AwaisStudio

AwaisStudio This page only for Horror Romantic Novels

سائیکالوجسٹ: کیسے ہو؟میں: ٹھیک ہوں میڈم۔۔سائیکالوجسٹ: ذہنی طور پہ کیسے ہو؟میں: ٹھیک نہیں ہوں میڈم۔۔سائیکالوجسٹ: کیوں؟میں...
13/11/2021

سائیکالوجسٹ: کیسے ہو؟
میں: ٹھیک ہوں میڈم۔۔

سائیکالوجسٹ: ذہنی طور پہ کیسے ہو؟
میں: ٹھیک نہیں ہوں میڈم۔۔

سائیکالوجسٹ: کیوں؟
میں: معلوم ہوتا تو کیا یہاں بیٹھ کے آپ کے سوالوں کے جواب دے رہا ہوتا؟

سائیکالوجسٹ: کیا محبت کا مسئلہ ہے؟
میں: نہیں، محبتوں کا ہے۔۔

سائیکالوجسٹ: کتنی بار محبت کی ہے؟
میں: معلوم نہیں ، ابھی بیٹھے بیٹھے آپ کی گفتگو سے بھی محبت کرنے لگا ہوں۔۔

سائیکالوجسٹ: پہلی محبت کب ہوئی تھی؟
میں: جب پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔۔

سائیکالوجسٹ: آخری محبت کب ہوئی؟
میں: جب کالج میں تھا۔۔


سائیکالوجسٹ: تو پھر دوبارہ محبت کیوں نہیں کی؟
میں: کیونکہ آخری محبت بھلائی نہیں جا رہی ہے۔۔

سائیکالوجسٹ: وہ آخری کیوں تھی؟
میں: کیونکہ اس کے بعد محبت کرنے کا دل ہی نہیں کرتا۔۔

سائیکالوجسٹ: ابھی تو کہہ رہے تھے آپ کی گفتگو سے محبت کر رہا ہوں۔ پھر؟
میں: وقتی ہے دل بہلانے کے لیے یہاں سے رخصت ہوتے ہوئے آپ کی محبت یہیں چھوڑ جاؤں گا۔

سائیکالوجسٹ: اس کی محبت کو اتنا سوار کیوں کر رکھا ہے؟ ایسا کیا ہے، اس کی محبت میں جو تم کسی اور میں تلاش نہیں کر پا رہے؟
میں: اس کی غزالی آنکھوں کی نمی اور اس کی مہک کے حصار نے کبھی گھیرے سے باہر نکلنے نہیں دیا

سائیکالوجسٹ: آخری بار کب ملے تھے؟
میں: یہاں آنے سے پہلے ہی ملا تھا۔

سائیکالوجسٹ: کہاں؟
میں: آئینے کے سامنے جب بال سنوار رہا تھا۔

سائیکالوجسٹ: وہ ساتھ تھی؟
میں: وہ الگ کب ہوئی؟

سائیکالوجسٹ: الگ کرو گے تو کسی اور سے محبت ہوگی۔۔
میں: آخری محبت ہے کیسے بھولوں؟

سائیکالوجسٹ: تم نے آخری بنا رکھا ہے۔
میں: وہ سوار ہے بھلائی نہیں جاتی ہے۔

سائیکالوجسٹ: کیا چیز بھولنے نہیں دیتی؟
میں: یہ چائے کا کپ جو سامنے پڑا ہے۔

سائیکالوجسٹ: ہم اس کی جگہ کافی بھی رکھ سکتے ہیں۔
میں: میڈم یہ آپشن محبت میں نہیں ملا کرتے۔

سائیکالوجسٹ: خوش کب ہوتے ہو؟
میں: جب اکیلا ہوں۔

سائیکالوجسٹ: کیوں؟
میں: کیونکہ تنہائی میں ہی ہماری ملاقات ہوتی ہے۔

سائیکالوجسٹ: دن میں کتنی بار ملاقات ہوتی ہے؟
میں: دن میں اتفاق سے ہوجاتی ہے ورنہ رات میں لازم۔

سائیکالوجسٹ: اور رات میں کب تک؟
میں: جب تک نیند نا آئے۔

سائیکولوجسٹ: نیند کب تک آ جاتی ہے؟
میں: جب تک ملاقات میں ناراضگی نا آ جائے۔۔

سائیکولوجسٹ: ناراضگی سے نیند کا کیا تعلق؟
میں: جب وہ ناراض ہوتی ہے پھر میں اداس ہو کر روتا ہوں اور روتا روتا کب سو جاؤں معلوم نہیں پڑتا۔۔

سائیکالوجسٹ: تو پھر اگلے دن ملاقات کیسے ہوتی جب ناراضگی ہو؟
میں: صبح اٹھتے ہی ہم اک دوسرے کو منا لیتے ہیں۔

سائیکالوجسٹ: کیا وہ بھی اتنا ہی چاہتی ہے؟
میں: یقیناً ورنہ آج بھی ساتھ نا ہوتی۔۔

سائیکالوجسٹ: تم پاگل ہو۔۔
میں: اسی لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔۔

سائیکالوجسٹ: تم ٹھیک ہو جاؤ گے۔۔
میں: پاگل ٹھیک ہوتے ہیں؟

سائیکالوجسٹ: بالکل ہوتے ہیں۔۔
میں: کیا آپ لوگ پاگل نہیں ہوئے کبھی؟

سائیکالوجسٹ: مطلب؟؟
میں: کیا آپ لوگ محبت نہیں کرتے؟

سائیکالوجسٹ: کرتے ہیں۔۔
میں: پھر جب جدائی ملے تب پاگل نہیں ہوتے؟

سائیکالوجسٹ: ہوتے ہیں۔۔
میں: پھر آپ لوگ جب خود پاگل ہو تو ہمارا علاج کیسے کر رہے؟

سائیکالوجسٹ: زوردار قہقہ مار کر ہنسنے لگی
میں: اب میں جاؤں؟

سائیکالوجسٹ: ہاں جاؤ

میں اٹھا اور وہ ہنستے ہنستے میز پہ رکھے ٹشو سے آنسو پوچنے لگی۔

08/11/2021
پھیری والا کباڑیہ ڈائری کے صفحات پہ کھانے کی اشیا رکھ کر دے رہا تھا اتفاق تھا کے میں وہاں پاس کھڑا تھا اچانک میری نظر اس...
24/07/2021

