائیکروسافٹ، آ ی بی ایم، اوریکل، کریم، اور نون وغیرہ کے دفاتر مل جائیں گے۔ کرہ ارض پر موجود ہر بیش قیمت برانڈ اس شہر میں کاروبار رکھتا ہے۔ پراڈا، گوچی، لوی وطان، گیس، جمی چو الغرض جتنے مہنگے نام آپکے حافظے میں ہوں زبان پر لے آئیں۔
اسی سلسلے کی کڑی دبئی ایکسپو بھی ہے۔ یہ دنیا کے سب سے وسیع شاپنگ مال دبئی مال سے چار گناہ وسیع عراضی پر مشتمل ایسا میلا ہے جہاں تمام عالم کے ممالک اپنی نمایندگی کرتے ہیں۔ ہمیں ادھر جاکر احساس ہوا کہ شام، عراق، الجزائر، اور لبنان جیسے تاریخی ممالک بھی اپنے اعلیٰ ترین مذہبی و تاریخی ورثے کی نمائندگی کے بجائے اپنے سیکولر تشخص کو آویزاں کرنے میں کوشاں ہیں۔ یوں تو بالعموم پاکستان کے ساتھ منفی اشیاء ہی متصل ہوتی ہیں، لیکن دبئی ایکسپو میں موجود پاکستان پیوہلین نے دل باغ باغ کردیا۔ پاکستان کی ثقافت، مذہبی و تاریخی پس منظر، ہم آہنگی و ورثہ، قدیم تہذیبوں کے آثار، قدرتی کرشمے و فلگ گیر پہاڑی چوٹیاں، جنگلی حیات، اور نظام تعلیم کے موضوعات پر بیشتر ڈاکومنٹریز دیکھنے کو ملیں۔ ہمارے عمدہ ترین کھانوں اور مہمان نوازی کی ایک جھلک پاکستان پیوہلین میں موجود ریسٹورنٹ نے پیش کی۔
ترکی کے پیوہلین نے خاصہ مایوس کیا۔ سپین پیوہلین داخل ہوئے تو علامہ کے وہ اشعار دل و دماغ کے دریچوں میں گونجنے لگے؛

ہسپانیہ تو خون مسلمان کا امین ہے
مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں

طوالت کی غرض سے بہت سے تجربات اسیر قلم نہ کر سکا۔ لکھنے کا مقصد قارئین کی حوصلہ افزائی ہے کہ زندگی جب موقع دے "سیرو فی الارض" کے تحت سفر کیجیے۔ خدا کی زمین بہت وسیع اور طرح طرح کے رنگ رکھتی ہے۔

کہانیاں از قلم ابو عیسیٰ

04/01/2022

گیلانی صاحب

کم عمری میں ہمیں مناظرے کرنے کا شوق تھا۔ جب ہم طفل مکتب تھے، تب سے ہی تقریریں کر لیا کرتے تھے۔ دو چار کتابیں پڑھ لیں۔ رہی کسر پوری ہوگئی نو عمری کی خود کفیلی سے۔ ہر ماہ کچھ کتابیں خرید لیتے۔ دو ڈھائی برس میں ایک دبیز ڈھیری لگ گئی۔ اب تکلم، حاشیے لگی کتب، چڑھتی جوانی، اور علم کا زعم، یہ تمام بتان آزری مجتمع تھے ہمیں برباد کرنے کو۔ سو مناظرے کرنے لگے۔

ایک صنم اور تھا۔ پتھر کا نہیں، کبر کا۔ جہاں کسی کی نظریاتی بحث ہوتی، ہمیں مدعو کر لیا جاتا۔ یہ مباحثے سماج میں ہماری مقبولیت عامہ کا سبب بن رہے تھے۔ تکبر کے جانور کو خوب خوراک میسر تھی۔ اکثر فتح ہمارے ہی حصے میں آتی۔ نا بھی آتی، تو ساتھیوں کی نصرت سے کھپ ڈال دیتے۔ یوں فتح و نصرت بھی جمع ہو جاتے۔

