Allah Hum Sub Muslmano ku Shadat k moot aata Farmai... Ameen Allah daik raha hain
30/10/2024
30/10/2024
سلسلہ آدابِ زندگی: 02
وضو کے آداب:
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
03/08/2024
29/07/2024
⬇️ منگھڑت اور غیر معتبر روایات ⬇️
شبِ جمعہ، شبِ برأت یا کسی اور دن یا رات کو والدین یا دیگر عزیز واقارب کی روحوں کے گھروں میں آنے اور ایصالِ ثواب کا مطالبہ کرنے کا نظریہ منگھڑت اور غلط ہے، قرآن وسنت میں اس پر کوئی معتبر دلیل موجود نہیں، نیز اس حوالے سے جتنی بھی روایات بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی سب منگھڑت یا غیر معتبر ہیں۔ اس لیے یہ نظریہ رکھنا اور اس کی بنیاد پر کھانے کی چیزیں تقسیم کرنا ہرگز جائز نہیں!
تفصیل کے لیے: https://www.facebook.com/share/p/SBgcF4oyRaLWguAy/?mibextid=oFDknk
✍️۔۔۔ بندہ مبین الرحمٰن
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
22/08/2023
✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨
*سلسلہ نمبر 1427:*
🌻 *جاندار کی تصویر والے کیک بنانے کا حکم*
📿 *جاندار کی تصویر والے کیک بنانے اور فروخت کرنے کا حکم:*
جاندار کی تصویر والے کیک بنانا یا کیک پر جاندار کی تصویر بنانا اور فروخت کرنا ناجائز اور گناہ ہے، ایسے کیک بنانے کا آرڈر لینا بھی ناجائز ہے۔ البتہ اگر اس کا چہرہ واضح نہ ہو اور اس میں کوئی اور غیر شرعی وجہ بھی نہ پائی جائے تو ایسی صورت میں اس کی گنجائش ہے کیوں کہ پھر وہ حرام تصویر کے حکم میں داخل نہیں۔
☀ رد المحتار على الدر المختار:
وَظَاهِرُ كَلَامِ النَّوَوِيِّ فِي «شَرْحِ مُسْلِمٍ» الْإِجْمَاعُ عَلَى تَحْرِيمِ تَصْوِيرِ الْحَيَوَانِ، وَقَالَ: وَسَوَاءٌ صَنَعَهُ لِمَا يُمْتَهَنُ أَوْ لِغَيْرِهِ، فَصَنْعَتُهُ حَرَامٌ بِكُلِّ حَالٍ؛ لِأَنَّ فِيهِ مُضَاهَاةَ لِخَلْقِ اللهِ تَعَالَى، وَسَوَاءٌ كَانَ فِي ثَوْبٍ أَوْ بِسَاطٍ أَوْ دِرْهَمٍ وَإِنَاءٍ وَحَائِطٍ وَغَيْرِهَا اهـ. فَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ حَرَامًا لَا مَكْرُوهًا إنْ ثَبَتَ الْإِجْمَاعُ أَوْ قَطْعِيَّةُ الدَّلِيلِ بِتَوَاتُرِهِ، اهـ كَلَامُ «الْبَحْرِ» مُلَخَّصًا.
(بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّلَاةَ وَمَا يُكْرَهُ فِيهَا: فَرْعٌ لَا بَأْسَ بِتَكْلِيمِ الْمُصَلِّي وَإِجَابَتِهِ بِرَأْسِهِ)
☀ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:
وَلَوْ صلى في بَيْتٍ فيه تَمَاثِيلُ فَهَذَا على وَجْهَيْنِ: أَمَّا إنْ كانت التَّمَاثِيلُ مَقْطُوعَةَ الرؤوس أو لم تَكُنْ مَقْطُوعَةَ الرؤوس، فَإِنْ كانت مَقْطُوعَةَ الرؤوس فَلَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ فيه؛ لِأَنَّهَا بِالْقَطْعِ خَرَجَتْ من أَنْ تَكُونَ تَمَاثِيلَ وَالْتَحَقَتْ بِالنُّقُوشِ، وَالدَّلِيلُ عليه ما رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أُهْدِيَ إلَيْهِ تُرْسٌ فيه تِمْثَالُ طَيْرٍ فَأَصْبَحُوا وقد مُحِيَ وَجْهُهُ.