پھیری والا کباڑیہ ڈائری کے صفحات پہ کھانے کی اشیا رکھ کر دے رہا تھا
اتفاق تھا کے میں وہاں پاس کھڑا تھا
اچانک میری نظر اس صفحے پہ پڑی
چند الفاظ پڑھ پایا تھا
ملاحظہ
وہ ڈری سہمی سی میری زندگی میں آئی تھی
کہتی تھی شوہر بہت ظالم ہوتے ہیں
پہلی رات میں اس کی یہ بات سن کر بہت ہنسا
وہ میری طرف دیکھ کر حیران ہو رہی تھی
بولی آپ پاگل ہیں اتنا کیوں ہنس رہے ہیں
بات بھی سچ تھی میں کیوں اتنا ہنس رہا تھا
آپ نہیں سمجھ پائیں گے
باخدا اس کا انداز بیاں اتنا دلفریب تھا نا مجھے اس پہ پیار آ رہا تھا
کہنے لگی میری بات سن لیں ابا جی کے کہنے پہ میں نے آپ سے بیاہ تو کر لیا ہے لیکن اگر آپ نے مجھے مارا یا گالی دی تو
میں واپس اپنے گھر چلی جاوں گی ابا جی کے پاس
اس کی آنکھوں میں نہ جانے کون سا کوئی ڈر تھا جو اسے کھائے جا رہا تھا
ہماری ارینج میرج تھی
مجھ پہ ایک راز کھلا تھا کے اس کی بڑی بہن کو اس کے شوہر نے اتنا مارا تھا کے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی
اب وہ نفسیاتی مریضہ ہے
مجھے کہنے لگی مجھے مارنا نہیں مجھے کچھ نہ کہنا
جب آپ نے مجھے چھوڑنا ہوا تو بس ایک بار کہہ دینا میں چلی جاوں گی
حق مہر بھی معاف کروں گی بس مجھے کچھ نہ کہنا کبھی
ہائے اس کی بے بسی
وہ میری بیوی تھی
کیوں کر بھلا کوئی اپنی ہمسفر کو دیمک زدہ کر سکتا ہے
میں اس کا ہاتھ پکڑا
ایک بوسہ کیا
میری گلاب کا پھول بھلا کیوں ماروں گا آپ کو میں
ادھر آو اس کا سر اپنی گود میں رکھا
اس کو پیار سے سمجھانے لگا
ایسا کچھ نہیں ہو گا تم پریشان نہ ہو
چونکہ اس کی عمر 18 اور میری 20 تھی
جلد ہماری شادی ہو گئی تھی
اس کا لڈو کھیلنے کا بہت شوق تھا شادی کے کچھ دن گزرے مجھے کہنے لگی لڈو لے کر آئیں نا
میں کام سے تھکا ہارا آتا مجھے کھانا دیتی
پھر لڈو اٹھا کر لے آتی
چلیں ایک گیم کھیلتے ہیں میں اس کی طرف دیکھتا
تھکا ہونے باوجود اس کو انکار نہ کر پاتا
اسی کی وہ خوشی بیان نہیں کر سکتا میں
جب وہ مجھ سے جیت جاتی تھی
کبھی وہ جیت جاتی کبھی میں ہار جاتا مطلب
میں جان بوجھ کر ہار جاتا تھا
وہ رفتہ رفتہ میرے قریب آنے لگی
اسے میری مجھے اس کی عادت ہونے لگی
عادت نہیں محبت کہیں تو اچھا ہو گا
ہمیں ایک دوسرے سے محبت ہونے لگی
میں حیران تھا پہلے وہ بھوک برداشت نہیں کر سکتی تھی
لیکن
اب میرے گھر آنے تک وہ کھانا ہی نہیں کھاتی
کبھی رات کے بارہ بھی بج جائیں پھر بھی وہ بھوکی میرا انتظار کرتی
پہلے مجھے کھانا دیتی پھر میرے پاس بیٹھ کر میرے کندھے پہ سر رکھ لیتی
بچوں کی طرح ضدی سی تھی
مجھے کہتی اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاو
میں اس کو اہنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا پھر میری گود میں سر رکھتی
دن بھر کیا کیا کام کیئے سب بتاتی
باتیں کرتے کرتے سو جاتی
مجھے زندگی کے ہونے کا احساس ہونے لگا تھا
مجھے محسوس ہونے لگا
زندگی کیا اتنی حسیں بھی ہو سکتی ہے کیا
زندگی کے یہ خوبصورت لمحے بھلا جنت سا سماں کیسے نہ دیتے
ایک بار میں کسی بات سے ناراض تھا
اسے ڈانٹا بھی تھا
میری طرف غصے سے دیکھنے کے بعد کمرے میں چلی گئی
میں جانتا ہوں وہ بہت روئی تھی
لیکن میں بھی غصے میں تھا اس لیے اسے رونے دیا
پورا دن گزر گیا مجھ سے کوئی بات نہ کی اس نے
میں بھی انا میں رہا
میرے سامنے کھانا رکھا کندے پہ سر رکھ کر بیٹھ گئی
میں جانتا تھا وہ بھوکی ہے میں اس کو کھانا نہ کھلایا
آخر میں بھی تو ناراض تھا
کچھ نہ بولی برتن اٹھانے کچن میں رکھ کر آ گئی
میری گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی
خاموش تھی
کبھی کبھی نظریں چرا کر دیکھتی تھی میری جانب میں ٹی وی دیکھ رہا تھا
رات کے بارہ بج گئے
بارش زوروں کی تھی
بجلی چمکنے لگی
میں اٹھا کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا اس کا معصوم سا چہرہ بھوکی سو گئی تھی
اس کے چہرے کی جانب دیکھ کر میں سارا غصہ بھول گیا
وہ سارا دن میرے لیے گھر کے کام کرتی ہیں ایک روبوٹ مشین کی طرح میرا ہر حکم مانتی ہے
بھلا اس کی ایک چھوٹی سی غلطی پہ آج میری وجہ سے بھوکی سو گئی
نیند میں بھی میرا نام لے رہی تھی
بارش بہت تیز تھی
میں کچن میں گیا
اس کے لیئے آلو والے چاول بنائے بہت شوق سے کھاتی تھی میں نے اسے اٹھایا میری طرف دیکھنے لگی
پہلے مسکرائی پھر شاید اسے یاد آیا مجھ سے ناراض ہے
کروٹ بدلنے لگی
میں نے اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں بھر لیا
آنکھوں میں دیکھا
پھر آہستہ سے مسکرایا
کانوں کو پکڑ کر معافی مانگنے لگا
اس کی مدہوش آنکھوں سے ہیرے کی مانند کی آنسو بہنے لگے
آپ کو پتا بھی ہے میں کتنا روئی ہوں سارا دن
آپ بات نہیں کر رہےتھے میری جان نکل رہی تھی
کیا آپ سے میں ناراض نہیں ہو سکتے بس مجھے ڈانٹ کر خود کو ہیرو سمجھنے لگے پتا بھی ہے صبح سے کچھ نہیں کھایا میں نے
ہائے میں قربان اس کی محبت پہ
میرے ہاتھ کو زور سے پکڑے صلح کرتے ہوئے مجھ سے جھگڑ رہی تھی شکوہ کر رہی تھی
میں کچن میں گیا اس کے لیئے آلو والا پلاو لے آیا
دیکھ کر مسکرانے لگی کب بنائے
میں اپنے ہاتھ سے کھلاتے ہوئے بولا پاگل میں کوئی دشمن تھوڑی ہوں تمہارا
کبھی کچھ کہہ دوں تو ناراض نہ ہوا کرو
سب کچھ تمہاری بھلائی کے لیئے تو کرتا ہوں
تم میرے بنا نہیں رہ سکتی تو دل میرا بھی تمہارے بنا نہیں دھڑکتا
وہ سوری کرنے لگی
اس کی ہر ادا میری زندگی تھی۔۔۔۔۔۔۔

یہ ایک صفحہ جس پہ کسی نے اپنی زندگی کو محفوظ کیا تھا
لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا آخر یہ چاہت بھری داستاں کسی کباڑیے کے پاس کیسے بھلا
پیدل چلتے ہوئے سوچ رہا تھا
کسی کے زندگی کے حسیں پل
کسی کے لیئے بس کاغذ کا ٹکڑا ہے
کاش میں اس ڈائری کو مکمل پڑھ سکتا
لیکن کچھ قصے ادھورے اچھے لگتے ہیں

پارٹ  4 کا لنک جس کسی نے نہیں پڑھا https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=3941042545992992&id=1362837033813569ہائی ...
15/06/2021

پارٹ 4 کا لنک جس کسی نے نہیں پڑھا
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=3941042545992992&id=1362837033813569
ہائی وے کا راز
Last part 5

پھر نانی پھر کیا ہوا ۔۔۔
بس بیٹا کچھ سال تو سکوں سے رہے میں نے تمارے نانا کو سمجھا کے تماری امی کو ملنے کا بولا ۔۔
اور تمارے نانا رضامند بھی ہو گے تھے ۔۔۔۔
ایک دن میں اور تمارے نانا تم لوگوں کی طرف جانے کو نکلے ۔۔۔
ہم نے یہ ہی سوچا تھا اچناک جائے گے تو تم لوگ خوش ہو جاو گے ۔۔۔۔
ابھی ہم لوگ دروازہ تک پونچھے ہی تھے ۔۔۔
پورے گھر میں آندھی طوفان آگیا تھا ۔۔۔
مگر حیرت کی بات یہ تھی جو بھی تھا گھر کے اندر تھا ۔۔
باہر تیز دھوپ نکلی ہی تھی ۔۔۔

ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کے کیا ہوا ۔۔۔۔
کچن میں سامان گرنے کی آوازے آنی لگی ۔۔۔
ہم کچن میں گے تھے پورا سامان زمین پہ پڑا ہوا تھا ۔۔۔۔
اللّه رحم کرے یہ اس گھر میں کیا ہورہا ہیں ۔۔۔
کیا کرے بیگم نوشین کی طرف جاے یا نہیں ۔۔۔۔
نہیں فردین صاحب آج چھوڑ دے کل صبح جاے گے ۔۔۔
دوسری صبح جانے کے لئے نکلے پھر بھی ویسا ہی ہوا ۔۔۔
3 دن ایسا ہی ہوتا رہا ۔۔۔
تیسرے دن میں نے ہمت کر کے آواز دی ۔۔۔۔
کون ہیں
کون ہیں اس گھر میں سامنے آو ۔۔۔
ہم سے کیا غلطی ہی ہیں جو ہمیں تنگ کر رہے ہوں ۔۔۔