ان دنوں اکثر مناظروں میں پہلے مناظرہ ہوتا تھا، کہ مناظرہ کرنا کس پر ہے۔ شرائط مناظرہ طے کرنا، اپنی پسندیدگی کے موضوع کا انتخاب کروانا، پہلی اور آخری ٹرم اپنے لیے مختص کروانا، یہ وہ معاملات تھے جو قبل از گفتگو ہی فریق پر اپکو ذہنی سبقت دلوا دیتے تھے۔ آپ سہولت کے لیے کہہ لیں گویا کرکٹ میں ہوم گراؤنڈ ایڈوانٹیج اور ٹاس جیتنا وغیرہ۔

ایک مرتبہ گفتگو بہت طویل ہوگئی۔ کسی باریک نکتے پر ہم نے مخالف پارٹی کو الجھا لیا۔ موضوع غالباً گستاخانہ عبارتوں کو بنایا گیا تھا۔ ایک دوسرے پر بے ادب ہونے کے نشتر تواتر سے چلاے جا رہے تھے۔ گیلانی صاحب بھی اس گفتگو میں ہماری ٹیم کا حصہ تھے۔ مزاج کے گرم اور طویل قامت۔ جب کسی صورت فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا، گیلانی صاحب نے بارہا تفہیم کی راہ پیش کی، لیکن جذبات کی اس رو میں انکی تجاویز خس و خاشاک کی مانند بہتی چلی گئیں۔ کہتے ہیں ہر شے کا نقطہ ابال ہوتا ہے، گیلانی صاحب ابلنے لگے۔ وہ یکدم نشست سے اٹھے، اور فرمانے لگے۔ میں تیری پین ۔۔۔ میی تیری ۔۔۔ او کسی ۔۔۔ دیا ۔۔۔ اور تو اور، ہاتھ بڑھا کر فریق مخالف کا گریبان اپنے دست قدرت میں کر لیا۔ بڑی مشکل سے بیچارے آبرو ریزی کے اس گرداب سے نکلے،
اور آیندہ نا آنے کا عزم مصمم کرتے ہوئے چل دیئے۔ اس روز ایک فیصلہ ہم نے بھی کر لیا، کہ آیندہ تفریق کے اس کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے! دراصل جذبات کے اس کھیل میں، اصلاح کا مطلوب مقصد، کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایسے میں ہم سب میں ایک گیلانی صاحب بستے ہیں، کبھی انکا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، اور کبھی وہ نقطہ ابال کو پا لیتے ہیں۔

شاید آپ کو خیال گزرے، کہ ابو عیسیٰ کی اس کہانی کا سبق آموز پہلو کیا ہے؟ ہم سے دریافت کریں گے تو شاید جواب ہوگا ندارد! تسلسل سے جذباتیت پر مرکوز حکایت گوئی جاری ہے، سوچا کیوں کر نا آج حیوان ظریف کو تکلیف دیں۔ دل و دماغ کے دریچے کھلے ہوں تو اس مزاح میں بھی اسباق کے پہلوؤں کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ قاریین اپنے تئیں نتائج اخذ کرنے کے مجاز ہیں۔

کہانیاں از قلم ابو عیسیٰ

نیا سالجنوری کا جاڑا تھا۔ لاہور ایم ایم عالم روڈ پر موجود ایک چاے کیفے کی چھت پر آج حلقہ یاراں سجا تھا۔ موضوع کا عنوان س...
03/01/2022

نیا سال

جنوری کا جاڑا تھا۔ لاہور ایم ایم عالم روڈ پر موجود ایک چاے کیفے کی چھت پر آج حلقہ یاراں سجا تھا۔ موضوع کا عنوان سال نو کے عزائم تھے۔ انتہائی متاثر کن ارادوں کا اعادہ کیا جا رہا تھا۔ سلگتی لکڑیوں کا دائرہ ٹھنڈ ماحول میں بھی ضروری تپش مہیا کر رہا تھا، اور یہ ضروری تھا کہ بحث میں بھی گرمی تھی۔ نئی گاڑی، بہتر نوکری، منافع بخش کاروبار، پلاٹ کی قسطیں، بیرونی سفر، الغرض بہتر سے بہتر کی تمنا و تلاش تھی۔ پر میرا تجسس کسی اور کا متلاشی تھا۔ اور وہ تھی شکر گزاری!

