24/04/2024
موٹروے پولیس اہلکار کو گاڑی تلے روندنے والی خاتون ڈرائیور کو گرفتار کر لیا گیا: راولپنڈی پولیس
22 اپريل 2024
’ہٹو سامنے سے۔۔۔ ہٹو!‘ یہ وہ الفاظ تھے جو ایک نامعلوم خاتون ڈرائیور نے کہے جس کے بعد انھوں نے گاڑی دوڑا دی اس بات سے قطع نظر کہ موٹروے پولیس کا ایک اہلکار ان کی گاڑی کے عین سامنے کھڑا تھا۔
اس واقعے کی ویڈیو رواں ہفتے کے آغاز پر پاکستانی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
چار ماہ سے زیادہ عرصے پرانا یہ واقعہ صوبہ پنجاب کے علاقے نارتھ چکری کا تھا۔ چار ماہ پرانا یہ واقعہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد اب راولپنڈی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے مذکورہ خاتون کو گرفتار کر لیا ہے۔
راولپنڈی پولیس کے ڈی ایس پی کینٹ جاوید اقبال مرزا نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاتون کو اسلام آباد کے نواحی علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے اور ان کا ابتدائی بیان ریکارڈ کر لیا گیا ہے۔
ڈی ایس پی کینٹ کے مطابق ملزمہ کو کل صبح (جمعرات) عدالت میں پیش کیا جائے گا اور عدالت سے ان کے ریمانڈ کی استدعا کی جائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ ملزمہ کے خلاف اقدامِ قتل، کار سرکار میں مداخلت اور غفلت و لاپرواہی سے گاڑی چلا کر پولیس اہلکار کو زخمی کرنے کی دفعات کے تحت مقدمہ پہلے سے درج ہے۔
یاد رہے کہ منگل کے روز راولپنڈی پولیس نے کہا تھا کہ انھوں خاتون کی شناخت کا عمل مکمل کر لیا ہے اور جلد ہی انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔
راولپنڈی میں تھانہ نصیر آباد کے ایس ایچ او محمد ابراہیم کے مطابق ملزمہ جس گاڑی کو چلا رہی تھیں وہ اُن کے نام پر رجسٹرڈ نہیں تھی اور اب اس گاڑی کو بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔
ایکس (سابقہ ٹوئٹر) سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اس پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا کہ واقعے کے چار ماہ بعد تک جس ملزمہ کی شناخت ممکن نہیں ہو پا رہی تھی، اُن کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے 36 گھنٹے کے اندر ان کی گرفتاری کیسے ممکن ہوئی؟
ویڈیو میں کیا تھا؟
حد رفتار سے تیز گاڑی چلانے پر ڈرائیور کو روکنے کے بعد یہ ویڈیو بظاہر موٹروے پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے ہی بنائی گئی تھی۔
اس میں ڈرائیور اور موٹروے پولیس اہلکار کے درمیان تلخ کلامی سنی جا سکتی ہے جس میں خاتون کہتی ہیں کہ ’خبردار جو بکواس کی۔ آپ نے مجھے ’تو‘ کیسے کہا؟ اپنے یونیفارم کا احترام کیا کریں۔‘
اس کے بعد ملزمہ موٹروے اہلکاروں سے کہتی ہیں کہ ’اپنی اکیڈمی میں جائیں اور سیکھیں۔ جاہل کہیں کا۔۔۔‘
اس دوران موٹروے پولیس کا اہلکار انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ ان کی ایک نہیں سنتیں۔
چالان کے وقت کسی کی ویڈیو بنانا حقوق کے خلاف یا احتیاط کے لیے ضروری؟19 جولائی 2021
بی بی سی رپورٹر کی وائرل ویڈیو پر پولیس اہلکار گرفتار5 ستمبر 2019
پھر وہ اپنی گاڑی کے سامنے کھڑے ایک اہلکار کو سامنے سے ہٹنے کا کہتی ہیں، جس پر وہ سر ہلا کر نہیں کا اشارہ کرتا ہے۔