ہم نے بڑوں سے یہ ہی سنا ہیں کے ہر جگہ اچھے برے جنات ہوتے ہیں اگر ہم سے کوئی تکلیف پونچھے تو وہ تنگ کرتے ہیں ۔۔
میں وہ ہی سمجھی تھی ۔۔۔۔
ہاہاہا
غلطی کیا ہوگی امی آپ سے ؟؟؟؟؟
سب گناہ تو صرف میں ہی کرتی ہوں ۔۔۔۔
اللّه کی پناہ
فردین صاحب یہ تو فرحین کی آواز ہیں ۔۔۔
تمارے نانا بھی پریشان ہوگے یہ سب کیا ہیں ۔۔۔
تم فرحین
تمارے نانا نے پریشان ہو کے پوچھا ۔۔۔
جی ابّو میں ہوں فرحین ۔۔۔۔
آپ لوگ تو مجہے مار کے خوش ہو رہے ہوگے ۔۔۔۔
مگر میں مرنے کے بعد بھی زندہ ہوں یہ ہیں میری طاقت ۔۔۔
اور آپ لوگ مجہے مار کے اس نوشین کے پاس جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم برباد ہوئے ۔۔۔
کیا بات ہیں آپ لوگوں کی اس کی غلطی کو معاف کردیا
اور میری غلطی پہ مجہے مار دیا ۔۔۔
کیسے ماں باپ ہیں آپ لوگ . ۔۔ .
چپ کر نافرمان اولاد ۔۔۔
تیری جیسی سو اولاد بھی ہوتی تو میں ہاتھ سے گلہ دبا کے ماردیتا ۔۔۔
نوشین نے تو صرف ہمیں دنیا میں رسوا کیا ۔۔
اور تو نے اپنے ساتھ ساتھ ہم دونوں کی بھی آخرت خراب کی ۔۔۔
بول روز قیامت اللّه کو کیا جواب دو گا ۔۔
۔کیسی تربیت کی تھی ہم نے تماری ۔۔۔۔۔
ارے مجھ سے اچھے تو وہ ہیں جو بے اولاد ہیں ۔۔
ان کا صرف ایک ہی دکھ ہیں نہ اولاد نہیں ہیں ۔۔
مگر کوئی ہم جیسے والدین سے پوچھے اولاد ہو کر بھی کیا دکھ ہوتا ہیں ۔۔۔
اولاد صرف ١٠ سال تک والدین کی ہوتی ہیں اس کی بعد اپنے دوست اچھے لگتے ہیں ۔۔۔
ماں باپ سے زیادہ باہر کی دنیا اچھی لگتی ہیں ۔۔۔
ٹی وی
ڈرامے
فون دوستوں میں آنا جانا ۔۔۔
شادی کر دو تو اپنی فیملی نظر آتی ہیں ۔۔
ماں باپ بوجھ لگنے لگ جاتے ہیں ۔۔۔
بیٹی ہو یا بیٹا ۔۔۔
شادی کے بعد صرف اپنا گھر اپنے بچے نظر آتے ہیں ۔۔
پھر بھی ہم والدین تم جیسی اولاد کو معاف کردیتے ہیں ۔۔
نوشین اور تم میں صرف یہ فرق ہیں ۔۔
وہ صرف ہماری نافرمان تھی
مگر تم میرے رب کو چھوڑ کے شیطان کے راستے پہ چلی گی تھی ۔۔۔
میں اپنے اللّه اور اس کے پیارے نبی پہ ١٠٠ اولاد قربان کردو ۔۔۔
بس ابّو بس اب نہیں اب آپ کے فیصلے نہی چلے گے ۔۔۔
اب میرا وقت آیا ہیں ۔۔
میں چاہتی تو کب کا نوشین سے بدلہ لے سکتی تھی ۔۔۔
مگر میں اسے آپ دونوں کے سامنے تڑپا تڑپا کے مارو گی ۔۔۔
آپ جانا چاہتے ہیں جاے
میں وہیں اس کو اور اس کے گھر والوں کو مارو گی ۔۔۔
پھر میرے دل کو ٹھنڈک پونچھے گی ۔۔۔

تمارے نانا یہ سب سن کر وہیں دل پکڑ کے بیٹھ گے ۔ . .
فرحین تیرا ککھ نہ رہیں ۔۔
تو نے اپنی دنیا برباد کی تجھے مر کے بھی سکوں نہ ملے ۔
یہ ایک ماں کی بد دعا ہیں ۔۔۔
بس بیٹا اس دن کے بعد سے ہم نے کسی سے رابطہ نہیں رکھا . .
بس ہم اپنی زندگی کے دن پورے کر رہیں تھے ۔۔۔
ایک دن تم آگی ۔۔۔
میں اور تمارے نانا ڈر گے تھے تمہیں دیکھ کے ۔۔۔۔
کیوں کے اتنے سالوں میں فرحین کبھی بھی آجاتی تھی ۔۔۔
اس نے ہماری زندگی برباد کر دی تھی ۔۔۔
تمارے نانا کتنے لوگوں کو علاج کے لئے لے آکر اے ۔۔
مگر کوئی بھی اس منحوس اولاد سے نہ جیت سکا ۔۔۔

مگر نانی
پورے گھر میں سب کچھ ہوتا ہیں مگر اس کمرے میں کیوں نہیں ۔۔۔
بیٹا جب پیر صاحب اے تھے پتا نہی کیا کر کے گے فرحین کی روح اس کمرے میں نہی آسکتی ۔۔۔
بس بیٹا دیکھ یہ تمارا نانا سفید سر سے تم دونوں کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں
چلی جاو یہاں سے تماری ماں کا تمارے سوا کوئی نہیں ۔۔۔
یہ تماری جان کی دشمن بنی ہوی ہیں ۔۔۔
تم دونو صبح ہوتے ہی یہاں سے چلی جاو . ۔
صبح کی روشنی میں اس کی طاقت کمزور ہوتی ہیں ۔۔۔
نہیں نانا نانی کبھی بھی نہیں
میں آپ کو اس طرح اکیلے چھوڑ کے نہیں جا سکتی . ۔۔۔
موت تو برحق ہے کبھی بھی آسکتی ہیں ۔۔۔
میں آپ دونو کو ساتھ لے کر جاو گی ۔۔۔
بلکل نانا عروسہ سہی بول رہی ہے
ہم دونوں آپ کے ساتھ ہیں ۔۔
ہم سب مل کر اس مشکل کا حل نکالے گے ۔۔۔

ایک منٹ میرے پاس ایک حل ہیں . ۔۔
میرے گلے میں حفاظت کا تعویز ہیں اور یہ جنہوں نے مجہے دیا تھا وہ بات نیک انسان ہیں ۔۔
میں اگر ان سے رابطہ کر لو تو وہ ضرور ہماری مدد کرے گے ۔۔۔
ان شا اللّه صبح ہوتے ہی میں ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کرو گی ۔۔۔
بس بیٹا اللّه کرے یہ رات سکوں سے گزر جاے ۔۔
باہر ابھی بھی شور کی آواز آرہی تھی ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد باہر کا دروازہ بجنے لگا ۔۔۔
اس وقت کون آگیا ۔۔۔۔
کون ہیں باہر ۔۔۔۔
ابّو جی میں ہوں نوشین ۔۔۔
نوشین ۔۔۔۔۔
مما ۔۔۔۔۔
مما کیسے آگی ۔۔۔
سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔
تم نے اپنی مما کو بلایا ہیں ۔۔۔
نہی نانا مما کو تو پتا بھی نہی میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں ۔۔۔
میں جا کے دیکھتی ہوں ۔۔۔

نہیں عروسہ تم نہیں ۔۔۔
میں جاتی ہوں میرے گلے میں حفاظت کا تعویز بھی ہیں ۔۔۔
اور میری کوئی دشمنی بھی نہیں تماری خالہ سے ۔۔۔۔
بیٹا رکو میں بھی تمارے ساتھ چلتا ہوں ۔۔۔
نہیں نانا آپ بھی نہیں میں صرف دروازہ کھول کے نوشین آنٹی کو لے کر اندر آتی ہوں ۔۔۔
مونا دیکھ کر وہ تمہیں کوئی نقصان نہ دے ۔۔۔
فکر نہ کرو بھر آنٹی اکیلی ہیں اگر انھیں کچھ ہوگیا ؟؟؟؟؟؟؟؟

مونا باہر نکلی تو بلکل خاموشی تھی ۔۔۔۔
جیسے ہی دروازہ کھول کے باہر نکلی ۔۔۔
باہر کوئی نہیں تھا ۔۔۔
ابھی اندر جانے کا سوچ ہی رہی ہوتی ہیں ۔۔۔
کسی نے دروازہ کو بہت زور سے بند کردیا ۔۔۔۔
کھولو کون ہیں اندر ۔۔۔۔
ہاہاہا
شکر ادا کرو تمارے حفاظت کے تعویز نے تمہیں بچا لیا ۔۔۔۔
اب یہاں قدم نہیں رکھنا ۔۔۔۔
تم میرا یا گھر میں کسی کا کچھ نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔

نانا یہ دروازہ کس نے بند کردیا ۔۔۔
مونا رات کو اس وقت بھر اکیلی ہے ۔۔۔
نانا مجہے اس کے پاس جانا ہے ۔۔۔
نہیں بیٹا تم بھر نہیں نکلو وہ تماری جان کی دشمن بنی ہی ہیں ۔۔۔
میں جاتا ہوں مونا کو لے کر آتا ہوں ۔۔۔۔
نانا وہ آپ کو کچھ نہیں کردے ۔۔۔
نہ بیٹا وہ ہمیں نقصان نہی دے گی ۔۔۔
دینا ہوتا تو اتنے سال میں دے دیتی ۔۔۔
نانا بھی کمرے سے بھر نکل گے ۔۔
نانا کے بھر جاتے ہی باہر کا فانوس آکر زمین پہ گر گیا ۔۔
اللّه کا شکر نانا بال بال بچ گے ۔۔۔
ابّو میں نہیں چاہتی میری وجہ سے آپ کو اور امی کو کوئی نقصان ہو ۔۔۔
میں صرف نوشین کی بیٹی سے بدلہ لینا چاہتی ہوں ۔۔۔
عروسہ کی موت کے بعد ہی نوشین کو احساس ہوگا کسی اپنے کو کھونے کا کیا دکھ ہوتا ہیں ۔۔۔
پھر اسے احساس ہوگا مجھ پہ کیا گزری تھی جب اس کی وجہ سے میں نے اپنا پیار کھویا ۔۔۔۔۔۔
پیار
پیار
بدنصیب تجھے آج بھی پیار کا رونا ہیں
تو نے اپنی آخرت کھو دی
اپنے اللّه کو ناراض کر کے شیطان کو خوش کیا ۔۔۔