(كِتَابُ الصَّلَاةِ: فَصْلٌ وَأَمَّا شَرَائِطُ الْأَرْكَانِ)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
25 محرم 1445ھ/ 13 اگست 2023
22/08/2023
‼️ *تحقیقِ حکایت: ایک قصاب کی جنّت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رفاقت:*
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک پر ایک نوجوان قصاب کی جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رفاقت والا واقعہ خطباء حضرات مختلف طریقے سے بیان کرتے رہتے ہیں، اور یہ واقعہ عمومًا کتاب ’’نُزہۃ ُالمجالس‘‘ ہی کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔ ذیل میں اسی کتاب سے تفصیلی واقعہ ذکر کیا جاتا ہے۔
⬅️ *حکایت:*
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مرتبہ اپنے رب سے یہ دعا مانگی کہ مجھے وہ شخص دکھا دیجیے جو جنت میں میرا رفیق ہوگا، تو اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا کہ: فلاں شہر چلے جاؤ، وہاں تمہیں ایک نوجوان قصاب ملے گا، وہ آپ کا جنت میں رفیق ہے۔ چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام وہاں پہنچے تو اس نوجوان قصاب کو اپنی دکان میں بیٹھا ہوا دیکھا، اور اس کے پاس زنبیل یعنی ایک ٹوکری نما بھی تھی۔ اس نوجوان قصاب نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اے روشن چہرے والے! کیا آپ میرے ہاں مہمان ہونا قبول کریں گے؟ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رضامندی ظاہر فرمائی اور اس نوجوان کے ساتھ اس کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے، گھر پہنچ کر اس نوجوان نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے کھانا رکھا، اس دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ منظر دیکھا کہ وہ نوجوان جب کوئی لقمہ کھاتا تو دو لقمے اس ٹوکری نما میں دے دیتا، اسی اثنا میں گھر کے دروازے پر دستک ہوئی تو وہ نوجوان دروازے کی طرف لپکا اور وہ ٹوکری یوں ہی چھوڑ دی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس ٹوکری میں جھانک کر دیکھا تو اس میں ایک مرد اور ایک عورت نہایت ہی بڑھاپے اور کمزوری کی حالت میں موجود نظر آئے، جب ان دونوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو مسکرائے اور اُن کی رسالت کی گواہی دی اور فوت ہوگئے۔ جب وہ نوجوان واپس آیا اور اس ٹوکری میں دیکھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ مبارک کا بوسہ لیا، اور پوچھا کہ کیا آپ اللّٰہ کے رسول موسیٰ ہیں؟ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا؟ تو اس نے کہا کہ اس ٹوکری میں جو ایک بوڑھا مرد اور ایک بوڑھی عورت تھی یہ میرے والدین تھے، یہ بہت بوڑھے ہوگئے تھے تو میں نے ان کی حفاظت کی خاطر انھیں ایک ٹوکری نما میں رکھا تھا، میری عادت یہ تھی کہ میں ان کو کھلانے پلانے کے بعد ہی خود کھاتا پیتا تھا، اور یہ میرے والدین ہر روز اللّٰہ تعالٰی سے یہی دعا کرتے تھے کہ انھیں مرنے سے پہلے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زیارت کرادے۔ تو جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ فوت ہوچکے ہیں تو میں جان گیا کہ آپ ہی اللّٰہ کے رسول موسیٰ ہیں۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ: آپ کے لیے بشارت ہو کہ آپ جنت میں میرے رفیق ہوں گے۔
☀ نزهة المجالس ومنتخب النفائس:
حكاية: ذكر ابن الجوزي في كتاب «المنتظم في تواريخ الأمم»: أن موسى عليه السلام سأل ربه أن يريه رفيقه في الجنة، فقال تعالى: اذهب إلى بلد كذا تجد رجلا قصابا فهو رفيقك في الجنة، فلما رآه في حانوته وعنده زنبيل فقال الشاب: يا جميل الوجه، هل لك أن تكون في ضيافتي؟ قال موسى: نعم، فانطلق معه إلى منزله، فوضع الطعام بين يديه، فكلما أكل لقمة وضع في الزنبيل لقمتين، فبينما هو كذلك إذا بالباب يطرق، فوثب الشاب، وترك الزنبيل، فنظر موسى فيه وإذا بشيخ وعجوز قد كبرا حتى صارا كالفرخ الذي لا ريش له، فلما نظرا إلى موسى تبسما وشهدا له بالرسالة ثم ماتا، فلما دخل الشاب ونظر إلى الزنبيل قبّل يد موسى، وقال: أنت موسى رسول الله؟ قال: ومن أعلمك بذلك؟ قال: هذان اللذان كانا في الزنبيل أبواي قد كبرا، فحملتهما في الزنبيل؛ خوفا عليهما، وكنت لا آكل ولا أشرب إلا بعدهما، وكانا يسألان الله كل يوم أن لا يقبضهما حتى ينظرا إلى موسى، فلما رأيتهما ماتا، علمت أنك موسى رسول الله. قال له: أبشر فإنك رفيقي في الجنة.
(باب بر الوالدين: 1/ 229، 230 المكتب الثقافي للنشر، القاهرة)
⬅️ *تبصرہ:*
مذکورہ حکایت حضرت شیخ عبد الرحمٰن صفوری رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب ’’نُزهَۃ ُالمجالس‘‘ میں حضرت امام ابن جوزی رحمہ اللہ کی کتاب ’’المنتظم فی تواريخ الأمم‘‘ کے حوالے سے ذکر کی ہے، جبکہ بندہ کو یہ حکایت کتاب ’’نُزهَۃ ُالمجالس‘‘ کے علاوہ کہیں بھی دستیاب نہ ہوسکی، اس لیے محض اس کتاب کی بنیاد پر اس حکایت کو معتبر قرار نہیں دیا جاسکتا، خصوصًا جبکہ اس کا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے تو ایسی صورت میں متعلقہ معتبر ذرائع سے اس کے ثبوت کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے مذکورہ حکایت کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
البتہ جہاں تک والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا تعلق ہے تو اس کی اہمیت اور فضیلت قرآن وسنت سے ثابت ہے، اس لیے اس معاملے میں صحیح اور معتبر باتیں اور واقعات بیان کرنے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
21/08/2023
📢 *خطرے کو بھانپ لیجیے اس سے پہلے کہ افسوس کرتے رہ جائیں!*
▪️آپ کا بچہ کن لڑکوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے؟
▪️آپ کا بچہ کن لوگوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے؟
▪️آپ کے بچے کے پاس پیسے، موبائل، گھڑی جیسی چیزیں کہاں سے آتی ہیں اور کیوں آتی ہیں؟
▪️آپ کے بچے کو بائیک کون دیتا ہے اور کیوں دیتا ہے؟
▪️آپ کے بچے پر خرچے کون کررہا ہے اور کس لیے کررہا ہے؟
▪️آپ کا بچہ کن لوگوں کے ساتھ پکنک منانے جاتا ہے؟
▪️آپ کے بچے کو ہوٹلوں میں کھانے کون کھلا رہا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟
ایسے کئی سارے سوالات ہیں جو کہ والدین کے ذہن میں آنے چاہییں اور ان کے جوابات تلاش کرکے ان پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرلینا چاہیے۔
ہم اپنی اولاد کے حوالے سے بڑی ہی غفلتوں کا شکار ہیں۔ ہم سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہیں۔ اور ہماری یہی غفلتیں اور غلطیاں جہاں ہمارے بچوں کی دنیا اور آخرت برباد کردیتی ہیں تو وہاں ہمارے لیے بدنامی اور افسوس کا ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
یہ باتیں یقینًا تلخ ہیں، لیکن معاشرے کے بڑھتے اخلاقی زوال کے پیشِ نظر اس معاملے کو نظر انداز کردینا بڑے نقصان کا سبب بن جاتا ہے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کے بچے پر خرچے کرنے والے مفت میں خرچے کررہے ہیں؟ آپ کے بچے کو مفت میں اپنے ساتھ سیر وتفریح کے لیے لے جانے والا آدمی مخلص ہے؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کا بچہ اپنی عمر سے بڑے لڑکوں اور افراد کے ساتھ کیوں وقت گزارتا ہے؟ آپ کیسے والدین ہیں کہ جو معاشرے کی بگڑتی صورتحال دیکھنے کے باجود بھی اپنے بچوں کے بارے میں حساس نہیں ہیں؟ نجانے ہم کیوں ایسی باتوں میں بلاوجہ کا اچھا گمان کیے بیٹھے ہیں؟ ہم کس قدر سادہ یا کس قدر غافل لوگ ہیں!
