Use Urdu

Use Urdu Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Use Urdu, Magazine, .

26/07/2024

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
(ڈاکٹر اقبال)

17/07/2024

دوران ، انٹرویو ۔۔
آپ اس جاب کے لئے کتنی سیلری کی توقع رکھتی ہیں ۔۔؟

کم از کم نوے ہزار ۔۔۔ خاتون نے پر اعتماد انداز میں جواب دیا ۔۔

کسی کھیل سے دلچسپی ؟؟؟
باس نے پوچھا ۔۔

جی ہاں ۔۔ شطرنج کھیلتی ہوں ۔۔
آہاں ۔۔چلیں اسی حوالے سے بات کرتے ہیں ۔۔
شطرنج کی کون سی گوٹی آپکو زیادہ پسند ہے ۔۔۔ یا یوں کہہ لیں کہ کس گوٹی سے متاثر ہیں ۔۔۔
خاتون نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔ وزیر ۔۔
زبردست ،لیکن کیوں ؟ جبکہ میرے خیال میں گھوڑے کی چال سب سے منفرد ہے ۔۔ باس نے تجسس سے پوچھا ۔۔

بیشک ۔لیکن میں سمجھتی ہوں کہ وزیر میں وہ تمام خوبیاں شامل ہیں جوسب گوٹیوں میں الگ الگ سے پائی جاتی ہیں ۔ وہ پیادے کی طرح ایک قدم چل کر بادشاہ کو بچا لیتا ہے اور کبھی فيلے کی طرح ترچھا چل پڑتا ہے اور کبھی توپ بن کر بچا لیتا ہے ۔

ویری انٹرسٹڈ۔۔ باس نے متاثرکن انداز میں پوچھا ۔ بادشاہ کے متعلق آپکی کیا رائے ہے۔؟؟

سر ، بادشاہ کو میں سب سے زیادہ کمزور سمجھتی ہوں ،کیوں کہ وہ خود کو بچانے میں صرف ایک قدم چل سکتا ہے جبکہ وزیر اسے چاروں اطراف سے بچا سکتا ہے ۔۔ خاتون کا جواب ۔

نہایت متاثر کن ۔۔ چلیں یہ بتائیے ان تمام گوٹیوں میں سے آپ خود کو کون سی گوٹی تصور کرتی ہیں ۔۔
خاتون نے جھٹ سے جواب دیا ۔۔
بادشاہ ۔۔

لیکن وہ تو آپکے مطابق مجبور ہوتا ہے ،خود کو بچا نہیں پاتا اور وزیر کا مرہون منت ہوتا ہے ۔۔ باس نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔

جی ہاں ،میرے مطابق یہی ہے ۔ میں بادشاہ ہوں اور وزیر میرے شوہر جو میری حفاظت مجھ سے بڑھ کر، کر سکتے ھیں ۔۔۔
ویری نائس ۔ انٹرویو لینے والے نے باقاعدہ ہلکے ہاتھوں تالی بجاتے ہوئے کہا ۔۔
اچھا ایک آخری سوال ، آپ یہ جاب کیوں کرنا چاہتی ہیں ۔ باس نے دلچسب انٹرویو کا
احتتام کرتے ہوئے پوچھا ۔۔
خاتون نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا ۔۔۔

کیوں کہ میرا وزیر اب اس دنیا میں نہیں رہا ۔۔

12/07/2024

نعمان علیم صاحب کی وال سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سردار کی شادی ہوئی۔ شادی کے تین مہینے بعد ہی اسکے ہاں بچہ پیدا ہوگیا۔ سردار پستول لے کر بیوی کے سرہانے کھڑا ہو گیا اور بولا یہ کیا بیغیرتی ہے بولو۔
بیوی بولی جانّو تمہاری شادی کو کتنے مہینے ہوگئے
سردار بولا۔ تین مہینے
بیوی۔ اور میری کو؟
سردار۔ وہ بھی تین
بیوی۔ اور ہماری شادی کو؟
سردار۔ تین
بیوی۔ یہ کل ملا کر کتنے مہینے ہوگئے
سردار بولا نو مہینے
بیوی۔ حساب پورا ہوگیا؟
سردار سر کھجاتے ہوئے۔ ہاں
بیوی۔ چلو پھر پستول پھینک کر منے کو جھولا دو شاباش۔
_________________________________
پچھلی حکومتوں نے تیس ہزار ارب روپے قرضہ لیا ہم نے پانچ ہزار ارب واپس کیا ہے باقی بیالیس ہزار ارب رہ گیا ہے۔
اسد عمر