قیامت تک تیری روح ایسی ہی بٹھکتی رہے گی ۔۔۔
بس ابّو اب اور کچھ نہیں ۔۔۔
بہت ہوگیا
اب میں کچھ نہیں سنو گی ۔۔۔
یہ بولتے ہی اس نے کچھ پڑھنا شروع کیا ۔۔۔
اور کمرے میں پتھرو کی بارش شروع ہوگی ۔۔۔
اف اللّه کیسی بارش تھی پتھر کی ۔۔۔
ایک پتھر نانا کے سر پہ آکر لگا ۔۔۔
اور نانا کی ایک آواز نکلی اور اس کی بعد بلکل خاموشی ۔۔۔
نانی نانا کی آواز نہی آرہی
نانا کو کچھ ہو تو نہیں گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
باہر مونا کو سمجھ نہی آرہا تھا کیا کرو ؟؟؟؟؟؟
اللّه میری مدد فرما کچھ راستہ دکھا مجہے ۔۔۔۔
فون
ہان فون میں ان کو فون کرتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبران کا فون کب سے بج رہا تھا ۔۔
جبران اور علی اس وقت ہائی وے پہ تھے ۔۔۔
ہوٹل پہ چاے پی کر جیسے گاڑی میں اے
موبائل دیکھا ۔۔۔
اتنی مس کال وہ بھی اس وقت ۔۔۔۔
السلام علیکم ۔۔۔
والیکم سلام
جبران تم اس وقت کہاں ہو ؟؟؟؟
میں اس وقت ہائی وے پہ ہوں ڈاکٹر صاحب
سب خیریت تو ہیں ؟؟؟؟
میں تمہیں ایک ایڈریس بیجھ رہا ہوں ۔۔
فورن وہاں پونچھو ۔۔۔
میں بھی یہاں سے نکل رہا ہوں ۔۔۔
کچھ بھی ہو جاے تمہیں وہاں اسے اکیلے نہیں چھوڑنا ۔۔۔
مجہے 25 منٹ لگے گے ۔۔۔۔
جی ڈاکٹر صاحب آپ پریشان نہ ہو میں ابھی نکلتا ہوں ۔۔۔۔

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہیں نہ ؟؟؟؟؟
یار پتہ نہی ڈاکٹر صاحب نے ایک جگہ جانے کا بولا ہے ۔۔۔
کون سی جگہ ۔۔۔۔
وہ ابھی لوکیشن بجھ رہے ہیں ۔۔۔۔

میسج آتے ہی۔۔۔۔۔
یہ جگہ ۔۔۔۔۔
کہاں جانا ہیں جبران ؟؟؟؟
بہت قریب ہیں یہاں سے ؟؟؟؟؟
5 منٹ میں جبران اور علی وہاں پونچھ گے ۔۔۔۔
وہ جیسے ہی گلی میں داخل ہوئے سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
آپ ؟؟؟؟
آپ کا نام مونا ہے ؟؟؟؟
جی میں ہی مونا ہوں ۔۔۔۔
مجہے ڈاکٹر علی شاہ نے بیجھا ہے ۔۔۔۔
جی میں ان کی سالی ہوں ۔۔۔۔
سالی ؟؟؟؟؟
جی مگر میری باجی اور کچھ لوگوں کے سوا کسی کو پتا نہی کے وہ روحانی علاج کرتے ہیں ۔۔۔
اچھا
اچھا
مگر آپ باہر کیوں کھڑی ہیں ۔۔۔
گھر میں کیا ہوا ہیں ۔۔۔
مونا نے فرحین کو لے کر کچھ باتیں بتا دی ۔۔۔۔
اس کا مطلب وہ تینوں اندر ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہیں ۔۔۔
جی مگر کیا کرے وہ دروازہ نہی کھول رہی ۔۔۔۔

ٹھک ٹھک تھک ۔۔۔
اندر جو بھی ہیں دروازہ کھولے میں پولیس افسر ہوں آپ کی مدد کے لیا آیا ہوں ۔۔۔۔

مگر کوئی دروازہ کھولنے نہی آیا ۔۔۔۔
اللّه رحم کرے عروسہ نانا نانی سب ٹھیک ہو ۔۔۔۔
جبران ایسا کرتے ہیں دروازہ توڑ دیتے ہیں ۔۔۔
یار دروازہ بہت مضبوط ہیں ٹوٹ نہی سکتا ۔۔۔
باہر مونا جبران اور علی کھڑے تھے ۔۔۔
اور اندر نانی اور عروسہ فرحین کے سامنے کھڑی تھے ۔۔۔۔
دیکھو فرحین تم اسے جانے دو ۔۔۔
اپنے باپ کو دیکھو زندگی اور موت کے بیچ میں ہے ۔۔۔
انہیں ہسپتال لے کر جانا ضروری ہیں ۔۔۔
ٹھیک ہے آپ ابّو کو لے کر جاے
مگر یہ نہی جاے گی ۔۔۔۔۔۔۔
فرحین خالہ ہمیں جانے دے ۔۔۔۔
چپ کر جا ۔۔۔۔
میں تیری خالہ نہیں ہوں ۔۔۔
سمجھی تو ۔۔۔
اب تیرا وقت پورا ہوگیا ہیں ۔۔۔۔
فرحین نے عروسہ کو اٹھا کے دیوار پہ دے مارا ۔۔۔۔
مما ۔۔۔۔
جبران بھائی یہ تو عروسہ کی آواز ہیں ۔۔۔
مجہے لگتا ہیں اس شیطان نے عروسہ کو کچھ کردیا ہیں ۔۔۔
مونا زور زور سے روتے ہوئے ۔۔۔
پلز بیٹا تم رونا بند کرو عروسہ کو کچھ نہیں ہوگا بس ابھی ڈاکٹر صاحب آنے والے ہوگے ۔۔۔۔
جبران کا دل خود پریشان ہوگیا تھا ۔۔۔
عروسہ کی چینک سن کر مگر کیا کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔
آپ ایسا کرے شاہ بھائی کو فون کرے ۔۔۔
ہاں میں کرتا ہوں ۔۔۔
ڈاکٹر صاحب آپ کہاں پونچھے یہاں سب گر بر ہوگی ہیں ۔۔۔۔
میں بس 5 منٹ میں آرہا ہوں ۔۔۔
پریشان نہ ہو گھر کے اندر کے معاملات میری نظر میں ہیں ۔۔۔۔
عروسہ کو ایسا لگا بس اس کا سر دیوار پہ لگنے ہی والا تھا مگر کسی ان دیکھی طاقت نے عروسہ کو پکڑ لیا
اب ایسا لگ رہا تھا کوئی ان دیکھی چیزے آپس میں لڑ رہی ہیں ۔۔۔
کسی کی آواز ایک کونے سے آتی ۔۔
کسی کی دوسرے کونے سے ۔۔۔
عروسہ نے یہ سب دیکھ کر خاموشی سے باہر کا دروازہ کھول دیا ۔۔۔۔
باہر مونا کے گلے لگ کے روتے ہوئے ۔۔۔
مونا
نانا کو کچھ ہوگیا ہیں ۔۔۔
یہ تینوں اندر آتے ہیں تو نانا خون میں لات پت پڑے تھے ۔۔۔۔

اور نانی ایک کونے میں ڈر کے بیٹھی ہی تھی ۔۔۔
ان دونوں کی حالت دیکھ کے جبران کا دل کرا
فرحین کے ٹکرے ٹکرے کردے ۔۔۔
ایسی کافر اولاد جو ماں باپ کو اس عمر میں ایسی تکلیف دے ۔۔۔
یہ عمر ان لوگوں کی آرام کی عمر ہیں
اولاد کا پھل کھانے کا وقت ہے ۔۔۔
اور یہ اس طرح بےبس اور لاچار پڑے ہیں ۔۔۔
اللّه پاک ان لوگوں کی مدد فرما ۔۔۔۔
جیسے ہی نانا جی کا سر اپر کیا
یہ چہرہ
یہ تو وہ ہی بزرگ ہے جو مجہے ہائی وے پہ ملے تھے ۔۔۔۔
جبران بھائی ۔۔۔
مونا کی آواز سن کر جبران جیسے مڑا ...
جبران کی نظروں کے سامنے عروسہ الٹی لٹکی ہی تھی ۔۔۔
ایسا لگ رہا تھا کسی نے اسے الٹا پکڑا ہوا ہیں ۔۔۔
ہاہاہا
اچھا ہوا آج میرے سب دشمن میری نظر کے سامنے ایک جگہ جمع ہیں ۔۔۔
اب تم سب لوگوں کا دیکھنا کیا حشر ہوگا ۔۔۔
جبران تم اور تمارا پولیس کا محمکہ مجہے ہی ڈھونڈ رہے تھے ۔۔۔
ہائی وے کا قتل کا راز جاننا تھا تم لوگوں کو ۔۔۔
میں بتاتی ہوں کون تھا وہ ؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ ہے ۔۔۔
فرحین کا اشارہ دیکھ کر
جب جبران نے مڑ کر دیکھا تو ۔۔۔
وہ حیران اور پریشان رہ گیا ۔۔۔
وہ کوئی اور نہیں علی تھا ۔۔۔۔
علی تم ؟؟؟؟
نہیں آپ جھوٹ بول رہی ہو ۔۔۔
یہ علی نہی ہوسکتا ۔۔۔
علی تم خاموش کیوں ہو ۔۔۔
بولو جواب دو یہ جھوٹ بول رہی ہیں ۔۔۔۔
ہاہاہا
جبران حیرت کی بات ہیں اتنے سمجھدار پولیس آفیسر ہو کے قاتل کو نہی پیچان سکے ۔۔۔۔
ہاں میں ہی قاتل ہوں تمام ہائی وے پہ ہونے والے قتل کا ۔۔۔۔
نہیں علی تم اتنا نہی گر سکتے
تم نے یہ سب کیوں کیا ؟؟؟؟
دولت
ہاں دولت کے لئے ۔۔۔
تم نے شاید یہ نوٹ نہیں کیا جتنے بھی قتل ہوئے ان کی ساتھ فیملی نہی ہوتی تھی ۔۔۔۔