اس موضوع سے متعلق میرے لیے اگرچہ کھل کر بات کرنا مشکل ہورہا ہے لیکن اشاروں کنایوں میں لکھی گئی اس مختصر تحریر کو بہت کچھ سمجھیں اور اپنے بچوں کی طرف بڑھنے والے خطرات کا ادراک کریں۔
آخر میں درد مندانہ گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کی فکر کریں، ان پر نظر رکھیں، شفقت کے ساتھ ان کی خبر گیری کریں، یہ آپ کا سرمایہ ہے، اسے ضائع ہونے سے بچائیں۔
آپ کا خیر خواہ
مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
پیج کو لائیک کرے اور شیئر کریں شکریہ
19/08/2023
اذان کا جواب دینا مستحب ہے، اس کی بڑی فضیلت ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اذان کے دوران باتیں نہ کی جائیں، بلکہ اذان کا جواب دیا جائے، البتہ اذان ہوتے وقت باتیں کرنے سے ایمان چِھن جانے یا موت کے وقت کلمہ نصیب نہ ہونے کی بات ثابت اور درست نہیں!
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
15/08/2023
*محلہ کی مسجد چھوڑ کر دوسری مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم*
سوال
اپنے محلے کی مسجد چھوڑ کر بغیر کسی ضرورت شرعی کے دوسرے محلے کی مسجد میں جانا جائز ہے؟
جواب
واضح رہے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا اس مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے جس میں لوگ زیادہ جمع ہوتے ہوں، کیوں کہ محلہ کی مسجد کو آباد کرنا وہاں کے رہنے والوں پر حق ہوتاہے، لہذا محلہ والوں کو چاہیے کہ محلہ کی مسجد کا حق ادا کریں اور اس میں نماز پڑھ کر اس کو آباد کریں، بلا وجہ اسے چھوڑ کر دوسرے محلے کی مسجد میں نما ز کے لیے جانا اچھا نہیں ہے۔
بصورتِ مسئولہ اپنے محلہ کی مسجد کو بلاوجہ چھوڑکر دوسری مسجد میں جانا بہتر نہیں ہے؛ کیوں کہ محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا اور اسےآباد رکھنا آپ پر حق ہےاور یہی افضل بھی ہے، تاہم اگر کسی اور مسجد میں نماز پڑھ لی تو وہ نماز درست ہے۔
خلاصۃ الفتاوی میں ہے:
"رجل يصلي في الجامع لكثرة الجمع ولايصلي في مسجد حيه فإنه يصلي في مسجد منزله و إن كان قومه أقل، وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن فإنه يؤذن ويصلي ... فالأفضل أن يصلي في مسجده ولايذهب إلي مسجد آخر". (خلاصة الفتاوی،ج:1، ص:228، ط:المکتبة الرشیدیة)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"لأن لمسجد منزله حقًّا عليه فيؤدي حقه". (قاضیخان علی هامش الفتاوی الهندية، ج:1، ص:27، ط:مکتبة حقانیة)
خلاصة الفتاویمیں ہے:
"في الجامع الصغير: إذا كان إمام الحي زانيًا أو آكل الربوا له أن يتحول إلى مسجد آخر". (خلاصة الفتاوی، ج:1، ص:228، ط:المکتبة الرشیدیة) فقط والله أعلم (فتوی بنوری ٹاؤن)
مفتی محمد وقاص رفیع
دار الإفتاء ادارۃ التحقيق والأدب اسلام آباد
06/08/2023
✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨
*سلسلہ نمبر 1420:*
🌻 *قرآن کریم کو کھلا چھوڑ کر باتیں کرنے کا حکم*
‼️ *قرآن کریم کو کھلا چھوڑ کر کسی کام میں مشغول ہونے کا حکم:*
قرآن کریم کو کھلا چھوڑ کر باتیں کرنا، موبائل فون دیکھنا یا کسی اور کام میں مشغول ہونا ادب کے خلاف ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ اس لیے اگر قرآن کریم کی تلاوت کے دوران کوئی کام پیش آجائے اور اس کی وجہ سے وقتی طور پر تلاوت موقوف کرنی پڑے تو اس دوران قرآن کریم کو بند کردینا چاہیے، یہی اس کے ادب اور احترام کا تقاضا ہے۔ (فتاویٰ دار العلوم دیوبند: آدابِ قرآن شریف)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
18 محرم 1445ھ/ 6 اگست 2023
06/08/2023
🔬 دس بے اصل روایات 🔬
عوام میں بہت سی ایسی روایات مشہور ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، ذیل میں ایسی دس بے اصل روایات ملاحظہ فرمائیں:
▪ *روایت 1⃣:* حضور اقدس ﷺ دین کی دعوت کے سلسلے میں ابو جہل کے دروازے پر سو بار تشریف لے گئے تھے۔
▪ *روایت 2️⃣:* ایک بار حضور اقدس ﷺ نے سخت طوفانی رات میں ابو جہل کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ابو جہل نے اپنی بیوی سے کہا کہ ایسی طوفانی رات میں کوئی ضرورت مند ہی یہاں آسکتا ہے، اس لیے میں اس کی حاجت ضرور پوری کروں گا، چنانچہ جب ابو جہل نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ دروازے پر حضور اقدس ﷺ کھڑے ہیں، آنے کی وجہ پوچھی تو حضور اقدس ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ: ایمان لے آؤ کامیاب ہوجاؤ گے۔ اس پر ابو جہل نے غصے میں آکر دروازہ بند کردیا۔