اس پر خاتون ایکسلریٹر پر پیر دبا کر تیزی میں گاڑی چلا دیتی ہیں اور اہلکار اس سے ٹکرا کر ایک طرف گِر جاتا ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موٹروے پولیس کی ایک کار مذکورہ گاڑی کا پیچھا کرتی ہے۔ تاہم وہ انھیں پکڑنے میں ناکام رہی تھی۔
پولیس کے مطابق زخمی ہونے والے اہلکار کو اس کے بعد مقامی ہسپتال میں لے جا کر ان کا علاج کروایا گیا۔
سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔ اکثر صارفین کی رائے ہے کہ اس حرکت پر ڈرائیور کو کڑی سزا دی جانی چاہیے۔
شعیب نامی صارف نے لکھا کہ ’میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ لوگ کچھ سو روپے کے چالان پر لڑتے کیوں ہیں۔ چالان کٹوائیں اور آگے بڑھیں۔ کیا آپ نے محض اس لیے کسی پر گاڑی چڑھا دی تاکہ آپ کچھ سو روپے کے چالان سے بچ سکیں۔‘
سجاد اسلم نامی صارف کہتے ہیں کہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ جب امیر اورغریب کے لیے الگ قانون ہو گا تو ایسے ہی ہو گا۔ قومیں اسی لیے تباہ ہوتی ہیں کہ چھوٹے چوروں کو سزا ہو جاتی ہے اور بڑے مجرموں کو کوئی نہیں پوچھتا۔‘
شاہد امین پوچھتے ہیں کہ ’کیا اس خاتون کے خلاف ایکشن لیا جائے گا یا ان سے بھی معافی مانگی جائے گی؟‘
واقعے پر درج کیا گیا مقدمہ
صحافی محمد زبیر خان کے مطابق یہ واقعہ یکم جنوری 2024 کا ہے جس پر راولپنڈی کے تھانہ نصیر آباد میں 2 جنوری 2024 کو (ریش ڈرائیونگ، کار سرکار میں مداخلت اور اقدام قتل کے الزامات کے تحت ’نامعلوم خاتون‘ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مقدمہ موٹروے پولیس اہلکار محمد صابر کی درخواست پر درج کیا گیا ہے جس میں متن میں لکھا ہے کہ وہ نارتھ چکری میں اپنے ساتھی اہلکار محمد زاہد کے ہمراہ فرائض ادا کر رہے تھے کہ جب ایک گاڑی (ہنڈا سوک) 135 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے آ رہی تھی جبکہ حد رفتار 120 کلومیٹر تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ سپیڈنگ پر گاڑی کو سکواڈ نے روکا مگر نہ رُکی۔ ’نامعلوم خاتون انتہائی غفلت اور لاپرواہی کے ساتھ زگ زیگ کرتے ہوئے چلا رہی تھیں۔‘
موٹروے پولیس نے اس گاڑی کو ٹول پلازے پر روکا تاکہ سپیڈنگ پر چالان کیا جائے۔
مقدمے کے متن میں درج ہے کہ ’اس گاڑی کو ہم نے اپنے ساتھی اہلکاروں کے ہمراہ مرکزی ٹول پلازے پر روکا اور ڈرائیور کو آگاہ کیا کہ وہ تیز رفتاری سے جا رہی ہیں اور ان کے کوائف معلوم کرنا چاہے تو خاتون نے اپنے کوائف نہیں بتائے اور ساتھی اہلکار محمد زاہد کے ساتھ بدتمیزی کرنے کے علاوہ غلیظ الفاظ استعمال کرنا شروع کر دیے تھے۔‘
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ خاتون ’کار سرکار میں مداخلت کرتے ہوئے ٹول پلازے پر لگے بیریئر کو ہٹا کر ٹول پلازے کا ٹیکس ادا کیے بغیر گاڑی کو بھگا کر لے گئیں۔‘
اس کے علاوہ موٹر وے پولیس کے اہلکار کا کہنا ہے کہ نامعلوم خاتون نے ’گاڑی انتہائی تیز رفتاری، غفلت و لاپرواہی سے چلائے ہوئے اور بہ قتل گاڑی مجھ پر چڑھا کر مجھے زخمی کر کے اور کارِ سرکار میں مداخلت کر کے فرار ہو کر اور بوتھ پر لگے بیریئر کو نقصان پہنچا کر ارتکاب جرم بالا کیا ہے۔‘