12/07/2024

‏ایک بندے کو پھانسی لگنے والی تھی۔۔!
‏وقت کے راجا نے کہا کہ،
‏میں تمہاری جان بخش دوں گا،
‏اگر تم میرے ایک سوال کا صحیح جواب بتا دو گے تو۔۔۔۔
‏سوال تھا کہ،
‏*عورت آخر چاہتی کیا ہے۔۔۔۔؟*
‏اس نے کہا کہ،
‏کچھ مہلت ملے، تو یہ پتا کر کے بتا سکتا ہوں۔۔۔۔
‏راجا نے ایک سال کی مہلت دے دی۔۔۔۔

‏وہ بہت گھوما،
‏بہت سے لوگوں سے ملا،
‏مگر کہیں سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔۔۔۔
‏آخر میں کسی نے کہا کہ،‏دور جنگل میں ایک چڑیل رہتی ہے،‏وہ ضرور بتا سکتی ہے تمہارے اس سوال کا جواب۔۔۔۔!
‏وہ اُس چڑیل کے پاس پہنچا اور اپنا سوال اُسے بتایا۔۔۔۔
‏چڑیل نے کہا کہ،‏میں ایک شرط پر بتاؤں ‏گی،‏اگر تم مجھ سے شادی کرو گے تو۔۔۔۔؟
‏اس نے سوچا کہ،
‏صحیح جواب کا پتہ نہ چلا تو،‏جان راجا کے ہاتھوں بھی تو جان جانی ہی ہے،‏اسی لئے شادی کے لئے رضامندی ہی بہتر ہے۔۔۔۔
‏شادی ہونے کے بعد چڑیل نے کہا کہ،
‏چونکہ تم نے میری بات مان لی ہے،
‏تو میں نے تمہیں خوش کرنے کے لئے فیصلہ ‏کیا ہے کہ,‏میں 12 گھنٹے تک چڑیل،‏اور 12 گھنٹے خوبصورت پری بن کے تمہارے ساتھ رہوں گی؛‏اب تم یہ بتاؤ کہ،‏دن میں چڑیل رہوں یا رات کو۔۔۔۔؟
‏اب اُس بیچارے نے سوچا کہ،‏اگر یہ دن میں چڑیل ہوئی تو دن نہیں گزرے گا،‏اور رات میں ہوئی تو رات ڈر ڈر کر گزرے گی۔۔۔۔!
‏آخر میں اُس نے کہا،
‏جب ‏تمہارا دل کرے تو پری بن جانا،
‏اور جب تمہارا دل کرے تو چڑیل بن جانا۔۔۔۔!
‏یہ بات سن کر چڑیل بہت خوش ہوئی،
‏اور اُس نے خوش ہو کر کہا کہ،
‏چونکہ تم نے مجھے اپنی مرضی کی چھوٹ دے دی ہے،‏تو میں ہمیشہ ہی پری بن کے رہا کروں گی۔۔۔!
‏پھر چڑیل نے کہا کہ،
‏راجا کی طرف سے تم سے کیے گئے سوال ‏کا جواب بھی یہی ہے،
‏عورت ہمیشہ اپنی مرضی ہی کرنا چاہتی ہے،
‏اگر عورت کو اپنی مرضی کرنے دو گے،
‏تو وہ پری بن کر رہے گی؛
‏اور اگر نہیں کرنے دو گے،‏تو چڑیل بن کر رہے گی۔۔۔!