اس واقعہ کو لوگ مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں کہ بعض لوگ اس کو یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ابو جہل نے اعلان کیا کہ جو بھی میرے پاس ضرورت لے کر آئے گا تو میں اس کی ضرورت ضرور پوری کروں گا۔ چنانچہ حضور اقدس ﷺ تشریف لے گئے اور ایمان لانے کی درخواست کی، جس پر ابو جہل کو غصہ آگیا۔
▪ *روایت 3⃣:* عرش کو اُٹھانے والے فرشتے اللّٰہ تعالٰی کے راستے میں نکلنے والے شخص کے لیے تین دعائیں کرتے ہیں کہ: اے اللّٰہ! اس شخص کی مغفرت فرما۔ اس شخص کے گھر والوں کی مغفرت فرما۔ اس شخص کو اس کے گھر والوں کے ساتھ جنت میں جمع فرما۔
▪ *روایت 4⃣:* طالبِ علم کے جس حصے پر استاد کی مار پڑتی ہے اُس پر جہنم کی آگ حرام ہوجاتی ہے۔
▪ *روایت 5️⃣:* کپڑے کی تجارت سب سے اچھی تجارت ہے اور سلائی کا ہنر سب سے اچھا ہنر ہے۔
▪ *روایت 6️⃣:* جو عورت اپنے خاوند کو اللّٰہ تعالٰی کے راستے میں روانہ کرتی ہے وہ اپنے خاوند سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائے گی۔
▪ *روایت 7️⃣:* حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ نے ایک بار حضور اقدس ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللّٰہ کے رسول! اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس نے ہدایت اپنے ہاتھ میں رکھی ہے، ورنہ تو اگر ہدایت آپ کے ہاتھ میں ہوتی تو نجانے میری باری کب آتی۔
▪ *روایت 8️⃣:* جو شخص مسجد میں ہوا خارج کرتا ہے تو فرشتہ اس کو منہ میں لے کر مسجد سے باہر نکال دیتا ہے۔
▪ *روایت 9️⃣:* قیامت کے دن اللّٰہ تعالٰی جلال اور غصے میں ہوں گے، اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو حساب کے لیے اللّٰہ تعالٰی کے سامنے پیش کیا جائے گا تو انھیں دیکھ کر اللّٰہ تعالٰی کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور لوگوں سے حساب کتاب لینے کا آغاز ہوجائے گا۔
▪ *روایت 🔟:* بسم اللّٰہ پڑھ کر گھر میں جھاڑو لگانے پر بیت اللّٰہ میں جھاڑو لگانے کا اجر ملتا ہے۔
⬅️ *تبصرہ:*
مذکورہ دس روایات بے اصل ہیں جن کا حضور اقدس ﷺ اور حضرات صحابہ کرام سے کوئی ثبوت نہیں ملتا، اس لیے ان کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
❄️ *احادیث بیان کرنے میں شدید احتیاط کی ضرورت:*
احادیث کے معاملے میں بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی بات کی نسبت حضور اقدس حبیبِ خدا ﷺ کی طرف کرنا یا کسی بات کو حدیث کہہ کر بیان کرنا بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس کے لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آجکل بہت سے لوگ احادیث کے معاملے میں کوئی احتیاط نہیں کرتے، بلکہ کہیں بھی حدیث کے نام سے کوئی بات مل گئی تو مستند ماہرین اہلِ علم سے اس کی تحقیق کیے بغیر ہی اس کو حدیث کا نام دے کر بیان کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں امت میں بہت سی منگھڑت روایات عام ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی بے اصل اور غیر ثابت روایت بیان کرکے حضور اقدس ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا شدید گناہ اپنے سر لے لیا جاتا ہے۔
ذیل میں اس حوالے سے دو احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکے۔
1⃣ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘
110- حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «...وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ».
2️⃣ صحیح مسلم میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو، چنانچہ جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘
2- عَنْ رِبْعِىِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رضى الله عنه يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لا تَكْذِبُوا عَلَىَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَىَّ يَلِجِ النَّارَ».