یہ آج سے 2 سال پہلے کی بات ہیں ۔۔
اخبار کا دفتر بند ہونے کے بعد میں جاب کے لئے پریشان تھا ۔۔۔
ایک دن دیوار پہ ایک عامل کا پتہ دیکھا ان سے ملنے گیا ۔۔۔
جب اس کے پاس بہت جانے لگا تو اس نے مجہے کہا اگر میں اس کے لئے کم کرو تو وہ مجہے دولت سے مالا مال کردے گا ۔۔۔
مجہے صرف اتنا کرنا ہوتا جب فرحین کو شکار کی ضرورت ہوتی ۔۔۔
میں بوڑھا آدمی بن کے گاڑی کو روکتا اور فرحین اس کا خون پی کر دل نکال کر کھا لیتی ۔۔۔۔
اب تم سوچ رہے ہوگے یہ کم فرحین بھی کر سکتی تھی تو میری کیا ضرورت تھی ۔۔۔
تو میری جان میرا کم یہ تھا کے میرے جاننے والوں میں جو ہائی وے کا سفر کرتا مجہے پتا ہوتا تھا کے یہ کتنے بجے کراچی سے نکل کر ہائی وے پہ پونچھے گا ۔۔۔
اس حساب سے ہم۔ اپنا کام کرتے ۔۔۔۔
اب تم یہ بھی سوچ رہے ہوگے صرف ہائی وے ہی کیوں ؟؟؟؟
ہم۔ دوسری جگہ بھی تو قتل کر سکتے تھے ۔۔۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کے فرحین جب تک ١٠٠ انسانوں کا خون اور دل نہی کھا لیتی وہ تب تک اس ہائی وے کی حدود سے بھر نہی جا سکتی ۔۔۔
اس لئے مجہے ان لوگوں کا ساتھ دینا تھا اس کے بدلے ان لوگوں نے مجہے دولت کے ڈھیر دے دیں ہیں ۔۔۔

اب تو سب پتا چل گیا ہوگا جبران تمیں ۔۔۔
اور تم نے یہ نہی سوچا جس رات علی تمارے ساتھ ہوتا اس دن کوئی قتل نہی ہوتا تھا ۔۔۔
اور تمہیں یہاں لانے والا بھی علی ہی ہے ۔۔۔
تم نے کیا سوچا اس بابا کا گلے میں تعویز ڈال کے مجھ سے محفوظ ہو جاو گے ۔۔۔۔
علی میں حکم دیتی ہوں اس کے گلے سے تعویز اتار دو ۔۔۔۔
پھر میں دیکھتی ہوں یہ کیا کرتا ہیں ۔۔
جب اس کی لاش ٹکرے ٹکرے ہو کے گھر جاے گی پھر اس کا بھائی شایان تڑپ کے واپس اے گا ۔۔۔
پھر میں اس سے بدلہ لو گی ۔۔۔
ہاہاہاہا
آج میں امر ہو جایو گی ۔۔۔
آج میرے 100 انسان پورے ہوجاے گے ۔۔۔۔

نہیں علی تم ایسا نہی کر سکتے مجھ سے دور رہو ۔۔۔
پتا نہی علی میں اتنی طاقت کہاں سے آگی ۔۔۔
بس رک جاو ۔۔۔
بہت کر لیا تم لوگوں نے
ایک جلالی آواز سن کر مونا نے سکوں کا سانس لیا ۔۔۔
اب بیٹا تم سب کو پتا چلے گا ۔۔۔
ڈاکٹر علی شاہ اور ان کے ساتھ 2 بزرگ تھے ۔۔۔
وہ بزرگ ایسے لمبے چوڑے اور نورانی نور چہرہ ان دونوں کا ۔۔۔
یہ سب تو اپنی جگہ ۔۔۔
فرحین بھی ان دونوں بزرگ کو دیکھ کر ایک قدم پیچھے چلی گی ۔۔۔۔
نہیں نہیں ۔۔۔۔
کیا نہیں فرحین تم نے ٢٠ سالوں سے پتہ نہی کتنے لوگوں کی زندگی برباد کی
اپنے والدین کے سفید سر کی بھی لاج نہی رکھی ۔۔۔
آج تیرا آخری دن ہیں ۔۔۔
تیرا وہ انجام ہوگا ۔۔۔
جو دنیا میں جتنی بھی نا فرمان اولاد ہوگی
تیرا حشر دیکھ کے توبہ کرے گی ۔۔۔
تو دیکھ تیرا خاتمہ کرنے کون سی ہستی آی ہیں ۔۔۔
جب دنیا میں کوئی اولاد ماں باپ کے سامنے اونچی آواز میں بات کرتا ہیں تو عرش بھی حل جاتا ہیں ۔۔۔
مگر تم جیسی اولاد کو کچھ سمجھ نہی آتا ۔۔۔
آج کے دور میں والدین تم۔ اولاد سے ڈرتے ہیں ۔۔۔
اولاد کمانے لگتی ہیں تو ان کی بیویاں ساس سسر کی روٹی گنے لگتی ہیں ۔۔۔
والدین کی دوا کے لئے پیسہ نہی ہوتے مگر اپنی عیاشی کے لئے سب ہوتا ہیں ۔۔۔
کتنے والدین ہیں اس دنیا میں جو عمر کا آخری حصہ اولاد کی شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں ۔۔۔
نہیں معافی ملے گی ایسی اولاد کو ۔۔۔
اور تجھ جیسی اولاد کو تو کبھی نہی ۔۔۔۔
علی شاہ نے اپنی جیب سے ایک پانی کی بوتل نکالی اور سب گھر والوں پہ وہ پانی چھڑک کے سب کو باہر جانے کا بولا ۔۔۔
اس وقت کمرے میں صرف علی ۔فرحین ۔۔فرحین کے نہ نظر آنے والے چیلے ۔۔۔
جبران ۔۔۔علی شاہ ۔۔۔اور وہ ٢ بزرگ تھے ۔۔۔
اب وہ بزرگ صوفے پے بیٹھ گے تھے ۔۔۔
انہوں نے صرف انکھ کا اشارہ کیا ۔۔اور اپنی دونوں آنکھے بند کر لی ۔۔۔
ڈاکٹر علی شاہ نے اپنا اور جبران کا حصار کیا اور پڑھنا شروع کیا ۔۔۔
جیسے جیسے وہ پڑھ رہے تھے کچھ نہ نظر آنے والی چیزے چلانے لگی اور معافی مانگنے لگی ۔۔
مگر انہوں نے کسی بات کا جواب نہی دیا ۔۔تھوڑی دیر بعد اتنی گندی بدبو آنے لگی جبران کو ایسا لگا اس کا میدہ ابھی باہر آجاے گا ۔۔۔
جبران نے سامنے دیکھا تو ایک بزرگ نے مسکرا کے جبران کی طرف ہاتھ کیا ۔۔۔
ان کا ہاتھ کے اشارے سے جبران کو ایسی مہک آی جیسے گلاب کی سیج پہ بیٹھا ہو ۔۔۔
مگر وہ بد بو علی کو برداشت نہ ہو سکی اس نے وہیں الٹیا کرنا سٹارٹ کر دی ۔۔۔
اہ میرے اللّه ۔۔۔
علی کے منہ سے گوشت کے ٹکرے نکل رہے تھے اور وہ ایسا تڑپ رہا تھا اس کے منہ سے ایسی آوازے نکل رہی تھی جیسے قربان ہوتے وقت جانور ہوتا ہیں ۔۔۔
علی زمین پہ ایسے ہی تڑپ رہا تھا اس کی ایسی حالت دیکھ کر جبران کی انکھوں سے ایک آنسوں نکلا ۔۔۔۔
مجہے معاف کر دو
میں اب کبھی کچھ نہی کرو گی ۔۔۔
فرحین اب زمین پہ بیٹھ کر معافی مانگ رہی تھی ۔۔۔
مگر ڈاکٹر علی شاہ کچھ نہی سن رہے تھے ۔۔۔
انہوں نے ایک چھری نکالی اور پڑھ کے اس پہ پھونکا ۔۔۔
اور وہ چھڑی جیسے جیسے گھوما رہے تھے
فرحین اپنے جسم کو نوچ رہی تھی
نہیں نہیں ایسا نہ کرو مجہے تکلیف ہورہی ہیں ۔۔۔
اور وہ کبھی کتے کی آواز نکال رہی تھی کبھی گھدے کی ۔۔
اور آواز بھی ایسی تھی اگر کوئی انسان سن لے تو دوسرا سانس نہ لے سکے ۔۔۔
اب فرحین کا آدھا دھر کتے کا اور آدھا دھر گھدے کا ہوگیا تھا ۔۔۔
اب وہ دونوں بزرگ اٹھے اور باہر کی طرف جانے لگے ۔۔
ان کو جاتا دیکھ ڈاکٹر علی شاہ نے بھی جبران کو اشارہ کیا اور باہر کی طرف نکلے ۔۔۔
ان سب کو نکلتا دیکھ فرحین کچھ بول رہی تھی مگر سمجھ نہی آیا کیوں کے اس کی آواز کتے اور گدھے سے ملتی جلتی آرہی تھی ۔۔۔۔
مگر یہ پتا تھا وہ بہت تکلیف میں تھی ۔۔۔
باہر آکر ڈاکٹر علی شاہ ہم سب کو لے کر گھر سے تھوڑی دور آگے
اب دونوں بزرگ نے کچھ پڑھ کے پھونک ماری اور اس گھر میں آگ لگ گیی ۔۔۔۔
کتنی دیر تک گھر سے کسی کے رونے اور چلانے کی آوازے آتی رہی ۔۔۔
پھر جب ان بزرگ نے دوبارہ پھونک ماری تو نہ وہ گھر تھا نہ آگ تھی ۔۔۔
اور جب ان سب نے پلٹ کے دیکھا تو وہ بزرگ بھی نہی تھے ۔۔۔۔