‏ اپنی باقی زندگی کا فیصلہ خود کر لیں کہ زندگی کیسے گزارنی ہے
‏پری کے ساتھ،
‏یا پھر چڑیل کے ساتھ 🥰🤫😎

09/07/2024

کہتے ہیں ایک بدو کسی شہری
کا مہمان ہوا
میزبان نے ایک مرغی ذبح کی
جب دسترخوان بچھ گیا تو سب
آموجود ہوئے میزبان کے گھر میں کل چھ افراد موجود تھے
دو میاں بیوی
دو ان کے بیٹے
اور
دو بیٹیاں
میزبان نے بدو کا مذاق اڑانے کا فیصلہ کرلیا‏

میزبان
آپ ہمارے مہمان ہیں
کھانا آپ تقسیم کریں

بدو
مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں
لیکن اگر آپ کا اصرارہے تو کوئی بات نہیں
لائیے میں ہی تقسیم کر دیتا ہوں

بدو نے یہ کہہ کر مرغی اپنے سامنے رکھی اس کا سرکاٹا اور میزبان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
آپ گھر کے سربراہ ہیں لہذا مرغی کا
‏سر ایک سربراہ کو ہی زیب دیتا ہے
اس کے بعد مرغی کا پچھلا حصہ کاٹا اور کہا "یہ گھر کی بیگم کے لیے"
پھر مرغی کے دونوں بازو کاٹے اور کہا
بیٹے اپنے باپ کے بازو ہوتے ہیں
پس بازوبیٹوں کے لیے
بدو نے بیٹیوں کی طرف دیکھا اور کہا
بیٹیاں کسی بھی خاندان کے وقار کی بنیاد ہوتی ہیں

‏اورسارے خاندان کی عزت ان کے وقار پر کھڑی ہوتی ہے
یہ کہہ کر مرغی کے دونوں پاؤں کاٹے اور میزبان کی بیٹیوں کو دے دیے
پھر مسکراکر کہنے لگا
”جو باقی بچ گیا ہے وہ مہمان کے لیے“

میزبان کا شرمندگی سے برا حال تھا
اگلے دن اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ آج پانچ مرغیاں ذبح کرنی ہیں
‏بیوی نے ایسا ہی کیا
اور جب دسترخوان لگا تو اس پر
پانچ بھنی ہوئی مرغیاں موجود تھیں
میزبان نے سوچا کہ دیکھتے ہیں کہ آج یہ پانچ مرغیوں کو کس طرح تقسیم کرے گا ؟

میزبان
ان مرغیوں کو سب افراد میں
برابر تقسیم کر دیں

بدو
جفت یا طاق؟

میزبان
طاق انداز میں تقسیم کرو

‏بدو نے میزبان کی بات سن کر سرہلایا
تھال سے ایک مرغی اٹھائی
میاں بیوی کے سامنے رکھی اور بولا
آپ اور آپ کی بیوی دو اور
ایک یہ مرغی کل ملا کے تین
پھر دوسری مرغی اٹھائی اور کہا
آپ کے دو نوں بیٹے اور ایک مرغی کل ملا کے یہ بھی تین
اس کے بعد تیسری مرغی اٹھائی اور کہا
آپ کی
‏دو بیٹیاں اور ایک مرغی
کل ملا کر یہ بھی تین ہوگئے
اب تھال میں دو مرغیاں باقی تھیں
اس نے وہ مرغیاں اپنے سامنے رکھیں اور کہنے لگا
یہ دو مرغیاں اور ایک میں
یہ بھی تین ہو گئے
میزبان بدو کی یہ تقسیم دیکھ کر ہکابکا رہ گیا

اس نے اگلے دن پھر پانچ مرغیاں روسٹ کرنے کا بیوی کو

‏کہا جب سب لوگ دسترخوان پر بیٹھ گئے تو میزبان نے بھنی ہوئی پانچوں مرغیاں بدو کے سامنے رکھیں
میزبان
آج بھی تقسیم آپ ہی کرو گے
لیکن آج تقسیم کی نوعیت جفت ہونی چاہیے

بدو
لگتا ہے کہ تم لوگ میری پچھلی تقسیم سے ناراض ہو

میزبان
ایسی کوئی بات نہیں
آپ تقسیم شروع کریں

‏بدو نے مرغیوں کی طشتری سامنے رکھی
اس میں ایک مرغی اٹھائی اور کہنے لگا
ماں اس کی دو بیٹیاں اور ایک مرغی
یہ ہوئے کل ملا کر چار
یہ کہہ کر پہلی مرغی ان کی طرف بڑھا دی اس کے بعد دوسری مرغی اٹھائی اور میزبان سے کہا
آپ،آپ کے دو بیٹے اور ایک مرغی
یہ بھی کل ملا کر چارہوئے