ان وعیدوں کے بعد کوئی بھی مسلمان منگھڑت اور بے بنیاد روایات پھیلانے کی جسارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی بغیر تحقیق کیے حدیث بیان کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔
❄️ *غیر ثابت روایات سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ:*
بندہ نے ایک روایت کے بارے میں ایک صاحب کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ روایت ثابت نہیں، تو انھوں نے کہا کہ اس کا کوئی حوالہ دیجیے، تو بندہ نے ان سے عرض کیا کہ: حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا دیا جاسکتا ہے، اب جو روایت احادیث اور سیرت کی کتب میں موجود ہی نہ ہو تو اس کا حوالہ کہاں سے پیش کیا جائے! ظاہر ہے کہ حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا ہوتا ہے، روایت کے نہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ روایت موجود نہیں، باقی جو حضرات اس روایت کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اصولی طور پر حوالہ اور ثبوت انھی کے ذمے ہیں، اس لیے انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے، تعجب کی بات یہ ہے کہ جو حضرات کسی غیر ثابت روایت کو بیان کرتے ہیں اُن سے تو حوالہ اور ثبوت طلب نہیں کیا جاتا لیکن جو یہ کہے کہ یہ ثابت نہیں تو اُن سے حوالے اور ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے! کس قدر عجیب بات ہے یہ! ایسی روش اپنانے والے حضرات کو اپنی اس عادت کی اصلاح کرنی چاہیے اور انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے کہ جو کسی روایت کو بیان کرتے ہیں یا اس کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
البتہ اگر حوالہ سے مراد یہ ہو کہ کسی محدث یا امام کا قول پیش کیا جائے جنھوں نے اس روایت کے بارے میں ثابت نہ ہونے یا بے اصل ہونے کا دعویٰ کیا ہو تو مزید اطمینان اور تسلی کے لیے یہ مطالبہ معقول اور درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہر روایت کے بارے میں کسی محدث اور امام کا قول ملنا بھی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ گزرتے زمانے کے ساتھ نئی نئی منگھڑت روایات ایجاد ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اگر کوئی مستند عالم تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ یہ روایت یا واقعہ ثابت نہیں اور وہ اس کے عدمِ ثبوت پر کسی محدث یا امام کا قول پیش نہ کرسکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ان کا یہ دعویٰ غیر معتبر ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کسی امام یا محدث نے اس روایت کے بارے میں کوئی کلام ہی نہ کیا ہو، بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہو، ایسی صورت میں بھی اس روایت کو ثابت ماننے والے حضرات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس روایت کا معتبر حوالہ اور ثبوت پیش کریں، اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ انھی حضرات سے ثبوت اور حوالہ کا مطالبہ کریں۔ اور جب تحقیق کے بعد بھی اُس روایت کے بارے میں کوئی بھی ثبوت نہ ملے تو یہ اس روایت کے ثابت نہ ہونے کے لیے کافی ہے۔
واضح رہے کہ یہ مذکورہ زیرِ بحث موضوع کافی تفصیلی ہے، جس کے ہر پہلو کی رعایت اس مختصر تحریر میں مشکل ہے، اس لیے صرف بعض اصولی پہلوؤں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
23 ربیعُ الاوّل 1442ھ/ 10 نومبر 2020
08/04/2023
✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨
*سلسلہ نمبر 1299:*
🌻 *مقتدی کی قنوت مکمل ہونے سے پہلے امام کا رکوع میں چلے جانا*
📿 *نمازِ وتر میں مقتدی کی دعائے قنوت مکمل ہونے سے امام کے رکوع میں جانے کا حکم:* ماہِ رمضان میں نمازِ وتر باجماعت ادا کرتے وقت مقتدی کے دعائے قنوت مکمل کرنے سے پہلے ہی امام رکوع میں چلا جائے تو ایسی صورت میں مقتدی کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ بقیہ دعائے قنوت ترک کرکے امام کے ساتھ رکوع میں چلا جائے، ایسی صورت میں نماز بالکل درست ہے۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
16 رمضان المبارک 1444ھ/ 7 اپریل 2023
16/01/2023
✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨
*سلسلہ نمبر 1214:*
🌻 *سیونگ اکاؤنٹ کے نفع کا حکم*
‼️ *سیونگ اکاؤنٹ (Saving account) کا تعارف:*
سیونگ اکاؤنٹ کو عربی میں ’’ودیعۃ التوفیر‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا اکاؤنٹ ہے جس میں صارف یعنی کسٹمر جب چاہے اور جتنی مقدار میں چاہے رقم جمع کراسکتا ہے، البتہ رقم نکلوانے کے لیے بینک کچھ شرائط لاگو کردیتا ہے جیسے کہ یا تو یومیہ رقم نکالنے کی ایک مقدار مقرر کرلیتا ہے کہ اس سے زیادہ رقم نہیں نکلوائی جاسکتی یا رقم نکلوانے کے لیے پیشگی اطلاع کی شرط عائد کردیتا ہے۔ اس اکاؤنٹ میں موجود رقم پر صارف بینک سے نفع / سود کا طلب گار تو ہوتا ہے لیکن اس کے نقصان میں شریک نہیں ہوتا۔ (بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ)
📿 *سودی بینکوں کے سیونگ اکاؤنٹ میں ملنے والے منافع کا شرعی حکم:*
سودی بینکوں کے سیونگ اکاؤنٹ میں موجود رقم کی شرعی حیثیت قرض کی ہے، اور قرضے کے بارے میں شریعت کا ایک واضح اصول ہے کہ قرضے کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا معروف یا مشروط نفع لینا سود کے زمرے میں آتا ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔ شریعت کا یہ اصول بعض روایات سے بھی ثابت ہے چنانچہ:
1️⃣ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جو بھی قرض کسی بھی قسم کا نفع کھینچے تو وہ نفع سود کے حکم میں ہے۔‘‘
2️⃣ امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو پانچ سو دراہم قرضہ دیا اور ساتھ میں اس کے گھوڑے پر سواری کرنے کی شرط بھی لگائی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا
کہ: یہ گھوڑے پر سوار ہونے کی شرط تو سود ہے۔
اسی طرح یہ اصول دیگر حضرات صحابہ کرام اور متعدد تابعین کرام سے بھی ثابت ہے۔
بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث بن أبي أسامة:
437- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ حَمْزَةَ: أَنْبَأَنَا سَوَّارُ بْنُ مُصْعَبٍ عَنْ عُمَارَةَ الْهَمْدَانِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا». (باب في القرض يجر المنفعة)
☀ إتحاف الخيرة المهرة:
2937- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُسَامَةَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ حَمْزَةَ: أَنْبَأَنَا سَوَّارُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ عِمَارَةَ الْهَمْدَانِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ الله ﷺ: «كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا».
هذا إسناد ضَعِيفٌ؛ لِضَعْفِ سَوَّارِ بْنِ مُصْعَبٍ الهمداني. وَلَهُ شَاهِدٌ مَوْقُوفٌ عَلَى فِضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَلَفْظُهُ: كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ وَجْهٌ مِنْ وُجُوهِ الرِّبَا. وَرَوَاهُ الْحَاكِمُ فِي «الْمُسْتَدْرَكِ»، وَعَنْهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «سُنَنِهِ الْكُبْرَى»، وَاللَّفْظُ لَهُ.
☀ مُصنف ابن أبي شيبة:
21077- حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِ عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: كَانُوا يَكْرَهُونَ كُلَّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً.
21078- حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إبْرَاهِيمَ قَالَ: كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا.
21079- حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِيسَ عَنْ هِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ أَنَّهُمَا كَانَا يَكْرَهَانِ كُلَّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً.