بعد از بلوغت جن تمام شہوات کی آرزو کی جاسکتی ہے، وہ تمام کسی نہ کسی صورت میں اس دائرے کا احاطہ کیے ہوئے نوجوانوں کو میسر تھیں۔ پر شاید ہی ان گنہگار کانوں تک اس مضمون کی چند سطریں بھی پہنچی ہوں کہ ہمیں اس گھڑی جن آسائشوں کی فراوانی ہے، کسی کا تا زیست تمام وہ خواب ہی رہا ہوگا۔ اکثریت کا تو یہ عالم ہے کہ ان کے والدین ہی ان سب خواہشات کی حسرت دل میں لیے گل و گلزار ہو گئے۔

یہ واضح کر دینا نہایت اہم ہے کہ میرا نکتہ ہر گز بہتری کی نفی نہیں۔ آپ زندگی کی دوڑ میں جس رفتار سے بھاگنا چاہیں آپ کی صوابدید ہے۔ لیکن موجودہ حالت پر سکون قلب کا عدم وجود۔ اچھی سواری، خوراک، خوش پوشاک، دوا دارو کی فکر سے آزاد، ہو کر بھی کسی کا طرز حیات اگر آپ میں مقابلے، حسد، اور آگے نکل جانے کا جذبہ متحرک کرتا ہے تو یقین مانیے کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔

یہ جنریشن انسانی ترقی کا اوج کمال دیکھ رہی ہے۔ جس وقت میں ہم جی رہے ہیں یہ وسائل اور آسائش کے بہتات کا دور ہے۔ ایک ہی شہر میں چائنیز، پاکستانی، ہندوستانی، امریکی، عربی، اتالوی، ترکی، الغرض ہر قوم کے کھانے ہماری زبان کے چسکے پورے کرنے کو میسر ہیں۔
دسمبر کے جاڑے میں بھی گرم سواری، دفتر، اور گھر کی چار دیواری، موسم کی شدت سے بے خبر رکھتیں ہیں۔
چند گھنٹوں یا چلیے دو چار ایام میں اطراف عالم گھوم کر اپنی دولت کدہ کے درو دیوار میں عود کر آتے ہیں۔
محاوراتی اسلوب میں نہیں، در حقیقت سات سمندر پار اپنے عیال، اقربا اور چاہنے والوں کو دیکھ سکتے ہیں، بات کر سکتے ہیں۔
طب اور معالجے میں اس درجہ جدت ہے کہ حساس اور پیچیدہ ترین علاج کروا کر قریب المرگ انسانوں کو گویا حیات ثانیہ مل جاتی ہے۔
برقی آلات، جدید نظام تعلیم، بے موسم بھی فروا پھل اور ترکاریاں، برق رفتار ہوا کے گھوڑے پر سوار، سواریاں۔ تفریح کے وہ مواقع کہ بنو امیہ و عباس کے بادشاہ دیکھ لیں تو مارے حسرت و غم گریہ کرنے لگیں۔

نیے سال کا آغاز ہے، اس سال میرے کہنے سے وہ شعر نا پڑھیں کہ اے نیے سال تجھ میں نیا کیا ہے ۔۔۔ کچھ خلوت و تنہائی میں تپسیا کیجیے، اس سال کچھ نیا کیجیے۔ دماغ کے خلیوں کو تحریک دیے کر سوچیں ان نعمتوں کو جو آپ کو میسر ہیں۔ پھر ان پر شکر گزاری کیجیے۔ شکر کی ایک صورت زبانی اور ایک صورت اپنی نعمتیں بانٹ کر دوسروں کو ان میں عملاً شامل کرنا ہے۔ اس تعمل کے بعد دل کھول کر سال نو میں ترقی کے عزائم بنائیں۔