‏پھر تھال میں موجود باقی
تین مرغیاں اپنی طرف کھسکاتے ہوئے
بولا
میں اوریہ تین مرغیاں
یہ بھی کل ملا کر ہو گئے چار
اس کے بعد مسکرایا
بے بسی کی تصویر بنے اپنے میزبانوں کی طرف دیکھا اور آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہنے لگا
یا اللّٰه
تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے

‏کہ تونے مجھے
تقسیم
کرنے کی
اعلیٰ صلاحیت
سے نوازا ہے ۔۔

(یہ عربی کی کہانی ہے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے،)

09/07/2024

وہ دور کہیں کسی دوسرے شہر سے آئی تھی، خوبصورت تو وہ بلا کی تھی مگر ذہین اتنی کہ لڑکے اس کے بارے میں سوچنے سے بھی گبھراتے تھے۔
اس کا پڑھائی میں کسی سے کوئی موازنہ نہیں تھا، مگر میرے بات بات پر مزاح کرنے کے جواب میں وہ کبھی پطرس بخاری اور کبھی یوسفی کے لفظوں میں جواب دیتی یہاں تک کہ میں لاجواب ہونے لگتا۔ ڈیزائن کی ایک آسائنمنٹ پر اس کے ساتھ میری پہلی ڈسکشن ہوئی۔
پانچ فٹ چار انچ کی وہ لڑکی انتہائی وضع دار تھی، شروع شروع میں مجھے بھی بات کرتے ہوئے جھجک ہوتی، اس وجہ سے نہیں کہ وہ بہت خوبصورت تھی بلکہ اس وجہ سے کہ کسی بھی موضوع پر بات ہوتی تو وہ جانے کن کن اردو، انگریزی اور فرانسیسی زبان کی کتابوں کے حوالوں سے بات کرتی اور اس کے سبھی حوالے چیک کرنے پر درست نکلتے۔
ایک دفعہ باتوں ہی باتوں میں 70 کی دہائی کے ایک گیت کا ایک شعر پڑھ دیا کہ
میری زندگی ہے نغمہ، میری زندگی ترانہ
میں صدائے زندگی ہوں، مجھے ڈھونڈ لے زمانہ
تو اس نے جواب میں اپنی میٹھی آواز میں پورا گیت ہی گا کر سنا دیا۔
مجھے چونکتا ہوا دیکھ کر اس کے چہرے پر شرارت پھیل گئی۔
خوبصورت کتابی چہرہ اور کشادہ پیشانی، عارض پر مسکرانے سے پڑتے گڑھے اور دائیں آنکھ کے ابرو کے کنارے کے پاس ایک چھوٹا سا سیاہ تل۔
وہ بات کرتی تو اس کے اوپری ہونٹ کے وسط میں ناک کے نیچے کیوٹ سے کھڈے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہو جاتی، جو اس کے چہرے پر بہت بھلی محسوس ہوتیں۔
اس کی آنکھیں بہت موٹی اور انتہائی سفید تھیں جبکہ کالی سیاہ پتلیاں، آنکھوں میں ڈوب جانے کا کہتیں، میں نے کبھی کسی کی آنکھ کی اتنی سیاہ پتلیاں نہیں دیکھیں۔
اس کی سیاہ زلفیں کمر سے نیچے تک جاتیں جنہیں وہ ایک سے ایک پیارے کلپس میں قید کر کر رکھتی، کانوں میں ہمیشہ سمپل مگر جاذب نظر جھمکے ہوتے، اس کی فیشن ایستھیٹک پہلے سے ہی بہت ڈیولپڈ تھی۔
یونیورسٹی میں کئی سارے لوگوں کو لگتا کہ وہ ہمیں کچھ خاص جگہ دیتی ہے، مگر وہ تو ذہانت، متانت اور خوبصورتی کے اس درجے پر تھی بہت سے وجیہہ مرد اس کے لیے اپنا سب کچھ گنوا دیتے، پھر بھلا ہم اس کے دل میں کیسے ہوتے۔
آخری سال میں وہ کلاس میں اپنی سالگرہ پر نیلی جینز اور لائٹ گرے کرتے میں آ گئی، ہم نے کیک کاٹنے اور سالگرہ کی مبارکباد دینے کے بعد دھیرے سے کہا کہ آج آپ کا خاص دن تھا، کچھ خاص پہن کر آتی، وہ پری وش دفعتاً ہماری طرف مڑی اور موٹی موٹی آنکھوں سے ہمیں دیکھتے ہوئے اسی طرح دھیرے سے پوچھا 'جیسے؟"
"جیسے کہ ساڑھی"، ہم نے جانے کیوں مگر بے اختیار کہہ دیا۔