21080- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: أَقْرَضَ رَجُلٌ رَجُلًا خَمْسَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَاشْتَرَطَ عَلَيْهِ ظَهْرَ فَرَسِهِ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: مَا أَصَابَ مِنْ ظَهْرِ فَرَسِهِ فَهُوَ رِبًا.
21081- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إبْرَاهِيمَ أَنَّهُ كَرِهَ كُلَّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً.
⬅️ *سیونگ اکاؤنٹ میں موجود رقم کے قرض ہونے اور امانت نہ ہونے کی وجہ:*
سودی بینکوں کے سیونگ اکاؤنٹ میں موجود رقم کو امانت قرار دینا مشکل ہے کیوں کہ:
1️⃣ امانت کی رقم کو استعمال کرنا جائز نہیں ہوا کرتا، اور یہ تو واضح سی بات ہے کہ سیونگ اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم استعمال کی جاتی ہے جس کا اکاؤنٹ ہولڈر کو بھی بخوبی علم ہوتا ہی ہے، جب بینک اس رقم کو استعمال کرتا ہے تو یہ شرعی اعتبار سے امانت نہیں، اگرچہ لوگ امانت کے صحیح مفہوم سے ناواقفیت کی وجہ سے اس کو امانت کہتے رہیں لیکن رقم استعمال کرنے کی صورت میں یہ معاملہ بالآخر قرض ہی کی صورت اختیار کرلیتاہے۔
2️⃣ امانت میں وہ رقم بعینہ محفوظ ہوتی ہے کہ جونوٹ دیے جائیں تو وہی واپس کرنے ہوتے ہیں، جبکہ سیونگ اکاؤنٹ میں تو اس بات کا تصور ہی نہیں کہ وہی نوٹ بعینہ واپس مل جائیں۔
3️⃣ اسی طرح امانت کا حکم یہ ہے کہ جب وہ کسی کوتاہی کے بغیر ضائع ہوجائے تو امانت رکھنے والے پر اس کا ضمان اور نقصان نہیں آتا، اور یہ بات بھی سیونگ اکاؤنٹ کی رقم میں نہیں پائی جاتی کیوں کہ بینک میں ہونے والے نقصان کا ملبہ اکاؤنٹ ہولڈر پر نہیں ڈالا جاتا (البتہ بینک کے مکمل دیوالیہ ہوجانے کی تفصیل الگ ہے)۔ اور یہ بات بھی اہم ہے کہ جب کسٹمر کی رقم یعنی نوٹ بعینہ محفوظ ہی نہیں ہوتے تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ اسی اکاؤنٹ ہولڈر کی رقم ضائع ہوئی ہے؟
یہ ساری صورتحال اس بات کی خبر دیتی ہے کہ سیونگ اکاؤنٹ میں موجود رقم کی حیثیت امانت کی نہیں بلکہ قرض ہی کی ہے۔
‼️ *کیا اکاؤنٹ میں رقم جمع کرانے کو بزنس یعنی شراکت داری کا معاملہ قرار دیا جاسکتا ہے؟*
سودی بینکوں کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم جمع کرانے کو بزنس یعنی شراکت داری وغیرہ کا معاملہ تب قرار دیا جاسکتا ہے جب کسٹمر اور بینک کے مابین باقاعدہ طور پر اس کا معاہدہ ہوجائے کہ بینک یہ رقم شرکت یا مضاربت کے طور پر بزنس میں استعمال کرے گا، مزید یہ کہ وہ معاہدہ شرعی طور پر درست بھی ہو (جیسا کہ مستند اسلامی بینکوں میں ایسا ہوتا ہے)۔ لیکن جہاں ایسا کوئی معاہدہ نہ ہوا ہو تو ایسی صورت میں اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی رقم کو شرکت یا مضاربت کا معاملہ ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بھلے وہ بینک اپنے طور پر اس رقم پر بزنس کرے کیوں کہ اصل اعتبار تو بینک اور کسٹمر کے مابین ہونے والے معاہدے کا ہے جو کہ یہاں نہیں پایا جارہا۔ اس لیے اس کو بزنس یعنی شراکت داری کا معاملہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ اگر واقعتًا بینک اس بات پر آمادہ ہوجائے کہ ہم اس کو بزنس یعنی شراکت داری کی بنیادوں پر چلانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے مستند اہلِ علم سے راہنمائی لے کر ان کی نگرانی میں ایسا کیا جاسکتا ہے۔
⬅️ *سیونگ اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی رقم کا قرض ہونا واضح ہوا:*
ماقبل کی تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ سودی بینکوں کے سیونگ اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی رقم قرض ہی کے حکم میں ہے، اور یہ بات تو واضح ہے ہی کہ قرض کی بنیاد پر معروف یا مشروط نفع لینا سود اور حرام ہے۔
⬅️ *قرض کے مفہوم سے عمومی ناواقفیت:*
ایک بڑی غلط فہمی اس معاملے میں یہ بھی ہے کہ عوام یہ نہیں سمجھتے کہ شرعی اعتبار سے قرض کسے کہتے ہیں؟ بلکہ وہ عام معاشرتی قرض ہی کو قرض سمجھتے ہیں جو کہ قرض کا ایک محدود تصور ہے، اس طرح وہ سودی بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں جمع کرائے جانے والے ڈپازٹ کو قرض نہیں سمجھتے، حالاں کہ جو رقم واپس ملنے کی شرط پر دی جاتی ہے تو وہ قرض ہی تو ہے، اور یہ بات تو ہر ایک جانتا ہے کہ اس اکاؤنٹ میں جمع کی جانے والی رقم واپسی کی شرط پر ہی دی جاتی ہے۔ اس لیے قرض کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے عوام کو یا بینک کو یہ مغالطہ ہوجاتا ہے، لیکن اس مغالطے کی وجہ سے شریعت کے مسئلے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
☀ بحوث في قضايا فقهية معاصرة لشيخ الإسلام المفتي محمد تقي العثماني:
ودائع التوفير:
وهي الودائع التي ليست مؤجلة إلى أجل معلوم، ولكن حقوق السحب منها تخضع منها لضوابط لا يمكن معها لصاحب الوديعة أن يسحب كامل رصيده دفعة واحدة، وإنما يفرض البنك حدودا للسحب اليومي، أو شرط الإخطار السابق في بعض الأحيان. وإن هذا النوع من الودائع يشبه الحساب الجاري من حيث إنه يمكن لصاحب الوديعة أن يسحب قدرا منها متى شاء دون انتظار أجل معلوم. ويشبه الودائع الثابتة من حيث إنه لا يمكن سحب كاملها دفعة واحدة. وإن البنك يدفع على هذا النوع فوائد، ولكن نسبتها أقل من نسبة الفوائد في الودائع الثابتة .....