اگر یہ تحریر، تحریک پیدا کرنے میں معاون ہوسکتی ہے تو دوسروں کو بھی یہ کہانی سنائی جا سکتی ہے۔

کہانیاں از قلم ابو عیسیٰ

30/12/2021

ڈاکٹر قصاب بن گئے

آوازیں اس قدر بلند تھیں گویا بلوا ہو۔ اکبر یہ کیسا شور ہے؟ اکبر؟ ڈاکٹر فوزیہ اکبر پر چلا رہی تھیں لیکن اکبر تھا نا جواب۔ شور و غل اور دشنام طرازی کے بیچ چند گولیوں کی بھی آواز سنائی دی تھی۔ فوزیہ نے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے کمرے کی چٹخنی لگا کر تمام روشنی گل کر دی کہ کسی کی موجودگی کا احساس نہ ہو سکے۔ اب وہ منتظر تھی کہ اکبر آکر صورت حال سے آگاہ کرے یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نمائندگی ہو تو وہ معاملے کی جانچ پڑتال کر سکے۔ اس دوران فوزیہ کا فون مسلسل بج رہا تھا۔ اس نے فون دیکھا تو گھر سے متعدد کالز اور میسیجز موصول ہو رہے تھے۔ یہ کالز فوزیہ کی بہن مریم کر رہی تھی۔ نا فون تھم رہا تھا نہ مردوں کی بلند ہوتی گالیاں اور شور۔ کہاں غائب ہو؟ گھنٹوں سے رابطے کی کوشش کر رہی ہوں اور ایک تم ہو حواس باختہ۔ مریم ادھر کچھ ایمرجنسی ہے میں تمہیں بعد میں بتاتی ہوں فالحال دعا کرو سب ٹھیک رہے۔ اللہ خیر کرے مجھے بس تمہاری حسن سے بات کروانی تھی۔ بہت دیر ماما ماما کہہ کر روتا ہوا سو گیا ہے۔ صبح سے بخار میں تپ رہا ہے۔ کوشش کرکے آ ج جلدی آجانا۔ اچانک شیشے کا دروازہ زور سے کھٹکا۔ میڈم فوزیہ، ڈاکٹر صاحبہ؟ ایک منٹ رکو اکبر۔ میڈم کافی سارے ایم ایل سی آ ے ہیں۔ کافی سارے؟ جی میڈم دو گروپوں میں جھگڑا ہوگیا ہے۔ کافی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ یہاں ہیلتھ سنٹر آکر پھر گتھم گتھا ہو گئے۔ لڑائی کی وجہ کیا ہے؟ کتنے لوگ ہیں؟ پولیس آ گئی ہے؟ پولیس بس پہنچ رہی ہے۔ وہ چلا رہے ہیں آن ڈیوٹی ڈاکٹر کدھر ہے؟ پہلے ہمیں ملاحظہ بنانا ہے۔ اس مکالمے کے دوران فوزیہ کا فون پھر سے بجنے لگا۔

یہ کال سینئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر احمد کی تھی۔ میڈم آپ کدھر ہیں؟ سینٹر میں ایمرجنسی کی صورت حال ہے۔ دونوں گروپوں کی سیاسی وابستگی ہے اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر سے مسلسل اصرار ہے کہ کوئی ڈاکٹر موقع پر معاملے کو دیکھے۔ لیکن ڈاکٹر احمد آپے سے باہر درجنوں مردوں کا ہجوم ہے۔ پولیس اب تک نہیں پہنچی اور سینٹر میں تو ویسے ہی کوئی سیکیورٹی کا بندوست نہیں۔ ایسے میں میرا باہر جانا حماقت ہے۔ میں نہیں جانتا ڈاکٹر فوزیہ، پولیس آجاتی ہے، کچھ بھی ہے ابھی اپکو ہی معاملہ دیکھنا ہے۔ کوئی میل ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔ لیکن سر، لیکن یہ کہ آپ پھر خود ڈی ایم صاحب کو کہہ دیں، فوزیہ کی بات کاٹتے ہوئے احمد نے فون رکھ دیا۔