جبران اور باقی سب یہ خواب کی حالت میں دیکھ رہے تھے ۔۔۔چلوں بیٹا اب ہم سب چلتے ہیں ۔۔۔
مونا بھاگ کے ڈاکٹر علی شاہ کے گلے لگ گی ۔۔۔
بھائ اگر آپ نہیں آتے تو آج پتا نہی کیا ہوتا ۔۔۔
ارے بیٹا روتے نہیں ہیں اگر میں نہی آتا تو تماری باجی نے مجہے گھر سے نکال دینا تھا ہاہاہا
آپ نے باجی کو بتا دیا ۔۔۔
نہیں بیٹا کسی کو نہی پتا اور نہ پتا چلنا چاہیے اور میں بھی تمہیں اس لئے نہی ڈانٹ رہا اس وقت تم نے بہت نیکی کا کام کیا ہیں ۔۔۔۔

چلوں اب چلتے ہیں ۔۔۔پہلے نانا کو لو لے کر ہسپتال گے انھیں پٹی کروا کے ڈاکٹر علی شاہ کے گھر گے وہاں سے مونا عروسہ کو نانا نانی کو لے کر واپس لاہور جانا تھا ۔۔۔

جبران نے بھی رات گھر جا کے شکرانے کے نفل پڑھے اور پھر اپنی امی کے پاو چوم کر معافی مانگی امی مجھ سے کبھی کوئی غلطی ہوی تو معاف کردے ۔۔۔
نہ بیٹا نہ
تو ہی تو میرا نیک بیٹا ہے باقی سب مجہے چھوڑ کے اپنی دنیا میں خوش ہیں صرف تو میرے ساتھ ہے اگر تو بھی مجہے چھوڑ جاتا میں اتنے بڑے گھر میں اکیلی مر جاتی کوئی پانی دینے والا نہ ہوتا ۔۔۔۔
اللّه تجھے آخرت میں اس کا بہترین سلا دے یہ ایک ماں کی دعا ہے بیٹا ۔۔۔
اور جبران کو پتا تھا یہ ماں کی دعا ہی تھی جو موت کے منہ سے واپس لے کر آی

علی شاہ بھائی ایک بات پوچھو ؟؟؟؟؟؟؟؟
ہاں بیٹا پوچھو ۔۔۔
وہ بزرگ کون تھے اور اچناک کہاں چلے گے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔
بیٹا کچھ باتیں راز کی ہوتی ہیں انھیں راز ہی رہنا چاہے ۔۔۔۔
2 دن بعد
مما مما ۔۔۔
ارے میری جان میری بیٹی آگی فون بھی نہی کیا آنے سے پہلے ۔۔۔
اچھا اچھا
پہلے اپنی آنکھے بند کرے ۔۔۔
کیا ہوا ہیں ۔۔
پہلے آنکھے تو بند کرے ۔۔۔
اچھا یہ لو بند کردی ۔۔۔
ایک منٹ ابھی نہی کھولنا ۔۔۔
چلے اب کھولے ۔۔۔
نوشین نے جیسے آنکھے کھولی سامنے اس کے امی ابّو ۔۔۔
نوشین نے اپنی آنکھوں کو دوبارہ مسلہ ۔۔۔
ارے مما آنکھے نہ مسلے یہ آپ کے امی ابو ہی ہیں ۔۔۔
نوشین یہ سن کر امی ابّو کے پاو ں میں گر گی ۔۔۔
امی ابّو مجہے معاف کر دے میں نے آپ لوگوں کا دل دکھایا اور کبھی خوش نہی رہ سکی ۔۔۔
جس انسان کے لئے یہ سب کیا اس نے ہی مجہے دھوکہ دیا ۔۔امی آپ کا استخارہ سہی تھا وہ انسان میرے قابل نہی تھا بس آپ ایک دفع مجہے معاف کردے ۔۔
جب تک آپ مجہے معاف نہی کرے گے میرا اللّه بھی مجہے معاف نہی کرے گا ۔۔۔
بیٹا ہم دونوں نے تجھے اس دنیا اور دنیا میں معاف کیا ہم تجھ سے راضی ہمارا اللّه تجھ سے راضی ۔۔۔۔۔

جبران اور عروسہ اپنی ماں کے نیک بچے تھے اسی لئے اللّه نے ان کی مدد فرمایی بیشک میرا اللّه والدین کے نہ فرمان اولاد کو دنیا اور آخرت دونوں میں رسوا کرنے والا ہیں ۔۔۔
نوشین نے غلطی کی تھی مگر سجدوں میں اللّه سے معافی بھی مانگی تھی اسی لئے اس کے والدین نے بھی معاف کردیا ۔۔۔
فرحین جیسے لوگو کو مرتے مرتے بھی معافی ماگنا نصیب نہی ہوا ۔۔۔
اور قیامت کے دن بھی سخت حساب ہونا ہے ۔۔۔
اللّه ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے والا بناے ۔۔۔
کیا پتا اس کہانی کو پڑھنے کے بعد کوئی نافرمان اولاد نیک ہو جائے ۔۔۔۔۔
End

پارٹ 3 کا لنک جس کسی نے نہیں پڑھا https://www.facebook.com/1362837033813569/posts/3936529543110959/ہائی وے کا راز ۔۔Part...
14/06/2021

پارٹ 3 کا لنک جس کسی نے نہیں پڑھا
https://www.facebook.com/1362837033813569/posts/3936529543110959/
ہائی وے کا راز ۔۔
Part 4

فرحین باجی کے گھر والے وہ علاقہ چھوڑ کے کہیں اور شفٹ ہو گے تھے ۔۔۔
شایان بھائی اپنی زندگی میں مصروف ہوگے تھے ۔۔۔
فرحین باجی کے شفٹ ہونے کے 5 سال بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی اور دادی شایان بھائی کے لئے لڑکی دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
مگر سمجھ نہیں آرہا تھا کہ جو بھی لڑکی دیکھتے مگنی تک بات جاتی پھر لڑکی والے منا کردیتے ۔۔۔۔۔

ان سب میں ایسا ہوا کے ہمارا سارا کاروبار تباہ ہوگیا ۔۔۔۔
ایک دن دادی بیٹھے بیٹھے پلنگ سے گر گی اور ایسا ہی لگا انھیں کسی نے پلنگ سے دھکا دیا ۔۔۔۔۔
جس دن دادی گری تھی رات کو انھیں ایک لڑکی نظر آی تھی سارهی پہنے ہوئے تھی ۔۔۔
ماتھے پہ لال کلنک لگی ہی تھی ۔۔۔
دادی کو بول رہی تھی وہ لڑکی بول رہی تھی تم سب کو برباد کردو گی بدلہ لو گی ۔۔۔۔
ہم نے دادی کی بات کو سنجیدہ نہیں لیا ۔۔۔۔
جس دن سے دادی گری تھی

اس رات شایان بھائی کا بھی بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا تھا ۔۔۔۔
ایکسیڈنٹ کے بعد شایان بھائی بہکی بہکی باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔ہم سمجھے شاید ایکسیڈنٹ کے خوف سے ایسا ہو رہا ہیں ۔۔۔۔
مگر 15 دن بعد بھی ان کی طبعیت ٹھیک نہیں ہوی ۔۔۔
ایک رات 12 بجے ہم سب پریشان بیٹھے تھے کے شایان بھائی کا علاج کس سے کرواے ۔۔۔
کیوں کے ڈاکٹر کو ان کی یہ بیماری سمجھ نہیں آرہی تھی ۔۔۔۔
میری خالہ بھی اس دن ہمارے گھر آی ہی تھی ۔۔۔انہوں نے بتایا کہ وہ کسی بابا کو جانتے ہی جو روحانی علاج کرتے ہیں ۔۔۔
ابھی ہم لوگ یہ بات کر ہی رہے تھے شایان بھائی اندر کمرے سے نکلے اور خالہ کو بالوں سے پکڑ کر دیوار پہ مارا

تو لے کر جاے گی علاج کرواے گی شایان کا اب تو دیکھ میں کیا کرتی ہوں ترے ساتھ ۔۔۔۔
شایان کی آواز میں ایک عورت کی بھاری آواز نکلی ۔۔۔۔
خالہ کی تو سمجھی جان نکل گی۔ ۔وہ ڈر کے بیہوش ہوگی تھی ۔۔۔۔۔
تم سب کان کھول کے سن لو اگر شایان کے آس پاس بھی کوئی نظر آیا میں اسے جان سے مار دو گی ۔۔۔
اور دادی کی طرف مر کر بوڑھی عورت تجھے تو میں سسکا سسکا کے مارو گی......
یہ بول کر شایان بھائی زمین پہ گر گے تھے اور پھر انھے کوئی ہوش نہیں رہا ۔۔۔
ہم سب گھر والے پریشان تھے اب کیا کرے اس بات کو ایک ہفتہ گزر گیا اس ایک ہفتے میں ہم پہ قیامت گزری دادی کا انتقال ہوگیا تھا اور اتنی تکلیف میں گزرا وہ ہفتہ نہ پوچھو ۔۔۔۔۔.......