ودائع البنوك التقليدية:
أما ودائع البنوك التقليدية فقد خرجها معظم فقهاء عصرنا على أنها قروض يقدمها البنك، سواء كانت باسم الوديعة؛ لأن العبرة في العقود للمعاني، لا للألفاظ. وإن هذا التكييف يشمل عندهم كل واحد من الأنواع الثلاثة المذكورة؛ لأن المال المودع في كل نوع من هذه الأنواع مضمون على البنك، سواء كان مودعا في الودائع الثابتة، أو في الحساب الجاري، أو في صندوق التوفير، وكونه مضمونا على البنك يخرجه عن طبيعة عقد الوديعة الاصطلاحية في الفقه الإسلامي، لكونها أمانة في يد المودع، غير مضمونة عليها. ولكن ذهب بعض العلماء المعاصرين إلى التفريق بين الودائع الثابتة وبين الحساب الجاري، فقالوا: إن الودائع الثابتة قروض في التكييف الفقهي؛ لأن صاحبها لا يملك سحب رصيده متى شاء، وهذا يخرجها عن طبيعة الوديعة ويجعلها قرضا، وكذلك المال المودع في حساب التوفير ليس وديعة، وإنما هو قرض؛ لأن صاحبه لا يتمكن من سحب كامل الرصيد في وقت واحد. ولكن المال المودع في الحساب الجاري عندهم يختلف عن هذين النوعين، ويزعمون أنه داخل في الوديعة رغم كونه مضمونا. وذلك لأن صاحب هذه الوديعة يملك سحب كامل رصيده متى شاء، دون أن يتوقف ذلك على شيء من الشروط؛ ولأن المودع في هذا النوع من الحساب لا يقصد أبدا أن يقرض ماله للبنك، ولا أن يشاركه في الربح أو الفائدة الحاصلة للبنك بعد استثماره، وإنما يريد إيداعه عند البنك لحفظه. وحيث لم يقصد المودع الإقراض، فلا يمكن أن نسمي فعله إقراضا، ونفسر القول بما يرضى به القائل.
أما تصرف البنك في هذا المال بخلطه مع الأموال الأخرى أو استخدامه لصالحه فإن ذلك لا يخرجه عن كونه وديعة؛ لأنه تصرف بإذن المالك عرفا، فلا يخرج من كونه وديعة. ولكن هذا التكييف غير صحيح عندنا. وذلك لأن عامة المودعين لا يعرفون الفرق بين مصطلحات الوديعة والقرض والدين، ولا تهمهم المصطلحات، وإنما تهمهم النتائج العملية، فالمودع -في عامة الأحوال- لا يرضى بإيداع نقوده في البنك إلا إذا ضمن البنك بردها إليه. ولو علم المودع أن هذا المال يبقى أمانة بيد أصحاب البنك بحيث إذا سرقت منه أو ضاعت بدون تعد منه فإن البنك لا يردها إليه، فإنه لا يرضى بإيداعه في البنك، ولولا أن البنك قد أعلم صراحة، أو بحكم العرف السائد في البنوك، أنه يضمن للمودعين ما أودعوا عنده من أموال، لما تقدم معظم المودعين إليه لإيداع أموالهم عنده. وهذا دليل على أن المودعين يقصدون أن تبقى أموالهم عند البنك بصفة مضمونة، وأن يكون للبنك عليها يد ضمان، دون يد أمانة. ويد الضمان لا تثبت بالوديعة، وإنما تثبت بالقرض، فثبت أنهم يقصدون الإقراض دون الإيداع بمعناه الفقهي الدقيق، غير أن مقصودهم الأساسي من وراء هذا الإقراض حفظ أموالهم بطريق مضمون، لا التبرع على البنك لمساعدته في مهماته، وإن هذا القصد لا يخرج العقد من كونه قرضا؛ لأن عقد القرض يعتمد على أمرين:
الأمر الأول: أن يعطي المال إلى أحد ويؤذن له بصرفه لصالحه، بشرط أن يرد مثله إلى المقرض متى طلب منه ذلك.
والأمر الثاني: أن يكون المال المدفوع مضمونا على المستقرض.
وهذان العنصران متوفران في الودائع المصرفية. أما أن يقصد المقرض التبرع على المستقرض لمساعدته في مهمته، فليس داخلا في صلب معنى القرض، فقد يتوفر هذا المعنى في بعض القروض، وقد لا يتوفر .....