اس دوران پولیس کی کچھ نفری پہنچ گئی، دونوں گروپوں کو علیحدہ کیا، ڈاکٹر فوزیہ نے دو گھنٹے ملاحظے تیار کیے۔ درجنوں مردوں میں وہ باہمت لڑکی سخت لحجے میں ضروری سوالات کرتی رہی۔ معاملہ تھم گیا۔ رات نو بجے فوزیہ کے بابا اسے لینے سینٹر پہنچے۔ گاڑی اتنی دور ہی چلی تھی کہ سینٹر انکی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا۔ فوزیہ کی نگاہوں سے بارش برسنے لگی۔ آپ نے مجھے ڈاکٹر کیوں بنایا تھا باباجی؟ یہ اندھیر نگری ہے۔ ہمارے پاس نہ سفارش ہے کہ شہر میں اپنی سپیشلایزیشن شروع کر سکوں، نہ شہر سے دور ان سینٹرز میں سیکورٹی کا بندو بست نہ عزت۔ کبھی ڈی ایم، کبھی کوئی سولویں گریڈ کا ملازم، تو کبھی جنگلیوں کی طرح لڑتے ان گروپوں کے رحم و کرم پر ہم بیٹھے ہیں۔ مہذب دنیا میں تو اپنے طبیب کو مسیحا کا درجہ ملتا ہے۔ ہم یہاں سولہ اٹھارہ گھنٹے ڈیوٹی کر کہ بھی عزت کے مستحق کیوں نہیں ہیں؟ کیوں آپکے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں بھی شہر کے کسی بڑے ہسپتال میں اپنا کیریئر شروع کر سکوں؟
پاک فوج کو بھی سلام، کھلاڑی بھی قومی شناخت ہیں، اور اداکار فنکار قومی ایوارڈز کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر قوم کے ہیرو کیوں نہیں ہیں باباجی؟
ان تمام باتوں کا فوزیہ کے بابا کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ویسے ہی جیسے میرے آپکے پاس نہیں ہے۔ گاڑی رواں دواں تھی، ریڈیو پر سرخی چل رہی تھی، ایک صحافی رپورٹ کر رہا تھا، انسانیت کے مسیحا ڈاکٹر قصاب بن گئے، شیخوپورہ کے علاقے ۔۔۔ فوزیہ کے بابا نے ہاتھ بڑھا کر ریڈیو بند کر دیا!

کہانیاں از قلم ابو عیسیٰ

21/12/2021

یہ خاکی اپنی فطرت میں

انسان کی زندگی میں اکثر ایسے لوگ آتے ہیں جو عمر بھر کے لیے اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ میری زندگی میں بھی احمد بھائی کا وہی مقام تھا۔ درمیانہ قد، گندمی رنگ، دھیما لہجہ، نفیس شخصیت کے مالک اور مذہبی رجحان رکھتے تھے۔ لاہور اچھرہ بازار کے قریب شمع چوک پر مقیم تھے۔ میری خوش بختی کہ دفتر کے راستے میں ان کو ساتھ لینے کی غرض سے ان کے دولت کدہ پر رکتا۔