مگر اس دوران شایان بھائی کی حالت بہت خراب ہوگی تھی ۔۔بس ایسا لگتا تھا وہ کچھ دن کے ہی مہمان ہے ان کی صحت بلکل گر گی تھی ۔۔۔۔
دادی کے انتقال پہ ایک بزرگ اے تھے ان کو گھر میں آتے ہی محسوس ہوگیا تھا کے گھر میں کچھ تو غلط ہیں ۔۔۔
سویم کے بعد جب مسجد سے نکل رہے تھے تو انہوں نے ابو کو بتایا ۔۔۔۔
ابّو نے ان کی بات سن کر پچھلے ماہ سے جو ہو رہا تھا سب بتایا ۔۔۔۔
ابّو کی بات سن کر انہوں نے کہاں کے وہ ابھی کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرے وہ خاموشی . سے پہلے تمام معملات دیکھے گے ۔۔۔وہ اس رات ہمارے گھر نہیں سوے ہمارے برابر میں چاچو کا گھر تھا وہاں رک کے انہوں سے پوری رات پڑاھی کی ۔۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی انہوں نے ابّو کو بلایا اور بتایا کے شایان کے پیچھے ایک بد روح ہیں ۔۔۔۔
اور وہ بدلہ لینے کے لئے آی ہیں ۔۔۔اور اگر اس روح کو نہیں نکالا گیا تو وہ صرف شایان کو ہی نہیں کتنے لوگوں کو جان سے مار سکتی ہیں ۔۔۔
اس بد روح کے ساتھ شیطانی قوتیں ہیں وہ اپنے جادو کے لئے اس بد روح کا استعمال کرے گی ۔۔۔۔
بابا جی اب کیا کریں ؟؟؟؟
میں اپنی پوری کوشش کرو گا باقی جو اللّه کی رضا ۔۔۔۔۔
میں آج واپس جا رہا ہوں اس جمرات کو نو چنڈی جمرات ہیںانشاء اللّه اس جمرات کو میں عمل شروع کرو گا جو بھی سامان چاہیے میں آپ کو ابھی بتا دیتا ہوں آپ لے آنا ۔۔۔۔
جی بہت بہت شکریہ آپ کا میں یہ احساں کبھی نہیں بھولو گا
نانی پھر کیا ہوا ۔۔۔۔
بس بیٹا میں اور تمارے نانا آنکھے بند کر کی بٹہے تھے اور پیر جی اپنا کام کر رہے تھے ۔۔۔۔
اس دوران ہمیں فرحین کے رونے اور سسکنے کی آوازے آرہی تھی ۔۔
شاید تم دونوں ابھی نہ سمجھ نہ سکوں جس اولاد کو ٩ ماہ پیٹ میں رکھا درد اور تکلیف سے پیدا کیا اس کی ایسی تکلیف دے آواز سن کر ماں کے دل پہ کیا گزر رہی ہوگی ۔۔۔۔
اور اس بری قیامت ہم لوگوں کے لئے یہ تھی کے ہمیں یہ بھی پتا ہو کے ہماری اولاد کفر کی حالت میں ہیں اگر وہ اس دوران مر گی تو آخرت میں بھی ہمارے ساتھ نہیں ہوگی ۔۔۔۔
جب پیر جی نے ہمیں آنکھے کھولنے کا بولا اور حصار سے باہر آنے کا بولا تو سمجھوں ہماری جان ہی نکل گی سامنے فرحین کی لاش پڑی تھی اور اس کے جسم سے جلے ہوئے جانور کی بدبو آرہی تھی اس کا جسم پورا سفید ہوا تھا جیسے کسی نے اس کا پورا خون پی لیا ہو ۔۔۔۔
میں تو وہیں زمین پہ گر گی ۔۔۔پیر صاحب نے تمارے نانا کو سمبھالا اور معافی مانگی ۔۔۔۔
فردین معافی چاہتا ہوں بہت کوشش کی میں تماری بیٹی کو سمجھا سکوں اگر یہ اس وقت بھی سچے دل سے معافی مانگ لیتی اللّه سے تو شاید میں کچھ مدد کر سکتا
مگر اسے آخری وقت تک اپنی شیطانی قوتوں پہ ناز تھا اور انہی شیطانی قوتوں نے اس کی جان لے لی ۔۔۔۔

مطلب فرحین کھلا مر گی تو وہ کون تھی ؟؟؟؟؟
مونا اور عروسہ کی تو جان ہی نکل گی ۔۔۔
مطلب خالہ مر کے بھی آپ سب کو نظر آتی ہیں ۔۔۔
ہان بیٹا بس اس وقت ہم سے ایک غلطی ہوگی تھی پیر صاحب کے کہنے کے باوجود ہم نے فرحین کو جلایا نہیں اس کو دفنا دیا تھا شاید یہ ہی ہماری غلطی تھی اور اسی غلطی نے ہمہیں اتنے سالوں سے تکلیف میں رکھا ہیں ۔۔۔
مگر نانی فرحین خالہ جب مر گی تو ۔۔۔۔
بیٹا جو انسان کفر کی حالت میں مر جائے تو انکی روح بھوت بن جاتی ہیں ۔۔۔
بھوت ؟؟؟؟؟
بھوت ؟؟؟؟؟
مونا اور عروسہ نے ایک ساتھ پوچھتے ہوئے
جمرات کو وہ بابا ہمارے گھر اے ان کے آنے سے پہلے ہی شایان بھائی کی طبعیت بہت خراب ہو رہی تھی انھیں خون کی الٹیاں ہو رہی تھی ۔۔۔
ہم انھیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جانے والے تھے
مگر بابا جی نے منا کردیا ۔۔۔۔۔
اب بس اللّه کے بعد بابا جی کا اسرا تھا ۔۔۔۔۔
بابا جی نے گھر آتے ہی 4 کیل پڑھ کے دی اور بولا شایان کے کمرے کے پاس لگا دو ۔۔۔۔۔
اس کے بعد انہوں نے پڑھنا شروع کیا ۔۔۔۔
اور پڑھنے سے پہلے ہمیں ایک نمبر دیا کے اگر یہ مجھ پہ حملہ کرے تو میرے اس شاگرد کو فون کردینا یہ وہیں سے پڑھ کر معملات کو سمبھال لے گا ۔۔۔۔۔

بس پھر بابا جی نے جیسے جیسے پڑھنا شروع کیا شایان بھائی کے کمرے سے سامان گرنے کی آواز آنے لگی ۔۔۔
مگر سب سے اہم بات یہ تھی کے شایان بھائی بھر آنے کی کوشش کرتے مگر جیسے دروازہ کے پاس آتے انھیں کوئی چیز اندر کی طرف دھکا دیتی ۔۔۔
بابا جی پڑھتے جا رہے تھے اور پانی کی بوتل پہ دم کرتے جا رہے تھے ۔۔۔
پھر وہ بوتل انہوں نے ابّو کو دے کر بولا سب گھر والیں اس سے پانی پی لے اور تھوڑا اپنے اپر چھڑکا لے ۔۔۔۔
ہم سب نے پانی پیا اور خد پہ چھڑک لیا ۔۔۔۔

اب بابا جی نے شایان بھائی کے کمرے کی طرف قدم کے ۔۔۔۔
اندر سے شایان بھائی کی آواز میں اس بد روح کی آواز نکلی ا۔ ۔
آجا بڈھے آجا ۔۔۔۔
تیری موت تجھے لے کر آی ہیں یہاں ۔۔۔
وہ تو دیکھتے ہیں کس کی موت آی ہیں ۔۔۔۔۔
یہ بول کر بابا جی نے باقی بچا ہوا پانی شایان بھائی کی طرف پھینکا ۔۔۔۔
پانی کا لگنا شایان بھائی کا جسم زمین پہ تڑپنے لگا ۔۔۔۔
ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ایک کالا سایہ شایان بھائی کے جسم سے نکل کر دیوار سے لگ گیا ۔۔۔۔
اور شایان بھائی کا جسم تڑپنا چھوڑ کے بے سدھ زمین پہ پڑا تھا ۔۔۔ایک پل کو ہمیں ایسا لگا شایان بھائی دنیا سے چلے گے ۔۔۔۔
مگر پھر بابا جی آواز آی کے شایان کو دوسرے کمرے میں لے جاو
میں جب تک اس خبیث کا بنددو بست کرتا ہوں ۔۔۔۔۔
یہ سن کر وہ سایہ زور زور سے ہسنے لگا ۔۔۔۔
تجھے کیا لگتا ہیں مجہے شایان کے جسم سے نکال کر تیری جیت ہوگی ہیں ۔۔۔
اب تو دیکھ میں ترے ساتھ کیا کرتی ہوں ۔۔