وہ ایک لحظے کو خاموش ہوئی اور پھر مسکرا کر کہا کہ "ہمارے پاس تو نہیں ہے، آپ دلا دیجیے، ہم پہن لیں گے"۔ اتنا کہہ کر وہ مڑ گئی اور دوستوں سے مبارکباد وصول کرنے لگی۔
یہ جواب ہماری توقع سے بہت پرے تھا، چند ثانیے تو یقین ہی نہیں آیا کہ اس نے ایسا کہا ہے۔ ہمیں کچھ اور تو سمجھ نہیں آیا، بس اٹھ کر پاس گئے اور کہا کہ "چلو، چلتے ہیں"۔
کہاں؟ اس نے حیرانی سے آنکھیں پٹ پٹا کر پوچھا۔
"ساڑھی لینے", ہم نے سنجیدگی سے جواب دیا تو جانے کیا ہوا کہ اس نے اسی وقت وہاں سے دوسرے تیسرے ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا کلچ پکڑا اور کلاس فیلوز سے کہا کہ
Guys, have fun, I'll be back in 30 minutes.
یہ ہمارے لیے اس دن کا ایک اور جھٹکا تھا، جبکہ وہاں سبھی لوگ بھی بے یقینی کی کیفیت میں تھے کہ ہم نے ایسا کیا کہہ دیا کہ وہ اپنی پارٹی چھوڑ کر ہمارے ساتھ جا رہی ہے۔
ہمیں پھر سے خود کو یقین دلانے اور سنبھلنے میں کچھ لمحے لگے، کہ ہم واقعی یہ کوئی خواب نہیں دیکھ رہے ہیں۔
اسے گاڑی میں بٹھا کر جب نکلے تو پوچھا کہ کہاں سے لیں ساڑھی۔
یہ تو آپ کو پتا ہو، وہ ذرا بھی کنفیوز نہیں تھی۔
ہم نے گاڑی جوہر ٹاؤن لاہور میں ایمپوریم مال کی طرف موڑ لی، وہاں "ماریہ بی" پر ایک بلیک ساڑھی تھی جس پر چھوٹے چھوٹے نگینوں کی بھری ہوئی ایمبیلشمنٹ تھی جو روشنی پڑنے پر اور بھی چمکتے۔
وہ بہت ہی پیاری ساڑھی تھی، یقیناً اس پر بہت ہی جچتی۔
ہم سیدھا وہیں پہنچے اور سیلز سٹاف نے میرے کہنے پر وہ ساڑھی نکال دی، اس کا بلاؤز ہاف سلیوز تھا، جب میں نے اس کا ذکر کیا تو وہ شرارت سے کہنے لگی کہ "ہاں تو اچھا ہے نا وہ قاتل تل بھی نظر آئے".
اس کے بائیں بازو پر کہنی سے ذرا اوپر بازو کے پچھلی طرف ایک تل تھا جو میں نے بہت پہلے تب دیکھا جب ہم ایک ساتھ لائبریری جا رہے تھے اور جب لائبریری کے دروازے سے وہ پہلے داخل ہوئی اور میں اس کے پیچھے تھا تب وہ تل دکھا اور میں نے عادت سے مجبور فوراً ہی بول دیا کہ "لوگوں کے تو تل بھی کتنے قاتل ہوتے ہیں" وہ فوراً رک گئی اور اس کے گال لال ہو گئے، ہم فوراً سمجھ نہیں پائے کہ یہ لالی حیا کی ہے یا غصے کی، اس نے ہمیں ہاتھ سے اگے جانے کا اشارہ کیا اور ہم جا کر مطلوبہ کتابوں کی شیلف کے پاس کھڑے ہو گئے، اس دن کے بعد ہم نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی، مگر یہ بات اسے یاد رہی اور اس روز اس نے شرارتی سی مسکراہٹ کے ساتھ دہرا بھی دی۔
ہم مزید کنفیوز سے ہوئے جا رہے تھے، اس سے پہلے وہ کبھی ایسے بات نہیں کرتی تھی۔
اس نے ٹرائی روم میں جا کے سائز چیک کیا اور باہر آ گئی۔
پہنی کیوں نہیں؟ ہم جو اس انتظار میں تھے کہ وہ پہن کر ہی باہر آئے گی۔
"ایسے ہی. ابھی نہیں پھر کبھی پہنوں گی" اس نے ایسے انداز میں کہا کہ ہم سمجھ نہیں پائے۔
ساڑھی لے کر نکلے تو اس سے ایسے ہی چلتے چلتے کہہ دیا کہ اس کے ساتھ بلیک ہائی ہیلز بھی بہت اچھی لگیں گی۔
تو دلا دیجیے وہ بھی، اس نے ہماری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا تو مال کی اس خنکی میں بھی ہمارے ماتھے پر پسینہ محسوس ہوا اور دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔
اس کو اپنی پسند کی بلیک ہیلز دلائیں تو وہ پانچ فٹ 4 انچ کی خوبرو فوراً ہی پانچ فٹ آٹھ انچ کی ہو گئی اور ہمارے برابر ہی لگنے لگی۔
ہم نے چشم تصور میں اسے انہیں ہیلز اور ساڑھی میں دیکھا تو یقیناً وہ ایشوریہ کو مات دے رہی تھی۔
اس نے ہیلز بھی پیک کروا لیں، وہاں سے نکلے تو اسے بنا بتائے میں نے جی-ون کی طرف گاڑی موڑ لی اور وہاں ایک دوکان سے کالی کانچ کی چمکدار سلور نگینوں والی چوڑیاں خریدیں تو اس کی کلائی جتنی تو نہیں مگر بہت خوبصورت تھیں۔
اس نے بس اتنا ہی پوچھا کہ "آپ کو چوڑیاں اچھی لگتی ہیں؟"
آپ پہنو گی تو لگیں گی، ہم نے کہا تو وہ مسکرا کر باہر دیکھنے لگی۔
ہم نے پوچھا کہ ملک شیک پیئں؟
نہیں اب چلتے ہیں، گھنٹے ہونے والا ہے، وہاں سب انتظار کر رہے ہوں گے۔
اس نے کہا تو ہم نے بھی گاڑی واپس موڑ لی اور اس کے بعد کب فلیٹ پر آئے کب چینج کیا اور کب سو گئے، ہمیں کچھ خبر نہیں، اگلی صبح سو کر اٹھے تو لگا جیسے سب خواب تھا، مگر والٹ میں پڑے بلز منہ چڑا رہے تھے۔
مگر کیسے، وہ کیونکر ہم سے اتنا فرینک ہو گئی جبکہ اس قسم کی باتیں تو اس سے کبھی نہ ہوئی تھیں۔
اس روز ہم نے خود اس سے کوئی بات نہ کی اور وہ بھی ذرا کھنچی کھنچی سی محسوس ہوئی، شاید وہ بھی اسی کیفیت میں تھی جس میں ہم تھے۔
اگے ڈیڑھ دو مہینے بعد ہم سب فری ہو گئے اور گھروں کو لوٹ گئے۔
ہم نے بھی اس موضوع پر پھر دوبارہ کبھی کوئی بات نہ کی اور وہ بھی خاموش تھی۔
مجھے لگنے لگا کہ شاید اس دوستی میں اس روز کوئی دراڑ آ گئی، کئی دفعہ خود کو کوسا کہ وہ سب کیا تھا، کم سے کم بات تو ہو جاتی تھی، اس کی ریسرچ اتنی سٹرونگ تھی کہ ہمیں کچھ کام ہوتا تو بس اس موضوع پر اس سے کوئی بات شروع کرتے اور وہ جواب میں جو بولتی اس سے اتنا ڈیٹا تو مل جاتا کہ آسائنمنٹس یا پریزنٹیشنز بہت اچھی جاتیں، مگر اب سب کچھ کھوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
بات کم ہوتے ہوتے بس عید مبارک اور خیر مبارک تک رہ گئی، کامل 4 عیدیں اور ایک سال گیارہ ماہ گزر گئے جب ایک روز اس کا نمبر سکرین پر جگمگایا کہ "میں کل لاہور آ رہی ہوں"
ہم نے بس ویلکم کہا اور سوچ رہے تھے کہ اب اور کیا کہیں کہ ایک اور میسج آیا کہ آپ سے ملنا ہے، کہاں آؤں؟
میں نے مال روڈ پر ایک کیفے میں اسے ڈنر کے لیے انوائیٹ کر لیا۔
اگلے روز میرا برتھ ڈے تھا، چھ ماہ قبل میری شادی بھی ہو چکی تھی، میں نے کافی دوستوں کو بلایا مگر وہ میرے ذہن سے نکل گئی تھی، اب میں بہانے سوچ رہا تھا اور یہ بھی کہ اگر سب کچھ نارمل رہا تو ڈنر کے بعد گلبرگ میں کہیں کافی پر بیٹھیں گے اور مسز کو بھی کال کر کے وہیں بلا لوں گا۔
پھر اگلے روز میں جب میں وہاں پہنچا تو تین چار منٹس بعد وہ بھی وہاں آ گئی اور جس روز وہ میری پسند کی ہائی ہیلز کے ساتھ بلیک ساڑھی اور کالے رنگ کی کانچ کی چوڑیاں پہن کر میرے لیے ڈھیر سارے چاکلیٹس لائی، میں اپنی بیوی کو سونے کے کنگن پہنا چکا تھا۔
اور پھر اس کے بعد میں نے کچھ نہیں کھویا۔ وہ میری زندگی کا آخری نقصان تھا۔