تمام سفر احمد بھائی سے تصوف و طریقت، فقہ و کلام، اور بزرگانِ دین کی خدمات سننے، سیکھنے، اور سمجھنے کا موقع ملتا۔ ایک روز عطاء اللہ شاہ بخاری رح کی عہد ساز شخصیت کا ذکر چھڑ گیا۔ آپ کے متعلق مشہور تھا کہ گھنٹوں تقریر کرتے اور سامعین حالت وجد میں آجاتے۔ تقریر و تکلم کے بے تاج بادشاہ تھے۔ ایک عوامی جلسے سے خطاب کے بعد میزبان کے ہاں کھانے کا دسترخوان سجا۔ شاہ جی نیاز مندوں، مریدوں، اور تلامذہ کے جھرمٹ میں بیٹھے تھے۔ کیواڑ سے باہر نظر پڑی تو ایک بھنگی صفائی میں مصروف تھا۔ شاہ جی نے اسے بلایا اور کھانے کی دعوت دی۔ بھنگی کے لیے گویا یہ قیامت صغریٰ تھی۔ لڑکھڑاتی آواز میں بولا حضور آپ ہزاروں لاکھوں کے پیر اور کہاں میں بھنگی۔ بھنگی ہو تو کیا، میاں بھوک تو لگتی ہوگی، کھانا تو کھاتے ہوگے؟ ہاتھ دھو کر ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ متحدہ برصغیر کا خطیب شعلہ بیان اور ایک بھنگی شریک طعام تھے۔ کچھ وقت گزرا تھا کہ بھنگی اپنے عیال کے ہمراہ آیا اور شاہ جی کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

ایسی درجنوں نصیحت آموز حکایتیں احمد بھائی سے سننے کا موقع ملتا۔ ایک روز صبح آٹھ بجے میں ان کو لینے ان کے گھر پہنچا۔ دیکھتا ہوں کہ جمعدار دروازہ کھلنے کا منتظر ہے۔ احمد بھائی نے دروازہ کھولا۔ وہ معمول سے ہٹ کر وقت تھا اور جمعدار کا لب و لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ کسی حاجت مندی کی فریاد لیے آ یا ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملانا چاہا ہی تھا کہ احمد بھائی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔ منہ بھرا ہوا معلوم ہوتا تھا گویا ناشتہ کر رہے تھے۔ غیب و غضب کی کیفیت میں کچھ بڑ بڑاے اور دروازہ پٹخ کر اندر چلے گئے۔ جمعدار سر جھکائے واپس لوٹ رہا تھا۔ میرے قریب سے گزرا تو چوبیس پچیس برس کا نوجوان آنسو پونچھتا عجیب سا لگ رہا تھا۔

کچھ دیر میں احمد بھائی آ گئے، میں نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ اب ہم معمول کے مطابق دفتر کی جانب رواں دواں تھے۔ سڑک، راستہ، اشارے، بازار، سب وہی تھا، نیا کچھ تھا تو خاموشی۔ میں آج سوال نہیں کر رہا تھا کیوں کہ جس کی گفتار میرے لیے مشعل راہ تھی، آ ج اس کا کردار میرے لیے سوالیہ نشان بن گیا تھا۔ احمد بھائی اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

آ ج میں نے اسکی حقیقت بھی پا لی تھی۔

کہانیاں از قلم ابو عیسیٰ

04/12/2021

خاکم بدہن، یہ آگ ہمارے گھر بھی لپیٹ جاے گی!

اتوار کو جنید کی شادی تھی۔ سب دوست وہی کر رہے تھے جو اس موقع پر لڑکے کرتے ہیں۔ یہ فاروق بھائی سے مشورہ کر لے۔ شریعت کی رو سے سب سمجھا دینگے۔ بلال نے یادگار چوک پر قائم حکیم سلیمان دواخانہ کا بتایا۔ اختر بھائی کا کہنا تھا کہ کیوں کر اتنی مشقت اٹھانی۔ نور کلینک پر سرچ کر لے۔ جنید کھسیانی ہنسی ہنس رہا تھا اور کھانے کی میز بلند قہقہوں سے گونج رہی تھی۔