وبعد وضوح حقيقة هذه الودائع، وثبوت كونها قروضا، ننتقل إلى السؤال الثاني، وهو هل يجوز للمسلمين أن يودعوا أموالهم في البنوك التقليدية التي تعمل في إطار ربوي؟ أما الودائع الثابتة، وودائع التوفير، فإن البنك يدفع فائدة مضمونة لأصحابها. وبما أن هذه الودائع قروض بلا خلاف، فما تدفعه البنوك زيادة على رأس المال فإنه ربا صراح لا سبيل إلى جوازه. وقد أصدر مجمع الفقه الإسلامي في ذلك قرارا في دورته الثانية، فمن يتقدم إلى البنك لإيداع أمواله في هذين النوعين فإنه يعقد معه عقد قرض ربوي، وذلك حرام، فلا يجوز لمسلم أن يودع ماله في أحد من هذين النوعين. (أحكام الودائع المصرفية)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
19 جمادی الثانیہ 1444ھ/ 12 جنوری 2023
11/01/2023
✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄
*سلسلہ نمبر 1197:*
🌻 *قرض کی بنیاد پر نفع لینے کا حکم*
📿 *قرض کی بنیاد پر نفع لینے کا حکم:*
شریعت کا ایک واضح اصول ہے کہ قرضے کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا معروف یا مشروط نفع لینا سود کے زمرے میں آتا ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔
شریعت کا یہ اصول بعض روایات سے بھی ثابت ہے چنانچہ:
1️⃣ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جو بھی قرض کسی بھی قسم کا نفع کھینچے تو وہ نفع سود کے حکم میں ہے۔‘‘
2️⃣ امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو پانچ سو دراہم قرضہ دیا اور ساتھ میں اس کے گھوڑے پر سواری کرنے کی شرط بھی لگائی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا
کہ: گھوڑے پر سوار ہونے کی یہ شرط تو سود ہے۔
اسی طرح یہ اصول دیگر حضرات صحابہ کرام اور متعدد تابعین کرام سے بھی ثابت ہے۔
☀ بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث بن أبي أسامة:
437- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ حَمْزَةَ: أَنْبَأَنَا سَوَّارُ بْنُ مُصْعَبٍ عَنْ عُمَارَةَ الْهَمْدَانِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا». (باب في القرض يجر المنفعة)
☀ إتحاف الخيرة المهرة:
2937- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُسَامَةَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ حَمْزَةَ: أَنْبَأَنَا سَوَّارُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ عِمَارَةَ الْهَمْدَانِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ الله ﷺ: «كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا».
هذا إسناد ضَعِيفٌ؛ لِضَعْفِ سَوَّارِ بْنِ مُصْعَبٍ الهمداني. وَلَهُ شَاهِدٌ مَوْقُوفٌ عَلَى فِضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَلَفْظُهُ: كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ وَجْهٌ مِنْ وُجُوهِ الرِّبَا. وَرَوَاهُ الْحَاكِمُ فِي «الْمُسْتَدْرَكِ»، وَعَنْهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «سُنَنِهِ الْكُبْرَى»، وَاللَّفْظُ لَهُ.
☀ مُصنف ابن أبي شيبة:
21077- حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِ عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: كَانُوا يَكْرَهُونَ كُلَّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً.
21078- حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إبْرَاهِيمَ قَالَ: كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا.
21079- حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِيسَ عَنْ هِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ أَنَّهُمَا كَانَا يَكْرَهَانِ كُلَّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً.
21080- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: أَقْرَضَ رَجُلٌ رَجُلًا خَمْسَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَاشْتَرَطَ عَلَيْهِ ظَهْرَ فَرَسِهِ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: مَا أَصَابَ مِنْ ظَهْرِ فَرَسِهِ فَهُوَ رِبًا.
21081- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إبْرَاهِيمَ أَنَّهُ كَرِهَ كُلَّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً.
⭕ *تنبیہ:* مذکورہ روایات کے معتبر ہونے سے متعلق تفصیلی کلام کے لیے ’’اِعلاء السنن‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
📿 *مذکورہ اصول کے تحت قرض کی بنیاد پر نفع لینے سے چند صورتیں:*
ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرض کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا معروف یا مشروط نفع لینا سود ہے جو کہ حرام ہے، اس کی بہت سی شکلیں رائج ہیں، ذیل میں اس کی متعدد صورتیں ذکر کی جاتی ہیں تاکہ ان سے بچا جاسکے:
1️⃣ قرض خواہ کا قرض دار سے دیے ہوئے قرض پر اضافی رقم کا مطالبہ کرنا سود ہے، اور یہ مذکورہ اصول کی ایک معروف صورت ہے۔
2️⃣ قرض خواہ کا اپنے قرض دار دکان دار سے کوئی چیز خریدتے وقت قرض کے زور پر اس چیز کی قیمت کم کرانا بھی سود ہے۔
3️⃣ قرض خواہ کے لیے اپنے پاس گروی رکھی ہوئی چیز سے کسی بھی قسم کا نفع اُٹھانا بھی سود ہے، چاہے قرض دار کی اجازت سے ہو یا اس کی اجازت کے بغیر ہو۔ اس کی بھی بہت سی شکلیں رائج ہیں۔
4️⃣ سودی بینکوں کے سیونگ اکاؤنٹ اور فکسڈ ڈپازٹ میں رقم رکھوانے پر ان سے حاصل ہونے والا نفع بھی سود ہے کیوں کہ ان اکاؤنٹ کی شرعی حیثیت قرض کی ہے اور قرض کی بنیاد پر نفع لینا سود ہے۔
5️⃣ انعامی بونڈ کا انعام بھی سود کے حکم میں ہے کیوں کہ بونڈ کی رقم کی حیثیت قرضے کی ہے اور قرض کی بنیاد پر نفع لینا سود ہے۔
6️⃣ نیشنل سیونگ سرٹیفکیٹ یعنی قومی بچت اسکیم میں رقم رکھوا نے پر ملنے والا منافع بھی سود ہے۔
7️⃣ ایزی پیسہ اور جاز کیش جیسے اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے پر جو فری منٹس، بیلنس، انٹرنیٹ سہولت اور دیگر منافع ملتے ہیں وہ بھی سود کے حکم میں ہیں کیوں کہ ان اکاؤنٹ کی شرعی حیثیت قرض کی ہے اور قرض کی بنیاد پر ملنے والا نفع سود ہے۔
8️⃣ ڈیبٹ کارڈ میں سودی بینک سے ملنے والا ڈسکاؤنٹ بھی سود کے حکم میں ہے کیوں کہ یہ بھی قرض کی بنیاد پر ملنے والا نفع ہے۔
9️⃣ بیمہ یعنی انشورنس پالیسی کے حرام ہونے کی ایک وجہ سود بھی ہے کیوں کہ اس پالیسی کے تحت جمع کرائی جانے والی رقم کی حیثیت قرض کی ہے اور قرض کی بنیاد پر نفع لینا سود ہے۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
2 جمادی الثانیہ 1444ھ/ 26 دسمبر 2022
Be the first to know and let us send you an email when Islamic Qoutes And Moral Stories posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.