محترم جناب کنٹرولر الیکٹرک سپلائر پاکستانجناب عالی!          گزارش ہے کہ  تمام ملک کے بجلی کے صارفین کو ان 13 نکاتی ٹیکس...
26/08/2023

محترم جناب کنٹرولر الیکٹرک سپلائر پاکستان
جناب عالی!
گزارش ہے کہ تمام ملک کے بجلی کے صارفین کو ان 13 نکاتی ٹیکسز کے سلسلہ کی وضاحت کی جائے .
شکریہ
1.بجلی کی قیمت ادا کر دی تو اس پر کون سا ٹیکس؟
2.کون سے فیول پر کونسی ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس؟
3.کس پرائیس پہ الیکٹریسٹی پہ کون سی ڈیوٹی؟
4 .کون سیے فیول کی کس پرائیس پر ایڈجسٹمنٹ؟
5.بجلی کے یونٹس کی قیمت ( جو ہم ادا کر چکے) پر کونسی ڈیوٹی اور کیوں؟
6.ٹی وی کی کونسی فیس، جبکہ ہم کیبل استعمال کرتے ہیں الگ سے پیسے دیکر .
7.جب بل ماہانہ ادا کیا جاتا ہے تو یہ بل کی کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟
8. کون سی فنانس کی کاسٹ چارجنگ؟
9.جب استعمال شدہ یونٹس کا بل ادا کر رہے ہیں تو کس چیز کے ایکسٹرا چارجز؟
10.کس چیز کے اور کون سے further ( اگلے) چارجز.
11.ود ہولڈنگ چارجز کس شے کے؟
12. میٹر تو ہم نے خود خریدا تھا اس کا کرایہ کیوں؟
13. بجلی کا کون سا انکم ٹیکس؟

منجانب.. مُحِبِّ وطن پاکستانی

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Use Urdu posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share