تو اور تیری آنی والے نسلیں یاد رکھے گی ۔۔۔۔
یہ بول کر اس نے اپنے ہاتھ سے کوئی چیز پھینکی جو سیدھی بابا جی کے پاس سے ٹکرا کے گزر گی ۔۔۔
شاید بابا جی اپنا کوئی حصار کیا ہوا تھا ۔۔۔
بابا جی اس کی طرف دیکھے بگیر آنکھے بند کر کے کوئی آیت پڑھے جا رہے تھے ۔۔۔
پھر اس بدروح نے کچھ پڑھا جس سے کہی سانپ بابا جی کے قریب جانے لگے مگر وہ سانپ جیسے بابا کے قریب جاتے پلٹ کر اسی بدروح کے پاس آنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانپ کو اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ بدروح کانپ گی کیوں کے وہ سانپ اس کی طرف آتے آتے اسدھ بن گے ۔۔
ایک سانپ سے کہی اسدھے نکل رہے تھے ۔۔۔
میں واپس چلی جاو گی پھر کبھی نہی آو گی ۔۔۔
روک دے ان سب کو ۔۔۔
نہیں اب تو کھیل شروع ہوا ہیں ۔۔۔
اب تو بتا کون ہیں تو اور یہ سب کیوں کر رہی ہیں ۔۔۔
اپنے اصلی شکل میں سب کے سامنے آ ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں اس کالے سایہ کی جگہ ایک انسان کا روپ آیا ۔۔۔۔
اس انسان کو دیکھ کر ہم سب ایک پل کو وہیں کھڑے رہ گے ۔۔۔۔
وہ اور کوئی نہیں فرحین باجی تھی ۔۔۔۔۔۔
فرحین باجی ؟؟؟؟؟؟
ہاں وہ ہی فرحین باجی جس سے شایان بھائی محبت کرتے تھے ۔۔۔مگر وہ تو انسان تھی زندہ تھی پھر وہ بد روح کیسے ؟؟؟؟؟؟
علی نے ایک ہی سانس میں کہیں سوال کر لیے ۔۔۔۔۔۔۔
بلکل علی اس وقت مجھ سمیت میرے تمام گھر والوں کی حالت تماری جیسی تھی ۔۔۔۔
پھر ان سب سوالوں کے جواب دے فرحین باجی کی روح نے ۔۔۔۔
چل اب شروع ہو جا اور بتا یہ سب تو نے کیوں کیا ؟؟؟؟ بابا جی ایک دم جلال میں آگے تھے ۔۔۔۔
پھر فرحین باجی نے بتانا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔
میں شایان سے بچپن سے محبت کرتی تھی اور یہ بھی مجھ سے کرتا تھا ۔۔
مگر میری بہن کے گھر سے بھاگنے کے بعد اس نے مجھ سے رابطہ ختم کردیا ۔۔۔
میری بہن کی بھاگنے کی سزا مجہے دی ۔۔۔۔۔
پھر ہم لوگ گھر بدل کے ہائی وے کے قریب ایک نیی آبادی میں گھر لے لیا ۔۔۔۔
وہاں ہمارے پڑوس میں ایک بنگالی فیملی رہتی تھی ۔۔۔
ان کے گھر میرا آنا جانا ہوا تو وہاں میری ملاقات کائنات کی ماموں سے ہی جو بنگلا دیش سے اے ہوئے تھے ۔۔۔۔
انھیں جب میرے سب معملات پتہ چلے تو انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کے وہ مجہے جادو سکھاے گے ۔۔۔

میں اپنی محبت کو پانے کے لئے کچھ بھی کر سکتی تھی ۔۔۔
انہوں نے ٢ دن مجہے سکھایا پھر تیسرے دن انہوں نے میرے ساتھ زنا کیا ۔۔۔
اور اس کا یہ کہنا تھا کے کالا اور سفلی علم سیکھنے کے لئے یہ سب ضروری تھا ۔۔۔۔
میں سب سکھ رہی تھی اور میں نے شایان پہ جادو کرنا شروع کیا ۔۔۔۔
پہلی رات ہی میں کامیاب ہوگی تھی ۔۔۔
پرانی سم کھول کے میں نے شین کو میسج کیا تو اس نے مجہے تڑپ کے فون کیا اور رو رو کے مجھ سے معافی مانگ رہا تھا ۔۔۔
اس نے بولا یہ سب اس کی دادی نے کیا تھا ۔۔۔۔
میں شایان سے رابطے میں تھی میں نے جادو کے زور پا اسے پالتو کتا بنایا ہوا تھا ۔۔۔۔
مگر پھر پتا نہیں کیسے میرے گھر والوں کو پتا چلا اور پیر صاحب کو بلا کر سب ختم کردیا ۔۔۔
اور میں مر گی ۔۔۔۔۔
جب تم مر گی تھی تو واپس کیسے آی ؟؟؟؟

میرے مرنے کے بعد میرے گھر والوں نے مجہے دفنا دیا تھا ۔۔۔
مگر کالے جادو کرنے والوں کو ایسی روح کی تلاش ہوتی ہیں
کائنات کے ماموں کو جب پتا چلا اس نے ایک خاص چلا کر کے مجہے واپس بلایا ۔۔۔
میرا جسم تو کب کا ختم ہوگیا تھا مگر میری روح زندہ تھی ۔۔۔۔۔
اور ان سب کو برباد کرنے کے لئے میں واپس آی ہوں ۔۔۔
اس کی دادی کو بھی میں نے مارا تھا ۔۔۔
اور شایان کے جسم کو بھی میں ہی استعمال کر رہی تھی ۔۔۔
اب میں نے اس کو ایسا کر دیا ہیں یہ کبھی شادی نہی کر سکے گا کبھی باپ نہی بن سکے گا ۔۔۔
میں تو اسے تڑپا تڑپا کے مارنا چاہتی تھی مگر تم درمیان میں آگے ۔۔۔

ابھی بھی میرا بدلہ پورا نہیں ہوا ۔۔۔
میری روح میں اتنی طاقت ہیں تم مجہے قید تو کر سکتے ہو مگر ختم نہی کر سکتے ۔۔۔
میں دوبارہ بھی آیو گی
سب کو برباد کرنے ۔۔۔۔
اس نے بابا جی طرف دیکھ کر ہنس کر بولا ۔۔۔
اس کے ہسنے کو بابا جی دیکھ ہی رہے تھے ۔۔۔
کمرے میں آندھی چلی اور عجیب لمبے لمبے کالی شکل کے لوگ اے اور بابا جی کی طرف ایک مٹی کا پیالہ پھینکا ۔۔۔
بابا جی اس حملے تو بچ گے مگر فرحین باجی اور وہ سب غاہب ہوگے ۔۔۔
ہم بابا جی کی طرف گے ۔۔۔
آپ ٹھیک تو ہیں ۔۔۔
ہاں بیٹا میں تو ٹھیک ہوں

مگر وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گی ۔۔۔
یہ جب بھی واپس آی تو بہت لوگوں کو مار ڈالے گی ۔۔۔
اب اس کا مقصد صرف بدلہ لینا نہیں ہوگا ۔۔۔۔
یہ کالے جادو کرنے والوں کی مدد کرے گی ۔۔۔
اور بہت زیادہ لوگوں کی زندگی تباہ ہوگی ۔۔۔
بابا جی اب کیا ہوگا ۔۔۔
میں پوری کوشش کرو گا اس کو دوبارہ کابو کرنے کی ۔۔۔
اگر مجھ سے نہیں ہوا یا مجہے کچھ ہوگیا تو جو میں نے تمہں نمبر دیا ہیں سمبھال کے رکھنا ۔۔
جب بھی . کوئی مشکل اے اس سے رابطہ کرنا ۔۔۔وہ ضرور تماری مدد کرے گا
بابا جی یہ بول کر چلے گے ۔۔۔
اور ایک ہفتہ بعد پتا چلا بابا جی کا انتقال ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔
پھر ہم نے شایان بھائی کو بھی ملک سے باہر بجھ دیا
میرے دوسرے بہن بھائی بھی باہر شفٹ ہوگے
مگر میرا دل نہیں مانا امی ابّو کو چھوڑ کے باہر جانے کو
میرا یقین ہیں موت کا ایک دن مقرر ہیں جو رات قبر کی ہیں وہ باہر نہی ہوسکتی ۔۔۔۔
مگر اب تمہں کیسے پتا کے ان سب کے پیچھے فرحین باجی کا ہاتھ ہیں ۔۔۔
تمہیں وہ فیروز یاد ہیں جو ہائی وے قتل ہونے والوں میں بچنے والا انسان تھا ۔۔۔
ہاں یاد ہیں ۔
اس نے مجہے جو بتایا اور تصویر بنوای قاتل کی ۔۔۔۔
ہاں مجہے اچھی طرح یاد ہیں مگر اس بات کا ان سب سے کیا تعلق ۔۔۔
وہ قاتل اور تصویر فرحین باجی کی تھی ۔۔۔۔
کیا ؟؟؟؟؟؟؟
مطلب ہائی وے کا قاتل ؟؟؟؟؟
To be Continue....

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when AwaisStudio posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share