آ پ ہنی مون پر کہاں گئے تھے؟ جنید نے مجھے مخاطب کیا۔ یار میں شادی کے چھے ماہ بعد ملیشیا اور سری لنکا کے سفر پر گیا تھا۔
یار یہ سری لنکن مینیجر کے ساتھ کیا ہوا ہے دیکھا ہے؟ بلال نے استفسار کرتے ہوئے اپنا موبائل ذرا ترچھا کرکے میز پر موجود لنچ باکس سے ٹکا دیا۔ سب یکدم یوٹیوب ویڈیو دیکھنے میں محو ہوگئے۔ یار آواز فل کر۔ جنید نے کرسی قریب کھسکاتے ہوئے کہا۔
ماحول یکسر تبدیل ہوگیا۔ قہقہے پریشان کن مختصر سوالات سے مبدل ہوگئے۔
یہ کیا بکواس ہے؟ بھائی اتنا پر تشدد احتجاج؟ حجوم کے ہاتھ وہ آیا کیسے؟ یار تھانے لے جاتے حوالہ پولیس کرتے۔ اختر بھائی کے مطابق ریاست اسکی ذمے دار تھی۔ پر بھائی جب تک کوئی انکو روکتا یہ اپنا کام کر چکے ہوتے۔ آگ سے جلانے کی سزا تو ہتک و توہین کا جرم ثابت ہونے پر بھی نہیں دی جاسکتی۔ میں نے خود جمعے میں علامہ صاحب سے سنا تھا۔ یہ جاہل اور کم فہم لوگ۔
کم فہم نہیں بس انکا فہم مختلف ہے۔ فاروق بھائی نے بلال کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ میں نے حیرت سے انکی طرف دیکھا۔ وہ کم گو اور پر وضع شخصیت کے مالک تھے۔
جی۔ مذہبی فہم جو ایام رفتہ میں سامنے آیا ہے۔ ماضی میں نا دیکھا نا سنا۔
خدا جانے یہ تشدد زدگی کی تربیت ماضی میں ہوتی تو کیا ہوتا۔
سر سید اسباب بغاوت ہند لکھ کر کیوں کر نا جلاے جاتے؟ علامہ کو شکوہ کے بعد جواب شکوہ کی نوبت نہ آتی! رومی کونیہ کے بازاروں میں نمن بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم پڑھ کر رقصاں کیسے ہوتے؟
خلافت و ملوکیت کے بعد تو مودودی صاحب بھی بہت سال زندہ رہے۔ اور تو اور، عبیداللہ سندھی فرنگی طرز پر چھری کانٹے سے نا صرف کھاتے رہے۔ بلکہ عوام و خواص کو اس کی ترغیب بھی دیتے رہے۔ ابو الکلام آزاد پر بھی غبار خاطر لکھنے کی پاداش میں سنگ باری نہیں ہوئی۔ ہاں ایک کام ہوا اور بھرپور شر و مد سے ہوا۔ وہ اختلاف ہوا۔ علمی اختلاف۔ کتاب کے جواب میں کتاب۔ اور جواب الجواب لکھے گئے۔ مناظرے مباحثے بھی ہوے۔ پر یہ نہیں ہوا۔ جو کل ہوا۔
یہ فہم کوئی اور ہی فہم ہے۔ یہ تکبیر کے نام پر فتنہ ہے۔ یہ رہبری کے بھیس میں راہزنی ہے۔ یہ اسلام کا روپ اختیار کر کے بہروپ ہے۔
فاروق بھائی کا یہ روپ آ ج ہم پر پہلی بار کھلا تھا۔ پر اشتعال انگیزی کا یہ قومی روپ ہم پر کھلتا جا رہا ہے۔ یہ مزید کھلے گا، اگر اسکی حوصلہ شکنی نا کی گئی، تو خاکم بدہن، یہ آگ ہمارے گھر بھی لپیٹ جاے گی!

کہانیاں از قلم ابو عیسیٰ

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Nauman Khan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Nauman Khan:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share